فکرِسُلطان الفقرسیمینار

فکرِسُلطان الفقرسیمینار

فکرِسُلطان الفقرسیمینار

مصنف: ادارہ اکتوبر 2016

صدارت: صاحبزادہ سُلطان احمدعلی

(چیئرمین مسلم انسٹیٹوٹ چیف ایڈیٹر "مراۃ العارفین"، مرکزی سیکرٹری جنرل "اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین")

مہمانانِ گرامی (Panelists)

حاجی محمد احمد خان

(اصلاحی جماعت کےابتدائی ساتھی، کھمبی، ضلع گجرات)

گلنواز خان

(دیرینہ و قریبی ساتھی، ضلع میانوالی)

احمد رضا

(پروگرام منیجر مسلم انسٹیٹوٹ، اسلام آباد)

رانا تجمل حسین

(ایم پی اے، پنجاب اسمبلی، حضور بانی اصلاحی جماعت کے معتمد و جانثار ساتھی)

قاضی محمد اظہر ایڈوکیٹ

(دیرینہ و قریبی ساتھی، سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ایبٹ آباد)

 

افتتاحی کلمات : از صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

واجب الاحترام بھائیو، بزرگو، نوجوان ساتھیو ! انتہائی قابل احترام پینل کے ممبران ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مَیں سب سے پہلے آپ تمام ساتھیوں کو پاکستان کے اُنہترویں (69) یوم آزادی اور سُلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ  یہ کے اُنہترویں (69) یوم ولادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں- یہ تقریب اسی حوالے سے انعقاد پذیر ہے - مَیں "اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین" ضلع لاہور کی تنظیمی و دعوتی باڈی، اور "مراة العارفین" کی سپورٹنگ  (supporting) ٹیم اور خاص کر آپ تمام ساتھیوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں- مَیں تمام ساتھیوں کا دلی طور پر شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے - یہ پروگرام خاص کر نوجوانوں کے لئے ہے- اس میں آپ کو جو چند سفید ریش نظر آئیں گے وہ بھی دراصل جوان ہیں کیونکہ اُن کے حوصلے، عزم، ارادے جوان ہیں - اصل جوانی حوصلے اور عزم کی ہے- جیسا کہ سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ :-

مَیں قربان تنہاں تو باھو جنہاں عشق جوانی چڑھیا ھو

اصل جوان تو وہ ہے جس کا عشق جوانی چڑھتا ہے- اس تقریب کے طریقہ کار  (format) کے حوالے سے  ماڈریٹر صاحب نے تفصیل سے  آپ کو بتایا ہے اور یہ پروگرام  اسی اعتبار سے آگے چلے گا- مَیں آپ  اور مقررین کے درمیان زیادہ دیر حائل نہیں رہوں گا ،صرف ایک دو چیزوں کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ بانیٔ اِصلاحی جماعت  سُلطان الفقر ششم ، حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ کے وجودِ مسود کا پاکستان کے دن اس دنیا میں ظہور کرنا پاکستان کی آئیڈیالوجی  (Ideology)   کے ساتھ بڑی مطابقت رکھتا ہے- ایک تو اس کی مطابقت یہ ہے کہ پاکستان بھی ایک روحانی بشارت پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور سُلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ کا وجودِ مسعود بھی ایک روحانی بشارت ہے اور جو پیغام آپ کی ذاتِ پاک نے دیا ہے ، پاکستان کا آئین آپ سے اس بات کا وعدہ  (promise) کرتا ہے- اس انسانی معاشرہ کی بھلائی کے لئے اس ریاست کا وجود تشکیل کیا گیا ہے جو کہ قراردادِ مقاصد میں ایک مقصد کے طور پر درج ہے- سُلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہ  ) کا مشن اور دعوت بھی انسانیت کی بھلائی، بہتری اور فلاح و بقا کے لئے ہے-

پاکستان کی تخلیق کے  خواب دیکھنے والے ، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کی بنیاد فلسفہ پر رکھی - یہ اس مُلک کی ایک خوبصورت بات ہے کہ اس مُلک نے ایک فلسفیانہ بحث سے جنم لیا ہے- اگر آپ خطبہ "الہٰ آباد" کا مطالعہ کریں جس میں علامہ اقبال نے یہ مطالبہ ایک فلسفیانہ بحث کے نتیجہ (conclusion)  کے طور پر کیا تھا- لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی حالات کا ستم تھا کہ پاکستان اسلامیانِ ہند کی مجبوری بن گیا تھا- سیاسی حالات کا ستم اپنی جگہ پر تھا اس کا انکار(deny)  نہیں کیا جاسکتا لیکن اس ستم ِسیاسی حالات  (circumstances)  سے زیادہ علامہ اقبال کے پیشِ نظر مسلمانوں کا فلسفیانہ تصور تھا اور ایک فلسفے پر اس مُلک کی بنیاد رکھی گئی- جب مجھے اس بات کی سمجھ آئی تو مَیں بڑا حیران ہوا کہ اس فلسفے میں علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) نے واضح طور پر (categorically)  یہ بات کی جس سے آپ کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور مذہبی ’’سٹیٹس کو‘‘کو   بالکل اختلاف ہو گا کیونکہ ان کے مفاد کو زک پڑتی ہے- بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس بات پر آپ سے کہیں کہ آپ کو تو دین کے بنیادی عقائد کی تفہیم نہیں ہے- اِس لئے مَیں اسے اپنے طور پر پیش کروں یا نہ کروں لیکن علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کے اقتباس کے طور پر اس کو نقل (quote) کروں گا- علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کے مطابق جس طرح کی پاپائیت عیسائیت میں ہے اُس پاپائیت کو اسلام میں مُلائیت کہتے ہیں- علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ جس طرح کی پاپائیت عیسائیت میں تھی مسلمان سکالرز اِس سے بہت متاثر  (inspire) ہوئے اور اُنہوں نے اسی طرح کی پاپائیت کو اسلام میں بھی پیدا کر دیا-  حالانکہ اسلام میں اس چیز کی گنجائش بہت مشکل سے ملے گی- آپ کا جو موجودہ ایک سسٹم اور مذہبی ڈھانچہ  (religious structure)  بنا ہوا ہے اِس کے لئے علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ مَیں جو ریاست تجویز کرتا ہوں اس میں اس طرح کی پاپائیت کی گنجائش نہیں ہوگی - خود قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی فرمایا تھا کہ:-

Let it be clear that Pakistan is going to be a Muslim state based on Islamic ideals. It was not going to be an ecclesiastical state. 

 یعنی یہ پاکستان ایک مُلائی سٹیٹ نہیں بن رہا بلکہ یہ اسلامک آئیڈیلز  (islamic ideols) پر قائم ایک ریاست بن  رہا ہے-

مُلائیت اور حقیقی اسلام میں فرق یہ ہے کہ ملائیت ایک خاص طبقے کے علاوہ کسی کو اپنے اندر  نہیں ٹھہرا (accomodate) سکتی- اِس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں- اِس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ اگر آپ ایک خاص عقیدہ  (certain believe)  سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ شریعت کی تشریح (interpretation) اُس اعتقاد کے مطابق کریں گے-آپ اجتماعی نقطہ نظر اختیار ہی نہیں کر سکتے- تاریخ میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہ اجمعین) کے آثار اور مزارات تیرہ سو (1300) برس تک موجود رہے لیکن 1925ء کے بعد جو کچھ "عرب"  میں ہوا ہے وہ آپ سب نے دیکھا ہے یہ ایک خاص اعتقاد کا نتیجہ ہے اِسی طرح آپ کو تہران میں چرچ اور کنیسا مل جائیں گے مگر سنی العقیدہ مسلمانوں کی مسجد نہیں ملے گی یہ بھی ایک خاص اعتقاد کو ہی حق اور باقیوں کو باطل سمجھنے کا نتیجہ ہے - اس سے مراد کسی کی ڈسکریمینشن کرنا ہر گز ہرگز مقصود نہیں بلکہ ان دو انتہاؤں کا حوالہ اس لئے دیا کہ یہ واضح ہو جائے کہ ملائیت اس کو کہتے ہیں جہاں آپ اپنے خاص عقیدہ کے علاوہ دوسروں کے لئے کوئی گنجائش نہ رکھتے ہوں اور انہیں کسی بھی طرح اکاموڈیٹ کرنے پہ رضامند نہ ہوں - ہر آدمی اپنی مرضی کا اپنے ایمان و خیالات کے قریب تر عقیدہ اختیار کرتا ہے مگر اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دوسروں کو بھی ریاستی اختیار یا بندوق کی نالی پہ اپنے عقیدہ کو اختیار کرنے پہ مجبور کرے - اگر آپ یہ کہیں کہ یہ ایک اسلامی ریاست کا اسلامی تصور ہے چاہے تہران والا یا عرب والا ،  تو تیرہ سو سال سے اُمت کے سوادِ اعظم کا جو اسلامی تصور موجود رہا ہے کیا  وہ باطل تھا ؟ پھر آپ اس کا فیصلہ کیسے کریں گے؟ اِس لئے اُس طرح کی ملائیت میں  گھٹن تھی تو قائد اعظم نے برملا یہ کہا کہ ہم اسلامک آئیڈئیلز پہ بُنیاد رکھیں گے جو کہ سب کو اکاموڈیٹ کرے جس میں کوئی ڈسکریمینیشن نہ ہو جس میں گھٹن نہ ہو اور جبر نہ ہو - کیونکہ وہ قرآن پہ گہری نظر رکھتے تھے - ملائیت کی تنگ نظری اور کم ظرفی کی حدیں محدود ہیں  جبکہ قرآن کریم آپ کی آزادانہ سوچ کو اتنا بلند کرتا ہے کہ آپ جتنا اَوج کرنا چاہتے ہو کرتے چلے جاؤ-

مجھے یاد ہے کہ 2007ء میں برادرم رانا تجمّل حسین صاحب جو اس تقریب کے آغاز کار (initiative) بھی ہیں- یہ رانا صاحب کا تصور اور تخیّل تھا کہ اس طرح سے ایک تقریب ہونی چاہیے جس کو ایک فکری نشست میں تبدیل کیا جائے- 26 دسمبر 2007ء کو بندہ ناچیز نے اس حوالے سے چند گزراشات کی تھیں کہ ہمیں سُلطان الفقر ششم بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب )قدس اللہ سرّہ  (کے پیغام کو دیکھنے کی ضرورت ہے- اگر مکمل طور پر آپ اس پیغام، مشن کا جائزہ  (analyses) لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی پوری طرح ایک فلسفے سے پھوٹا ہے- یہ حادثاتی طور پر نہیں بنا- مَیں فلسفے کا طالب علم نہیں ہوں اگر فلسفے کا طالب علم اس بات پر تحقیق کرے تو وہ انہی نتائج پر پہنچے گا کہ وہ ایک فلسفہ تھا اور اس فلسفے کی کوکھ سے اس تحریک نے جنم لیا ہے- یہ وہی فلاسفی تھی جو فلاسفی علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) پیش کر رہے تھے کہ اس امت کا وہ وسیع تر نقطہ نظر جو ہمارے آباؤ اجداد، اسلاف اور اکابر کا تھا ، جس میں شدت، تشدد، تعصب، جنگلیت، وحشت اور درندگی نہیں تھی- حضور مرشد کریم نے اس فلسفہ کی بنیاد پر اس تحریک کو شروع کیا - آپ جیسے جیسے اس کا مطالعہ کرتے ہیں ویسے ویسے بالکل علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کی فکر کے مطابق آپ (رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت کے پہلو کھُلتے ہیں- سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہ  )کی تصانیف کو جب آپ نے ایک معیار کے طور پر پیش کیا تو اس کے پیچھے بھی آپ کو یہی فلسفہ کار فرما نظر آئے گا- مثال کے طور پر مَیں ایک دو  چیزیں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حضور مرشد کریم نے جو پہلی چیز اپنے کارکنوں کے اندر پیدا کی اور جس کا درس دیا وہ  طلبِ الٰہی ہے- اُس کی وجہ کیا تھی؟ اُس کی وجہ یہ تھی کہ جب تک وہ طلب نہیں ہے اور اُس طلب میں شدت نہیں ہے تو آپ زندگی میں کوئی بھی عظیم کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے- دین کا احیاء، دین کے صحیح تصور اور صحیح رُخ کو دنیا کے سامنے لے کر آنا ، اپنے بیوی بچے، رشتہ دار، دوست احباب اور معاشرے میں ایک قابلِ عمل طریق سے دین کی اُس صحیح تصویر کو واضح کر نا جس میں تشدد، ظلم، قتل و غارت، تعصب، درندگی، وحشت اور فتنہ فساد نہ ہو تاکہ ان تمام چیزوں سے پاک کر کے دین کو پیش اور معاشرے میں رائج کیا جاسکے-

یہ کام ایسی ارواح ہی کر سکتی ہیں جو بذاتِ خود طلبِ الٰہی میں عشق کی حد تک شدت رکھتی ہوں- اس سے کم درجے پر کوئی روح اس کو مکمل کر ہی نہیں سکتی- حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرّہ  کے دو ابیات کو اگر ملا کر پڑھیں تو آپ کو یہ پورا فلسفہ سمجھ آجاتا ہے- ایک بیت طلب سے متعلق ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ: -

مَیں کوجھی میرا دلبر سوہنا مَیں کیونکر اُس نوں بھانواں ھو
ویہڑے ساڈے وڑدا ناہیں پئی لکھ وسیلے پانواں ھو
ناں میں سوہنی ناں دولت پلے کیونکر یار مناواں ھو
ایہہ دکھ ہمیشاں رہسی باھو روندڑی ہی مر جاواں ھو

 

اب” مَیں کوجھی“ مَیں تو کچھ نہیں ہوں –"کوجھی "وہ ہے  جس کی شکل و صورت میں حسن و جمال نہ ہو- مَیں اُس کو کیسے پسند آجاؤں مَیں کیا ایسا عمل کروں؟ وہ میرے گھر، صحن، اور دل کے دریچے میں داخل نہیں ہوتا -مَیں تو اس کو منا رہا ہوں مگر  وہ آتا ہی نہیں-حُسن بھی نہیں ہے کہ مَیں اُس کو اپنے حُسن سے متاثر کر لوں کہ زُلیخا نے جوان ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو متاثر کرنے کی کوشش کی ، میرے پاس تو حُسن بھی نہیں ہے،ہُنر بھی نہیں ہے ،دولت بھی نہیں ہے یا کوئی ہُنر ہوتا جیسے بلھے شاہ کے پاس ناچنے کا ہُنر تھا، کسی کے پاس تیغ و شمشیر کا ہُنر تھا، کسی کے پاس کلام کا ہُنر تھا اور کسی کے پاس علم کا ہُنر تھا ،اُنہوں نے اپنے اپنے ہُنر سے اُس کو منایا -میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے -کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے مالک کے غم میں روتے یا اُس کو پانے کی حسرت ہی میں ہی زندگی گزرا دوں-  یہ انتہائے طلب ہے کہ لحظہ اُسی کی آس اور پیاس ہے اُس کے سوا کچھ نہیں سوجھتا - وہم و گمان اور فکر و خیال کی دُنیا پہ صرف وہی چھایا ہوا ہے - اپنی کم مائیگی کا پورا احساس جاگزیں ہو گیا کہ کہاں خالق کی لامحدود ہستی ، اور کہاں میں ایک حقیر ادنیٰ سا بندہ بھلا محدود و لامحدود کا اتصال کیسے ممکن ہے ؟ جب طلب شدت و عشق کا یہ پیمانہ حاصل کر لیتی ہے تو پھر اگلا مرحلہ آتا ہے -

اب اُسے پانے کا طریقہ کیا ہے؟ آپ (قدس اللہ سرّہ ) فرماتے ہیں کہ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ:

عشق دی بھاہ ہڈاں دا بالن عاشق بہہ سکیندے ھو
گھت کے جان جگر وچ آرا ویکھ کباب تلیندے ھو
سرگردان پھرن ہر ویلے خون جگر دا پیندے ھو
ہوئے ہزاراں عاشق باھُو پر عشق نصیب کہیندے ھو

"بھاہ" آگ کو کہتے ہیں" ہڈ" ہڈیوں کو کہتے ہیں - عاشق عشق کی آگ میں اپنی ہڈیوں کا ایندھن ڈال کر اُس کو اپنی جان میں "سیکتے" ہیں یعنی اس کی تپش حاصل کرتے ہیں اور اپنے جگر کی بوٹیوں کو نکال کر  اپنی ہڈیوں کے ایندھن سے جلائی گئی آگ پر اُن کو بھونتے ہیں- وہ بیٹھتے نہیں ہیں ، وہ سرگردان ہوجاتے ہیں، وہ اُس کی راہ میں کشتیاں جلا کر، ہر چیز کو ترک کر کے اپنا مقام اور مقصود اس کی ذات کو بنا کر چل پڑتے ہیں- اُن کی سب سے بڑی نشانی ہی یہی ہے کیونکہ عشق، محبت حرکت کا نام ہے ، یہ دِگر گوں ہونا ہے ،یہ عین فطرت ہے اور اللہ پاک کی فطرت بھی یہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ: -

کُلَّ یَومٍ ہُوفی شَانٍ [1]

”وہ ہر (لمحہ) آن نئی شان میں ہوتا ہے“-

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ:-

‘’وَ لَلاٰخِرَةُ خَیر لَّکَ مِنَ الاُولٰی’’ [2]

”اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لئے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے“-

آقا علیہ الصلوٰة و السلام کی عادت مبارک بھی یہی ہے کہ ہر آنے والی گھڑی ہر گزری ہوئی گھڑی سے بہتر ہے - کائنات کی بھی یہی فطرت ہے جیسا کہ اقبال(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ:-

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد
کہ آ رہی ہے صدائے کن فیکون[3]

 

 یہ کائنات ہر لحظہ بدلتی ہے، مومن کی بھی یہی فطرت ہے کہ:-

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان![4]

پھر قوموں کی بھی یہی صفت ہے - اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہی کہا کہ قوموں کی بھی یہی شان ہے کہ: -

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روح اُمم کی حیات کشمکش انقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب[5]

جو قوم ہر لحظہ اپنے عمل کا حساب کرتی ہے ، جو ہر لحظہ بدلتی ہے ان کے بارے میں علامہ اقبال صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ:-


ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ[6]

قومیں اپنی ہیئت اور زندگی کو لحظہ لحظہ تبدیل کرتی ہیں- اِس لئے حضرت سُلطان العارفین صاحب (قدس اللہ سرّہ ) فرماتے ہیں کہ:-

سرگردان پھرن ہر ویلے خون جگر دا پیندے ھو

وہ ہر لحظہ اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہیں -ایک نئی جستجو، طلب، تڑپ، عزم، ولولے، حرارت اور ایک نئے طریقہ کار سے عشق کی آگ اپنے اندر سُلگا کر ہر لحظہ اپنے آپ کو بدلتے ہیں، اپنے اندر بہتری لاتے ہیں، اپنے آپ کو دگر گوں رکھتے ہیں اور ہر لحظہ اپنا تعلق اور رجوع اپنے مالک کی ذات کی طرف رکھتے ہیں - یہ جگر کا وہ خون اور حرارت ہے جس سے آپ کوئی بھی نئی دنیا اور نیا جہان تخلیق کر سکتے ہیں جس کے نقوش اَنمٹ ہوں گے - علامہ اقبال کی نظم "مسجد قرطبہ " کا پہلا بند دیکھیں جس میں علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) نے زمانے اور اس کے ستم کا ذکر کیا ہے کہ:-

سلسلہ روزو شب ، نقش گرِ حادثات
سلسلہ روزو شب ، اصلِ حیات و ممات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روزو شب ، صیرفئ کائنات
اوّل و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا[7]

نیا نقش ہے یا پرانا ہر نقش کی فطرت اور تقدیر مٹ جانا ہے -کوئی نقش باقی نہیں رہتا لیکن ایک نقش باقی رہتا ہے- وہ کونسا نقش ہے؟ علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)ساتھ ہی اپنے اِسی فلسفے کی نفی کرتے ہوئے اگلے فلسفے کا آغاز کرتے ہیں کہ:-

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام7

مرد خدا کا عمل جس میں "رنگِ ثبات دوام "ہے- دوام کسے کہتے ہیں ؟ہمیشہ  (immortal)لافانی، لازوال ، باقی ،ثبات قائم رہنے والا ، مستقل ، اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا ، اپنی جگہ پر ٹکا ہوا ،مستحکم - زندگی کے ایسے نقش میں آپ کو ہمیشہ رہنے کے آثار ملیں گے، لازوال ہونے کے آثار ملیں گے، لافانی(immortal)ہونے کے آثار ملیں گے کہ جس نقش  کو کسی مرد ِخدا نے تمام کیا ہوگا- اس کی وجہ یہ ہے کہ: -

مرد ِ خدا کا عمل ، عشق سے صاحبِ فروغ
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
عشق دم جبرئیل ، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات
عشق سے نور حیات ، عشق سے نارِ حیات7

عشق کی ضرب سے زندگی کا نغمہ پھوٹتا ہے -عشق زندگی کا نور ہے اِس لئے اِس عشق سے جس چیزکو تہہ کیا جاتا ہے وہ نقش "رنگ ثبات ِدوام" اختیار کر لیتا ہے- اسی نظم "مسجد قرطبہ "کے آخری شعر میں علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)فرماتے ہیں کہ:-

نقش ہے سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر7

ایسا نغمہ اس وقت تک نغمہ بنتا ہی نہیں ہے جب تک اس  میں خونِ جگر نہ ہو - اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) فلسفہ کے بارے میں بھی یہی فرماتے ہیں کہ:-

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے[8]

جو فلسفہ خونِ جگر سے نہ لکھاگیا وہ مردہ ہے یا مرنے والا ہے اِس لئے خونِ جگر اِس کی بنیاد ہے-

طلبِ الہٰی ان کے وجود میں وہ حرارت و تپش پیدا کرتی ہے جو اُن سے ایسے کام لیتی ہے جو کام اُن کا ”رنگِ ثبات ِدوام“ بن جاتا ہے ، جو کہیں نہیں مٹ سکتا - جن لوگوں، دوستوں اور ساتھیوں سے ہمارے حضور مرشد کریم نے اِس عظیم ترین مشن کی ڈیوٹی لی ہے آپ نے اُن کی بنیاد ، اُن کی اہلیت، نقطہ سنجی، نقطہ دانی فصاحت و بلاغت، عمارت، دولت اور معاشرتی حیثیت  (social status) کے اعتبار سے نہیں رکھی  بلکہ آپ نے اُس کا معیار طلب ِالہٰی میں استقامت کے جذبے پر رکھا کہ کس کا جذبہ طلب الہٰی میں کتنا کامل ہے اور کون طلبِ الہٰی میں کتنا صادق ہے- سُلطان الفقر ششم  بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سُلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہ ) نے ہمارا جو بنیادی تصور واضح کیا اُس کے بارے میں مَیں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ اُس تصور کو جہاں تک لے جا سکتے ہیں لے جائیں اُس کی کوئی حد نہیں ہے  Sky has no limit "- وہ کسی مقام پر آپ کو مضطرب، منتشر اور لاجواب نہیں ہونے دے گا بلکہ ہر بات کا جواب اُس میں وضاحت (explanation)  سے ہے-

ہمارے ہاں دو چیزیں مذہب اور ثقافت مکس ہیں - اِن میں فرق بہت کم کیا جاتا ہے عموماً ثقافتی روایات کو بسببِ کم علمی یا بسببِ تعصب یہاں مذہب کا درجہ دیا جاتا ہے-علاقے کی روایت اور ثقافت الگ چیز ہوتی ہے اور دین کے احکام بالکل الگ ہوتے ہیں- اِس لئے حضور مرشد کریم  بانیٔ اصلاحی جماعت کی ذات مبارک آپ کو  سُنّت  رسول (ﷺ) کے عین مطابق اُس معیار پر کامل نظر آتی ہے کہ جہاں ایک طرف آقا (ﷺ) نے عرب ثقافت سے اپنا تعلق استوار رکھا وہیں دوسری طرف آقا (ﷺ) نے احکامِ دین کو بھی واضح فرمایا - اِس بات کو قرآن و  سُنّت  کے اسلوبِ بیان نے واضح کر دیا کہ ثقافت کے بدلنے سے دین کے احکام نہیں بدلتے اور نہ ہی ثقافت دین کو متاثر (influence) کر سکتی ہے- ثقافت الگ موضوع ہے اور دین الگ موضوع ہے –

ثقافتی نقطۂ نظر کے اعتبار سے بھی حضور مرشد کریم کے کئی خوبصورت پہلو ہیں -مثلاً آپ کی شخصیت کا یہ پہلو ، یہ مَیں ثقافتی اعتبار سے کہہ رہا ہوں ، کہ آپ پاکستان کے چاروں صوبوں کا لباس پہنتے تھے- مثلاً بلند شملہ والی دستار، بغیر شملہ کے دستار، چترالی ٹوپی، سندھی ٹوپی، اُونی ٹوپی، تہبند وغیرہ- اِن کے علاوہ آپ "لُنگی "استعمال فرماتے تھے جو پنجاب کی ایک خاص روایت ہے-  ہر لباس آپ نے استعمال کیا -پھر آپ کی جو ثقافت جس میں نیزہ بازی، روایتی گھوڑوں کی high step walk، گھوڑوں کی ورزش اور گھوڑوں کی تیاری کے لئے اُن کے ڈانس کے مختلف اقدام ہیں ، ان تمام اُمور پر آپ نے توجہ فرمائی- یہ ایسے پہلو تھے جن کے ذریعے آپ نے اُن لوگوں تک ابلاغ فرمایا کہ جو لوگ عموماً مساجد میں نہیں آتےتھے- رانا تجمل صاحب نے ایک دن بہت خوبصورت بات فرمائی کہ بعض دفعہ آپ کو ایسے حوصلہ والے مبلغ بھی رکھنے پڑتے ہیں کہ جو میکدے میں جا کر بھی تبلیغ کر سکیں کیونکہ جو مئے کش ہے وہ تو مسجد میں نہیں آتا اور جو زاہد ہے وہ مئے کدے میں نہیں جاتا- لہٰذا اَیسے مبلغ کی بھی ضرورت ہے جو مئے کشی نہ کرے مگر مئے کشو ں کے ساتھ بیٹھ کر اُن کو بھی کتاب و  سُنّت  کا اور  حضور مرشد پاک کا پیغام دے سکے-

اِس ماہِ اگست کے شمارے میں "مرآة العارفین "میں اِس پہلو پر بہت ہی خوبصورت روشنی ڈالی گئی ہے کہ آقا (ﷺ)خود اسلام کے ابتدائی دور میں عرب کے ثقافتی میلوں میں تشریف لے جاتے تھے- بیعتِ عقبہ، عقبہ اُولیٰ، عقبہ ثانیہ، عقبہ کُبریٰ میں آقا (ﷺ)کی اہل مدینہ سے بنیادی ملاقاتیں "عرب" کے مختلف میلوں وغیرہ میں ہوئیں جو اُن کی ثقافت سمجھی جاتی ہے- اُس کے علاوہ عرب کے معروف میلوں میں آقا(ﷺ)تشریف لے جاتے اور اُن میں صحیح طبیعت، صحیح نیت اور اچھی عادات کے مالک یعنی عاداتِ سلیمہ رکھنے والے لوگوں کو تلاش کرکے اُن کو پیغامِ الہٰی عطا فرماتےتھے- اِسی طرح بہت سے ایسے لوگ "اصلاحی جماعت " میں شامل ہیں جو جماعت کا پیغام، کتاب کا درس، تقریر اور وعظ و نصیحت سن کر نہیں آئے بلکہ اُن لوگوں نے حضور مرشد کریم کو میلے اور نیزہ بازی کے جلسے میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہاں جس طرح آپ نے شریعت محمدی (ﷺ)کی پاسداری فرمائی تو آپ کے اخلاق، طبیعت ِکریمانہ نے اُن کو متاثر کیا - مبلغین کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو شکار، گھوڑ سواری اور نیزہ بازی سے متاثر ہو کر حضور مرشد پاک کی سنگت میں آئی- اِس لئے آپ کی شخصیت جہانِ علمی، فلسفیانہ نقطہ نظر، دینی و مذہبی نقطہ نظر،روحانی و تصوف کے نقظہ نظر اور فقر و ولایت کے نقطہ نظر سے ہمیں اَوجِ ثریا پر فائز نظر آتی ہے وہیں حضور مرشد کریم کی شخصیت اپنے معاشرے کے اعتبار سے مکمل اور جامع شخصیت ہے جو کسی بھی دنیا دار اور دین دار کو یکساں متاثر کرتی ہے اور یہی ایک شخصیت کی خوبصورتی ہوتی ہے- آخر میں جو مہمانِ گرامی تشریف لائے ہیں اُن کا مختصر تعارف پیش کرنا چاہوں گا-رانا تجمل حسین صاحب، آپ تیسری بار پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں اور حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں آپ کو بہت زیادہ قربت و رفاقت کا موقع میسررہا  - مَیں نے جن دنیا داروں کی بات کی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پاس کئی ساتھی تبلیغ کے لئے گئے اور رانا صاحب کو تبلیغ کرنے کی بجائے وہ رانا صاحب سے تبلیغ لے کر آئے اور کئی لوگوں نے مجھے یہ کہا ہے کہ ہم آپ کے مرشد پاک کو اس لئے مانتے ہیں کہ انہوں نے راناتجمل جیسی شخصیت میں انقلاب پیدا فرما دیا- ہمارے درمیان تشریف فرما حاجی احمد خان صاحب موجودہ ضلع گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ عرصہ ضلع جہلم کا بھی حصہ رہے ہیں - حضور دادا مرشد پاک حضرت سُلطان عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سُلطان شریف رحمۃ اللہ علیہ "کھمبی" اور" کھوہاڑ "کے علاقوں میں تشریف لے جاتے تھے- حاجی صاحب بہت ہی ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں- ان کے اور میرے لئے یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ جو اس دعوتی سلسلہ میں اصلاحی جماعت کا پہلا قافلہ حضور مرشد کریم نے عطا فرمایا تھا ،حاجی صاحب اُس پہلے قافلہ میں شامل تھے-اسی طرح قاضی اظہر احمد ایڈوکیٹ صاحب ہمارے درمیان تشریف فرما ہیں- آپ ہزارہ ،ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریباً وہاں کی معروف  تحریکوں، چاہے وہ سیاسی تحریکیں ہوں یا عدالتی، میں آپ کا بڑا قائدانہ کردار رہا ہے - سیاسی تحریک میں بھی قاضی صاحب عملی طور پر رہے ہیں اور وہاں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (District Bar Assosiation)کے صدر بھی رہے ہیں اور جماعت پاک کے ساتھ بھی ان کی اور ان کے پورے گھرانے کی بہت ہی طویل وابستگی اور نسبت ہے - حضور مرشد کریم اور اُن کے بعد حضور جانشین سُلطان الفقر سُلطان محمد علی صاحب کی بہت ہی زیادہ شفقت اور کرم نوازی قاضی صاحب کےساتھ شامل حال رہی ہے خاص کر جب حضور مرشد کریم  نے اتحاد ِاُمتِ مسلمہ کی سعی کا آغاز فرمایا تو اس کی مشاورت اور معاونت میں قاضی صاحب کی بہت خدمات ہیں – ان کے ساتھ تشریف فرما حکیم گل نواز خان صاحب ضلع میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں- ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ چند شخصیات جن سے حضور مرشد کریم قدس اللہ سرّہ   مزاح سن کے پسند فرمایا کرتے تھے اُن میں حکیم صاحب ایک ہیں کیونکہ یہ  انتہائی نفیس اور شائستہ مزاح فرماتے ہیں - حضور مرشد پاک جب بیمار ہوتے تھے تو حکیم صاحب کو بہ طور خاص یاد فرماتے کیونکہ اِن پربہت زیادہ اعتماد فرماتے  اور علاج کے بارے میں مشاورت بھی فرماتے تھے- حکیم صاحب کا "میانوالی" میں جماعت پاک کی ترویج ، دربار پاک پر مسجد پاک کی تعمیر اور جماعت پاک کی تشکیل میں بہت کلیدی کردار رہا ہے-حضور مرشد پاک کی ذات گرامی کے ساتھ مشاورت اور آپ کی صحبت، شکار ،گھوڑوں کی تقریبات،جماعت کی تقریبات، اعراس کی تقریبات اور محافل کی تقریبات میں ہمیشہ انہیں ساتھ  رہنا نصیب ہوا ہے- ان کے ساتھ تشریف فرما برادرم احمد رضا صاحب مسلم انسٹیٹیوٹ میں ہمارے کولیگ بھی ہیں اور جماعت پاک کے ساتھ بھی ان کی دیرینہ وابستگی ہے -یہ بھی ایک مضطرب پرندہ تھے کئی تحریکیں،خانقاہیں اور ہر طرح کا لٹریچر انہوں نے پڑھا لیکن انہیں حضور مرشد پاک کی بارگاہ میں پہنچ کر ہی قرار نصیب ہوا –اس کے علاوہ سعی اتحاد امت میں جتنی بھی ٹیکنیکل ٹیم یا رابطہ ٹیم رہی ہے اُس میں اِن کا بڑا بھر پور حصہ ہے-مسلم  انسٹیٹیوٹ کی بنیاد اور اس کی مشاورت میں بھی  رضا صاحب کی بہت قربانیاں شامل ہیں- حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں بھی انہیں قرب کا بہت کرم نصیب رہا ہے-اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر استقامت عطا فرمائے -

ماڈریٹر:

جنابِ صاحبِ صدر نے نہایت خوبصورت گفتگو فرماتے ہوئے فصاحت و بلاغت سے نشست کے اغراض و مقاصد بیان فرما دئیے ہیں- اب مہمانانِ گرامی جن کا تعارف ہو چکا ،میں سے جناب رانا تجمّل حسین صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات سے حاضرین کوآگاہ کریں-

رانا تجمّل حسین صاحب:

آج کا دن میرے خیال میں ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے لئے انتہائی خاص دن ہے کیونکہ14،اگست 1947ء کا دن صرف اِس لئے اہم نہیں تھا کہ اِس دنیا کے نقشہ پر مدینہ ثانی ایک ریاست معرضِ وجود میں آ رہی تھی- مدینہ ثانی مَیں اِس لئے کہتا ہوں کہ پاکستان دنیا کے نقشہ پر نظریات پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے کیونکہ سب سے پہلے جو کلمہ کی بنیاد پر ریاست قائم ہوئی وہ مدینہ منورہ تھی - اس کے چودہ سو سال (1400)بعد جو اسی فکر اور نظریہ پر ایک ریاست قائم ہوئی وہ پاکستان ہے- اب مَیں مماثلت یا مدینہ ثانی اِس لئے کہتا ہوں کہ وہاں پر مسلمانوں نے آقا (ﷺ) کی سربراہی میں مکہ سے ہجرت کی - جس کا نام "یثرب "تھا اُس کا نام "مدینہ منورہ "رکھا گیا- وہاں اسلام کا قلعہ بن گیا- اِسی طرح چودہ سو سال (1400)بعد یہاں آقا (ﷺ) کی ہجرت کی  سُنّت  کو لاکھوں مسلمانوں نے پورا کیا- پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ پاکستان اور مدینہ طیبہ کا مطلب ہے کہ پاک لوگوں کی جگہ- مدینہ منورہ میں آقا (ﷺ) نے مسلمانوں کو ایک خندق کھودنے کا حکم دیا اور انتہائی کم وسائل کے باوجود مسلمانوں نے وہ خندق کھود کر مدینہ کو ناقابل تسخیر بنا دیا- یہاں بھی ایسا ہی ہوا –وہی وسائل کی کمی ، اسباب کی قلت - مگر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور ہم عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنے اور ہم نے اِس دھرتی کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا - یہ ہے وہ مماثلت جس کی وجہ سے مَیں اس کو مدینہ ثانی کہتا ہوں-

 دوسری بات جو اِس (special) دن کو پوری اُمت کے لئے خاص کرتی ہے وہ 14 گست 1947ءکا دن تھا کیونکہ تمام اُمت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزار تھی کہ یہاں مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک بن رہا تھا جہاں وہ عظیم ہستی تشریف لارہی تھی جس نے چودہ سو سال (1400) پہلے کا بھولا ہوا سبق نئی نسلوں تک پہنچانا تھا- میرے مرشد پاک بانیٔ اصلاحی جماعت ، سُلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہ ) اِس دنیا میں تشریف لائے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب نظام، ترتیب، منصوبہ بندی (planning)کے تحت یہ ساری چیزیں معرضِ وجود میں لائی ہیں کیونکہ اچانک کچھ بھی نہیں ہوتا- مَیں آج کے دن کہ حوالہ سے اس دن کو یومِ تجدیدِ عہد بھی سمجھتا ہوں - اِس لئے ایک بار پھر اپنے مرشد کریم کی بارگاہ میں عہد کرنا چاہتا ہوں کہ :-

مَیں دل دی نگری اچ تیرے باجوں
جے کوئی وساواں تے کافر آکھیں
تیڈی چوکھٹ توں ساری زندگی
جے سر اُٹھاواں تے کافر آکھیں
میری پوجا جے گر فرق آوے
تے یار خنجر دی لوڑ کائی نہی
توں اکھ چاں بدلیں تے
مَیں مر نہ جاواں تے کافر آکھیں

 جب مَیں نے نوجوانی میں قدم رکھا سکول سے کالج پہنچے تو کالج میں مختلف تیظیمیں  (organizations)  کام کر رہی تھیں- مَیں نے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کو جوائن کیا- کالج سے یونیورسٹی پہنچے اور لیڈر شپ پنجاب سے ہوتے ہوئے جب اِن سیاسی نظریات سے آگاہ ہو کر ہم نے اپنے وطن جو کہ اقبال کا خواب تھا کہ اِس وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانا ہے - جب اِس فلسفہ پر ہم نے غور کرنا شروع کیا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا؟ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کیا تھی؟ تو اِس کی تعبیر یہ تھی کہ ہم نے جو ملک بنانا ہے تو یہاں پر بیٹھ کر ہم نے پوری ملّت کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور عالمِ اسلام کو لیڈ (lead)کرنا ہے-

یہاں پر ہم نے جو نظام قائم کرنا ہے، زندگی گزارنے کے جو اقدام نافذ کرنے ہیں اُن کی لوگ مثال دیں – یعنی جو آج سے چودہ سو سال (1400) پہلے کا طریق تھا کہ جب کوئی تاجر مدینہ آتا تھا وہ یہودی ہوتا یا غیر مسلم لیکن جب وہ اپنا مال فروخت کرنے مدینہ آتا تھا تو وہ مدینہ کے لوگوں کا اخلاق اور رویہ دیکھ کر واپس جاتا تو وہ اُن کی گفتگو سے متاثر ہوکر کہتا کہ یہ لوگ کتنے ایمان دار اور سچ بولنے والے ہیں- جب مسلمانوں کا کوئی قافلہ تجارت کی غرض سے کسی دوسرے علاقہ میں جاتا تو وہ بھی اپنے اخلاق سے یہ ثابت کرتے کہ ہم لوگوں سے منفرد ہیں- وہ منفرد کس طرح ہوتے تھے؟ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دو طاقتیں ہیں، ایک رحمٰن کی اور دوسری شیطان کی- شیطانی طاقتیں اپنا محور و مرکز مادہ پرستی کو سمجھتی ہیں کہ ہر چیز کا مالک دولت و مال ہے اور رحمٰن کی طاقتیں اپنا محور و مرکز فقط خدا کی ذات کو سمجھتی ہیں اور ان کی سوچ میں باقی سب عام سی چیزیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہر چیز کی مالک ہے-

مَیں جب نظریاتی کشمکش میں مبتلا تھا تو بے شمار کتابیں پڑھیں، بے شمار صحبتوں میں بیٹھے ، سیاسی رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا ، مذہبی سیاست کی دو رنگیوں کا مشاہدہ کیا کئی لوگوں کو بکتے اور خریدتے دیکھا بلکہ خود پراسس کا حصہ رہا ، خانقاہوں کی ریت چھانی اور کئی پیروں کی روحانیت مجھے متاثر کرنے میں ناکام رہی ، خوش الحان واعظوں کو بھی سُنا ، علمی دلائل بھی سُنے اور دیئے بھی ، مگر وہ جو دل کی تشنگی تھی وہ اپنی جگہ موجود رہی - خاص کر دینی حوالے سے مجھ میں بہت تنقید تھی کیونکہ میں اسے سب سے مقدس شعبہ سمجھتا تھا مگر میرے مشاہدات اس کے بالکل الٹ تھے اِس لئے مولویوں اور پیروں کا قائل تو کیا ہونا تھا میں خود کو ان لوگوں کی نسبت زیادہ دین کے قریب محسوس کرتا تھا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ  میں دُنیا دار ضرور ہوں مگر دین فروش نہیں ہوں ، میں نے سٹوڈنٹ لیڈر ہوتے ہوئے تو یہ بہت قریب سے دیکھا تھا کہ کس طرح لوگ اپنی سیاسی اجارہ داری اور اداروں پہ اپنے سیاسی تسلط اور اپنے سیاسی مفاد کے لئے معصوم سادہ لوح بھولے بھالے اور دین سے محبت کرنے والے نوجوانوں کو مشتعل کرتے اور قربان کرواتے  ، میں یہ سمجھتا تھا بلکہ میں آج بھی یہی سمجھتا ہوں کہ سیاست کو سیاست رہنا چاہئے اور سیاست کہنا چاہئے اگر ہم نے اُسے دین کہنا ہے اور اسے دین کا درجہ دینا ہے  تو پھر اپنے معاملات صاف رکھنے چاہئیں جو قرآن شریف اور ہمارے رسول پاک کی تعلیمات کے مطابق ہوں - میں نے لاہور شہر سے چار بار الیکشن لڑا ہے تین بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتا ہے میں یہاں کئی قبضہ گروپوں کو ذاتی طور پہ جانتا ہوں جنہیں مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے بلکہ کئی ایک اُن کے راہنما ہیں - آج کے کئی نامور مذہبی راہنما میرے ساتھ کے سٹوڈنٹ لیڈر تھے اُن کی نجی اور ذاتی زندگی کو میں ان جتنا ہی جانتا ہوں اور اُن کے معاملات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ پردے کے اندر کیا ہے اور پردے کے باہر کیا ہے - اُن میں سے بہت سے لوگوں کو جب ٹی وی سکرینوں پہ اسلام اور اسلامی سیاست کا درس دیتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے ، تعجب بھی ہوتا ہے اور اپنی قوم پہ ترس بھی آتا ہے - اِس لئے مجھے مذہبی اجارہ داروں سے بڑی چڑ تھی اور میں انہیں بالکل ہی غیر ضروری سمجھتا تھا بلکہ مجھے جب کبھی اگر کسی پیر صاحب یا کسی مولانا صاحب سے ملنے کی دعوت ملتی تو فقط تماش بین کے طور پہ چلا جاتا اور الٹے سیدھے سوالوں سے لاجواب  کر کے آ جاتا ، بلکہ کئی میرے دوست جو میری طبیعت اور خیالات کے واقف تھے وہ مجھے ایسی ملاقاتوں پہ لیجاتے ہوئے چپ رہنے اور زبان کی تالا بندی رکھنے کی ہدایتیں کرتے جاتے کہ ایسا ویسا کچھ نہ کرنا  - بہر حال اللہ سائیں کو میرے لئے  کچھ اور ہی منظور تھا  اور اُس کا فیصلہ ہمارے لئے ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے - بات چلتی رہی اور وقت تیزی سے گزرتا گیا - سن اسی  سے لیکر ۱۹۹۶ تک اسی طرح صورتحال رہی -اِسی عرصہ میں تقریباً ۱۹۹۶ یا ۱۹۹۷   میں میرے علاقہ داروغہ والا لاہور میں اصلاحی جماعت کے دوستوں نے مہربانی کی اور سُلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہ ) کے بارے میں متعارف کروایا تو مَیں اور میرے دوست جب دربار شریف پہنچے تو میرے ذہن میں یہی تھا کہ ہم اپنے پرانے طریقہ کار کے مطابق بے شمار عجیب و غریب قسم کے سوال کریں گے- جب پہنچے تو حضور مرشد پاک سے ملاقات نہ ہوسکی - میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا کہ مل کر ہی جائیں گے لیکن معلوم نہیں کب ملاقات ہوگی - رات پھر ہم سوچتے رہے، پلاننگ کرتے رہے اور جب صبح حضور مرشد پاک تشریف لائے تو ہم بھی ملاقات کے لئے ایک لائن میں ہوگئے -لیکن جب مَیں نے حضور مرشد پاک کا چہرہ دیکھا تو مجھے نہ کوئی سوال یاد رہا نہ کوئی جواب ، میری ساری تنقید آپ کی شخصیت کے جلال اور آپ کے چہرے سے واضح نظر آنے والے نور کے سامنے دب گئی ، میرے اندر اُن چند لمحوں میں اتنا زور دار طوفان بپا ہوا کہ اسے بیان نہیں کر سکتا ، بس یوں کَہ سکتا ہوں کہ میرے اندر کی دُنیا ہی بدل گئی مجھے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو گیا ہے - اور یہ تب کی بات ہے جب نہ آپ سے کلام ہوا نہ مصافحہ نہ قرب - میں صرف دور کھڑا آپ کو دیکھ رہا تھا اور لوگ آپ سے مل رہے تھے – اس کے بعد بس ایک شدید خواہش پیدا ہوگئی کہ بیعت ہوجائیں - مَیں نے دوستوں سے درخواست کی حضور مرشد پاک سے کہیں کہ ہمیں بیعت کر لیں تو حضور مرشد پاک نے مہربانی کی اور بیعت فرما لیا- سب سے بڑی بات کہ حضور مرشد پاک کے دربار پاک پر روایتی پیروں والا سلسلہ نہیں تھا کہ مرید آتے ہیں، پیر صاحب سے ملتے ہیں، پیر صاحب اپنا کوئی دم درود تعویذ دھاگہ کرتے ہیں اور مرید چلے جاتے ہیں لیکن دربار پاک پر بالکل ایک علیحدہ نظام تھا - بہترین انتظامیہ  (organization)تھی اور بہترین شہ سوار تھے-  پھر اس کے بعد مرشد پاک کے ساتھ رہنے اور سفر کرنے کے موقعے جب ملے اور مزید قریب سے آپ کو دیکھا تو پھر سمجھ آئی کہ وہ اندر میں  طوفان کیسے آیا تھا اور میرے جیسے دنیا دار آدمی میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی - ایسا لجپال اور چہرے پہ ، نظروں میں اور  دل میں اتنا نور رکھنے والا مرشد مل جائے تو ایسی تبدیلی آ جانا کوئی بڑی بات نہ تھی - میری خوش قسمتی کہ مجھے ایسا مرشد نصیب ہوا - میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میرے ساتھ بھی واقعہ میاں رحمت فقیر رحمۃ اللہ علیہ والا ہوا ہے کہ لینے کچھ آیا تھا عطا کچھ ہو گیا - آیا وہ چوری چھپانے تھا لیکن عطا فقر ہو گیا - میں بھی آیا تنقید کرنے اور لاجواب کرنے تھا مگر زندگی کے ہر سوال کا جواب مل گیا -

مَیں نے یہ سنا تھا یا کتابوں میں پڑھا تھا کہ نگاہ سے تقدیریں بدلتی ہیں اور نگاہ کے فیض سے تربیت ہوتی ہے کیونکہ اکثر علماءکرام سے سنا تھا کہ آقا (ﷺ) کے زمانہ میں جاہل، اَن پڑھ، عرب نوجوان جو قریش سے تعلق رکھتے تھے ،آقا (ﷺ)کہ صحبت میں بیٹھتے تھے - وہاں آقا (ﷺ)نے کسی مدرسہ، سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اُن کی تربیت نہیں فرمائی- یہ سب آقا(ﷺ) کی نظر اور صحبت کا کمال تھا کہ جو آپ (ﷺ)کی نظر سے گزرا- اگر کوئی سپہ سالاری میں گیا تو وہ حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) بن گیا، اگر کوئی حکمرانی میں گیا تو وہ حضرت عمر ِفاروق (رضی اللہ عنہ)بن گیا ، اگر کوئی تجارت میں گیا تو وہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)بنا، اگر کوئی سفارت میں گیا تو حضرت جعفر بن طیار (رضی اللہ عنہ)بنا - اسی طرح جس جس نے جس شعبہ زندگی کو بھی اپنایا کامیابی نے اُن کے قدم چومے- آج بھی اگر آپ کسی عسکری یونیورسٹی میں چلے جائیں جہاں فوجی تربیت اور فوجی ٹریننگ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہوں تو دنیا کی کوئی عسکری یونیورسٹی حضرت خالدبن ولید (رضی اللہ عنہ)کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، دنیا کی تمام ایسی یونیورسٹیاں جہاں عدل و انصاف کی تربیت اور قانون پڑھایا جاتا ہے ، دنیا کی کوئی یونیورسٹی حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی - جہاں پر سفارت کاری سکھائی جاتی ہے تو دنیا کی کوئی یونیورسٹی حضرت جعفر بن طیار (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی -تو یہ صلاحیتیں کس بات نے پیدا کر دیں؟ یہ سب کمالات آقا (ﷺ)کی نظر نے پیدا کیے-

یہ آقا (ﷺ) کی نظر کا فیض تھا اور اِس فیض کو اگردیکھا گیا تو صرف اور صرف سُلطان باھُو صاحب (قدس اللہ سرّہ ) کے دربار پاک پردیکھا گیا- وہاں پر مَیں نے اکثر اپنے ساتھیوں کو دیکھا کہ میرے جیسے بے شمار جاہل، گناہ گار اور ظاہری طور پر دیکھنے میں لگتا ہے کہ یہ شاید کلمہ بھی پورا نہ سنا سکے مگر جب اُن سے بات کی جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ آپ کسی بڑے عالم سے گفتگو کر رہے ہیں- تو یہ سارا فیض نظر کا تھا -مَیں نے اِس فیض کواپنے مرشد پاک کے دروازے پر دیکھا- جو جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے شعبہ جات بنائے تھے ، وہ آج اللہ پاک کے کرم سے ایک بین الاقوامی (international) نظام میں تبدیل ہوگئے ہیں- جیسا کہ صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب فرما رہے تھے اور مَیں بالکل یہی سوچ رہا تھا - یہ میرے مرشد پاک کی حکمت بھی تھی کہ یہ جو ہم موجود ہیں یا آج سے دس پندرہ سال پہلے کہ جو ساتھی موجود ہیں تو یہ شاید آخری نسل ہے جو نئی نسل تک حضور مرشد پاک کے پیغام کو پہنچا سکتی ہے- اِس کے علاوہ جو سیٹلائٹ، کمپیوٹر اور سائنس نے جدید تہذیبوں کی جنگ شروع کی ہے جس نے دنیا کو گلوبل ویلیج (global village) بنا دیا ہے اگر اُس میں ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اپنے نظریات اور اپنی قدروں سے واقف نہ کروایا تو شاید ہم اِس تہذیبی جنگوں میں اپنی روایت اور اپنے وجود کو بھی گم کر دیں گے-

اِس لئے مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری نئی نسل حضور مرشد پاک اور علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)کی اُس فکر کو اجا گر کریں کہ ہم نے اپنے وطن کے لئے اقبال کا شاہین بننا ہے جس کے لئے وہ خوبیاں بھی ہمارے وجود میں ہونی چاہیں- آج میڈیا جتنا تیز ہے یعنی ایک دوسرے سے رابطہ جتنا آسان ہے ، اچھی سے اچھی گفتگو کرنے والے لوگ موجود ہیں مگر بات اُسی کی اثر انداز ہوگی جس کا قول اُس کے فعل کی تصدیق کرتا ہوگا اور جس کا عمل اُس کی گفتگو کو ثابت کر رہا ہوگا- انسان کے دل میں جو بڑی برائیاں مثلاً ہوس، حرص، لالچ، منافقت، حسد ہیں ، یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا ظاہری طور پر کوئی ڈاکٹر علاج نہیں کرتااس کا علاج صرف کامل مرشد کی نظر ہی کر سکتی ہے- ہمیں دنیا عالمِ اسلام میں ایک مقام بنانے کے لئے ، اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنے کے لئے اور اِس وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے لئے حضرت سُلطان باھُو(قدس اللہ سرّہ )اور علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کی فکر اور سوچ کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھنا ہے ک

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر