یہ مسائل تصوف (قسط سوم)

یہ مسائل تصوف (قسط سوم)

(گذشتہ سے پیوستہ)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِسی دُنیا میں مادی تقاضوں کو پورا رکھتے ہوئے یہ طے کرنا کیسے ممکن ہے؟ اوّل تو یہ کہ آدمی کو ہر ایک بات میں اعتدال پیدا کرنا پڑتا ہے ،سوائے اللہ تعالیٰ اور اُس کے حبیب( ﷺ) کی محبت کے  کسی بھی چیز میں شِدّت کوئی مَثبت یا اچھی چیز نہیں ہے -  دوسرا یہ کہ اِس کے لئے اپنی ترجیحات کو اوّلاً پرکھنا اور ثانیاً بدلنا پڑتا ہے تاکہ رُوح و مادہ میں اشتراکِ کار کی صلاحیّت و اہلیت کو پیدا کیا جا سکے - چونکہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ رُوح اور مادہ کی فطرت میں تضاد ہے اور ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی یعنی دو متضاد چیزوں کو کیسے باہم یکجا کیا جا سکتا ہے؟ تو مُرشدِ کامل کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ وہ اِ س معمّے کو حل کرتا ہے اور تربیّتِ باطنی کے ذریعے رُوح کے خواص کو طالب کے وُجود میں بیدار کرتا ہے اور مادی وُجود کی حیوانی جبلّتوں کی لگام رُوح اپنے ہاتھ میں تھام لیتی ہے اور انسان اپنی طبعِ کثیف کی بجائے طبعِ لطیف سے معاملات سر انجام دیتا ہے- اِس لئے کہ شیطان کثافت پہ غالب آتا ہے لطافت پہ نہیں ، اِس لئے وہ کثافت کو ہر اُس چیزمیں لذت دکھاتا ہے جو لطافت کے خلاف ہوتی ہے اور نتیجتاً انسان تمام عُمر لطافت کی جانب راغب ہی نہیں ہوتا-  بلکہ وُجود کی کثافت رُوح کی لطافت کے سامنے ایک باغی کے طور پہ کھڑی ہوجاتی ہے اور مزاحمت کرتی ہے اور انسان کو وقتی طور پہ یہ ترغیب دیتی ہے کہ لطافت کچھ نہیں محض فریبِ نظر، دھوکہ یا وہم ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں صرف وہ ہی اصل ہے جو دِکھتا ہے یا جس کی لذت اور ذائقہ کو جسم محسوس کرتا ہے وہی درست ،صحیح اور اصل ہے -  مگر مُرشدِ کامل طالب کے وُجود میں سب سے پہلے مادی شدّت کو اعتدال پہ لاتا ہے ،اخلاقیات کو اُس کے وُجود کا لازمی جُز بناتا ہے جس سے حرص و ہوس اور طمع و لالچ انسان کے وُجود سے زائل ہو جاتے ہیں-اگر مکمل طور پہ زائل نہ بھی ہوں تو اُن کی وہ شدت نہیں رہتی کہ کسی کو گزند اور تکلیف پہنچا کر بھی انسان اُس خواہش کی تکمیل کو لازمی سمجھے جیسا کہ ہمیشہ جنگ و جدال اور خونریزیوں میں ہوتا آیا ہے -  دُنیا کہ کثیر جنگوں کی بُنیاد دو باتیں بنی ہیں:

v      انسان کی اَنا اور ضد

v      لالچ اور ہوس-  

اِس لئے مُرشدِ کامل اُس کی فطرت میں سلامتی اور اعتدال کی راہ ہموار کرتا ہے تاکہ وہ نہ تو خونخوار رہے اور نہ ہی راہب ہو جائے ، یوں کہیے کہ جسد کی جبلّتوں کو چھوڑ نہیں دیا جاتا بلکہ اُن کی تطہیر کی جاتی ہے،لہٰذا تطہیرِ جسدانی کا سوائے اِس کے کوئی راستہ نہیں کہ کثافت و لطافت میں ہم آہنگی پیدا کی جائے اور رُوح کی فطرت کو جسد/ جسم کی فطرت پہ غالب کیا جائے ’’تَن‘‘ کو ’’مَن‘‘ کے تابع کیا جائے اور ’’مَن‘‘ کو ’’تَن‘‘پہ غالب کیا جائے -  جس طرح ایک عالِم بندے کو اعمالِ ظاہر سکھاتا ہے اور بندہ اُن کی بجا آوری سے نمازی ، حاجی اور عابد و زاہد بن جاتا ہے اِسی طرح مُرشد کامل اعمالِ باطن سکھاتا ہے جن سے آدمی کے وُجود میں محبتِ الٰہی جوش پکڑتی ہے اور بارگاہِ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ میں گہری رغبت اختیار کر لیتا ہے -  

(3)مُرشدِ کامل کی ذمہ داری کیا ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے مُرشدِ کامل کی ایک ذِمّہ داری لگائی ہے کہ وہ لوگوں کو حق کی جانب راغب رکھّے اور اُس کے مختلف طریقے ارشاد فرمائے کہ کیسے کیسے اُنہیں راغب،قائل اور مائل کیاجائے - اِس کے لئے ہم جب قرآن پاک میں جھانکتے ہیں تو کئی اَحکامات ہمیں نظر آتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کیسے مخلوق کو خالق کی جانب بُلانا ہے ، یہ چونکہ مَحبّت کی راہ ہے اِس میں ابتدا ءتو شفقت اور حیلے بہانے سے ہوتی ہے مگر آدمی جب اس راہ میں کُہنہ مشق ہو جاتا ہے تو پھر حیلے کی بجائے امتحان آجاتا ہے - بقول حضرت علامہ اقبال(﷫):

گاہ بہ حیلہ می بُرَد، گاہ بہ زور می کَشَد
عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب[1]

یعنی پہلے پہل عشق حیلہ سے لیکر جاتا ہے یہ اُس کی ابتدا ءہے لیکن بعد ازاں زور سے لیکر جاتا ہے یہ عشق کی انتہا ہے ، ابتدا بھی عجب ہے اور انتہا بھی عجب ہے- جسے حافظ شیرازی (﷫) نے یوں بھی فرمایا ہے کہ (عشق آساں نمود اَوّل وَلے افتاد مشکل ہا) کہ پہلے پہل تو عشق میں بڑی آسانیاں معلوم ہوئیں لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے مشکلات بڑھتی گئیں -ایک دوسرے مقام پہ حافظ شیرازی صاحب نے اِسی تصور کو  یوں فرمایا ہے :

تحصیلِ عشق و رِندی آساں نمود اَوّل
آخر بسوخت جانم در کسبِ ایں فضائل

عاشق بننا اور میخانۂ عشق کا رِند بننا ابتدا ءمیں تو بہت آسان محسوس ہوا لیکن اس کی انتہا تک جانے نے ہماری جان جلا دی - راہِ عشق کی ابتدا ءآسان اور انتہا ء مشکل ہے مگر اُس مشکل کے اندر ہی تو آسانی کو چھپایا گیا ہے جو عشق کی اس مشکل رمز تک پہنچ جاتا ہے اُس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا وہ راہِ استقامت پہ کار بند ہوجاتا ہے،اُس کی کثافت اور جسدانی و حیوانی جبلّتیں اُس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتیں-یہی وہ مقام ہے جہاں صدق و صفا اُس کے وُجود کا جُزوِ لازم بن جاتے ہیں اور گمراہی کے اسباب کو وہ مسدود کر دیتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

  ’’اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰانٌ‘‘[2]

’’بے شک میرے بندوں پر تیرا (یعنی شیطان کا)کوئی قابو نہیں‘‘

اللہ تعالیٰ نے اُن کی ضمانت عطا کر رکھی ہے کہ میرے بندوں پہ شیطان کا تسلط قائم نہیں ہو سکتا-بالفاظِ دیگر ،قرآن پاک کی اصطلاحات کے مطابق اُس کا ’’بُرا نفس‘‘ نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں شامل ہو جاتا ہے -

مُرشدِ کامل کی کیا ڈیوٹی ہے کہ وہ مخلوق کو کیسے اپنے رب کی جانب لیکر چلے؟ اور کیسے عام گناہگار بندوں کو اُس معبودِ حقیقی کے خاص بندوں میں شامل کرے ؟ اِس پہ سورۃ ابراہیم سے ایک آیت مبارکہ پیش کروں گا اور پہلے اُس کا وہ معنیٰ جو بتقاضائے تاریخ اور بنظرِ ظاہر کیا گیا ہے یعنی ابتدائی منزل ، وہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کروں گا-اُس کے بعد اُس کا جو باطنی مفہوم اور اُس کے جو باطنی اسرار و رموز مفسرین کرام نے بیان کئے ہیں اُن کی وضاحت عرض ہو گی -

سیّدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اے موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو میرے دن یاد کراؤ- فرمایا:

’’و َذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰامِ اللہ‘‘[3]

’’اور ان کو (اپنی بارگاہ میں آنے والے ان امتیوں کو)اللہ کے ایّام یاد دِلاؤ‘‘-

v     ’’ایام اللہ ‘‘کی تفسیرِ ظاہری:

اِس کا جو ظاہری مفہوم علمائے تفسیر نے بیان کیا ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض قوموں کو اپنی کثیر نعمتیں عطا فرمائیں اُن پہ عنایات و اکرام و انعامات تسلسل سے نازل فرمائے اور اُنہیں آفات سے محفوظ فرمایا اُن کی توبہ قبول فرمائی انہیں بلند مراتب عطا فرمائے -حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حُکم ہوا کہ اپنی قوم کو وہ نعمتیں اور عنائتیں یاد کروائیے-قرآن نے نعمتوں کی فراوانی کے اُن دِنوں کو  ’’ایام اللہ‘‘ فرمایا ہے - اِس سے یہ بھی مُراد لیا گیا ہے کہ وہ قومیں جنہوں نے نا فرمانیاں کیں،انبیائے کرام کو جھٹلایا ، اُنہیں ایذا پہنچائی، حتیٰ کہ کثیر تعداد میں انبیا ءشہید کئے گئے ، آسمانی صحیفوں کو جھٹلایا گیا اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اُن پہ اپنے فضل و کرم کی جو نشانیاں ظاہر فرمائیں ان سے کفر کیا گیا اور اُن کی ناقدری کی گئی ، جس باعث اُن اُمّتوں پہ عتاب و عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے اعمال بلکہ بد اعمالیوں پہ گرفت فرمائی اُنہیں بھی  ’’ایّام اللہ‘‘ کہا گیا ہے - گویا نعمت کو یاد کرنے سے بھی آدمی کا تعلق باللہ مضبوط ہوتا ہے اور عذاب کو یاد کرنے سے بھی تعلق باللہ مضبوط ہوتا ہے ، نعمت کو یاد کرکے دِل میں شکر پختہ ہوتا ہے اور عذاب کو یاد کر کے دِل میں نرمی، خوف اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے - اِس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ لوگوں کو ’’ایامِ الٰہی‘‘ یاد کروائے جائیں -

اَب اِس کی مزید تفہیم کے لئے حضراتِ مفسرین (﷭) کی آراء پیش کرتا ہوں تاکہ اِس فرمان کی مزید حکمتیں ہم پہ عیّاں ہو جائیں اور اُنہیں محض قصّۂ ماضی کے طور پہ پڑھنے کی بجائے حال میں منطبق کرنے کی سعی کریں گے تاکہ ہم خود کو قرآن کے قریب کر سکیں اور اُس کے احکامات کو اپنے اوپر نافذ اور لاگو کر سکیں - اِن روایات کے بیان کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ اِنسان اپنی اِصلاح کا سامان پیدا کر سکے اور خود کو اِس ترازو میں تول سکے کہ میں کہاں کھڑا ہوں یا یوں بھی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں -   

ابو اللیث نصر بن محمد ابراہیم السمرقندی(﷫)(متوفیٰ: 373ھ) نے ’’تفسیر بحر العلوم‘‘میں نقل کیا کہ حضرت قتادہ (﷜) روایت فرماتے ہیں:

’’رُوِیَ فِی الْخَبْرِ: اِنَّ  اللہ تَعَالیٰ اَوْحٰی اِلٰی مُوْسیٰ اَنْ حَبِّبْنِیْ اِلٰی عِبَادِیْ‘‘[4]

’’ روایت کیا گیا ہے  اللہ پاک نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ میری محبت میرے بندوں  کے دلوں میں ڈال دو‘‘-

قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اُحَبِّبُکَ اِلٰی عِبَادِکَ وَ الْقُلُوْبُ بِیَدِکَ

’’حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے عرض کیا، الہٰی !تیرے بندوں کے (دلوں میں ) تیری محبت کیسے پیدا کروں؟  لوگوں کے دل تیرے قبضہ قدرت میں ہیں‘‘-

’’فَاَوْحَی اللہُ اِلَیْہِ اَنَّ ذَکِّرْھُمْ نِعْمَائِیْ‘‘

’’پس اللہ پاک نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ ان کو میری نعمتوں کی یاد دلائیے‘‘-

اِس روایت سے دو تین بڑی خوبصورت اور باریک باتوں کا پتہ چلتا ہے - ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام(﷩) سے یہ فریضہ سر انجام دلوایا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں مالکِ کائنات کی محبت پیدا کرتے تھے ، گویا آج اگر کوئی شخص نبوّت کے اعلیٰ اخلاق کا مُتخلّق بننا چاہے تو اُسے چاہئے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرے – دوسرا،اِس سے مُرشد کا فریضہ معلوم ہوتا ہے کہ مُرشد کا کام مخلوق کے دِلوں میں خالق کی محبت پیدا کرنا ہے-تیسری یہ بات کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرض کرتے ہیں اے پروردگار! دِلوں پہ تو تیری قُدرت قادر ہے مَیں کسی کا دِل کیسے بدلوں ؟ فرمایا اُنہیں میری نعمتیں یاد دلائیں ، اِس لئے کہ عطا کرنے والے کی جانب فطری طور پہ کشش بڑھ جاتی ہے- اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا اور اُن پہ شکر کرنا قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے -

اِسی طرح مفسرین نے عذاب سے ڈرائے جانا بھی مُراد لیا ہے ، اور اکثر نے دونوں مُراد لئے ہیں - جیسا کہ  ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی (﷫)(متوفیٰ:710ھ)اپنی تفسیر نسفی (مدارک التنزیل و حقائق التاویل)میں لکھتےہیں :

’’وَ اَنْذِرْھُمْ بِوَقَائِعِہ ِالَّتِیْ وَقَعَتْ عَلَی الْاُمَمِ قَبْلِھِمْ، قَوْمِ نُوْحٍ، وَعَادٍ، وَ ثَمُودٍ،وَ مِنْہُ:اَیَّامُ الْعَرْبِ لِحَرْبِھَا، وَمَلاَحِمِھَا ،اَوْ:بِاَیَّامِ الْاَنْعَامِ، حَیْثُ ظَلَّلَ عَلَیْھِمُ الْغَمَامَ، وَ اَنْزَلَ عَلَیْھِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی، وَ فَلَقَ لَھُمُ الْبَحَرَ‘‘-[5]

’’ان کو اللہ تعالیٰ کے دن یا ددلائیے اور ان کوان مصائب و آلام اور ان حوادثات سے ڈرائیے اور جوان سے پہلی امتوں پرپیش آچکے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اور قوم عاد اور قوم ثمود و غیرہ اور انہی میں سے عرب کے وہ دن ہیں جن میں قتل و غارت اور جنگیں اور لڑائیاں ہوتی رہیں یا پھر انعام و اکرام کے دن مراد ہیں-جیسے بنی اسرائیل پر بادلوں کا سایہ کرنا اور ان پر من و سلوٰی کا اترنا اور ان کے لئے دریا کو چیر کرراستے بنانا‘‘-

یعنی ان کو مصائب و آلام یاد کروائے جائیں جو کہ ان سے قبل قوم عاد، قوم ثمود اور قوم نوح علیہ السلام  پر  جو عذاب گزرے ہیں-اللہ کی بے نیازی اور  صمدیّت ان لوگوں کو یاد دلائی جائے تاکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت پیدا ہو- بنی اسرائیل پر اللہ نے جو من و سلویٰ کے،بادلوں کے انعام کئے اور دیگر جو کچھ انہوں نے بارگاہِ الٰہی سے طلب کیا وہ انہیں عطا ہوتا گیا-اس لئے مرشد کامل کی بھی یہی ڈیوٹی ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کے دلوں میں اللہ کے خوف، محبت، نعمتوں اور جمال و جلال کی گفتگو سے اللہ کی محبت کو پیدا فرماتا ہے -

الامام العلامۃ ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن وہب(﷫)(متوفّی:308ھ) اپنی تفسیر،’’الواضح فی تفسیر القرآن الکریم‘‘میں لکھتے ہیں :

’’(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ)بِاَیّامِ عَذَابِ اللہِ ، وَ یُقَالُ بِاَیَّامِ رَحْمَۃِ اللہِ‘‘[6]

’’یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ایام کی (یاد دلائیں )اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ایام کی (یاد دلائیں)‘‘-

اِسی طرح قاضی ابو محمد عبد الحق ابن غالب ابن عطیہ الاندلسی (﷫)متوفّی(546ھ)اپنی تفسیر ’’المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز‘‘ میں لکھتے ہیں:

(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) اَیَّامُ اللہ: نِعَمِہٖ وَ عَنْ فِرْقَۃٍ اَنَّھَا قَالَتْ:(اَیَّامُ اللہ ِ)نِقَمِہٖ [7]

’’یعنی ایام اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دن ہیں اور ایک گروہ سے منقول ہے کہ اس کی سزاکے دن ہیں‘‘-

امام ابو عبد اللہ  محمد بن احمد بن ابو بکر القرطبی(﷫)(متوفّی:671ھ)، اپنی تفسیر’’الجامع لا حکام القرآن‘‘المعروف بہ تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں:

(وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ)

’’عَنْ اُبَیِ بِنْ کَعْبٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ یَقُوْلُ:بَیْنَا مُوْسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ قَوْمِہٖ یُذَکِّرُ ھُمْ بِاَ یَّامِ اللہِ، وَ اَیَّامُ اللہِ بَلَاؤُہٗ وَ نِعَمَاؤُہٗ‘‘-[8]

’’ حضر ت اُبی بن کعب (﷜)سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہ (ﷺ)سے سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں اللہ  تعالیٰ کے ایام کا ذکر فرماتے تھے-اللہ تعالیٰ کے ایام سے مراد اس کی آزمائشیں اور اس کی نعمتیں ہیں -

ابو بکر محمد بن احمد بن ابراہیم الثعلبی(﷫)(متوفّی:427ھ) اپنی تفسیر’’ الکشف و البیان فی تفسیر القرآن‘‘المعروف بہ تفسیر ثعلبی میں لکھتے ہیں :

’’قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَ اُبَّیْ بِنْ کَعْبٍ وَّ مُجَاہِدٌ وَ قَتَادَۃُ:بِنِعَمِ اللہِ-قَالَ مَقَاتِلُ: بِوَ قَائِعِ اللہِ فِی الْاُمَمِ السَّالِفَۃ ِوَ مَا کَانَ فِیْ اَیَّامِ اللہِ الْخَالِیَّۃِ مِنَ النِّعْمَۃِ وَ الْمِحْنَۃِ فَاجْتَزَا بِذِکْرِ الْایَّامِ عَنْہُ، لِاَنَّھَا کَانَتْ مَعْلُوْمَۃٌ عِنْدَ ھُمْ‘‘-[9]

’’حضرت ابن عباس ،حضرت اُبی بن کعب ،حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ (﷢)نے فرمایا کہ (ایام اللہ سے مراد ) اللہ پاک  کی نعمتیں ہیں-حضرت مقاتل نے فرمایا ہے کہ (ایام اللہ سے مراد ) پہلی قوموں پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے امتحانات ہیں اور اللہ پاک کے وہ دن جو عذاب اور مشقت سے خالی ہیں-اللہ پاک نے ان کے تذکرہ  سے اعراض فرمایا کیونکہ وہ ان کے ہاں معلوم تھے‘‘-

ابو جعفر محمد بن جریر الطبری(﷫)متوفّی(310ھ)تفسیر الطبری المسمی:’’جامع البیان فی تاویل القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’عَنْ مُجاَہِدٍ: (وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) قَالَ: بِالنِّعَمِ الَّتِیْ اَنْعَمَ بِھَا عَلَیْھِمْ، اَنْجَاھُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ وَ خَلَقَ لَھُمُ الْبَحَرَ، وَظَلَّلَ عَلَیْہِمُ الْغَمَامَ، وَاَنْزَلَ عَلَیْہِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی‘‘-

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ فِیْ قُوْلِ اللہِ: (وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) قَالَ:اَیَّامُہُ الَّتِیْ اِنْتَقَمَ فِیْھَا مِنْ اَھْلِ مَعَاصِیْہِ مِنَ الْاُمَمِ، خَوَّفَھُمْ بِھَا وَ حَذَّرَھُمْ  اِیَّاھَا، وَ ذَکِّرْھُمْ اَنْ یَصِیْبَھُمْ مَا اَصَابَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ-[10]

’’مجاہد بیان فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن سے اللہ پاک نے ان  کونوازا ہے، اللہ پاک نے ان کو فرعونیت سے نجات دی اور ان کے لئے سمندر (سے راستے کو)  پیدا فرمایا اور ان کے اوپر بادلوں کا سایہ فرمایا اور ان کے اوپر من و سلویٰ نازل فرمایا-

ابن زید نے کہا کہ اللہ تعالیٰ  کے اس قول  (وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) سے مراد وہ ایام ہیں جس میں اللہ پاک قوموں کےسرکشوں سے  انتقام لیا ہےاور اس کے ذریعہ ان کو خوف دلایا ہے اور ان کو خبردارکیا ہےاور ان کو یاد دلائیے کہ جو اس سے پہلے لوگوں پر (عذاب)آیا، ان پر بھی آ سکتا ہے‘‘-

امام ابی منصورمحمد بن محمد بن محمود الماتریدی(﷫)متوفّی(333ھ) اپنی تفسیر :’’تاویلات اھل السنۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں:

قولہ تعالیٰ عزوجل(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) قَالَ قَتَادَۃُ:اَمَرَہُ اَنْ یُّذَکِّرَھُمْ بِنِعَمِ اللہِ الَّتِیْ اَنْعَمَھَا عَلَیْہِمْ، فَاِنَّ اللہَ عَلَیْکُمْ اَیَّاماً مِنَ النِّعَمِ، کَاَیَّامِ الْقَوْمِ ، کَمْ مِنْ خَیْرٍ قَدْ اَعْطَاہُ اللہُ تَعَالیٰ لَکُمْ وَکَمْ مِنْ سُوْءٍ قَدْ صَرَفَہُ اللہُ تَعَالیٰ عَنْکُمْ، وَ کَمْ مِنْ کَرْبٍ نَفَسَہُ اللہُ تعالیٰ عَنْکُمْ  وَ کَمْ مِنْ غَمٍّ فَرَّجَہُ اللہُ تَعَالیٰ عَنْکُمْ

’’حضرت قتادہ (﷜)نے کہا ہے اللہ پاک نے حکم فرمایا ہے کہ ان کو اللہ پاک کی وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ پاک نے ان پر فرمائیں پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر  نعمتوں کے ایام بھی تھے جس طرح قوم کے دن تھے -کتنی ہی بھلائیاں ہیں جو اللہ پاک نے تم کو عطا فرمائیں ہیں اور کتنی ہی برائیاں ہیں جو اللہ پاک نے تم سے دور فرمائیں ہیں اور کتنے غم ہیں جن سے اللہ پاک نے تم کو نجات بخشی اور کتنے دکھ ہیں جن سے اللہ پاک نے تم کو چھٹکارا عطا فرمایا–

(پس اے میرے اللہ !تیرا شکر ہے ،اے میرےاللہ !تیرا شکر ہے) ‘‘-

وَ قَالَ قَائِلُوْنَ: اَیَّامُ اللہُ: وَقَائِعُہُ:اَیْ:ذَکِّرْھُمْ بِوَ قَائعِ اللہ فِی الْاُمَمِ السَّالِفَۃِ کَیْفَ اَھْلَکَھُمْ ْلِمَا کَذَّبُوْالرُّسُلَ-

’’اور کہنے والوں نے کہا ہے کہ ایام اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی آزمائشیں ہیں یعنی ان کو پہلی امتوں پر اللہ پاک نے جو امتحانات نازل فرمائے ان کی یاد دلائیں کہ کیسے اللہ پاک نے ان کو ہلاک کیا جب انہوں نے  رسل (﷩)کو  جھٹلایا –

’’ھَذَا یَحْتَمِلُ:اَنْ یُّذَکِّرَھُمْ بِنِعَمِ اللہِ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَی الْمَصَدِّقِیْنَ بِتَصْدِیْقِھِمْ،وَ ھُوَ مَا اَنْجَی الْمُصَدِّقِیْنَ مِنَ التَّعْذِیْبِ وَالْاِھْلَاکِ، اِھْلاَکِ تَعْذِیْبٍ اَوْ ذَکِّرِ الْمُکَذِّبِیْنَ مِنْھُمْ بَالْوَقَائِعِ الَّتِیْ کَانَتْ عَلٰی اُوْلَئِکَ بِالتَّکْذِیْبِ وَھُوَ الْاِھْلَاکُ‘‘-[11]

’’یہ احتمال بھی ہے کہ ان کو اللہ پاک کی وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ پاک نے اپنے صادقین پر ان کی تصدیق کی وجہ سے نازل فرمائیں اور اللہ پاک نے صادقین کو عذاب سے نجات عطا فرمائی اور ہلاکت سے نجات عطا فرمائی اور ان مکذبین کے بارے میں بتائیں جن پر ان کے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب یعنی ہلاکتیں آئیں-

اِس سے پہلے کہ ہم اِس کی تشریحِ رُوحانی کی جانب بڑھیں یہاں ہمیں ایک نظر اپنے آپ پہ ڈال لینی چاہیے کہ جس طرح سابقہ اُمتوں پہ عنایات و انعامات ہوئے اُسی طرح ہم پہ بھی ہوئے - جس طرح سابقہ اُمتوں پہ عذاب آئے اُسی طرح ہم پہ بھی آئے گو کہ حالت و کیفیت میں تھوڑا فرق ہے - اِس لئے بتقاضائے ظاہر بھی ہم پہ یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان ایام کو یاد کریں- بطور مسلمان قوم ،  ہمارے لئے کون سے دِن انعامات کے دِن ہیں ؟ اور کون سے دِن گرفت اور عذاب کے دِن ہیں ؟

ویسے تو اِن پہ بہت طبع آزمائی ہو چکی ہے مگر محض یاد آوری کے لئے عرض کرتا چلوں -

v     نعمتوں کے دِن:

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ پاک شہِ لولاک (ﷺ) کو عظیم ترین نعمت فرمایا ہے ، اُن کی ذاتِ والا صفات سے بڑھ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ بنی نوعِ انسان کے لئے کوئی رحمت نہیں اُتاری گئی سب سے عظیم نعمت بلا شک و شُبہ انہی کی ذاتِ اقدس ہے - اُن کے وسیلہ جلیلہ سے ہمیں نعمتِ قرآن عطا ہوئی ، اُن کے تصدق ہمیں دولتِ ایمان نصیب ہوئی اور اِس کائنات کو امن و امان کا عظیم ترین آئین عطا ہوا - طریقِ الہامی کے مطابق اپنے مادی اجساد و اجسام کو ڈھال دینے کے لئے اور اپنی کثیف جبلّتوں کی لگام رُوح کی لطافت کو تھما دینے کے لئے آقا علیہ السلام کی سُنتِ مُبارکہ عطا ہوئی - قرآن و سُنت کو سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کے لئے اُن کی آل و عترت (﷩) اور اَصحاب (﷢) کا طریقِ عمل عطا ہوا - دین مُبین کو عظیم ترین فتوحات عطا ہوئیں اور مسلمان دُنیا کی معزز ترین قوم ٹھہرے اِس عالَم میں بھی کہ اسباب اور وسائل کی شدید قلت تھی ، کئی آندھیاں اور طوفان اٹھے جبکہ مسلمان دُنیاوی اعتبار سے ابھی قوت و شوکت کے مالک نہ ہوئے تھے مگر آندھیاں اور طوفان اِن کا وُجود نہ مٹا سکے-شرق و غرب اِن کے زیرِ نگیں رہے دُنیا کی عظیم ترین سلطنتیں انہیں عطا کی گئیں بے حد و بے حساب خزانوں کے دروازے ان پہ کھول دیئے گئے - اللہ تعالیٰ نے شان و شوکت سے مسجد الحرام کعبۃ اللہ کو مسلمانوں کے سپرد فرمایا ، قبلہ اوّل مسجدِ اقصیٰ بھی سیّدنا فاروقِ اعظم (﷜) کے زمانہ میں مسلمانوں کو عطا ہوا ، کچھ عرصہ بعد صلیبی شدّت پسندوں نے چھین لیا لیکن سُلطان صلاح الدین ایوبی ایک نعمت بن کے آئے اور یہ نعمتِ عظیم مسلمانوں کو واپس دِلوائی - علوم و فنون کی کنجیاں انہیں عطا کر دی گئیں اور ایک سے بڑھ کر ایک صاحبِ علم و فن مسلمانوں میں پیدا ہوا اور دُنیا پہ تہذیب و تمدن کے نئے دریچے کھلے - ایک ایک امامِ اجتہاد سے نعمتوں اور سہولتوں کے ہزاروں دروازے کھلے ، فقہائے اِسلام کے ذریعے انسانیت کو ایسے ایسے قوانین عطا ہوئے جنہوں نے انسانی زندگی کے تاریک پہلؤں کو روشن کر دیا - ایک ایک نعمت کا شمار مشکل نہیں ناممکن ہے ، اگر محض حدیثِ پاک کے علم کے فیض کو ہی دیکھ لیا جائے تو صرف اِس ایک مقصد کے لئے مسلمان والدین نے ایسے ایسے اہلِ صدق و دیانت فرزندوں کی پرورش کی کہ صدیاں اُن کی صداقت پہ گواہی دیتی ہیں کہ اپنے پیارے رسول (ﷺ) کی حدیث کی حفاظت کے لئے انہوں نے اپنی زبان کو منبعِ صداقت و سچائی بنا لیا - ریاضی فلکیات طب اور دیگر سائنسی علوم کے ارتقا نے انسان کی زیست کو اور آسان بنا دیا -

اگر اسلامی اخوت و بھائی چارے کو دیکھا جائے تو یہ بھی عظیم ترین نعمت ہے کہ دُنیا کی کئی اقوام جو ہمیشہ ایک دوسرے سے متحارب رہیں مگر دولتِ اسلام نے اُنہیں ایک ایسی اخوت کے رشتے میں پرو دیا کہ اُن کے بُعد ، دوریاں ، اجنبیتیں اور بے گانگیاں مٹ گئیں ، وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے اور رشتۂ محبت و اُلفت میں پروئے گئے جِسے سورہ آل عمران میں قرآن پاک بیان فرماتا ہے :

وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُمْ مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ[12]

’’اپنے اوپر کی گئی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو ، جب تم ایک دوسرے کے دُشمن تھے تو اُس نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت کو ڈال دیا اور اُس کی نعمت سے تم (آپس میں) بھائی بھائی بن گئے - (وگرنہ تو تم) آگ کے گڑھے پہ پہنچ چکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے (اپنی نعمتوں کے ذریعے) تمہیں اس سے بچا لیا ، اِس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات تمہیں کھول کھول کر سُناتا ہے تاکہ تُم ہدایت پا جاؤ‘‘-

جیتے جی دلیری اور بہادری کی ضرب المثل بن کے رہے اگر موت آ پہنچی تو شہادت کی نعمتِ عُظمیٰ سے نوازا - اگر صرف نعمتِ شہادت ہی کو دیکھ لیا جائے تو اِسی  کا نعم البدل نہیں مِلتا - راہِ خُدا میں لڑتے ہوئے موت آئےتو شہادت ، علم کی طلب میں موت آئے تو شہادت ، حج کے راستے میں ، مسجد کے راستے میں تبلیغِ دین کے راستے میں، رضائے الٰہی کی خاطر کسی بھی نیکی کے کام کے دوران موت آئے تو شہادت کا رُتبہ دِیا حتیٰ کہ عورت اگر بچے کو جنم دیتے ہوئے فوت ہو جائے تو بھی شہادت کا رُتبہ عطا کیا - گویا اللہ تعالیٰ نے ایسی حکمت عطا کی کہ مسلمان کی زندگی بھی نعمت بن گئی اور موت بھی نعمت سے سرفراز ہوئی -

از رُوئے قرآن ہم پہ یہ لازم ہے کہ اِن ’’ایام اللہ ‘‘ کو یاد کیا جائے جو اُس کی نعمتوں سے منسوب ہیں تاکہ ہمارے وُجود میں شکر پیدا ہو اور ہم اُس کے شکر گزار بندے بن جائیں -

v     سختی کے دِن :

سختی کے دِن بھی اِس اُمت پہ گزرے ہیں اور آج بھی جن کیفیات سے ہم گزر رہے ہیں یہ عذاب کے دِن ہیں جو ہمارے اجتماعی اعمال کی وجہ سے ہم پہ مُسلط ہے - اس پہلے جو نعمتوں کے دِن ناچیز نے عرض کئے ہیں اُنہی کو شمار کر لیں کہ ’’وہ رونقیں کہاں وہ حکومت کدھر گئی‘‘؟ کائنات پہ عطا ہونے والی عظیم ترین نعمت کی نسبت و محبت ہمارے دلوں سے جاتی رہی ، وہ بارگاہِ ناز کہ جس کی رضا بالفاظِ قرآن رضائے الٰہی ہے ، جن کی رضا کے لئے اللہ تعالیٰ نے عظیم عطا کا وعدہ فرما رکھا ہے ، جن کی رضا کے لئے قبلہ اقصیٰ سے کعبہ کو بنایا جاتا ہے (فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا) جِن کی بارگاہِ اقدس میں محض آواز کے اونچا اور بے ادبانہ ہونے سے الفاظِ وحی کے مطابق اعمال برباد کر دیئے جائیں گے، اُس بارگاہ کا ادب و احترام اور ان کی تقدیس و تعظیم مسلمانوں کے دلوں سے جاتی رہی - ہدایت و نور کی عظیم کتاب جو غارِ حرا سے اُتر کر قوم کی جانب لائے اُس سے مسلمانوں نے عملی رشتہ منقطع کر لیا اور آقا علیہ السلام کا طریقِ عمل جن ہستیوں کی اقتداء  و متابعت سے نصیب ہوتا رہا اُن پہ ہم نے ایک دوسرے کا خون کرنے کے لئے فرقے بلکہ فرقیاں بنا لیں (اے گرفتارِ ابو بکر و علی ہشیار باش) - خلافتیں چھِن گئیں ،سلطنتیں لُٹ گئیں ، دمشق و بغداد ، قرطبہ و غرناطہ ، دہلی ، سمر قند و بخارا اور کیا کیا یادگاریں ہم کھو بیٹھے بقول علامہ اقبال (﷫)کے الفاظ میں :

شوکتِ شام و فرِ بغداد رفت

 

سطوتِ غرناطہ ہم از یاد رفت[13]

ماضی قریب کے اَدوار میں دیکھیں تو  پوری اسلامی دُنیا پنجۂ نو آبادیات کا شکار ہو گئی - قرآن پاک نے جو بادشاہوں کا رویہ بیان کیا ہے کہ:

’’إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً[14]‘‘

 ’’جب بادشاہ دوسری بستیوں میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے  ہیں ‘‘ -

یہی کچھ ہوا مسلمانوں کے ساتھ، بصد معذرت وہ لوگ جو خان بہادر اور اِس طرح کے کئی دیگر تمغے اپنے سینوں پہ سجائے پھرتے تھے وہ تمغے اُنہیں کس قوم کی خدمت کے صِلے میں مِلے؟ اللہ و رسول کی وفاداری کو تو ہمارے مغرب غلام طبقے نے ویسے ہی طعنہ بنا دیا ہے ، کسی ملک و قوم کا ہی بتا دیں کہ یہ اعزازات اور تمغے کیوں اور کن کی وفاداری میں  ملتے رہے ؟ جاگیریں اور نوابیاں کن سے وفاداری کے عِوَض ملیں ؟ اور ہاں!  کن لوگوں کو یہاں اہلِ ذِلت بنایا گیا؟ وہ جو انگریز کو غاصب قوت سمجھتے تھے ، اُس کے قبضے اور تسلط کے خلاف برسرِ پیکار رہے ، غُلامی کے خلاف سراپا حریت بنے ، اُن اَن گنت گمنام سپاہیوں کے خاندان بھی گم کر دیئے گئے ، اُن کے متعلق لطیفے اور مغلظات مشہور کئے گئے تاکہ اُن کی ہیبت اور جلال کومسلمانوں کے دلوں سے نکال دیا جائے - ہم اپنی بد اعمالیوں اور نالائقیوں کے سبب قبلہ اوّل مسجدِ اقصیٰ شریف کی نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھے  - اِشتراکی رُوس کے تسلط میں آنے والے علاقوں میں سینکڑوں ملین مسلمان بے دردی سے شہید کئے گئے - اگر آج مسلمانوں کی دولت اہلِ دیانت کے ہاتھ میں ہوتی تو ہر ہر مُلک میں مسلمانوں کی ہونے والی ’’نسل کشی‘‘ (Genocide) کے میوزیم بنتے - لیکن افسوس صد افسوس !کہ بطور اُمّت و مِلّت کے ہم اُن شہیدوں کے وارث اور اُنہیں یاد کرنے والے نہیں بنے -

اگر اپنی علمی حالتِ زار پہ نظر دوڑائیں تو کتب خانے اوّل تو انگریز لوٹ کے لے گئے اور جو بچ گئے اُنہیں دیمک چاٹ گئی اِس لئے کہ مسلمانوں کے اہلِ ثروت طبقے کو مُرغے اور تیتر بٹیر لڑانے سے فُرصت نہ تھی-اِسی طرح علم و فن کو مسلمانوں نے طفلِ یتیم کی طرح دھکیل دِیا ، نہ وہ اساتذہ رہے ، نہ تلامذہ رہے نہ طلبِ علم رہی نہ مدارس رہے - مدوّنینِ فقہ و اجتہاد اُٹھ گئے اور محض نکاح خوان رِہ گئے - مُصلحین و مُجدّدین سے مِلّت کی صفیں خالی ہو گئیں اور فرقہ پرست شر پسندوں نے اُن کی جگہ لے لی ، چاہے عرب تھا یا عجم یا ہند ، ہر طرف مذہب کے نام پہ مسلمان انگریزوں کے ’’تزویراتی آلہ کار‘‘ بن گئے - تاریخی طور پہ ثابت شُدہ حقیقت ہے کہ انگریز نے کئی مسلمان خطوں میں نئے فرقوں کی بُنیادیں رکھیں اور اُمّت میں تفریق و تقسیم کو بڑھاوا دِیا - اعتدال و امن کی راہ کو ترک کر کے نہتے بے گناہوں کے گلے کاٹنا دین ٹھہرا - مسلمانوں کے مظلوم علاقوں مثلاً فلسطین و کشمیر کی بجائے خود مسلمان ریاستوں میں مسلمانوں ہی کے خلاف جہاد ڈکلیئر کیا گیا جس کا حتمی نفع صہیونی طاقتوں کو ہوا اور اِسلام پہ بڑی خوبصورتی سے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا - آج اسلام کے ’’دینِ امن و سلامتی‘‘ ہونے کا دِفاع کیسے کیا جائے ، یہ اَمر نہ ہی علماء سمجھ پا رہے ہیں، نہ دانشور ،نہ مشائخ اور نہ ہی نام نہاد سیاسی قیادت -

خانقاہوں سے فقر و تصوف جاتا رہا ، اِستقامت اختیار کرنے والے اُٹھ گئے،کرامت و مقامت کے سوداگر رِہ گئے اور وہ بھی استخوان فروشوں میں بدل گئے - اُمّت کی فکری ، رُوحانی ، علمی و مِلّی تربیّت جو ہمیشہ اِن عظیم خانقاہوں کا شِعار رہا اور پُر امن و بقائے باہمی کے اسلوب پہ تبلیغِ دین جو اِن عظیم صوفیا کا طُرّہ امتیاز تھا مگر زاغوں کے تصرف میں آنے کے بعد  زوال کے سبب یا سببِ زوال بن کر دھاگے گنڈھوں کی تجارت میں بدل گیا  - زُہد ، تقویٰ ، ورع ، یقین ، ایمان ، خُدا خوفی ، ترس وغیرہ وغیرہ محض مقررانہ لفظ بن کے رَہ گئے اور معاشرہ اِن کی حقیقی تشریح سے محروم ہو گیا -اِس لئے کہ اِن عظیم  لفظوں کی تشریح نہ تو مغنّی کے زیر و بم سے کھلتی ہے  ، نہ  مقرر کے جوشِ خطابت سے اور نہ ہی منطقی کی الجھی بحثوں سے ، بلکہ اِن اَلفاظ کی تشریح مردِ مومن کی قُوّتِ کردار سے کھلتی ہے -

v     استقامت کے دِن:

تاریخِ اِسلام میں ایک انوکھا باب بھی ہمیں ملتا ہے جو کہ استقامت کے ایّام کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے، گو کہ استقامت فی نفسہٖ ایک نعمتِ عُظمیٰ اور دولتِ کُبریٰ ہے - یہ وہ ایّام بھی ہیں جن میں بظاہر کوئی جنگی فتح نہ ہوئی لیکن وہ استقامت کے مظہر تھے-آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا یہ فرمانا کہ اگر  ان کے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیا جائے وہ تب بھی ’’دعوتِ الی اللہ ‘‘ دیں گے تو یہ آغازِ اسلام میں استقامت  کا مظاہرہ تھا-حضرت بلالِ حبشی (﷜) اور آپ کی طرح دیگر بے شمار صحابہ کرام (﷢)  کا کفارِ مکہ کے مظالم سہہ کر بھی اسلام پر ڈٹے رہنا، استقامت کا مظاہرہ تھا-حضرت بلیع الارض سیّدنا خبیب بن عدی اور سیّدنا زید بن الدثنہ (﷠) کی شہادت کے واقعہ کو دیکھ لیں- ابن الاثیر الجزری(المتوفیٰ: 630ھ)  نے صحابہ کرام کے حالات و واقعات پر مبنی اپنی معروف تاریخ ’’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ‘‘ میں ایک روایت ذکر کی ہے کہ :

’’غزوہ اُحد کے بعد قبیلہ عضل اور القارہ کے کچھ لوگ رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ میں تشریف لائے اور عرض کیا کہ ہم مسلمان ہیں ، آپ ہمارے ساتھ اپنے کچھ صحابہ روانہ فرمائیں جو ہمیں دین سکھائیں  اور قرآن پڑھائیں-آپ (ﷺ) نے اپنے کچھ صحابہ روانہ فرمائے جن میں حضرت خبیب بن عدی اور حضرت زید بن الدثنہ (﷢)بھی تھے- جب وہ صحابہ کرام مقام رجیع پر پہنچے تو ہذیل قبیلے نے ان پر حملہ کر کے شہید کر دیا - حضرت زید بن الدثنہ(﷜) کو صفوان بن امیہ نے اپنے باپ  کا بدلہ لینے اور حضرت خبیب بن عدی (﷜)کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے خرید لیا-جب انہوں نے  حضرت زید بن الدثنہ  (﷜)کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو ابو سفیان (جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہ کیا تھا)نے آپ سے پوچھا کہ اے زید! مَیں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ آج یہاں ہمارے پاس تمہاری جگہ محمد (ﷺ) ہوں اور تم انہیں قتل کر کے اپنے اہلِ و عیال میں ہو؟ حضرت زید بن الدثنہ (﷜)نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں کبھی پسند نہیں کروں گا کہ حضرت محمد  (ﷺ)یہاں میری جگہ ہوں اور انہیں کانٹا بھی چبھے اور مَیں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں-اور جب حضرت خبیب بن عدی(﷜) کو جب قتل کرنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے دو رکعت ادا کرنے دیں-  آپ نے دو رکعت (تیزی سے) ادا فرمانے کے بعد فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں تو میں ان رکعتوں کو لمبا کرتا‘‘ -[15]

اسی طرح میدانِ کربلا حضرت امام حسین، حضرت امام زین العابدین اور دیگر اہلِ بیت  اطہار (﷢)کی استقامت کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں  -لیکن آج ہم نعمتِ استقامت سے بھی محرومیت کا شکار ہیں-

’’وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ‘‘یعنی’’اُنہیں اللہ کے دِن یاد کرواؤ‘‘ کے تحت ہمیں چاہیے کہ ہم  اپنے اوپر عطا کی گئی نعمتوں کو بھی یاد کریں اور آج جس بد ترین ذِلّت و رُسوائی کا شکار ہیں یا اِس سے قبل تاریخ میں ہم نے بطور قوم جو حزیمتیں اُٹھائی ہیں اُن میں غور و فکر کریں - جو نعمتیں مِلیں اُن پہ بے حد و بے شمار شکربجا لائیں - جو سختیاں اُٹھائیں اور اُٹھاتے چلے جا رہے ہیں ان سے عبرت حاصل کریں اور اپنی اِصلاح کریں ، بد اعمالیوں اور مجرمانہ غفلتوں کو ترک کریں شاید ہم قابلِ مہر بانی ہو جائیں –

(---جاری ہے---)


[1](بالِ جبریل)

[2](الحجر:۴۲)

[3](سورۃ ابراہیم، آیت:۵)

[4]( تفسیر بحر العلوم، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

[5](مدارک التنزیل و حقائق التاویل،بیروت ، لبنان)

[6](الواضح فی تفسیر القرآن الکریم، دارالکتب العلمیہ، بیروت ، لبنان)

[7]( المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، دارالکتب العلمیہ، بیروت ، لبنان)

[8]( الجامع لا حکام القرآن، مکتبہ الرسالۃ العالمیہ،دمشق ، حجاز)

[9]( تفسیر الکشف و البیان فی تفسیر القرآن ، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

[10]( جامع البیان فی تاویل القرآن، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

[11]( تاویلات اہل السنۃ، دار الکتب العلمیہ، بیروت لبنان)

[12] (سورۃ آل عمران، آیت: ۱۰۳)

[13](رموزِ بے خودی)

[14] (النمل : ۳۴)

[15]( اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ذکر  خبیب بن عدی و  ذکر زید بن الدثنہ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

 

’’ یہ مسائلِ تصوُّف  .....  !‘‘

(طریقِ تصوُّف اور تربیّتِ سالِک کے چند پہلُو)

صاحبزادہ سُلطان احمد علی

سیکریٹری جنرل :اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین

خانوادہ سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرّہ

کے فکری خطاب کا متن ( جو کہ30ستمبر 2016ءدربارِ عالیہ سُلطان العارفین حضرت سُلطان (باھُو قدس اللہ سرّہ) میں میلادِ مصطفےٰ (ﷺ)  وعرس مبارک بانیٔ ’’اصلاحی جماعت  و عالمی تنظیم العارفین ‘‘ (قدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی عظیم الشان تقریب میں کیا گیا-

) گزشتہ سے پیوستہ (                                                      

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں