ہمارا المیہ رول ماڈل

ہمارا المیہ رول ماڈل

ہمارا المیہ رول ماڈل

مصنف: محمد ذیشان دانش مئی 2017

ہیرو کے لغوی معنی بہادر کے ہیں جبکہ اصطلاحی معنی میں ہیرو ایسا آدمی ہے  جو کوئی بھی مشکل کام اپنی بہادری اور ذہانت کو روئے کار لاتے ہوئے آسانی،یا بغیر مشکل،یا اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بھی کو ئی مخصوص کام کر گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہواور ایسا کر گزرتا ہو،ہیرو کہلاتا ہے-لیکن ہیرو کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع اور جامع ہے مثلاً ہر وہ انسان جو دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرے،جو نسلوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لے،قوم کو فکری سطح پر بالغ کر دے،جو رہنمائی کرے،جو مخلص اور سچے لوگ پیدا کرےاور سب سے بڑھ کر وہ جس کے  ہر اچھا انسان جو حق کی خاطر آواز بلند کرے باالفاظ دیگر جو مثبت سوچ اور کردار کا مالک ہو اور سینے میں درد بھرا دل رکھتا ہو ہیرو کہلانے کے لائق ہے-لیکن افسوس! کہ دنیا بشمول ہمارے معاشرے میں ہیرو کے معنی و مفہوم بالکل بدل چکے ہیں،اس کی بڑی وجہ انٹرٹینمنٹ میڈیا میں ہیرو کی صورت گری ہے-انٹرٹینمنٹ میڈیا کی بے پناہ مقبولیت کے بعد ہیرو کے معنی اور مفہوم میں خوبرو، دلکش، چرب زبان،بانکا سجیلا،جدید لباس زیب تن کرنے والا خواہ اس میں وہ عریاں ہی کیوں نہ ہو رہا ہو،اقدار کو چیلنج کرنے والا،جنس مخالف کے لئے بے پناہ کشش رکھنے والا، چکمہ دینے والا، بے جا و بے پناہ آزادی کا طرفدار وغیرہ وغیرہ-

یعنی انٹرٹیمنٹ کی چکا چوند نے جیسا چاہا ویسا لبادہ کسی کردار کو پہنا دیا پھر اسے ہیرو کا درجہ دے دیااور اس پر المیہ یہ کہ ہم نے اسے ہیرو مان لیا اور اس سے بڑھ کر یہ ہم ان کی مشابہت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کا سا انداز بنانے کے درپے ہو تے ہیں، ان جیسا دکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی یہ کَہ دے کہ جناب آج تو آپ فلاں اداکار جیسے لگ رہے ہیں یا فلاں جیسے ڈیشنگ لگ رہے ہیں تو ہم فخر سے اِتراتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے-افسوس!کا مقام ہے کہ ہمارا لباس اور انداز اب فلمی و انٹرٹینمنٹ دنیا کے مرکزی کرداروں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے،اگر ہمارے پسندیدہ ہیرو کے بال دراز ہیں تو ہمارے بال بھی لمبے ہوں گے،اگر اس نے بال ترشوا دیئے ہیں تو ہم بھی بال چھوٹے کر لیں گے،یہی حال لباس کے ساتھ بھی ہے اوراندازِ گفتگو کا بھی، ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ہم اس کی نقالی کیوں کر رہے ہیں؟کیونکہ ہمارے پاس رول ماڈل نہیں، ہم کس کو آئیڈیالائز کریں ، کون اس لائق ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں، ہم اس جیسا دکھنے کی کوشش کریں، ہم اس کا انداز گفتگو اپنائیں،اس سوچ کی کمی بلکہ غیر موجودگی کے باعث انٹرٹینمنٹ دنیا کے لوگوں کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں-سب سے پہلے تو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ انٹرٹینمنٹ کی دنیا اگر کسی کو ہیرو بنا کر پیش کر رہی ہے، ہمیں بار بار چند مخصوص چہرے دکھا کر یہ باور کروا رہی ہے کہ یہ یہ ہیرو ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟  ہم اس شخص کو ہیرو مان رہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ انٹرٹینمنٹ ایک خالص کاروبار ہے جس میں جو اچھا دکھتا ہے وہ بکتا ہے جو بکتا ہے وہ منافع بنانے میں مددگار ہوتا ہے اور ایک کاروباری فرد یا ادارے کے لئے منافع سے زیادہ کو ئی چیز اہم نہیں ہوتی-اس کے حصول کے لئے وہ کچھ بھی کرتا ہے ہماری نفسیات سے کھیلتا ہے،ہمیں خوبرو چہرے،دلکش انداز،جدیداورقیمتی اشیاء دکھاتا ہے، ایک  آئیڈلائز و مثالی تصور گری کر تا ہے جس میں کہانی ساز خود ہی کسی کردار کو کسی خاص حالات میں گھیرتا ہے اور خود ہی اس کو ان حالات سے باہر نکالتا ہے،پردہ سکرین پر یا ٹیلی ویژن پر ہم اس کو دیکھتے ہوئے اس کی ذہانت یا اداکاری و صداکاری اور اس کی باڈی لینگوئج  کے قائل ہو جاتے ہیں-اس  کی اداکاری، اس کے ڈائیلاگ یا مکالمے،اس کی باڈی لینگوئج اکثر ہماری اقدار سےمیل نہیں کھا رہی ہوتیں، لیکن ہم نا سمجھی میں اس اداکار سے نہ صرف متاثر ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ نا چاہنے کے باوجود اس پیغام کو جو اس کی زبان سے مکالمے کی صورت میں،یا اس کی اداکاری میں تاثرات کی صورت میں ہم تک پہنچ رہا ہوتا ہے اس کو لا شعوری طور پر مان رہے ہوتے ہیں-  مثال کے طور پر ہم ایک مسلمان معاشرہ ہیں اور ہماری اقدار و رواج میں خواتین سر کو دوپٹے یا چادر سے ڈھانپ کر رکھتی ہیں،لیکن جو فلمیں اورڈرامے ہمارے معاشرے میں بن رہے ہیں،ان  کے مرکزی کرداروں میں ایک ہیروئن ضرور ہوتی ہے اگر ان کے کرداروں اور ان کے لباس پر غور کیا جائے تو ہم باآسانی یہ جان سکتے ہیں کہ آہستہ آہستہ دوپٹہ ان کے لباس سے غائب ہو چکا ہے-اس لئےجس چیز کو ہم مسلسل دیکھتے ہیں اس کا کچھ نا کچھ اثر ہم پر ضرور پڑتا ہے،اب ذرا معاشرے پر نظر دوڑائیں اور تقابلی جائزہ لیں کہ آج سے تقریبا تیس(۳۰) سال پہلے کتنی خواتین بغیر دوپٹے کے گھروں سے باہر آتی تھیں اور اب کتنی آتی ہیں-مَیں شرطیہ کہ سکتا ہوں آج جتنی خواتین بغیر دوپٹے کے گھر سے باہرآتیں ہیں یا دوپٹہ نہ اوڑھنے کو معیوب نہیں سمجھتیں ان کی تربیت ان خواتین کے ہاتھوں ہوئی ہے جنہوں نے کبھی شاید ہی دوپٹہ سر سے اتارا ہو،لیکن وہ نظریاتی طور اس بات کو اگلی نسل تک منتقل نہیں کر سکیں اور سانپ کو پر یہ لگے  کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا کی گھر گھر موجودگی، جس نےاپنا کاروبار چمکانے اور منافع کمانے کی خاطر ہماری اخلاقیات و ثقافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا-اسی طرح کچھ یہی حال مرد حضرات کا بھی ہے جنہوں نے میڈیا کے اثرات کو قبول کر لیا-

یہ تحریر یہ سوچ اُجاگر کرنے کے لئے ہے کہ ہم سوچیں کہ ہیرو کون ہوتا ہے،کیا یہ لوگ جو فرضی کرداروں کو نبھانے والے ہیں جس کے عوض یہ لاکھوں روپے کا معاوضہ اینٹھ لیتے ہیں، یا کوئی اور جس کا ہمیں ادراک نہیں ہے، مارکیٹنگ میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے پوزیشننگ  کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ اگر کسی پراڈکٹ یا شئے کا نام لیا جائے تو اس  شئے کے کس برانڈ کانام صارف کے ذہن میں آتا ہے-کمپنیوں کے بار بار اشتہار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے-  مثال کے طور پر اگر پوچھا جائےکہ کوئی سے تین  بناسپتی گھی یا کوکنگ آئل کے نام لیں؟ تو جو پہلے نمبر پر آیا ہے اس کی پوزیشن مضبوط ہے آپ کے ذہن میں جو دوسرے نمبر پر آیا اس کی کچھ کم اس طرح بیسیوں بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل کے برانڈ ہیں،ان میں سے تین جو آپ کے ذہن میں ہیں ان کی پوزیشن مضبوط ہے باقیوں کو آپ شاید اچھا نہیں سمجھتے یا ان کو اتنا قابل ذکر نہیں سمجھتے کہ ان کو خریدا جائے، ایسا ہی ایک تجربہ اپنے اردگرد رہنے والے دس (۱۰)افراد سے یہ سوال پوچھ لیں کہ آپ اپنے پسندیدہ تین ہیروز کا نام لیں؟ اور دیکھیں کہ جواب مین کتنے لوگ ٹیپو سلطان، حیدر علی،سراج الدولہ،علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) اور قائداعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ)کا نام لیتے ہیں اور کتنے بالی وڈ اور ہالی وڈ کے اداکاروں کا-نتائج جان کر آپ کو افسوس ہو گا!کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کسی مردِ کامل کو اپنا آئیڈیل، اپنا ہیرو مانتا ہو- یقیناً یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے لیکن اس سے بھی افسوس ناک مقام یہ ہے کہ موجودہ نسل اور آنے والی نسل کو اس انٹرٹینمنٹ میڈیا کے عفریت سے،اس کی تباہ کاریان جان لینے کے باوجود، بچانے کے لئے اہل درد و صاحبان فراست کی جانب سے کو ئی اقدام نہیں ہو رہا،دست بستہ گزارش ہے کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہو گا،اس کا مقابلہ کرنا ہو گا- ورنہ ہماری اگلی  نسل کے بچے سپرمین، بین ٹن، سپائڈر مین،برقعہ وینچر، کیموناچی، سپائڈر مین،ننجا ٹارٹلز موٹو پتلو،کو اپنا ہیرو سمجھتے رہیں گےاور ہمارے نوجوان  خانوں، کپوروں، کماروں،اور بچنوں کے سحر میں گرفتار ان کو ہی اپنا ہیرو مانتے رہیں گے-

ہمیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ)کی’’سچائی‘‘ کو، حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی ’’ھو‘‘ کو، سراج الدولہ کی دور اندیشی کو، ٹیپو سلطان کی حریت کو،محمود غزنوی کی ’’شجاعت‘‘ کو، قائد کی ’’محنت‘‘ کو  اقبال کے ’’افکار‘‘کو،  ایک بار پھر سے اپنی آئندہ نسلوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ، ان کے  موجودہ ہیرو کے تصور کو بدلنا ہو گاکیونکہ یہی ہماری بقاء کا راز ہے- ہمیں وہ اُسوہ و نمونۂ عمل  اُن میں اُجاگر کرنا ہے جس کی تلقین ہمیں پیدا کرنے والے سچے رب نے فرمائی ہے :

’’لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘[1]

’’بے شک تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ)کی ذات میں بہترین نمونہ ہے‘‘-

٭٭٭


[1](الاحزاب:۲۱)

ہیرو کے لغوی معنی بہادر کے ہیں جبکہ اصطلاحی معنی میں ہیرو ایسا آدمی ہے  جو کوئی بھی مشکل کام اپنی بہادری اور ذہانت کو روئے کار لاتے ہوئے آسانی،یا بغیر مشکل،یا اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بھی کو ئی مخصوص کام کر گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہواور ایسا کر گزرتا ہو،ہیرو کہلاتا ہے-لیکن ہیرو کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع اور جامع ہے مثلاً ہر وہ انسان جو دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرے،جو نسلوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لے،قوم کو فکری سطح پر بالغ کر دے،جو رہنمائی کرے،جو مخلص اور سچے لوگ پیدا کرےاور سب سے بڑھ کر وہ جس کے  ہر اچھا انسان جو حق کی خاطر آواز بلند کرے باالفاظ دیگر جو مثبت سوچ اور کردار کا مالک ہو اور سینے میں درد بھرا دل رکھتا ہو ہیرو کہلانے کے لائق ہے-لیکن افسوس! کہ دنیا بشمول ہمارے معاشرے میں ہیرو کے معنی و مفہوم بالکل بدل چکے ہیں،اس کی بڑی وجہ انٹرٹینمنٹ میڈیا میں ہیرو کی صورت گری ہے-انٹرٹینمنٹ میڈیا کی بے پناہ مقبولیت کے بعد ہیرو کے معنی اور مفہوم میں خوبرو، دلکش، چرب زبان،بانکا سجیلا،جدید لباس زیب تن کرنے والا خواہ اس میں وہ عریاں ہی کیوں نہ ہو رہا ہو،اقدار کو چیلنج کرنے والا،جنس مخالف کے لئے بے پناہ کشش رکھنے والا، چکمہ دینے والا، بے جا و بے پناہ آزادی کا طرفدار وغیرہ وغیرہ-

یعنی انٹرٹیمنٹ کی چکا چوند نے جیسا چاہا ویسا لبادہ کسی کردار کو پہنا دیا پھر اسے ہیرو کا درجہ دے دیااور اس پر المیہ یہ کہ ہم نے اسے ہیرو مان لیا اور اس سے بڑھ کر یہ ہم ان کی مشابہت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کا سا انداز بنانے کے درپے ہو تے ہیں، ان جیسا دکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی یہ کَہ دے کہ جناب آج تو آپ فلاں اداکار جیسے لگ رہے ہیں یا فلاں جیسے ڈیشنگ لگ رہے ہیں تو ہم فخر سے اِتراتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے-افسوس!کا مقام ہے کہ ہمارا لباس اور انداز اب فلمی و انٹرٹینمنٹ دنیا کے مرکزی کرداروں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے،اگر ہمارے پسندیدہ ہیرو کے بال دراز ہیں تو ہمارے بال بھی لمبے ہوں گے،اگر اس نے بال ترشوا دیئے ہیں تو ہم بھی بال چھوٹے کر لیں گے،یہی حال لباس کے ساتھ بھی ہے اوراندازِ گفتگو کا بھی، ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ہم اس کی نقالی کیوں کر رہے ہیں؟کیونکہ ہمارے پاس رول ماڈل نہیں، ہم کس کو آئیڈیالائز کریں ، کون اس لائق ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں، ہم اس جیسا دکھنے کی کوشش کریں، ہم اس کا انداز گفتگو اپنائیں،اس سوچ کی کمی بلکہ غیر موجودگی کے باعث انٹرٹینمنٹ دنیا کے لوگوں کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں-سب سے پہلے تو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ انٹرٹینمنٹ کی دنیا اگر کسی کو ہیرو بنا کر پیش کر رہی ہے، ہمیں بار بار چند مخصوص چہرے دکھا کر یہ باور کروا رہی ہے کہ یہ یہ ہیرو ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟  ہم اس شخص کو ہیرو مان رہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ انٹرٹینمنٹ ایک خالص کاروبار ہے جس میں جو اچھا دکھتا ہے وہ بکتا ہے جو بکتا ہے وہ منافع بنانے میں مددگار ہوتا ہے اور ایک کاروباری فرد یا ادارے کے لئے منافع سے زیادہ کو ئی چیز اہم نہیں ہوتی-اس کے حصول کے لئے وہ کچھ بھی کرتا ہے ہماری نفسیات سے کھیلتا ہے،ہمیں خوبرو چہرے،دلکش انداز،جدیداورقیمتی اشیاء دکھاتا ہے، ایک  آئیڈلائز و مثالی تصور گری کر تا ہے جس میں کہانی ساز خود ہی کسی کردار کو کسی خاص حالات میں گھیرتا ہے اور خود ہی اس کو ان حالات سے باہر نکالتا ہے،پردہ سکرین پر یا ٹیلی ویژن پر ہم اس کو دیکھتے ہوئے اس کی ذہانت یا اداکاری و صداکاری اور اس کی باڈی لینگوئج  کے قائل ہو جاتے ہیں-اس  کی اداکاری، اس کے ڈائیلاگ یا مکالمے،اس کی باڈی لینگوئج اکثر ہماری اقدار سےمیل نہیں کھا رہی ہوتیں، لیکن ہم نا سمجھی میں اس اداکار سے نہ صرف متاثر ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ نا چاہنے کے باوجود اس پیغام کو جو اس کی زبان سے مکالمے کی صورت میں،یا اس کی اداکاری میں تاثرات کی صورت میں ہم تک پہنچ رہا ہوتا ہے اس کو لا شعوری طور پر مان رہے ہوتے ہیں-  مثال کے طور پر ہم ایک مسلمان معاشرہ ہیں اور ہماری اقدار و رواج میں خواتین سر کو دوپٹے یا چادر سے ڈھانپ کر رکھتی ہیں،لیکن جو فلمیں اورڈرامے ہمارے معاشرے میں بن رہے ہیں،ان  کے مرکزی کرداروں میں ایک ہیروئن ضرور ہوتی ہے اگر ان کے کرداروں اور ان کے لباس پر غور کیا جائے تو ہم باآسانی یہ جان سکتے ہیں کہ آہستہ آہستہ دوپٹہ ان کے لباس سے غائب ہو چکا ہے-اس لئےجس چیز کو ہم مسلسل دیکھتے ہیں اس کا کچھ نا کچھ اثر ہم پر ضرور پڑتا ہے،اب ذرا معاشرے پر نظر دوڑائیں اور تقابلی جائزہ لیں کہ آج سے تقریبا تیس(۳۰) سال پہلے کتنی خواتین بغیر دوپٹے کے گھروں سے باہر آتی تھیں اور اب کتنی آتی ہیں-مَیں شرطیہ کہ سکتا ہوں آج جتنی خواتین بغیر دوپٹے کے گھر سے باہرآتیں ہیں یا دوپٹہ نہ اوڑھنے کو معیوب نہیں سمجھتیں ان کی تربیت ان خواتین کے ہاتھوں ہوئی ہے جنہوں نے کبھی شاید ہی دوپٹہ سر سے اتارا ہو،لیکن وہ نظریاتی طور اس بات کو اگلی نسل تک منتقل نہیں کر سکیں اور سانپ کو پر یہ لگے  کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا کی گھر گھر موجودگی، جس نےاپنا کاروبار چمکانے اور منافع کمانے کی خاطر ہماری اخلاقیات و ثقافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا-اسی طرح کچھ یہی حال مرد حضرات کا بھی ہے جنہوں نے میڈیا کے اثرات کو قبول کر لیا-

یہ تحریر یہ سوچ اُجاگر کرنے کے لئے ہے کہ ہم سوچیں کہ ہیرو کون ہوتا ہے،کیا یہ لوگ جو فرضی کرداروں کو نبھانے والے ہیں جس کے عوض یہ لاکھوں روپے کا معاوضہ اینٹھ لیتے ہیں، یا کوئی اور جس کا ہمیں ادراک نہیں ہے، مارکیٹنگ میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے پوزیشننگ  کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ اگر کسی پراڈکٹ یا شئے کا نام لیا جائے تو اس  شئے کے کس برانڈ کانام صارف کے ذہن میں آتا ہے-کمپنیوں کے بار بار اشتہار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے-  مثال کے طور پر اگر پوچھا جائےکہ کوئی سے تین  بناسپتی گھی یا کوکنگ آئل کے نام لیں؟ تو جو پہلے نمبر پر آیا ہے اس کی پوزیشن مضبوط ہے آپ کے ذہن میں جو دوسرے نمبر پر آیا اس کی کچھ کم اس طرح بیسیوں بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل کے برانڈ ہیں،ان میں سے تین جو آپ کے ذہن میں ہیں ان کی پوزیشن مضبوط ہے باقیوں کو آپ شاید اچھا نہیں سمجھتے یا ان کو اتنا قابل ذکر نہیں سمجھتے کہ ان کو خریدا جائے، ایسا ہی ایک تجربہ اپنے اردگرد رہنے والے دس (۱۰)افراد سے یہ سوال پوچھ لیں کہ آپ اپنے پسندیدہ تین ہیروز کا نام لیں؟ اور دیکھیں کہ جواب مین کتنے لوگ ٹیپو سلطان، حیدر علی،سراج الدولہ،علامہ اقبال(﷫) اور قائداعظم محمد علی جناح (﷫)کا نام لیتے ہیں اور کتنے بالی وڈ اور ہالی وڈ کے اداکاروں کا-نتائج جان کر آپ کو افسوس ہو گا!کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کسی مردِ کامل کو اپنا آئیڈیل، اپنا ہیرو مانتا ہو- یقیناً یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے لیکن اس سے بھی افسوس ناک مقام یہ ہے کہ موجودہ نسل اور آنے والی نسل کو اس انٹرٹینمنٹ میڈیا کے عفریت سے،اس کی تباہ کاریان جان لینے کے باوجود، بچانے کے لئے اہل درد و صاحبان فراست کی جانب سے کو ئی اقدام نہیں ہو رہا،دست بستہ گزارش ہے کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہو گا،اس کا مقابلہ کرنا ہو گا- ورنہ ہماری اگلی  نسل کے بچے سپرمین، بین ٹن، سپائڈر مین،برقعہ وینچر، کیموناچی، سپائڈر مین،ننجا ٹارٹلز موٹو پتلو،کو اپنا ہیرو سمجھتے رہیں گےاور ہمارے نوجوان  خانوں، کپوروں، کماروں،اور بچنوں کے سحر میں گرفتار ان کو ہی اپنا ہیرو مانتے رہیں گے-

ہمیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ)کی’’سچائی‘‘ کو، حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی ’’ھو‘‘ کو، سراج الدولہ کی دور اندیشی کو، ٹیپو سلطان کی حریت کو،محمود غزنوی کی ’’شجاعت‘‘ کو، قائد کی ’’محنت‘‘ کو  اقبال کے ’’افکار‘‘کو،  ایک بار پھر سے اپنی آئندہ نسلوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ، ان کے  موجودہ ہیرو کے تصور کو بدلنا ہو گاکیونکہ یہی ہماری بقاء کا راز ہے- ہمیں وہ اُسوہ و نمونۂ عمل  اُن میں اُجاگر کرنا ہے جس کی تلقین ہمیں پیدا کرنے والے سچے رب نے فرمائی ہے :

’’لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘[1]

’’بے شک تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ)کی ذات میں بہترین نمونہ ہے‘‘-

٭٭٭



[1](الاحزاب:۲۱)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر