یتیم اور تعلیماتِ اسلام (فکری خطاب - قسط 1)

یتیم اور تعلیماتِ اسلام (فکری خطاب - قسط 1)

یتیم اور تعلیماتِ اسلام (فکری خطاب - قسط 1)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جولائی 2017

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ o اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o’’اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیoوَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰیoوَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیoفَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْہَرْoوَاَمَّا السَّآئِلَ فَـلَا تَنْہَرْoوَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo[1]‘‘صَدَقَ اللہُ العَظِیْم oوَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمo اِنَّ اللہَ وَ مَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبیْ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَلُّوا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمَا o

 قا بل احترام ساتھیو،بھائیو،مہمانان گرامی،علمائے کرام اور مشائخ عظام  السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ !

سر پرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین،شیخ ما،مرشد  ما،قائد ما حضرت سلطان محمد علی صاحب اور کارکنان اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کراچی کی جانب سے مَیں آپ تمام تشریف لانے والے مہمانان گرامی کو دلی طور پہ خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ آپ آج کی اس تقریب میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان اور مبلغین کی دعوت پہ تشریف لائے-

میرے دوستو اور ساتھیو!اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب پاک(ﷺ)کے ذریعے سے اپنی اس مخلوق کہ جسے اس نے پیدا کیا،جس نے اس سے محبت کی،جس کے اوپر رحمتوں و برکات اور کرم و فضل کے تمام دروازے کھول دیے-مگر تہذیب اور تاریخ کے سفر میں کئی فرعون و نمرود اور جابر و ظالم آئے جنہوں نےاللہ تعالی کی اشرف المخلوق ہستی سے، اُس کی تحریم و تعظیم، عزت و وقار اور اس کےاحساسات کو اپنی خواہشِ نفس،انانیت و تکبر اور اپنے گھوڑوں،ہاتھیوں اور لشکر و جنود کے قدموں تلے روندا-انسان جسے اللہ تعالی نے اپنا خلیفہ و نائب بنایا،اس میں ایک ایسی لطیف،حساس اور باریک چیز رکھی کہ جس کی جُنبش رب کے عرش کو ہلا دیتی ہے،اگر انسان اس نازک و لطیف مقام سے کسی آرزو و تمنا کا اظہار کر دے تو رب فرماتا ہے کہ مَیں اس لمحے کی اس دعا کو رد نہیں کرتا،وہ نازک اور لطیف چیز پیکر انسانی میں اللہ تعالی نے دل کو بنایاہے-دل انسان کے احساسات،خوشی ومسرت کا مرکز ہے جس سے انسان اپنے تمام  خوشی و مسرت اور دکھ و تکلیف کے احسات محسوس کرتا ہے-لیکن یہ دنیا تہذیبوں کے مختلف سفر طے کرتی ہوئی ایک سخت و پتھر دل دنیا بن گئی یعنی جس کا دل سختی کی انتہاء کو پہنچ چکا  اور پتھر کی مانند سخت ہو گیاہو-جس میں انسانی جذبے،آرزوئیں،ہمدردی اور اخوت کے احساسات ختم ہوگئے ہوں-مگراللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب کریم خاتم الانبیاء،سید المرسلین،رحمت اللعالمین محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی ذات اقدس کے صدقے اور ان کی نظرِ کرم سے انسان کی خوشی و مسرت اور دکھ و درد کے احساسات کے مرکز کو انسان کے وجود میں دوبارہ سےزندہ اور تابندہ فرما کر انسان کو اس کی فطرت کے مزید قریب فرما دیا-یعنی وہ لوگ جو اپنے درد و تکلیف اور اپنے رنج و الم کو اپنے دل میں محسوس کرتے تھے لیکن اپنا درد کسی کو بیان نہیں کر سکتے تھے-آقا پاک (ﷺ)نے ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو بولنے کا حوصلہ عطا فرمایا،اپنی شفقت و رحمت اور کرم و اخلاق کریمہ سے ان میں پھرروشنی اور زندگی کو زندہ فرما یا جو کہ اللہ تعالیٰ نے قلبِ انسانی کے لئے خاص فرمائی تھی-

اگر اس دور اور وقت کو دیکھا جائےکہ جب انسان ظلم وجبر  کی غلامی میں مبتلا تھا  تو اللہ تعالیٰ نےآقا پاک (ﷺ)کےذریعے فطرتِ انسانی کی تنظیمِ نو فرمائی-حالانکہ آپ (ﷺ) خاندانِ قریش سےتعلق رکھتے تھےجو کہ عرب میں سب سے عظیم ومعتبر قبیلہ تھا مگرآپ(ﷺ)نے غلاموں کو آواز اور بولنے کا حوصلہ دیا-اللہ تبارک و تعالیٰ نےانسان کوجو حقوق عطا فرمائے تھے آقا پاک (ﷺ) نے وہ حقوق غلاموں کو بھی دلوائے- آقا پاک (ﷺ)نے غرباء و مساکین،حاجت مند،نادار و غریب جن کےدامن خالی تھے،جن کی تجوریاں و خزانے نہیں تھے ۔ جو نہ صرف دو (۲) وقت کی روٹی کے لئے ترستے تھے بلکہ اِس مسکنِ انسانی یعنی خطۂ زمین پہ کوئی نہ تھا جو : اُن کی جانب شفقت سے دیکھتا ہو ، اُن کے احساسات کی قدر کرتا ہو ان کے دکھ اور کرب کو محسوس کرتا ہو ، ان کے جذبات کے مجروح ہونے پہ مرہم رکھتا ہو ، اُن کے ٹوٹے ہوئے دلوں کی کرچیوں کو جمع کر کے منظم کرنے کا بندو بست کرتا ہو ، ان کی رنج و الم میں ڈوبی آہوں کا راز جانتا ہو ، آنکھوں کے ساگر سے نکل کر پلکوں پہ ٹھہرے اور رُخساروں پہ بہتے آنسؤوں کو چُنتا ہو ، اُن کی ٹوٹتی اُمیدوں کو دلاسہ دینے کا ہنر جانتا ہو ، تبسم اور مسکرانے سے محروم لبوں کی تشنگی کو سمجھ سکتا ہو ، سینے میں دم توڑتی انسانی آرزوؤں کی ڈھارس بندھا سکتا ہو ، غلامی کی سُولی پہ لٹکتے آدم کے بیٹوں کے لاشوں کو اُن سولیوں سے اُتار کر  حمیّت کی چادر سے ڈھانپتا ہو ، سرِ بازار حوّا کی بیٹیوں کی نیلام ہوتی عِفّت و عصمت کو تحفظ فراہم کرتا ہو ، تپتی دھوپ برستی بارشوں اور ظلم و جبر کے جھکڑوں میں بغیر سایہ و سائبان کے رہنے والے سروں کو شفقت کے سائبان میں پناہ دیتا ہو ۔ آقا پاک (ﷺ) نے ان سروں پرشفقت کا ہاتھ رکھا اور انسانیت کو غریبوں سے ہمدردی  کااحساس دلایا-وہ بیٹیاں جس کی کوکھ سے  انسان خود جنم لیتا تھا،جب اس جاہل اور ظالم سماج (معاشرہ)میں پیدا ہوتیں تو ان کو زندہ دفن کر دیا جاتا،ان کی عزت و عصمت کو پامال کیا جاتاتھا-آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاپنے کرم اور نظرِ شفقت سے انسانیت میں اُن بیٹیوں کی عزت و عصمت کو بحال کیا-

میرے اور ہر  انسان کے دل کےبہت قریب ترین بات ہے کہ وہ بچے جو ناسمجھ اورکم عمر میں یتیم رہ جاتے ہیں،جن کے والد یا والدہ یا دونوں والدین ان سے بچھڑ جاتے ہیں  اس معاشرہ میں وہ در بدر بھٹکتے  اورٹھوکریں کھاتے ہیں،جن کے سر پر دستِ شفقت رکھنے،سرپرستی  کرنے اور اپنانے والا کوئی نہیں ہوتا،جن سے پیا ر کے دو بول اور باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جن کے آنسوں پونچھنے اور دردِ دل سننے والا کوئی نہیں ہوتا،جن کے درد کی آواز کو سننے والا کوئی نہ ہوتا،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کے ذریعے سے ان یتیموں کو آواز، شفقت،اپنائیت اور بارگاہِ مصطفےٰ (ﷺ) کی صورت میں ایک ایسا مقام عطا کیا جہاں آکر وہ اپنے دردِ دل کو بیان کرتے-جہاں آقاپاک(ﷺ) نے ان کی عزت وتکریم کو معاشرے میں مزید بلند فرما یا-ان کو عزت و تکریم کے وہ اعلیٰ ترین منصب عطا فرمائے کہ دینِ مبین کی روشنی میں بعد از نبوت اور بعد از ولائیت آقا کریم (ﷺ)نے اس زمین کے اوپر سب سے حساس و معزز ترین شخصیات یتیموں کو قرار فرما یا-اپنی امت ،اپنے پیروکاروں ، کلمہ پڑھنے والوں اور اپنی نبوت کی گواہی دینے والوں کو آقا علیہ السلام نے یتیم کی عزت، مال و متاع کےحقوق کا محافظ بنا دیا-اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں جہاں آقا علیہ السلام کی بے شمار صفات کا ذکر فرمایا ان  میں سےایک صفت کو اس طرح بیان فرمایا:

’’اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی‘‘[2]                     ’’(اے حبیبِ مکرم(ﷺ)!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا‘‘-

یعنی اے محبوب کریم (ﷺ)آپ کے رب نے آپ (ﷺ)کو یتیم پیدا فرمایا اور آپ (ﷺ)کو اس کائنات میں عزت و احترام کا اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا-گو کہ یہاں جو یتیم کا معنی ہے وہ علمائے سیرت نے یہ کیا ہےکہ:یتیم سے مراد یہ ہے کہ آقا پاک (ﷺ)کی ولادت باسعادت سے قبل آپ(ﷺ)کےوالدِ محترم کاانتقال ہوا اور آپ(ﷺ)کےبچپن مبارک میں آپ (ﷺ)کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا-مگر وہ کہتے ہیں کہ یتیم کا ایک معنی تنہا ،یکتا اور اکیلا بھی ہے-یعنی آقا پاک(ﷺ)اپنے حسن و جمال اورعظمت و مقام میں اس کائنات میں اکیلے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی اور کو اتنی رفعتیں،حسن و جمال اورقربت عطا نہیں کی جتنی کہ حبیب کریم(ﷺ) کو عطا کی-

قرآن کریم میں اللہ پاک نے یتیم کا سماجی معنی اس طرح ارشاد فرمایا:

’’فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْہَرْ‘‘[3]                       ’’پس (اے حبیب (ﷺ)!)،آپ کبھی بھی یتیم پر سختی نہ فرمائیں‘‘-

یعنی اس کو ڈانٹیں یا جھڑکیں نہیں -اس سے قبل آقا پاک(ﷺ) کی شانِ یتیمی کا ذکر بھی ہوا جس کے متعلق مرحوم حفیظ جالندھری ؒ  کے شاہنامہ اسلام میں درج وہ اشعار شامل کرنا چاہوں گا جن میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر میرے دل میں اتنی تاب اور حوصلہ ہوتا اور اگر اللہ تعالی مجھےاتنا موقع عطا فرماتا تو میں آقا علیہ السلام کے بچپن کا  ذکر کرتا کہ جس غریب الدیاری، مسافری اور دشت ِ غربت میں آقا علیہ السلام اپنی والدہ ماجدہ سے جدا ہوتے ہیں :

ملا ہے آمنہ کو فضل باری سے یتیم ایسا
بیاں لازم تھا صحرائی وطن سے گھر میں آنے کا
مدینے کے سفر میں ماں کی ہمراہی بیاں کرتا
بیان کرتا وفاتِ آمنہ کا حالِ حسرت زا
بیاں کرتا کہ جب اٹھتا ہے سر سے سایۂ مادر 
بیاں کرتا کہ جب غربت میں یہ صدمہ گزرتا ہے

 

نہیں ہے بحر ہستی میں کوئی دُرِّ یتیم ایسا
محمد ؐ کے دوبارہ دامنِ مادر میں آنے کا
پدر کےمدفن ِ راحت سے آگاہی بیاں کرتا
بیاں کرتا مقدس ہو گیا کیوں خطہ ابوا
یتیم اس وقت آنسوں پونجھتے ہیں منہ سے کیا  کَہ کر
تو شش سالہ یتیم اس وقت کیسے صبر کرتا ہے

قرآن کریم اس قلب کی حساسیت و رنجیدگی اورپریشانی کے پیش نظر آقا علیہ السلام کے اس مقام ِ خاص کو بیان کرتا ہے کہ :

’’اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی‘‘[4]

 

’’(اے حبیبِ مکرم(ﷺ)!) کیا آپ (ﷺ)کے رب نےآپ (ﷺ)کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ (ﷺ)کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا‘‘-

یعنی اے حبیب (ﷺ)!آپ تو اس کیفیت و حال اورمرحلے سے واقف ہیں کہ ایک یتیم پہ کیا بیتتی اور گزرتی ہے-اس لئے کوئی بھی یتیم آپ کی بارگاہ میں آجائے تو اس سے سختی سے بات نہ فرمایا کریں- بعض صفاتِ رسول (ﷺ) ایسی ہیں جو آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی میں یکتا و منفرد ہیں مگر یتمٰی پہ رحمت و شفقت کرنے کی  یہ صفت صرف آقا علیہ السلام ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس صفت مبارک سے دیگر انبیائے کرام کو بھی متصف فرمایا- مثلاً اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ الکہف‘‘میں سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر (علیھم السلام)کا واقعہ فرمایا کہ:

پہلے حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختے پھاڑ دیے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ نے کیوں پھاڑے ہیں؟،پھر حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کیا تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سوال کرنے لگے کہ آپ نے اسے کیوں قتل کیا ہے؟اورپھرسیدنا خضر اور سیدنا موسیٰ (علیھم السلام) سفر کے دوران فاقہ میں تھے کہ سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک دیوار تعمیر کی جو کہ گر رہی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے یہ جو دیوار تعمیر کی ہے،آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ان سے اجرت طلب کرتے تاکہ ہم اپنا کھانا اور کچھ مال و متاع خرید لیتے؟

’’قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا‘‘[5]

 

’’(خضرؑ نے) کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت) ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کیے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے‘‘-

حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار کے متعلق فرمایا کہ:

’’ وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰـمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ‘‘[6]

 

’’اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا ، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں‘‘-

یعنی کوئی اس خزانے کو چوری یا گم نہ کر دے اس لئےاس دیوار کے نیچے اسے چھپا دیا-گویا اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کو اس بات کے اوپر مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ بغیر اجرت ، بغیر کسی کے کہے اور بغیر کسی دُنیوی لالچ اورغرض کے جہاں کہیں بھی مالِ یتیم دیکھیں تو وہ یتیموں کے حقوق کے محافظ بن جائیں-یعنی یتیم کے مال  اور اس کے احساسات کادھیان کرنا جملہ انبیائے کرام کے اخلاق کا حصہ تھا اور بطور خاص سید الانبیا خاتم النبیین حضرت محمد الرسول اللہ(ﷺ)کو اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے اس ڈیوٹی پر مامُور فرمایا تھا-

دوستو!آپ کبھی قرآن میں جھانک کے دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گےکہ اتنے تسلسل و تواتر سے، کھول کھول کر اور دوہرا دوہرا کر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یتیم کے حقوق کا ذکر کیا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اس کی یہ مخلوق کہ جن کے دل ٹوٹے اور رنجیدہ ہیں،جن کے سر پہ کوئی شفقت کا ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے،اللہ تعالی اس مخلوق کے اوپر کتنا رحیم و شفیق ہے- یعنی یہ وہ طبقہ تھا جو غلامی میں پِس چکا تھا،درگاہِ اُمراء سے ٹھکرایا ہوا تھا اور جس کی عزت و تکریم کو پامال کیا جاتا تھا،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کےذریعے ان کی عزت اور توقیر کو بھی بلند کیا اور ان کے حقوق کو بھی محفوظ فرما دیا-قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مال کو خرچ کرنے کاذکر آیا ہے بکثرت وہاں پہ اللہ تعالی نے یتیموں پر مال خرچ کرنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اپنے مال و اسباب کو یتیموں کے اوپر خرچ کرو:

’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ‘‘[7]

 

’’آپ (ﷺ)سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں ‘‘-

یعنی فرمایا کہ زیادہ بہتر ہے کہ تم اپنے والدین، عزیز و اقارب ،یتیموں،غرباء،نادار مسافروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرو-پھر مزید اللہ تعالیٰ نےیتیموں کے ساتھ کس طرح معاملات رکھے جائیں ،کی وضاحت فرمائی:

فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِوَیسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ‘‘[8]

 

 

’’(تمہارا غور و فکر) دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں (رہے)اور آپ (ﷺ)سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں:ان (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے اور اگر انہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ یتیموں کی اصلاح و تربیت کا خیال رکھنا،ان کو سنوارنا اور بہتر افزائش کرنا یہ تمہارے حق میں بہتر اور باعثِ خیر ہے اور اگر تم اپنے نان و نفقہ،کاروبار اور زندگی میں ان کو اپنا شریک بنا لیتے ہو تو اللہ تعالی  ان کو تمہارا بہتر بھائی ثابت کرے گا-

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کے  متعلق فرمایا:

’’وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ الِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ‘‘[9]

 

 

’’اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لیے اور (رسول(ﷺ)کے) قرابت داروں کے لیے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہے ‘‘-

یعنی جہاں بھی صدقات اور خیرات یا مالِ غنیمت کی بات آئی وہاں بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ تمہارے صدقات،خیرات اور مالِ غنیمت میں یتیموں کا حصہ مقرر ہے-پھر وہ لوگ جو اپنے مال سے یتیموں کا حصہ مقرر کر تےہیں،ان کا خیال اور احساس رکھنے والے بن جاتےہیں،قرآن کریم ان کی توصیف اورتعریف و تحسین کرتا ہے-یاد رکھیں! قرآن کبھی بھی کسی معمولی عمل کی توصیف و تحسین نہیں کرتا بلکہ جو رب کے ہاں سب سے زیادہ  اجر والا عمل ہوتااس کی تعریف بیان کرتاہے-یعنی اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے انبیاء،صالحین، اہلِ ولائیت،مجاہدین،آقا علیہ السلام کے جان نثار،  اہل بیت،اہلِ محبت اور ملائکہ کی تعریف بیان کرتا ہے-یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن کن کی توصیف بیان کر رہا ہے:

’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا‘‘[10]

 

’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں(اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے درخواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں‘‘-

یعنی قرآن ان لوگوں کی تحسین و تعریف کر رہا ہےجو اپنا کھانا اللہ کی محبت  میں محتاجوں،یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم سے کسی بدلے و اجر کے خواستگار نہیں ہیں-ہم جو کچھ بھی تمہارے اوپر خرچ کر رہے ہیں وہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لئےہے-قرآن کریم ایسے لوگوں کو اللہ تعالی کے  محبوب بندوں میں شمار کرتا ہے-یعنی اللہ پاک انہیں پسند فرماتا اور اپنی بارگاہِ اقدس میں  قربِ خاص عطا فرماتا ہے-

یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس طبقے کے اوپر اللہ تعالی نے اتنی جو کرم نوازی فرمائی اس کی وجہ کیا تھی؟یہ ایک عام انسانی احساس کی بات ہے کہ اس دنیا میں انسان مال و اسباب کا بھوکا نہیں ہوتا بلکہ پیار، محبت، شفقت و اپنائیت کا  بھوکا ہوتا ہے-اس لئے جو یتیم ہوتا ہے،اس کے والدین نے اس کے لئے کوئی بڑا ورثہ یا مال و اسباب چھوڑے ہوں یا نہ چھوڑے ہوں، یہ ایک الگ بات ہے-اصل میں یتیم کا سانحہ اس کےمال اور اسباب کی کمی نہیں ہوتا بلکہ یتیم کا سانحہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے سر سے وہ دستِ شفقت کا سایہ اُٹھ جاتا ہے جو اس کے والدین کی صورت میں اس کے پاس موجودتھا -

اس لئے جب یہ سایہ اُٹھ جاتا ہےتو پھر کوئی بھی اس یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھ کر بیٹا پکا رنے والا نہیں ہوتا-جب آدمی پریشان بیٹھا لوگوں کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے کھلونے اورکھانے پینے کی اشیاء لا کر اپنے بچوں کو محبت سے پکارتے ہیں تو جب بیٹا آتا ہے تو اسے اپنے سینے سے لگا کر گود میں اٹھا لیتے ہیں-تو اس وقت یتیم یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ کاش!میرے بھی والدین ہوتے مجھے بھی اسی طرح بیٹا یا بیٹی کَہ کے پکارتے، میرے لئے اسی طرح کے کھلونے،پھل اور کھانے پینے کی دیگر اشیاءلاتے- اس مقام پرشیخ سعدی ؒ یاد آتے ہیں کہ :

چو بینی یتیمی سر افگنده پیش
مده بوسه بر روی فرزند خویشؔ

’’جس وقت تم کسی یتیم کا (اُداسی و پریشانی میں ) سرجھکا ہوا دیکھو تو اس کے سامنے اپنے بیٹے کے چہرے کو بوسہ نہ دو‘‘-

یعنی جب تم کسی یتیم کو دیکھو وہ خاموش اپنا سر جھکائے پریشان بیٹھا ہےتو اس کی اس پریشانی کے عالم میں اس کے سامنے کبھی بھی اپنے بیٹے کے چہرے کو بوسہ نہ دو-تاکہ اس یتیم میں  یہ احساس پیدا نہ ہو کہ اگرآج میرے والدین ہوتے تو مجھے بھی اسی طرح بلاکر چومتے-

یتیم کا بنیادی سانحہ یہ ہے کہ اسے ایک سایۂ شفقت کی ضرورت ہوتی ہے -یہ مال و متاع،جائیداد اور وراثت یہ سب ثانوی چیزیں ہیں-ان سب پر جس چیز کو فوقیت حاصل ہے وہ انسانی احساس و جذبہ ہے جو اس کے دل میں ہوتا ہے-یہی وہ دردِ دل ہےجس کی آہ رب کے عرش کو ہلا دیتی ہے-جیسا کہ حضرت سلطان العارفین سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ ) فرماتے ہیں :

درد منداں دیاں آہیں کولوں پہاڑ پتھر دے جھڑدے ھو

 

درد منداں دیاں آہیں کولوں بھج  نانگ زمین وچ وڑ  دے ھو 

درد منداں دیاں آہیں کولوں آسمانوں تارے جھڑدے

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں تم درد مندوں کی آہوں کو کیا سمجھتے ہو؟درد مندوں کی آہیں بڑے بڑے پہاڑ روئی کی طرح اڑا دیتی ہیں-درد مندوں کی آہیں جب نکلتی ہیں تو رب کے آسمان سے تارے جھڑتے ہیں،کھانے والے زہریلے کاٹ اور بڑے بڑے ناگ بھی درد مندوں کی آہ کے خوف سے بھاگ کے زمین میں پناہ تلاش کرتے ہیں-اس لئے یہ جو یتیم طبقہ ہے،یہ رب کے نزدیک سب سے زیادہ دکھی،رنجیدہ اور پریشان طبقہ ہے-اس لئے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اور اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کے ذریعے سے اس مخلوق میں ان کی محبت و احساس کو پیدا فرمایا ہے-

(---جاری ہے---)


[1](والضحی:۶-۱۱)

[2](و الضحی:۶)

[3](والضحی:۹)

[4](و الضحی:۶)

[5](الکہف:۷۸)

[6](الکہف:۸۲)

[7](البقرۃ:۲۱۵)

[8](البقرۃ:۲۲۰)

[9](الانفال:۴۱)

[10](الدھر:۸-۹)

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ o اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o’’اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیoوَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰیoوَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیoفَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْہَرْoوَاَمَّا السَّآئِلَ فَـلَا تَنْہَرْoوَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo[1]‘‘صَدَقَ اللہُ العَظِیْم oوَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمo اِنَّ اللہَ وَ مَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبیْ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَلُّوا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمَا o

 قا بل احترام ساتھیو،بھائیو،مہمانان گرامی،علمائے کرام اور مشائخ عظام  السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ !

سر پرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین،شیخ ما،مرشد  ما،قائد ما حضرت سلطان محمد علی صاحب اور کارکنان اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کراچی کی جانب سے مَیں آپ تمام تشریف لانے والے مہمانان گرامی کو دلی طور پہ خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ آپ آج کی اس تقریب میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان اور مبلغین کی دعوت پہ تشریف لائے-

میرے دوستو اور ساتھیو!اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب پاک(ﷺ)کے ذریعے سے اپنی اس مخلوق کہ جسے اس نے پیدا کیا،جس نے اس سے محبت کی،جس کے اوپر رحمتوں و برکات اور کرم و فضل کے تمام دروازے کھول دیے-مگر تہذیب اور تاریخ کے سفر میں کئی فرعون و نمرود اور جابر و ظالم آئے جنہوں نےاللہ تعالی کی اشرف المخلوق ہستی سے، اُس کی تحریم و تعظیم، عزت و وقار اور اس کےاحساسات کو اپنی خواہشِ نفس،انانیت و تکبر اور اپنے گھوڑوں،ہاتھیوں اور لشکر و جنود کے قدموں تلے روندا-انسان جسے اللہ تعالی نے اپنا خلیفہ و نائب بنایا،اس میں ایک ایسی لطیف،حساس اور باریک چیز رکھی کہ جس کی جُنبش رب کے عرش کو ہلا دیتی ہے،اگر انسان اس نازک و لطیف مقام سے کسی آرزو و تمنا کا اظہار کر دے تو رب فرماتا ہے کہ مَیں اس لمحے کی اس دعا کو رد نہیں کرتا،وہ نازک اور لطیف چیز پیکر انسانی میں اللہ تعالی نے دل کو بنایاہے-دل انسان کے احساسات،خوشی ومسرت کا مرکز ہے جس سے انسان اپنے تمام  خوشی و مسرت اور دکھ و تکلیف کے احسات محسوس کرتا ہے-لیکن یہ دنیا تہذیبوں کے مختلف سفر طے کرتی ہوئی ایک سخت و پتھر دل دنیا بن گئی یعنی جس کا دل سختی کی انتہاء کو پہنچ چکا  اور پتھر کی مانند سخت ہو گیاہو-جس میں انسانی جذبے،آرزوئیں،ہمدردی اور اخوت کے احساسات ختم ہوگئے ہوں-مگراللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب کریم خاتم الانبیاء،سید المرسلین،رحمت اللعالمین محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی ذات اقدس کے صدقے اور ان کی نظرِ کرم سے انسان کی خوشی و مسرت اور دکھ و درد کے احساسات کے مرکز کو انسان کے وجود میں دوبارہ سےزندہ اور تابندہ فرما کر انسان کو اس کی فطرت کے مزید قریب فرما دیا-یعنی وہ لوگ جو اپنے درد و تکلیف اور اپنے رنج و الم کو اپنے دل میں محسوس کرتے تھے لیکن اپنا درد کسی کو بیان نہیں کر سکتے تھے-آقا پاک (ﷺ)نے ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو بولنے کا حوصلہ عطا فرمایا،اپنی شفقت و رحمت اور کرم و اخلاق کریمہ سے ان میں پھرروشنی اور زندگی کو زندہ فرما یا جو کہ اللہ تعالیٰ نے قلبِ انسانی کے لئے خاص فرمائی تھی-

اگر اس دور اور وقت کو دیکھا جائےکہ جب انسان ظلم وجبر  کی غلامی میں مبتلا تھا  تو اللہ تعالیٰ نےآقا پاک (ﷺ)کےذریعے فطرتِ انسانی کی تنظیمِ نو فرمائی-حالانکہ آپ (ﷺ) خاندانِ قریش سےتعلق رکھتے تھےجو کہ عرب میں سب سے عظیم ومعتبر قبیلہ تھا مگرآپ(ﷺ)نے غلاموں کو آواز اور بولنے کا حوصلہ دیا-اللہ تبارک و تعالیٰ نےانسان کوجو حقوق عطا فرمائے تھے آقا پاک (ﷺ) نے وہ حقوق غلاموں کو بھی دلوائے- آقا پاک (ﷺ)نے غرباء و مساکین،حاجت مند،نادار و غریب جن کےدامن خالی تھے،جن کی تجوریاں و خزانے نہیں تھے ۔ جو نہ صرف دو (۲) وقت کی روٹی کے لئے ترستے تھے بلکہ اِس مسکنِ انسانی یعنی خطۂ زمین پہ کوئی نہ تھا جو : اُن کی جانب شفقت سے دیکھتا ہو ، اُن کے احساسات کی قدر کرتا ہو ان کے دکھ اور کرب کو محسوس کرتا ہو ، ان کے جذبات کے مجروح ہونے پہ مرہم رکھتا ہو ، اُن کے ٹوٹے ہوئے دلوں کی کرچیوں کو جمع کر کے منظم کرنے کا بندو بست کرتا ہو ، ان کی رنج و الم میں ڈوبی آہوں کا راز جانتا ہو ، آنکھوں کے ساگر سے نکل کر پلکوں پہ ٹھہرے اور رُخساروں پہ بہتے آنسؤوں کو چُنتا ہو ، اُن کی ٹوٹتی اُمیدوں کو دلاسہ دینے کا ہنر جانتا ہو ، تبسم اور مسکرانے سے محروم لبوں کی تشنگی کو سمجھ سکتا ہو ، سینے میں دم توڑتی انسانی آرزوؤں کی ڈھارس بندھا سکتا ہو ، غلامی کی سُولی پہ لٹکتے آدم کے بیٹوں کے لاشوں کو اُن سولیوں سے اُتار کر  حمیّت کی چادر سے ڈھانپتا ہو ، سرِ بازار حوّا کی بیٹیوں کی نیلام ہوتی عِفّت و عصمت کو تحفظ فراہم کرتا ہو ، تپتی دھوپ برستی بارشوں اور ظلم و جبر کے جھکڑوں میں بغیر سایہ و سائبان کے رہنے والے سروں کو شفقت کے سائبان میں پناہ دیتا ہو ۔ آقا پاک (ﷺ) نے ان سروں پرشفقت کا ہاتھ رکھا اور انسانیت کو غریبوں سے ہمدردی  کااحساس دلایا-وہ بیٹیاں جس کی کوکھ سے  انسان خود جنم لیتا تھا،جب اس جاہل اور ظالم سماج (معاشرہ)میں پیدا ہوتیں تو ان کو زندہ دفن کر دیا جاتا،ان کی عزت و عصمت کو پامال کیا جاتاتھا-آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاپنے کرم اور نظرِ شفقت سے انسانیت میں اُن بیٹیوں کی عزت و عصمت کو بحال کیا-

میرے اور ہر  انسان کے دل کےبہت قریب ترین بات ہے کہ وہ بچے جو ناسمجھ اورکم عمر میں یتیم رہ جاتے ہیں،جن کے والد یا والدہ یا دونوں والدین ان سے بچھڑ جاتے ہیں  اس معاشرہ میں وہ در بدر بھٹکتے  اورٹھوکریں کھاتے ہیں،جن کے سر پر دستِ شفقت رکھنے،سرپرستی  کرنے اور اپنانے والا کوئی نہیں ہوتا،جن سے پیا ر کے دو بول اور باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جن کے آنسوں پونچھنے اور دردِ دل سننے والا کوئی نہیں ہوتا،جن کے درد کی آواز کو سننے والا کوئی نہ ہوتا،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کے ذریعے سے ان یتیموں کو آواز، شفقت،اپنائیت اور بارگاہِ مصطفےٰ (ﷺ) کی صورت میں ایک ایسا مقام عطا کیا جہاں آکر وہ اپنے دردِ دل کو بیان کرتے-جہاں آقاپاک(ﷺ) نے ان کی عزت وتکریم کو معاشرے میں مزید بلند فرما یا-ان کو عزت و تکریم کے وہ اعلیٰ ترین منصب عطا فرمائے کہ دینِ مبین کی روشنی میں بعد از نبوت اور بعد از ولائیت آقا کریم (ﷺ)نے اس زمین کے اوپر سب سے حساس و معزز ترین شخصیات یتیموں کو قرار فرما یا-اپنی امت ،اپنے پیروکاروں ، کلمہ پڑھنے والوں اور اپنی نبوت کی گواہی دینے والوں کو آقا علیہ السلام نے یتیم کی عزت، مال و متاع کےحقوق کا محافظ بنا دیا-اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں جہاں آقا علیہ السلام کی بے شمار صفات کا ذکر فرمایا ان  میں سےایک صفت کو اس طرح بیان فرمایا:

’’اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی‘‘[2]                     ’’(اے حبیبِ مکرم(ﷺ)!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا‘‘-

یعنی اے محبوب کریم (ﷺ)آپ کے رب نے آپ (ﷺ)کو یتیم پیدا فرمایا اور آپ (ﷺ)کو اس کائنات میں عزت و احترام کا اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا-گو کہ یہاں جو یتیم کا معنی ہے وہ علمائے سیرت نے یہ کیا ہےکہ:یتیم سے مراد یہ ہے کہ آقا پاک (ﷺ)کی ولادت باسعادت سے قبل آپ(ﷺ)کےوالدِ محترم کاانتقال ہوا اور آپ(ﷺ)کےبچپن مبارک میں آپ (ﷺ)کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا-مگر وہ کہتے ہیں کہ یتیم کا ایک معنی تنہا ،یکتا اور اکیلا بھی ہے-یعنی آقا پاک(ﷺ)اپنے حسن و جمال اورعظمت و مقام میں اس کائنات میں اکیلے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی اور کو اتنی رفعتیں،حسن و جمال اورقربت عطا نہیں کی جتنی کہ حبیب کریم(ﷺ) کو عطا کی-

قرآن کریم میں اللہ پاک نے یتیم کا سماجی معنی اس طرح ارشاد فرمایا:

’’فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْہَرْ‘‘[3]                       ’’پس (اے حبیب (ﷺ)!)،آپ کبھی بھی یتیم پر سختی نہ فرمائیں‘‘-

یعنی اس کو ڈانٹیں یا جھڑکیں نہیں -اس سے قبل آقا پاک(ﷺ) کی شانِ یتیمی کا ذکر بھی ہوا جس کے متعلق مرحوم حفیظ جالندھری (﷫)  کے شاہنامہ اسلام میں درج وہ اشعار شامل کرنا چاہوں گا جن میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر میرے دل میں اتنی تاب اور حوصلہ ہوتا اور اگر اللہ تعالی مجھےاتنا موقع عطا فرماتا تو میں آقا علیہ السلام کے بچپن کا  ذکر کرتا کہ جس غریب الدیاری، مسافری اور دشت ِ غربت میں آقا علیہ السلام اپنی والدہ ماجدہ سے جدا ہوتے ہیں :

ملا ہے آمنہ کو فضل باری سے یتیم ایسا
بیاں لازم تھا صحرائی وطن سے گھر میں آنے کا
مدینے کے سفر میں ماں کی ہمراہی بیاں کرتا
بیان کرتا وفاتِ آمنہ کا حالِ حسرت زا
بیاں کرتا کہ جب اٹھتا ہے سر سے سایۂ مادر 
بیاں کرتا کہ جب غربت میں یہ صدمہ گزرتا ہے

 

نہیں ہے بحر ہستی میں کوئی دُرِّ یتیم ایسا
محمد ؐ کے دوبارہ دامنِ مادر میں آنے کا
پدر کےمدفن ِ راحت سے آگاہی بیاں کرتا
بیاں کرتا مقدس ہو گیا کیوں خطہ ابوا
یتیم اس وقت آنسوں پونجھتے ہیں منہ سے کیا  کَہ کر
تو شش سالہ یتیم اس وقت کیسے صبر کرتا ہے


قرآن کریم اس قلب کی حساسیت و رنجیدگی اورپریشانی کے پیش نظر آقا علیہ السلام کے اس مقام ِ خاص کو بیان کرتا ہے کہ :

’’اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی‘‘[4]

 

’’(اے حبیبِ مکرم(ﷺ)!) کیا آپ (ﷺ)کے رب نےآپ (ﷺ)کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ (ﷺ)کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا‘‘-

یعنی اے حبیب (ﷺ)!آپ تو اس کیفیت و حال اورمرحلے سے واقف ہیں کہ ایک یتیم پہ کیا بیتتی اور گزرتی ہے-اس لئے کوئی بھی یتیم آپ کی بارگاہ میں آجائے تو اس سے سختی سے بات نہ فرمایا کریں- بعض صفاتِ رسول (ﷺ) ایسی ہیں جو آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی میں یکتا و منفرد ہیں مگر یتمٰی پہ رحمت و شفقت کرنے کی  یہ صفت صرف آقا علیہ السلام ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس صفت مبارک سے دیگر انبیائے کرام کو بھی متصف فرمایا- مثلاً اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ الکہف‘‘میں سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر (﷩)کا واقعہ فرمایا کہ:

پہلے حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختے پھاڑ دیے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ نے کیوں پھاڑے ہیں؟،پھر حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کیا تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سوال کرنے لگے کہ آپ نے اسے کیوں قتل کیا ہے؟اورپھرسیدنا خضر اور سیدنا موسیٰ (﷩) سفر کے دوران فاقہ میں تھے کہ سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک دیوار تعمیر کی جو کہ گر رہی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے یہ جو دیوار تعمیر کی ہے،آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ان سے اجرت طلب کرتے تاکہ ہم اپنا کھانا اور کچھ مال و متاع خرید لیتے؟

’’قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا‘‘[5]

 

 

’’(خضرؑ نے) کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت) ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کیے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے‘‘-

حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار کے متعلق فرمایا کہ:

’’ وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰـمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ‘‘[6]

 

’’اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا ، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں‘‘-

یعنی کوئی اس خزانے کو چوری یا گم نہ کر دے اس لئےاس دیوار کے نیچے اسے چھپا دیا-گویا اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کو اس بات کے اوپر مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ بغیر اجرت ، بغیر کسی کے کہے اور بغیر کسی دُنیوی لالچ اورغرض کے جہاں کہیں بھی مالِ یتیم دیکھیں تو وہ یتیموں کے حقوق کے محافظ بن جائیں-یعنی یتیم کے مال  اور اس کے احساسات کادھیان کرنا جملہ انبیائے کرام کے اخلاق کا حصہ تھا اور بطور خاص سید الانبیا خاتم النبیین حضرت محمد الرسول اللہ(ﷺ)کو اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے اس ڈیوٹی پر مامُور فرمایا تھا-

دوستو!آپ کبھی قرآن میں جھانک کے دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گےکہ اتنے تسلسل و تواتر سے، کھول کھول کر اور دوہرا دوہرا کر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یتیم کے حقوق کا ذکر کیا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اس کی یہ مخلوق کہ جن کے دل ٹوٹے اور رنجیدہ ہیں،جن کے سر پہ کوئی شفقت کا ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے،اللہ تعالی اس مخلوق کے اوپر کتنا رحیم و شفیق ہے- یعنی یہ وہ طبقہ تھا جو غلامی میں پِس چکا تھا،درگاہِ اُمراء سے ٹھکرایا ہوا تھا اور جس کی عزت و تکریم کو پامال کیا جاتا تھا،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کےذریعے ان کی عزت اور توقیر کو بھی بلند کیا اور ان کے حقوق کو بھی محفوظ فرما دیا-قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مال کو خرچ کرنے کاذکر آیا ہے بکثرت وہاں پہ اللہ تعالی نے یتیموں پر مال خرچ کرنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اپنے مال و اسباب کو یتیموں کے اوپر خرچ کرو:

’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ‘‘