بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ

بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ

بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اگست 2016

تحقیقی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری اسلام آباد میں ’’مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ‘‘ کے عنوان سے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد ہوا- جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا جائزہ، کشمیریوں کے موقف کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا اور ان کے ساتھ بھر پور اظہارِ یکجہتی کرنا تھا-

ڈسکشن کی صدارت سابق سفیر جناب سرور نقوی نے کی جب کہ دیگر مقررین میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما جناب الطاف حسین وانی، کنوینئر آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر و پاکستان جناب سید نسیم یوسف اور چئیر مین جناح اقبال فکری فورم رانا عبد الباقی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جب کہ ہیڈ آف انٹرنیشل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ، افک یونیورسٹی انقرہ، ترکی کی پروفیسر ڈاکٹر اویا ایکگوننک نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ جناب احمد القادری نے تحقیقی پریزنٹیشن پیش کی- ڈسکشن میں محققین، یونیورسٹیز کے طلبائ و اساتذہ، سماجی شخصیات اور صحافیوں نے بھی حصہ لیا-

مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:-

کشمیریوں پر گزشتہ قریباً سات دہائیوں پر محیط بھارتی تسلط، جارحیت اور ظلم و بربریت قابلِ مذمت ہے- بھارتی افواج نے بربریت کی حالیہ لہر میں خون ریزی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں جس میں ۶۳ بے گناہ کشمیریوں کو شہیدکیا جا چکا ہے اور ۰۰۲۱ سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں- ڈاکٹرز کے مطابق گذشتہ دنوں سینکڑوں کے تعداد میں افراد کی آنکھوں کی سرجری کی  گئی اور ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا خد شہ ہے کہ یہ تمام لوگ اپنی بینائی کھو سکتے ہیں جس کی وجہ بھارتی فوج کاآنسو گیس، ائیر گن اور ربڑ بلیٹ، کا بے دریغ استعمال ہے-

کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے بھی اس ظلم و جبر سے لپٹی خون ریزی کو غیر آئنی اور غیر قانونی قرار دیا ہے- حالیہ تشویش ناک صورت حال کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے کیونکہ اس نے نہ صرف کشمیر پہ ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے بلکہ ہندوآ باد کاری کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی سماجی ہئیت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے- بھارتی جنتہ پارٹی ﴿BJP﴾ نے اپنی انتخابی مہم میں کشمیر پالیسی کے حوالے سے مختلف اعلانات کئے جس میں آرٹیکل ﴿۰۷۳﴾ میں ترمیم کرنے کا منصوبہ شامل تھا اس آرٹیکل کے تحت بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے-

مئی ۶۱۰۲ئ میں نئی صنعتی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے تحت بھارت کے تاجروں کو کشمیر میں زمین لیز پر لینے کی اجازت ہو گی - اس حکمت عملی کو ترکی خبر رساں ایجنسی نے علاقے کی خود مختاری اور اس کی سماجی و ثقافتی ہیت کو تبدیل کرنے سے منسوب کیا ہے- بھارتی جنتہ پارٹی ﴿BJP﴾ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر کے بازاروں، گلی، محلوں، سٹرکوں ہر جگہ احتجاج شروع ہوا اور اس احتجاجی لہر میں اس وقت شدت آگئی جب نوجوان رہنما برہان وانی بے دردی سے شہید کر دیا گیا-

کشمیریوں کو حقِ خو د ارادیت دینے کی بجائے بھارت اپنے قبضے کو قانونی بنانے کے لیے انتخابات اور کٹھ پتلی حکومتوں کا ڈھونگ رچاتا رہا ہے- بھارت نے کشمیر پہ اپنے تسلط کے دوران لاکھوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا ہے، خواتین کی عصمت دری، گھروں کو مسمار کرنا، نوجوانوں کا لاپتہ ہونا، جھوٹے مقابلے اور بغیر کسی جرم کے کشمیریوں کی گرفتاری معمول کے واقعات ہیں- غیر جانبدار اداروں اور میڈیا پر پابندی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ۷۴۹۱ئ سے لے کر ۹۸۹۱ئ تک ہونے والی ہلاکتوں اور واقعات کا کوئی ٹھوس ریکارڈ حکومت نہیں مانتی -

 مقبوضہ کشمیر میں ۷۸۹۱ئ کے ڈھونگ انتخابات کے بعد تحریکِ آزادی نے شدت اختیار کی جسے کچلنے کے لیے بھارتی افواج نے حق خود ارادیت کے مطالبے کا جواب ظلم و جبر سے دیا-۱۱/ ۹ حملوں کے بعد بھارت نے تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا بھارت نے دہشت گردی کے بہانے کشمیری نوجوانوں کا قتل عام  کیا-تمام تر مظالم اور اُوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کی مسلسل جد و جہد نے دنیا کو حیران کیا ہے-

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ۹۸۹۱ئ سے ۶۱۰۲ئ تک کے عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں ۵۴۳،۴۹ کے لگ بھگ افراد کو شہید کیا گیا ہے جس میں سے ۶۴۰،۷ زیر حراست قتل کے واقعات بھی شامل ہیں- لگ بھگ ۵۱۱،۴۳۱ شہری گرفتار کیے گئے اور ۴۶۰،۶۰۱ عمارتوں کو مسمار یا جلایا گیا، تقریباً ۳۱۸،۲۲ خواتین بیوہ ہوئیں اور ۶۶۵،۷۰۱ بچے یتیم ہوئے اور ۱۸۱،۰۱ عصمت دری اور جبری زیادتی کے گھنائونے واقعات بھی شامل ہیں-

حالیہ دنوں میں شہید ہونے والا برہان وانی کوئی پہلا کشمیری نہیںجو بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہوا بلکہ اس سے پہلے ہزاروں کو شہید کیا جا چکا ہے- بھارتی حکومت رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے جارحیت اور خون ریزی سے کام لے رہی ہے-

 کشمیری رہنما جیسے سید علی گیلانی، شبیر حسین شاہ، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے حتی کہ انہیں یو م شہدا ئے کشمیر منانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی- صحافیوں کو ریاستی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور موبائل اور انٹر نیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں تا کہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں اور جارحیت کا علم نہ ہو سکے-

گذشتہ چند عشروں سے عالمی نظام اپنی اہمیت، اختیار اور عملیت کھو رہا ہے یہ سیاسی یک قطبیت کا شکار ہو رہا ہے - اقوام متحدہ کی قرار داد کو نظر انداز کرنا الگ بات ہے مگر اقوام متحدہ کے بنیادی منشور یعنی حقِ خود ارادیت کے اصول کو ہی یکسر نظر انداز کر دینا فکر انگیز ہے-

 بنیادی اصولوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ ان پہ ثابت قدم رہنا چاہیے، چاہے اس کے لئے اقوامِ عالم کو کتنی ہی کوشش کرنا پڑے- بھارتی حکومت بین الاقوامی رائے اور کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے بد قسمتی سے یک قطبیت کی وجہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہے-

 بھارتی موقف کی ہمیشہ حمایت کی جاتی ہے حالانکہ واشنگٹن اسی بات کی سرکاری طور پر تائید کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے اور امریکہ کی حکومت یہ بھی اتفاق کرتی ہے کہ کشمیریوں کو حتمی طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ مسئلہ کے حل کے لئے بھارت کو مجبور کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی بھارتی حکومت پر دبائو ڈالنے کے حوالے سے آمادہ ہے-

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت محض پروپیگنڈہ ﴿Propaganda﴾ کے ذریعے زمینی حقائق کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور جد و جہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے- حالانکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین بعین کی جانے والی حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کبھی بھی دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتی- اس کے برعکس بھارت خود ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے جو معصوم، نہتے اور لاچار کشمیری لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے- مقررین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دیں- پاکستان ایک عرصے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اسے اپنے مؤقف پہ مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے اور بھارتی ظلم و تشدد پہ بھرپور آواز اٹھانی چاہیے- پاکستان کی عوام کو بھی چاہیے کے کشمیری عوام کی سوشل میڈیا اور دیگر تمام فورمز پہ بھرپور حمایت جاری رکھیں-

مقررین نے بین الاقوامی میڈیا کی مسلسل خاموشی پہ افسوس کا اظہار کیا اور جمہوریت کے علم برداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی بھی مذمت کی کہ وہ بھارتی جارحیت پہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں انہوں نے اسلامی ممالک اور او آئی سی پر بھی زور دیا کہ وہ اپنا مؤثر کردار ادا کریں- بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع بروے کار لاتے ہوئے کشمیر میں کالے قوانین کا خاتمہ کریں خصوصاً کشمیری خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے- مقررین نے صحافیوں کی عالمی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پہ دبائو ڈالیں کہ وہ صحافیوں اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی اجازت دیں تاکہ حقائق دنیا کے سامنے آسکیں- مسلم ممالک کو چاہیے کے وہ اپنے ممالک میں قائم بھارتی دفتر خارجہ میں احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ کشمیریوں پہ ظلم و ستم ختم ہو اور انہیں اپنے حقِ خود ارادیت ملنے میں آسانی ہو- دانشور اور سیاسی رہنما مسئلہ کشمیر کو خطے میں جنگ کی وجہ اور بارود کی بھری بوتل گردانتے ہیں مگر پھر بھی یہ مسٔلہ بین الاقوامی برادری کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کرسکا- مزید ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے- اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس نازک صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے اور بھارت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں پہ ظلم و استبداد کا خاتمہ کرے-

 تحقیقی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری اسلام آباد میں ’’مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ‘‘ کے عنوان سے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد ہوا- جس کا مقصد . مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا جائزہ، کشمیریوں کے موقف کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا اور ان کے ساتھ بھر پور اظہارِ یکجہتی کرنا تھا. 

 

تحقیقی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری اسلام آباد میں ’’مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ‘‘ کے عنوان سے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد ہوا- جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا جائزہ، کشمیریوں کے موقف کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا اور ان کے ساتھ بھر پور اظہارِ یکجہتی کرنا تھا-

ڈسکشن کی صدارت سابق سفیر جناب سرور نقوی نے کی جب کہ دیگر مقررین میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما جناب الطاف حسین وانی، کنوینئر آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر و پاکستان جناب سید نسیم یوسف اور چئیر مین جناح اقبال فکری فورم رانا عبد الباقی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جب کہ ہیڈ آف انٹرنیشل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ، افک یونیورسٹی انقرہ، ترکی کی پروفیسر ڈاکٹر اویا ایکگوننک نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ جناب احمد القادری نے تحقیقی پریزنٹیشن پیش کی- ڈسکشن میں محققین، یونیورسٹیز کے طلبائ و اساتذہ، سماجی شخصیات اور صحافیوں نے بھی حصہ لیا-

مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:-

کشمیریوں پر گزشتہ قریباً سات دہائیوں پر محیط بھارتی تسلط، جارحیت اور ظلم و بربریت قابلِ مذمت ہے- بھارتی افواج نے بربریت کی حالیہ لہر میں خون ریزی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں جس میں ۶۳ بے گناہ کشمیریوں کو شہیدکیا جا چکا ہے اور ۰۰۲۱ سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں- ڈاکٹرز کے مطابق گذشتہ دنوں سینکڑوں کے تعداد میں افراد کی آنکھوں کی سرجری کی  گئی اور ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا خد شہ ہے کہ یہ تمام لوگ اپنی بینائی کھو سکتے ہیں جس کی وجہ بھارتی فوج کاآنسو گیس، ائیر گن اور ربڑ بلیٹ، کا بے دریغ استعمال ہے-

کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے بھی اس ظلم و جبر سے لپٹی خون ریزی کو غیر آئنی اور غیر قانونی قرار دیا ہے- حالیہ تشویش ناک صورت حال کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے کیونکہ اس نے نہ صرف کشمیر پہ ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے بلکہ ہندوآ باد کاری کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی سماجی ہئیت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے- بھارتی جنتہ پارٹی ﴿BJP﴾ نے اپنی انتخابی مہم میں کشمیر پالیسی کے حوالے سے مختلف اعلانات کئے جس میں آرٹیکل ﴿۰۷۳﴾ میں ترمیم کرنے کا منصوبہ شامل تھا اس آرٹیکل کے تحت بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے-

مئی ۶۱۰۲ئ میں نئی صنعتی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے تحت بھارت کے تاجروں کو کشمیر میں زمین لیز پر لینے کی اجازت ہو گی - اس حکمت عملی کو ترکی خبر رساں ایجنسی نے علاقے کی خود مختاری اور اس کی سماجی و ثقافتی ہیت کو تبدیل کرنے سے منسوب کیا ہے- بھارتی جنتہ پارٹی ﴿BJP﴾ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر کے بازاروں، گلی، محلوں، سٹرکوں ہر جگہ احتجاج شروع ہوا اور اس احتجاجی لہر میں اس وقت شدت آگئی جب نوجوان رہنما برہان وانی بے دردی سے شہید کر دیا گیا-

کشمیریوں کو حقِ خو د ارادیت دینے کی بجائے بھارت اپنے قبضے کو قانونی بنانے کے لیے انتخابات اور کٹھ پتلی حکومتوں کا ڈھونگ رچاتا رہا ہے- بھارت نے کشمیر پہ اپنے تسلط کے دوران لاکھوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا ہے، خواتین کی عصمت دری، گھروں کو مسمار کرنا، نوجوانوں کا لاپتہ ہونا، جھوٹے مقابلے اور بغیر کسی جرم کے کشمیریوں کی گرفتاری معمول کے واقعات ہیں- غیر جانبدار اداروں اور میڈیا پر پابندی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ۷۴۹۱ئ سے لے کر ۹۸۹۱ئ تک ہونے والی ہلاکتوں اور واقعات کا کوئی ٹھوس ریکارڈ حکومت نہیں مانتی -

 مقبوضہ کشمیر میں ۷۸۹۱ئ کے ڈھونگ انتخابات کے بعد تحریکِ آزادی نے شدت اختیار کی جسے کچلنے کے لیے بھارتی افواج نے حق خود ارادیت کے مطالبے کا جواب ظلم و جبر سے دیا-۱۱/ ۹ حملوں کے بعد بھارت نے تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا بھارت نے دہشت گردی کے بہانے کشمیری نوجوانوں کا قتل عام  کیا-تمام تر مظالم اور اُوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کی مسلسل جد و جہد نے دنیا کو حیران کیا ہے-

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ۹۸۹۱ئ سے ۶۱۰۲ئ تک کے عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں ۵۴۳،۴۹ کے لگ بھگ افراد کو شہید کیا گیا ہے جس میں سے ۶۴۰،۷ زیر حراست قتل کے واقعات بھی شامل ہیں- لگ بھگ ۵۱۱،۴۳۱ شہری گرفتار کیے گئے اور ۴۶۰،۶۰۱ عمارتوں کو مسمار یا جلایا گیا، تقریباً ۳۱۸،۲۲ خواتین بیوہ ہوئیں اور ۶۶۵،۷۰۱ بچے یتیم ہوئے اور ۱۸۱،۰۱ عصمت دری اور جبری زیادتی کے گھنائونے واقعات بھی شامل ہیں-

حالیہ دنوں میں شہید ہونے والا برہان وانی کوئی پہلا کشمیری نہیںجو بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہوا بلکہ اس سے پہلے ہزاروں کو شہید کیا جا چکا ہے- بھارتی حکومت رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے جارحیت اور خون ریزی سے کام لے رہی ہے-

 کشمیری رہنما جیسے سید علی گیلانی، شبیر حسین شاہ، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے حتی کہ انہیں یو م شہدا ئے کشمیر منانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی- صحافیوں کو ریاستی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور موبائل اور انٹر نیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں تا کہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں اور جارحیت کا علم نہ ہو سکے-

گذشتہ چند عشروں سے عالمی نظام اپنی اہمیت، اختیار اور عملیت کھو رہا ہے یہ سیاسی یک قطبیت کا شکار ہو رہا ہے - اقوام متحدہ کی قرار داد کو نظر انداز کرنا الگ بات ہے مگر اقوام متحدہ کے بنیادی منشور یعنی حقِ خود ارادیت کے اصول کو ہی یکسر نظر انداز کر دینا فکر انگیز ہے-

 بنیادی اصولوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ ان پہ ثابت قدم رہنا چاہیے، چاہے اس کے لئے اقوامِ عالم کو کتنی ہی کوشش کرنا پڑے- بھارتی حکومت بین الاقوامی رائے اور کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے بد قسمتی سے یک قطبیت کی وجہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہے-

 بھارتی موقف کی ہمیشہ حمایت کی جاتی ہے حالانکہ واشنگٹن اسی بات کی سرکاری طور پر تائید کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے اور امریکہ کی حکومت یہ بھی اتفاق کرتی ہے کہ کشمیریوں کو حتمی طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ مسئلہ کے حل کے لئے بھارت کو مجبور کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی بھارتی حکومت پر دبائو ڈالنے کے حوالے سے آمادہ ہے-

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت محض پروپیگنڈہ ﴿Propaganda﴾ کے ذریعے زمینی حقائق کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور جد و جہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے- حالانکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین بعین کی جانے والی حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کبھی بھی دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتی- اس کے برعکس بھارت خود ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے جو معصوم، نہتے اور لاچار کشمیری لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے- مقررین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دیں- پاکستان ایک عرصے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اسے اپنے مؤقف پہ مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے اور بھارتی ظلم و تشدد پہ بھرپور آواز اٹھانی چاہیے- پاکستان کی عوام کو بھی چاہیے کے کشمیری عوام کی سوشل میڈیا اور دیگر تمام فورمز پہ بھرپور حمایت جاری رکھیں-

مقررین نے بین الاقوامی میڈیا کی مسلسل خاموشی پہ افسوس کا اظہار کیا اور جمہوریت کے علم برداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی بھی مذمت کی کہ وہ بھارتی جارحیت پہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں انہوں نے اسلامی ممالک اور او آئی سی پر بھی زور دیا کہ وہ اپنا مؤثر کردار ادا کریں- بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع بروے کار لاتے ہوئے کشمیر میں کالے قوانین کا خاتمہ کریں خصوصاً کشمیری خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے- مقررین نے صحافیوں کی عالمی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پہ دبائو ڈالیں کہ وہ صحافیوں اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی اجازت دیں تاکہ حقائق دنیا کے سامنے آسکیں- مسلم ممالک کو چاہیے کے وہ اپنے ممالک میں قائم بھارتی دفتر خارجہ میں احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ کشمیریوں پہ ظلم و ستم ختم ہو اور انہیں اپنے حقِ خود ارادیت ملنے میں آسانی ہو- دانشور اور سیاسی رہنما مسئلہ کشمیر کو خطے میں جنگ کی وجہ اور بارود کی بھری بوتل گردانتے ہیں مگر پھر بھی یہ مسٔلہ بین الاقوامی برادری کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کرسکا- مزید ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے- اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس نازک صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے اور بھارت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں پہ ظلم و استبداد کا خاتمہ کرے-

 تحقیقی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل لائبریری اسلام آباد میں ’’مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ‘‘ کے عنوان سے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد ہوا- جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا جائزہ، کشمیریوں کے موقف کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا اور ان کے ساتھ بھر پور اظہارِ یکجہتی کرنا تھا

ڈسکشن کی صدارت سابق سفیر جناب سرور نقوی نے کی جب کہ دیگر مقررین میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما جناب الطاف حسین وانی، کنوینئر آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر و پاکستان جناب سید نسیم یوسف اور چئیر مین جناح اقبال فکری فورم رانا عبد الباقی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جب کہ ہیڈ آف انٹرنیشل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ، افک یونیورسٹی انقرہ، ترکی کی پروفیسر ڈاکٹر اویا ایکگوننک نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ جناب احمد القادری نے تحقیقی پریزنٹیشن پیش کی- ڈسکشن میں محققین، یونیورسٹیز کے طلبائ و اساتذہ، سماجی شخصیات اور صحافیوں نے بھی حصہ لیا-

مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:-

کشمیریوں پر گزشتہ قریباً سات دہائیوں پر محیط بھارتی تسلط، جارحیت اور ظلم و بربریت قابلِ مذمت ہے- بھارتی افواج نے بربریت کی حالیہ لہر میں خون ریزی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں جس میں ۶۳ بے گناہ کشمیریوں کو شہیدکیا جا چکا ہے اور ۰۰۲۱ سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں- ڈاکٹرز کے مطابق گذشتہ دنوں سینکڑوں کے تعداد میں افراد کی آنکھوں کی سرجری کی  گئی اور ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا خد شہ ہے کہ یہ تمام لوگ اپنی بینائی کھو سکتے ہیں جس کی وجہ بھارتی فوج کاآنسو گیس، ائیر گن اور ربڑ بلیٹ، کا بے دریغ استعمال ہے-

کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے بھی اس ظلم و جبر سے لپٹی خون ریزی کو غیر آئنی اور غیر قانونی قرار دیا ہے- حالیہ تشویش ناک صورت حال کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے کیونکہ اس نے نہ صرف کشمیر پہ ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے بلکہ ہندوآ باد کاری کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی سماجی ہئیت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے- بھارتی جنتہ پارٹی ﴿BJP﴾ نے اپنی انتخابی مہم میں کشمیر پالیسی کے حوالے سے مختلف اعلانات کئے جس میں آرٹیکل ﴿۰۷۳﴾ میں ترمیم کرنے کا منصوبہ شامل تھا اس آرٹیکل کے تحت بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے-

مئی ۶۱۰۲ئ میں نئی صنعتی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے تحت بھارت کے تاجروں کو کشمیر میں زمین لیز پر لینے کی اجازت ہو گی - اس حکمت عملی کو ترکی خبر رساں ایجنسی نے علاقے کی خود مختاری اور اس کی سماجی و ثقافتی ہیت کو تبدیل کرنے سے منسوب کیا ہے- بھارتی جنتہ پارٹی ﴿BJP﴾ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر کے بازاروں، گلی، محلوں، سٹرکوں ہر جگہ احتجاج شروع ہوا اور اس احتجاجی لہر میں اس وقت شدت آگئی جب نوجوان رہنما برہان وانی بے دردی سے شہید کر دیا گیا-

کشمیریوں کو حقِ خو د ارادیت دینے کی بجائے بھارت اپنے قبضے کو قانونی بنانے کے لیے انتخابات اور کٹھ پتلی حکومتوں کا ڈھونگ رچاتا رہا ہے- بھارت نے کشمیر پہ اپنے تسلط کے دوران لاکھوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا ہے، خواتین کی عصمت دری، گھروں کو مسمار کرنا، نوجوانوں کا لاپتہ ہونا، جھوٹے مقابلے اور بغیر کسی جرم کے کشمیریوں کی گرفتاری معمول کے واقعات ہیں- غیر جانبدار اداروں اور میڈیا پر پابندی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ۷۴۹۱ئ سے لے کر ۹۸۹۱ئ تک ہونے والی ہلاکتوں اور واقعات کا کوئی ٹھوس ریکارڈ حکومت نہیں مانتی -

 مقبوضہ کشمیر میں ۷۸۹۱ئ کے ڈھونگ انتخابات کے بعد تحریکِ آزادی نے شدت اختیار کی جسے کچلنے کے لیے بھارتی افواج نے حق خود ارادیت کے مطالبے کا جواب ظلم و جبر سے دیا- ۱۱/ ۹ حملوں کے بعد بھارت نے تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا بھارت نے دہشت گردی کے بہانے کشمیری نوجوانوں کا قتل  عام کیا-تمام تر مظالم اور اُوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کی مسلسل جد و جہد نے دنیا کو حیران کیا ہے-

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ۹۸۹۱ئ سے ۶۱۰۲ئ تک کے عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں ۵۴۳،۴۹ کے لگ بھگ افراد کو شہید کیا گیا ہے جس میں سے ۶۴۰،۷ زیر حراست قتل کے واقعات بھی شامل ہیں- لگ بھگ ۵۱۱،۴۳۱ شہری گرفتار کیے گئے اور ۴۶۰،۶۰۱ عمارتوں کو مسمار یا جلایا گیا، تقریباً ۳۱۸،۲۲ خواتین بیوہ ہوئیں اور ۶۶۵،۷۰۱ بچے یتیم ہوئے اور ۱۸۱،۰۱ عصمت دری اور جبری زیادتی کے گھنائونے واقعات بھی شامل ہیں-

حالیہ دنوں میں شہید ہونے والا برہان وانی کوئی پہلا کشمیری نہیںجو بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہوا بلکہ اس سے پہلے ہزاروں کو شہید کیا جا چکا ہے- بھارتی حکومت رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے جارحیت اور خون ریزی سے کام لے رہی ہے-

 کشمیری رہنما جیسے سید علی گیلانی، شبیر حسین شاہ، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے حتی کہ انہیں یو م شہدا ئے کشمیر منانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی- صحافیوں کو ریاستی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور موبائل اور انٹر نیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں تا کہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں اور جارحیت کا علم نہ ہو سکے-

گذشتہ چند عشروں سے عالمی نظام اپنی اہمیت، اختیار اور عملیت کھو رہا ہے یہ سیاسی یک قطبیت کا شکار ہو رہا ہے - اقوام متحدہ کی قرار داد کو نظر انداز کرنا الگ بات ہے مگر اقوام متحدہ کے بنیادی منشور یعنی حقِ خود ارادیت کے اصول کو ہی یکسر نظر انداز کر دینا فکر انگیز ہے-

 بنیادی اصولوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ ان پہ ثابت قدم رہنا چاہیے، چاہے اس کے لئے اقوامِ عالم کو کتنی ہی کوشش کرنا پڑے- بھارتی حکومت بین الاقوامی رائے اور کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے بد قسمتی سے یک قطبیت کی وجہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہے-

 بھارتی موقف کی ہمیشہ حمایت کی جاتی ہے حالانکہ واشنگٹن اسی بات کی سرکاری طور پر تائید کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے اور امریکہ کی حکومت یہ بھی اتفاق کرتی ہے کہ کشمیریوں کو حتمی طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ مسئلہ کے حل کے لئے بھارت کو مجبور کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی بھارتی حکومت پر دبائو ڈالنے کے حوالے سے آمادہ ہے-

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت محض پروپیگنڈہ ﴿Propaganda﴾ کے ذریعے زمینی حقائق کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور جد و جہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے- حالانکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین بعین کی جانے والی حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کبھی بھی دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتی- اس کے برعکس بھارت خود ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے جو معصوم، نہتے اور لاچار کشمیری لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے- مقررین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دیں- پاکستان ایک عرصے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اسے اپنے مؤقف پہ مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے اور بھارتی ظلم و تشدد پہ بھرپور آواز اٹھانی چاہیے- پاکستان کی عوام کو بھی چاہیے کے کشمیری عوام کی سوشل میڈیا اور دیگر تمام فورمز پہ بھرپور حمایت جاری رکھیں-

مقررین نے بین الاقوامی میڈیا کی مسلسل خاموشی پہ افسوس کا اظہار کیا اور جمہوریت کے علم برداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی بھی مذمت کی کہ وہ بھارتی جارحیت پہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں انہوں نے اسلامی ممالک اور او آئی سی پر بھی زور دیا کہ وہ اپنا مؤثر کردار ادا کریں- بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع بروے کار لاتے ہوئے کشمیر میں کالے قوانین کا خاتمہ کریں خصوصاً کشمیری خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے- مقررین نے صحافیوں کی عالمی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پہ دبائو ڈالیں کہ وہ صحافیوں اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی اجازت دیں تاکہ حقائق دنیا کے سامنے آسکیں- مسلم ممالک کو چاہیے کے وہ اپنے ممالک میں قائم بھارتی دفتر خارجہ میں احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ کشمیریوں پہ ظلم و ستم ختم ہو اور انہیں اپنے حقِ خود ارادیت ملنے میں آسانی ہو- دانشور اور سیاسی رہنما مسئلہ کشمیر کو خطے میں جنگ کی وجہ اور بارود کی بھری بوتل گردانتے ہیں مگر پھر بھی یہ مسٔلہ بین الاقوامی برادری کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کرسکا- مزید ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے- اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس نازک صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے اور بھارت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں پہ ظلم و استبداد کا خاتمہ کرے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر