دینِ اِسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب)

دینِ اِسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب)

دینِ اِسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی دسمبر 2015

 (گزشتہ سے پیوستہ)

یہ والدین کیلئے لمحۂ فِکریّہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی اولاد کو اِس طرح آزاد کر رکھّا ہے جیسے اولاد کے متعلّق ان سے کوئی باز پُرس نہیں ہونی ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ اولاد جو مرضی کرتی رہے اُس کا ذِمّہ اولاد پہ ہی ہے اور والدین بری الذِمہ ہونگے - یہاں تک کہ کئی والدین تو اولاد کے مُعاشرتی اِحتساب کو اِس لئے اِختیار نہیں کرتے کہ لوگ سمجھیں گے کہ اِن کی اولاد واقعتاً غلط ہے - مذہب ، اخلاقیات ، معاشرہ اور خود اولاد کا اپنا مستقبل یہ تقاضا کرتا ہے کہ اولاد کا احتساب رکھّا جائے اُن کے اٹھنے بیٹھنے ، محفل و مجلس ، طور اطوار ، عادات و خصائل اور اخلاقی پہلؤوں پہ نظر رکھی جائے اور جہاں کہیں خلا محسوس ہو اُن کی بطریقِ احسن پیار محبت کے ساتھ تربیّت کی جائے تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن سکیں ، بہترین مسلمان بن سکیں ، بہترین شہری بن سکیں اور اُمیدوں پہ پورا اُترنے والا روشن مُستقبل بن سکیں - والدین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہ کرنا اولاد کے ساتھ شدید زیادتی ہے کیونکہ وہ تو ناسمجھی اور جذبات کی عمر کے دورانیے سے گزر رہے ہیں لیکن والدین تو اس عمر کے رُجحانات سے واقف ہوتے ہیں تو اگر وہ نہیں سمجھائیں گے اور اچھے برے کا خیال نہیں رکھیں گے ، ٹی وی ، کمپیوٹر اور سمارٹ فون وغیرہ پر نظر نہیں رکھیں گے ان کو چیک نہیں کریں گے تو بگاڑ لازمی طور پہ پیدا ہوگا - بطور والدین کے ، ہمیں یہ سوچ رکھنا چاہئے کہ ایسے اعمال کی دیکھ بھال نہ رکھنا اور اولاد کو ان سے محفوظ رکھنے کی ترکیب نہ کرنا جہاں اولاد کیلئے معاشرتی طور پہ ایک جہنّم کا اہتمام و انتظام ہے جہاں اولاد کی زندگیاں منشیات ، نشہ ، جوا بازی ، غلط کاری اور بے عملی و بدکرداری کی نذر کر کے تباہ ہو جاتی ہیں وہیں یہ ذرا سی بے توجہی اولاد کو آخرت کی جہنم کا ایندھن بھی بنا دیتی ہے جس کی تنبیہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمائی ہے :

{ یٰٓـاَیَّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ }(التحریم : ۶)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘-

قرآن پاک واضح نصب العین متعیّن کر رہا ہے کہ اپنی اولاد اور اہل و عیّال کے معاملے میں خاموشی اِختیار نہ کرو ، جہاں کہیں تمہیں وہ ایسی غلاظتوں میں لتھڑے یا لتھڑتے ، اُلجھے یا اُلجھتے نظر آئیں تو اُنہیں اُس آگ سے بچانے کی تدبیر کرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے - آقائے دو جہاں کا اِرشادِ گرامی ہے کہ تم سے تمہارے زیر دستوں کے متعلّق جواب طلب کیا جائے گا کیونکہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ماتحتوں کا محافظ بنایا ہے اِس لئے وہ جواب دِہ ہو گا ، اور آقا علیہ السلام نے واضح طور پہ فرمایا :

{ الا کلکم راعٍ و کلکم مسئول علیٰ رعیتہ ---- والرجل راع علیٰ اہل بیتہ وھو مسئول علیٰ رعیتہ}

’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا (یعنی زیر دستوں / ماتحتوں) کے متعلق سوال کیا جائے گا ---- اور مرد اپنے اہلِ خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے اُس کی رعایا (یعنی اہلِ خانہ) کے متعلق پوچھا جائے گا ‘‘- (صحیح بخاری :کتاب الاحکام)

ایک شخص کا اپنی اولاد سے اُن کے اُٹھنے بیٹھنے ، دوستی یاری ، سنگت صحبت اور معمولات کے متعلق احتساب کرنا سختی نہیں اور نہ ہی معیوب یا عیب والی بات ہے بلکہ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ کے مطابق یہ اِحتساب رکھنا ایک آدمی کے فرائض میں شامِل ہے جو اِس فرض سے غفلت برتتا ہے یا جھجھک رکھتا ہے تو وہ گویا اپنا نقصان کر رہا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں کہ الفاظِ حدیث میں غور کریں کہ وہ کس کو جواب دِہ ہے ؟ اور کون اُس سے پوچھے گا ؟ ظاہر ہے کہ جس نے پیدا کیا ، جس نے نگہبان بنایا ، جو خالق و مالک ہے وہی جواب چاہے گا ، جس نے پیدا کیا ہے وہی پوچھے گا کہ جن پہ میں نے نگہبان بنایا تھا اُن کو گناہوں کے راستے سے روکنے کی تم نے کیا تدابیر اِختیار کیں تھیں ؟ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ میں نے تو قرآن میں واضح بتایا تھا کہ ایک عمل ایسا ہے جو کہ {سَآئَ سَبِیْلاً} یعنی بہت ہی برا راستہ ہے اور وہ زِنا اور بد کاری کا راستہ ہے - وہ چند چیزیں جنہیں محدثینِ کرام نے اس باب میں بیان کیا کہ آقا کو اپنے بعد اپنی اُمَّت پہ کن چیزوں کا خدشہ تھا تو اس میں بکثرت اِسی موذی مرض کا ذکر کیا گیا ہے جو آج ہمارے معاشرے میں پانی کی طرح عام اور آسان ہے - حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے مسند شریف میں ایک حدیث پاک نقل کی ہے :

{ان مما اخشی علیکم شھوات الغی فی بطونکم و فروجکم و مضلات الھویٰ}

’’بے شک مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ تم شہوات کا شکا ر ہوجائو گے ، جو تمہارے بطن میں اور تمہاری شرم گاہوںمیںہے اور یہ تمہیں گمراہ کردینے والی خواہشات ہیں-‘‘

یہاں تک تو بات ہے اُس بد کاری کی جو معاشرے میں اعترافیہ طور پہ فروغ پا رہی ہے ایک اور مرض جو موجود تو رہا ہے مگر اب مغرب سرپرستی میں ہمارے ہاں فیشن اور لائف سٹائل کے طور پہ بہت زیادہ پروان چڑھ رہا ہے بعض دوست ممالک باضابطہ طور پہ اُس کی کمپین کر رہے ہیں اور کئی این جی اوز کی دِہاڑیاں اُس پہ لگ رہی ہیں اور وہ ہے ہم جنس پرستی - جس نے تہذیبِ جدید کے نام پر مغربی معاشرت کی بربادی کا سامان تو مہیّا کر دیا ہے اب آہستہ آہستہ ایشیا اور اِسلامی دُنیا میں بھی قانونی جواز کی تلاش میں ہے - مغرب میں کئی سرکردہ مذاہب کے رہنماؤں نے مغربی ممالک اور کچھ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نہ صرف اس کے حرام نہ ہونے کا حکم دِیا ہے بلکہ اِسے مذہبی جواز بھی فراہم کیا ہے - ناچیز کی ناقص رائے میں {سَآئَ سَبِیْلاً} کے تحت صرف بری نہیں بلکہ اس کی جو بد ترین اور گھٹیا ترین راہ نکل رہی ہے وہ لواطت کی Legitimacy (قانونی جواز و قانونی حیثیت) کی صُورت میں نکل رہی ہے پاکستان میں بھی بعض ایسے عناصر موجود ہیں جو ہم جنس پرستانہ شادیوں کو قانونی جواز فراہم کروانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں - فطرت <

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر