شرف انسانیت : فکری خطاب قسط : 2

شرف انسانیت : فکری خطاب  قسط : 2

شرف انسانیت : فکری خطاب قسط : 2

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جولائی 2018

آٹھواں شرف؛ اِنسان کو تسخیر کرنے کی قُوّت سے مالا مال فرمایا گیا ہے- اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ قدرت عطا کی ہے کہ یہ جس چیز کو چاہے اس کومسخر کر سکتا ہے یہ بھی شرف انسانی کے اوپر ایک دلیل ہے-مثلاً علم النجوم، ستاروں کا علم، ستاروں کی چال سے موسم، جنگوں، فتح و شکست، تقدیر کے دیگر فیصلوں کو غیر حتمی طور پہ معلوم کرنا، یہ علم انسانوں نے ایجاد کیا-بنیادی طور پر یہ پہلا قدم تھا جب انسان نے افلاک کو مسخر کرنے کا ہنر سیکھا؛ بقول اقبالؒ:

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو، تابع ستارہ نہیں[1]

مزید مومن کی شان کے بارے فرماتے ہیں کہ:

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند[2

مومن احکام الٰہی کا پابند ہے-یعنی گزشتہ بیسویں صدی میں کس طریق سے انسان نے خلاء کو تسخیر کیا ہے-اسی صلاحیت کے تحت انسان کی تجویز میں ہے کہ مستقبل میں سیاروں اور ستاروں پر مستقل آبادیاں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے- اسی طرح خلاء میں سیٹلائٹ کے ذریعے انسان نے پوری دنیا کو آپس میں منسلک و جوڑ دیا ہے-

“Right now what is happening in white house in pentagon? What’s going on in Congress, Indian Congress and British Congress parliament? I know very well”.

یہ معلومات مجھے کسی روحانی ذرائع سے معلوم نہیں ہوئی بلکہ یہ انسان کی اس قوتِ تسخیر نے عطا کی ہے جس کی وجہ سے میں آپ کو ابھی اس وقت بتا سکتا ہوں کہ ’’وائٹ ہاؤس‘‘اور ’’پینٹاگون‘‘، ’’یونائیٹڈ سٹیٹ کانگرس‘‘ اور ’’کیپیٹل ہل‘‘(capitol hill)، برٹش اور انڈین پارلیمنٹ، اسلام آباد، برازیل، ساؤتھ افریقہ، آسٹریلیا، دوشنبہ، تہران میں کیا ہورہا ہے-اس لئے انسان کی یہ قوت تسخیر بھی تاجِ انسانی پر دلالت کرتی ہے-آج آپ دیکھیں انسان کی اسی صلاحیت کی بدولت ہواؤں کومسخر کیاجاسکتا ہے، مصنوعی بارش و مصنوعی بادل برسائے جاسکتے ہیں، مصنوعی دل انسان میں لگایا جاسکتا ہے، مصنوعی جگر پلاسٹک کا بنا ہوا انسان میں لگایا جاتا ہے یہ تمام انسان کی قوتِ تسخیر کی صلاحیت ہے-اس وقت جو عظیم ترین فریضہ سائنس سر انجام دینے جارہی ہے وہ یہ کہ ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ ایک پورے عام انسان کی طرح ایک خود مختار سوچ کی مالک بن سکتی ہے کہ نہیں؛ یہ اس تجربے کا آغاز ہے لیکن سائنس کا جو ارتقاء ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ انسان اگر اسی محنت و لگن کے تحت کام کرتا رہے تو انسان اپنی اس قوت تسخیر کی بدولت ممکن بنا دے گا- یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے ایسا ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو مسخر کرنے کا تاجِ کرامت بھی عطا فرما رکھا ہے-

یہاں یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ نہ صرف اشیا بلکہ کئی طرح کی مخلوقات کو انسان نے مُسخّر کیا ہے-اُن میں کئی مخلوقات کئی اعتبارات سے اِنسان پہ فائق تھیں مگر اِنسان نے خُدا داد صلاحیّتوں سے اُن پہ فوقیّت پائی-مثلاً: کئی ایسے جانور ہیں جو قد اور جُثّہ میں انسان سے زیادہ ہیں، کئی ہیں جو طاقت میں، کئی ہیں جو رفتار میں اس سے زائد ہیں، بھاگنے والے، اُڑنے والے، رینگنے والے سبھی طرح کے جانوروں کو انسان نے مسخر کیا ہے-

اِسی طرح کئی دیگر مخلُوقات کی مثال دی جا سکتی ہے، جنّات کی مثال لے لیں-جن کو کئی ایسے خواص حاصل ہیں جن کی بدولت وہ انسان سے فائق معلوم ہوتے ہیں، یعنی غائب ہو جانے کی صلاحیّت، شکل بدل لینے کی صلاحیت، سُرعتِ رَفتار، زیادہ عمر پانے کی صلاحیت جنگی اعتبار سے زیادہ زور آور ہونا، مگر اِس کے باوجُود اللہ تعالیٰ نے اِنسان پہ جنّات کا تسلُّط غالب نہیں فرمایا بلکہ انسان کو یہ صلاحیّت ودیعت کی ہے کہ یہ جنّات کو اپنا مُطیع کر سکے-

سیّدنا داؤد علیہ السلام و سیّدنا سلیمان علیہ السلام کی غالب حکومت رہی جنّات پہ-سیّدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) اور سیّدنا غوث الاعظم قدّس اللہ سرّہٗ بھی جنّات پہ غالب ہیں، اہل الرّوحانیّہ اِس بات سے خُوب واقِف ہیں -

نواں شرف؛ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صنعتوں پر قدرت دے رکھی ہے- یہ بھی اِنسان کی ایک انوکھی داستانِ فتح و نُصرت ہے کہ کس طرح انسان نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ اپنی قُوّتِ صنعت کو بروئے کار لا کر دُنیا کا نقشہ اور رنگ و رُوپ ہی بدل کر رکھ دیا ہے -

لُغوی اعتبار سے اگر دیکھیں تو ’’صَنْعَۃ‘‘ کا لغوی معانی ’’کام، پیشہ اور کاریگری‘‘ ہے اسی طرح ’’اَلصِّنَاعَۃُ وَ الصَّنَاعَۃُ‘‘،’’ہنر، پیشہ اور کیفیت عمل سے تعلق رکھنے والے علم‘‘ کے معانی میں استعمال ہوتا ہے-اگرچہ حقیقی طورپر صانع اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے لیکن مجازی طور پر اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور انسان کی بنائی گئی اشیاء مصنوعات کے زمرے میں داخل ہوتی ہے-

ناچیز ایک بار پھر اپنے نوجوان ساتھیوں کو مدّعُو کرنا چاہے گا کہ آئیں کبھی انسان کی قوتِ صنعت میں غور کریں کیا کیا دلفریب چیزیں اِس کے دستِ ہُنر اور ذہنِ رسا نے بنا دی ہیں- اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پہ ختم-درانتی سے شروع کروں تو آج کی فصلوں کو بونے سے کاٹنے تک کا عمل آنکھوں میں گھوم جاتا ہے کہ ہزارہا مشینیں تو صرف پودوں اور درختوں کی دیکھ بھال، بیجائی اور کٹائی کے لئے اور اُن سے مؤثر و محفوظ انداز میں ثمر حاصل کرنے کیلئے بن چکی ہیں-انسانی جسم کے بیٹھنے اور لیٹنے میں فرحت دہندہ اشیا پہ غور کریں تو صرف کُرسی اور صوفے کی صنعت ہی بیان و گمان میں نہ آئے - گاڑی، ریل، جہاز، ہسپتال، پارک، دفتر، گھر، ڈیرہ، جلسہ، کیمپ، اِن ڈور، آؤٹ ڈور، بڑوں کیلئے، بچوں کیلئے، غرض کہ جہاں جائیں وہیں پہ کرسی کی ایک الگ ساخت سامنے آتی ہے- پلاسٹک، لوہا، لکڑی، پتھر، لیدر، ایلمونیم، شیشہ غرض کہ مختلف چیزوں سے تیار کی گئی کُرسیاں - یہ تو صرف نمایاں فرق کی کرسیاں گنی ہیں، اِن میں پھر آگے ہر ایک کی اپنی لا تعداد ورائٹی ہے- یہی صُورتحال برتنوں کی صنعت میں ہے، یہی صُورتحال لباس کی صنعت میں ہے اور یہی صُورتحال روز مرّہ استعمال کی ہر ایک چیز میں جاری و ساری ہے -

تھوڑا اوپر آئیں تو گاڑیوں کو دیکھ لیں-کار، جیپ، وین، سنگل کیبن، بس، ٹرک، ٹریلر- پھر اِن میں آگے ہر ایک کی کئی کئی اَنواع ہیں- صرف کار میں دیکھیں تو لیمو زین ، ایگزیکٹیو کارز ، ٹیکسی، فور ڈور ، ٹو ڈور ، اسپورٹس - پھر اِن میں ہر ایک کی لا تعداد ورائٹی انسانی صنعت نے ایجاد کر ماری-آپ کمپنیاں شُمار کر لیں کہ دُنیا میں کارسازی کی کُل کمپنیاں کتنی ہیں؟ تقریباً ہر مُناسب حُجم کی معیشت رکھنے والا مُلک اپنی کار تیار کرتا ہے-ہر کمپنی کے سائز کتنے ہیں کاروں میں؟ اور سائز کے علاوہ سیریزز کتنی ہیں - صرف مرسڈیز میں گنیں تو اے ، سی ، ڈی، ای، ایس اور نجانے کتنی سیریز ہیں اور ہر سیریز میں کئی کئی ماڈل ہیں اور کتنی ہی شیپس ہیں-ٹیوٹا کارز میں دیکھ لیں: کرولا، کرونا، کراؤن، سنٹری، کیمری، پریمئو، مارک ایکس اور دیگر کئی- ہنڈا، مزدا، بی ایم ڈبلیو، فورڈ، مٹسو بیشی اور کئی بیسیوں درجنوں کمپنیاں موجود ہیں- انیسویں صدی کے اواخر سے اب تک کے اگر کُل نمونے یکجا کئے جائیں تو لاکھوں نہیں تو بیسیوں ہزار ماڈل صرف کاروں میں انسانی ذہن اور انسانی ہاتھ نے مصنوع کر ڈالے ہیں-

جہازوں میں شمار کر لیں، جہازوں میں صرف جنگی جہازوں میں شمار کر لیں-اِسی طرح بحری جہازوں میں، کشتیوں میں نظر دوڑا لیں ہر طرف اِنسانی ہُنر اور صنعت کے کمالات پھیلے ہوئے ہیں -

آرکیٹکچر میں جھانک لیں آج انسانی صنعت نے بُود و باش اور رہن سہن کو اوج و عروج کی کِن سرفرازیوں سے نواز دِیا ہے، ایسی دلکش اور خوبصورت عمارتیں کہ اُن پہ انسانی حُسن کا گمان ہونے لگتا ہے- آرکیٹکچر کی اَقسام شُمار سے باہر ہیں، اس میں استعمال ہونے والے مواد، آلات اور طریقہ ہائے کار بھی اَن گنت ہیں-

ہم روز مرّہ کی زندگی میں جن شاہرات پہ سفر کرتے ہیں صرف اُنہی میں نگاہ دوڑا لیں کہ کس طرح انسان نے اپنی قُوّتِ صنعت سے چلنے پھرنے کے انداز بدل لئے، راستے بدل لئے، رفتار کو ملٹی پلائی کر لیا- گھوڑے کے سموں کی تنال / نعل سے شروع ہونے والا صنعت کا سفر آج سپیس اسٹیشن تک جا پہنچا ہے-سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کو ایک نگاہ دیکھ لیں یہ سبھی کِس کی صنعت ہے ؟ اُس کی جس کیلئے وہ خود کہتا ہے کہ:

مجھ کو جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

ارے، ذرا دیکھو تو! یہ جنّت سے نکالا ہوا انسان آج کیا کیا کارنامے سر انجام دیئے جا رہا ہے، اِس کی ترقی کی خالقِ اکبر نے کوئی حد نہیں رکھی-یہ جہاں تک جانا چاہتا ہے اِس کیلئے دروازے کھول دیئے- سائنس اور ٹیکنالوجی کی صنعت میں جو عظیم ترین کارنامہ ہے انسان کی قُوّتِ صنعت کا، جس ترقی سے ہزاروں ترقیوں کے دروازے کھُلے وہ تصویر سازی کی ترقی ہے یعنی ڈیجیٹل گرافکس-

جب انسان نے چیزوں کی صُورت گری پہ اختیار پا لیا، رنگوں کو اُن کے صحیح رنگ میں استعمال کرنا سیکھ لیا، اشیا اور اجزاء کی گرافیکل پریزنٹیشن سیکھ لی تو قُدرت نے اِس کے تصورات اور خیالات کا اگلا مرحلہ (Next Level) شروع کروا دیا-شاید میں غلط ہوں، مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ چیز خالق کے قانونِ علم و قُدرت میں کہیں بہت اوپر شُمار کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے ’’المصوّر‘‘- قرآن پاک میں کچھ ارشادات ہیں جو اِس پہ حیران کر دیتے ہیں کہ صُورت گری کو کیسے حسین اور لطیف پیرائے میں بیان کرتا ہے ’’هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ‘‘[3] اور اِسی طرح وہ فرماتا ہے کہ ’’وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ‘‘ [4] انسان کی قُوّتِ صنعت نے گرافکس میں جو باریکیاں، لطافتیں پائی اور حاصل کی ہیں شاید انسانی صنعت کی اعلیٰ ترین مثال کہلانے کے قابل ہیں- بالخصوص تصویر کی ملٹی ڈائمینشنل ایجاد نے تو اِنسان کو ترقی کے ایک اور مرحلے اور ایک نئے دَور میں داخل کر دیا ہے -

عصرِ حاضر میں وہ چیزیں جو انسانی صنعت کا عظیم ترین شاہکار کہی جا سکتی ہیں اُن میں ایک نمایاں ترین چیز آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہے- نیوروسرجری میں وہ آپریشنز جن میں مریض کی زندگی کا امکان بہت کم ہوتا تھا آج روبوٹک ٹیکنالوجی کی مدد سے اُس میں زندگی کے امکانات یقینی حد تک بڑھ چکے ہیں (زندگی موت پہ قادر تو اللہ پاک کی ذات ہے ) ہم ایک مادی پیرامیٹر میں بات کر رہے ہیں - انسان کی بعض نسیں اور رگیں ایسی ہیں جن میں مداخلت باریک ترین کام ہے جن میں بڑے بڑے سرجن رِسک نہیں لیتے تھے مگر آج انسان نے اپنی صنّاعی کی صلاحیّت سے ایسی مشکل سرجری بھی آسان بنا دی ہے، اِس کی سینکڑوں اور مثالیں دی جا سکتی ہیں -

انسانی صنّاعی کا ایک بڑا شاہکار تاریخِ انسانی میں آلاتِ ضرب و حرب کی اقسام بھی ہیں اور ان کا ارتقا ءبھی ہے،لکڑی کی چھوٹی سی چھڑی سے لے کر ’’لیپرڈ ٹو اےسیون ٹینک‘‘ تک اور پتھر کے چھوٹے سے بٹّے کے پھینکنے سے لے کر کروز میزائل تک سبھی انسانی قُوّتِ صنعت کے مختلف اظہارات ہیں -

دسواں شرف؛ اللہ تعالیٰ نے اس کو اسباب کے استعمال پر قدرت دے رکھی ہے- اُس کی ایک سادہ سی مثال تو اقبال رحمہ اللہ کے اُن اشعار سے ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ:

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

’’میں تو وہ ہوں کہ پتھر سے شیشہ بنا لیتا ہوں ‘‘-

من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

’’میں تو وہ ہوں کہ زہر سے بھی تریاق پیدا کر لیتا ہوں ‘‘-

اِسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوہے کو ہل بنالے اس کی مرضی، لوہے کو پلیٹ، تلوار اور بندوق کی نالی بنالے اس کی مرضی-مگر شاید یہ اسباب کی از سرنو تشکیل کہلائے گو کہ یہ بھی انسان کے تاجِ کرامت پر دلالت کرتا ہے-اَب اِس کی مُختصر وضاحت جان لینی چاہئے کہ اسباب کے استعمال پہ قُدرت انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیّز و ممتاز کیسے کرتی ہے ؟

کئی مخلوقات ہیں جنہیں چھوٹے چھوٹے ہنر آتے ہیں، کسی کو ایک، کسی کو دو اور کسی کو تین-مگر وہ قُدرتِ خُداوندی کے پیدا کردہ سبھی اسباب یا اکثر اسباب پہ قُدرت نہیں رکھتے-اِس کے بر عکس انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے یہ صلاحیّت ودیعت کی گئی ہے کہ یہ کارخانۂ قُدرت کے پیدا فرمودہ اکثر اسباب کے استعمال پہ مہارت رکھتا ہے- اِس میں ایک مثال مار خور کی لی جا سکتی ہے -

مارخور کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سانپ سے لڑتا ہے اور اسے مار ڈالتا ہے، مار کر اُس کو چباتا ہے جس کے نتیجے میں مارخور کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے جو نیچے گر کر خشک ہو کے سخت ہو جاتی ہے- پُرانے سنیاسی لوگ وہ جھاگ ڈھونڈتے تھے کیونکہ اُن کا کہنا اور ماننا تھا کہ سانپ کے ڈسے کا جھاگ کے اُس ٹکڑے سے بہتر کوئی علاج نہیں-جھاگ کا سخت شُدہ وہ ٹکڑا ڈسی ہوئی جگہ پہ لگایا جاتا ہے جو سانپ کا سارا زِہر چوس لیتا ہے-اِس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سانپ کو چباتے ہوئے وہ جھاگ مارخور کے منہ سے گرتی ہے تو وہ اُس جھاگ کو اپنے پاؤں سے روند کر اس طرح غیر مؤثر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جھاگ اُس سخت ٹکڑے کی صورت اختیار نہ کر سکے، بڑا کم ایسا ہوتا ہے کہ ٹکڑا محفوظ ہو جائے-بہر حال، پرانے سنیاسی حکیم اُس ٹکڑے کی تلاش میں کئی کئی سال پہاڑ چھانتے تھے-  قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِنسان نے اِس کو کیسے دریافت کیا؟ اور قُدرت کا پیدا کردہ یہ سبب کس طرح اپنے استعمال میں لا کر اس سے صِحت کا نفع حاصل کیا-ریشمی کپڑے کی مثال تو مشہور اور زبان زدِ عام ہے کہ ریشم کا دھاگہ کس طرح پیدا ہوتا ہے، کس طرح ریشم کے کیڑوں کی افزائش کرکے اُن سے ریشم حاصل کیا جاتا ہے، یہ وہ عمومی سطح کی چیزیں ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کس طرح اشیاء اور اسباب کے استعمال پہ قدرت عطا کی ہے-

دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو استعمالِ اسباب پہ زیادہ اختیار دیا گیا ہے-علامہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں کہ یہ بھی انسان کا شرف ہے اور اس کی کرامت و تکریم پہ دلیل ہے-

گیارہواں شرف؛ جس طرح جانور، پرندے اور دیگر حیوانات اپنے شکار کو پنجوں سے پھاڑ کر اپنی چونچ سے کھاتے ہیں، اسی طرح جانوروں کے برعکس انسان کو اس تمیز و تہذیب سے بھی نوازا ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے رزق کو اٹھا کر اپنے منہ اور اپنے شکم کی طرف لے کر جاتا ہے-یہ ایک معززانہ طریقہ ہے جس میں انسان کا حسن و جمال پیدا ہوتا ہے، جب یہ اپنی خوراک کو ایک مہذب طریق سے استعمال کرتا ہے تو یہ بھی انسان کی عزت و شرف پر دلالت کرتا ہے- اس سے زمین پہ آباد دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کے جمالیاتی شعور کی جہتوں اور پرتوں کا پتہ چلتا ہے نیز یہ کہ انسان کی تہذیب میں یہ شامل ہے کہ اِسے آداب کی خبر ہونی چاہئے-ضمناً ایک بات ذہن میں آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ حُجۃ الاسلام امام ابو حامد الغزالیؒ کی کتاب ’’احیاء العلُوم الدین‘‘ کا مُطالعہ ویسے بھی کرنا چاہیے مگر خاص کر اُس میں آدابِ طُعام کا باب ضرور پڑھنا چاہئے، بیس پچیس صفحات پہ مُشتمل باب ہے مگر میرا خیال ہے کہ اُسے ایک گنوار ترین شخص بھی پڑھ لے تو اُس کے کھانے پینے کے آداب دائرۂ تہذیب میں کمال کو پہنچ جائیں گے- خیر جو بات قاضی ثنا اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم وضاحت سے کَہ رہے ہیں وہ تو یہ ہے کہ جانوروں کے مقابلے میں اپنی خوراک کو ہاتھ سے کھانا بھی شرفِ انسانی کی دلیل ہے-مگر ہاتھ سے کھانے کے بھی مزید آداب ہیں جن کی تربیّت ہر انسانی کو لازمی ہونی چاہئے-

(جاری ہے )

٭٭٭


[1](بالِ جبریل)

[2](ضربِ کلیم)

[3](آل عمران:6)

[4](مومن:64)

آٹھواں شرف؛ اِنسان کو تسخیر کرنے کی قُوّت سے مالا مال فرمایا گیا ہے- اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ قدرت عطا کی ہے کہ یہ جس چیز کو چاہے اس کومسخر کر سکتا ہے یہ بھی شرف انسانی کے اوپر ایک دلیل ہے-مثلاً علم النجوم، ستاروں کا علم، ستاروں کی چال سے موسم، جنگوں، فتح و شکست، تقدیر کے دیگر فیصلوں کو غیر حتمی طور پہ معلوم کرنا، یہ علم انسانوں نے ایجاد کیا-بنیادی طور پر یہ پہلا قدم تھا جب انسان نے افلاک کو مسخر کرنے کا ہنر سیکھا؛ بقول اقبال (﷫):

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو، تابع ستارہ نہیں[1]

مزید مومن کی شان کے بارے فرماتے ہیں کہ:

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند[2]

مومن احکام الٰہی کا پابند ہے-یعنی گزشتہ بیسویں صدی میں کس طریق سے انسان نے خلاء کو تسخیر کیا ہے-اسی صلاحیت کے تحت انسان کی تجویز میں ہے کہ مستقبل میں سیاروں اور ستاروں پر مستقل آبادیاں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے- اسی طرح خلاء میں سیٹلائٹ کے ذریعے انسان نے پوری دنیا کو آپس میں منسلک و جوڑ دیا ہے-

“Right now what is happening in white house in pentagon? What’s going on in Congress, Indian Congress and British Congress parliament? I know very well”.

یہ معلومات مجھے کسی روحانی ذرائع سے معلوم نہیں ہوئی بلکہ یہ انسان کی اس قوتِ تسخیر نے عطا کی ہے جس کی وجہ سے میں آپ کو ابھی اس وقت بتا سکتا ہوں کہ ’’وائٹ ہاؤس‘‘اور ’’پینٹاگون‘‘، ’’یونائیٹڈ سٹیٹ کانگرس‘‘ اور ’’کیپیٹل ہل‘‘(capitol hill)، برٹش اور انڈین پارلیمنٹ، اسلام آباد، برازیل، ساؤتھ افریقہ، آسٹریلیا، دوشنبہ، تہران میں کیا ہورہا ہے-اس لئے انسان کی یہ قوت تسخیر بھی تاجِ انسانی پر دلالت کرتی ہے-آج آپ دیکھیں انسان کی اسی صلاحیت کی بدولت ہواؤں کومسخر کیاجاسکتا ہے، مصنوعی بارش و مصنوعی بادل برسائے جاسکتے ہیں، مصنوعی دل انسان میں لگایا جاسکتا ہے، مصنوعی جگر پلاسٹک کا بنا ہوا انسان میں لگایا جاتا ہے یہ تمام انسان کی قوتِ تسخیر کی صلاحیت ہے-اس وقت جو عظیم ترین فریضہ سائنس سر انجام دینے جارہی ہے وہ یہ کہ ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ ایک پورے عام انسان کی طرح ایک خود مختار سوچ کی مالک بن سکتی ہے کہ نہیں؛ یہ اس تجربے کا آغاز ہے لیکن سائنس کا جو ارتقاء ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ انسان اگر اسی محنت و لگن کے تحت کام کرتا رہے تو انسان اپنی اس قوت تسخیر کی بدولت ممکن بنا دے گا- یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے ایسا ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو مسخر کرنے کا تاجِ کرامت بھی عطا فرما رکھا ہے-

یہاں یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ نہ صرف اشیا بلکہ کئی طرح کی مخلوقات کو انسان نے مُسخّر کیا ہے-اُن میں کئی مخلوقات کئی اعتبارات سے اِنسان پہ فائق تھیں مگر اِنسان نے خُدا داد صلاحیّتوں سے اُن پہ فوقیّت پائی-مثلاً: کئی ایسے جانور ہیں جو قد اور جُثّہ میں انسان سے زیادہ ہیں، کئی ہیں جو طاقت میں، کئی ہیں جو رفتار میں اس سے زائد ہیں، بھاگنے والے، اُڑنے والے، رینگنے والے سبھی طرح کے جانوروں کو انسان نے مسخر کیا ہے-

اِسی طرح کئی دیگر مخلُوقات کی مثال دی جا سکتی ہے، جنّات کی مثال لے لیں-جن کو کئی ایسے خواص حاصل ہیں جن کی بدولت وہ انسان سے فائق معلوم ہوتے ہیں، یعنی غائب ہو جانے کی صلاحیّت، شکل بدل لینے کی صلاحیت، سُرعتِ رَفتار، زیادہ عمر پانے کی صلاحیت جنگی اعتبار سے زیادہ زور آور ہونا، مگر اِس کے باوجُود اللہ تعالیٰ نے اِنسان پہ جنّات کا تسلُّط غالب نہیں فرمایا بلکہ انسان کو یہ صلاحیّت ودیعت کی ہے کہ یہ جنّات کو اپنا مُطیع کر سکے-

سیّدنا داؤد علیہ السلام و سیّدنا سلیمان علیہ السلام کی غالب حکومت رہی جنّات پہ-سیّدنا علی المرتضیٰ (﷜) اور سیّدنا غوث الاعظم قدّس اللہ سرّہٗ بھی جنّات پہ غالب ہیں، اہل الرّوحانیّہ اِس بات سے خُوب واقِف ہیں -

نواں شرف؛اللہ تعالیٰ نے انسان کو صنعتوں پر قدرت دے رکھی ہے- یہ بھی اِنسان کی ایک انوکھی داستانِ فتح و نُصرت ہے کہ کس طرح انسان نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ اپنی قُوّتِ صنعت کو بروئے کار لا کر دُنیا کا نقشہ اور رنگ و رُوپ ہی بدل کر رکھ دیا ہے -

لُغوی اعتبار سے اگر دیکھیں تو ’’صَنْعَۃ‘‘ کا لغوی معانی ’’کام، پیشہ اور کاریگری‘‘ ہے اسی طرح ’’اَلصِّنَاعَۃُ وَ الصَّنَاعَۃُ‘‘،’’ہنر، پیشہ اور کیفیت عمل سے تعلق رکھنے والے علم‘‘ کے معانی میں استعمال ہوتا ہے-اگرچہ حقیقی طورپر صانع اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے لیکن مجازی طور پر اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور انسان کی بنائی گئی اشیاء مصنوعات کے زمرے میں داخل ہوتی ہے-

ناچیز ایک بار پھر اپنے نوجوان ساتھیوں کو مدّعُو کرنا چاہے گا کہ آئیں کبھی انسان کی قوتِ صنعت میں غور کریں کیا کیا دلفریب چیزیں اِس کے دستِ ہُنر اور ذہنِ رسا نے بنا دی ہیں- اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پہ ختم-درانتی سے شروع کروں تو آج کی فصلوں کو بونے سے کاٹنے تک کا عمل آنکھوں میں گھوم جاتا ہے کہ ہزارہا مشینیں تو صرف پودوں اور درختوں کی دیکھ بھال، بیجائی اور کٹائی کے لئے اور اُن سے مؤثر و محفوظ انداز میں ثمر حاصل کرنے کیلئے بن چکی ہیں-انسانی جسم کے بیٹھنے اور لیٹنے میں فرحت دہندہ اشیا پہ غور کریں تو صرف کُرسی اور صوفے کی صنعت ہی بیان و گمان میں نہ آئے - گاڑی، ریل، جہاز، ہسپتال، پارک، دفتر، گھر، ڈیرہ، جلسہ، کیمپ، اِن ڈور، آؤٹ ڈور، بڑوں کیلئے، بچوں کیلئے، غرض کہ جہاں جائیں وہیں پہ کرسی کی ایک الگ ساخت سامنے آتی ہے- پلاسٹک، لوہا، لکڑی، پتھر، لیدر، ایلمونیم، شیشہ غرض کہ مختلف چیزوں سے تیار کی گئی کُرسیاں - یہ تو صرف نمایاں فرق کی کرسیاں گنی ہیں، اِن میں پھر آگے ہر ایک کی اپنی لا تعداد ورائٹی ہے- یہی صُورتحال برتنوں کی صنعت میں ہے، یہی صُورتحال لباس کی صنعت میں ہے اور یہی صُورتحال روز مرّہ استعمال کی ہر ایک چیز میں جاری و ساری ہے -

تھوڑا اوپر آئیں تو گاڑیوں کو دیکھ لیں-کار، جیپ، وین، سنگل کیبن، بس، ٹرک، ٹریلر- پھر اِن میں آگے ہر ایک کی کئی کئی اَنواع ہیں- صرف کار میں دیکھیں تو لیمو زین ، ایگزیکٹیو کارز ، ٹیکسی، فور ڈور ، ٹو ڈور ، اسپورٹس - پھر اِن میں ہر ایک کی لا تعداد ورائٹی انسانی صنعت نے ایجاد کر ماری-آپ کمپنیاں شُمار کر لیں کہ دُنیا میں کارسازی کی کُل کمپنیاں کتنی ہیں؟ تقریباً ہر مُناسب حُجم کی معیشت رکھنے والا مُلک اپنی کار تیار کرتا ہے-ہر کمپنی کے سائز کتنے ہیں کاروں میں؟ اور سائز کے علاوہ سیریزز کتنی ہیں - صرف مرسڈیز میں گنیں تو اے ، سی ، ڈی، ای، ایس اور نجانے کتنی سیریز ہیں اور ہر سیریز میں کئی کئی ماڈل ہیں اور کتنی ہی شیپس ہیں-ٹیوٹا کارز میں دیکھ لیں: کرولا، کرونا، کراؤن، سنٹری، کیمری، پریمئو، مارک ایکس اور دیگر کئی- ہنڈا، مزدا، بی ایم ڈبلیو، فورڈ، مٹسو بیشی اور کئی بیسیوں درجنوں کمپنیاں موجود ہیں- انیسویں صدی کے اواخر سے اب تک کے اگر کُل نمونے یکجا کئے جائیں تو لاکھوں نہیں تو بیسیوں ہزار ماڈل صرف کاروں میں انسانی ذہن اور انسانی ہاتھ نے مصنوع کر ڈالے ہیں-

جہازوں میں شمار کر لیں، جہازوں میں صرف جنگی جہازوں میں شمار کر لیں-اِسی طرح بحری جہازوں میں، کشتیوں میں نظر دوڑا لیں ہر طرف اِنسانی ہُنر اور صنعت کے کمالات پھیلے ہوئے ہیں -

آرکیٹکچر میں جھانک لیں آج انسانی صنعت نے بُود و باش اور رہن سہن کو اوج و عروج کی کِن سرفرازیوں سے نواز دِیا ہے، ایسی دلکش اور خوبصورت عمارتیں کہ اُن پہ انسانی حُسن کا گمان ہونے لگتا ہے- آرکیٹکچر کی اَقسام شُمار سے باہر ہیں، اس میں استعمال ہونے والے مواد، آلات اور طریقہ ہائے کار بھی اَن گنت ہیں-

ہم روز مرّہ کی زندگی میں جن شاہرات پہ سفر کرتے ہیں صرف اُنہی میں نگاہ دوڑا لیں کہ کس طرح انسان نے اپنی قُوّتِ صنعت سے چلنے پھرنے کے انداز بدل لئے، راستے بدل لئے، رفتار کو ملٹی پلائی کر لیا- گھوڑے کے سموں کی تنال / نعل سے شروع ہونے والا صنعت کا سفر آج سپیس اسٹیشن تک جا پہنچا ہے-سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کو ایک نگاہ دیکھ لیں یہ سبھی کِس کی صنعت ہے ؟ اُس کی جس کیلئے وہ خود کہتا ہے کہ:

مجھ کو جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

ارے، ذرا دیکھو تو! یہ جنّت سے نکالا ہوا انسان آج کیا کیا کارنامے سر انجام دیئے جا رہا ہے، اِس کی ترقی کی خالقِ اکبر نے کوئی حد نہیں رکھی-یہ جہاں تک جانا چاہتا ہے اِس کیلئے دروازے کھول دیئے- سائنس اور ٹیکنالوجی کی صنعت میں جو عظیم ترین کارنامہ ہے انسان کی قُوّتِ صنعت کا، جس ترقی سے ہزاروں ترقیوں کے دروازے کھُلے وہ تصویر سازی کی ترقی ہے یعنی ڈیجیٹل گرافکس-

جب انسان نے چیزوں کی صُورت گری پہ اختیار پا لیا، رنگوں کو اُن کے صحیح رنگ میں استعمال کرنا سیکھ لیا، اشیا اور اجزاء کی گرافیکل پریزنٹیشن سیکھ لی تو قُدرت نے اِس کے تصورات اور خیالات کا اگلا مرحلہ (Next Level) شروع کروا دیا-شاید میں غلط ہوں، مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ چیز خالق کے قانونِ علم و قُدرت میں کہیں بہت اوپر شُمار کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے ’’المصوّر‘‘- قرآن پاک میں کچھ ارشادات ہیں جو اِس پہ حیران کر دیتے ہیں کہ صُورت گری کو کیسے حسین اور لطیف پیرائے میں بیان کرتا ہے ’’هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ‘‘[3] اور اِسی طرح وہ فرماتا ہے کہ ’’وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ‘‘ [4] انسان کی قُوّتِ صنعت نے گرافکس میں جو باریکیاں، لطافتیں پائی اور حاصل کی ہیں شاید انسانی صنعت کی اعلیٰ ترین مثال کہلانے کے قابل ہیں- بالخصوص تصویر کی ملٹی ڈائمینشنل ایجاد نے تو اِنسان کو ترقی کے ایک اور مرحلے اور ایک نئے دَور میں داخل کر دیا ہے -

عصرِ حاضر میں وہ چیزیں جو انسانی صنعت کا عظیم ترین شاہکار کہی جا سکتی ہیں اُن میں ایک نمایاں ترین چیز آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہے- نیوروسرجری میں وہ آپریشنز جن میں مریض کی زندگی کا امکان بہت کم ہوتا تھا آج روبوٹک ٹیکنالوجی کی مدد سے اُس میں زندگی کے امکانات یقینی حد تک بڑھ چکے ہیں (زندگی موت پہ قادر تو اللہ پاک کی ذات ہے ) ہم ایک مادی پیرامیٹر میں بات کر رہے ہیں - انسان کی بعض نسیں اور رگیں ایسی ہیں جن میں مداخلت باریک ترین کام ہے جن میں بڑے بڑے سرجن رِسک نہیں لیتے تھے مگر آج انسان نے اپنی صنّاعی کی صلاحیّت سے ایسی مشکل سرجری بھی آسان بنا دی ہے، اِس کی سینکڑوں اور مثالیں دی جا سکتی ہیں -

انسانی صنّاعی کا ایک بڑا شاہکار تاریخِ انسانی میں آلاتِ ضرب و حرب کی اقسام بھی ہیں اور ان کا ارتقا ءبھی ہے،لکڑی کی چھوٹی سی چھڑی سے لے کر ’’لیپرڈ ٹو اےسیون ٹینک‘‘ تک اور پتھر کے چھوٹے سے بٹّے کے پھینکنے سے لے کر کروز میزائل تک سبھی انسانی قُوّتِ صنعت کے مختلف اظہارات ہیں -

دسواں شرف؛ اللہ تعالیٰ نے اس کو اسباب کے استعمال پر قدرت دے رکھی ہے- اُس کی ایک سادہ سی مثال تو اقبال رحمہ اللہ کے اُن اشعار سے ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ:

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

’’میں تو وہ ہوں کہ پتھر سے شیشہ بنا لیتا ہوں ‘‘-

من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

’’میں تو وہ ہوں کہ زہر سے بھی تریاق پیدا کر لیتا ہوں ‘‘-

اِسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوہے کو ہل بنالے اس کی مرضی، لوہے کو پلیٹ، تلوار اور بندوق کی نالی بنالے اس کی مرضی-مگر شاید یہ اسباب کی از سرنو تشکیل کہلائے گو کہ یہ بھی انسان کے تاجِ کرامت پر دلالت کرتا ہے-اَب اِس کی مُختصر وضاحت جان لینی چاہئے کہ اسباب کے استعمال پہ قُدرت انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیّز و ممتاز کیسے کرتی ہے ؟

کئی مخلوقات ہیں جنہیں چھوٹے چھوٹے ہنر آتے ہیں، کسی کو ایک، کسی کو دو اور کسی کو تین-مگر وہ قُدرتِ خُداوندی کے پیدا کردہ سبھی اسباب یا اکثر اسباب پہ قُدرت نہیں رکھتے-اِس کے بر عکس انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے یہ صلاحیّت ودیعت کی گئی ہے کہ یہ کارخانۂ قُدرت کے پیدا فرمودہ اکثر اسباب کے استعمال پہ مہارت رکھتا ہے- اِس میں ایک مثال مار خور کی لی جا سکتی ہے -

مارخور کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سانپ سے لڑتا ہے اور اسے مار ڈالتا ہے، مار کر اُس کو چباتا ہے جس کے نتیجے میں مارخور کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے جو نیچے گر کر خشک ہو کے سخت ہو جاتی ہے- پُرانے سنیاسی لوگ وہ جھاگ ڈھونڈتے تھے کیونکہ اُن کا کہنا اور ماننا تھا کہ سانپ کے ڈسے کا جھاگ کے اُس ٹکڑے سے بہتر کوئی علاج نہیں-جھاگ کا سخت شُدہ وہ ٹکڑا ڈسی ہوئی جگہ پہ لگایا جاتا ہے جو سانپ کا سارا زِہر چوس لیتا ہے-اِس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سانپ کو چباتے ہوئے وہ جھاگ مارخور کے منہ سے گرتی ہے تو وہ اُس جھاگ کو اپنے پاؤں سے روند کر اس طرح غیر مؤثر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جھاگ اُس سخت ٹکڑے کی صورت اختیار نہ کر سکے، بڑا کم ایسا ہوتا ہے کہ ٹکڑا محفوظ ہو جائے-بہر حال، پرانے سنیاسی حکیم اُس ٹکڑے کی تلاش میں کئی کئی سال پہاڑ چھانتے تھے-  قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِنسان نے اِس کو کیسے دریافت کیا؟ اور قُدرت کا پیدا کردہ یہ سبب کس طرح اپنے استعمال میں لا کر اس سے صِحت کا نفع حاصل کیا-ریشمی کپڑے کی مثال تو مشہور اور زبان زدِ عام ہے کہ ریشم کا دھاگہ کس طرح پیدا ہوتا ہے، کس طرح ریشم کے کیڑوں کی افزائش کرکے اُن سے ریشم حاصل کیا جاتا ہے، یہ وہ عمومی سطح کی چیزیں ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کس طرح اشیاء اور اسباب کے استعمال پہ قدرت عطا کی ہے-

دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو استعمالِ اسباب پہ زیادہ اختیار دیا گیا ہے-علامہ پانی پتی (﷫) فرماتے ہیں کہ یہ بھی انسان کا شرف ہے اور اس کی کرامت و تکریم پہ دلیل ہے-

گیارہواں شرف؛جس طرح جانور، پرندے اور دیگر حیوانات اپنے شکار کو پنجوں سے پھاڑ کر اپنی چونچ سے کھاتے ہیں، اسی طرح جانوروں کے برعکس انسان کو اس تمیز و تہذیب سے بھی نوازا ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے رزق کو اٹھا کر اپنے منہ اور اپنے شکم کی طرف لے کر جاتا ہے-یہ ایک معززانہ طریقہ ہے جس میں انسان کا حسن و جمال پیدا ہوتا ہے، جب یہ اپنی خوراک کو ایک مہذب طریق سے استعمال کرتا ہے تو یہ بھی انسان کی عزت و شرف پر دلالت کرتا ہے- اس سے زمین پہ آباد دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کے جمالیاتی شعور کی جہتوں اور پرتوں کا پتہ چلتا ہے نیز یہ کہ انسان کی تہذیب میں یہ شامل ہے کہ اِسے آداب کی خبر ہونی چاہئے-ضمناً ایک بات ذہن میں آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ حُجۃ الاسلام امام ابو حامد الغزالی (﷫) کی کتاب ’’احیاء العلُوم الدین‘‘ کا مُطالعہ ویسے بھی کرنا چاہیے مگر خاص کر اُس میں آدابِ طُعام کا باب ضرور پڑھنا چاہئے، بیس پچیس صفحات پہ مُشتمل باب ہے مگر میرا خیال ہے کہ اُسے ایک گنوار ترین شخص بھی پڑھ لے تو اُس کے کھانے پینے کے آداب دائرۂ تہذیب میں کمال کو پہنچ جائیں گے- خیر جو بات قاضی ثنا اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم وضاحت سے کَہ رہے ہیں وہ تو یہ ہے کہ جانوروں کے مقابلے میں اپنی خوراک کو ہاتھ سے کھانا بھی شرفِ انسانی کی دلیل ہے-مگر ہاتھ سے کھانے کے بھی مزید آداب ہیں جن کی تربیّت ہر انسانی کو لازمی ہونی چاہئے-

(جاری ہے )

٭٭٭



[1](بالِ جبریل)

[2](ضربِ کلیم)

[3](آل عمران:6)

[4](مومن:64)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر