تصنع یا تقوٰی

تصنع یا تقوٰی

رمضان المبارک کے برکات و فیوض اور اَنوار اتنے کثیر ہیں کہ ان کو کم از کم ایک آدمی اپنی زندگی کے سو ﴿۱۰۰﴾ رمضان المبارک بصد اہتمام بھی گزارے تو پھر بھی شاید فرداً فرداً نازل ہونے والی رحمتوں اور ان کی مختلف جہات میں سے ہم سب کو حاصل نہ کرسکیں- روزے کا عمومی تصور بنیادی طور پہ آدمی کے ظاہر سے آدمی کے باطن کی گہرائیوں تک پہنچتا ہے-

غوث الاعظم حضرت پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی(رض) کا چھوٹا سا اِقتباس ہے کہ روزہ دو قسم کا ہے، ایک روزہ ظاہر کا ہے اور ایک روزہ باطن کا ہے- اگر ظاہر کا روزہ فاسد ہوجائے تو جس طرح اُس کا کفارہ ہے اِسی طرح اگر باطن کا روزہ فاسد ہوجائے تو اس کا بھی بندے پہ کفارہ لازم ہے -

  ظاہر کا روزہ پیٹ اور حلق کو خشک اور تَر غذا سے محفوظ رکھنا ہے- اِسی طرح ہاتھوں کو ظلم کی طرف ، پائوں کو بُرائی کی جانب بڑھانے اور زبان کو غیبت، گالم گلوچ، بُہتان اور نازیبا اَلفاظ کہنے سے رُوکنا، آنکھ کو بد نظری سے رُوکنا اور دماغ کو کسی کے خلاف سازش، کسی کے قتل کا منصوبہ یا کسی بُرائی یا کسی ایسے کام سے جس سے شرّ پھیلنے کا خدشہ ہو اس سے باز رہنا روزہ کی باطنی تاثیر ہے- یہ یاد رہے کہ اِن میں سے بعض اَعمال آدمی کے روزے کو فاسد کرتے ہیں اور بعض اَعمال آدمی کے روزے کی حقیقی تاثیر کو ختم کر دیتے ہیں جیسا کہ حدیث پاک میں بھی آیا ہے کہ بعض ایسے روزہ دار ہیں جنہیں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا- لیکن اگر آدمی روزے میں بھی ہو اور اپنے کسی مسلمان بھائی کے قتلِ ناحق کا منصوبہ بھی بنا رہا ہو، کسی پہ بے جا تہمتیں باندھ رہا ہو یا کسی کی غیبت کر رہا ہو چونکہ قرآنِ حکیم نے اِن چیزوں سے سختی سے منع کیا ہے تو یقینا ایسا کرنے سے روزے کی حقیقی تاثیر جاتی رہتی ہے-

اِسی طرح آدمی اپنے باطن میں ایک روزہ رکھتا ہے اور وہ روزہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے آزاد کر کے رکھے اور غیر اللہ کی محبت کو اپنے دل میں داخل نہ ہونے دے، رِیا اور تکبر کو اپنے دِل میں داخل نہ ہونے دے اور وہ عُجب و کبر کواپنے دِل میں داخل نہ ہونے دے- آپ(رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کے دِل کے اندرمحبتِ الٰہی کے سوا کوئی اور محبت داخل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ کسی اور محبت کا آ جانا یہ اُس روزۂ باطن کے مفسدات میں سے ہے، اِس سے باطن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے-

اِن دِنوں مسلمانوں کو چند بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اُن چیلنجز سے کیسے نپٹنا ہے یہ ہمارے لیے غوروفکر کامقام ہے - بعض سیاسی چیلنجز ہیں، بعض معاشی چیلنجز ہیں، بعض تزویراتی چیلنجز ہیں، لیکن بعض چیلنجز کا تعلق ہماری نجی زندگی سے بن گیا ہے- مثال کے طور پہ جو تصنُع ، ریا کاری ، دکھاوا اور بناوٹ مسلمانوں کے گھروں میں ، ہمارے بیڈ رومز میں میڈیا کے ذریعہ پہنچ رہی ہے اس تصنُع اور بناوٹ سے چھٹکارے کا کیا راستہ ہے؟ میڈیا کی حدود و قیود طے کرنے والے اداروں اور شخصیّات کو ایسی حکمتِ عملی وضع کرنی پڑے گی اور ہمیں ایسی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے گا کہ جو تصنُّع اور بناوٹی پَن ہم پہ سوار ہو رہا ہے اس سے کسی طرح جان چھڑوائی جاسکے-

 مجھے کسی کے کردار پہ کوئی شک نہیں ہے، گواہی اور مشاہدہ کے بغیر کسی کے کردار کے بارے میں کچھ کہنا میرے لیے گناہ کا درجہ رکھتا ہے، ہر مسلمان کا اس بات پہ ایمان ہے - لیکن ، بعض ایسی شہادتیں جو معاشرے کے اندر مؤثر ہو جائیں اور بعض شہادتوں کا پورا معاشرہ شاہد ہوتا ہے، مسلمہ حقیقتیں ہوتی ہیں اور اُن سے آنکھ نہیں چرائی جاسکتی- رمضان المبارک کی سحر و افطار ٹرانسمیشنز میں سوائے چند ایک اہل علم ، اہلِ فضیلت اور اہلِ تقویٰ علمائ اور شخصیات کے ، ٹی وی چینلز کو آپ کھول کر دیکھیں تو جنتا تصنُع اور بناوٹ سیکھانے کا درس دیا جا رہا ہے مجھے ذاتی طور پہ شبہ ہے کہ اگر اس کاازالہ نہ کیا گیا ، اگر اس تصنُع اور بناوٹ سے اس قوم کو چھٹکارا نہ دلایا گیا تو ہمارے اندر اور باہر سے اخلاص بھی جاتا رہے گا اور اعمال کی تاثیر بھی جاتی رہے گی - جس کے نتیجے میں اعمال جو پہلے ہی ہماری بہت سی خرابیوں کی نذر ہوچکے ہیں ، اُن سے اگر یہ رہتا سہتا خلوص بھی نکل گیا تو ہماری آئندہ نسل ان تصنع زدہ و رِیا زدہ اَعمال کی طرف بھی راغب نہیں ہوگی ، ہو بھی کیوں ؟

جس طرح مغرب میں جو عیسائیت ہے اور مشرق میں جو عیسائیت ہے اِن میں بہت سے بُنیادی فرق ہیں، جو عیسائیت مغرب کے اندرہے اور جو پچھلی دوچار صدیوں کے جنگی تجُربات سے اور مختلف مسائل کی وجہ سے وہ اپنے مذہبی محرکات سے نکلی ہیں، اُنہوں نے دینی اخلاص کے نکل جانے اور ظاہری چمک دمک کے چنگل میں پھنس کر اور اپنے مذہب کو فقط لفظ و سخن کا مرقّع ثابت کرکے اپنی نوجوان نسل کو دہریت ﴿Atheism﴾ اپنانے پہ مجبور کر دیا کیونکہ محض لفّاظی انسان کی روحانی تشفّی نہیں کر سکتی اور اس وقت وہاں کے پاپ اور پادری کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کیسے اپنی نوجوان نسل کو دہریت ﴿Atheism﴾ سے بچائیں ، خود مختلف چرچز کے محققین نے اعترافات شائع کئے ہیں کہ نوجوان نسل کی اکثریت مذہب میں یقین کرنے پہ آمادہ نہیں ہے اور وہ اس امر میں وہ بُری طرح ناکام ہوگئے ہیں- وہ اس لیے ناکام ہوگئے کیونکہ اُن کی مغربی نسل کے پاس بہت ٹھوس ثبوت اور دلائل ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ جو آپ ہمیں سیکھاتے پڑھاتے ہیں ان لفظوں کی کیفیّت ہمارے اُوپر طاری نہیں ہوتی، جب لفظ حقیقت سے دور نظر آئیں تو آزاد ذہن انہیں کسی طور قبول کرنے پہ تیار نہیں ہوتا -

دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ تو اُن کا معاشرتی تصنُع ہے، اُن کا حقیقی عیسوی تعلیمات سے اِنحراف ہے- اگر یہی کیفیت ہمارے ہاں بھی جاری رہتی ہے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ شجرِ دہریت کی آبیاری ہم اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں ، کیا ہمارے بہت سے ملنے والے جاننے والے آزاد ذہنیّت کے لوگ دینی طبقات کے دوہرے معیارات کو بُنیاد بنا کر لادینیّت قبول نہیں کرتے ؟ یہ محض تنقید یا محض رونا رونے سے حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے اسباب کا جائزہ لینا چاہئے - ناچیز کی ناقص رائے میں بنامِ تقویٰ و بنامِ رمضان رچائی گئی یہ تصنّع بازی لادینیّت پہ منتج ہو گی - اہلِ فکر اور اہلِ دانش کے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا دین کو اِس بھیانک اور خوفناک طریقے سے کمرشلائز کرنے دیا جائے؟

ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ اِس طُوفانِ ریا کاری کی دلچسپیوں اور بھول بھلیّوں میں ایک عام آدمی اپنے عمل پہ خالص کس طرح رہ سکتا ہے؟ رمضان المبارک میں سحری کھانے سے قبل اپنے تہجد کے لمحات، اپنی تلاوت کے لمحات کو وہ اس مصنوعی گفتگو سے کیسے بچا سکتا ہے؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس سوال پہ تربیتی سیشنز اور مکالمہ کی ضرورت ہے- ہمیں تعلیمی اداروں میں اس پہ ابلاغ کی ضرورت ہے اور ہمیں اپنے گھروں میں احسن انداز اور حکمت کے ساتھ گھر والوں کے دِل و دماغ میں اُتارنے کی ضرورت ہے کہ تصنُع کے اندر اور دِینی تعلیمات کے اندر ایک فرق قائم کیا جائے کیونکہ سب اہل علم و تقویٰ جانتے ہیں کہ جس کے ذِمے تبلیغ کا فریضہ ہے وہ چاہے منبر پہ ہو، وہ چاہے مارکیٹ کے اندر ہو، وہ چاہے گھر کے اندر ہو یا وہ اس طرح کی مجالس کے اندر ہو، مبلغ کے اُوپر اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ متقی ہو اور اس کا تقویٰ مُعاشرے میں مسلمہ ہو-

تاریخ کا ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کی بنیادی وجہ عرب کے ابتدائی متقی و پرہیزگار مسلمان تھے- وہ وجودِ مسعود ایسے تھے جن کے ظاہر اور باطن میں خلوص اور عبادت اتنی سما گئی تھی کہ چاہے وہ تاجر ہوں، چاہے وہ غلام ہوں، چاہے وہ سپاہی ہوں، چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں وہ جس کے ساتھ بھی جاکر بیٹھے ہیں، اُن کے وجود سے ایسی شعاعیں نکلی ہیں، ایسی برکات نکلی ہیں، ایسے فیوض نکلے ہیں کہ انہوں نے مختصر کلام کیا لیکن پھر بھی اُن کی باتیں لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں- اس امر کی وجہ اُن کے تقوے کے اعلیٰ معیارات اور اعلیٰ ترین صلاحیتیں تھیں-

 حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ:-

عمرقلیل ہے اور علم کثیر ہے لہٰذا قلیل میں کثیر کو نہیں سمویا جا سکتا اس لیے قلیل میں کثیر اسی صورت میں سمویا جاسکتا ہے کہ ایسا علم حاصل کیا جائے کہ عالم کو معلوم کی معرفت عطا کرے، معلوم کا قرب عطا کردے اُس کی ذات کی خوشنودی و رضا عطا کر دے-

علم اتنا کثیرہے کہ کس عالِم نے یہ دعویٰ کیا کہ میں عالِمِ کُل ہو گیا ہوں؟ یہاں بڑے بڑے صاحبانِ علم گزرے، امام بخاری، امام رازی، امام غزالی جیسے بہت عظیم مدبرین، مفکرین، علمائ اور شیوخ گزرے ہیں کسی نے بھی اپنے علم کے اِتمام کا دعویٰ نہیں کیا ، تو اس لیے نہیں کیا کہ یہ تو کثیر ہے- بلکہ یونان کے معروف فلسفی سقراط نے بھی ایتھنز کے نام نہاد عالموں کا یہ کہہ کر ابطال کیا کہ یہ کچھ نہیں جانتے مگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں - پھر سقراط نے اپنے بارے میں کہا کہ میری برتری ان پہ اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا- اِس لئے اگر اس کثیر کو قلیل میں ڈھالنا ہے تو وہ اسی صورت میں ڈھل سکتا ہے کہ جتنا آدمی علم حاصل کرئے اُتنا ہی اس پہ عمل کرے اور خود اس کو اختیار کرلے تو یہ مبلغ کی اوّلین ڈیوٹی ہے- ایک تاجر اس وقت مبلغ بنتا ہے جب اس کے وجود میں تقویٰ اُتر جائے- اُسے مبلغ و امیر ہونے کے رسمی خطاب کی بھی ضرورت نہیں ہوتی- وہ جہاں جاتا ہے اسلام کا سفیر ہوتا ہے- اس لیے کہ اُس کا اپنا وجود تصنُع اور بناوٹ سے پاک ہوتا ہے اس کا وجود ریا اور تکبر سے پاک ہوتا ہے-

جس صورتِ حال کی طرف بندہ ناچیز گزارش کر رہا ہے یہ صورتِ حال بڑی نازک ہے اور میرے ناقص رائے کے مطابق اس وقت لوگوں کی انفرادی اور نجی تربیت مشائخ عظام اور علمائ کرام کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس تصنُع اور بناوٹ سے کیسے پاک کرسکتے ہیں-

اگر اس کی تربیت نہیں ہوتی تو انجام مغرب کی نوجوان نسل کی طرح ہوگا اور ہماری نوجوان نسل دہریت اپنا لے گی اور ہم میں سے انہیں کوئی بھی نہیں روک سکے گا-

 

﴿یہ تحریر رمضان المبارک 2015 ئ میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب کے خطاب سے اخذ کی گئی ہے - ﴾

رمضان المبارک کے برکات و فیوض اور اَنوار اتنے کثیر ہیں کہ ان کو کم از کم ایک آدمی اپنی زندگی کے سو ﴿۱۰۰﴾ رمضان المبارک بصد اہتمام بھی گزارے تو پھر بھی شاید فرداً فرداً نازل ہونے والی رحمتوں اور ان کی مختلف جہات میں سے ہم سب کو حاصل نہ کرسکیں- روزے کا عمومی تصور بنیادی طور پہ آدمی کے ظاہر سے آدمی کے باطن کی گہرائیوں تک پہنچتا ہے-

غوث الاعظم حضرت پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی(رض) کا چھوٹا سا اِقتباس ہے کہ روزہ دو قسم کا ہے، ایک روزہ ظاہر کا ہے اور ایک روزہ باطن کا ہے- اگر ظاہر کا روزہ فاسد ہوجائے تو جس طرح اُس کا کفارہ ہے اِسی طرح اگر باطن کا روزہ فاسد ہوجائے تو اس کا بھی بندے پہ کفارہ لازم ہے -

 ظاہر کا روزہ پیٹ اور حلق کو خشک اور تَر غذا سے محفوظ رکھنا ہے- اِسی طرح ہاتھوں کو ظلم کی طرف ، پائوں کو بُرائی کی جانب بڑھانے اور زبان کو غیبت، گالم گلوچ، بُہتان اور نازیبا اَلفاظ کہنے سے رُوکنا، آنکھ کو بد نظری سے رُوکنا اور دماغ کو کسی کے خلاف سازش، کسی کے قتل کا منصوبہ یا کسی بُرائی یا کسی ایسے کام سے جس سے شرّ پھیلنے کا خدشہ ہو اس سے باز رہنا روزہ کی باطنی تاثیر ہے- یہ یاد رہے کہ اِن میں سے بعض اَعمال آدمی کے روزے کو فاسد کرتے ہیں اور بعض اَعمال آدمی کے روزے کی حقیقی تاثیر کو ختم کر دیتے ہیں جیسا کہ حدیث پاک میں بھی آیا ہے کہ بعض ایسے روزہ دار ہیں جنہیں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا- لیکن اگر آدمی روزے میں بھی ہو اور اپنے کسی مسلمان بھائی کے قتلِ ناحق کا منصوبہ بھی بنا رہا ہو، کسی پہ بے جا تہمتیں باندھ رہا ہو یا کسی کی غیبت کر رہا ہو چونکہ قرآنِ حکیم نے اِن چیزوں سے سختی سے منع کیا ہے تو یقینا ایسا کرنے سے روزے کی حقیقی تاثیر جاتی رہتی ہے-

اِسی طرح آدمی اپنے باطن میں ایک روزہ رکھتا ہے اور وہ روزہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے آزاد کر کے رکھے اور غیر اللہ کی محبت کو اپنے دل میں داخل نہ ہونے دے، رِیا اور تکبر کو اپنے دِل میں داخل نہ ہونے دے اور وہ عُجب و کبر کواپنے دِل میں داخل نہ ہونے دے- آپ(رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کے دِل کے اندرمحبتِ الٰہی کے سوا کوئی اور محبت داخل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ کسی اور محبت کا آ جانا یہ اُس روزۂ باطن کے مفسدات میں سے ہے، اِس سے باطن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے-

اِن دِنوں مسلمانوں کو چند بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اُن چیلنجز سے کیسے نپٹنا ہے یہ ہمارے لیے غوروفکر کامقام ہے - بعض سیاسی چیلنجز ہیں، بعض معاشی چیلنجز ہیں، بعض تزویراتی چیلنجز ہیں، لیکن بعض چیلنجز کا تعلق ہماری نجی زندگی سے بن گیا ہے- مثال کے طور پہ جو تصنُع ، ریا کاری ، دکھاوا اور بناوٹ مسلمانوں کے گھروں میں ، ہمارے بیڈ رومز میں میڈیا کے ذریعہ پہنچ رہی ہے اس تصنُع اور بناوٹ سے چھٹکارے کا کیا راستہ ہے؟ میڈیا کی حدود و قیود طے کرنے والے اداروں اور شخصیّات کو ایسی حکمتِ عملی وضع کرنی پڑے گی اور ہمیں ایسی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے گا کہ جو تصنُّع اور بناوٹی پَن ہم پہ سوار ہو رہا ہے اس سے کسی طرح جان چھڑوائی جاسکے-

 مجھے کسی کے کردار پہ کوئی شک نہیں ہے، گواہی اور مشاہدہ کے بغیر کسی کے کردار کے بارے میں کچھ کہنا میرے لیے گناہ کا درجہ رکھتا ہے، ہر مسلمان کا اس بات پہ ایمان ہے - لیکن ، بعض ایسی شہادتیں جو معاشرے کے اندر مؤثر ہو جائیں اور بعض شہادتوں کا پورا معاشرہ شاہد ہوتا ہے، مسلمہ حقیقتیں ہوتی ہیں اور اُن سے آنکھ نہیں چرائی جاسکتی- رمضان المبارک کی سحر و افطار ٹرانسمیشنز میں سوائے چند ایک اہل علم ، اہلِ فضیلت اور اہلِ تقویٰ علمائ اور شخصیات کے ، ٹی وی چینلز کو آپ کھول کر دیکھیں تو جنتا تصنُع اور بناوٹ سیکھانے کا درس دیا جا رہا ہے مجھے ذاتی طور پہ شبہ ہے کہ اگر اس کاازالہ نہ کیا گیا ، اگر اس تصنُع اور بناوٹ سے اس قوم کو چھٹکارا نہ دلایا گیا تو ہمارے اندر اور باہر سے اخلاص بھی جاتا رہے گا اور اعمال کی تاثیر بھی جاتی رہے گی - جس کے نتیجے میں اعمال جو پہلے ہی ہماری بہت سی خرابیوں کی نذر ہوچکے ہیں ، اُن سے اگر یہ رہتا سہتا خلوص بھی نکل گیا تو ہماری آئندہ نسل ان تصنع زدہ و رِیا زدہ اَعمال کی طرف بھی راغب نہیں ہوگی ، ہو بھی کیوں ؟

جس طرح مغرب میں جو عیسائیت ہے اور مشرق میں جو عیسائیت ہے اِن میں بہت سے بُنیادی فرق ہیں، جو عیسائیت مغرب کے اندرہے اور جو پچھلی دوچار صدیوں کے جنگی تجُربات سے اور مختلف مسائل کی وجہ سے وہ اپنے مذہبی محرکات سے نکلی ہیں، اُنہوں نے دینی اخلاص کے نکل جانے اور ظاہری چمک دمک کے چنگل میں پھنس کر اور اپنے مذہب کو فقط لفظ و سخن کا مرقّع ثابت کرکے اپنی نوجوان نسل کو دہریت ﴿Atheism﴾ اپنانے پہ مجبور کر دیا کیونکہ محض لفّاظی انسان کی روحانی تشفّی نہیں کر سکتی اور اس وقت وہاں کے پاپ اور پادری کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کیسے اپنی نوجوان نسل کو دہریت ﴿Atheism﴾ سے بچائیں ، خود مختلف چرچز کے محققین نے اعترافات شائع کئے ہیں کہ نوجوان نسل کی اکثریت مذہب میں یقین کرنے پہ آمادہ نہیں ہے اور وہ اس امر میں وہ بُری طرح ناکام ہوگئے ہیں- وہ اس لیے ناکام ہوگئے کیونکہ اُن کی مغربی نسل کے پاس بہت ٹھوس ثبوت اور دلائل ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ جو آپ ہمیں سیکھاتے پڑھاتے ہیں ان لفظوں کی کیفیّت ہمارے اُوپر طاری نہیں ہوتی، جب لفظ حقیقت سے دور نظر آئیں تو آزاد ذہن انہیں کسی طور قبول کرنے پہ تیار نہیں ہوتا -

دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ تو اُن کا معاشرتی تصنُع ہے، اُن کا حقیقی عیسوی تعلیمات سے اِنحراف ہے- اگر یہی کیفیت ہمارے ہاں بھی جاری رہتی ہے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ شجرِ دہریت کی آبیاری ہم اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں ، کیا ہمارے بہت سے ملنے والے جاننے والے آزاد ذہنیّت کے لوگ دینی طبقات کے دوہرے معیارات کو بُنیاد بنا کر لادینیّت قبول نہیں کرتے ؟ یہ محض تنقید یا محض رونا رونے سے حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے اسباب کا جائزہ لینا چاہئے - ناچیز کی ناقص رائے میں بنامِ تقویٰ و بنامِ رمضان رچائی گئی یہ تصنّع بازی لادینیّت پہ منتج ہو گی - اہلِ فکر اور اہلِ دانش کے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا دین کو اِس بھیانک اور خوفناک طریقے سے کمرشلائز کرنے دیا جائے؟

ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ اِس طُوفانِ ریا کاری کی دلچسپیوں اور بھول بھلیّوں میں ایک عام آدمی اپنے عمل پہ خالص کس طرح رہ سکتا ہے؟ رمضان المبارک میں سحری کھانے سے قبل اپنے تہجد کے لمحات، اپنی تلاوت کے لمحات کو وہ اس مصنوعی گفتگو سے کیسے بچا سکتا ہے؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس سوال پہ تربیتی سیشنز اور مکالمہ کی ضرورت ہے- ہمیں تعلیمی اداروں میں اس پہ ابلاغ کی ضرورت ہے اور ہمیں اپنے گھروں میں احسن انداز اور حکمت کے ساتھ گھر والوں کے دِل و دماغ میں اُتارنے کی ضرورت ہے کہ تصنُع کے اندر اور دِینی تعلیمات کے اندر ایک فرق قائم کیا جائے کیونکہ سب اہل علم و تقویٰ جانتے ہیں کہ جس کے ذِمے تبلیغ کا فریضہ ہے وہ چاہے منبر پہ ہو، وہ چاہے مارکیٹ کے اندر ہو، وہ چاہے گھر کے اندر ہو یا وہ اس طرح کی مجالس کے اندر ہو، مبلغ کے اُوپر اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ متقی ہو اور اس کا تقویٰ مُعاشرے میں مسلمہ ہو-

تاریخ کا ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کی بنیادی وجہ عرب کے ابتدائی متقی و پرہیزگار مسلمان تھے- وہ وجودِ مسعود ایسے تھے جن کے ظاہر اور باطن میں خلوص اور عبادت اتنی سما گئی تھی کہ چاہے وہ تاجر ہوں، چاہے وہ غلام ہوں، چاہے وہ سپاہی ہوں، چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں وہ جس کے ساتھ بھی جاکر بیٹھے ہیں، اُن کے وجود سے ایسی شعاعیں نکلی ہیں، ایسی برکات نکلی ہیں، ایسے فیوض نکلے ہیں کہ انہوں نے مختصر کلام کیا لیکن پھر بھی اُن کی باتیں لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں- اس امر کی وجہ اُن کے تقوے کے اعلیٰ معیارات اور اعلیٰ ترین صلاحیتیں تھیں-

 حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ:-

عمرقلیل ہے اور علم کثیر ہے لہٰذا قلیل میں کثیر کو نہیں سمویا جا سکتا اس لیے قلیل میں کثیر اسی صورت میں سمویا جاسکتا ہے کہ ایسا علم حاصل کیا جائے کہ عالم کو معلوم کی معرفت عطا کرے، معلوم کا قرب عطا کردے اُس کی ذات کی خوشنودی و رضا عطا کر دے-

علم اتنا کثیرہے کہ کس عالِم نے یہ دعویٰ کیا کہ میں عالِمِ کُل ہو گیا ہوں؟ یہاں بڑے بڑے صاحبانِ علم گزرے، امام بخاری، امام رازی، امام غزالی جیسے بہت عظیم مدبرین، مفکرین، علمائ اور شیوخ گزرے ہیں کسی نے بھی اپنے علم کے اِتمام کا دعویٰ نہیں کیا ، تو اس لیے نہیں کیا کہ یہ تو کثیر ہے- بلکہ یونان کے معروف فلسفی سقراط نے بھی ایتھنز کے نام نہاد عالموں کا یہ کہہ کر ابطال کیا کہ یہ کچھ نہیں جانتے مگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں - پھر سقراط نے اپنے بارے میں کہا کہ میری برتری ان پہ اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا- اِس لئے اگر اس کثیر کو قلیل میں ڈھالنا ہے تو وہ اسی صورت میں ڈھل سکتا ہے کہ جتنا آدمی علم حاصل کرئے اُتنا ہی اس پہ عمل کرے اور خود اس کو اختیار کرلے تو یہ مبلغ کی اوّلین ڈیوٹی ہے- ایک تاجر اس وقت مبلغ بنتا ہے جب اس کے وجود میں تقویٰ اُتر جائے- اُسے مبلغ و امیر ہونے کے رسمی خطاب کی بھی ضرورت نہیں ہوتی- وہ جہاں جاتا ہے اسلام کا سفیر ہوتا ہے- اس لیے کہ اُس کا اپنا وجود تصنُع اور بناوٹ سے پاک ہوتا ہے اس کا وجود ریا اور تکبر سے پاک ہوتا ہے-

جس صورتِ حال کی طرف بندہ ناچیز گزارش کر رہا ہے یہ صورتِ حال بڑی نازک ہے اور میرے ناقص رائے کے مطابق اس وقت لوگوں کی انفرادی اور نجی تربیت مشائخ عظام اور علمائ کرام کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس تصنُع اور بناوٹ سے کیسے پاک کرسکتے ہیں-

اگر اس کی تربیت نہیں ہوتی تو انجام مغرب کی نوجوان نسل کی طرح ہوگا اور ہماری نوجوان نسل دہریت اپنا لے گی اور ہم میں سے انہیں کوئی بھی نہیں روک سکے گا-

﴿یہ تحریر رمضان المبارک 2015 ئ میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب کے خطاب سے اخذ کی گئی ہے - ﴾

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر