عادل و ہمہ گیر قیادت کی تربیت کا قرآنی معیار(فکری خطاب )

عادل و ہمہ گیر قیادت کی تربیت کا قرآنی معیار(فکری خطاب )

عادل و ہمہ گیر قیادت کی تربیت کا قرآنی معیار(فکری خطاب )

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جون 2015

(گزشتہ سے پیوستہ)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَo} (الاحقاف:۱۳)

’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے-‘‘

جنہوں نے کہاکہ ہمارے رب ، ہمارا پروردگار اور ہماراپالنے والا اللہ ہی ہے جنہوں نے اپنی زندگی کی ساری توقعات اوراُمیدیں ماسوی اللہ سے اٹھاکے صرف اللہ پر قائم کردئیں یعنی توکل علی اللہ کرتے ہیں اوراللہ کے ہوجاتے ہیں ،جو صرف اللہ کے دستور، قانون اورآئین کومانتے ہیں،جو اللہ کے آئین کے مقابل آنے والے دنیاوی آئینوں کومسترد کر دیتے ہیں ،جو سیکولرازم ،لبرل ازم ،سوشلزم ،کیمونزم اوردُنیاکے دیگر نظاموں کوٹھکرا کرصرف ایک دین یعنی اللہ کے پسندیدہ دینِ اِسلام پر قائم دائم ہوجاتے ہیں، صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں ، اللہ کے قوانین کی بالادستی کے لئے ،اللہ کی کتاب کی بالادستی کے لئے ،اللہ کے دستورکی بالادستی کی جدوجہد کرتے ہیں اوراللہ فرماتے ہیں کہ پھر اس پر استقامت سے کھڑے ہوجاتے ہیں توآسمان سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں،وہ فرشتے بشارت دیتے ہیں کہ خوف چھوڑدو ،باطل کاخوف چھوڑ دو، سپر طاقتوں کاخوف چھوڑدو،ان جھوٹے خدائوں کاخوف چھوڑ دو،ان جھوٹے بالادستوں کاخوف چھوڑ دو،خداسے غداری اورنافرمانی کرنے والوں کاخوف چھوڑ دو اور کسی بھی طرح کاغم نہ کرو ،اللہ تعالیٰ اس دُنیا میں بھی عزت کی جنت سے سرفراز کرے گاآخرت میں بھی اللہ تعالیٰ تمہیں وہ جنت عطا کرے گاجس کااس نے تم سے وعدہ کیاہے اورپھر ملائکہ بتاتے ہیں کہ اے اللہ کے بندے! ہمیں اللہ نے اب تمہارا دوست بنادیاہے ،اب ہم تمہارے دوست بن گئے ہیں اس دنیامیں بھی ہم تمہارے دوست بن گئے اورآخرت میں بھی ہم تمہارے دوست بن گئے -آخرت میں توملائکہ کی دوستی کافائدہ سمجھ آتا ہے لیکن اس دنیا میں ملائکہ کی دوستی کس کام آتی ہے اورکیامدد کرتی ہے ؟تو فرشتے دُنیوی زندگی میں کیامدد کرتے ہیں ؟سورۃ آل عمران میں جہاں اللہ تعالیٰ نے غزرہ بدرکا واقعہ بیان کیا:

{وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اﷲُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج فَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo}(اٰل عمران:۱۲۳)

’’اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالاں کہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے، پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جائو-‘‘

اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ان کوفرمادیجئے کہ ہم نے تمہیں بدرمیں فتح عطاکی جبکہ تم تعداد میں تھوڑے تھے جبکہ تمہاری وقعت کفارکی نظر میں کم تھی ہم نے تم کو اس لئے فتح عطا کی تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بن جائو-

{ اِذْتَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّ کُمْ رَ بُّکُمْ بِثَلٰـثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَo}(اٰل عمران:۱۲۴)

’’جب آپ مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے-‘‘

اے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم !جب آپ مومنین کویہ فرماتے تھے کہ تین ہزار ملائکہ اتارکراللہ تمہاری مدد فرمائے گا-کہاں پر؟میدان بدر میں -

{بَلٰٓیلا اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَ بُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَo}(اٰل عمران:۱۲۵)

’’ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ہاں کیوں نہیں اگرتم صبر کرو گے اگرتم تقوی اختیارکروگے اوراسی دم اگر کافرتم پہ آپڑے تواللہ نشانی لگے ہوئے پانچ ہزار ملائکہ اتارکے تمہاری مدد فرمائے گا اوراللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی- اللہ تعالیٰ نے کس لئے تمہاری مدد فرمائی؟

{وَمَا جَعَلَہُ اﷲُ اِلَّا بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوْ بُکُمْ بِہٖ ط وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اﷲِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِo}(اٰل عمران:۱۲۶)

’’اور اللہ نے اس (مدد) کو محض تمہارے لیے خوشخبری بنایا اور اس لیے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا غالب حکمت والا ہے-‘‘

 اس لئے تمہاری مدد فرمائی تاکہ اللہ تمہیں خوش کردے اور اس سے تمہارے دلوں کواطمنان بخش دے -مفسرین و فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ اگراللہ تعالیٰ نے کفار کو ہلاک کرنا ہوتا تو ایک ہی فرشتہ کفارکوہلاک کرنے کے لئے کافی تھاپھر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ مَیں نے تمہاری طرف پانچ ہزار نشانی لگے فرشتوں سے تمہاری مدد کی وہ پانچ ہزار فرشتے میں نے اس لئے تمہاری طرف بھیجے کہ میں تمہیں خوش کردوں کیونکہ تم نے میری بندگی کاحق اداکیا،تم نے اپنے مقام انسانیت کی تکمیل کرلی ، تم نے اپنے ظاہر کو بھی مکمل کردیااورتم نے اپنے باطن کوبھی مکمل کردیااورتم یہ جانتے ہو کہ تمہارا پروردگاریہ وعدہ کرتا ہے کہ مَیں جس سے خوش ہوجاتا ہوں میں اس کی جانب اپنی مدد کے ملائکہ بھیجتاہوں -اللہ تعالیٰ تمہیں بتانا چاہتاتھاکہ تم نے اللہ کی رضاکی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا تم نے اللہ کی رضا پہ اپنی رضا کوقربان کردیا ہے اور اپنی چاہت کو اُس کی چاہت کے سپرد اور تابع کر دیا ہے - اللہ تمہیں یہ بتانا چاہتاہے کہ اللہ نے یہ ملائکہ تمہاری مدد کے لئے اس لئے بھیجے ہیں تاکہ اللہ تمہیں یہ نشانی دے دے کہ اللہ تم پہ خوش ہے اور تم پہ راضی ہے اورمیں نے ان ملائکہ کے ذریعے تمہیں ایک فتح مبین عطاکردی ہے -ہماری اُمت کاحکیم اورنبض شناس حضرت علامہ محمداقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ اے مسلمان توبھی اگرپہلے اس مکی دور سے گزرے اورمکی دور سے گزرنے کامطلب ہے کہ

بانشۂ درویشی درساز ودمادم زن

چوں پختہ شوی خود رابرسلطنتِ جم زن

جب تو اپنے نفس کاتزکیہ کرلے ،جب تو اپنے دل کوصاف کرلے ،جب تو اپنے سینے کوروشن کرلے ،جب تو اپنی رُوحانیت یعنی رُوح کو بیدار کرلے، جب تجھے اللہ کاعرفان نصیب ہوجائے ،جب (حضرت حارث بن مالک انصاری کی مذکورہ روایت کے تحت) تُواُس کے عرش کودیکھنے لگے ،جب تجھے جنت کے نظارے نصیب ہوں، جب تمہیں جہنم کے عذاب یافتہ لوگوں کی پکاریں سنائی دیں، جب تیرادل اللہ کی محبت کے علاوہ تمام محبتوں سے بے رغبت ہوجائے جب تیرے دِن محبتِ الٰہی کے اِضطراب اور تیری راتیں یادِ الٰہی اور ذِکرِ اِلٰہی کی حلاوت میں گزریں گویاجب تیرا تزکیہ ہوجائے، جب تیرا باطن روشن ہوجائے اس کا مطلب ہے کہ تم نے اصحابِ بدر کی سنت کواپنالیاہے اورجب تُواس سنت کواپنا کے اللہ کی خلافت کے قیام کے لئے ،اللہ کے دین کے نفاذکی جدوجہد کے لئے نکلے تواللہ کایہ تجھ سے وعدہ ہے جسے اِقبال نے اس طرح شعری قالب میں ڈھالا ہے :

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

سوال یہ ہے کہ !فضائے بدر کیاتھی ؟کیا فضائے بدر دولت کی ریل پیل کانام تھا؟کیافضائے بدر اسلحہ کی بھرمارکانام تھا؟کیافضائے بدرتلوارں کی کثرت کا نام تھا؟کیافضائے بدر تیروں کی فروانی کانام تھا؟کیافضائے بدردیوہیکل نیزوں کواُٹھانے کانام تھا؟کیافضائے بدر ایک بہت بڑے لشکرِ جرار کانام تھا ؟ فضائے بدرکس کانام تھا؟فضائے بدر دولت کی ریل پیل نہیں تھی ،تلواروں کی کثرت کانام نہیں تھا، فضائے بدر دیوہیکل نیزوں کانام نہیں تھا،فضائے بدرکسی لشکر ِجرار کانام نہیں تھا،فضائے بدراسلحہ کی بھرمار،تیروںکی فراوانی کانام نہیں تھا - بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا مسلمانوں کے پاس چند زنگ آلودہ تلواریں تھیں ،نیزوں کے پھل ٹوٹے ہوئے تھے، لشکر بھی انتہائی قلیل تھا،استعمال شدہ تیر تھے، غربت اورافلاس تھی، نہ گھوڑے پورے تھے نہ اونٹ پورے تھے، ایک ہزار کے مقابلے میں صرف تین سو تیرہ کاقلیل لشکر تھا-پھر فضائے بدرکیاتھی؟

یاد رکھئے ! فضائے بدر قوتِ مومنانہ کانام ہے جسے صحابہ کرام حقیقتِ ایمان کہتے تھے (جیسا کہ اِس سے قبل بیان ہوا ) حضرت حارث بن مالک انصاریؓ کہتے ہیں کہ مَیں خداکے عرش کوبلاحجاب دیکھتاہوں -فضائے بدرحضرت ابوبکر کی اس فضیلت کانام تھاکہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ صدیق اکبرؓ کی فضیلت فقط کثرت ِصوم صلوٰۃ سے نہیں بلکہ صدیق اکبرؓ کی فضیلت صدیق اکبرؓ کے سینہ ٔ مبارک کے راز کی وجہ سے ہے- فضائے بدر ان صحابہ کرام کے تزکیۂ باطن کانام تھا، فِضائے بدر یہ تھی کہ اُن کے دل روشن تھے ،اُن کی رُوحیں منور تھیں ،انہیں عرفانِ حق نصیب تھا-انہیں آقاپاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کاادب ،محبت اورعشق نصیب تھا-آپ تاریخِ اسلام کاتجزیہ کریں جس بھی قائد کوکامیابی اورفلاح نصیب ہوئی اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُن قائدین کاتزکیہ ہوچکاتھا-بڑی بڑی اِسلامی تحریکیں چلیں مگر صرف وہی کامیابی سے ہمکنارہوئیں جنہیں رُوحانی قیادت نصیب تھی- امیر المؤمنین سیّدنا حضرت عمر کی مثال لیں کہ ان کی روحانی قوت اورطاقت کاسرچشمہ بھی تزکیۂ باطن اورروحانی بیداری تھی-حضرت عمرکے دور مبارک میں زلزلہ آیا،زلزلہ کی شدت اتنی تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ زمین پھٹ جائے گی-حضرت عمر ؓنے زمین پہ کھڑے ہوکر ؒاللہ تعالیٰ کی حمد و ثنابیان کی، زلزلہ نہیں رُکا،لوگوں پہ خوف طاری رہا،آخرکارحضرت عمر ؓنے اپنادُرّا اُٹھایازمین پر دُرّا پٹختے ہیں اورزمین کومخاطب کرتے ہیں کہ{قَرِّی اَلَمْ اَعْدِ ل عَلَیکَ}  اے زمین! تو کیوں تھم نہیں جاتی کیوں رک نہیں جاتی ؟کیا عمر نے تم پر عدل نہیں کیا - میں تمہیں (زمین)کو حکم دے رہا ہوں آخر توتھم کیوں نہیں جاتی - تجھ پہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کررہا ہوں تورک کیوں نہیں جاتی -اے زمین کیامیں نے تجھ پہ عدل نہیں کیا؟جب حضرت عمر نے یہ فرمایاتو زمین فوراً تھم گئی اورزلزلہ رک گیا-ایسے قائدین تھے کہ جنہوں نے خلافت قائم کی ،جن کے باطن روشن تھے ،جن کے ضمیر روشن تھے ،جن کے قلب بیدار تھے-   

اکثر مقررین اپنی شعلہ بیانی کے ثبوت میں اقبال علیہ الرحمہ کے مذکورہ شعرکوپڑھتے ہیں لیکن فضائے بدرکوسمجھو کہ فضائے بدر کیاتھی ؟فضائے بدر صحابہ کرام کا تزکیہ تھا، صحابہ کرام کاتقویٰ تھا،صحابہ کرام کی روشن دلی تھی، ان کی بیداریٔ روح تھی، فضائے بدر اسی کانام تھاکہ زمین کی ہرچیز پہ ان کاحکم لاگوتھا-حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخِ انسانی کی واحد شخصیت ہیں ،تاریخ انسانی کے واحد حکمران تھے جنہوں نے ریت کے ذروں اورپانی کے قطروں کومخاطب کرکے خط لکھا جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حاکمِ مِصر تھے اور نیل میں پانی کا بہاؤ بڑھانے کیلئے لوگ انسانی قربانی کرنا چاہتے تھے تو حضرت فاروقِ اعظم کی قُوّتِ باطنی نے جب رُودِ نیل کو للکارا اُس کے پانی کے قطروں اور ریت کے ذرّوں کو مُخاطب کیا تو نیل ۱۶ / گز کے بہاؤ پہ بہتا رہا -ہرقلِ روم جب پے بہ پے شکستوں پہ اُکتاچکاتواپنے درباریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :

{قَالَ فَمَا بَالُکُمْ تَنْھَزِمُوْنَ؟  فَقَالَ شَیْخٌ مِنْ عُظَمَا ئِھِمْ مِنْ اَجْلِ اَنَّھُمْ یَقُوْمُونَ اللَّیْلَ وَیَصُوْمُوْنَ النَّھَارَ وَ یُوْفُونَ بِالْعَھْدِ وَ یَأْ مُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیَتَنَاصَفُوْنَ بَیْنَھُمْ یَرْ کَبُوْنَِ خُیُولًا عِتَاقْ ، اَمَّا اللَّیْلُ فَرُھْبَانْْ وَاَمَّا النَّھَارُ فَفُرْسَانْ، یَرِیْشُوْنَ النَّبْلَ وَ یَبْرُوْنَھَا وَ ُیثَقِّفُوْنَ الْقَنَائْ }

’’میرے سالاروں کو کیاہوگیاہے کہ تم شکست پہ شکست کھائے جارہے ہو؟مسلمان تمہیں شکست پہ شکست دئیے جارہے ہیں وجہ کیا ہے؟ ان کے دربار کے پاپاؤں میں سے ایک نے کھڑا ہو کر کہا کہ ہم ان سے اس لئے پے بہ پے شکست کھارہے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو راتوں کوعبادت کرتے ہیں اوردن کوروزہ رکھتے ہیں اورجوعہد کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں اورنیکی کاحکم کرتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اورایک دوسرے کے درمیان انصاف کرتے ہیں -اس شب بیداری اورتقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کوہم پہ غالب کردیاہے -ہم توحیران ہیں اگران کوراتوں عبادت کرتے ہوئے دیکھیں تومحسوس ہوتا ہے کہ راہب ہیں اوردن میں گھوڑوں کی پشتوں پہ بیٹھے جہاد کررہے ہوتے ہیں- ‘‘

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے جس کو کہتے ہیں سلطانی!

یہی مقام ہے مومن کی قوّتوں کا عیار

اِسی مقام سے آدم ہے ظلّ سبحانی!

یہی آدم کی خودی ،یہی قلب کی بیداری ،یہی نفس کاتزکیہ جس کی وجہ سے آدم ظل سبحانی بنتا ہے جس کی وجہ آدم زمین پہ انصاف کرتا ہے -مسلمانو! حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے حمس فتح کرنے کے واقعہ کویادکرو - حمس فتح ہوگیا ،قانون کے مطابق لوگوں نے جزیہ دیااتنے میں اطلاع ملی کہ رومی ایک بہت بڑالشکر جمع کررہیں تاکہ وہ مسلمانوں سے اپنی شکست کابدلہ لے سکیں -حضرت ابوعبید ہ بن جراح نے اپنے سالاروں کوجمع فرمایااورمشورہ یہ ہوا کہ حِکمَت اسی میں ہے کہ حمس کوخالی کردیاجائے اورساری فوج کودمشق میں اکٹھاکیاجائے - جب کابینہ میں یہ فیصلہ ہوگیاتوحضرت ابوعبیدہ بن جراح نے جزیہ دینے والے تمام سرداروں کواکٹھا کیاجب وہ تمام اکٹھے ہوگئے توحضرت ابوعبیدہ بن جراح نے وہ تمام جزیہ کی رقم اُٹھائی اورآپ نے جزیہ کی رقم واپس کرتے ہوکہاکہ چونکہ ہم شہر خالی کررہے ہیں اورہمارا معاہدہ تھا کہ ہم تمہاری حفاظت کریں گے جس سے ہم اب قاصر ہیں لہٰذا اب ہم اس جزیہ کی رقم کے حق دارنہیں اوریہ کہہ کر آپ نے جزیہ کی رقم واپس کردی -حضرت ابوعبیدہ سالارِ اعظم اسلامی فوج نے جب یہ رقم واپس کی تو تمام سردار اُن کی ایمانداری سے بہت متأثر ہوئے اوراس میں سے ایک سردار اُٹھااوربے اختیار حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے کندھے ،ہاتھ اوررخساروں کوبوسے دینا لگااور وہ دعاکرتا ہے کہ اے اللہ !اسی قوم کو دوبارہ ہم پر حکمران بنادے جن کے عدل وانصاف کی یہ کیفیت ہے -یہ عدل مسلمانوں میں کس چیز نے پیدا کیا؟

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی

یہ آقاپاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نگاہ کاکمال تھاکہ ان میں دنیا سے بے رغبتی اورایمان کی حقیقت پیدا ہوچکی تھی -

میں اپنی گفتگو کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے آپ تمام نوجوانوں کودعوت دوں گاکہ اگر ہم واقعتا اسلام سے مخلص ہیں اگرہم واقعتا اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تواس طریق کواپنائیں کہ جس طریق سے آقاپاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی تھی کہ پہلے

بانشۂ درویشی درساز ودمادم زن

چوں پختہ شوی خود رابرسلطنتِ جم زن

انہیں نشۂ درویشی میں پختہ کیااوران کاتزکیہ مکمل کیااورپھر ان کوجمشید کی سلطنت عطاکی جب فقر اپنے کمال کوپہنچ جاتا ہے تو وہ ازخود دلیل خسروی بن جاتاہے - چوں بہ کمال می رسد ، فقر دلیلِ خُسروی ست

نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا

یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگہ کی تیغ بازی

اوراقبال کہتے ہیں کہ آج انسان کی ضرورت کیاہے ؟ آج انسانیت کوکیادرکارہے ؟

اِسی میں حفاظت ہے انسانیت کی

کہ ہوں ایک جُنّیدی و اُرد شیری!

اُردشیر بادشاہ تھا جوحکومت کرتا تھا اورجنیدوہ جنید بغدادی تھے جو بہت بڑے فقیر اوراللہ کے ولی تھے - اقبال کہتے ہیں جب ولایت اوربادشاہت مل جائیں گی اسی میں انسانیت کی حفاظت ہے -ہماری بدقسمتی کہ ہمارے درمیان سے ہمارا وِرثہ چھین لیاگیااورآج ہم اقبال کوپڑھنے سے قاصر ہیں -میرے نوجوان ساتھیوں ’’اسرارورموز میں اقبال کی نظم ’’در شرح اسمائے حضرت علی ‘‘پڑھ کردیکھیں ،اقبال اس نظم میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اسمائے مبارکہ کی شرح فرماتے ہیں کہ آقاپاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے نزدیک حضرت علی کامحبوب ترین لقب ابوتراب تھا-جیسے غالب نے بھی کہا تھا کہ

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغول حق ہوں بندگیٔ بوتراب میں

علامہ اقبال حضرت علی کے لقب ’’ابوتراب‘‘ کی حکیمانہ تشریح کرتے ہیں کہ یہ دولفظ ہیں ’’ابو‘‘اور’’تراب‘‘ابو باپ کوکہتے ہیں اورتراب مٹی کوکہتے ہیں علامہ اقبال ابوتراب کے اسم کی تشریخ فرماتے ہیں کہؒ

شیرِحق ایں خاک را تسخیر کرد

ایں گِل تاریک را اکسیر کرد

مرتضیٰ کز تیغ اوحق روشن است

بوتراب از فتحِ اقلیمِ تن است

’’ شیر خدا حضرت علی نے اپنے وجود کی مٹی کوتسخیر کرلیا،اپنی مٹی کوروشن کردیااپنے وجود کوروشن کردیا توانہیں ابوتراب کالقب عطاہوا ،کہ وہ مرتضٰی کے جن کی تلوار سے اللہ نے حق کو زمین پہ غالب کیا انہیں ابوتراب کالقب اپنے وجود کوفتح کرنے سے ملا -‘‘

حکمران باید شدن برخاک خویش

تامئے روشن خوری از تاکِ خویش

’’اگر تونے حکمرانی کے اسرار سیکھنے ہیں توتجھے چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے وجود کوفتح کروجواپنے پانچ یاچھ فٹ کے جسم پہ حکومت نہیں کرسکتاجو اپنی خواہش پہ قابو نہیں کرسکتاوہ قوم کی خواہشات کوکیسے پورا کروائے گا-‘‘

ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

صداقت کے لیے مرنے کی طلب ہے ،حق کودنیا پہ نافذکرنے کی طلب ہے توپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جان پیدا کرو اگرآپ کے پیکر خاکی میں جان نہ ہوگی وہ کمزوراورناتوں ہوگااور اگر اپنے پیکر خاکی پہ اسلام نافذنہیں ہے تودنیا میں کیا اسلام نافذکروگے -؟

ہر کہ در آفاق گردد بو تراب

باز گرداند ز مغرب آفتاب

’’جو بھی آفاق میں ابو تراب ہوجاتا ہے یعنی اپنی مٹی کو فتح کر لیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اُسے یہ طاقت عطا فرمادیتے ہیں کہ وہ مغرب میں ڈوبے ہوئے سورج کو پھر طلوع کر سکتا ہے-‘‘

ہرکہ زیں برمرکبِ تن تنگ بست

چوں نگیںبر خاتمِ دولت نشست 

’’جو بھی اپنے اس بدن کے گھوڑے کواپنے قابو میںکرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس قابل بنادیتے ہیں کہ وہ دنیاکے تخت پہ بیٹھ کراللہ کے احکامات کی روشنی میں عوام میں عدل وانصاف قائم کرسکتاہے -‘‘

مِہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر!

ایّام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر!

’’جو قلندر ہے جو دوریش خود آگاہ ہے وہ ایام کی سواری نہیں ہوتا وہ ایام کاسوار ہوتا ہے وہ ایام کے تابع نہیں ہوتا ایام اس کے تابع ہوتے ہیں -‘‘

حضورغوث الاعظم پیران پیر محی الدین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی خدمت میںکوتوالِ بغداد آکر عرض کرتاہے کہ حضورکوئی نصیحت فرمائیں تاکہ مَیں لوگوں کااحتساب اورمحاسبہ صحیح طورپرکرسکوں حضورغوث پاک نے فرمایا کہ میاں! جو اپنے آپ کا احتساب صحیح نہ کرسکے وہ لوگوں کاکیا محاسبہ کرے گا؟

حکمران باید شدن برخاک خویش

تامئے روشن خوری از تاکِ خویش

جواپنا احتساب نہیںکرسکتا وہ لوگوں کاکیااحتساب کرے گاجواپنا احتساب کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس دنیا میں اپنی خلافت جاگزین فرماتے ہیں- 

پھر اقبال فرماتے ہیں کہ

از خودآگاہی یداللّٰہی کند

ازید اللّٰہی شہنشاہی کندّ (اسرار رموز)

’’پہلے مسلمان پرلازم ہے کہ خود آگاہی کے ذریعے یدللّٰہی حاصل کرے اپنے نفس کی تطہیرکے ذریعے جب خود آگاہی حاصل ہوجاتی ہے تویدللّٰہی کی مسند حاصل ہوجاتی ہے پھر وہ اس یدللّٰہی کے ذریعے اللہ کی حکومت کوقائم کرتا ہے -‘‘

 جیسے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پافقیرا جھاتی ھُو

ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھُو

شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبھی وست کھڑاتی ھُو

مرن تھیں اگے مر رہے باھُوؔ جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھُو

خواجہ خضر علیہ السلام کی منت کرتا ہے تاکہ تجھے آب حیاتی حاصل ہوسکے اے فقیر اللہ نے آب حیات کاچشمہ توتیرے دل میں جاری فرمادیا-

میرے بھائیو ،بزرگو، میری مائوں اوربیٹیو ! زبانی جمع خرچ کے سوااگر ہمیں واقعتا اسلام کی خدمت کرنے کا شوق ہے تو جب تک ہم آقاپاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جومعاشرے کی بنیاد رکھی تھی کہ فرد کی اصلاح معاشرے کی اصلاح کی بنیادی اِکائی ہے اسے حاصل کرنا پڑے گاجس میں فرد کی تربیت لازم ہے فرد کی تربیت کانصاب مقرر ہے اگر وہ اُسے حاصل نہیں کرتا تواسلام کی خدمت محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ اور نہیں ہے اقبال فرماتے ہیں :

خلافت کے لئے ضروری ہے کہ ؒ:

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار

لا کہیں سے ڈھونڈھ کر اَسلاف کا قلب و جگر

جو خدا کاعرش بلاحجاب دیکھتے تھے جن کے دلوں میں خدا کاراز تھااس قلب وجگر کوڈھونڈکرلائیں جب تک ہم اپنا تزکیہ نہیںکرسکتے اس وقت تک ہم خلافت علی المنہاج النبوت قائم نہیںکرسکتے کیونکہ پہلے مقام عبد ہے پھر مقامِ رسالت ہے پہلے عبد ہونے کی شہادت دیں گے پھر رسول ہونے کی شہادت دیں گے اسی طرح خلافت نبوت کی بنیاد پہ استوار ہوتی ہے - لہٰذا لازم ہے پہلے عبدکی تکمیل ہوگی پھر خلافت کی تکمیل ہوگی اگر عبد آوارہ پھر رہا ہے، اگرعبد منتشر ہے، اگرعبد کی عقل کسی اورچیز کی اقتدا کرے اورعبد کی رُوح کسی اورچیز کی اقتدا کرے، عبد اپنے اندر سے منتشر ہے اورایک منتشر خلیفہ کیسے اُمت کی قیادت کرے گا ؟ انسانیت کے تین بنیادی تقاضے ہیں انسان کاجسم انسان کی روح اورانسان کی عقل - انسان پہ لازم ہے کہ ان تینوں کوساتھ لے کر چلے اوران تینوں کی تربیت کرے جسم کی بھی، عقل کی بھی اورروح کی بھی تربیت کرے ،جسم عقل اورروح جب یہ تینوں ایک نکتہ پہ آکرمرتکز ہوجاتے ہیں جیسے اقبال نے کہاکہ:

ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

میرے بھائیو ،بزرگو، میری مائوں اوربیٹیو ! اصلاحی جماعت وعالم تنظیم العارفین یہی پیغام لے کر حضرت سلطان العارفین کی خانقاہ سے چلی ہے کہؒ:

؎نکل خانقاہوں سے ادا کر رسم شبّیری

رسم شبیری اگراداکرنی ہے تو پہلے ہمیں اپنے نفس کاتزکیہ کرنا ہے اوراپنے باطن کوروشن کرنا ہے اوراپنے عبد ہونے کودرست کرنا ہے -جب ہمارے اندر وہ اخلاص پیدا ہوجائے گا،وہ تزکیہ منور ہوجائے گا،وہ خشیتِ الٰہی پیدا ہوجائے گی، جب ہمارے اندر یقین پیدا ہوجائے گا، جب ہمارے اندر ایمان پیداہوجائے گا ، جب ہمارے اندر تیقن پیداہوجائے گا،جب ہمارے اندر حق الیقین پیدا ہوجائے گا ،جب ہمارے اندر عشق مصطفی پیداہوجائے گا، جب ہمارے اندر قرب الٰہی پیدا ہوجائے گا،جب ہم اس جسم پر حکومت قائم کرلیں گے ،جب ہم اپنے وجود کی مٹی پہ فتح حاصل کرلیں گے، جب ہم مرد ِخود آگاہ بن جائیں گے، جب ہم اپنے وجود کوپہچان لیں گے، جب ہم اپنے نفس کاتزکیہ کرلیں گے ،جب ہم اپنے قلب کاتصفیہ کرلیں گے ،جب ہم اپنے سینے کوروشن کرلیں گے، جب ہم اپنی روح کوبیدارکرلیں گے، جب ہمارے اندر سے ہماری انسانیت کی تکمیل ہوجائے گی، جب ہمارے اندر سے ہماری آدمیت کی تکمیل ہوجائے گی اُس وقت اللہ تعالیٰ اپنا یہ وعدہ پورا فرمائیں گے کہ تومیری طرف چل کے آمیں تیری طرف دوڑکر آوں گا -

{اَتَصْبِرُوْنَج وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًاo} (الفرقان:۲۰)

’’اے بندے توہی صبر کئے بیٹھا ہے تیرا رب تو تیری راہ دیکھ رہا ہے -‘‘

ہم تومائل بہ کرم ہیں ‘کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

کوئی قابل ہوتوہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کودنیابھی نئی دیتے ہیں!

اللہ تعالیٰ ہمیں اس عمل کی توفیق عطافرمائے -اُس خشیت کوہمارے اندرپیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے -جب نشۂ درویشی پختہ ہوجائے گا تواللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے وہ ہمیں سلطنتِ جمشید بھی عطا فرمائے گاتوپھر تمہیں اس دُنیامیں غلبہ بھی عطاکیاجائے گا توپھر تمہیں اس دُنیامیں وہ شان وشوکت بھی عطاکی جائے گی - اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے اپنی فردیت سے لے کر ،اپنی انفرادیت کی اوراپنے معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اورحقیقت ایمان کوہم پہ عیاں فرمادے جو حقیقت دین ہے -

{وآخر دعوانا عن الحمد للّٰہ رب العلمین}

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر