قولِ سدید : انسانی معاشرے میں آدمی کے انفرادی کردار کا نصاب (قسط1)

قولِ سدید : انسانی معاشرے میں آدمی کے انفرادی کردار کا نصاب (قسط1)

قولِ سدید : انسانی معاشرے میں آدمی کے انفرادی کردار کا نصاب (قسط1)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جنوری 2018

اس وقت الحمد اللہ! دنیا اسلام میں بہت عظیم سی تحاریک موجود ہیں جو اصلاح احوال اور مسلمانوں کے دیگر معاملات کے حوالہ سےاپنی اپنی کاوشیں بروئے کار لارہی ہیں-اللہ پاک سب کی خلوص دل سےکی ہوئی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماکر ذریعہ خیر بنائے- ساڑھے پانچ ہزار برس، بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ نے جس دین کا ارتقاء مختلف انبیاء)علیھم السلام)کے ذریعے فرمایا اس دین کا ارتقاءچلتے چلتے سید الانبیاء خاتم النبیّین حضرت محمد الرسول اللہ(ﷺ) پر مکمل ہوا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی امت میں پیدا فرمایا اور ہمیں یہ توفیق خاص عطا فرمائی کہ ہم آقا (ﷺ) کے کلمہ گو بن کر آپ (ﷺ) کی رسالت ’’عبدہ ورسولہ‘‘ کی گواہی دیں-یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ ہم وہ خوش نصیب امت ہیں جس کے نصیب میں اللہ تعالیٰ نے یہ گواہی دینے کی توفیق مرحمت فرمائی کہ:

اشھدو اللہ الہ اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ

 

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں (حضرت) محمد(ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘-

پھر تمام کتب آسمانی اور صحیفے جو ان ہزاروں برس میں مختلف اقوام پر، مختلف زبانوں میں اور مختلف خطوں پر اترے، ان تمام کتب کے جامع پیغامات اور عین ہدایت کی آخری کتاب ’’قرآن پاک‘‘ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا- اللہ تعالیٰ نے ہمیں امتِ وسط قرار دیا جو عین راہِ اعتدال پرقائم امت ہے-

مگر کچھ باتیں ہمارے معاشرے میں ایسی بھی روپذیر ہوجاتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان رنج و غم میں مبتلا ہوجاتا ہے- وہ یہ ہیں کہ اس ہادی دو عالم (ﷺ) کی راہ پر دچلنے والے، اپنے دامن میں قرآن کی ہدایت کے پھولوں کو جمع کرنے والے، سچے رب کی وحدانیت اور توحید پر گواہی دینے والے اپنے درمیان ان بدقسمت باتوں کو کیسے پالتےچلیں آرہے ہیں؟ہمارے معاشرے اور سماجی رویوں میں جو جرائم جس اعتبار سے تشکیل پا رہے ہیں یا مسلسل پاتے چلے جارہے ہیں، بطور انسان یہ نہ تو ہماری عزت و وقار کا باعث ہے اور نہ ہی بطور مسلمان یہ ہمارے خوش و خرم ہونے کا باعث ہے-

یہاں اپنی ناچیز حیثیت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا اگر وہ ہمارے ذہن میں بیٹھ جائیں تو دین و دنیا کے متعلق ہمارا جو تصور (concept) ہے، واضح ہو جائے گا-مَیں آپ کے سامنے صرف تین چیزیں پیش کرنا چاہوں گاکہ:

1.       انسان کی ازدواجی زندگی کے معاملات جو کہ بنی نوع انسان کی نسل کی ترویج اور پھیلاو کا باعث ہے کیا یہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے یا دینی و مذہبی ضرورت ہے؟

2.       سچ بولنااور جھوٹ سے اجتناب کرنا، یہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے یا دینی و مذہبی ضرورت ہے؟

3.       عدل و انصاف کرنا یہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے یا دینی و مذہبی ضرورت ہے؟

زندگی میں انسان چاہے کسی بھی مذہب پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اس کے لئے ازدواجی زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر سر انجام دینا، سچ بولنا و جھوٹ سےاجتناب کرنا اور عدل و انصاف کرنا لازم ہے- معاشروں میں مذہب موجود ہو یا نہ ہو،چاہے سیکولر معاشرے ہوں، ایتھی ایسٹ معاشرے ہوں، ریلیجیس معاشرے ہوں،کرسچن سوسائٹی ہو، مسلم سوسائٹی ہو، ہندو سوسائٹی ہو یا کوئی بھی کمیونیٹی ہو، ان سب کے لئے یہ تینوں چیزیں سماج و معاشرے کی بنیادی ضرورت ہیں-اب آپ غور کیجیئے! کہ یہ تینوں چیزیں’’ازدواجی معاملاتِ زندگی،حق گوئی و جھوٹ سے اجتناب اور عدل و انصاف‘‘انسانوں کی دینی و مذہبی ضرورت کم اور سماجی و معاشرتی ضرورت زیادہ ہے-لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور اللہ کے رسول (ﷺ) نے اپنی سنت مبارکہ میں ان تینوں امور کو ہمارے لئے ایک کارِ خیر کا رتبہ دے کر آخرت کےساتھ منسوب کردیا ہےکہ اگر کوئی ان تینوں چیزوں میں غلطی کا یا ان میں گریز کرنے کا مرتکب ہو گا تو وہ ان تینوں امورمیں اجر و ثواب سے منقطع ہوکر سزاکا مرتکب ہوجائے گا-

گو کہ یہ تینوں امور انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہیں مگر دینِ مبین میں اللہ تعالیٰ نے ان تینوں امور کو انسان کے مذہب اور ایمانیات کا حصہ بنا کر یہ بتا دیا ہے کہ اس دینِ مبین کا بنیادی مقصدہی یہ ہے کہ انسان کے سماج و معاشرے کو وحی، الہام اور روحانیت سے اس طریقہ سےجوڑ دیا جائے کہ چاہے یہ اپنےازدواجی حقوق صحیح طریقے سے ادا کرے، چاہےیہ سچ بولے، جھوٹ سے اجتناب کرے اور چاہے یہ عدل و انصاف کرےان تمام چیزوں کےاوپر اللہ تعالی اپنی بارگاہِ رحمت سے اس کو اجر خیر عطا فرمائے گا-لہٰذا یہ بنیادی بات ہمیں اپنے اوپر واضح کردینی چاہیےکہ دینِ مبین ہمیں جن احکام کابھی حکم کرتا ہے یا جس بھی ترتیب پر ہمیں زندگی گزارنےکی ترغیب و راہنمائی فراہم کرتا ہے اس کا تعلق بنیادی طور پر ہمارےسماج و معاشرے سے ہوتاہے-یعنی ہمارے آپس میں رہن سہن کا،ہمارے ایک دوسرے سے معاملات کا اور ایک دوسرے پر حقوق کا جو معیار ہے،ان کو نیکی کے اوپر استوار کردیا جائے اور انسانوں کو یہ سہولت عطا کردی جائے کہ چاہے یہ اپنے امورِ دنیا سر انجام دے رہے ہوں تو ان کے امورِ دنیامیں بھی ان کا تعلق اپنے رب اور خالقِ حقیقی سے منقطع نہیں ہونا چاہیےاوراپنے ہر عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ ہمیں اجر کا مستحق قرار دے دے-اس لئے دین مبین بنیادی طور پر ہماری معاشرت کی اصلاح کرتا ہے-

مگر بد قسمتی سے کم سے کم پچھلی دو، تین صدیوں سے ہمارے درمیان کچھ ایسےمباحث چھڑ گئے ہیں،کچھ ایسی روایات چل پڑیں ہیں اور کچھ ایسی چیزیں ایجاد ہوگئیں ہیں جن کے باعث انسان کی جو اخلاقی و بنیادی ضروریات تھیں وہ ہمارے معاشرے میں سے مفلوج ہوتی چلی گئیں اور ہمارے درمیان اعلیٰ اخلاقیات و اعلیٰ ایمانی اقدار کی بجائے بہت سے مسائل نے فروغ پایا-جس کی وجہ سے آج کل آپ الپو، حلب، بلاد عراق اور بلاد شام میں جاری اس بربادی و تباہی کو دیکھ رہے ہیں-یہ اِس سطحیت کا اُس عامیانہ پن کا نتیجہ ہے جو ہمارے درمیان اتنے عرصے سے روا رکھا گیا ہے-اگر ہم ان منافرتوں کی بجائےاپنی بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ دیتے تو میرے خیال میں آج جو ہمارے درمیان اخلاقی انحطاط، اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی تنزل و زوال ہے یہ نہ ہوتا- ناچیز کی ذاتی رائے میں جو منبر و محراب کی بنیادی ذمہ داری و فریضہ ہے وہ لوگوں کی اصلاحِ احوال کرنا اور لوگوں میں اس تصور کو درست کرنا ہے کہ ان میں محبت الٰہی،اللہ کا خوف اور اللہ کے حبیب (ﷺ) کی محبت و اطاعت کا جذبہ پیدا ہو-یہ وہ بنیادی امور و فرائض ہیں جب تک منبر و محراب اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرتےرہے ہیں توہمارا اسلامی سماج بطور ایک ملت کے کبھی اس قدر منتشرو تقسیم نہیں ہوا اور اس قدر ان کے درمیان سے کبھی اخلاقیات کا جنازہ نہیں اٹھا-ہمارے درمیان بہت عیش و عشرت پسند حکمران آئے،آپ عباسیوں، مغلوں، ہسپانیوں کے آواخر کی تاریخ دیکھ لیں انہوں نے اپنی عیش و عشرت کی آخری حدوں کو بھی عبور کردیا مگر اس وقت ان بادشاہوں کے اخلاقی دیوالیہ پن کے باوجودمنبر و محراب کی جو بنیادی ترجیح تھی وہ قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے اصلاحِ احوال کی ترتیب تھی -جب تک اکابرین امت نے لوگوں کے اوپر اپنی نظرِ کرم کو بحال رکھا ہے اس وقت تک بطور ملت اجتماعی طور پر ہمارے درمیان سے اخلاقی اقدار، بری عادات و خصائل و کردار پیدا نہیں ہوئے-آج جس طرح کی بری عادات و خصائل، برے کردارو گفتار ہمیں اپنی گلیوں، کوچوں و بازاروں میں اور سرِ عام گالیاں بکتے جو لوگ نظر آتے ہیں یہ اس وقت نہیں ہوا کرتےتھے-اس کی وجہ ہی یہی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف اور محمد الرسو ل اللہ (ﷺ) کی محبت واطاعت کا جذبہ موجود تھااور لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ کسی کو گالی دینا، کسی سے بد کلامی کرنایہ محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی سنتِ مبارکہ کے خلاف ہے-ایک مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک مسلمان اپنی زبان کو اس سمت میں لے کر جائے جس سمت سےاللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور حضور رسالت مآب (ﷺ) نے اپنی سنتِ مبارکہ میں منع فرما رکھا ہو- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللّهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا‘‘[1]

 

’’اے ایمان والو! اللہ پر تقوی اختیار کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘-

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ یااللہ! اگر ہم درست بات کہیں گے، غلط بات سے اجتناب کریں گے تو کیا تو ہم پر راضی ہوجائے گا؟تو فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ نہ صرف تم میری خو شنودی و رضا کے مستحق بنو گےبلکہ:

’’یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘[2]

 

وہ تمہارے لِئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لِئے بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوتا ہے‘‘-

اگر بنیادی طور پر آپ دیکھیں تو جو سچ بیان کرنا یا صحیح بات کرنا ہے یہ انسان کی دینی و مذہبی ضرورت نہیں بلکہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے-لیکن قرآن حکیم نے اس سماجی ضرورت کوایمانیات کے ساتھ منسوب فرما کر اس کولوگوں کی اصلاح اور انسانوں کی معافی کے ساتھ جوڑ دیااور فرمایا کہ اگر تم اہل تقوی ہو تو تمہارے ایمان کی نشانی یہ ہوگی کہ تمہاری زبان سے ہمیشہ سچ نکلے گا-اعمال کی اصلاح اور گناہوں کی معافی از روئے قرآن سچ کہنے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا ہوجاتی ہے-امام ابن حجر عسقلانی (رحمتہ اللہ علیہ)جن کو امت میں اللہ تعالیٰ نے قبولِ عام کا درجہ عطا فرمایا ہے وہ اپنے ایک رسالہ ’’غبتۃ الناظر فی الترجمہ الشیخ عبد القادر‘‘جس میں انہوں نے پیرانِ پیر غوث الثقلین (رضی اللہ عنہ) کے اوصاف،کمالات اور فیوض و برکات کا تذکرہ کیا ہے،فرماتے ہیں کہ محمد بن قائد اعوانی (رحمتہ اللہ علیہ)نےحضرت پیرانِ پیر(رضی اللہ عنہ)سے سوال کیا کہ حضور آپ(رضی اللہ عنہ) نےاپنی بزرگی، عظمت و جلالت، ولایت و کمالاتِ روحانی اور فقر محمد (ﷺ) کے عروج کی جو منازل طے فرمائیں ہیں ان تمام عظمت ومقامات کی بنیاد آپ نے کس چیز پر رکھی ہے؟ تو حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا ’’علی الصدق‘‘مَیں نے اپنے تمام کمالاتِ روحانی عظمت و بزرگی کی بنیاد صرف و صرف سچائی کے اوپر رکھی ہے-حتی کے مَیں جب طالب علمی کی عمر میں تھا، میری زبان سے کبھی جھوٹ صادر ہی نہیں ہوا-

وہ لوگ جو صدق و سچائی کو اپنا شیوہ بناتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لِئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لِئے بخش دے گااور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوگا-

اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر (رحمتہ اللہ علیہ)فرماتے ہیں کہ:

’’يَقُوْلُ تَعَالىٰ آمِرًا عِبَادَهُ الْمُوْمِنِيْنَ بِتَقْوَاهُ، وَ اَنْ يَعْبُدُوْهُ عِبَادَةَ مَنْ كَاَنَّهُ يَرَاهُ، وَ اَنْ يَقُوْلُوْا {قَوْلًا سَدِيْدًا} اَيْ: مُسْتَقِيْمًا لَا اِعْوِجَاجَ فِيْهِ وَلَا اِنْحِرَافَ وَوَعَدَهُمْ أَنَّهُمْ إِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ، أَثَابَهُمْ عَلَيْهِ بِأَنْ يُّصْلِحَ لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ، أَيْ: يُوَفِّقَهُمْ لِلْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، وَ أَنْ يَّغْفِرَ لَهُمُ الذُّنُوْبَ الْمَاضِيَّةَ وَ مَا قَدْ يَقَعُ مِنْهُمْ فِي الْمُسْتَقْبِلِ يُلْهِمُهُمُ التَّوْبَةَ مِنْهَا‘‘[3]

 

’’ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم فرماتا ہے اور ایسی عبادت کرنے کا حکم فرما رہا ہے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں ایسی سچی اور سیدھی بات کرنے کا حکم دے رہا ہے جس میں نہ کجی ہو اور نہ کوئی انحراف پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وہ وعدہ فرمایاہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو درست فرمائے گایعنی انہیں اعمال صالح کی مزید توفیق سے نوازے گا-گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا اور مستقبل میں سرزد ہونے والے گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمائے گا‘‘-

اس لئےجو ’’قول سدید‘‘ ہے یعنی جو اپنی ز بان کو اپنے قابو میں رکھ کر استعمال کرنا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک پسندیدہ عمل ہے-مگر ہمارے ہاں وہ اشخاص جو بڑے زبان دراز، منہ پھٹ، اونچا و غلیظ بولنے والے، گالیاں نکالنے والے اور زبان کے ذریعے عزت لوٹنے والوں کو سمجھا جاتا ہے کہ یہ بہت دلیر، جری، بہادر اور نڈر لوگ ہیں-آپ ہی بتائیں!کہ جہاں بد تمیز، ’’قول سدید ‘‘سے عاری بہادر، جری اور دلیر کہلائیں اس معاشرے کی اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے-پہلوانی یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ دیں! ارے خدا کے بندے! یہ عام سی بات ہے کہ جس پہلوان کے اختیار میں آدھی چھٹانگ کی زبان نہیں ہے آپ اسے طاقتور مانیں گے؟ وہ کاہے کا طاقتور و بہادر ہے! جو اپنی زبان کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت میں استعمال کرنے کا ہنر نہیں جانتا، تو پھر اس کے باقی اعمال کی اصلاح کہاں جائے گی جس کی ایک زبان بھی اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہے- میرے نزدیک وہ ایک کمزور ترین انسان ہے اور ایک بے زبان اور ایک بد زبان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا بلکہ بے زبان بد زبان سے بہتر ہوتا ہے-

حضرت بہلول دانا (رحمتہ اللہ علیہ)اکثر قبرستان میں بیٹھتے تھے ان سے لوگوں نے کہا بہلول (رحمتہ اللہ علیہ)قبرستان میں کیا ڈھونڈنے آتے ہو اور اِن مُردوں سے کیا لینے آتے ہو؟ تو حضرت بہلول دانا (رحمتہ اللہ علیہ)نے فرمایا کہ یہ مردے زندوں سے بہترہیں-لوگ بہت متعجب ہوئے کہ وہ کیسے؟ آپ (رحمتہ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ جتنی دیر میں یہاں بیٹھتا ہوں یہ اپنی زبان کے نشتر میرے کلیجےمیں نہیں اتارتے، یہ ایک دوسرے سے غیبت و بد گمانی نہیں کرتے اور فرمایا کہ جب میں ان سے اٹھ کر جاتا ہوں تو مجھے یہ تسلی ہوتی ہےکہ میرے اٹھ کے چلےجانے کےبعد یہ میری غیبتوں کے ذریعے میرا دامن نہیں نوچے گیں-حضرت بہلول دانا (رحمتہ اللہ علیہ)کی اس حکمت سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم سب کو جا کر قبرستان میں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کم از کم ہمیں ایک مُردے سے کم نہیں ہونا چاہیے یعنی ہماری زبان کے نشتر کسی کے کلیجے میں نہ اتریں-’’طعن‘‘ نشتر و نیزے کو کہتے ہیں، جب ہم اپنی زبان کے نشتر و نیزے سے لوگوں کے جگر چاک کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ میری مخلوق کےلئے شدید ایذاء رسانی و تکلیف کا باعث ہے- لہٰذا اللہ سے ڈرو اور ’’قول سدید‘‘ کو اختیار کرو--!

اب اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ قول کا تعلق زبان سے اور تقویٰ کا تعلق قلب سے ہے- تقوی دل میں ہوتا ہے کیونکہ پہلےاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اتقوا اللہ‘‘، اللہ سے ڈرواور اس کے بعد فرمایا’’قولا سدیدا‘‘، یعنی سیدھی بات کرو-یعنی قولِ سدید کی بنیاد تقوی ہے جب تک خدا کا خوف بندے کے وجود میں نافذ نہیں ہو جاتا اس وقت تک انسان کی زبان سے قول سدید جاری نہیں ہوسکتا اور جس کی زبان سے قول سدید جاری ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کےاندر اللہ تعالیٰ نے اپنے خوف اور تقوی کو مضبوط کردیا ہے-’’قول سدید‘‘ ایک منفرد بات ہے جس کا قرآن مجید میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی دونوں جہات سے تعلق ہے-

مثلاً اس کے انفرادی پہلو اگر ہم دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘[4]

 

’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کیلئے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو-بے شک اللہ تعالی خوب آگاہ ہے جو تم کرتے رہتے ہو‘‘-

اس آیت مبارکہ میں پہلی جو بنیادی چیز نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں محاسبہ نفس اور دوسری غورو فکر کی دعوت دی ہے کہ ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کیلئے آگے کیا بھیجا ہے-کیونکہ غور و فکر سے بتدریج انسان کے وجود میں وسعت آتی جاتی ہے وہ اپنے ہر قول و فعل کو ناپنا اور تولنا شروع کردیتا ہے کہ کیا میرا یہ عمل ،میرے حق اور میرے معاشرے کے حق میں کس طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے-تیسری بنیادی دعوت یہ ہے کہ تمہارا مستقبل تمہارے حال کے تابع ہے کہ جو فصل آج تم لگا رہے ہو کل تم اسی فصل کو کاٹو گے-آج اگر تم حق کو بوتےہو تو تم حق کی فصل کو کاٹو گے اور اگر باطل، نفرت، تفرقہ، لالچ اور تکبر کو بوتے ہو تو کل تم انہیں تمام برائیوں کی فصل کو کاٹو گے اور یہی کل کو تمہارا ثمر بن جائے گا-اس لئے اگر تم مستقبل کو روشن دیکھتا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے حال کو اپنے قابو میں رکھنا ہوگا اس لئے جو لمحے گزر رہے ہیں یہ لمحےتمہارے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں کہ تم نے کیا کیا ہے اور تم نے کیا کرنا ہے-تمہارا مستقبل تمہارے حال سے متشکل ہوتا ہے اس لئے قرآن مجید نے یہ دعوت دی ہے کہ جس حال میں بھی ہو اپنے حال کے اوپر غور و فکر کرو-اگر تمہارے حال کی اندر کوئی کوتاہی یا عامیانہ پن ہے اور تم اپنے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے ہوتو اسے ظلمت و تاریکیوں سے بچا کر اللہ کے نور سے روشن کرکے اپنے حال کو اپنے قابو میں کر لو-قرآن مجید بھی اس تفکر کا آغاز اور اختتام تقویٰ کو فرماتا ہے-اس تمام غور و فکر کا بنیادی مقصد ہمارے وجود میں تقوی کو مضبوط اور خشیّتِ الٰہی کو پیدا کرنا ہے جس کو ہم اپنی زبان میں خدا ترسی کہتے ہیں-یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا وہ مقبول عمل ہے جو اس کے مقبول بندے اختیار کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دل اور اپنے وجود کی اصلاح کرلیتے ہیں-

(جاری ہے)

٭٭٭

[1](الاحزاب:70)

[2](الاحزاب:71)

[3](تفسیر ابن کثیر، زیرآیت سورہ الاحزاب:71)

[4](الحشر:18)

اس وقت الحمد اللہ! دنیا اسلام میں بہت عظیم سی تحاریک موجود ہیں جو اصلاح احوال اور مسلمانوں کے دیگر معاملات کے حوالہ سےاپنی اپنی کاوشیں بروئے کار لارہی ہیں-اللہ پاک سب کی خلوص دل سےکی ہوئی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماکر ذریعہ خیر بنائے- ساڑھے پانچ ہزار برس، بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ نے جس دین کا ارتقاء مختلف انبیاء)﷩)کے ذریعے فرمایا اس دین کا ارتقاءچلتے چلتے سید الانبیاء خاتم النبیّین حضرت محمد الرسول اللہ(ﷺ) پر مکمل ہوا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی امت میں پیدا فرمایا اور ہمیں یہ توفیق خاص عطا فرمائی کہ ہم آقا (ﷺ) کے کلمہ گو بن کر آپ (ﷺ) کی رسالت ’’عبدہ ورسولہ‘‘ کی گواہی دیں-یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ ہم وہ خوش نصیب امت ہیں جس کے نصیب میں اللہ تعالیٰ نے یہ گواہی دینے کی توفیق مرحمت فرمائی کہ:

اشھدو اللہ الہ اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ

 

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں (حضرت) محمد(ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘-

پھر تمام کتب آسمانی اور صحیفے جو ان ہزاروں برس میں مختلف اقوام پر، مختلف زبانوں میں اور مختلف خطوں پر اترے، ان تمام کتب کے جامع پیغامات اور عین ہدایت کی آخری کتاب ’’قرآن پاک‘‘ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا- اللہ تعالیٰ نے ہمیں امتِ وسط قرار دیا جو عین راہِ اعتدال پرقائم امت ہے-

مگر کچھ باتیں ہمارے معاشرے میں ایسی بھی روپذیر ہوجاتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان رنج و غم میں مبتلا ہوجاتا ہے- وہ یہ ہیں کہ اس ہادی دو عالم (ﷺ) کی راہ پر دچلنے والے، اپنے دامن میں قرآن کی ہدایت کے پھولوں کو جمع کرنے والے، سچے رب کی وحدانیت اور توحید پر گواہی دینے والے اپنے درمیان ان بدقسمت باتوں کو کیسے پالتےچلیں آرہے ہیں؟ہمارے معاشرے اور سماجی رویوں میں جو جرائم جس اعتبار سے تشکیل پا رہے ہیں یا مسلسل پاتے چلے جارہے ہیں، بطور انسان یہ نہ تو ہماری عزت و وقار کا باعث ہے اور نہ ہی بطور مسلمان یہ ہمارے خوش و خرم ہونے کا باعث ہے-

یہاں اپنی ناچیز حیثیت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا اگر وہ ہمارے ذہن میں بیٹھ جائیں تو دین و دنیا کے متعلق ہمارا جو تصور (concept) ہے، واضح ہو جائے گا-مَیں آپ کے سامنے صرف تین چیزیں پیش کرنا چاہوں گاکہ:

1.       انسان کی ازدواجی زندگی کے معاملات جو کہ بنی نوع انسان کی نسل کی ترویج اور پھیلاو کا باعث ہے کیا یہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے یا دینی و مذہبی ضرورت ہے؟

2.       سچ بولنااور جھوٹ سے اجتناب کرنا، یہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے یا دینی و مذہبی ضرورت ہے؟

3.       عدل و انصاف کرنا یہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے یا دینی و مذہبی ضرورت ہے؟

زندگی میں انسان چاہے کسی بھی مذہب پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اس کے لئے ازدواجی زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر سر انجام دینا، سچ بولنا و جھوٹ سےاجتناب کرنا اور عدل و انصاف کرنا لازم ہے- معاشروں میں مذہب موجود ہو یا نہ ہو،چاہے سیکولر معاشرے ہوں، ایتھی ایسٹ معاشرے ہوں، ریلیجیس معاشرے ہوں،کرسچن سوسائٹی ہو، مسلم سوسائٹی ہو، ہندو سوسائٹی ہو یا کوئی بھی کمیونیٹی ہو، ان سب کے لئے یہ تینوں چیزیں سماج و معاشرے کی بنیادی ضرورت ہیں-اب آپ غور کیجیئے! کہ یہ تینوں چیزیں’’ازدواجی معاملاتِ زندگی،حق گوئی و جھوٹ سے اجتناب اور عدل و انصاف‘‘انسانوں کی دینی و مذہبی ضرورت کم اور سماجی و معاشرتی ضرورت زیادہ ہے-لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور اللہ کے رسول (ﷺ) نے اپنی سنت مبارکہ میں ان تینوں امور کو ہمارے لئے ایک کارِ خیر کا رتبہ دے کر آخرت کےساتھ منسوب کردیا ہےکہ اگر کوئی ان تینوں چیزوں میں غلطی کا یا ان میں گریز کرنے کا مرتکب ہو گا تو وہ ان تینوں امورمیں اجر و ثواب سے منقطع ہوکر سزاکا مرتکب ہوجائے گا-

گو کہ یہ تینوں امور انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہیں مگر دینِ مبین میں اللہ تعالیٰ نے ان تینوں امور کو انسان کے مذہب اور ایمانیات کا حصہ بنا کر یہ بتا دیا ہے کہ اس دینِ مبین کا بنیادی مقصدہی یہ ہے کہ انسان کے سماج و معاشرے کو وحی، الہام اور روحانیت سے اس طریقہ سےجوڑ دیا جائے کہ چاہے یہ اپنےازدواجی حقوق صحیح طریقے سے ادا کرے، چاہےیہ سچ بولے، جھوٹ سے اجتناب کرے اور چاہے یہ عدل و انصاف کرےان تمام چیزوں کےاوپر اللہ تعالی اپنی بارگاہِ رحمت سے اس کو اجر خیر عطا فرمائے گا-لہٰذا یہ بنیادی بات ہمیں اپنے اوپر واضح کردینی چاہیےکہ دینِ مبین ہمیں جن احکام کابھی حکم کرتا ہے یا جس بھی ترتیب پر ہمیں زندگی گزارنےکی ترغیب و راہنمائی فراہم کرتا ہے اس کا تعلق بنیادی طور پر ہمارےسماج و معاشرے سے ہوتاہے-یعنی ہمارے آپس میں رہن سہن کا،ہمارے ایک دوسرے سے معاملات کا اور ایک دوسرے پر حقوق کا جو معیار ہے،ان کو نیکی کے اوپر استوار کردیا جائے اور انسانوں کو یہ سہولت عطا کردی جائے کہ چاہے یہ اپنے امورِ دنیا سر انجام دے رہے ہوں تو ان کے امورِ دنیامیں بھی ان کا تعلق اپنے رب اور خالقِ حقیقی سے منقطع نہیں ہونا چاہیےاوراپنے ہر عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ ہمیں اجر کا مستحق قرار دے دے-اس لئے دین مبین بنیادی طور پر ہماری معاشرت کی اصلاح کرتا ہے-

مگر بد قسمتی سے کم سے کم پچھلی دو، تین صدیوں سے ہمارے درمیان کچھ ایسےمباحث چھڑ گئے ہیں،کچھ ایسی روایات چل پڑیں ہیں اور کچھ ایسی چیزیں ایجاد ہوگئیں ہیں جن کے باعث انسان کی جو اخلاقی و بنیادی ضروریات تھیں وہ ہمارے معاشرے میں سے مفلوج ہوتی چلی گئیں اور ہمارے درمیان اعلیٰ اخلاقیات و اعلیٰ ایمانی اقدار کی بجائے بہت سے مسائل نے فروغ پایا-جس کی وجہ سے آج کل آپ الپو، حلب، بلاد عراق اور بلاد شام میں جاری اس بربادی و تباہی کو دیکھ رہے ہیں-یہ اِس سطحیت کا اُس عامیانہ پن کا نتیجہ ہے جو ہمارے درمیان اتنے عرصے سے روا رکھا گیا ہے-اگر ہم ان منافرتوں کی بجائےاپنی بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ دیتے تو میرے خیال میں آج جو ہمارے درمیان اخلاقی انحطاط، اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی تنزل و زوال ہے یہ نہ ہوتا- ناچیز کی ذاتی رائے میں جو منبر و محراب کی بنیادی ذمہ داری و فریضہ ہے وہ لوگوں کی اصلاحِ احوال کرنا اور لوگوں میں اس تصور کو درست کرنا ہے کہ ان میں محبت الٰہی،اللہ کا خوف اور اللہ کے حبیب (ﷺ) کی محبت و اطاعت کا جذبہ پیدا ہو-یہ وہ بنیادی امور و فرائض ہیں جب تک منبر و محراب اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرتےرہے ہیں توہمارا اسلامی سماج بطور ایک ملت کے کبھی اس قدر منتشرو تقسیم نہیں ہوا اور اس قدر ان کے درمیان سے کبھی اخلاقیات کا جنازہ نہیں اٹھا-ہمارے درمیان بہت عیش و عشرت پسند حکمران آئے،آپ عباسیوں، مغلوں، ہسپانیوں کے آواخر کی تاریخ دیکھ لیں انہوں نے اپنی عیش و عشرت کی آخری حدوں کو بھی عبور کردیا مگر اس وقت ان بادشاہوں کے اخلاقی دیوالیہ پن کے باوجودمنبر و محراب کی جو بنیادی ترجیح تھی وہ قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے اصلاحِ احوال کی ترتیب تھی -جب تک اکابرین امت نے لوگوں کے اوپر اپنی نظرِ کرم کو بحال رکھا ہے اس وقت تک بطور ملت اجتماعی طور پر ہمارے درمیان سے اخلاقی اقدار، بری عادات و خصائل و کردار پیدا نہیں ہوئے-آج جس طرح کی بری عادات و خصائل، برے کردارو گفتار ہمیں اپنی گلیوں، کوچوں و بازاروں میں اور سرِ عام گالیاں بکتے جو لوگ نظر آتے ہیں یہ اس وقت نہیں ہوا کرتےتھے-اس کی وجہ ہی یہی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف اور محمد الرسو ل اللہ (ﷺ) کی محبت واطاعت کا جذبہ موجود تھااور لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ کسی کو گالی دینا، کسی سے بد کلامی کرنایہ محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی سنتِ مبارکہ کے خلاف ہے-ایک مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک مسلمان اپنی زبان کو اس سمت میں لے کر جائے جس سمت سےاللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور حضور رسالت مآب (ﷺ) نے اپنی سنتِ مبارکہ میں منع فرما رکھا ہو- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللّهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا‘‘[1]

 

’’اے ایمان والو! اللہ پر تقوی اختیار کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘-

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ یااللہ! اگر ہم درست بات کہیں گے، غلط بات سے اجتناب کریں گے تو کیا تو ہم پر راضی ہوجائے گا؟تو فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ نہ صرف تم میری خو شنودی و رضا کے مستحق بنو گےبلکہ:

’’یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘[2]

 

وہ تمہارے لِئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لِئے بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوتا ہے‘‘-

اگر بنیادی طور پر آپ دیکھیں تو جو سچ بیان کرنا یا صحیح بات کرنا ہے یہ انسان کی دینی و مذہبی ضرورت نہیں بلکہ انسان کی سماجی و معاشرتی ضرورت ہے-لیکن قرآن حکیم نے اس سماجی ضرورت کوایمانیات کے ساتھ منسوب فرما کر اس کولوگوں کی اصلاح اور انسانوں کی معافی کے ساتھ جوڑ دیااور فرمایا کہ اگر تم اہل تقوی ہو تو تمہارے ایمان کی نشانی یہ ہوگی کہ تمہاری زبان سے ہمیشہ سچ نکلے گا-اعمال کی اصلاح اور گناہوں کی معافی از روئے قرآن سچ کہنے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا ہوجاتی ہے-امام ابن حجر عسقلانی (﷫)جن کو امت میں اللہ تعالیٰ نے قبولِ عام کا درجہ عطا فرمایا ہے وہ اپنے ایک رسالہ ’’غبتۃ الناظر فی الترجمہ الشیخ عبد القادر‘‘جس میں انہوں نے پیرانِ پیر غوث الثقلین (﷜) کے اوصاف،کمالات اور فیوض و برکات کا تذکرہ کیا ہے،فرماتے ہیں کہ محمد بن قائد اعوانی (﷫)نےحضرت پیرانِ پیر(﷜)سے سوال کیا کہ حضور آپ(﷜) نےاپنی بزرگی، عظمت و جلالت، ولایت و کمالاتِ روحانی اور فقر محمد (ﷺ) کے عروج کی جو منازل طے فرمائیں ہیں ان تمام عظمت ومقامات کی بنیاد آپ نے کس چیز پر رکھی ہے؟ تو حضور غوث پاک (﷜) نے فرمایا ’’علی الصدق‘‘مَیں نے اپنے تمام کمالاتِ روحانی عظمت و بزرگی کی بنیاد صرف و صرف سچائی کے اوپر رکھی ہے-حتی کے مَیں جب طالب علمی کی عمر میں تھا، میری زبان سے کبھی جھوٹ صادر ہی نہیں ہوا-

وہ لوگ جو صدق و سچائی کو اپنا شیوہ بناتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لِئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لِئے بخش دے گااور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوگا-

اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر (﷫)فرماتے ہیں کہ:

’’يَقُوْلُ تَعَالىٰ آمِرًا عِبَادَهُ الْمُوْمِنِيْنَ بِتَقْوَاهُ، وَ اَنْ يَعْبُدُوْهُ عِبَادَةَ مَنْ كَاَنَّهُ يَرَاهُ، وَ اَنْ يَقُوْلُوْا {قَوْلًا سَدِيْدًا} اَيْ: مُسْتَقِيْمًا لَا اِعْوِجَاجَ فِيْهِ وَلَا اِنْحِرَافَ وَوَعَدَهُمْ أَنَّهُمْ إِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ، أَثَابَهُمْ عَلَيْهِ بِأَنْ يُّصْلِحَ لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ، أَيْ: يُوَفِّقَهُمْ لِلْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، وَ أَنْ يَّغْفِرَ لَهُمُ الذُّنُوْبَ الْمَاضِيَّةَ وَ مَا قَدْ يَقَعُ مِنْهُمْ فِي الْمُسْتَقْبِلِ يُلْهِمُهُمُ التَّوْبَةَ مِنْهَا‘‘[3]

 

’’ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم فرماتا ہے اور ایسی عبادت کرنے کا حکم فرما رہا ہے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں ایسی سچی اور سیدھی بات کرنے کا حکم دے رہا ہے جس میں نہ کجی ہو اور نہ کوئی انحراف پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وہ وعدہ فرمایاہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو درست فرمائے گایعنی انہیں اعمال صالح کی مزید توفیق سے نوازے گا-گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا اور مستقبل میں سرزد ہونے والے گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمائے گا‘‘-

اس لئےجو ’’قول سدید‘‘ ہے یعنی جو اپنی ز بان کو اپنے قابو میں رکھ کر استعمال کرنا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک پسندیدہ عمل ہے-مگر ہمارے ہاں وہ اشخاص جو بڑے زبان دراز، منہ پھٹ، اونچا و غلیظ بولنے والے، گالیاں نکالنے والے اور زبان کے ذریعے عزت لوٹنے والوں کو سمجھا جاتا ہے کہ یہ بہت دلیر، جری، بہادر اور نڈر لوگ ہیں-آپ ہی بتائیں!کہ جہاں بد تمیز، ’’قول سدید ‘‘سے عاری بہادر، جری اور دلیر کہلائیں اس معاشرے کی اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے-پہلوانی یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ دیں! ارے خدا کے بندے! یہ عام سی بات ہے کہ جس پہلوان کے اختیار میں آدھی چھٹانگ کی زبان نہیں ہے آپ اسے طاقتور مانیں گے؟ وہ کاہے کا طاقتور و بہادر ہے! جو اپنی زبان کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت میں استعمال کرنے کا ہنر نہیں جانتا، تو پھر اس کے باقی اعمال کی اصلاح کہاں جائے گی جس کی ایک زبان بھی اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہے- میرے نزدیک وہ ایک کمزور ترین انسان ہے اور ایک بے زبان اور ایک بد زبان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا بلکہ بے زبان بد زبان سے بہتر ہوتا ہے-

حضرت بہلول دانا (﷫)اکثر قبرستان میں بیٹھتے تھے ان سے لوگوں نے کہا بہلول (﷫)قبرستان میں کیا ڈھونڈنے آتے ہو اور اِن مُردوں سے کیا لینے آتے ہو؟ تو حضرت بہلول دانا (﷫)نے فرمایا کہ یہ مردے زندوں سے بہترہیں-لوگ بہت متعجب ہوئے کہ وہ کیسے؟ آپ (﷫) نے فرمایا کہ جتنی دیر میں یہاں بیٹھتا ہوں یہ اپنی زبان کے نشتر میرے کلیجےمیں نہیں اتارتے، یہ ایک دوسرے سے غیبت و بد گمانی نہیں کرتے اور فرمایا کہ جب میں ان سے اٹھ کر جاتا ہوں تو مجھے یہ تسلی ہوتی ہےکہ میرے اٹھ کے چلےجانے کےبعد یہ میری غیبتوں کے ذریعے میرا دامن نہیں نوچے گیں-حضرت بہلول دانا (﷫)کی اس حکمت سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم سب کو جا کر قبرستان میں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کم از کم ہمیں ایک مُردے سے کم نہیں ہونا چاہیے یعنی ہماری زبان کے نشتر کسی کے کلیجے میں نہ اتریں-’’طعن‘‘ نشتر و نیزے کو کہتے ہیں، جب ہم اپنی زبان کے نشتر و نیزے سے لوگوں کے جگر چاک کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ میری مخلوق کےلئے شدید ایذاء رسانی و تکلیف کا باعث ہے- لہٰذا اللہ سے ڈرو اور ’’قول سدید‘‘ کو اختیار کرو--!

اب اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ قول کا تعلق زبان سے اور تقویٰ کا تعلق قلب سے ہے- تقوی دل میں ہوتا ہے کیونکہ پہلےاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اتقوا اللہ‘‘، اللہ سے ڈرواور اس کے بعد فرمایا’’قولا سدیدا‘‘، یعنی سیدھی بات کرو-یعنی قولِ سدید کی بنیاد تقوی ہے جب تک خدا کا خوف بندے کے وجود میں نافذ نہیں ہو جاتا اس وقت تک انسان کی زبان سے قول سدید جاری نہیں ہوسکتا اور جس کی زبان سے قول سدید جاری ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کےاندر اللہ تعالیٰ نے اپنے خوف اور تقوی کو مضبوط کردیا ہے-’’قول سدید‘‘ ایک منفرد بات ہے جس کا قرآن مجید میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی دونوں جہات سے تعلق ہے-

مثلاً اس کے انفرادی پہلو اگر ہم دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘[4]

 

’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کیلئے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو-بے شک اللہ تعالی خوب آگاہ ہے جو تم کرتے رہتے ہو‘‘-

اس آیت مبارکہ میں پہلی جو بنیادی چیز نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں محاسبہ نفس اور دوسری غورو فکر کی دعوت دی ہے کہ ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کیلئے آگے کیا بھیجا ہے-کیونکہ غور و فکر سے بتدریج انسان کے وجود میں وسعت آتی جاتی ہے وہ اپنے ہر قول و فعل کو ناپنا اور تولنا شروع کردیتا ہے کہ کیا میرا یہ عمل ،میرے حق اور میرے معاشرے کے حق میں کس طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے-تیسری بنیادی دعوت یہ ہے کہ تمہارا مستقبل تمہارے حال کے تابع ہے کہ جو فصل آج تم لگا رہے ہو کل تم اسی فصل کو کاٹو گے-آج اگر تم حق کو بوتےہو تو تم حق کی فصل کو کاٹو گے اور اگر باطل، نفرت، تفرقہ، لالچ اور تکبر کو بوتے ہو تو کل تم انہیں تمام برائیوں کی فصل کو کاٹو گے اور یہی کل کو تمہارا ثمر بن جائے گا-اس لئے اگر تم مستقبل کو روشن دیکھتا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے حال کو اپنے قابو میں رکھنا ہوگا اس لئے جو لمحے گزر رہے ہیں یہ لمحےتمہارے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں کہ تم نے کیا کیا ہے اور تم نے کیا کرنا ہے-تمہارا مستقبل تمہارے حال سے متشکل ہوتا ہے اس لئے قرآن مجید نے یہ دعوت دی ہے کہ جس حال میں بھی ہو اپنے حال کے اوپر غور و فکر کرو-اگر تمہارے حال کی اندر کوئی کوتاہی یا عامیانہ پن ہے اور تم اپنے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے ہوتو اسے ظلمت و تاریکیوں سے بچا کر اللہ کے نور سے روشن کرکے اپنے حال کو اپنے قابو میں کر لو-قرآن مجید بھی اس تفکر کا آغاز اور اختتام تقویٰ کو فرماتا ہے-اس تمام غور و فکر کا بنیادی مقصد ہمارے وجود میں تقوی کو مضبوط اور خشیّتِ الٰہی کو پیدا کرنا ہے جس کو ہم اپنی زبان میں خدا ترسی کہتے ہیں-یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا وہ مقبول عمل ہے جو اس کے مقبول بندے اختیار کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دل اور اپنے وجود کی اصلاح کرلیتے ہیں-

(جاری ہے)

٭٭٭



[1](الاحزاب:70)

[2](الاحزاب:71)

[3](تفسیر ابن کثیر، زیرآیت سورہ الاحزاب:71)

[4](الحشر:18)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر