کشمیر کی تحریک حریت اور چند سوالات

کشمیر کی تحریک حریت اور چند سوالات

کشمیر کی تحریک حریت اور چند سوالات

مصنف: صاحبزادہ میاں محمد ضیاءالدین فروری 2016

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بھی ظالم قوم نے کسی پرقبضہ کیا تو اُسے مقبوضہ قوم کے جذبۂ اِستقلال کی طاقت سے منہ کی کھانی پڑی جِس کی مثال ہمیں انڈونیشیا، الجزائر اور البانیہ جیسے مختلف مسلم ممالک سے ملتی ہیں-جب حق کو مٹانے کی کوشش کی گئی، باطل خود مٹ گیا- یہ قصہ ازل سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے ابد تک جاری ر ہے گا-مختلف ممالک کے درمیان وسائل کی جنگ اور زمین کے ٹکڑوں کے لیے جاری مقابلے میں بے گناہ اور کمزور انسانیت اپنے حقوق سے محروم ہو رہی ہے اور محکوم قومیں آج بھی اس ترقی یافتہ ’گلوبل ولیج کہلانے والی‘ دُنیا میں اَپنے بنیادی حقوق اور آزادی کو تلاش کر رہی ہیں - حقوق اور آزادی کے حصول کے لیے علامہ اقبال صاحب نے برصغیر کے مسلمانوں کو حریت پسندی اور جد و جہد کا جو درس دیا وہ آج بھی برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً کشمیریوں کا لہو گرما ئے ہوئے ہے - کشمیرکے مسلمانوں کی، ظالمانہ بھارتی قبضے کے خلاف، حقِ خودارادیت کی جدوجہدقابلِ ذکر ہے جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں - کئی دہائیاں گز رنے اور بھارتی ستم کے باوجود بھی اُسی طرح زندہ ہے جس طرح کہ اس جدوجہد کا آغاز ہوا تھا- مگر آج تک بھارت ، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار نے یہ حق غصب کر رکھا ہے -

کشمیر ی جدوجہد بھارتی مظالم کے باوجود زندہ اور پر جوش رہے گی کیونکہ ان کو علامہ اقبال کا درج ذیل درس یاد ہے....

جِس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

کشمیریوںنے ہر دور میں اپنے حقوق کی جنگ لڑی اورآخری مہاراجہ ہری سنگھ ﴿۵۲۹۱تا ۲۵۹۱﴾ کے دور میں ایک طرف اُن پر زندگی کی راہیں تنگ ہو ئیں تو دوسری طرف برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ آن پہنچا ، توکشمیریوں نے مہاراجہ سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کی جدوجہد نے زور پکڑا تو مہاراجہ نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کانگریسی قیادت کے ساتھ مل کر آخری وائسرے لارڈ مائونٹ بیٹن کو تقسیمِ ہند پلان میں تبدیلی پر راضی کیا تولارڈ مائونٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کوبھارت میں شامل کر دیا جِس سے بھارت کو کشمیر کے ساتھ زمینی رابطہ اور کشمیر میں فوجیں اتارنے کے لیے راستہ مِلا تو بھارت نے اپنے مذموم عزائم ﴿کشمیر پر ناجائز قبضہ﴾کو انجام تک پہنچایا اور جنت نظیر وادیِ کشمیر کو ایک فوجی چھاؤنی اور بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جبکہ کشمیراور کشمیری عوام محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- بھارتی فوج نے کشمیر یوں کی نسل کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی -مگر نادان بھارتی حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیر ی مسلمانوں کے جذبۂ حق حریت کو ختم کر سکتا ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ حق کبھی مٹا ہے نہ مٹے گا - اقبال کے شاہیں اپنی آزادی کو چھوڑ کر باطل کی آغوش میںگھونسلے تعمیر نہیں کریں گے:

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ وبیاباں میں

کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

مگر یہاں قابلِ غور سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک سنگین انسانی المیہ، دنیا کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ دُنیا اپنے مفادات کی وجہ سے جان بوجھ کر اِسے نظروں سے اوجھل کرنا چاہتی ہے؟ دنیا کے ایسے حکمران جو مل بیٹھیں تو بڑے سے بڑے مسائل حل ہو جاتے مگر اُن کی زبان پر کشمیر جیسے مسئلے کے لیے الفاظ کیوں نہیں نکلتے؟ انسانی حقوق کے نگران ادارے جو کسی پسماندہ ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تو بہت چست نظر آتے ہیں مگر جب مسئلہ کشمیر ان کے سامنے آتا توسب کی آنکھیں، زبان، ہاتھ اور پائوں حرکت کیوں نہیں کرتے؟ اگر کرتی ہے تو بس زبان اور وہ بھی چندالفاظ کے بعدساکت ہو جاتی ہے، ایسے حالات میں کشمیر ی عوام کی دستانِ غم کون سنے گا ؟

جدوجہدِ کشمیرپر اقوامِ عالم اور انسانی حقوق کے علمبرد اروں کا توجہ نہ دینا : کشمیریوں کی غلطی ہے؟ یا کہ اُن لوگوں کی جو اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے ؟ یا ان کی جوکشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے پیش تو کرتے ہیں مگر اِس مسئلے پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں ؟ یا اُن لوگوں کی جو لوگ اپنے ناجائز قبضے کی آڑ میں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور کشمیر کی حق پر مبنی جدوجہد کو دہشتگردی سے منسو ب کرتے ہیں ؟

ایسے تمام لوگ جو اپنے مفاد ات کی خاطر کشمیر کوجلا رہے ہیں ، جلتا ہوا دیکھ رہے ہیںان تمام لوگوں سے علامہ صاحب نے مخاطب ہو تے ہوئے کہا کہ....

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گو اے ہندوستاں والوں

تمھاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

اور علامہ اقبال(رح) نے ان تمام لوگوں کو جو مسئلہ کشمیر کو اُجاگر یاحل کرواسکتے ہیں ان کو مسئلہ کشمیر کی وجہ سے آنے نقصانات سے آگاہ رہنے کی تنبیہ کی ہے-

چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

مسئلہ کشمیر توجہ کا منتظر ہے کیونکہ بھارت کشمیر میں قبضہ کی آڑ میں انسانی حقوق کی جو دھجیاں بکھیر رہا ہے اس سے دنیا کی آنکھیں نم کیوں نہیں ہو رہیں ؟ کشمیریوں کی آواز گزشتہ چھ دہائیوں سے عالم ِ انسانیت میں گونج رہی ہے جوعالم انسانیت سے تقاضا کرتی ہے کہ ان کو ان کا جائز حق دیا جائے - کشمیری نوجوان اپنا خون دے کر، سہاگنیں اپنا سہاگ ، بہنیں اپنے بھائی،مائیں اپنے لختِ جگر،باپ اپنے بڑھاپے کا سہارا قربان کر کے اِس جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں-جب کشمیری اس جذبۂ استقلال سے نسل در نسل جدوجہد کر رہے ہیں تو پاکستان کی سیاسی قیادتوں کو بھی چاہئے کہ کشمیریوں کے جذبہ کی طرح کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں - اور کشمیری قیادت کو ساتھ لے کر،کشمیری عوام کی آواز کو ان کی امنگوں اور دو قومی نظریہ کی روشنی میں مزید قوت سے عالمی برادری کے سامنے پیش کریں اور بھارت کو یہ باور کروائے رکھیں کہ کشمیر کو حل کیے بغیر باقی معاملات طے نہیں پا سکتے- بھارت سے مذاکرات میں کشمیرپر سب سے پہلے بات ہونی چاہیے اور اُس کے بعد کسی مسئلہ کی طرف بڑھا جائے - کیونکہ پاکستان، بھارت اور اِس پورے خطے کی ترقی اور پر امن رہنا مسئلہ کشمیر کے پر امن حل سے مشروط ہے- پاکستان کو کشمیری جدوجہد کے مؤقف ﴿ حقِ خود ارادیت ﴾ کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے دنیا کو اِس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کتنا ضروری ہے جہاں انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے جو عالمِ انسانیت کی تذلیل ہے -

کشمیر کا مسئلہ صرف دو ممالک ﴿پاکستان اور بھارت﴾ کے درمیان نہیںبلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے جو کہ انسانوں کی خاطر حل ہونا چاہیے- عام فہم بات ہے جب بھی انسانیت کے لیے کوئی نئی چیز ، قانون یا حکمتِ عملی بنائی جاتی ہے تو اُس کے تناظر میں اس کا انسانوں کو فائدہ و نقصان پھر زمین اور اُس کے ماحول پر اثراور آخر میں اُس کی منافع کی بات کی جاتی ہے تو مسئلہ کشمیر کو بھی اِسی سادہ فہم فارمولہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس مسئلہ کا انسانیت کو کیا نقصان ہے ؟ خطہ کو کیا نقصان ہے ؟ اور آخر میں اُس کے وسائل کی بات کی جائے کیونکہ بھارت اور اُس کے اتحادی اِس خطہ کے وسائل کو سب سے پہلے دیکھ رہے ہیں اور پھر وہ زمین کے ٹکڑا کو دیکھ رہے ہیں اور بیچارے انسانوں کا کوئی نام لیوا نہیں - جانوروں کے حقوق، پرندوں اور آبی حیات کے حقوق کی بات کی جاتی ہے جِس کے حل کے لیے پوری دنیا فکر مند ہے اور حل کے لیے ایک چھت تلے جمع ہو رہے ہیںمگردنیا کی انسانیت کو در پیش مسائل کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ خصوصاًکشمیر کے مسلمانوں کی کیوں نہیں؟ کیا کشمیری اِس دنیا میں اجنبی ہیں؟ان کا اِس دنیاسے کوئی تعلق نہیں؟ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان کو جینے کا حق نہیں؟ اگر ہے توکیوں انسانی حقوق کے علمبردار ملکر اِس مسئلہ کو حل نہیں کرتے؟ مگر سسکتی انسانیت کے معاملات پر اپنے معاشی مفادات کی خاطر چپ کیوں سادھ لی جاتی ہے؟ انسانی حقوق کے اداروں خصوصاً اقوامِ متحدہ کو کشمیر کے مسئلے کے لیے عالمی برادری کو اکٹھا کر کے یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے اور کشمیریوں کو اب گولی و بارود کی آگ سے نکالنا ہو گا تاکہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اپنی جائے پیدائش، وادیِ کشمیر کی تازہ و صحت مند ہوا میں آزادی سے سانس لے سکیں- اگر کشمیر میں لگی آگ کو ختم نہ کیا گیا تو بعید از قیاس نہیں کہ یہ آگ ایٹمی جنگ کی صورت اختیار نہ کر لے لیکن بین الاقوامی ادارے انسانیت کی طرف بڑھتے اِس خطرے کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟- بھارت نے جو آگ کشمیر میں لگائی ہے اُس کا ایندھن مظلوم کشمیری ہیں تو جب تک کشمیریوں کو اُن کا حق نہیں ملے گا کشمیر جلتا رہے گا اور دنیا کو خطرناک تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا-

کشمیری عوام اپنی جدوجہد کو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا رہے ہیں توپاکستانی نوجوان نسل کو کشمیر سے منسلک دنوں کو پورے ملک میں اور دوسرے ممالک میں ان کو منانے کا بندو بست کرنا چاہیے جِس سے پاکستانی قوم میں اور دنیا میں جدوجہدِ کشمیر کی اہمیت و حقیقت واضح ہو گی تو سب مل کر اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور حریت پسندی کا جو درس علامہ صاحب نے دیا اس پر عمل پیرا ہو سکیں - اورکشمیری عوام کا غم کی گھڑی میں سہارا بن سکیںکیونکہ کشمیری عوام کے احساسات ان اشعار سے واضح ہیں ..

بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہو

سینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دے

احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا

امروز کی شورش میں اندیشئہ فردا دے

میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے

علامہ صاحب کا درسِ حریت ایک مشعلِ راہ ہے جِس پر عمل کرتے ہوئے کشمیر سے منسلک دنوں پر،آگاہی پروگرامزاور پُرامن ریلیاں منعقد کرنی چاہیں تاکہ دنیا کو مسئلہ کشمیر کے متعلق حقائق و اہمیت بتائی جا سکے تاکہ کشمیر میں برسوں سے لگی آگ اب بجھ سکے اور اس سنگین انسانی المیے کو جلد سے جلدحل کرنے کے لیے کوششیں کریں تاکہ انسانیت کو اِس مسئلہ سے جِس تصادم کا خطرہ ہے وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے اور عالمِ انسانیت سکھ کا سا نس لے سکے-

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بھی ظالم قوم نے کسی پرقبضہ کیا تو اُسے مقبوضہ قوم کے جذبۂ اِستقلال کی طاقت سے منہ کی کھانی پڑی جِس کی مثال ہمیں انڈونیشیا، الجزائر اور البانیہ جیسے مختلف مسلم ممالک سے ملتی ہیں-جب حق کو مٹانے کی کوشش کی گئی، باطل خود مٹ گیا- یہ قصہ ازل سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے ابد تک جاری ر ہے گا-مختلف ممالک کے درمیان وسائل کی جنگ اور زمین کے ٹکڑوں کے لیے جاری مقابلے میں بے گناہ اور کمزور انسانیت اپنے حقوق سے محروم ہو رہی ہے اور محکوم قومیں آج بھی اس ترقی یافتہ ’گلوبل ولیج کہلانے والی‘ دُنیا میں اَپنے بنیادی حقوق اور آزادی کو تلاش کر رہی ہیں - حقوق اور آزادی کے حصول کے لیے علامہ اقبال صاحب نے برصغیر کے مسلمانوں کو حریت پسندی اور جد و جہد کا جو درس دیا وہ آج بھی برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً کشمیریوں کا لہو گرما ئے ہوئے ہے - کشمیرکے مسلمانوں کی، ظالمانہ بھارتی قبضے کے خلاف، حقِ خودارادیت کی جدوجہدقابلِ ذکر ہے جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں - کئی دہائیاں گز رنے اور بھارتی ستم کے باوجود بھی اُسی طرح زندہ ہے جس طرح کہ اس جدوجہد کا آغاز ہوا تھا- مگر آج تک بھارت ، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار نے یہ حق غصب کر رکھا ہے -

کشمیر ی جدوجہد بھارتی مظالم کے باوجود زندہ اور پر جوش رہے گی کیونکہ ان کو علامہ اقبال کا درج ذیل درس یاد ہے....

جِس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

کشمیریوںنے ہر دور میں اپنے حقوق کی جنگ لڑی اورآخری مہاراجہ ہری سنگھ ﴿۵۲۹۱تا ۲۵۹۱﴾ کے دور میں ایک طرف اُن پر زندگی کی راہیں تنگ ہو ئیں تو دوسری طرف برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ آن پہنچا ، توکشمیریوں نے مہاراجہ سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کی جدوجہد نے زور پکڑا تو مہاراجہ نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کانگریسی قیادت کے ساتھ مل کر آخری وائسرے لارڈ مائونٹ بیٹن کو تقسیمِ ہند پلان میں تبدیلی پر راضی کیا تولارڈ مائونٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کوبھارت میں شامل کر دیا جِس سے بھارت کو کشمیر کے ساتھ زمینی رابطہ اور کشمیر میں فوجیں اتارنے کے لیے راستہ مِلا تو بھارت نے اپنے مذموم عزائم ﴿کشمیر پر ناجائز قبضہ﴾کو انجام تک پہنچایا اور جنت نظیر وادیِ کشمیر کو ایک فوجی چھاؤنی اور بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جبکہ کشمیراور کشمیری عوام محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- بھارتی فوج نے کشمیر یوں کی نسل کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی -مگر نادان بھارتی حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیر ی مسلمانوں کے جذبۂ حق حریت کو ختم کر سکتا ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ حق کبھی مٹا ہے نہ مٹے گا - اقبال کے شاہیں اپنی آزادی کو چھوڑ کر باطل کی آغوش میںگھونسلے تعمیر نہیں کریں گے:

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ وبیاباں میں

کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

مگر یہاں قابلِ غور سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک سنگین انسانی المیہ، دنیا کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ دُنیا اپنے مفادات کی وجہ سے جان بوجھ کر اِسے نظروں سے اوجھل کرنا چاہتی ہے؟ دنیا کے ایسے حکمران جو مل بیٹھیں تو بڑے سے بڑے مسائل حل ہو جاتے مگر اُن کی زبان پر کشمیر جیسے مسئلے کے لیے الفاظ کیوں نہیں نکلتے؟ انسانی حقوق کے نگران ادارے جو کسی پسماندہ ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تو بہت چست نظر آتے ہیں مگر جب مسئلہ کشمیر ان کے سامنے آتا توسب کی آنکھیں، زبان، ہاتھ اور پائوں حرکت کیوں نہیں کرتے؟ اگر کرتی ہے تو بس زبان اور وہ بھی چندالفاظ کے بعدساکت ہو جاتی ہے، ایسے حالات میں کشمیر ی عوام کی دستانِ غم کون سنے گا ؟

جدوجہدِ کشمیرپر اقوامِ عالم اور انسانی حقوق کے علمبرد اروں کا توجہ نہ دینا : کشمیریوں کی غلطی ہے؟ یا کہ اُن لوگوں کی جو اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے ؟ یا ان کی جوکشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے پیش تو کرتے ہیں مگر اِس مسئلے پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں ؟ یا اُن لوگوں کی جو لوگ اپنے ناجائز قبضے کی آڑ میں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور کشمیر کی حق پر مبنی جدوجہد کو دہشتگردی سے منسو ب کرتے ہیں ؟

ایسے تمام لوگ جو اپنے مفاد ات کی خاطر کشمیر کوجلا رہے ہیں ، جلتا ہوا دیکھ رہے ہیںان تمام لوگوں سے علامہ صاحب نے مخاطب ہو تے ہوئے کہا کہ....

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گو اے ہندوستاں والوں

تمھاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

اور علامہ اقبال(رح) نے ان تمام لوگوں کو جو مسئلہ کشمیر کو اُجاگر یاحل کرواسکتے ہیں ان کو مسئلہ کشمیر کی وجہ سے آنے نقصانات سے آگاہ رہنے کی تنبیہ کی ہے-

چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

مسئلہ کشمیر توجہ کا منتظر ہے کیونکہ بھارت کشمیر میں قبضہ کی آڑ میں انسانی حقوق کی جو دھجیاں بکھیر رہا ہے اس سے دنیا کی آنکھیں نم کیوں نہیں ہو رہیں ؟ کشمیریوں کی آواز گزشتہ چھ دہائیوں سے عالم ِ انسانیت میں گونج رہی ہے جوعالم انسانیت سے تقاضا کرتی ہے کہ ان کو ان کا جائز حق دیا جائے - کشمیری نوجوان اپنا خون دے کر، سہاگنیں اپنا سہاگ ، بہنیں اپنے بھائی،مائیں اپنے لختِ جگر،باپ اپنے بڑھاپے کا سہارا قربان کر کے اِس جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں-جب کشمیری اس جذبۂ استقلال سے نسل در نسل جدوجہد کر رہے ہیں تو پاکستان کی سیاسی قیادتوں کو بھی چاہئے کہ کشمیریوں کے جذبہ کی طرح کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں - اور کشمیری قیادت کو ساتھ لے کر،کشمیری عوام کی آواز کو ان کی امنگوں اور دو قومی نظریہ کی روشنی میں مزید قوت سے عالمی برادری کے سامنے پیش کریں اور بھارت کو یہ باور کروائے رکھیں کہ کشمیر کو حل کیے بغیر باقی معاملات طے نہیں پا سکتے- بھارت سے مذاکرات میں کشمیرپر سب سے پہلے بات ہونی چاہیے اور اُس کے بعد کسی مسئلہ کی طرف بڑھا جائے - کیونکہ پاکستان، بھارت اور اِس پورے خطے کی ترقی اور پر امن رہنا مسئلہ کشمیر کے پر امن حل سے مشروط ہے- پاکستان کو کشمیری جدوجہد کے مؤقف ﴿ حقِ خود ارادیت ﴾ کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے دنیا کو اِس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کتنا ضروری ہے جہاں انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے جو عالمِ انسانیت کی تذلیل ہے -

کشمیر کا مسئلہ صرف دو ممالک ﴿پاکستان اور بھارت﴾ کے درمیان نہیںبلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے جو کہ انسانوں کی خاطر حل ہونا چاہیے- عام فہم بات ہے جب بھی انسانیت کے لیے کوئی نئی چیز ، قانون یا حکمتِ عملی بنائی جاتی ہے تو اُس کے تناظر میں اس کا انسانوں کو فائدہ و نقصان پھر زمین اور اُس کے ماحول پر اثراور آخر میں اُس کی منافع کی بات کی جاتی ہے تو مسئلہ کشمیر کو بھی اِسی سادہ فہم فارمولہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس مسئلہ کا انسانیت کو کیا نقصان ہے ؟ خطہ کو کیا نقصان ہے ؟ اور آخر میں اُس کے وسائل کی بات کی جائے کیونکہ بھارت اور اُس کے اتحادی اِس خطہ کے وسائل کو سب سے پہلے دیکھ رہے ہیں اور پھر وہ زمین کے ٹکڑا کو دیکھ رہے ہیں اور بیچارے انسانوں کا کوئی نام لیوا نہیں - جانوروں کے حقوق، پرندوں اور آبی حیات کے حقوق کی بات کی جاتی ہے جِس کے حل کے لیے پوری دنیا فکر مند ہے اور حل کے لیے ایک چھت تلے جمع ہو رہے ہیںمگردنیا کی انسانیت کو در پیش مسائل کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ خصوصاًکشمیر کے مسلمانوں کی کیوں نہیں؟ کیا کشمیری اِس دنیا میں اجنبی ہیں؟ان کا اِس دنیاسے کوئی تعلق نہیں؟ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان کو جینے کا حق نہیں؟ اگر ہے توکیوں انسانی حقوق کے علمبردار ملکر اِس مسئلہ کو حل نہیں کرتے؟ مگر سسکتی انسانیت کے معاملات پر اپنے معاشی مفادات کی خاطر چپ کیوں سادھ لی جاتی ہے؟ انسانی حقوق کے اداروں خصوصاً اقوامِ متحدہ کو کشمیر کے مسئلے کے لیے عالمی برادری کو اکٹھا کر کے یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے اور کشمیریوں کو اب گولی و بارود کی آگ سے نکالنا ہو گا تاکہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اپنی جائے پیدائش، وادیِ کشمیر کی تازہ و صحت مند ہوا میں آزادی سے سانس لے سکیں- اگر کشمیر میں لگی آگ کو ختم نہ کیا گیا تو بعید از قیاس نہیں کہ یہ آگ ایٹمی جنگ کی صورت اختیار نہ کر لے لیکن بین الاقوامی ادارے انسانیت کی طرف بڑھتے اِس خطرے کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟- بھارت نے جو آگ کشمیر میں لگائی ہے اُس کا ایندھن مظلوم کشمیری ہیں تو جب تک کشمیریوں کو اُن کا حق نہیں ملے گا کشمیر جلتا رہے گا اور دنیا کو خطرناک تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا-

کشمیری عوام اپنی جدوجہد کو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا رہے ہیں توپاکستانی نوجوان نسل کو کشمیر سے منسلک دنوں کو پورے ملک میں اور دوسرے ممالک میں ان کو منانے کا بندو بست کرنا چاہیے جِس سے پاکستانی قوم میں اور دنیا میں جدوجہدِ کشمیر کی اہمیت و حقیقت واضح ہو گی تو سب مل کر اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور حریت پسندی کا جو درس علامہ صاحب نے دیا اس پر عمل پیرا ہو سکیں - اورکشمیری عوام کا غم کی گھڑی میں سہارا بن سکیںکیونکہ کشمیری عوام کے احساسات ان اشعار سے واضح ہیں ..

بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہو

سینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دے

احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا

امروز کی شورش میں اندیشئہ فردا دے

میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے

علامہ صاحب کا درسِ حریت ایک مشعلِ راہ ہے جِس پر عمل کرتے ہوئے کشمیر سے منسلک دنوں پر،آگاہی پروگرامزاور پُرامن ریلیاں منعقد کرنی چاہیں تاکہ دنیا کو مسئلہ کشمیر کے متعلق حقائق و اہمیت بتائی جا سکے تاکہ کشمیر میں برسوں سے لگی آگ اب بجھ سکے اور اس سنگین انسانی المیے کو جلد سے جلدحل کرنے کے لیے کوششیں کریں تاکہ انسانیت کو اِس مسئلہ سے جِس تصادم کا خطرہ ہے وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے اور عالمِ انسانیت سکھ کا سا نس لے سکے-

أؤیٔ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر