دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط4)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط4)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط4)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جنوری 2016

  ﴿گزشتہ سے پیوستہ﴾

اِنسان پہ لازم ہے کہ اپنے مقام کو سامنے رکھے کہ میری وکالت کس نے کی ؟ اور کس بات پہ کی ؟ ہم وہ خوش نصیب مخلوق ہیں جس کی تکریم اللہ تعالیٰ نے قائم کی اور ہمیں ہماری کئی کمزوریوں کے باوجود دیگر مخلوقات پہ برتری و فوقیّت دی - انسان کی یہ عظمت تقاضا کرتی ہے کہ نسلِ انسانی کے اندر ایک دوسرے کا احترام ، ایک دوسرے کی کشش ، محبت ، مروّت اور ایثار کو پیدا کیا جائے تاکہ انسان اپنے مرتبے سے کمتری کا رویّہ نہ اپنائے - جس طرح مذکورہ آیت میں ملائکہ نے ﴿یُّفْسِدُ﴾ یعنی ’’فساد انگیز‘‘ اور ﴿یَسْفِکُ الدِّمَ آئ﴾ یعنی ’’خون ریز‘‘ کا کہا ہے تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم وکالتِ خُدا وندی کے موافق چل رہے ہیں یا ملائکہ کے خدشات کے موافق چل رہے ہیں ؟ قرآنِ پاک کو جب زینتِ طاق بنادیا جائے اور اس کے مقاصد و معانی کو بھلا دیا جائے تو بڑا مشکل ہے کہ انسان اپنی حیثیت برقرار رکھ سکے - اِس لئے آج ہم وہ نتائج بھگت رہے ہیں جو زمانۂ جاہلیّت کا انسان بھگتتا تھا - جس بڑے پیمانے پہ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے خُون کا پیاسا ہو جائے تو بات اس سے مختلف نہیں ہو سکتی کہ انسان کو اپنے شرفِ انسانی کی خبر نہیں - اگر بطور مسلمان ہم اپنے کردار کو قرآن کے ترازو میں تولیں تو ہمارے لئے اصلاح کی بہت راہیں کھلتی ہیں اور ساتھ ہی آئینہ رو برو ہو جاتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں ؟ 

﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ﴾

’’اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے ﴿قتل کرنا﴾ اﷲ نے حرام قرار دیا ہے ‘‘-

﴿۹﴾ حقوق و مالِ یتیم پر غصب سے مُمانعت:-

اور نواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ

﴿وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہ﴾﴿الانعام:۲۵۱

’’اور تم یتیم کے مال کے ﴿بھی﴾ قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقہ سے جو ﴿یتیم کے لیے﴾ بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے -‘‘

کہ مال یتیم کی حفاظت کرو ،مال یتیم پہ غصب نہ لگائو،جب تک کہ وہ جوان نہ ہو جائے - جیسا کہ ابتدائی حصہ میں بھی یہ گزارش گو ش گزار کی گئی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی ۲۲ سے ۷۳ آیت تک جو تیرہ اَحکامات بیان کئے گئے ہیں یہ ہمارے ہر ایک معاشرتی پہلو کا جامع تجزیّہ بھی کرتے ہیں اور ہمیں ایک مکمل فلاحی معاشرے کی تشکیل کی راہنمائی بھی کرتے ہیں - اِس راہنمائی میں اللہ د نے مذکورہ آیت میں یتیم اور مالِ یتیم کے متعلّق حکم فرمایا ہے - ایک تو اس کا عمومی و جنرل تجزیّہ کرنا چاہئے اور اس میں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ہمارے معاشرتی رویّہ میں یتیم سے زیادتی پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ اور مالِ یتیم پہ غصب لگایا جاتا ہے نہیں ؟ تو ناچیز کے ناقص خیال کے مطابق آئینہ بڑا صاف ہے اور معاشرے کا چہرہ ہم سب کے سامنے ہے ، حقائق چھپانے یا چھپا کر بیان کرنے سے اِصلاح ممکن نہیں رہتی ، اِس لئے یہ تسلیم کرتے ہی بنے گی کہ جس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے کمی نہیں چھوڑتا - چاہے ہماری دیہاتی زندگی ہے یا اربن کلچر ، دونوں طرف ہی یہ ظلم برابر روا رکھّا جا رہا ہے -

اِس سے پہلے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت سے متعلق احکاماتِ کتاب و سُنّت سے کچھ پیش کروں ، کتاب و سُنّت سے ہی اخذ شُدہ ایک گزارش کرنا چاہوں گا کہ یتیمی کا تعلق صرف و صرف مال و وراثت یا جائیداد کے عدمِ تحفُّظ سے نہیں ہے - بلکہ اِسے یوں کہنا چاہئے کہ مال ، وراثت اور جائیداد کا عدمِ تحفُّظ یتیمی کے مختلف اہم پہلؤوں میں سے ایک پہلو ہے - یتیمی کا اُن اہم پہلؤوں میں سے ایک اہم پہلُو اُس سایۂ شفقت سے محرومی ہے جو کسی بھی اِنسان کی اوّلین ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی میں اِحساس و محبت کا تصوُّر ادھورا رِہ جاتا ہے ، اور محرومیوں کا ، احساسِ محرومی کا دروازہ کھل جاتا ہے - وہ سایۂ شفقت والدین یعنی ماں یا باپ کا ہوتا ہے - ناچیز نے اپنے شیوخ سے سُنا ہے کہ جس بچے کو ماں اپنی گود میں بٹھا کر ، چھاتی سے لگا کر کھلاتی اور پلاتی ہے اُس کے ہر بار کے سینے سے لگانے سے اُس بچے کے صدر یعنی سینہ سے حرص ختم ہوتا ہے اور اُس کی آنکھوں کی بھوک ختم ہوتی ہے - اِس لئے یتیم کی اوّلین ضرورت بلکہ اُس سے متعلق معاشرے کی اہم ترین ذِمّہ داری اُس یتیم کو ایک ایسی فیملی مہیّا کرنا ہے ، ایسا ماحول مُہیّا کرنا ہے جس میں اُسے وہ شفقت مِل سکے ، وہ محبت مل سکے ، وہ پیار مل سکے ، وہ سایہ مل سکے جو اُس کے والد یا والدہ کا متبادِل تو ہرگز نہیں ہو سکتا البتّہ کسی حد تک اُس خلا کو پُر کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے - یہ بہت ہی عظیم نوعیّت کی سُنّتِ رسول ﷺ ہے جسے بیان کرنے کیلئے میرے پاس نہ تو لفظ ہیں نہ حوصلہ ہے - سیرتِ پاک ﷺ کا یہ پہلو شروع ہوتا ہے حضرت عبد المطلب اور حضرت ابو طالب سے کہ جس طرح اُنہوں نے دُرِّ یتیم کی نگہداشت کی - مجھے یہاں حفیظ جالندھری مرحوم یاد آتے ہیں کہ کس طرح اِس سارے منظر کو اُنہوں نے شاہنامۂ اِسلام میں قلم بند کیا ہے کہ موتی پرو دیئے ہیں - حفیظ جالندھری کہتے ہیں کہ اگر عمر ملتی اور دعائے اقبال کے مطابق ﴿یا عطا فرما عقل با فطرتِ رُوح الامیں﴾ یعنی جبریل کی روح میرے جسم کو مل جاتی تو میں آقا ﷺ کے بچپنِ شریف اور معجزاتِ شریف کا بیان کرتا اور خاص کر :

 

ملا ہے آمنہ کو فضلِ باری سے یتیم ایسا

نہیں ہے بحرِ ہستی میں کوئی دُرِّ یتیم ایسا

 

بیاں لازِم تھا صحرائی وطن سے گھر میں آنے کا

محمد ﷺ کے دوبارہ دامنِ مادَر میں آنے کا

 

مدینے کے سفر میں ماں کی ہمراہی بیاں کرتا

پدر کے مدفنِ راحت سے آگاہی بیاں کرتا

 

بیاں کرتا وفاتِ آمنہ کا حالِ حسرت زا

بیاں کرتا مُقدّس ہو گیا کیوں خطۂ ’’ابوا‘‘

 

بیاں کرتا کہ جب اُٹھتا ہے سر سے سایۂ مادر

یتیم اُس وقت آنسو پونچھتے ہیں منہ سے کیا کہہ کر

 

بیاں کرتا کہ جب غُربت میں یہ صدمہ گزرتا ہے

تو شش سالہ یتیم اُس وقت کیسے صبر کرتا ہے

 

بیاں کرتا کہ پھر مکے میں آئے حضرتِ والا

بیاں کرتا کہ عبد المطّلب نے کتنے دِن پالا؟

 

وہ عبد المطّلب کا سایۂ شفقت بھی اُٹھ جانا

وہ اُس نُورِ حقیقی کا ابُو طالب کے گھر آنا

 

حضور سیّد الانبیا خاتم النبیّین ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اِس واقعہ و سانحہ کے مطالعہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ، اِس لئے جس نے بھی آقا ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کی ، حضور ﷺ کی مِدحت بیان کی اُس نے اِس پہلو کو بطورِ خاص اُجاگر کیا - پھر یہ بھی کہ آپ ﷺ نے جس طرح یتیموں سے محبت فرمائی اور اُن کے سر پر دستِ شفقت رکھّا تاریخ اِس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ اِس مظلوم و بے کس طبقہ کو اگر کسی کی بارگاہ میں امان ملی تو وہ اُس دُرِّ یتیم کی بارگاہ تھی - عارفِ کھڑی حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 

اوہ محبوب اُمت دا والی، مہر شفاعت کردا

آپ یتیم، یتیماں تائیں ہتھ سرے تے دھردا

رحمتِ دوعالَم  نے انہیں اُس وقت اپنی آغوشِ رحمت میں پناہ عطا فرمائی جب یہ حسّاس ترین طبقۂ اِنسانی بے یار و مدد گار تھا مظلوم تھا اور درگہِ امرأ و رؤسا کا ٹھکرایا ہوا تھا :

 

کوئی گوشہ نہ ملتا تھا جہاں مظلوم اماں پائیں

کوئی سُنتا نہ تھا اُن کی یہ بیچارے کہاں جائیں

 

کوئی شفقت نہ کرتا تھا یتیموں پر، غُلاموں پر

یہ مر جاتے تھے بھوکے، اور بِک جاتے تھے داموں پر

لیکن آقا کریم ﷺ کے ذریعے اُنہیں سماجی ، معاشرتی و معاشی تحفُّظ فراہم کیا گیا - قرآن مجید میں آقا  کو بطورِ خاص اِس مظلوم اور دُکھی دِل طبقہ پہ شفقت کرنے اور مہربانی و عنایات کرنے کا خصوصی حکم ربِّ ذوالجلال نے فرمایا - جس طرح سورہ والضحیٰ میں پہلے آقا کریم  کی اِس صفتِ یتیمی کا ذکر کیا گیا کہ اے حبیبِ مکرم !

﴿اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی﴾ ﴿والضحیٰ : ۶

’’کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے ﴿آپ کو معزّز و مکرّم﴾ ٹھکانا دیا‘‘ -

سورہ والضحیٰ کی آیت ۶ میں آقا ﷺ کی یتیمی اور تکریم عطا کرنے کا ذکر فرمانے کے تین آیات بعد یعنی آیت نمبر ۹ میں ارشاد ہوا:

﴿فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَ لَا تَقْہَرْ﴾ ﴿والضحیٰ : ۹

’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیں‘‘-

جہاں بالخصوص یہ گفتگو خالق اور اُس کے محبوب کے درمیان جاری ہے وہیں یہ حُکم اُمّت کیلئے بھی خاص ہے کہ اپنے رسول و محبوب ﷺ کی سُنّتِ مبارک کو اپناتے ہوئے یتیم پہ سختی نہ کرو ، اُس پہ ظلم نہ کرو نہ کسی کو کرنے کی اجازت دو بلکہ مشفقانہ و رحیمانہ رویّہ اِختیار کیا جائے - مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی نے امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہما کے حوالے سے حضرت قتادہ ص کی روایت نقل کی ہے کہ اس آیت میں دیئے گئے حُکمِ مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ :

﴿کن للیتیم کأَبٍ رحیم﴾ ﴿امام عبد الرزاق الصنعانی نے ’’المصنف‘‘ کتاب العلم میں اِسے حضرت داؤد ں کے قول کے طور پہ نقل فرمایا ہے، دارالکتب العلمیہ ج ۰۱ ص ۸۶۲

’’یتیم پر اُس کے والد کی طرح شفقت فرمائیے‘‘-

اِس لئے یتیموں کی مدد کرنا ، اُن کی کفالت کرنا ، اُن کے حقوق کا ، جائیداد و مال و متاع کا تحفُّظ کرنا حُکمِ قُرآنی بھی ہے ، سُنّتِ رسول ﷺ بھی ہے اور مذہبی ، دینی ، اخلاقی ، سماجی ، معاشرتی ، تہذیبی فریضہ بھی ہے - اِنسانی اخلاقیات کی بلند ترین سطح کو صرف و صرف نبوّت پہنچ سکی ہے کہ اخلاقیات کے ، اور اخلاقیات پہ مبنی سماج و معاشرہ کے جو معیارات نبوّت نے قائم کئے ہیں وہ کسی بھی دوسرے فرد یا ادارے سے قائم نہیں کئے جا سکے - نبوّت کے بعد یہ عظیم فریضہ ولایت نے سر اَنجام دِیا ، اولیا اللہ اور صُوفیائے کرام اَخلاقیات کے اُن پیمانوں او ر معیارات کی تجدید کرتے رہے ، احیا کرتے رہے جنہیں انبیا علیھم السلام اور خاص کر حضور خاتم النبیّین سیّد المرسلین امام الانبیا حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا - کیونکہ دروازۂ نبوّت بند ہونے کے بعد اِصلاحِ اَحوال و اعمال کی ذِمّہ داری اولیائے کاملین اور علمائے ربّانیّین نے ادا کرنی تھی - بلکہ اِس سے قبل بھی انبیا علیھم السلام کے عہدِ مبارک میں بھی یہ عظیم سُنّت ادا ہوتی رہی جس کی کہ کئی مثالیں کتبِ تاریخ میں موجود ہیں - ایک مثال جو اخلاق اور کفالتِ یتیم کے حوالے سے قرآن مجید میں بھی بیان کی گئی ہے وہ سورہ الکہف میں بیان شُدہ اُس واقعہ میں ہے جس میں سیّدنا حضرت موسیٰ ں اور سیّدنا حضرت خضر ں کی مُلاقات کا بیان ہے - بعض علمائے کرام و مفسّرین نے حضرت خضر ں کو منصبِ نبوت پہ فائز لکھا ہے اور بعض نے آپ کو مسندِ آرائے ولایت لکھا ہے، اِن ہر دو صورتوں میں یعنی چاہے آپ کا رُتبہ اوّل الذکر ہے یا آخر الذکر ، آپ اخلاقیات کے اُن با کمال اوصاف سے متّصف ہیں جو فیضِ نبوّت کا لازمی حصہ ہیں یعنی نبی تو ہوتا ہی اُن کا منبع ہے جبکہ ولایت کو بھی فیض و عطا اخلاقِ نبوت کی ہوتی ہے اِس لئے ایسی عظیم اخلاقیات اوصافِ نبوّت میں بھی شامل ہیں اور اوصافِ ولایت میں بھی شامل ہیں - اِس لئے جہاں بھی نیکی ، خیر ، بھلائی اور انسانیّت کی قُوّتیں موجود ہوتی ہیں وہاں ایسی اخلاقیات کا پاس ضرور رکھّا جاتا ہے - اِس لئے قرآن کریم دین کو ایک ذاتی و انفرادی معاملہ بیان کرنے کی بجائے ایک آفاقی نصب العین کے طور پہ بیان کرتا ہے ، جس میں وہ معاشرہ کے ہر جز و و حصہ کو ساتھ لیکر چلنے کی تلقین کرتا ہے - اور جن شخصیّات کو قرآن مثالِ احسن کے طور پہ یعنی رول ماڈل کے طور پہ پیش کرتا ہے وہ ایسے نازک معاملات میں انسانیّت کی ، رحمدلی کی اور ہمدردی کی عملی تفسیر اپنے کردار سے پیش کرتے ہیں - جیسے حضرت خضر ں کے واقعہ کا ذکر کیا کہ جب کشتی کو پھاڑنے اور بچہ کو قتل کرنے کا معاملہ گزر چکا تو حضرت موسیٰ ں عرض کر چکے تھے کہ

﴿اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَیْئٍم بَعْدَھَا فَ لَا تُصٰحِبْنِیْج ﴾

’’کہ اِس کے بعد اگر میں کوئی سوال کروں تو آپ بیشک مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا ‘‘-

پھر وہاں سے آگے سفر شروع ہو گیا ، تو راستے کی تھکاوٹ بھی تھی اور بھوک بھی لگی تھی تو ایک شہر یا بستی سے جب یہ ہستیاں گزریں تو اُنہوں نے اُس شہر یا بستی کے لوگوں سے کھانا طلب فرمایا مگر وہاں کے بخیل باشندوں نے کھانا پیش نہ کیا - دریں اثنا حضرت خضر ں نے ایک دیوار کو گرا ہوا دیکھا تو بِلا مُعاوضہ اُس کی مرمت و تعمیر فرمادی - اِس پہ حضرت موسیٰ ں نے فرمایا کہ جناب اتنی محنت جو کر ڈالی ہے کم از کم اس کی اُجرت ہی طلب کر لیتے کیونکہ شہر والے تو اِس قدر بے مُروّت ہیں کہ انہوں نے مسافروں کو طعام تک دینا گوارا نہیں کیا اُسی اُجرت سے ہم طعام خرید کر لیتے - لیکن اِس کے جواب میں حضرت خضر ں نے کہا کہ اب صحبت ختم ! آپ تین سوال کر چکے ہیں ﴿ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِک﴾ - پھر حضرت خضر ں نے تینوں اقدامات کی وضاحت فرمائی کہ میں نے یہ کام اِس طرح کیوں کئے ؟ جب دیوار مرمت و تعمیر کرنے کی وضاحت فرمائی کہ یہ کیوں کیا تو قرآن کے اَلفاظ میں ملاحظہ کیجئے :

﴿وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰ مَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہ، کَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًاج فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَج﴾ ﴿الکہف :۲۸

’’اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں ﴿رہنے والے﴾ دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ ﴿مدفون﴾ تھا اور ان کا باپ صالح ﴿شخص﴾ تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ ﴿خود ہی﴾ نکالیں ‘‘-

آیت مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے بہت سی باتیں کھلتی ہیں اور بہت سے نکات منکشف ہوتے ہیں - موضوع سے متعلقہ ہی اگر عرض کروں تو یہ ہوں گے :

﴿۱﴾ مالِ یتیم کی حفاظت کرنا ، حقوقِ یتیم کا تحفُّظ کرنا بلکہ بالفاظِ دیگر ممکنہ طور پہ کفالتِ یتیم کرنا اخلاقِ نبوت اور اخلاقِ ولایت کا حصہ ہیں - جو بھی شخص قرآن و سُنّت پہ یقین رکھتا ہے ، انبیا علیھم السلام کے طریق کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے اور اپنے اخلاق کو اخلاقِ نبوت کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اُس پہ لازم ہے کہ مال و حقوقِ یتیم کا تحفُّظ کرے اور ہر ممکنہ حد تک کفالتِ یتیم کرے -

﴿۲﴾ حضرت خضر ں بھوک اور فاقہ کی حالت میں تھے جب مال و حقوقِ یتیم کے تحفُّظ کیلئے دیوار کھڑی کی ، گویا آدمی چاہے بھوک میں ہو ، فاقہ میں ہو ، مسافری و غریب الدیاری میں ہو ، مشکل اور تنگدستی میں ہو ، حالات موافق نہ ہوں اور بظاہر وسائل بھی موجود نہ ہوں - بایں ہمہ ، اس سب کے باوجود اُس پہ لازم ہے کہ مال و حقوقِ یتیم کا تحفُّظ کرے اور یتیم کی ہر ممکنہ مدد کرے -

﴿۳﴾ گو کہ حضرت موسیٰ ں نے معاوضہ کی تجویز دی بھی تھی اور بظاہر نظر آنے والے عوامل و حالات کے تحت وہ معاوضہ طلب کرنے کے حقدار بھی تھے لیکن مال و حقوقِ یتیم کی حفاظت بلا معاوضہ فرمائی گئی - لہٰذا مال و حقوقِ یتیم کا تحفُّظ بے لوث کرنا چاہئے اور ہر طرح کے دنیوی مفاد ، غرض اور مطلب سے بالا تر ہو کر کرنا چاہئے ، بلا معاوضہ کرنا چاہئے - یاد رہے کہ شرعاً بلا معاوضہ کی حد نہیں ، البتّہ اخلاقِ نبوت کے اختیار کرنے میں اس سُنّت سے اجر بڑھ جائے گا -

﴿۴﴾ قرآن پاک میں بیان شُدہ واقعہ میں بظاہر کسی اِنسان نے اُس دیوار کی مرمت و تعمیر کی ذِمّہ داری حضرت خضر ں کو نہیں سونپی تھی ، بلکہ آپ نے اُس کیلئے الفاظ ادا فرمائے کہ :

﴿وَمَا فَعَلْتُہ، عَنْ اَمْرِی﴾ ’’یہ کام میں نے اپنے ارادے یا اپنی مرضی سے نہیں کئے ‘‘-

جس پہ مفسرین کرام نے رائے دی ہے کہ اس کا اشارہ حُکمِ غیبی کی طرف ہوگا کہ یہ اللہ د کے امر و حکم کے تحت سر انجام دیئے گئے ہیں - گویا کسی انسان کے کہے بغیر ، کسی انسان کے ذِمّہ لگائے بغیر رضا کارانہ طور پہ کفالتِ یتیم کرنا اور مال و حقوقِ یتیم کا تحفُّظ کرنا بھی سُنتِ صالحین ہے - یہ ایسی عبادت اور ایسی نیکی ہے جس پہ برادری کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہونا ضروری نہیں نہ ہی قربت ضروری ہے بلکہ جہاں بھی کسی کو اِس سانحہ سے دو چار دیکھیں تو اُس کی مدد کی جائے -

خاص کر زمانۂ حال میں دگر گوں ہوتی ہوئی صُورتِ حال کے پیشِ نظر ہم پہ لازِم ہے کہ اِس مسئلہ پہ تدبُّر و تفکر اختیار کریں اور معاملہ کی سنگینی کا اِحساس کرتے ہوئے ایسے اِقدامات لئے جائیں جو اِس سُنّتِ نبوت و ولایت کے مطابق اِس حسّاس اور دُکھی دِل انسانی پہلو کی اشک شوئی اور دلجوئی کا موجب بنیں - اگر ایک نظر دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے اِس سانحہ پہ ڈال کر دیکھیں تو آدمی کی عقل حیران رِہ جاتی ہے - یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اِس وقت دُنیا بھر میں یتیم بچوں کی کُل تعداد ایک سو ساٹھ ملین ﴿سولہ کروڑ﴾ سے لیکر دو سو دس ملین ﴿اکیس کروڑ﴾ کے درمیان ہے ، اِن میں سترہ عشاریہ آٹھ ملین ﴿ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد﴾ ایسے بچے ہیں جن کے دونوں والدین نہیں ہیں - یہ تعداد روزانہ کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے دُنیا میں روزانہ پانچ ہزار سات سو ساٹھ ﴿5,760﴾ بچے یتیم ہوتے ہیں - ایک تحقیقی رپورٹ نے مجھے چونکا کر رکھ دِیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر دُنیا بھر کے یتیم بچوں کا ایک الگ مُلک تشکیل دیا جائے تو یہ دُنیا کی آٹھ بڑی آبادی والے ممالک میں سے ایک ہوگا - کیونکہ روس دُنیا کی نویں ﴿9th ﴾ بڑی آبادی ہے اُس کی کُل آبادی ایک سو چھیالیس ملین ﴿146﴾ ہے ، جبکہ برازیل دو سو چار ملین ﴿204﴾ کی آبادی کے ساتھ دُنیا کا پانچواں بڑا مُلک ہے ، اور یتیم بچوں کی کُل تعداد ایک سو ساٹھ ملین سے دو سو دس ملین کے درمیان اندازا لگائی جاتی ہے یعنی چوتھے سے آٹھویں بڑی پاپولیشن بنتی ہے - اِن کا خیال رکھنا ، اِن کو محبت و خلوص رکھنے والی فیملی مہیّا کرنا ، ان کی تعلیم و تربیّت کا اہتمام کرنا ، ان کی مناسب دیکھ بھال رکھنا ، ان کی عزتِ نفس اور احساسات کا خیال رکھنا ، چھوٹے چھوٹے مواقع پہ اِن سے محرومی کے احساس کو دُور رکھنا ، بے پناہ اپنائیت کے احساس اور سایہ سے انہیں معمور رکھنا یہ انسانی قبیلہ و انسانی برادری کا اہم ترین فریضہ ہے -

یہاں ناچیز ضروری سمجھتا ہے کہ خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے اُن اداروں کو اور اُن شخصیّات کو ، خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے ایسی حکومتوں کو اور ایسی معاشروں کو جو پورے خلوصِ دِل سے یتیموں کی کفالت کرتے ہیں ، انہیں اڈاپٹ کرتے ہیں ، ان کی تعلیم وتربیّت کا اہتمام کرتے ہیں ، اِس غرض سے ادارے قائم کرتے ہیں اور اِس خاطر اخراجات برداشت کرتے ہیں -

لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے کیونکہ یہ تعداد سالانہ تقریباً اکیس لاکھ سے زائد بنتی ہے جبکہ مختلف سروے کے مطابق سالانہ اس کا دسواں حصہ یعنی صرف اڑھائی لاکھ یتیم بچے اڈاپٹ کئے جاتے ہیں ، باقی یتیم بچے اِس نعمت سے محروم رِہ جاتے ہیں - ان میں کتنے ہیں جو پڑھ پائیں گے ، یا معاشرے کے قدم سے قدم ملا کر چلنے والے بن پائیں گے ؟ اور کتنے ہونگے جو مناسب تعلیم و تربیت اور مناسب سایۂ شفقت نہ ملنے کی وجہ سے جرائم و منشیات کی تِیرا و تاریک دُنیا میں جا گرتے ہونگے ؟ اور کتنے ہی ایسے ہوتے ہیں جو تنہائیوں ، محرومیوں اور اجنبیت سے بیزار ہو کر خود کشی کرکے زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں ؟

گو کہ اوپر دیئے گئے اور بیان کئے گئے اعداد شمار بھی بہت خطرناک حد تک بڑھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر جس طرح سے گلوبل سروے ﴿ز﴾ کئے جاتے ہیں وہ مکمل تعداد کا احاطہ نہیں کرتے ، ناچیز کے نزدیک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ان اعداد و شمار میں شامل نہیں ہو سکی - یہ صرف وہ لوگ تھے جو گھروں میں یا اداروں میں میسّر آئے ان پہ مبنی ایسے سروے کئے گئے ، لیکن وہ تعداد جو جو دیہاتوں اور دور دراز قصبوں کی گلیوں میں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں گھومتی پھرتی ہے وہ اس شمار سے باہر ہے ، وہ بچے جو کارخانوں میں ، دکانوں پہ ، زمینوں میں ، مختلف معدنیات کی کانوں میں اور ڈھابوں ریڑھیوں پہ کام کرتے ہیں ، وہ یتیم بچے جو انسانی سمگلرز کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا مختلف عسکری گروہوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں وہ سبھی اِن اعداد میں شمار نہیں کئے جا سکتے - اِس لئے اصل تعداد یہ سب ملا کر بیان کئے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بنتی ہے -

﴿.... جاری ہے ....

 

٭ معاشرے کو ضرورت ہے کہ یتیموں کے مال پہ غصب لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور انہیں سیاسی و اخلاقی سپورٹ مہیّا نہ کی جائے - اگر ایک انسان صرف اتنا سوچ لے کہ میں نے بھی مرنا ہے اور دُنیا سے جانا ہے ، میرے بچے بھی یتیم ہو سکتے ہیں میرے بچوں کے بچے یتیم ہو سکتے ہیں - تو آج اگر مالِ یتیم پہ غصب لگانے والوں کی گرفت کی معاشرتی رسم پڑی ہوگی تو کل کو ہمیں مرتے ہوئے یہ یقین ہوگا کہ میرے بچوں یا میرے بچوں کے بچوں سے کوئی زیادتی و ظلم نہیں کر سکے گا ، کوئی ان کی اِملاک و جائیداد پہ غصب و قبضہ نہیں کر سکے گا - لیکن اگر آج اپنے کسی دوسرے عزیز ، رشتہ دار ، محلہ دار ، پڑوسی ، دوست یا کسی جاننے والے کے یتیم بچوں سے ہونے والی زیادتی پہ ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قُدرت کا انتقام خاموش ہوتا ہے جسے کہتے ہیں کہ ’’خُدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ‘‘ - وہ جب چلتی ہے تو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے چلی ہے لیکن قدرت اپنا اِنصاف ضرور اِسی دُنیا میں ظاہر کرتی ہے -

٭ قرآن پاک میں تئیس مقامات پہ مالِ یتیم کی حفاظت اور یتیم سے حُسنِ سلُوک کا فرمایا گیا ہے -

٭ النسأ۰۱:              اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًاط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًاo

                بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo

٭ پھر ایک اور مقام پہ کتابِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم صادر فرما یا ہے کہ :

﴿ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِط﴾ ﴿النسا : ۷۲۱

’’یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو ‘‘-

٭ الماعون آیت نمبر ایک اور ۲ میں فرمایا

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ﴿یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے﴾

٭ ابو داؤد شریف کتاب النوم کی روایت کہ آقا ﷺ نے فرمایا کہ :

﴿اَنَا وَ کَافِلُ الْیَتِیْمِ فِیْ الْجَنَّۃِ ہٰکَذَا ، وَاَشَارَ بِا السَّبَابَۃِ وَالْوُسْطیٰ ، وَ فَرَّجَ بَیْنَھُمَا شَیْئًا﴾

’’آقا ﷺ نے اپنی شھادت کی انگلی مبارک اور درمیانی انگلی مبارک کو جوڑتے ہوئے درمیان تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے اشارہ کیا اور فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے - ‘‘ -

 

٭النسا آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ نے ایک سٹیٹ کیلئے پورا میکنزم بتایا کہ یتیم کی کفالت کس طرح کی جائے -

وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْج وَلَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْاط وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْج وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِط فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْط وَکَفٰی بِاﷲِ حَسِیْبًاo

اور یتیموں کی ﴿تربیتہً﴾ جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح ﴿کی عمر﴾ کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری ﴿اور حُسنِ تدبیر﴾ دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں ﴿اس اندیشے سے﴾ نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو ﴿کر واپس لے﴾ جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ ﴿مالِ یتیم سے﴾ بالکل بچا رہے اور جو ﴿خود﴾ نادار ہو اسے ﴿صرف﴾ مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہےo

عمر کا تعین اس لئے کیا کہ کہیں وہ نا سمجھی کی عمر میں اپنا مال ضائع نہ کر بیٹھیں اس لئے ان کے مال کی حفاظت کا حکم فرمایا -

﴿۰۱﴾ اِیفائے عِہد کا حُکم:-

دسواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

﴿وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo

’’ اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی-‘‘

 بے شک وعدوں کے متعلق اللہ کی بارگاہ میں پوچھا جائے گا، وعدوں کے متعلق تم سے حساب لیا جائے گا اور وہ وعدہ کون سا وعدہ ہے؟ وعدوں سے وفا کرنا جو وعدہ ہم دورانِ بیعت کرتے ہیں،ہم کسی عہدے یا کسی منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے جو وعدہ کرتے ہیں ،ہم اپنے دین سے جو وعدہ کرتے ہیں، اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا وعدہ جو ہم اپنے دستور میں قرادادمقاصد میں کیا ہے اور رسول پاکﷺ کی اتباع کا وعدہ جو ہم نے بطورایک مسلمان کے کیا ہے اور اللہ کی توحید کا وعدہ جس کی گواہی ہم نے دی اورنبی کی رسالت کا وعدہ اور آپ کی ختمِ نبوت کا وعدہ جس پہ ہم ایمان لائے اور ہم مسلمان کہلائے- ان وعدوں سے وفا ہمارے اوپر لازم ہے- جو قوم وعدے توڑتی ہے، جس قوم کی مقننہ کے اراکین اپنے عہد کی پاسداری نہ کریں، اپنے عہد سے وفا نہ کریں، جس کے بڑے بڑے مناسب ،جس کے بڑے بڑے عہدوں پہ بیٹھے ہوئے لوگ اپنے عہد کو ،اپنے پیمان کو ،اپنے حلف کو توڑ کے کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث ہوجائیں ،اس معاشرے پہ ،اس قوم پہ زوال نہیں آئے گا تو اور کیا ہوگا -

﴿۱۱﴾ ناپ تول میں کمی و بیشی کی مُمانعت:-

اور گیارھواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo

’’اور ناپ پورا رکھا کرو جب ﴿بھی﴾ تم ﴿کوئی چیز﴾ ناپو اور ﴿جب تولنے لگو تو﴾ سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ ﴿دیانتداری﴾ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے ﴿بھی﴾ خوب تر ہے-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ جب پیمانہ بھرو،جب ناپ تول کرنے لگو توپوراپورا ناپ تول کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور اس کی تشریح میںمتعدد مفسرین نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کرنا یا چیزوں میں ملاوٹ کرنا یہ سخت ترین گنا ہ ہے یہ ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں -اہلِ ٹوبہ ٹیک سنگھ مَیں ڈیمانڈ کرتا ہوں کہ مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کو ئی دکان بتا دیجئے جہاں پہ ملاوٹ کے بغیر دودھ ملتا ہو،جہاں ناپ تول میں کمی نہ کی جاتی ہو، اس سے بڑھ کے ہماری بد قسمتی اورکیا ہو سکتی ہے؟ پٹرول پمپوں کے پیمانے دیکھ لیں، اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی کون کونسی غلطی ،اپنے کون کون سے جرم کا اعتراف کروں کہ بطور اجتماعی ،بطورِ معاشرہ مجھ میں، میرے اندر کیا کیاخرابیاںہیں؟مَیں معاشرہ ہوں اور کوئی مانتا ہے یا نہیں ہم سب معاشرہ ہیں ،ہم اپنے اندر جھانکیں، اندر دیکھیں کہ خدا نے جو یہ آفاقی احکامات مقرر کئے ہم ان پہ کس حد تک عمل پیرا ہیں-

﴿۲۱----- مُمانعت:-

بارھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٰ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًاo

’’اور ﴿اے انسان!﴾ تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے ﴿صحیح﴾ علم نہیں، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بات تمہارے ذمے نہیں، جس کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑ جاؤ،بے شک تمہارے کانوں سے، تمہاری آنکھوں سے اور تمہارے دل یعنی تمہارا سوچنے کا جو آلہ ہے’’ فواد‘‘ دماغ بھی کہا جاتا ہے اور اسے دل بھی کہا جاتاہے اس سے حساب لیا جائے گا ،بد نظری نہ کرو،براخیال ،چھپی شہوت، آقاپاکﷺ  کی حدیث مبارک ہے آپ نے فرمایا مجھے اپنی امت سے یہ خدشہ نہیں ہے کہ یہ چانداور ستاروں کی اور آگ کی اوربتوں کی پوجا کرنے لگیں مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائیں گے، یا رسول اللہﷺ  شرکِ خفی آپ نے فرمایاکہ یہ اپنی خفیہ شہوت کی پیروی کریں گے ،جو شخص بد نظری میں مبتلا ہو ،بد خیالی میں ،بد گمانی میں مبتلاہو تاہے اللہ تبارک تعالیٰ اسے نا پسند فرماتا ہے- آدابِ معاشرت اللہ نے مقررفرمائے -

﴿۳۱﴾ تکبّر ترک کرنے اور اِنکساری اِختیار کرنے کی تلقین :-

اور تیرھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ

﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًاo

’’اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بے شک تو زمین کو ﴿اپنی رعونت کے زور سے﴾ ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ﴿تو جو کچھ ہے وہی رہے گا﴾-‘‘

بے شک تم تکبر سے چل کے، اکڑ کے چل کے، نہ زمیں کو پھاڑ سکتے اور نہ پہاڑ سے بلند ہو سکتے ہو-

میرے بھائیو اور بزرگو! یہ تیرہ ﴿۳۱﴾ احکامات قرآن کریم کی صرف ایک سورۃ سے اس کی متصل آیا ت سے میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں جن میں معاشرت بھی ہے، معیشت بھی ہے ،سیاست بھی ہے، عدل بھی ہے، تجارت بھی ہے اور قرآن نے ہر چیز کے احکامات مقرر کئے اور مَیں نے شروع سے جوبات کہی تھی کہ ہمارا دین ،دینِ فطرت ہے اور یہ شروع سے آخر تک ہر بات کا احاطہ کرتا ہے، یہ شروع سے آخر تک ہربات کو ساتھ لے کرچلتا ہے، اس کا تصورِ خدا آفاقی ہے، اس کا تصورِ انسان آفاقی ہے، اس کا تصورِ کائنات آفاقی ہے، اس میں جزوی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے جو مانے گا وہ پورے دین کو مانے گا، جو منحرف ہو گا وہ پورے دین سے منحرف ہوگا ،درمیان کا کوئی راستہ نہیںہے کہ ہم کچھ احکامات کو مان لیں اور بعض احکامات کو چھوڑ دیں ایسا نہیں ہو سکتا - مغرب کے تصورِ دین میں اور ہمارے تصورِ دین میں فرق ہے، ان کا تصورِ دین، ان کا تصورِ خدامختلف ہے ہمارا تصور خدا مختلف ہے -ہمارا خدا اپنے اسمائ حسنہ میں ہمیںیہ بتاتا ہے کہ مَیں مالک ہوں-

﴿مٰ لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo

’’روزِ جزا کا مالک ہے-‘‘

﴿ بِیَدِہِ الْمُلْکُ﴾

’’ جس کے دستِ ﴿قدرت﴾ میں ﴿تمام جہانوں کی﴾ سلطنت ہے-‘‘

اس کے ہاتھ میںیہ ملک ہے، اس کے ہاتھ میںیہ کائنات ہے ،وہ چلانا چاہے گا اس کائنات کو ،وہ حق رکھتا ہے اس کائنات کو چلانے کا -

﴿المقتدر﴾

’’اقتدار اس کا حق ہے -‘‘

﴿العدل﴾

’’عدالت اس کا حق ہے-‘‘

 ترازو اس کاہے، حکم اس کا ہے، پیغام اس کا ہے، نظام اس کا ہے، ہمارے پاس کوئی اختیا نہیںہے کہ ہم اس کی حاکمیت میں مداخلت کریں ،انسان اس زمین پہ حاکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نائب ہوتا ہے، اللہ کا خلیفہ ہوتاہے ،اس لئے دین جزوی اور فرد کا نجی معاملہ نہیںہے، دین فرد کا مکمل معاملہ ہے اگر اگر کوئی فرد دین کے کسی ایک بھی حکم سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو قرآن وسنت سے بغاوت کرتاہے ،وہ قرآن وسنت سے غداری کرتا ہے-

آج بد قسمتی یہ ہے کہ منبر و محراب نے بھی دین کو محدود کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی ، کیونکہ ہمارے خطبا و واعظین کے عمومی طور پہ پسندیدہ موضوعات اِختلافی عقائد ہوتے ہیں اور جو اس سے آگے بڑھے وہ فضائل سے آگے نہیں بڑھتا - بہت کم ایسے خطبا و واعظین جامع مساجد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے خطابات و مواعظ میں لوگوں کو عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی تلقین کرتے ہوں اور اخلاقیات کا درس دیتے ہوں - کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان چاروں چیزوں کو اکٹھا رکھا ہے ہے - مثلاً اگر سورہ البقرہ شریف کی آیت نمبر ۷۷۱ میں جھانکیں تو قرآن پاک کی ترتیب و تعلیم سمجھنے میں دشواری نہیں رہتی -

 سورہ البقرہ آیت ۷۷۱ میں فرمایا

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٰنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٰ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰ ہَدُوْاج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِط اُولٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاط وَاُولٰٓ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo

نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر اور آخرت پر اور فرشتوں پر اور ﴿اﷲ کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اﷲ کی محبت میں ﴿اپنا﴾ مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور ﴿غلاموں کی﴾ گردنوں ﴿کو آزاد کرانے﴾ میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی ﴿تنگدستی﴾ میں اور مصیبت ﴿بیماری﴾ میں اور جنگ کی شدّت ﴿جہاد﴾ کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo

آئمۂ تفسیر نے کئی بلکہ کثیر روایتوں کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی ایک جانب چہرہ کر لیا جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے بلکہ اللہ د کے نزدیک اصل نیکی آیت میں بیان کردہ تمام امور و احکامات کو بجا لانے کا نام ہے - اِس آیت میں جو مشرق و مغرب کی جانب منہ پھیرنے کا کہا گیا ہے تو اس سے متعلق عہدِ نزول بھی مدِّ نظر رہے کہ یہ اُس زمانے میں آیت نازل ہوئی ﴿حضرت عبد اللہ ابن عباس ص کے قول کے مطابق ﴾ جب ابتدائے اسلام تھی اور کوئی شخص جب اللہ د کی وحدانیت اور نبی پاک شہہِ لولاک کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دیتا تو کسی بھی سمت رُخ کر کے نماز ادا کر لیتا ، اگر اسی معمول پہ اُسے موت آ جاتی تو اس کیلئے جنت لازم ہوتی - ہجرت کے بعد جب مسجد الحرام شریف کو قبلہ بنا دیا گیا اور اللہ د نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ یہ احکامات بجا لانا ، اِن پہ عمل پیرا ہونا اصل نیکی ہے - اِس آیت کے اَحکامات دو حِصّوں پہ مشتمل ہیں : ایک کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوقِ معاشرت سے ہے - امام جلال الدین سیوطی دُرِّ منثور میں نقل فرماتے ہیں کہ اِس آیت کے متعلق امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو میسرہ رحمۃاللہ علیہم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ﴿من عمِل بھٰذہ الآیۃ فقد استکمل الایمان﴾ یعنی ’’جس نے اِس آیت پر عمل کیا پس تحقیق اُس نے اپنے ایمان کو پایۂ تکمیل پہ پہنچا دیا‘‘ - اِسی طرح اِس آیت سے متعلّق علامہ ابن کثیر نے حضرت سُفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ ﴿ھذہ انواع البر کلھا﴾ ’’اِس آیت میں نیکی کی ہر قسم کو بیان کر دیا گیا ہے ‘‘ - اگر دیکھا جائے تو یہ آیۂ شریفہ دینِ مبین اور فلسفۂ نیکی پہ نہایت جامع بیان ہے جس میں ایک عام آدمی کی زندگی کے ہر پہلُو ، ہر جانب ، ہر طرف اور ہر جہت کو واضح کردیا گیا ہے - بطورِ خاص پانچ پہلو قابلِ غور ہیں :

﴿۱﴾ فلسفۂ نیکی/ فلسفۂ دین ؟ دین صرف عبادات کا مرقع نہیں ﴿۲﴾ ایمان ؟﴿اللہ پر و دیگر ﴾  ﴿۳﴾ مُعاملات ؟ رشتہ داروں ، یتیموں و دیگر کے حقوق کا بیان ﴿۴﴾ عبادات ؟ نماز و زکوٰۃ کا حکم ﴿۵﴾ اَخلاق ؟ سختی ، تکلیف ، میدان میں استقامت اختیار کرنا

پہلے حصہ ﴿لیس البر﴾ سے لیکر ﴿ولکن البر﴾ تک اِس بات کا بیان ہے کہ دین فقط و فقط عبادات کے مرقع کا نام نہیں ہے اور نہ ہی انفرادی و ذاتی معاملہ - دوسرے حصہ میں ﴿من اٰمن﴾ سے لیکر ﴿النبیّین﴾ تک ایمان کا اصول بیان ہوا - تیسرے حصہ میں ﴿آتی المال﴾ سے لیکر ﴿و فی الرقاب﴾ تک معاملات و معاشرت کو بیان فرمایا ﴿﴿الرقاب﴾ سے مراد زیادہ تر مفسرین نے غلاموں کو آزاد کرنا لیا ہے جبکہ بعض مفسرین اور کئی فقہا نے اِ س سے مراد قیدی بھی لئے ہیں کہ قیدیوں کو قید سے آزاد کروانے کیلئے مال خرچ کیا جائے ﴾ - چو تھے حصہ میں صلوٰۃ و زکوۃ کا ذکر فرمایا - جبکہ پانچویں حصہ میں ﴿و الموفون﴾ سے لیکر ﴿المتقون﴾ تک اخلاقیات کے تقاضے بتائے

اَخلاق کے حصہ میں تین چیزوں پہ بالترتیب فرمایا گیا ہے کہ صبر کرنے والے ہوں ﴿البأسا﴾ یعنی غربت ، تنگدستی ، افلاس ، بے مائیگی، فاقہ کشی ﴿الضرّأ﴾ یعنی مرض ، مصیبت ، دُکھ ، رنج ، تکلیف اور تیسرا ﴿حین البأْس﴾ یعنی راہِ جہاد میں قتال کے وقت - اِن تینوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے ، شدتِ فاقہ و غریبی میں صبر بے حد مشکل ہے لیکن اس مرض اور دُکھ میں صبر کرنا اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے جبکہ وقتِ قتال میدانِ کار زار میں صبر کرنا مرض پہ صبر کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ قتال میں شدّت نہ اختیار کی جائے تا کہ بوڑھے ، بچے ، خواتین ، بے گناہ اور معصوم لوگ محفوظ رہیں - جہاں یہ بات قوانینِ جنگ و جدال کا حصہ ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اِس کو اخلاقیات کا حصہ بھی بنا دیا ہے کہ قوانینِ جنگ سے تجاوز کرنا اسلام کے اخلاقی تصور کے منافی ہے - نیز قتال میں شدت نہ کرنے والے کو دُہرا ثواب ملے گا ، جس طرح کہ ﴿ذوی القربیٰ﴾ کے متعلق آقا ﷺ کے فرامین بکثرت موجود ہیں کہ اس بات پہ صدقہ کرنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے - ایک تو صدقہ کا اجر ملتا ہے اور دوسرا اقربا کو دینے کا اجر ملتا ہے ، اِسی طرح اِس حدیث پاک کو اگر قتال والے حصہ پہ لاگو کیا جائے تو جہاں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر مجاہد کو ملے گا وہیں معصوم ، بے گناہ ، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تلوار کی کاٹ سے محفوظ رکھنے کا اجربھی ملے گا -

آج آقا پاکﷺ  کے میلاد مبارک پہ اگر ہم بیٹھے ہیں ،اس میں ہمارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ترین عمل یہ ہے ، ہمارے اوپر لازم اور واجب یہ ہے کہ ہم نے اپنا احتساب کرنا ہے کہ جس ہستی کی آمد کی خوشی ہم منارہے ہیں اس سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کہاں تک پختہ ہیں؟

چوں می گویم مسلمان بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لاالٰہ را

’’جب مَیں یہ کہتا ہوںکہ مَیں مسلمان ہوں تو مَیںلرز اٹھتا ہوں کیونکہ مَیں لاالٰہ کی مشکلات کوجانتا ہوں -‘‘

یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

میرے نوجوان ساتھیو! مَیں آخری گزارش کررہا ہوں، آقا پاکﷺ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر