بلوچستان کی آئینی حیثیت پر قائد اعظم کا خطاب

بلوچستان کی آئینی حیثیت پر قائد اعظم کا خطاب

بلوچستان کی آئینی حیثیت پر قائد اعظم کا خطاب

مصنف: عثمان حسن جون 2015

 بلوچستان پاکستان کے کل رقبہ کے تقریباً ۴۴ فیصد جبکہ آبادی کے لحاظ سے پانچ فیصد حصہ پر مشتمل ہے- ۷۷۰ کلومیٹر طویل ساحلِ سمندر اور ایران و افغانستان کے ساتھ سرحد ہونے کے باعث یہ خطے میں خاص ’’جیو پولیٹیکل‘‘ اہمیت کا حامل ہے- یہ اپنے قدرتی و معدنی وسائل اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اس وقت دُنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے- بلوچ عوام بھی اپنے خاص مزاج، ثقافت اور بودوباش کی وجہ سے اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں- برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے دور میں بلوچستان کا نظامِ حکومت باقی علاقوں سے مختلف تھا یعنی دیگر صوبوں کے برعکس وہاں پر جدید نظام لاگونہیں کیا گیا تھا اور یہ تمام تر حقائق حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ پر پوری طرح واضح تھے- قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۲۹ء میں پیش کئے گئے اپنے مشہور چودہ نکات میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا تا کہ وہاں کے عوام بھی باقی صوبوں کی طرح برابر کے حقوق حاصل کر سکیں اور جدید سہولہات سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ جدید طرزِ حکومت بھی اپنا سکیں- تحریک پاکستان کے دوران بلوچستان میں قاضی محمد عیسیٰ کی قیادت میں بلوچستان مسلم لیگ قائم ہوئی تھی اور قاضی محمد عیسیٰ نے بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہونے والی قراردادِ پاکستان کی حمایت بھی کی تھی-

قیامِ پاکستان سے قبل موجودہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ دو حصوں میں تقسیم تھا، ایک حصہ برٹش بلوچستان تھا اور دوسرا حصہ ریاست ہائے قلات، خاران ، مکران اور لسبیلہ پر مشتمل تھا- وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۳ جون ۱۹۴۷ء میں اپنی تجاویز میں یہ تحریر کیا تھا کہ برٹش بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تاہم اس نے عوام کی رائے لینے کی تجویز بھی دی-قیامِ پاکستان سے قبل کوئٹی میونسپل کمیٹی نے شاہی جرگہ(جو کہ ایجنٹ آف گورنر جنرل کے طور  پر کام کر رہا تھا اور عوامی رائے کیلئے قانونی حیثیت رکھتا تھا) کے ممبران کے ساتھ پاکستان میں شمولیت کے حق میں متفقہ قراردار منظور کی چنانچہ تقسیم کے وقت برٹش بلوچستان مزید کسی بحث کے بغیر قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا- تقسیم کے وقت خان آف قلات نے پاکستان یا بھارت کسی کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہ کیا تا ہم بعد ازاں خاران، لسبیلہ اور مکران نے مارچ ۱۹۴۸ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور اسی ماہ خان آف قلات نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور یوں موجودہ بلوچستان مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا- بانیٔ پاکستان رحمۃ اللہ علیہ کا پاکستان میں معرضِ وجود میں آنے سے قبل اور بعد بلوچستان میں کافی وقت گزرا اور انہوں نے مختلف مقامات اور مختلف فورمز پر عوام و خواص سے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال بھی کیا - یہی وجہ ہے کہ بلوچ قیادت قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا بہت احترام کرتی تھی یہ بلوچستان ہی تھا جہاں قائدِ اعظم کو چاندی میں تولا گیا تھا -

قائداعظم محمد علی جناح نے بلوچستان کی عوام سے بلوچستان کی آئینی حیثیت پر ۱۳/ جون ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ میں تقریر کی- اس تقریر میں بلوچستان کے متعلق کچھ حقائق اور اس سے وابستہ اُمیدیں بھی بیان کیں جن میں سے بیشتر آج بھی ریاستِ پاکستان میں بلوچستان کی اہمیت اور اس کے کردار کیلئے مشعلِ راہ ہیں- بلوچ عوام کی صلاحیتوں اور اس صوبے کی قائد کی نظر میں کیا اہمیت تھی، یہ سب اس تقریر سے واضح بھی ہوتا ہے اور ہمیں موجودہ دور کے تناظر میں اس سے رہنمائی بھی ملتی ہے بالخصوص ایسے حالات میں جب معاشرے میں بلوچستان کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں، قائد کی اس تقریر کے مطالعہ سے بہت سے معاملات سلجھتے اور غلط فہمیاں دور ہوتی نظر آتی ہیں- اس سارے تناظر کو سمجھنے کیلئے پاکستان بننے کے وقت کے حالات کا ادراک ہونا بھی ضروری ہے جیسا کہ قائد نے اسی تقریر میں پاکستان بننے کے عمل کو ایسے بیان فرمایا:

’’پاکستان کا قیام ایک انقلابی تغیر تھاجو یوں اچانک طور پررونما ہوا کہ لوگ ابھی تک یہ بات نہ سمجھ سکے کہ آخر یہ کیا ہوا‘‘؟

 چنانچہ بلوچستان کی ریاست قلات کی پاکستان میں چند ماہ تاخیر سے شمولیت کی گتھی بھی سلجھتی نظر آتی ہے کہ درحقیقت پاکستان کا قیام ایک انقلاب تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا اور بہت سے لوگوں کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہونے والے اس عظیم تغیر کو سمجھنے میں کچھ تاخیر ہوئی اور شاید اسی لیے ریاست قلات نے چند ماہ بعد حالات کا اِدراک کرتے ہوئے پاکستان میں شمولیت اختیار کی-

قائد نے بلوچستان کے اس وقت کے حالات اور نظامِ حکومت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’آپ نے یہ بھی محسوس کر لیا ہو گا کہ ان برسوں کے دوران اس برعظیم میں سب سے زیادہ بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے (اِشارہ برطانوی حکومت کی طرف تھا) جن لوگوں پر بلوچستان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری تھی بعض صورتوں میں تو وہ مجرمانہ تغافل کے مرتکب ہوئے ہیں - یہاں کوئی ایک صدی بھر پرانا ایسا نظامِ حکومت رائج ہے جس کی جڑیں بھی خاصی گہری ہیں - یہاں کی انتظامیہ بھی ایک جمود کا شکار ہو چکی ہے- بلوچستان انتظامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے یہ وہ مسئلہ ہے جس کا مجھے سامنا ہے- اب آپ ان چیزوں کو راتوں رات تو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم بلوچستان کے خادموں کی حیثیت سے مل جل کر خلوص، دیانت اور بے لوثی کے ساتھ کام کریں تو ہم حیرت انگیز ترقی اور پیش قدمی کر سکتے ہیں- ‘‘

اُس وقت کے موجود آئین کے تحت بلوچستان کے اختیارات گورنر جنرل کو حاصل تھے جیسا کہ قائد نے اس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’موجودہ آئین کے تحت بلوچستان کے ضمن میں حکومت کے نظم و نسق اور قانون سازی سے متعلق جملہ اختیارات گورنر جنرل کو حاصل ہیں لہٰذا میں ان حکومتی، انتظامی اور قانون سازی کے امور کے بارے میں ضروری کارروائی کا براہ راست ذمہ دار ہوں۔ صحیح یا غلط یہ بوجھ میرے کندھوں پر ڈال ہی دیا گیا ہے-‘‘

 اُس وقت ریاست پاکستان کٹھن حالات کا شکار تھی اورریاست کے تمام امور سرانجام دینے کیلئے نیا طریقہ کار وضع کرنا فوری طور پر ممکن نہ تھا ، اسی طرح ریاست کا آئین مرتب کرنا بھی خاصا مشکل اور وَقت طلب و دِقَّت طلب کام تھا جیساکہ قائد نے اس امر کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا

’’ اس وقت موجودہ صورتحال میں پاکستان کا آئین مرتب ہونے میں ڈیڑھ سے دو سال کا عرصہ درکار ہو گالیکن ہم اس کام کے پایہ تکمیل کو پہنچنے کا انتظار نہیں کر سکتے اور میں نے چھوٹی سی ابتدا کر دی ہے جو بہر حال اہمیت کی حامل ہے- میں نے بلوچستان کے مختلف حلقوں کے صلاح مشورے کے بعد گورنر جنرل کی مجلس مشاورت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے- میں اس پر کام کر رہا ہوں- شاید بہت جلد اس مجلس کی ہیت ترکیبی ، قواعد و ضوابط اور طریق کار کا اعلان کر دیا جائے گا---- اگر آپ سے درست طریقے سے چلائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ اس کا نتیجہ بلوچستان کی عظیم نشونما اور ترقی کی شکل میں ظاہر ہو گا ---- اس کا تمام تر انحصار اس بات پر ہو گا کہ باشندگان بلوچستان گورنر جنرل کی مجلس مشاورت کو کس طریقے سے چلاتے ہیں-‘‘

یعنی قائد نے بلوچستان میں اصلاحات کا کام فوری طور پر نہ صرف شروع کیا بلکہ عوام کی جانب سے اس میں شمولیت اور اسے بہتر طور چلانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا- وہ ہر چیز آئینی اور جمہوری طریقہ سے چلانا چاہتے تھے مگر ایسا نظام مرتب کرنے میں جو وقت درکار تھا، وہ اسے ضائع کئے بغیر عوام کی فلاح و بہبود بھی دیکھنا چاہتے تھے اور اسی لئے مجلسِ مشاورت قائم کی تاکہ ترقی کی منازل جلد از جلد طے کی جا سکیں-

قائد نے بلوچ عوام کے نظم و ضبط اور اور پاکستان میں ان کے ممکنہ کردار کے متعلق فرمایا :

’’ آپ کی برادری بہت عمدگی سے منظم ہے اور مجھے خوشی ہے اور میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ یہ برعظیم کے کسی بھی فرقے سے جس کا مجھے علم ہے، بہتر طور پر لیس ہے- ہر چند کہ آپ کی تعداد کم ہے لیکن آپ لوگ پاکستان کی فلاح اور ترقی بالخصوص بلوچستان کیلئے بہت عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں- ـ‘‘

 یعنی باوجود پرانے نظام کے، قائد اعظم بلوچوں کے نظم و ضبط کے قائل تھے اور پاکستان کی ترقی کیلئے ان کے بھر پور کردار کے خواہشمند تھے - قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بلوچ عوام کے مطالبات اور ان کے رویہ کی بھی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :

’’مجھے مسرت ہے اور یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ آپ نے ان دقیانوسی اور ان گھسے پٹے جملوں کا سہارا نہیں لیا جن کی گونج مختلف حلقوں میں اقلیتوں کی شکایات اور درخواستوں کے ضمن میں سنائی دیتی رہتی ہے -‘‘

کوئی بھی سیاسی کارکُن / تجزیہ نگار یہ سمجھ سکتا ہے کہ اِس بات کا اِشارہ کس طرح کے مُطالبات کی طرف تھا ؟ یعنی ایسی کمیونٹیز جو صرف مطالبات پورے نہ ہونے کا رونا روتی رہتی ہیں ، بلوچ قیادت کا قائدِ اعظم کے کردار ، اُن کی شخصیت اور اُن کی صداقت پہ اعتماد تھا کہ اُنہوں نے مستقبل کے متعلق مثبت نقطۂ نظر اِختیار کیا - ویسے بھی بلوچ روایات میں ’’غیرت‘‘ کو بُنیادی حیثیت حاصل ہے بلوچ روایات کے اِسی پہلو کے متعلق علامہ اقبال نے اپنی نظم’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ میں فرمایا تھا:

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

قائداعظم نے پاکستان میں بلوچ عوام کو اپنا کردار عمل سے ثابت کرنے پر زور دیا اور فرمایا:

 ــ’’اقلیتوں کو بھی صرف زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ وہ صحیح معنوں میں وفادار ہیں اور اکثریتی فرقے کو اس بات کا احساس دلا دینا چاہئے یہ وہ پاکستان کے سچے شہری ہیں - اس طرح آپ میری مدد کر سکیں گے اور جو حکمت عملی ہم نے مرتب کی ہے اسے بروئے کار لانے میں مجھے سہولت بہم پہنچا سکیں گے-‘‘

 یہ بات غور طلب ہے کہ قائد نے بلوچ عوام کی پاکستان سے وفاداری اور اچھے شہر ی ہونے کو اپنی مدد سے منسوب کیا یعنی وہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں ذاتی حد تک دلچسپی رکھتے تھے اور وہاں کے عوام کو کسی طور پاکستان کے کسی دوسرے علاقہ کے عوام سے مختلف نہیں سمجھتے تھے- انہوں نے بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے وسائل اور صلاحیتوں کے متعلق فرمایا:

’’میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی معدنی دولت، اس کی زراعت، آب رسانی اور مواصلات کے وسائل کی ترقی کے زبردست امکانات ہیں-‘‘

قائد کی اس تقریر کی روشنی میں اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہو جاتی ہیں- اگرچہ بلوچستان کی آبادی بہت کم ہے مگر قائد پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے اُن کے کردار سے بہت پر اُمید تھے اور وہاں حکومتی نظام میں عوامی رائے کی شمولیت چاہتے تھے- پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اگرچہ سرداری اور قبائلی نظام موجود تھا مگر بلوچستان میں اصلاحات نہ ہونے کے سبب اس کی جڑیں بہت گہری تھیں اور آبادی بہت کم ہونے اور دور دراز ہونے کے باعث بھی اس نظام کی اہمیت زیادہ تھی- آج اگرچہ دیگر تینوں صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی جمہوری نظام چل رہا ہے مگر اب بھی وہاں سرداری نظام کا بہت اثر و رسوخ ہے- یہ نظام وہاں کے عوام میں رائج ہے اور اس کا احترام کرنا بھی لازم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بنیادی سہولیات اور ان کے حقوق برابری کے ساتھ پہنچانا بھی ریاست کا کام ہے- ایسے حالات میں بسا اوقات غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں کہ شاید ریاستِ پاکستان کسی خاص گروہ یا قبیلہ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے ہے یا کوئی خاص قبیلہ ریاست کے ساتھ معاملات درست طریقہ سے نہیں نمٹا رہا -

بلوچستان میںعوام کی جانب سے اپنے حقوق پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور ان میں کافی حد تک سچائی بھی ہے کہ بلوچستان کے وسائل کا بلوچ عوام کو اتنا حصہ نہیں مل سکا جتنا کہ ملنا چاہئے تھا اور اس پر آواز اٹھانا بھی ان کا بنیادی حق ہے تاہم ایسی صورتحال میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے جب ریاستِ پاکستان بہت سے اندرونی و بیرونی محاذوں پر چیلینجز سے نبرد آزما ہے اور بہت سی غلط فہمیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جیسا کہ قائداعظم ریزیڈینسی دھماکہ کے بعد یہ تأثر ابھارا گیا کہ شائد بلوچ عوام قائد سے لگائو نہیں رکھتے لیکن اس واقعہ کی مذمت میں ہونے والے مظاہروں میں سب سے بڑا مظاہرہ زیارت میں ہوا جس نے نہ صرف اس تأثر کی نفی کی بلکہ بلوچ عوام نے قائد سے اپنی محبت کا بھی اظہار کیا اور قائد کی درج بالا تقریر کی تائید کی جس میں قائد نے انہیں فرمایا تھا کہ انہیں پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت دینا ہو گا اور انہوں نے پوری دنیا کو یہ ثبوت دیا - بلکہ اِس واقعہ کے چند ہی روز بعد ایک معروف ٹی وی شو میں انٹرویو دیتے ہوئے نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے کہا تھا کہ اگر حکومتِ پاکستان کشمیر میں جنگِ آزادی کا اعلان کردے تو ہم بگٹی قبیلہ کے پانچ ہزار جوانوں کے ساتھ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی آزادی کیلئے لڑیں گے اُنہوں نے پاکستان کا نقشہ دِکھاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ یہ نقشہ اسمِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہے جس کی میمِ اوّل کشمیر اور دال بلوچستان ہے جب تک کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہوتا تب تک اس نقشہ میں اسمِ پاک کی تکمیل نہیں ہوتی - یہ چیزیں اِس تاثر کی نفی کرتی ہیں کہ بلوچ عوام کے دِلوں میں پاکستان اور قائدِ اعظم کی محبت نہیں ہے ، بلوچ عوام کے دِل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور اُن کے مستقبل کی ترقی پاکستان کی ترقی سے جُڑی ہے -

بلوچستان کے معدنی پوٹینشل کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی اس وقت دنیا بھر کے سامنے آ گئی ہے جب گوادر پورٹ اور اس سے منسلک تجارتی راہداری کو خطے بھر کیلئے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا جا رہا ہے- بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس اور دیگر معدنیات نے ملکی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے اور آنے والے دور میں اقتصادی راہداری اس سے بھی بڑھ کر کردار ادا کرے گی تاہم ان تمام حالات میں بہت سے بیرونی سازشی عناصر پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہیں اور اسی لئے اس راہداری کی تکمیل اور اس کے استعمال کو روکنے کیلئے مختلف انداز سے در اندازی کی جا رہی ہے اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی سازشیں عروج پر ہیں جن کے ثبوت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ماضی میں بھی سامنے لائے گئے اور اب بھی لائے جا رہے ہیں - ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے ویژن پر عمل کرتے ہوئے سب اکٹھے مل بیٹھ کر اپنے معاملات طے کریں اور ریاستِ پاکستان سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے بیرونی سازشوں کا مل کر مقابلہ کریں- اس کیلئے وہاں کے عوام کے تحفظات بھی دور کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ سازشی عناصر کا قلع قمع کرنا بھی- جس طرح پاکستان کا قیام ایک انقلابی تغیر تھا، اسی طرح اس کا استحکام بھی ایک انقلابی تغیر کی مانند ہمارے تحرک کے انتظار میں ہے چنانچہ ہمیں تمام سازشوں اور مایوسیوں کو پس پشت ڈال کر ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا ہے اور اپنا مستقبل تعمیر کرنا ہے- یہی وہ واحد راستہ ہے- اتحاد کے اندر ہماری ترقی کا راز پوشیدہ ہے-

اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر