زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 11

زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 11

زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 11

مصنف: مترجم : ایس ایچ قادری جون 2016

بغداد میں شیخ العارف ، ابو الخیر بشر بن محفوظ نے بتایا کہ :-

’’میری نوجوان غیر شادی شدہ بیٹی فاطمہ ہمارے گھر کی چھت پر چڑھی تو ﴿چھت ہی سے﴾ اچانک غائب ہوگئی- مَیں نے شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر یہ معاملہ عرض کیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾نے فرمایا کہ:-

 ’آج رات ’’کرخ‘‘ کے کھنڈرات میں جاکر پانچویں ٹیلے پر بیٹھ جانا- اپنے ارد گرد زمین پر ایک دائرہ کھینچ لینا اور پڑھنا ﴿بسم اللّٰہ علی نیۃ عبد القادر﴾- جب رات کی تاریکی بڑھے گی توجنّات کے گروہ در گروہ تیرے پاس مختلف شکلوں میں گزریں گے ان کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہونا- جب سحری کا وقت ہوگا تو ان کا سردار تمہارے پاس آئے گااور تم سے تمہاری حاجت پوچھے گا تو تم اسے کہنا کہ مجھے عبد القادر نے تمہاری طرف بھیجا ہے اور پھر اسے اپنی بیٹی کا معاملہ بتانا‘-

پس مَیں گیا اور اسی طرح کیا جو مجھے حکم دیا گیا- میرے پاس خوفزدہ شکلیں اِدھر اُدھر سے گزرنے لگیں لیکن ان میں سے کوئی بھی میرے دائرہ کے قریب آنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا جس میں مَیں بیٹھا تھا- یہاں تک کہ ان کا سردار گھوڑے پر سوار ہو کر آیا- اس کے آگے آگے اس کی قوم کے افراد تھے- وہ دائرہ کے سامنے کھڑا ہوا اور مجھ سے پوچھا کہ اے انسان! تجھے کیا کام ہے؟ مَیں نے اسے کہا کہ مجھے شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے تمہاری طرف بھیجا ہے- وہ ﴿سردار یہ سنتے ہی﴾ گھوڑے سے نیچے اترا، زمین کو بوسہ دیا اور وہ اور اس کے تمام ساتھی دائرہ سے باہر بیٹھ گئے- اس نے پوچھا تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ مَیں نے اسے اپنی بیٹی کا معاملہ بتایا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کام کس ﴿جن﴾ نے کیا ہے- پھر ﴿تھوڑی دیر بعد﴾ اس کے پاس ایک سرکش جن حاضر کیا گیا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ’’چین‘‘ کا سرکش جن ہے ﴿اس نے یہ کام کیا ہے﴾- اُس ﴿سردار﴾ نے اِس ﴿سرکش جن﴾ سے پوچھا کہ تجھے کس نے مجبور کیا تھا کہ تم ایک قطب کی حدود سے ﴿ایک لڑکی کو﴾ اغوا کر لے؟ اس نے کہا کہ میرا اس پر دِل آگیا تھا﴿۱﴾- پس جیسے ہی اُس ﴿سردار﴾ نے حکم جاری کیا تو اس ﴿سرکش جن﴾ کی گردن اڑا دی گئی- میری بیٹی مجھے واپس مل گئی- مَیں نے ﴿اُس سردار سے﴾ کہا کہ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے حکم مبارک پر تمہارا اس طرح عمل در آمد کروانا آج کی رات کی طرح کبھی نہیں دیکھا- اس نے کہا کہ ہاں بے شک آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے آستانہ پاک سے ہی اس سرکش جن کو دیکھ رہے تھے اور وہ کافی دور تھے پس وہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے خوف سے اپنے ٹھکانوں کی طرف بھاگ گئے تھے- بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کو قطب بناتا ہے تو پھر اسے تمام جنّات اور انسانوں پر قدرت بھی عطا فرما دیتا ہے ‘‘-

راویوں نے ایک روایت کرتے ہوئے کہا:-

’’آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ایک دن ’’اصفہان‘‘ ﴿ایران﴾ سے ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ میری بیوی کو بہت زیادہ مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور دم کرنے والے بھی اس سے عاجز آ چکے ہیں- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :-

یہ وادیٔ ’’سراندیپ‘‘ کے سرکش جنوں میں سے ایک ہے جس کا نام خانس ہے- جب تمہاری بیوی کو مرگی کا دورہ پڑے تو اس کے کان میں کہو کہ اے خانس تجھے عبد القادر جو بغداد میں مقیم ہے کہتا ہے کہ دوبارہ نہ آنا- اگر تو دوبارہ آیا تو ہلاک کر دیا جائے گا‘-

وہ آدمی چلا گیا اور دس سال تک نظر نہ آیا- پھر ایک دن نظر آیا تو ہم نے اس سے ﴿بیوی کی مرگی کے بارے﴾ پوچھا تو اس نے کہا کہ مَیں نے ویسے ہی کیا جیسا کہ شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا تھا، اس دن سے آج تک اسے مرگی کا دورہ نہیں پڑا ‘‘-

مشائخ نے حضرت شیخ عمر البزاز سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-

’’جمعہ کے دن مَیں ﴿شیخ عمر البزاز﴾ سیّدنا شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا- ﴿راستے میں﴾ کسی نے آپ کو سلام نہ کیا- مَیں نے دل میں سوچا کہ تعجب کی بات ہے کہ ہم لوگ ہر جمعہ کے روز لوگوں کے شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس ہجوم کی وجہ سے جامع مسجد میں بمشکل نماز پڑھ پاتے ہیں ﴿اور آج کسی نے سلام ہی نہیں کیا﴾- ابھی یہ خیال مجھے آیا ہی تھا کہ شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور لوگ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو سلام کرنے کے لیے دوڑ پڑے- ﴿اتنا رش ہوا کہ﴾ وہ میرے اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے درمیان حائل ہو گئے- مَیں نے د ل میں سوچا کہ اس سے تو وہ پہلے والا حال بہتر تھا- مَیں دل سے شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی طرف متوجہ ہوا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :-

اے عمر ! تم ہی تو یہ چاہ رہے تھے- کیا تم نہیں جانتے کہ لوگوں کے دل میری مٹھی میں ہیں- اگر مَیں چاہوں تو انہیں اپنے سے دور کر دوں، چاہوں تو اپنی طرف متوجہ کر لوں- اے دلوں کے ﴿حقیقی﴾ مالک! سیّد الکائنات، حضرت الامین ﴿آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام﴾ کے صدقے میں ہمارے دل اپنی طرف ہی متوجہ رکھ اور انہیں اپنی ذات سے دور نہ کر ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾ ‘‘-

مشائخ نے شیخ بقا بن بُطو سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-

’’ایک آدمی شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا- اس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا- اس آدمی نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے کہا کہ

 ’﴿ہمارے لیے﴾ دعا کیجئے یہ میرا بیٹا ہے‘- حالانکہ وہ اس کا بیٹا نہیں تھا اور وہ دونوں بد فعلی کے مرتکب ہو چکے تھے- پس شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے غضبناک ہو کر فرمایا کہ :-’تمہارا معاملہ میرے ساتھ اس حد تک پہنچ چکا ہے‘-

﴿یہ فرما کر﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ گھر تشریف لے گئے- اسی وقت بغداد کے ارد گرد آگ بھڑک اٹھی- ایک گھر میں سے بجھتی تو دوسرے گھر میں لگ جاتی- مَیں نے دیکھا کہ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے غضب کی وجہ سے بغداد پر مصیبتیں بادلوں کی طرح نازل ہو رہی ہیں- مَیں جلدی سے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ کو جلال کی حالت میں دیکھا- مَیں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کرنا شروع کر دیا کہ :-’یاسیّدی! مخلوق پر رحم فرمائیں لوگ ہلاک ہو جائیں گے‘- یہاں تک کہ آپ کا جلال کم ہوا- مَیں نے دیکھا کہ مصیبتوں کے بادل چھٹ گئے اور تمام آگ بجھ گئی‘‘-

مشائخ ﴿کی ایک جماعت﴾ نے خبر دی ، جن میں سے آخری شیخ ابو سعود حریمی، شیخ علی بن ادریس یعقوبی اور شیخ امام شہاب الدین ابو حفص عمر بن محمد سہروردی ﴿رحمۃ اللہ علیہم اجمعین﴾ ہیں- ان سب نے کہا کہ:-

’’شیخ عباد اور شیخ ابوبکر بن الحمامی بہت بلند مرتبہ احوال رکھنے والوں میں سے تھے- شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ ابوبکر کو فرمایا کرتے تھے کہ ’اے ابوبکر! شریعتِ مطہرہ مجھ سے تمہاری ﴿اکثر﴾ شکایت کرتی ہے‘- آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اس کو کچھ باتوں سے منع فرمایا کرتے تھے اور وہ ان سے باز نہیں آتے تھے- ﴿ایک دن﴾ شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’رصافہ‘‘ کی جامع مسجد میں تشریف لائے تو اس کو وہاں دیکھ لیا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اپنا ہاتھ اس کے سینہ پر مارتے ہوئے فرمایا :-’مَیں ابوبکر کو کھینچ کر بغداد سے باہر نکال رہا ہوں‘-

﴿یہ فرماتے ہی﴾ اس کے تمام احوال و معاملات سلب ہو گئے- اس کی تمام منزلیں اس سے چھپ گئیں اور وہ ’’عراق‘‘ کی طرف چلا گیا- وہ جب بھی بغداد آتا اور اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتا تو منہ کے بل گر پڑتا تھا اور اگر کوئی اسے داخل کرنے کے لیے اٹھاتا تو وہ دونوں اکٹھے گر جاتے﴿۲﴾- اس کی ماں روتی ہوئی شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے بیٹے سے ملاقات کا شوق اور اس تک چل کر جانے سے اپنی معذوری کا اظہار کرنے لگیں- پس آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے سر مبارک کو جھکایا پھر فرمایاکہ :-

ہم اسے اجازت دیتے ہیں کہ وہ عراق سے بغداد آئے اور تمہارے گھر کے درمیان میں سے تمہارے ساتھ بات چیت کرے‘-

راویوں نے بتایا کہ وہ ہر ہفتہ میں ایک بار عراق سے ﴿بغداد﴾ اپنی ماں کے گھر تک زمین کے نیچے سے آتا اور ان کے ساتھ بیٹھتا-

پھر شیخ عدی بن مسافر نے قضیب البان کو شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں بھیجا تاکہ وہ اس کی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس سفارش کریں- پس آپ نے اس کے بارے میں نجات کا وعدہ فرما لیا-

شیخ مظفر جمال اور ابوبکر رحمہما اللہ کے درمیان لگائو اور پیار تھا- ایک واقعہ میں شیخ مظفر کو اللہ رب العزت کی رئویت نصیب ہوئی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ:-’ اے میرے بندے! مجھ سے جو مانگتے ہو مانگو‘-

انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! میری خواہش ہے کہ میرے بھائی ابوبکر کی پہلے والی حالت لوٹا دے-

اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ’یہ میرے دنیا و آخرت کے دوست ﴿ولی﴾ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی موجودگی میں ہی ہوگا- تم اس کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ آپ سے آپ کا رب کہتا ہے مَیں ابوبکر سے راضی ہو گیا ہوں تم بھی اس سے راضی ہو جائو‘-

﴿ واقعہ میں﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ’ اے مظفر! زمین میں میرے نائب اور وارث شیخ عبد القادر سے کہنا کہ تم سے تمہارا نانا کہتا ہے کہ ابوبکر کو اس کی حالت پر واپس لوٹا دیں- بے شک تم میری شریعت کے معاملے میں ہی ناراض ہوتے ہو اور اب میں نے اسے ﴿معافی﴾ عطا کر دی ہے‘-

جب وہ ﴿شیخ مظفر﴾ اس واقعہ کے کشف سے باہر نکلے تو خوشی خوشی ابوبکر کی طرف چلے تاکہ انہیں تسلی دیں- اُنہیں بھی اس واقعہ کے تمام معاملے کی خبر ہو چکی تھی حالانکہ اس سے پہلے اپنے حال کے سلب ہوجانے کے بعد اُنہیں کوئی مکاشفہ نہیں ہوا تھا- ان دونوں کی آدھے راستے میں ہی ملاقات ہو گئی اور وہ دونوں شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ’ اے مظفر ! اپنا پیغام پہنچائو‘-

 اس نے وہ سارا بیان کیا جو واقعہ میں پیش آیا تھا اور ﴿جب﴾ اس میں سے کچھ بھول گیا تو شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اُسے ابوبکر کی ناپسندیدہ امور سے توبہ کی ترغیب دلانا یاد کرایا- پھر اُس ﴿ابوبکر﴾ کو سینے سے لگایا تو اُس نے وہ سب کچھ پا لیا جو کھویا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ پا لیا-

ہم نے ابو بکر سے پوچھا کہ تم اپنی والدہ کے پاس کیسے آیا کرتے تھے تو انہوں نے کہا کہ جب میں ان کی زیارت کا ارادہ کرتا تو مجھے اٹھا لیا جاتا تھا اور میں زمین کے اندر ایک سانپ بنا رہتا یہاں تک کہ مجھے اپنی والدہ کے پاس لایا جاتا- پس میں ان سے باتیں کرتا- پھر مجھے اسی طرح جیسے لایا گیا تھا ، اٹھایا جاتا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ پر لوٹ آتا تھا‘‘-

راویوں نے ﴿شیخ عباد کا معاملہ بتاتے ہوئے﴾ کہا کہ:-

’’ عباد ﴿اکثر فخر سے﴾ یہ کہا کرتا کہ ’شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ان کے باطن کا وارث مَیں ہوں گا‘- شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:-’اے عباد! مَیں تجھے تمہارے قمیص کی گوٹ سے ﴿پکڑ کر﴾ پھینکوں گا اور ﴿تجھے ﴾ ہجر و فراق کے گھوڑوں کا سوار بنا دوں گا تو اپنی صفات کی چراگاہ میں ہی گھومتا رہے گا-‘

اُس کا ہاتھ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ہاتھ میں بے جان ہو گیا- اس کا تمام حال سلب ہو گیا اور تمام معاملات مفقود ہو گئے- وہ اسی حالت میں کافی عرصہ تک رہے- اسی دوران شیخ جمیل بدوی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک رات خلوت میں اچانک کوئی چیز وارد ہوئی اس میں سے شدید چمک دار نور ظاہر ہوا- وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اور ادراک رکھتا ہے- پس اسے عالمِ ملکوت کی طرف لے جایا گیا اور ایک مجلس تک پہنچ کر رک گیا- اس مجلس میں مشائخ جمع تھے جن میں سے کچھ کو وہ پہچانتا تھااور کچھ کو نہیں جانتا تھا- ان پر نرم ہوا چلی اور انہیں مدہوش کر دیا- انہوں نے کہا کہ یہ پاکیزہ مقام شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے- اس کے کانوں میں یہ بات بھی پڑی کہ یہ وہ بلند مقام ہے جس کے وصف کا ادراک کوئی محبوب نہیں کر سکتا- یہ ایسا وصف ہے جسے کوئی غائب شخص اپنے علم سے نہیں پا سکتا- اس مقام میں ایک بولنے والا یہ کہتے ہوئے بولا کہ اے میرے رب! مَیں اپنے بھائی عباد ﴿کی معافی﴾ کا تجھ سے سوال کرتا ہوں- اس کے کان میں یہ بات بھی ڈالی گئی کہ اس کے حال کو صرف وہی لوٹا سکتا ہے جس نے اسے سلب کیا ہے-

﴿یہ سب منظر دیکھ کر﴾ شیخ جمیل اپنی بشریت والی حالت میں لوٹ آئے اور شیخ ﴿سیّدنا غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس سے کہا کہ :-

 ’اے جمیل! تم نے عباد کے بارے میں عرض کیا ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ:- ’اسے میرے پاس لائو‘-

جب انہیں لایا گیا تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ:-’ اے عباد! حاجیوں کے ساتھ پیدل سفر اختیار کر- یہ اس وقت کرنا جب عراقی سوار بغداد سے نکل جائیں‘-

 پس وہ ان کے ساتھ ’’فید‘‘ کے مقام تک چلے تو وہاں ایک درخت نظر آیا جس سے انہیں وجد طاری ہو گیاپس اس نے چیخ ماری اور اسی سماع میں گھومنے لگا یہاں تک کہ اپنے وجد میں ہی اپنے وجود سے غائب ہو گیا- اس کے جسم کے مسام کھل گئے اور ان سے خون نکلنے لگا یہاں تک اس کے قدموں میں جاری ہو گیا- پھر اس ﴿کے بعد اس﴾ کی حالت بہتر ہوئی اور اسے اس کے باطنی احوال دوگنے ہو کر واپس ملے-

شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت جمیل سے فرمایا کہ:-’اللہ عز و جل نے ’’فید‘‘ کے مقام پر عباد کے ﴿باطنی﴾ حال کو دوگنا کرکے لوٹا دیا ہے- مَیں نے اللہ کی قسم کھائی ہوئی تھی کہ اس کے حال کو اس وقت تک نہیں لوٹائوں گا جب تک وہ ہجر و فراق کے خون میں غوطے نہ لگائے اور آج وہ خون میں لت پت ہے ‘‘-

راویوں نے ﴿شیخ عباد کے بارے مزید﴾ بتایا کہ:-

’’ ﴿شیخ﴾ عباد حاجیوں کے ساتھ ’’فید‘‘ کے مقام تک چلا ہی تھا کہ عرب ڈاکوئوں نے ان پر حملہ کر دیا- حضرت عباد جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو چیخ پڑتے- پس وہ عربیوں کو شکست دینے کے لیے چیخے کہ وہ چیخ ان کی اپنی موت کا باعث بن گئی اور وہ اسی جگہ فوت ہو گئے- ’’فید‘‘ میں حاجیوں کے درمیان اس کی موت کا تذکرہ ہونے لگا اور انہوں نے ان کو وہیں مدفون کر دیا‘‘-

راویوں نے ﴿مزید﴾ بتایا کہ:-

’’شیخ محی الدین عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ ان دونوں واقعات کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ میرے حال میں دو لوگوں نے مجھ سے جھگڑا کیا پس مَیں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں ان دونوں کی گردنیں اڑا دیں‘‘-

﴿ایک روایت﴾ منقول ہے کہ:-

’’شیخ الکبیر ، ابو الحسن علی بن الہیئتی ایک دن شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آستانہ پر تشریف لائے اور دہلیز پر ایک نوجوان دیکھا جو پشت کے بل لیٹا پڑا تھا- اس نے شیخ علی کو عرض کیا کہ میری شیخ عبد القادر کے پاس سفارش فرما دیں- جب جناب علی الہیئتی شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس تشریف لائے تو اس کا تذکرہ کیا-آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :-’مَیں نے آپ کی خاطر اسے معافی عطا کر دی ‘-

شیخ علی اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے بارے میں ہم نے سفارش کر دی ہے- وہ کھڑا ہوا اور دہلیز کے روشن دان سے نکل گیا اور ہوا میں اڑنے لگا-

شیخ ﴿علی﴾ نے عرض کیا کہ یہ کون ہے؟ تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :- ’یہ ’’عبر‘‘ ہے جو ہوا میں چلتا ہے‘-

پھر ﴿ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ﴾ اپنے دل میں خیال کیا کہ بغداد میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس کے حال کو سلب کر سکے اور اگر شیخ علی نہ ہوتے تو مَیں اسے معاف نہ کرتا‘‘-

مشائخ کی ایک کثیر تعداد نے خبر دی ، جن میں سے آخری آخری ابو سعود حریمی، شیخ عثمان القصیر ، شیخ عبد الغنی بن نقطہ، شیخ عثمان صریفنی، عمران، شیخ علی بن ازدمر محمدی اور شیخ علی السقا تھے- ان سب نے کہا کہ:-

ہمارے شیخ، سیّدنا محی الدین عبد القادر الجیلانی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ بدھ کے روز ملاقاتوں کے لیے تشریف لے گئے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ساتھ فقرائ اور فقہائ کی ایک کثیر تعداد بھی تھی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ شیخ حماد الدباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر پر کافی دیر تک تشریف فرما رہے حتی کہ گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہو گیا اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے تھے- جب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ واپس پلٹے تو آپ کے چہرے پر خوشی صاف نظر آ رہی تھی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے اس طویل قیام کے بارے عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ:-

’’﴿ایک دفعہ﴾ مَیں جمعہ کے روز شیخ حماد الدباس کے ساتھیوں کے ہمراہ ’’الرصافہ‘‘ کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نکلا تھا- شیخ حماد الدباس بھی ہمارے ساتھ ہی تھے- جب ہم نہر کے بڑے پل پر پہنچے توانہوں ﴿شیخ الدباس﴾ نے مجھے دھکا دے کر پانی میں پھینک دیا حالانکہ وہ پانی شدید ٹھنڈا تھا- مَیں نے پڑھا ﴿بسم اللّٰہ غسل الجمعہ﴾- مَیں نے اُون ﴿صوف﴾ کا جُبّہ پہنا ہوا تھا اور میرے ہاتھ میں بھی کچھ ﴿قیمتی﴾ چیزیں تھیں- مَیں نے ہاتھ کوبلند کر لیا- وہ سب ﴿ان کے ساتھی﴾ مجھے ﴿اکیلا﴾ چھوڑ کر چلے گئے- مَیں نے پانی سے نکل کر جُبّہ نچوڑا اور ان کے پیچھے چل پڑا- ﴿اس دن﴾ سردی سے مجھے بڑی سخت تکلیف پہنچی- اس ﴿شیخ الدباس﴾ کے ساتھیوں نے مجھے ﴿مارنے تک کا﴾ ارادہ کیا تو اس نے روک دیا اور کہا کہ مَیں ان ﴿شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو آزمائش کرنے کے لیے تکلیف دیتا ہوں پس مَیں نے انہیں پہاڑ کی طرح مضبوط پایا ہے جو اپنی جگہ سے نہیں ہلتا- اور ﴿عرصہ دراز کے بعد﴾ آج مَیں نے انہیں ﴿الشیخ الدباس﴾ کو ان کی قبر میں دیکھا ہے کہ اس پر جواہرات کی پوشاک ہے، اس کے سر پر یاقوت کا تاج ہے، اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں، اس کے پائوں میں سونے کی جوتیاں ہیں ﴿لیکن﴾ ان کا دائیاں ہاتھ ان کی اطاعت نہیں کرتا ﴿یعنی وہ مفلوج تھا﴾- مَیں نے ﴿اُن سے﴾ پوچھا کہ یہ ایسا کیوں ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ اسی ہاتھ سے مَیں نے آپ کو دھکا دیا تھا- کیا آپ مجھے میری یہ خطا معاف کر سکتے ہیں؟ مَیں نے کہا جی ہاں- پس مَیں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ وہ اسے اس کا ہاتھ لوٹا دے- پس مَیں آج ان کی مغفرت کے لیے کھڑا تھا اور ﴿میرے ساتھ﴾ پانچ ہزار اَولیائ اللہ بھی اپنی قبروں میں کھڑے اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے تھے کہ وہ ان کے بارے میں میرا سوال قبول فرما لے اور وہ سب اس سارے معاملے میں میرے پاس سفارش بھی کر رہے تھے- ﴿اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ﴾ مَیں اس جگہ کھڑا ہو کر اللہ عزوجل سے مسلسل عرض کر رہا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ کو درست فرما دیا اور اس نے مجھ سے اس کے ساتھ سلام بھی لیااور اس کی خوشی دوبالا ہو گئی‘﴿۳‘‘-

راویوں نے ﴿اس واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے﴾ فرمایا کہ:-

جب اس بات کی شہرت بغداد میں پھیلی تو بغداد میں شیخ الدباس کے ساتھی مشائخ اور صوفیائ اکٹھے ہو گئے تاکہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بات کی تحقیق کریں جو انہوں نے شیخ الدباس کے متعلق فرمائی ہے- راویوں نے بتایا کہ ان کے پیچھے فقرائ کا ایک ہجوم بھی مدرسے میں اکٹھا ہو گیا- ان میں سے کوئی بھی شیخ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے رعب و جلال کی وجہ سے بات کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ان کے مقصد کی بات کا آغاز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:-

’’تم مشائخ میں سے ﴿کسی﴾ دو کو منتخب کر لو تاکہ ان کی زبان سے تم پر وہ بات واضح ہو جائے جو مَیں نے کہی ہے‘‘-

انہوں نے ابو یعقوب یوسف بن ایوب ہمدانی ، جو اسی روز بغداد میں تشریف لائے تھے اور شیخ ابو محمد عبد الرحمن بن شعیب الکُردی پر اتفاق کیا- یہ دونوں صاحبانِ کشف، صاحبانِ کرامت اور بلند احوال کے مالک تھے- اُن سب نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو عرض کیا کہ ہم آپ کے اس بیان کی انہی دو ﴿مشائخ﴾ کی زبان پر اجتماعی تصدیق چاہتے ہیں ﴿ حالانکہ وہ اس وقت ان کے ساتھ بھی نہ تھے﴾- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :-

’’بلکہ تمہارے اس جگہ سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس معاملے کی تحقیق تم پر واضح ہو جائے گی‘‘-

 اور ﴿یہ فرما کر﴾ آپ نے سر مبارک جھکا لیا اور انہوں نے بھی سر جھکا لیے کہ فقرائ مدرسے کے باہر سے چلّائے کہ ﴿اچانک﴾ شیخ یوسف ننگے پائوں مدرسے میں دوڑتے ہوئے داخل ہوئے اور فرمایا کہ:- اللہ عز و جل نے مجھے ابھی شیخ الدباس کا مشاہدہ کروایا جس نے مجھے کہا کہ:- اے یوسف ! جلدی سے شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے مدرسے پہنچو اور وہاں پر موجود مشائخ کو بتائو کہ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے میرے بارے میں جو خبر دی ہے وہ سچ ہے- ابھی شیخ یوسف اپنی بات مکمل ہی نہیں کر پائے تھے کہ شیخ عبد الرحمن تشریف لائے اور وہی بات کی جو شیخ یوسف نے کہی- پس ﴿یہ سن کر﴾ تمام مشائخ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معافی کے طلب گار ہوئے -

شیخ ابو عبد اللہ محمد بن خضر حسینی موصلی نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ :-

’’مَیں نے شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی تیرہ سال خدمت کی ہے جس میں، مَیں نے ان کی کئی کرامات دیکھیں جن میں ایک یہ کہ جب حکیم کسی مریض کو لا دوا قرار دے دیتے تھے تو وہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس لایا جاتا پس آپ اس کے لیے دعا فرماتے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرتے تو وہ آپ کے سامنے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا تھا- ایک مرتبہ ایک استسقائ کا مریض لایا گیا جو امام المستنجد کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا- اس کا پیٹ پھول چکا تھا جس پر آپ نے ہاتھ رکھا تو پیٹ سکڑ کر ایسے ساتھ لگ گیا جیسے اسے کوئی بیماری ہی نہ تھی ‘‘-

ایک مرتبہ شیخ ابو العالی احمد بن مظفر بن یونس البغدادی الحسینی آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے کو پندرہ ماہ سے بخار ہے کیا آپ ان کا بخار ختم نہیں فرمائیں گے جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے- آپ نے فرمایا کہ جائو اور اس کے کان میں کہو

﴿یا ام ملدم یقول لک عبد القادر ارتحلی عن ولدی الی الحلّۃ﴾

’’اے ملدم کی ماں! تجھے عبد القادر یہ کہتا ہے کہ تو میرے بیٹے سے نکل کر ’حلّہ‘ کی طرف چلی جا‘‘-

پس اس کا بیٹا تو ٹھیک ہو گیالیکن یہ خبر پہنچی کہ ’’حلّہ‘‘ والے بہت زیادہ بیمار رہنے لگے‘‘-

شیخ العارف ابو عبد اللہ محمد بن ابو الفتح الہروی السیّاح سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:-

’’مَیں شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کھڑا تھا کہ مجھے بلغم کا کھنکھار آیا جسے میں نے تھوک دیا- پھر مجھے حیا آئی اور مَیں نے دل میں سوچا کہ آپ ﴿سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی موجودگی میں تھوک رہا ہوں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ :- ’اے محمد! تجھ پر کوئی حرج نہیں اور آج کے بعد یہ بلغم نہیں آئے گی اور نہ تھوک ہوگی‘-

اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے تراسی ﴿۳۸﴾ سال ہو گئے ہیں نہ مجھے بلغم آئی نہ مَیں نے تھوکا‘‘-

اُنہوں نے مزید فرمایا کہ:-

’’آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ مجھے لمبا محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے- ﴿ایک دن﴾ مَیں نے آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی بارگاہ میں عرض کی کہ حضور! مَیں تو لوگوں میں چھوٹے قد کا ہوں تو آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ تم لمبی عمر اور لمبے سفروں والے ہو‘‘-

شیخ محمد ایک سو سینتیس ﴿۷۳۱﴾ سال زندہ رہے- اُنہوں نے اپنی سیر و تفریح میں کئی عجائبات دیکھے اور کوہِ قاف تک پہنچے- وہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے خادم ہیں-

راویوں نے کہاکہ کسی سال دریائے دجلہ کا پانی بڑھ گیا اور بغداد ڈوبنے کے قریب ہوگیا تو لوگ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے اور اس معاملہ کی مدد طلب کرنے لگے- آپ نے اپنا عصا ﴿عکازہ﴾ اٹھایا اور کنارے کی طرف تشریف لے گئے- وہاں پانی کی حد لگاتے ہوئے عصا گاڑھ کر فرمایا کہ:-’ بس یہاں تک‘- پس اسی وقت پانی نیچے اتر گیا-

ایک روایت منقول ہے کہ دو کجھور کے باغ خشک ہو گئے اور چار سال سے پھل نہ دیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے- ایک میں وضو فرمایا اور دوسرے میں دو رکعت نماز ادا فرمائی پس وہ ہفتوں میں سر سبز ہوگئے، پتے نکالے اور پھل بھی دیا-

اِس طرح کی حکایات بھی بہت زیادہ ہیں- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے ہر طرح کی کرامات، خارقِ عادات منقول ہیں جو اِس حد تک کثیر ہیں کہ زبان اُن کے بیان سے عاجز ہے اور قلم اُن کے لکھنے سے ، لہٰذا ہم اُن سب کے ذکر سے معذرت کرتے ہوئے اسی پر اکتفائ کرتے ہیں جیسا کہ اُن کو دیکھنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے ﴿کہ وہ بے انتہائ کثیر ہیں﴾- اللہ تعالیٰ ہمارا ہادی ہے اور وہی حق بیان فرماتا ہے اور سیدھے راستے پر چلاتا ہے-

﴿جاری ہے---

 

توضیحی نوٹ از مترجم:

﴿۱﴾ ﴿یقینا وہ لڑکی بے پردہ ہو کر نکلی ہوگی اور گزرتے ہوئے اس سرکش جن کی اس پر نظر پڑ گئی ہو گی تبھی یہ معاملہ پیش آیا- اسی لیے شریعت نے خواتین کو زیادہ سے زیادہ خود کو ڈھانپ کر رکھنے کا حکم دیا ہے تاکہ کسی سرکش کی اُس پر نظرِ بد نہ پڑے اور کوئی نافرمان حیلوں بہانوں یا چکنی چپٹی باتوں سے اسے اپنے جال میں پھنسا کر اغوائ نہ کر لے- اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا پردہ عورت کے لیے وبال نہیں بلکہ سرکشوں اور نافرمانوں سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہوتا ہے-

﴿۲﴾ ﴿شریعت کا سیّدنا غوث الاعظم کی بارگاہ میں شکایت کرنا اور اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس قدر سخت ایکشن لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سچے اور حقیقی صوفی کو شریعت سے کس حد تک لگائو ہوتا ہے﴾-

﴿۳﴾ ﴿اس واقعہ سے ان ل?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر