(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

مصنف: ادارہ فروری 2018

انسانی تاریخ میں ترقی و تنزلی کے بے شمار دور گزرے ہیں اسلام چونکہ دینِ کامل ہےاس کی تاریخ ایک خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ تمام بنی نوع انسان کے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ماں حضرت حوا (علیھا السلام) ہیں-حضرت انسان کو جملہ مخلوقات  پر فوقیت شرف و کرامت عطا کی جس کامعیار قرآن مجید یوں بیان فرماتا ہے:

’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰـکُمْ‘‘[1] 

’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘-

چونکہ انسان مادیت اورروحانیت دو تقاضوں کا منبع ہےاور قدرت کا ازل سے یہ طریق رہا ہے کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل اور تعلیم وتربیت کےلئے انبیاء کرام(علیھم السلام) اللہ پاک کے پیغام کو خلق تک پہنچاتے رہےاور اس کی تکمیل آقا دو جہاں (ﷺ) پر ہوئی اور آپ  (ﷺ)  پر توحید کے ساتھ ساتھ اصل مقصد عقیدہ ختم نبوت سامنے آتا ہے-در حقیقت عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت پر یقین کامل ہونا چاہیے جس میں ’’اقرارباللسان اور تصدیق بالقلبہے‘‘-ختم نبوت (ﷺ) کی یہی تربیت رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے اصحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کو عطافرماکر ان کو درخشندہ ستارے قرار دیاکہ  جو بھی  اس فیض کو حاصل کرے تو وہ تمام مخلوق کو اپنے خالق حقیقی تک رسائی کا طریق بتا ئےتاکہ اس کرۂ ارض سے انسانیت کےدکھ و تکلیف دور ہو سکیں-آقا علیہ السلام کے فیض کا یہ سلسلہ تابعین،  تبع تابعین اور سلف صالحین کے ذریعے تاقیامت چلتا رہے گا-

 مالک کریم کی اپنےبندوں سے محبت کا عالم دیکھیئے! کہ جب بھی مسلمانوں پریا ان  اسلامی معاشروں پر کڑا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرما کران کی حالتِ زار پر رحم فرمایا اور ان کے ذریعے سے معاشرے میں امن کو عام فرمایا-صوفیاء کرام جن کا ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے کہ وہ اپنا کام رضائے الٰہی کی خاطرسرانجام دیتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں  حبِ الٰہی،سنتِ رسول (ﷺ) اور انسان دوستی کے احسانات موجزن ہوتے ہیں جو کہ ریاکاری سے پاک ہوتے ہیں جس کا حصول جنت یا اس کی آسائش نہیں بلکہ رضائے الٰہی ہوتی ہے-ان کی ریاضت کا جذبہ فقط عشقِ الٰہی ہوتاہے جس سے وہ انسان کی ظاہری و باطنی نظریاتی تربیت  فرماتے ہیں-

اگر ہم اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں تو آج بھی جب ہر طرف اندھیرا چھا چکا ہے،مادی جبلتوں،توہم پرستی، خدا سےدوری اور غفلتِ قلب کی وجہ سے تمام انسانیت لمحہ بہ لمحہ انتشارکا شکار ہورہی ہے جس سے ہر لمحہ و ہر لحظہ انسانیت کا کڑی تکلیف سے گزر رہا ہے- ان تمام خصلتوں کی وجہ پاکیزگی ٔباطن نہ ہوناہے- آج ہمیں آقا پاک (ﷺ) کے اسی فیضان کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے انسان  اپنی زندگی میں تکالیف کی بجائے روحانی سکون کو جاگزیں کرے-تو مالکِ پاک نے آج بھی ہماری حالتِ زار پر کرم فرمایا ہے کہ آج کے اِس مادہ پرستانہ دور میں سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سے ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ اِسی پیغامِ اِنسانیت و پیغامِ امن کو لے کر چلی ہے کہ اِنسان کو انسانیت کا محافظ و نگہبان بنایا جائے -

 

یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ واقعتاً یہی وہ جماعت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور تعلیماتِ اَسلاف و اکابر کی حقیقی مُبلّغ ہے جس کا اَوّل و آخر مقصدِ انسانیت کی فلاح و بقا اور ظاہری و باطنی پاکیزگی ہے -اِس تحریک کے بانی سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) (۱۹۴۷ء-۲۰۰۳ء) ہر وقت دینی و روحانی خدمات کے جذبہ سے سرشار رہے- ہمہ وقت اَولیائے کاملین اور عارفین کی تعلیمات کے مطالعہ میں رہنا اور اسی ذکر و فکر میں وقت گزارنا آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا معمول رہا -آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے انسان کے ظاہر و باطن کی تطہیر کے لئے ہی ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ‘‘کی بنیاد رکھی-

اِس دردِ انسانیت کو عامۃ الناس کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کے زیرِ اہتمام جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)، سرپرستِ اعلی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی قیادت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر محسنِ انسانیت فخرِ موجودات (ﷺ) کے اسمِ گرامی سے منسوب محافل میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کانفرنسز (Conferences)کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-

یہ اجتماعات روایتی طریق کار کی طرح نہیں ہوتے بلکہ نہایت ہی منظّم اور بامقصد طریقے سے ہوتے ہیں-ہر پروگرام کی ترتیب اس طرح سے ہوتی ہے کہ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ ، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے، صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت الحاج محمد نواز القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت ہونے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

امسال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کے دوسرے راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-

ڈیرہ اسماعیل خان:                   2017-12-24      اڈا گراؤنڈ پہاڑ پور

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اللہ رب العزت نے اٹھارہ ہزار عالم کی مخلوقات میں سے اشرف المخلوق انسان کو بنایا ہے جس کی وجہ سے وہ بے حد اہمیت کا حامل ہے-

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘ [2]

’’اورتحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت والا بنایا ‘‘-

انسان  کی اتنی عزت و اہمیت کو جاننے کےلئے ہمیں اس کی تخلیق میں فکر کرنی ہوگی فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘[3]

’’پس جب میں اسے تیار کر لوں اور اس کے اندر اپنی رُوح پھونک لوں تو اے ملائکہ تم سب اس کے سامنے سجدے میں گِر جانا‘‘-معلو م ہوا کہ انسان دو جسموں کا مجموعہ ہےایک ظاہری وجود جو مٹی سے بنا ہے اور ایک باطنی وجود جو اللہ پاک کے نور سے تخلیق کیا گیا ہے-ظاہری وجود کی خوراک اس وجود سے میسر ہوتی ہےجبکہ باطنی وجود کی خوراک ذکرِ الٰہی اور یادِ الٰہی ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ‘‘[4]

’’خبردار !اللہ پاک کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ‘‘-

کیونکہ کل قیامت کے دن جو چیز انسان کو نفع دے گی وہ انسان کا سلامتی والا دل ہےجیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘[5]

’’قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے بلکہ قلبِ سلیم کام آئے گا‘‘-

دل کی سلامتی کا نسخہ ’’اسم اعظم ‘‘ہے جس کو اصلاحی جماعت عام کررہی ہے جس کا مقصد یہ ہےکہ انسان شریعت و طریقت دونوں کو اپنا کر کامیابی و کامرانی حاصل کرے-

مظفر گڑھ 2018-01-02 سیال میرج حال

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ اس نے اس کائنات ارضی میں انسان کو تمام مخلوقات کے اوپر شرف و بزرگی عطا کر کے اسے خلافت و کرامت کا تاج پہنایا-جہاں پر انسانیت کو شرف سے نوازا گیا وہیں اس کے اوپر ذمہ داریاں بھی عائد کیں جن کو نبھانا اور عملی جامہ پہنانا انسانیت کا عظیم فریضہ ہے، جن کا تذکرہ قرآن مجید فرمایا:

’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ‘‘[6]

’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا‘‘-

آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے فریضہ کو اداکرہے ہیں؟ یا ہم نے کبھی اپنے اس فریضہ کو ادا کرنے کی کوشش کی؟ اگر ہم اپنے وجود میں غور کریں اور اس کے انعامات وکرامات کو دیکھیں تو وہ اس قدر لطیف ہیں کہ کوئی چیز بھی ان کا متبادل نہیں ہو سکتی اور صرف انہیں کا شکر بجالانا چاہیں تو بجا نہیں لا سکتے تو اس کی بقیہ چیزوں کا شکر کیسے بجا لاسکتے ہیں!-اللہ تعالیٰ کے شکر کو بجا لانے کے لئے صوفیاء کرام نے ایک طریق بتایا ہےکہ اے انسان! تم اپنی سانسوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگا کر اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو‘‘-

راجن پور                                       2018-01-03 ٹیڈیم گراؤنڈ

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اسلام میں داخلے کا یہ امتیاز ہےکہ انسان کی زندگی میں جو برے اعمال ہوئے ہوتے ہیں وہ ختم ہوجاتے ہیں اور کلمہ طیب پڑھنے سےانسان ناپاکی سے پاکیزگی میں آجاتاہے-اگرچہ انسان ایک سو سال بعدہی کلمہ طیب پڑھے تو اس کے سو سال کا کفر ختم ہوجائے گااور وہ ایک مسلمان کہلائے گا-مگر یاد رکھیں!کہ کلمہ طیب پڑھنے کے بعد مسلمان کے اوپر جو احکامات لاگو ہوتے ہیں ان کو دیکھنا ضروری ہےمثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج-ان اعمال کی چاشنی اور تاثیر کے لئے ایسے رہبر کی ضرورت ہے کہ جس کی راہنمائی و تربیت کو پاکر انسان اپنے ظاہر اور باطن کو پاک کر کے اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرلے-جیساکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ‘‘[7]

’’اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو‘‘-

جسم کی طہارت کا ایک الگ طریق ہے اور باطن کی پاکیزگی کا ایک الگ طریق-جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُاللہِ تَعَالٰی‘‘[8]

’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘-

مزید سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا کی لیناں تسبی پھڑ کے ھُو
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھُو
چلّے کٹّے تے کجھ نہ کھٹیا کی لیناں چلّیاں وڑ کے ھُو

جاگ بنا ددھ جمدے ناہیں باھُو بھانویں لال ہونْون کڑھ کڑھ کے ھُو‘‘

کندھ کوٹ                         2018-01-04 سکول گراؤنڈ

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’دین اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے جس کی پیروی کرنے والوں کواللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں کامیاب فرما دیتا ہے-اللہ رب العزت نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ کو ہمارے لئےنمونہ عمل قرار دیا ہے:

’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا‘‘[9]

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (ﷺ)کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے‘‘-

تحقیق کے حضور پاک (ﷺ) کی حیات مبارکہ ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے اور جس جس نے بھی قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئےحضور پاک (ﷺ) کی غلامی اختیار کی تو وہ زمانے کے امام و پیشوا بنا دیے گئے-فرمانِ نبوی(ﷺ)ہے:

’’اصحابی کاالنجوم بایھم اقتدیھم اموتیم‘‘[10]

’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس جس نے بھی ان کی اقتدا اور پیروی کی ہدایت پائی‘‘-

اللہ تعالیٰ نے بھی ہدایت انسانی کیلئے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرمایا:

’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘[11]

’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘-

ایمان یافتہ لوگوں کی صحبت ایمان کی تقویت اور تکمیل کا سبب ہے-اس لئے اولیاء اللہ لوگو کو اس طریق کی دعوت دیتے ہیں جو بندے کو اپنے حقیقی مالک و خالق کے قرب و وصال کا پتا دیتا ہے‘‘-

جیکب آباد                                     2018-01-05 حمیدیہ ہائی سکول گراؤنڈ

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’قرآن مجید بندے اور خدا کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے اور ضابطہ حیات ہے-مگر ہم اپنا اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمارا قرآن کریم سے ایک فرضی سا تعلق رہ گیا ہے ہم نے کبھی قرآن مجید میں جھانک کر نہ دیکھا ہےاور نہ تدبر و تفکر کرنے کی کوشش کی-حالانکہ اگر ہم قرآن و سنت میں غور و فکر کریں تو اسی میں ہماری عظمت و توقیر کا راز پوشیدہ ہے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ‘‘[12]

’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہےجو سب سے درست ہیں‘‘-

مزید حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ‘‘[13]

’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘-اگر اس حدیث مبارکہ کابغور مطالعہ کریں تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے شرف و بزرگی کو قرآن مجید کی تعلیم سے مربوط کر کے ذکر فرمایا ہے کہ جو بھی عظمت کو پانا چاہتا ہے وہ قرآن سیکھے اور سکھائے-بقول علامہ اقبالؒ :

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن 

’’اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہےتو ایسی زندگی قرآن پاک کے بغیر ممکن نہیں‘‘-

مزید فرماتے ہیں کہ :

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

شہداد کوٹ                         2018-01-06 ستاری شادی حال

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’بنیادی طور پر ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک ظاہر اور دوسرا باطن-اسی طرح تخلیق انسانی میں غور کریں تو اس کے بھی دو پہلو ہیں’’ظاہر‘‘ اور ’’باطن‘‘-ان دونوں کے خورد و نوش اور پاکیزہ وطاہر ہونے کےمختلف تقاضے ہیں-

افسوس کہ! آج ہم صرف جسمانی تقاضے پورے کرنے میں اپنی مکمل تگ و دو کررہے ہیں لیکن ہم اپنے روحانی تقاضے پورے کرنے سےغافل ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوکر اپنے رب کو ہی بھول بیٹھے ہیں-اصلاحی جماعت ہم سب کو خبر کرنے آئی ہے کہ ہم اپنے جسم اور روح دونوں کے حقوق کی بجا آوری کرکے اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کریں‘‘-

گھوٹکی                                          2018-01-07 SSPلان نزد نیشنل بنک

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو صرف دو ہی راستے ہیں: ’’رحمانی‘‘ اور ’’شیطانی‘‘- دین اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول (ﷺ) کی طرف بلاتا ہے جبکہ شیطان ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے-اس لیےاللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُواْ فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشِّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عُدُوُّ مُّبِیْنٌ‘‘[14]

’’اے ایمان والو! اِسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی مت کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان دونوں راستوں کی نشاندہی بھی کروائی اور اختیار بھی دیا کہ اپنی مرضی کے مطابق جو راستہ اختیار کرنا چاہتے ہو اسے اختیار کرو-فرمانِ خداوندی ہے:

’’اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا‘‘[15]

’’بے شک ہم نے اسے(حق وباطل میں تمیز کرنے کے لیے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے‘‘-

اگر شکر کا راستہ اختیار کرنا ہے تو پھر اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے احکامات کی پیروی کرنا ہوگی اور اس کے برعکس اگر شیطان کے راستے کو اختیار کرو گے تو شیطان تمہیں کفر کے بہکاوے میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے غافل کردے گا-اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے شکر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے مالکِ حقیقی کی یادمیں رہ کر اس کا قرب و وصال حاصل کریں‘‘-

رحیم یار خان             2018-01-08 سکول گراؤنڈ

صدارت: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

خطاب: صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب’’ہماری روحانی فکر اور روحانی تربیت کا تعلق دو چیزوں سے ہے-پہلی چیز کا تعلق حضور رسالت مآب (ﷺ) کی عظمت و بزرگی سے ہےجس کی عقل،قلب کی طہارت اور تقویٰ جس قدر بڑھتاجاتا ہےوہ اس قدر آپ (ﷺ) کی عظمت کو حاصل کر کےآپ (ﷺ) کے ذکر کو ارفع سے ارفع پہنچانتا جاتا ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ‘‘[16]

’’اور ہم نے آپ (ﷺ)کی خاطر آپ (ﷺ)کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘-

جن کے ذکر و بلندی کا تذکرہ خود اللہ پاک کرے تو جہاں پر رفعتوں اور بلندیوں کی انتہاء ہوتی ہےوہاں سے آگے آپ (ﷺ) کے شرف اور قدر ومنزلت کی ابتداء ہوتی ہے-جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب (ﷺ) کا تذکرہ فرمایا مبالغہ کے ساتھ فرمایا، جیسے:

’’إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ‘‘[17]

’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے‘‘-

دو چیزیں ہوتی ہیں:’’قلت‘‘ اور ’’کثرت‘‘-قرآن مجید میں قلت کے بارے میں یوں ارشاد ہے:

’’قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ‘‘[18]

’’آپ ()(انہیں) فرما دیجیے کہ دنیا کا متاع بہت تھوڑا (یعنی معمولی شے) ہے‘‘-

اگر ہم مشرق و مغرب اور شمال وجنوب تک جتنی بھی اشیاء مثلاًنباتات، معدنیات،حیوانات اور ان کی اقسام، کا شمار کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے جبکہ اللہ پاک نے ان تمام اشیاء کو قلت فرمایا ہے-اندازہ لگائیں! کہ قلت کی اشیاء کا شمار ہم نہیں کر سکتے توجو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب (ﷺ) کو جو کثرت عطا فرمائی ہے اس کا شمار کیسے کر سکتے ہیں--!کسی شاعر نے کیا خوب کیا ہے:

لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا توئی قصہ مختصر

شانِ الوہیت کے بعد جتنے بھی مقاماتِ ارفع و اعلیٰ ہیں وہ سب کے سب آپ (ﷺ) کی شایانِ شان ہیں-

دوسری چیزجس کا تعلق تزکیہ نفس سےہے،جسے ہم تصوف کہتے ہیں-آج یہ سمجھنے کی ضرورت ہےکہ تصوف کا اصل مآخذ کیا ہے؟ یاد رکھیں! جو بات قرآن و سنت سے ثابت نہ ہویا قرآن وسنت کے متصاد م ہو اس کا ترک لازم ہے-مگر تزکیہ نفس، تصفیہ قلب کا طریقِ روحانی ایک ایسا راستہ ہے جس کا ذکرخود اللہ تعالیٰ نے تکرار کے ساتھ فرمایا اور حضور نبی کریم(ﷺ) نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کو اس کی تلقین فرمائی-اس طریق کو امام الآئمہ شیخ الشیوخ سیدعبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ)، امام غزالیؒ،آئمہِ مفسرین اور آئمہ محدثین ؒ نے خود بھی اختیار کیا اور اس کی اشاعت وترویج فرمائی-تصوف طریق تربیت مصطفےٰ (ﷺ) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا:

’’کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘[19]

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘-اس آیت میں ’’ یُعَلِّمُکُمْ ‘‘کے فعل کا تکرار ہے اور قاضی بیضاوی ؒ فرماتے ہیں کہ فعل کا تکرار یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ’’ یُعَلِّمُکُمْ ‘‘میں تعلیم دوسری قسم کی ہے-دوسری قسم کے علم کے بارے میں قاضی ثناؤا للہ پانی پتی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’وہ علم لدنی ہے‘‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشادفرمایا:’’وَعَلَّمْنٰـہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘[20]

’’ اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا ‘‘-

یہی علمِ باطن اور تصوف ہے جس کے بغیر ہماری کامیابی ناممکن ہے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن و سنت کی تعمیل کرتےہوئے ہمیں اس علم کو اپنانا چاہیے‘‘-

لودھراں                          2018-01-09 ماڈل ویو ہاؤسنگ سکیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم (ﷺ) کوجو بھی صفت عطا فرمائی ہے اس میں آپ (ﷺ) کا کوئی بھی ہمسر و ثانی نہیں -فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘[21]

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘-

آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے اور اس رحمت کا کوئی شمار بھی نہیں کرسکتا کیونکہ آپ (ﷺ) کی رحمت کا کوئی کنارہ ہی نہیں-لہذا ہمیں چاہیےکہ ہم امتی ہونے کے ناطے اس رحمت کو پائیں اور رحمت کی ترسیل کریں-اسی طرح آپ (ﷺ)کے ذکر کی عظمت کا تذکرہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے کیونکہ انسانی حکمت و دانائی آپ (ﷺ) کی عظمت کی ابتداء کو بھی نہیں پہنچ سکتی-مزیداللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) کی ہر آنے والی گھڑی اور ہر آنے والے لمحے کو پہلے سےزیادہ حسین اور خوبصورت بنادیا:

’’وَ لَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘[22]

’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے‘‘-

دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح انسانوں میں تخصیص ہے اسی طرح علوم میں بھی تخصیص ہے-مثلاً ’’عام‘‘، ’’خاص‘‘ اور ’’خاص الخاص‘‘-جس طرح سمندر کے اوپر تیرنے والے حصے میں جھاگ آتی ہے اور دریا کے اوپر تیرنے والے حصے میں تنکے آتے ہیں مگرہر ایک موتیوں تک نہیں پہنچتا بلکہ جو سمندر کی تَہ میں اترتے ہیں وہی موتیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں:بقول علامہ اقبالؒ :

محروم رہا وہ دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا 

اسی طرح کچھ علوم عام،کچھ علوم خاص اور کچھ علوم خاص الخاص ہیں-علوم کی کئی اقسام ہیں:دنیاوی علوم ہیں، قرآن وسنت کا علم ہے، علمِ ظاہر اور علم باطن ہے - علم باطن کو علم لدنی اور علمِ تصوف بھی کہتے ہیں جس کی اصل قرآن وسنت ہے  اوراس کی تصدیق آئمہ اور محدثین کرام نے کی ہے- رسول اللہ (ﷺ) سے صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ)نےجو علم سیکھا،اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا-حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللہِ()وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهٗ وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهٗ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ‘‘

’’مَیں نے حضور نبی پاک سے دو اقسام کے علم سیکھے ہیں کہ ایک کو تو میں نے بیان کردیا اور دوسرے کو اگر میں بیان کرتا تو میرا یہ حلقوم کاٹ دیا جاتا‘‘-

تاریخ گواہ ہے کہ!علمِ تصوف کی اصل  کا انکار بارہویں صدی ہجری اور اٹھارہیں صدی عیسوی سے پہلے کسی عالم یا کسی امام نے نہیں کیا-

ملتان                                            2018-01-10      قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

انسان کی عبادت، ریاضت اور زہد اس وقت تک کارگر نہیں جب تک انسان کی نیت درست نہ ہو اور نیت کو صاف اور درست کرنے کے لئےکسی راہبر اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے-جس طرح دیگرعلوم کو سیکھنے کے لئےکسی استاد یا کسی شیخ کی ضرورت ہوتی ہےاسی طرح نیت اور عمل کو اخلاص کے ساتھ اپنے مالک حقیقی کی بارگاہِ میں پیش کرنے کے لئے کسی ماہر کی ضرورت ہوتی ہے-انسان یہ ضرورت اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ اپنے ظاہر سے اپنے باطن میں اترنے کا ہنر سیکھےتاکہ وہ اپنے ضمیر سے مخاطب ہو کر اپنے باطن کو اجاگر کر سکے-مگر آج کے دور میں اس علم کو دھندلا کر کے اس پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کہاں سے ثابت ہے؟-یاد رکھیں علم باطن اور علم روحانیت کا تعلق قرآن وسنت سے ہےاور اس کا استشہاد بھی قرآن و حدیث سے ہے-جس علم کی غواصی محمد بن محمد بن محمد الغزالی، ابن حجرعسقلانی،امام جلال الدین سیوطی، ابو طالب مکی، امام قشیری، شیخ عبد القادر جیلانی اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(﷭) کریں تو یقیناً وہ علم قرآن وسنت سے ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘[23]

’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘-

یعنی جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اس پر استقامت اختیار کی تو ان کے لئے آسمان سےفرشتے اترتے ہیں-یہ نظام ہردور میں ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسا اور استقامت اختیار کرتا ہے اس کے لئے ملائکہ نازل کیے جاتے ہیں اور وہ ملائکہ فرماتے ہیں کہ:

’’نَحْنُ اَوْلِیٰـٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ‘‘[24]

’’ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مدد گار ہیں اور آخرت میں (بھی) ‘‘-

معروف مفسر قاضی ابو سعود ’’تفسیر ابی سعود‘‘ میں اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں وہ ملائکہ انسان کے دینی اور دنیاوی امور میں اس کے مددگار ہوتے ہیں - اللہ تعالیٰ بطریق الہام اپنے بندوں پر باطنی علوم کو منکشف فرماتا رہتا ہے اور  اپنے بندوں کی برکت سے لوگوں کے دلوں پر ہدایت کو جاری فرما دیتا ہے-

قاضی ثناؤ اللہ پانی پتی ؒ ارشادفرماتے ہیں کہ وحی کی دو اقسام ہیں:’’الہامِ تشریعی‘‘ اور ’’الہامِ غیر تشریعی‘‘-الہامِ تشریعی نبی کے ساتھ خاص ہے اور اس کے احکامات شرعیہ ثابت ہوتے ہیں-اسی طرح الہامِ غیر تشریعی اولیاء اللہ کے لئے ہوتا اور وہ الہام حق ہوتا ہے جس کا انکار گمراہی ہےکیونکہ اس کا ثبوت قرآن وسنت سے ہےاور یہ بطریق باطنیہ حاصل ہوتاہے-اس علم کے متعلق صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم پوشیدہ چیزوں کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور یہ علم انہیں حضور رسالت مآب (ﷺ) نے عطا فرمایا تھا جیسا کہ حضور پاک (ﷺ) سے حضرت حارث انصاری (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا کہ:

’’اے حارث! تونے صبح کیسے کی؟تو انہوں نے عرض کی میں نے ایمان کی حالت میں صبح کی-آپ (ﷺ) نے فرمایااے حارث!تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟تو انہوں نے عرض کی:’’كَاَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّيْ بَارِزًا وَكَاَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُوْنَ فِيْهَا وَكَاَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ يَتَضَاغَوْنَ فِيْهَا فَقَالَ : يَا حَارِثُ عَرَفْتَ فَالْزَمْ ثَلاثًا‘‘[25]

’’گویا میں اپنے رب کےعرش کو سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں ، جنت میں اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں ، دوزخ میں، دوزخیوں کو تکلیف سے چلاتے دیکھ رہا ہوں حضور نبی کریم() نے ارشاد فرمایا: اے حارث! تونے(حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا-یہ کلمہ آپ () نے تین مرتبہ فرمایا‘‘-

یہ تمام مشاہدات جو صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) نے کئے یہ سب ’’علمِ باطن ‘‘کا ثمر ہے-

وہاڑی 2018-01-11 سلطان باھو فٹبال اسٹیڈیم

صدارت: سر پرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی  جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

اللہ رب العزت نے روزِ ازل ہی سے بنی نوع انسان کے دل میں محبت کا جذبہ رکھ دیا ہے-محبت کو اپنانے کے لئے مختلف ذرائع انسان کو راغب کرتے ہیں-بعض دفعہ محبت صورت کی وجہ سے ہوتی ہے اور بعض دفعہ سیرت و کردار کی وجہ سے ہوتی ہے-محبت و عشق میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں کہ انسان کو فیصلہ کرنا پڑتا ہےکہ وہ اپنی جان ، اپنے رشتہ دار اور اہلِ عیال کو ترجیح دیتا ہے یا اپنےمحبوب کی محبت کو-اسی طرح مومن ہمیشہ اپنی جان کی بجائے اپنے ایمان کی حفاظت اپنی جان سے بھی بڑھ کرکرتا ہے-جیسا کہ حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:

صادق دین تنہاں دے باھو جیہڑے سر قربانی کردے ھو

حضور رسالت مآب (ﷺ)نےاہل ایمان کے لئے جس چیز کو کسوٹی قرار دیا وہ بھی محبت رسول (ﷺ) ہے-فرمانِ نبوی (ﷺ) ہے:

’’لَایُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ‘‘[26]

’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ سے اپنے والدین ، اولاد بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت نہ کرے‘‘-

یعنی اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) سے بے لوث محبت کا تقاضا کیا گیا ہے-مگر انسانی عقل صور ت و سیرت میں محبت کے اسباب تلاش کرتی ہے-سیرت میں کثرت و فراوانی کی بات ہوتو آقا کریم (ﷺ) پر تمام علوم کی انتہاء ہوگئی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ‘‘[27]

’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے‘‘-

اللہ تعالیٰ نےآپ (ﷺ)کو تمام علوم کا جامع اور منبع بنایا اس لئے کوئی بھی علم آپ (ﷺ) کی دسترس سے باہر نہیں ہے-اخلاق کودیکھو تو آپ (ﷺ) کی ذات کو جامع بنایا:

’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم‘‘[28]

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ‘‘-

اخلاق کی تمام تر خوبیا ں آپ (ﷺ) میں جمع فرمادیں حتی کہ آپ (ﷺ) کا وجودِ مسعود تمام اوصاف و کمالات کا جامع ہے-آپ (ﷺ) کی صورت مبارک انوارِ الٰہیہ کا مرکز ہے جو بھی آپ (ﷺ) کو دیکھتا،آپ (ﷺ) کا ہی ہوکر رہ جاتا-صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) فرماتے کہ آپ (ﷺ) جس راستے سے گزرتے خوشبو بکھیرتے جاتے اور آپ (ﷺ) تک رسائی کے لئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ وہ خوشبودار راستہ بتادیتا کہ آپ (ﷺ) یہاں سے گزرے ہیں-آپ (ﷺ) کی صورت مبارک کو تابیٔ سور ج سے تشبیہ دی گئی، ’’والضحی‘‘-صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) چاند کو دیکھ کر فرماتے کہ آپ (ﷺ)  کا چہرہ مبارک چاند سے بھی زیادہ حسین و جمیل ہے-لہذا آپ (ﷺ) تمام اوصاف و کمالات کے جامع و منبع ہیں اس لئے تمام تر محبت کرنے والوں میں سے محبت کے لائق حضور نبی کریم(ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہےکیونکہ آپ (ﷺ) ہر عیب و نقص سے مبرہ اور منزہ ہیں-

خانیوال                     2018-01-12 میونسپل اسٹیڈیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

پہلی بات : اختلاف اورفساد میں واضح فرق ہونا چاہیےکہ اختلاف کیا ہے اور فساد کیا ہے-

الحمد للہ! پاکستانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ مکاتب فکر میں اختلاف تو ہو سکتا ہےمگر پاکستان میں فساد کو روا نہیں رکھا گیا بلکہ پوری قو م نے مل کر رد الفساد کیاکیونکہ یہی تعلیم ہمیں رسالت مآب (ﷺ) سےملی ہے-جیسے کہ فتح مکہ کے موقع پر بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ آج انتقام کا دن ہے لیکن رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ نہیں آج معافی اوررحمت کا دن ہے-

دوسری بات: آقا کریم (ﷺ) نے اپنے اصحاب کی تربیت قرآن مجید سے فرمائی جو تمام پہلی کتب اور صحیفوں کا ناسخ ہے-مگر افسوس! کہ آج کا مسلمان قرآن مجید کو عملی طور پر ترک کرچکا ہے-یاد رکھیں! کہ مومن ہمیشہ نور اور روشنی قرآن مجید سے حاصل کرتا ہے،قرآن مجید ہوگا تو نورِ ایمان حاصل ہوگا-اس لئے آج ہمیں قرآن مجید سے تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت ہے- ہم سب کو چاہیے کو اپنے گھروالوں اور بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم سے آراستہ کریں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر