خطبہءصدارت : سہ روزہ بین الاقوامی علامہ محمداقبال کانفرنس

خطبہءصدارت : سہ روزہ بین الاقوامی علامہ محمداقبال کانفرنس

خطبہءصدارت : سہ روزہ بین الاقوامی علامہ محمداقبال کانفرنس

مصنف: اپریل 2018

اس کانفرس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ کی تجدید کی جائے-آج کی دنیا میں اقبال کے نظریات کی اہمیت اور مؤثریت کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ آج کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیں اقبال سے کیا رہنمائی میسر آسکتی ہے اور یہ تجزیہ کیا جائے کہ اکیسویں صدی کے چکا چوندیت کے شکار ماحول اور ’’Glamorous Life Style‘‘ میں اقبال کا پیغام ہمارے وجود میں کیا انقلاب پیدا کر سکتا ہے-

اقبال صرف ایک شخص یا محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اقبال ایک عہد کا نام ہے جس سے کئی عہد پھوٹے- اقبال علم و ادب کی کہکشاں کا ایسا آفتاب صفت سیارہ ہے جس سے ہزاروں قمر روشنی مستعار لیتے ہیں-ہر وہ مرحلہ جہاں عقل و خرد کی پُر پیچ وادیوں میں قدم ڈگمگانے لگیں، اقبال کی فکر مسافر کا ہاتھ تھامنے کو موجود ہوتی ہے-عصرِ جدید میں اسلام کو جتنی زیادہ جہات سے اقبال نے دیکھا ہے شاید ہی کسی دانشور نے اتنی زیادہ عرق ریزی کی ہو-گو کہ ان کی بنیاد ادب و فلسفہ ہیں لیکن مذہب، سیاسیات، قومیت، معاشرت، نفسیات سمیت دیگر کئی جہات پر اقبال کے افکار پھیلے ہوئے ہیں- ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر ہی اقبال کو سمجھا جا سکتا ہے-

اقبال کی شخصیت اور فکر کی جامعیت اور ہمہ گیریت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اقبال کو جامعیت سے سمجھا جائےاور ان کی فکر کو ہمہ گیریت اور ہمہ گیر تناظر سے جھانکا جائے- اقبال کی فکر نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ اقبال نے عالمگیریت کے تصور کا دفاع کیا ہے- افکار کی دنیا جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی ایک ایسے دور میں جب انسان اپنی عالمگیریت کھو رہا تھا اور عالمگیر فکر کی نفی کی جا رہی تھی اس وقت اقبال نے کائنات کے اجتمائی شعور کے نمائندے کے طور پر کردار ادا کیا اور انہوں نے جدید علوم کی روشنی میں شعور کی ایک نئی توجیح پیش کی ایسے میں اقبال جیسے ایک دانشور کی فکر ہمیں اپنی سوچ کے ارتقاء پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم تنہائی اور انفرادیت کا شکار ہونا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کو بلا مقصد سمجھ کر گزارنا چاہتے ہیں؟ یا ایک عالمگیر فکر اور عالمگیر مقصد کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں؟ اقبال فرد کو اسی عالمگیریت سے منسلک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کچھ اور ہی نظر آتا کاروبار جہاں

 

کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی[1]

اقبال کے نزدیک فرد کا مقصدِ حیات اُس عالمگیریت میں اپنے وجود کی اہمیت کا ادراک کرنا اور اُس عالمگیریت کا سب سے تابندہ حصہ ہونا ہے-

نگاہِ شوق اگر نہیں میسر تجھ کو

 

تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

جاوید نامہ میں اقبال نے ’’موجود‘‘و ’’نا موجود‘‘ کے جو سوالات اٹھائے ہیں اُس میں اقبال فرماتے ہیں انسان اپنے وجود اور اپنی حیات کو آفاق میں گم ہوکر شناخت نہیں کرتا بلکہ آفاق کا مظہر اپنے وجود کو بنا کر اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے اور علم و حکمت کے تینوں بڑے موضوعات، انسان، کائنات اور ذاتِ حق کا مشاہدہ انسان اپنے باطن سے کرتا ہے  اور ان تینوں سے اپنے ہونے کی گواہی طلب کرتا ہے- وجود اور موجود کی پہلی گواہی اپنے ہونے کا شعور ہے کہ خود کو خود کے نور سے دیکھا جائے ، دوسری گواہی کائنات کا شعور ہے کہ خود کو کائنات کے نور سے دیکھا جائے اور تیسری گواہی ذاتِ حق کا شعور ہے کہ خود کو ذاتِ حق کے نور سے دیکھا جائے -اقبال فرماتے ہیں کہ اپنا آپ اپنی ذات کے حجم سے نہیں بلکہ اپنے وجود کی چمک سے پہچان کہ اس خاک میں یہ صلاحیت اور تاب موجود ہے کہ اسے خورشید کے روبرو کیا جائے-اگرچہ تو ایک ذرہ ہی کیوں نہ ہو مگر اپنی تاب اور چمک اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے بلکہ اپنی اس چمک کو گرہ میں اور مضبوط رکھ-اے ذرہ خاکی اپنی تاب اور چمک آفاق میں بڑھاتے رہنا تیرے لئے بہتر ہے اور خود کو سورج کے سامنے آزماتے رہنا تیرے لئے بہتر ہے-آخر میں فرماتے ہیں اس طرح سے موجود ہونا قابل تعریف ہے ورنہ زندگی کی آگ سوائے دھویں کے کچھ نہیں-اقبال کی فکر سے تعلق کا کرشمہ یہ ہے کہ آدمی پیکرِ خاکی ہونے کے باوجود اپنا مقام اس کائنات کی عالمگیریت میں بہت ارفع و اعلیٰ جگہ پر تلاش کرتا ہے ناسوتی قید کے باوجود ملکوتی پرواز کے جوہر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا-

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی

 

خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
گھر میرا نہ دلی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
[2]

اب چند ایک باتیں دنیا اسلام اور پاکستان کے متعلق کرنا چاہتا ہوں-آج ہمارا اقبال کے متعلق ’’Perspective‘‘تبدیل ہوتا جا رہا ہے ہم ان کی فکر سے اپنے مطلب کے مطالب اخذ کرتے ہیں اور باقی فکر کو ترک کر دیتے ہیں میرے خیال میں ہمیں اقبال کو اس ’’perspective‘‘ میں سمجھنا چاہئے جس میں قائد اعظم ؒ نے سمجھا تھا اور ہر معاملے میں اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل کی چاہے قانونی،مذہبی، سوشو پولیٹیکل معاملات یا تحریکی معاملات تھے یا عملی طور پر ریئل پولیٹکس کے مسائل تھے قائداعظم نے ہر مسئلے پر علامہ کی فکر سے استفادہ حاصل کیا اور اسی لئے قائداعظم نے فرمایا کہ :

’’میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر مجھے سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں اقبال کا انتخاب کروں گا‘‘-

حضرت قائداعظم خود فرماتے ہیں کہ 23 مارچ جسے قرارداد پاکستان کہتے ہیں جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد خود مختار ملک کے قیام کا مطالبہ تھا وہ اقبال کی تجویز تھی-ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے جغرافیہ کی لکیریں اقبال کے پرکار فلسفہ سے کھینچی گئی ہیں -

نقطہ پرکار حق مردِ خدا کا یقین[3]

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی اساس کو اقبال کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا یہ ملک اقبال کی فکر پر بنا ہےاور اسی فکر پر ہی آگے بڑھنا چاہیے اس فکر کو سمجھے بغیر ہم ان کنفیوژن سے خود کو آزاد نہیں کرواسکتے جو کہ ہمارے درمیان نظریاتی میدان میں پھیلائی جا رہی ہیں-اگر ہم پاکستان کی شناخت کی بات کریں جو کہ اس کے مصور کے نظر میں تھی تو بغیر کسی دھندلاہٹ کے یہ ذہن میں رکھیں کہ اقبال کے نزدیک پاکستان جس لوکیشن پر موجود ہے اس کا تاریخی اور ثقافتی اور جغرافیائی تعلق اپنے عقب میں پھیلے ہند سے نہیں بلکہ اپنے رخ کی جانب پھیلے ہوئے سنٹرل ایشیاء اور اسلامی دنیا سے ہے- جہاں سے اس میں نور توحید کو صوفیاء کرام لے کر یہاں آئے- اس بات کی وضاحت کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے 1930 کے الٰہ آباد سیشن میں پیش کیے گئے اقبال کے معروف خطبہ میں سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا اقبال فرماتے ہیں کہ :

“In point of life and civilization the Royal Commissioners find it more akin to Mesopotamia and Arabia than India. The Muslim geographer Mas'udi noticed this kinship long ago when he said:"Sind is a country nearer to the dominions of Islam… she her has back towards India and face towards central Asia”.

’’شاہی کمیشنر کی رائے میں زندگی اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سندھ ہندوستان کے مقابلے میں عراق اور عرب سے زیادہ ملتا جلتا ہے- عرصہ ہوا مسلمان جغرافیہ دان ابوالحسن المسعودی نے اس مشابہت کو دیکھتے ہوئے لکھا کہ سندھ وہ ملک ہے جو بلادِ اسلامیہ سے قریب تر ہے اس وادی کی پشت ہندوستان کی طرف ہے اور اس کا چہرہ سنٹرل ایشیاء کی طرف ہے‘‘-

اقبال نے جب ہماری شناخت کا مقدمہ لڑا یہ وہ زمانہ تھا جب نیشنلزم کی تشریحات اور ان سے وابستہ تعصبات کا جادو ہندوستان میں سر چڑھ کر بول رہا تھا-ہر قوم میں نیشنلزم کی آگ کو بھڑکایا جا رہا تھا جن میں یہ آگ نہیں تھی انہیں یہ آگ بھڑکانے کے لئے نو آبادیاتی شعلہ زنوں کی جانب سے منتشر تنکے چن کر دیئے جا رہے تھے- جواب شکوہ کا بند ہے:

عہد نو برق ہے، آتش زن ہر خرمن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے

 

ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے[4

یعنی عہد نو میں یہ آگ ہر ایک شجر کی ہر ایک ٹہنی پر سلگ رہی ہے اس سے محفوظ نہ تو صحرائی قومیں ہیں نہ کوہستانی- ہر پرانی شناخت کو بطور ایندھن اس میں جلایا رہا ہے افسوس یہ کہ ’’ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے‘‘یعنی امت اسلامیہ بھی اس نیشنلزم میں با الفاظ دیگر ’’identity‘‘ کمپلیکس میں سلگ رہی ہے ہندوستان کے مسلمانوں کے ہندی وطنیت کے اصرار پہ تنقید کرتے ہوئے جواب شکوہ ہی میں اقبال ارشاد فرماتے ہیں:

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے؎

 

بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں، دين سے بدظن بھی ہوئے

اقبال نے نیشنلزم کے مقابلے میں اسلامی شناخت کی بات کی-چاہے شناخت کی یہ کنفیوژن ہندی مسلمانوں کی تھی، افغانیوں کی تھی یا عربوں کی تھی اقبال نے انہیں ملی تشخص کی جانب رغبت دلائی جیسے عربوں کو مخاطب کر کے بلاتے ہیں:

امتے بودی، اُمم گردیدهٔ

 

بزمِ خود را خود ز هم پاشیدهٔ

’’تم ایک امت تھے مگر اب مختلف قومتیوں میں منقسم ہوگئے تم نے اپنی بزم کو خود ہی منتقر کر دیا‘‘-

هر که از بندِ خودی وارَست، مُرد

 

هر که با بیگانگاں پیوست، مُرد

’’جو اپنایت کا بند توڑ کر غیروں سے مل گیا وہ موت سے ہمکنار ہوا‘‘-

آنچه تو با خویش کردی کس نکرد

 

روح پاکِ مصطفیٰ آمد بدرد![5]

’’جو کچھ تم نے اپنے آپ سے کیا ہے کسی نے نہیں کیا-تمہارے اس طرز عمل سے روحِ پاک مصطفےٰ (ﷺ) تکلیف میں ہے‘‘-

اقبال فرماتے ہیں تم ایک ملت تھے مگر عرب نیشنلزم کی بھینٹ چڑھ گئے اور عرب نیشنلزم کی بھینٹ چڑھ کر کئی ملتوں میں بٹ گئے، تم نے اپنے بزم کی وحدت خود ہی پارہ پارہ کر دی جو تم نے اپنے ساتھ آپ کیا ہے دنیا کی کسی اور قوم نے نہیں کیا تمہاری اس حالت پر روح پاک مصطفےٰ(ﷺ) بے قرار ہے- اقبال عربوں کو یاد دلاتے ہیں کہ تم ایک منتشر قوم تھے جب تم میں کوئی وحدت نہ تھی یاد کرو دنیا کے سامنے تمہیں ایک منظم قوم کے طور پر کس نے شناخت دی تھی،’’ اسلام نے اور محمد عربی(ﷺ) نے‘‘- اقبال نے اس پر حیران کن سوال اٹھائے مثلاً:

اے در و دشتِ تو باقی تا ابد

 

نعرهٔ لا قیصر و کسری که زد؟

’’اے وہ قوم جس کے در و دشت ہمیشہ کے لئے باقی ہیں’’قیصر و کسری‘‘ ختم ہوئے‘‘ کا نعرہ کس نے لگایا تھا؟‘‘

در جهانِ نزد و دور و دیر و زود

 

اولین خوانندهٔ قرآں که بود؟

’’زمان و مکان اس دنیا میں سب سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کون تھے؟‘‘

رمزِ اِلَّا اللہ کرا آموختند؟

 

ایں چراغِ اول کجا افروختند؟[6]

’’الا اللہ‘‘ کی رمز کسے سکھائی گئی تھی؟ یہ چراغ پہلے پہل کہاں سے روشن کیا گیا تھا؟‘‘

اسی لئے نام نہاد عرب نیشنلزم سے اسلامی شناخت کی طرف دعوت دیتے ہوئے اقبال بھوپال کے شیش محل سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں

کرے یہ کافرِ ہندی بھی جُرأتِ گُفتار
یہ نکتہ پہلے سِکھایا گیا کس اُمّت کو؟
نہیں وجود حدود و ثُغُور سے اس کا

 

اگر نہ ہو اُمَرائے عرب کی بے ادبی!
وصال مُصطفوی، افتراق بُولہَبی!
محمدِؐ عَربی سے ہے عالمِ عَربی![7]

اس سے پہلے میں اپنی گفتگو کا اختتام کروں اس کانفرنس کی وساطت سے میں یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں 1917ء میں جو ’’balfour declaration‘‘ کیا گیا تھا اسے اب ایک سو برس مکمل ہو چکے- فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخلی کا منصوبہ اپنی سویں سالگرہ منا رہا ہے اور فلسطینیوں کے وارث امراء علماء لسانی، قبائلی، علاقائی اور فروعی تفرقوں میں الجھے ہوئے ہیں ایک دوسرے کی جان کے در پے ہیں اقبال کی فلسطین سے محبت اور فلسطین کاز سے کمٹمنٹ غیر متزلزل تھی-اقبال کے پیروکار کے طور پر ہم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فلسطین اور قبلہ اول سے اپنی کمٹمنٹ غیر مشروط اور غیر متزلزل رکھیں- میں اقبال کے ان الفاظ اور اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا:

آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی

 

لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں!
وہ مرد جس کا فقر خَزف کو کرے نگیں[8]

٭٭٭


[1](ضربِ کلیم)

[2](بالِ جبریل)

[3](ایضاً)

[4](بانگِ درا)

[5](پس چہ باید کرد)

[6](ایضاً)

[7](ضربِ کلیم)

[8](ایضاً)

اس کانفرس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ کی تجدید کی جائے-آج کی دنیا میں اقبال کے نظریات کی اہمیت اور مؤثریت کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ آج کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیں اقبال سے کیا رہنمائی میسر آسکتی ہے اور یہ تجزیہ کیا جائے کہ اکیسویں صدی کے چکا چوندیت کے شکار ماحول اور ’’Glamorous Life Style‘‘ میں اقبال کا پیغام ہمارے وجود میں کیا انقلاب پیدا کر سکتا ہے-

اقبال صرف ایک شخص یا محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اقبال ایک عہد کا نام ہے جس سے کئی عہد پھوٹے- اقبال علم و ادب کی کہکشاں کا ایسا آفتاب صفت سیارہ ہے جس سے ہزاروں قمر روشنی مستعار لیتے ہیں-ہر وہ مرحلہ جہاں عقل و خرد کی پُر پیچ وادیوں میں قدم ڈگمگانے لگیں، اقبال کی فکر مسافر کا ہاتھ تھامنے کو موجود ہوتی ہے-عصرِ جدید میں اسلام کو جتنی زیادہ جہات سے اقبال نے دیکھا ہے شاید ہی کسی دانشور نے اتنی زیادہ عرق ریزی کی ہو-گو کہ ان کی بنیاد ادب و فلسفہ ہیں لیکن مذہب، سیاسیات، قومیت، معاشرت، نفسیات سمیت دیگر کئی جہات پر اقبال کے افکار پھیلے ہوئے ہیں- ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر ہی اقبال کو سمجھا جا سکتا ہے-

اقبال کی شخصیت اور فکر کی جامعیت اور ہمہ گیریت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اقبال کو جامعیت سے سمجھا جائےاور ان کی فکر کو ہمہ گیریت اور ہمہ گیر تناظر سے جھانکا جائے- اقبال کی فکر نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ اقبال نے عالمگیریت کے تصور کا دفاع کیا ہے- افکار کی دنیا جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی ایک ایسے دور میں جب انسان اپنی عالمگیریت کھو رہا تھا اور عالمگیر فکر کی نفی کی جا رہی تھی اس وقت اقبال نے کائنات کے اجتمائی شعور کے نمائندے کے طور پر کردار ادا کیا اور انہوں نے جدید علوم کی روشنی میں شعور کی ایک نئی توجیح پیش کی ایسے میں اقبال جیسے ایک دانشور کی فکر ہمیں اپنی سوچ کے ارتقاء پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم تنہائی اور انفرادیت کا شکار ہونا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کو بلا مقصد سمجھ کر گزارنا چاہتے ہیں؟ یا ایک عالمگیر فکر اور عالمگیر مقصد کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں؟ اقبال فرد کو اسی عالمگیریت سے منسلک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کچھ اور ہی نظر آتا کاروبار جہاں

 

کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی[1]

اقبال کے نزدیک فرد کا مقصدِ حیات اُس عالمگیریت میں اپنے وجود کی اہمیت کا ادراک کرنا اور اُس عالمگیریت کا سب سے تابندہ حصہ ہونا ہے-

نگاہِ شوق اگر نہیں میسر تجھ کو

 

تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

جاوید نامہ میں اقبال نے ’’موجود‘‘و ’’نا موجود‘‘ کے جو سوالات اٹھائے ہیں اُس میں اقبال فرماتے ہیں انسان اپنے وجود اور اپنی حیات کو آفاق میں گم ہوکر شناخت نہیں کرتا بلکہ آفاق کا مظہر اپنے وجود کو بنا کر اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے اور علم و حکمت کے تینوں بڑے موضوعات، انسان، کائنات اور ذاتِ حق کا مشاہدہ انسان اپنے باطن سے کرتا ہے  اور ان تینوں سے اپنے ہونے کی گواہی طلب کرتا ہے- وجود اور موجود کی پہلی گواہی اپنے ہونے کا شعور ہے کہ خود کو خود کے نور سے دیکھا جائے ، دوسری گواہی کائنات کا شعور ہے کہ خود کو کائنات کے نور سے دیکھا جائے اور تیسری گواہی ذاتِ حق کا شعور ہے کہ خود کو ذاتِ حق کے نور سے دیکھا جائے -اقبال فرماتے ہیں کہ اپنا آپ اپنی ذات کے حجم سے نہیں بلکہ اپنے وجود کی چمک سے پہچان کہ اس خاک میں یہ صلاحیت اور تاب موجود ہے کہ اسے خورشید کے روبرو کیا جائے-اگرچہ تو ایک ذرہ ہی کیوں نہ ہو مگر اپنی تاب اور چمک اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے بلکہ اپنی اس چمک کو گرہ میں اور مضبوط رکھ-اے ذرہ خاکی اپنی تاب اور چمک آفاق میں بڑھاتے رہنا تیرے لئے بہتر ہے اور خود کو سورج کے سامنے آزماتے رہنا تیرے لئے بہتر ہے-آخر میں فرماتے ہیں اس طرح سے موجود ہونا قابل تعریف ہے ورنہ زندگی کی آگ سوائے دھویں کے کچھ نہیں-اقبال کی فکر سے تعلق کا کرشمہ یہ ہے کہ آدمی پیکرِ خاکی ہونے کے باوجود اپنا مقام اس کائنات کی عالمگیریت میں بہت ارفع و اعلیٰ جگہ پر تلاش کرتا ہے ناسوتی قید کے باوجود ملکوتی پرواز کے جوہر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا-

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی

 

خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
گھر میرا نہ دلی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند[2]

اب چند ایک باتیں دنیا اسلام اور پاکستان کے متعلق کرنا چاہتا ہوں-آج ہمارا اقبال کے متعلق ’’Perspective‘‘تبدیل ہوتا جا رہا ہے ہم ان کی فکر سے اپنے مطلب کے مطالب اخذ کرتے ہیں اور باقی فکر کو ترک کر دیتے ہیں میرے خیال میں ہمیں اقبال کو اس ’’perspective‘‘ میں سمجھنا چاہئے جس میں قائد اعظم (﷫)نے سمجھا تھا اور ہر معاملے میں اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل کی چاہے قانونی،مذہبی، سوشو پولیٹیکل معاملات یا تحریکی معاملات تھے یا عملی طور پر ریئل پولیٹکس کے مسائل تھے قائداعظم نے ہر مسئلے پر علامہ کی فکر سے استفادہ حاصل کیا اور اسی لئے قائداعظم نے فرمایا کہ :

’’میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر مجھے سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں اقبال کا انتخاب کروں گا‘‘-

حضرت قائداعظم خود فرماتے ہیں کہ 23 مارچ جسے قرارداد پاکستان کہتے ہیں جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد خود مختار ملک کے قیام کا مطالبہ تھا وہ اقبال کی تجویز تھی-ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے جغرافیہ کی لکیریں اقبال کے پرکار فلسفہ سے کھینچی گئی ہیں -

نقطہ پرکار حق مردِ خدا کا یقین[3]

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی اساس کو اقبال کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا یہ ملک اقبال کی فکر پر بنا ہےاور اسی فکر پر ہی آگے بڑھنا چاہیے اس فکر کو سمجھے بغیر ہم ان کنفیوژن سے خود کو آزاد نہیں کرواسکتے جو کہ ہمارے درمیان نظریاتی میدان میں پھیلائی جا رہی ہیں-اگر ہم پاکستان کی شناخت کی بات کریں جو کہ اس کے مصور کے نظر میں تھی تو بغیر کسی دھندلاہٹ کے یہ ذہن میں رکھیں کہ اقبال کے نزدیک پاکستان جس لوکیشن پر موجود ہے اس کا تاریخی اور ثقافتی اور جغرافیائی تعلق اپنے عقب میں پھیلے ہند سے نہیں بلکہ اپنے رخ کی جانب پھیلے ہوئے سنٹرل ایشیاء اور اسلامی دنیا سے ہے- جہاں سے اس میں نور توحید کو صوفیاء کرام لے کر یہاں آئے- اس بات کی وضاحت کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے 1930 کے الٰہ آباد سیشن میں پیش کیے گئے اقبال کے معروف خطبہ میں سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا اقبال فرماتے ہیں کہ :

“In point of life and civilization the Royal Commissioners find it more akin to Mesopotamia and Arabia than India. The Muslim geographer Mas'udi noticed this kinship long ago when he said:"Sind is a country nearer to the dominions of Islam… she her has back towards India and face towards central Asia”.

’’شاہی کمیشنر کی رائے میں زندگی اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سندھ ہندوستان کے مقابلے میں عراق اور عرب سے زیادہ ملتا جلتا ہے- عرصہ ہوا مسلمان جغرافیہ دان ابوالحسن المسعودی نے اس مشابہت کو دیکھتے ہوئے لکھا کہ سندھ وہ ملک ہے جو بلادِ اسلامیہ سے قریب تر ہے اس وادی کی پشت ہندوستان کی طرف ہے اور اس کا چہرہ سنٹرل ایشیاء کی طرف ہے‘‘-

اقبال نے جب ہماری شناخت کا مقدمہ لڑا یہ وہ زمانہ تھا جب نیشنلزم کی تشریحات اور ان سے وابستہ تعصبات کا جادو ہندوستان میں سر چڑھ کر بول رہا تھا-ہر قوم میں نیشنلزم کی آگ کو بھڑکایا جا رہا تھا جن میں یہ آگ نہیں تھی انہیں یہ آگ بھڑکانے کے لئے نو آبادیاتی شعلہ زنوں کی جانب سے منتشر تنکے چن کر دیئے جا رہے تھے- جواب شکوہ کا بند ہے:

عہد نو برق ہے، آتش زن ہر خرمن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے

 

ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے[4]

یعنی عہد نو میں یہ آگ ہر ایک شجر کی ہر ایک ٹہنی پر سلگ رہی ہے اس سے محفوظ نہ تو صحرائی قومیں ہیں نہ کوہستانی- ہر پرانی شناخت کو بطور ایندھن اس میں جلایا رہا ہے افسوس یہ کہ ’’ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے‘‘یعنی امت اسلامیہ بھی اس نیشنلزم میں با الفاظ دیگر ’’identity‘‘ کمپلیکس میں سلگ رہی ہے ہندوستان کے مسلمانوں کے ہندی وطنیت کے اصرار پہ تنقید کرتے ہوئے جواب شکوہ ہی میں اقبال ارشاد فرماتے ہیں:

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے

 

بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں، دين سے بدظن بھی ہوئے

اقبال نے نیشنلزم کے مقابلے میں اسلامی شناخت کی بات کی-چاہے شناخت کی یہ کنفیوژن ہندی مسلمانوں کی تھی، افغانیوں کی تھی یا عربوں کی تھی اقبال نے انہیں ملی تشخص کی جانب رغبت دلائی جیسے عربوں کو مخاطب کر کے بلاتے ہیں:

امتے بودی، اُمم گردیدهٔ

 

بزمِ خود را خود ز هم پاشیدهٔ

’’تم ایک امت تھے مگر اب مختلف قومتیوں میں منقسم ہوگئے تم نے اپنی بزم کو خود ہی منتقر کر دیا‘‘-

هر که از بندِ خودی وارَست، مُرد

 

هر که با بیگانگاں پیوست، مُرد

’’جو اپنایت کا بند توڑ کر غیروں سے مل گیا وہ موت سے ہمکنار ہوا‘‘-

آنچه تو با خویش کردی کس نکرد

 

روح پاکِ مصطفیٰ آمد بدرد![5]

’’جو کچھ تم نے اپنے آپ سے کیا ہے کسی نے نہیں کیا-تمہارے اس طرز عمل سے روحِ پاک مصطفےٰ (ﷺ) تکلیف میں ہے‘‘-

اقبال فرماتے ہیں تم ایک ملت تھے مگر عرب نیشنلزم کی بھینٹ چڑھ گئے اور عرب نیشنلزم کی بھینٹ چڑھ کر کئی ملتوں میں بٹ گئے، تم نے اپنے بزم کی وحدت خود ہی پارہ پارہ کر دی جو تم نے اپنے ساتھ آپ کیا ہے دنیا کی کسی اور قوم نے نہیں کیا تمہاری اس حالت پر روح پاک مصطفےٰ(ﷺ) بے قرار ہے- اقبال عربوں کو یاد دلاتے ہیں کہ تم ایک منتشر قوم تھے جب تم میں کوئی وحدت نہ تھی یاد کرو دنیا کے سامنے تمہیں ایک منظم قوم کے طور پر کس نے شناخت دی تھی،’’ اسلام نے اور محمد عربی(ﷺ) نے‘‘- اقبال نے اس پر حیران کن سوال اٹھائے مثلاً:

اے در و دشتِ تو باقی تا ابد

 

نعرهٔ لا قیصر و کسری که زد؟

’’اے وہ قوم جس کے در و دشت ہمیشہ کے لئے باقی ہیں’’قیصر و کسری‘‘ ختم ہوئے‘‘ کا نعرہ کس نے لگایا تھا؟‘‘

در جهانِ نزد و دور و دیر و زود

 

اولین خوانندهٔ قرآں که بود؟

’’زمان و مکان اس دنیا میں سب سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کون تھے؟‘‘

رمزِ اِلَّا اللہ کرا آموختند؟

 

ایں چراغِ اول کجا افروختند؟[6]

’’الا اللہ‘‘ کی رمز کسے سکھائی گئی تھی؟ یہ چراغ پہلے پہل کہاں سے روشن کیا گیا تھا؟‘‘

اسی لئے نام نہاد عرب نیشنلزم سے اسلامی شناخت کی طرف دعوت دیتے ہوئے اقبال بھوپال کے شیش محل سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں

کرے یہ کافرِ ہندی بھی جُرأتِ گُفتار
یہ نکتہ پہلے سِکھایا گیا کس اُمّت کو؟
نہیں وجود حدود و ثُغُور سے اس کا

 

اگر نہ ہو اُمَرائے عرب کی بے ادبی!
وصال مُصطفوی، افتراق بُولہَبی!
محمدِؐ عَربی سے ہے عالمِ عَربی![7]

اس سے پہلے میں اپنی گفتگو کا اختتام کروں اس کانفرنس کی وساطت سے میں یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں 1917ء میں جو ’’balfour declaration‘‘ کیا گیا تھا اسے اب ایک سو برس مکمل ہو چکے- فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخلی کا منصوبہ اپنی سویں سالگرہ منا رہا ہے اور فلسطینیوں کے وارث امراء علماء لسانی، قبائلی، علاقائی اور فروعی تفرقوں میں الجھے ہوئے ہیں ایک دوسرے کی جان کے در پے ہیں اقبال کی فلسطین سے محبت اور فلسطین کاز سے کمٹمنٹ غیر متزلزل تھی-اقبال کے پیروکار کے طور پر ہم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فلسطین اور قبلہ اول سے اپنی کمٹمنٹ غیر مشروط اور غیر متزلزل رکھیں- میں اقبال کے ان الفاظ اور اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا:

آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی

 

لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں!
وہ مرد جس کا فقر خَزف کو کرے نگیں[8]

٭٭٭



[1](ضربِ کلیم)

[2](بالِ جبریل)

[3](ایضاً)

[4](بانگِ درا)

[5](پس چہ باید کرد)

[6](ایضاً)

[7](ضربِ کلیم)

[8](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر