یہ مسائل تصوف (قسط چہارم)

یہ مسائل تصوف (قسط چہارم)

یہ مسائل تصوف (قسط چہارم)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مارچ 2017

اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے وہ’’ایام اللہ‘‘ کے ظاہری پہلوکے حوالے سے تھی  کہ ایام اللہ سے نعمتوں کے دن مراد ہیں، ایام اللہ سے سختی کے دن مراد ہیں یا پھر ایام اللہ سے دین پہ استقامت کے دن مراد ہیں-ان کے متعلق اب یہ ذہن نشین رہے کہ سورۃابراہیم کی آیتِ مبارکہ کے تحت تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کے لئے اللہ کے دن یاد کئے جاتے ہیں - مُرشدِ کامل کی بھی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ دن یاد کروائے ، تاکہ ظاہر اور باطن میں ’’رغبت الی اللہ‘‘ اور ’’رجوع الی اللہ‘‘کی روش مستحکم ہو جائے-اُس کا ایک ذریعہ تو سزا و جزا کے ایام کی یاد ہے جن کا تعلق آدمی کے ظاہری احساسات سے بنتا ہے، اِسی آیت مبارکہ کا ایک مفہوم وہ بھی ہے جو ہمیں باطن یعنی ’’رُوح‘‘ کی جانب متوجّہ کرتا ہے -جس طرح بدن کے حواس ہیں اُسی طرح روح کے بھی حواس ہیں ، جس طرح بدن پر نعمتوں کے دِن گزرے ہیں اِسی طرح رُوح پہ بھی نعمتوں کے دن گزرے ہیں ،تو فرمایا کہ رُوح کو بھی وہ دن یاد کروائے جائیں - 

جہاں ہم ظاہری وجود رکھتے ہیں، اس ظاہری وجود سے  فرمانبرداریوں اور  نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں ،اسی ظاہری وجود پر نعمتوں کی صورت میں جزا اور عذاب کی صورت میں سزا پاتے ہیں  وہیں ہمارے وجود میں ایک حقیقت اور بھی پوشیدہ ہے جسے ہم روح کہتے ہیں- اس کے اپنے روحانی تقاضے ہیں، اس کی بھی ایک طلب اور تڑپ ہے یہ بھی کسی عالَم سے جدا ہوکر اس جہان میں ،اس جسم کے قید خانہ میں آن پھنسی ہے عارفِ  رومی ؒ کے الفاظ میں ’’ایں جہاں زندان و ما زندانیاں‘‘ - اِس جسم کی قید میں رُوح کے جو دِن گزرتے ہیں وہ ایام اس کیلئے سختی کے ہوتے ہیں چونکہ جسد روح سے غافل ہوتا ہے اور روح کی راحت و فرحت کا اہتمام نہیں کرتا محض اپنی جسدانی جبلتوں سے جسد ہی کی تسکین کرتا رہتا ہے- البتّہ ایسے اجساد و اجسام کے ساتھ گزر بسر روح کے لئے سختی کے ایام نہیں ہوتے جو اجساد (توفیقِ الٰہی سے) اِس عالمِ ناسوت میں عالمِ لاھُوت کی زندگی ممکن بنا دیتے ہیں-اِس لئے غافل جسد میں رہنا روح کی سختی کے ایام ہیں،جسدِ غافل کی غفلت روح کو بے جان مادہ کی سطح پہ لے آتی ہے اِس لئے روح کو بیدار کرنے اور جسدِ کثیف میں لطافتِ روح کے احیاء کے لئے روح کو ایامِ الٰہی یاد کروانے کا حکم ہوتا ہے-اِس اُمت کے مرشدانِ جلیل جب بیداریٔ روح کا پیغام دیتے ہیں تو بُنیادی طور پہ وہ اسی عظیم فریضے کی سر انجام دہی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراھیم میں مقرر فرمایا ہے کہ ’’ایام اللہ یاد دِلا ئے  جائیں‘‘ -

رُوح کو ایامِ الٰہی یاد کروانے کا مرحلہ جب آتا ہے تو ذہن فوراً اِس سوال کی جانب جاتا ہے کہ اجسادِ انسانی کی تو ایک تاریخ ہے کہ گزشتہ اُمم و ملل کو یاد کرنا اُن کے اعمال و افعال اور گفتار و کردار کا تذکرہ تو موجود ہے لیکن کیا رُوح کا جسدِ انسانی میں آنے سے قبل کا بھی کوئی زمانہ ہے جس سے رُوح کی حسین و جمیل یادیں وابستہ ہوں جنہیں روح کے لئے ایامِ الٰہی کہا جا سکے؟ اِس سوال کے جواب میں قرآن پاک سے کئی شواہد ملتے ہیں ، جن میں سے تین(۳) شواہد کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا -

1)     انسان پہ گزرنے والی لامحدود مدت:

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

’’هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا‘‘ [1](الانسان: ۱)

’’بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شئے نہ تھا‘‘-

یعنی ایسا زمانہ انسان پہ گزرا ہے جس کو یہ تصور (Imagine) بھی نہیں کر سکتا کہ اس کی ہیئت کیسی تھی ؟ اور نہ ہی یہ  زمانہ کے ساتھ اُس وقت کی پیمائش کر سکتا ہے کہ رب کے نزدیک اِسے کتنی دراز مُدّت نصیب ہوئی ؟ امام ابوالحسن الماوَردی ؒ  (متوفی: ۴۵۰ ھ) اپنی تفسیرمبارکہ ’’النُکت والعیون‘‘ میں سیّدنا عبد اللہ ابنِ عبّاس ٰ کا قولِ بلیغ نقل فرماتے ہیں :

’’اَنَّ الحینَ الْمذکورَ ھاھُنا وقتٌ غیرُ مقدارٍ وَّ زمانٌ غیرُ محدودٍ‘‘ [2] (تفسیر النکت والعیون، سورہ الانسان)

’’یہاں جو ’’حین‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے (اس سے مُراد) بغیر مقدار (یعنی بغیر پیمائش) کے وقت اور لامحدود زمانہ ہے ‘‘-

گویا رُوح کے اُن ایّام کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انسان کے ظاہری حواسِ خمسہ کے تعیُّنات و ادراک سے کہیں ماوریٰ ہیں -

1)      بارِ اَمانت:

ایک دوسرا واقعہ قرآن پاک نے ذکر کیا ہے :

’’إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ‘‘ [3] (الاحزاب ۷۲)

’’بیشک ہم نے ( ایک) امانت آسمانوں پہ ، زمین پہ اور پہاڑوں پہ پیش فرمائی تو انہوں نے اس (بارِ امانت) کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے عاجز آگئے ، اور (جبکہ) انسان نے اسے اٹھا لیا ، بے شک وہ (انسان اپنے اوپر غفلت کے سبب) زیادتی کرنے والا اور (حفاظتِ امانت کی سر انجام دہی میں) نادان ہے    ‘‘-

یہاں ضمناً ایک بات عرض کرتا چلوں کہ صوفیائے کرام ’’بارِ امانت‘‘ کے قبول کرنے کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیتے ہیں-بعض نے انسان کے دیگر مخلوقات پہ شرف و امتیاز کو اِسی وجہ سے بھی قرار دیا ہے - مثلاً آسمان جو کہ رفعت و بلندی کا استعارہ ہے اُس کا امانت کے بوجھ کو اٹھانے سے عاجز آجانا اور انسان کا زیرِ فلک ہونے کے باوجود اس جرأت کا مظاہرہ کرنا صوفیا کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے خصوصی تقرب کی نشانی ہے - جیسا کہ عارفِ رومی ؒ کا فرمان ہے :

جمال آن امانت کان را فلک نپذرفت

 

گشتم بہ اعتمادی کز لطف تست یارے

’’اُس امانت کے جمال تک فلک (آسمان) کو رسائی نصیب نہ ہوئی ، لیکن تیرے لطف و کرم کے اعتماد سے میں اُس امانت تک پہنچ گیا ‘‘-

ایک اور عارف فرماتے ہیں :

بار غم او عرض بہ ہر کس کہ نمودند

 

عاجز شد و این قرعہ بہ نامم زسر افتاد

’’اس امانت کے بوجھ کو ہر کسی کے سامنے ظاہر کیا گیا ، مگر  تمام چیزیں عاجز ہو گئیں اور یوں یہ قرعہ میرے نام نکلا‘‘-

خواجۂ شیراز حضرتِ حافظ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

آسماں بارِ امانت نتوانست کشید

 

قُرعۂ کار بنامِ منِ دیوانہ زدند

’’آسمان سے بھی امانتِ عظیم کا بوجھ اٹھایا نہ گیا ، پھر یہ قرعہ (یعنی امانتِ الٰہیّہ کی عطا) انسان کو نصیب ہوئی‘‘ -

مولانا جلال الدین رومی ؒ آسمان کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اگر ایں آسماں عاشق نبودی
نپذرفت آسماں بارِ امانت

 

نبودی سینہ ای اُو را صفائے
کہ عاشق بود و ترسید از خطائے

عارفِ رومی ؒ نے دیوانِ شمس کے اِن اشعار میں بڑے ہی منفرد عارفانہ  انداز میں آسمان کی وکالت بھی فرمائی ہے کہ آسمان نے امانت قبول نہ کی الگ بات ہے مگر آسمان کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے صفائی رکھی ہے-پھر فرمایا کہ امانت آسمان نے اس لئے نہیں چھوڑی کہ عاشق نہ تھا ، عاشق تو وہ تھا مگر خطا کی سزا سے ڈرتا تھا - اِس وکالت کے ساتھ عظمتِ انسانی کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرما گئے کہ صاحبِ صفا ہونا الگ بات ہے مگر عاشق ہونا الگ بات ہے اور عاشقی میں بھی آخری حد تک گزر جانا ہر ایک کی بات نہیں یہ انسان ہی کا حوصلہ تھا جس نے جان کی بازی لگا کر بھی امانتِ الٰہی کو اپنے سینہ کا مقدر بنا لیا - جیسے حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ نے فرمایا تھا: ’’میں قربان تنہاں توں باھُو جنہاں عشق بازی چُن لیتی ھُو‘‘ -

نیز، تربیّتِ رُوح کے حوالے سے بھی بارِ امانت کا واقعہ سالکین کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے کہ شیخِ کامل اپنے سالک کی تربیت اِس پیمانے پہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سالک کو اِس اہمیت سے باخبر کرتا ہے کہ تزکیّہ و پاکیزگی کا حصول اِس لئے بھی ناگزیر ہے،اپنے وجود کو عوام سے خواص کی صف میں لے جانا اِس لئے بھی لازِم ہے تاکہ وجود نُورِ امانتِ الٰہی کا امین بن سکے- مثلاً جس طرح حضرت ابو المعانی میرزا عبد القادر بیدل ؒ فرماتے ہیں :

قابلِ بارِ امانتہا مگو آساں شُدیم

 

سرکشی ہا خاک شُد، تا صُورتِ انساں شُدیم

’’یعنی یہ نہ کہو کہ بڑی آسانی سے انسان بارِ امانت اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ سرکشی (نافرمانی) کو مکمل طور پہ ختم کرکے حقیقی انسان بیدار ہو تو امانت اِس وجود کا مقدّر بنتی ہے‘‘-

امانتِ الٰہیہ کی حفاظت انسان کی سب سے اوّل ذِمّہ داری ہے ، اِسے رُوحِ انسانی کی گزشتہ عُمر کی جانب بھی لوٹایا گیا ہے کہ وہ کیسے جمالِ ذات کے قرب میں متبسّم و مسرت انگیز زندگی گزار رہی تھی مگر امانت کو قبول کر کے روحِ انسانی نے مشکل کا سودا کر لیا - بقول حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ کے :

ہسن دے کے رون لیوئی تینوں دتا کس دلاسا ھُو

’’کہ تونے انبساط و تبسم اور مسکراہٹیں دے کر جو رونا خریدا ہے ، وطن کو چھوڑ کر مسافری و غریب الدیاری کو خریدا ہے یہ تو بتاؤ کہ تمہیں اِس سودے کا  دلاسہ کس نے دیا تھا ؟‘‘

1)      میثاقِ اَلَست:

تیسرا واقعہ اُس میثاق کا قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے جو میثاق /عہد اللہ تعالیٰ نے اَروَاح سے لیا تھا وہ بھی رُوح پہ بیتنے والا ایک مرحلہ ہے جس سے اس کی حسین یاد وابستہ ہے - اِس لئے یہ میثاقِ الست بھی با اعتبارِ روحانی ’’ایام اللہ‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے-یہ واقعہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الاعراف میں اس پیرائے میں بیان فرمایا ہے :

’’وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ ‘‘[4] (الاعراف ۱۷۲)

’’اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدم (علیہ السلام) کی پشتوں سے اُن کی نسل نکالی اور ان کو انہی پہ گواہ بنایا (اور خطاب کیاکہ) ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں‘‘؟ تو ان سب نے کہا کیوں نہیں؟ (یعنی تو ہی ہمارا رب ہے)  ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن (تم یہ نہ) کہو کہ ہم اِس عہد سے بے خبر تھے ‘‘ -

اِ س واقعہ کو حدیثِ پاک میں اِن الفاظ سے بیان کیا گیا ہے :

’’جَمَعَهُمْ لَهُ يَوْمَئِذٍ جَمِيْعاً مَا هُوَ کَائِنٌ مِنْهُ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَجَعَلَهُمْ أرْوَاحاً، ثُمَّ صَوَّرَهُمْ، واسْتَنْطَقَهُمْ فَتَکَلَّمُوْا، وَأخَذَ عَلَيْهِمُ الْعَهْد وَالْمِيْثَاق مَا هُوَ کَائِنٌ مِنْهُ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ‘‘ [5](مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر)

’’اللہ تعالیٰ نے اُس دن اپنے لئے اُن سب کو اکٹھا کیا جو دنیا میں نسلِ بنی آدم سے قیامت کے دن تک پیدا ہونے والے تھے - پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو روحوں کی شکل میں متشکل فرمایا اور اُنہیں نطق و گویائی کی قُوت عطا فرمائی پس وہ (اللہ تعالیٰ سے) کلام کرنے لگے - اور اللہ تعالیٰ نے اُن سے عہد اور میثاق لیا جو قیامت کے دِن تک باقی رہے گا   ‘‘-

یہاں بھی ایک وضاحت عرض کرتا چلوں کہ عُرفا و صوفیہ کے نزدیک یہ میثاقِ الست خالق اور بندے کے مابین ’’پیمانِ محبت‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے - ا ِس عہد کو وہ ایک غیر معمولی واقعہ سمجھتے ہیں ، نیز ، خالق کی جانب رجوع کرنا اِسی عہد کی تکمیل سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا اپنے محبوبِ حقیقی سے کیا ہوا وعدہ ہے جسے ہم نے بہر طور نبھانا ہے- اِسی طرح اِس واقعہ کو وہ اس بات پہ بھی محمول کرتے ہیں کہ مخلوقات میں سے یہ ہمیں (یعنی انسانوں کو) یہ شرف عطا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے ’’شانِ محبوبی‘‘ کے ساتھ خطاب فرمایا اور پھر ہمارا خطاب سُنا اور ہمیں شرفِ کلام عطا فرمایا -

جس طرح کہ العارف الشیخ الصوفی نجم الدین الکبریٰؒ قرآن پاک کے فرمان ’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ‘‘[6](الاسرأ : ۷۰)

کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ انسان کی تکریم دو (۲) انواع پہ مشتمل ہے تکریمِ جسدانی اور تکریمِ روحانی - تکریمِ روحانی میں فرماتے ہیں کہ یہ انسان کا عظیم شرف ہے کہ :

’’وکلّمہٗ قبل ان خلقہ بقولہٖ (الست بربکم) فأسمعہ خطابہ و اَنطقہٗ بجوابہٖ بقولہٖ (قالوا بلیٰ)‘‘[7] (تفسیر التاویلات النجمیہ، زیر آیت الاسرا:۷۰)

’’اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے قبل اس سے اپنے قول (الست بربکم) کے ذریعے کلام فرمایا- پس اللہ پاک نے انسان کو اپنا خطاب سُنایا اس کے جواب میں انسان سے (قالوا بلیٰ) بُلوایا   ‘‘-

اِسی طرح صُوفیائے کرام کے ہاں ’’مئے الست/شرابِ ازل/مستِ الست‘‘ یا اِس طرح کی دیگر ترکیبات ملتی ہیں وہ اشارہ بھی در اصل اِسی میثاق کی جانب ہوتا ہے - صوفیائے کرام کے نزدیک محبوب کا کلام اُن کی روح کی سماعتوں کو ایک طیّب شراب کی مانند مخمور کرتا ہے کیونکہ وہ اِس کلام کو ’’شرابِ الست‘‘ فرماتے ہیں اور اِسی کے نشے میں مخمور رہتے ہیں کہ محبوب کی آواز ہر دو جہان میں اُن کی سماعتوں میں گونجتی اور اُنہیں مخمور کرتی رہتی ہے اور وہ بروزِ حشر ربِّ اکبر کی بارگاہ میں اس عہد کی تصدیق پیش کریں گے کہ تجھ سے کئے گئے ’’میثاقِ الست‘‘ کی ہم نے پاسداری کی سوائے تیری بندگی، تیری اطاعت اور تیری محبت کے کسی غیر کو اپنے دِل اور ارادے

کے قریب بھی نہیں آنے دِیا - الست ، شرابِ الست ، وعدۂ الست اور ان سے ملتی جُلتی تراکیب کثرت سے صوفیائے کرام کے اقوال و فرمودات میں ملتی ہیں : مثلاً شیخ العشاق حضرت فرید الدین عطار ؒ نے اِس تصوُّر کو بہت ہی مؤثر ، جامع اور بھر پور انداز میں بیان فرمایا ہے :

ما ز خرابات عشق مست الست آمدیم

 

نام بلیٰ چون بریم چون ہمہ مست آمدیم

’’ہم (یعنی ہماری اَرواح) عشق کے مکدہ سے مست الست ہو کر آئے ہیں ، جس وقت ہم نے (بلیٰ ) کہا اس وقت سے سب مست چلے آئے‘‘-

پیش ز ما جان ما خورد شراب الست

 

ما ہمہ زان یک شراب مست الست آمدیم

’’ہم (یعنی ہمارے بدن) سے پہلے ہماری روح نے شراب الست پی، ہم سب اسی ایک شراب سے نشۂ الست میں مست ہو کر آئے‘‘-

ساقی جام الست چون و سقیھم بگفت

 

ما ز پی نیستی عاشق ہست آمدیم

’’ساقی نے جام الست جب پلایا اور کہا (یعنی میثاق کا کلام فرمایا ) ، ہم اس عالمِ غیب سے موجود ہستی (یعنی باری تعالیٰ )  کے عاشق ہو کر آئے‘‘-

خیز و دلا مست شو از مئے قدسی از آنک

 

ما نہ بدین تیره جای بہر نشست آمدیم

’’اے دل (غفلت کی نیند سے ) اُٹھ! اور (میثاقِ الست کی پاسداری کیلئے ) اس پاک شراب سے مست ہو جا، ہم (دُنیا میں ) اس اندھیری جگہ پر بیٹھنے کے لئے نہیں آئے‘‘-

اِسی طرح سیّد عُثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ (المعروف شہباز قلندر) کی ایک فارسی غزل کا شعر ہے :

ہم شاہ و ہم گدایم، ہم وصل و ہم جدائیم

 

در دو جہان دائم مستِ اَلست ہستم

’’ہم بادشاہ بھی ہیں اوریا ر کے  گدا بھی ہیں یار سے ملےبھی ہیں یار سے جدا بھی ہیں، دونوں جہانوں میں ہیں کہ ہم نشۂ الست میں مست ہیں‘‘-

اس سے مُراد یہ ہے کہ جب ہماری رُوح وصلِ یار کو پالیتی ہے تو دُنیا کی کُل سرداریاں اور بادشاہتیں ہمارے قدموں میں پڑی ہوتی ہیں یعنی ہم ’’بادشاہ‘‘ ہوتے ہیں -لیکن جب اُس کی ذات تک رسائی نہیں ہوتی تو روح ایک گداگر کی طرح دربدر اپنے یار کا پتہ پوچھتی پھرتی ہے اور وصل کی خیرات کی طالب ہوتی ہے کہ کہیں سے ’’اُس کا‘‘ نشان مل جائے - پھر فرماتے ہیں کہ ہمارے سفرِ سلوک کی سعی و مجاہدات کے ذریعے اور باطنی  مقامات کے باعث اُس کا وصل اور قرب نصیب ہے لیکن کثافتِ جسدانی ،  ناسوت اور مادیت کے حجابات کے باعث اُس سے دُور بھی ہیں-اگرچہ ہم شاہی میں ہوں یا گدائی میں، وصل میں ہوں یا جدائی میں،عالمِ ارواح ہو، عالمِ دُنیا ہو، عالمِ برزخ ہو  یا عالمِ آخرت ہو ہر جہان میں ہمیشہ ’’دائمی طور پہ‘‘ اُس کے نعرۂ الست میں مست چلے آ رہے ہیں - بالفاظِ دیگر ’’اے میرے مولا! تونے ہمیں جو خطاب فرمایا اور اپنی بر حق ربوبیّت سے متعلق جو محبوبانہ استفسار کیا اُس خطاب کا نشہ ہم نے اُترنے نہیں دِیا ، تجھ سے غافل نہیں ہوئے ، ہماری روحیں تیری ہی جانب متوجہ ہیں ، ہماری ارواح کا قبلہ یعنی سمتِ توجہ تیری ہی ذاتِ پاک ہے ، ہم ہر ایک جہان میں تیری ہی بے نیازی کے نیاز مند ہیں ‘‘ -اِسی مضمون میں حضرت بُو علی شاہ قلندر ؒ نے بھی فرمایا ہے :

گفتی تو الست و زدم آواز بلی من

 

بنگر کہ مرا با تو ز میثاق نیاز است

’’(اے میرے پروردگار !) تو نے ازل کے دن ’’الست بربکم‘‘  فرمایا اورمیں نے ’’بلیٰ‘‘ کہہ کر اقرار کر لیا ، تو دیکھ کہ میرا تیرے ساتھ عہدِ نیاز بندھا ہوا ہے‘‘-

 اِسی طرح سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرہٗ) بھی اپنے ابیات میں فرماتے ہیں :

الستُ بربکم سُنیا دل میرے، نِت قالوا بلیٰ کو کیندی ھُو
قہر پووے تینوں راہزن دُنیا توں تاں حق دا راہ مریندی ھُو

 

حُب وطن دی غالب آئی ہِک پَل سَوَن نہ دیندی ھُو
عاشقاں مول قبول نہ کیتی باھُو توڑے کر کر زاریاں روندی ھُو

یعنی ہمارے دِل کے کانوں میں جب سے ’’الستُ بربکم‘‘ والے عہد و میثاق کی آواز مرشد نے یاد دلائی ہے تب سے ہماری رُوح بیتاب و مضطرب ہو کر رب سبحانہٗ وتعالیٰ کے حضور کئے گئے میثاق ’’قالوا بلیٰ‘‘ کو ہی پکارتی رہتی ہے – ’’الست و بلیٰ‘‘ کے اِس میثاق نے رُوح کو بیدار کیا اور رُوح پہ اُس کے وطنِ اصلی یعنی قُربِ باری تعالیٰ کی محبت اِس قدر غالب ہے کہ اُس نے ہمارے وجودِ ظاہری سے راحت و استراحت کی لذت کو زائل کر دیا ہے - البتّہ یہ راہزن دُنیا قہرِ خداوندی کی مستحق ہے جو ہر وقت ہماری دولتِ باطنی پہ نقب لگانے کی گھات میں رہتی ہے اور طالبانِ مولیٰ کو راہِ مولیٰ سے گمراہ کرتی ہے- آخری مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ’’اے باھُو!‘‘ جن کے دِل میں عشقِ الٰہی رچ بس گیا ہے ، اے باھُو! جنہیں الست کے میثاق کی آواز سماعتوں کے ذریعے محبوبِ حقیقی کی محبت میں مخمور کرتی رہے  اُن کو کیا غم ، کیا حزن و خوف ، یہ ذلیل محبتِ دُنیا اُن کے پیچھے کتنی زاریاں کیوں نہ کرتی پھرے ، اُن کے کتنے ’’ترلے‘‘ ہی کیوں نہ لیتی پھرے مگر وہ اِسے قبول نہیں کرتے ، بلکہ ہر وقت عہدِ الست کو پورا کرنے پہ متوجہ رہتے ہیں -                                                                                                                  (---جاری ہے---)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر