ملائیشیاکی ترقی کا ایک جائزہ

ملائیشیاکی ترقی کا ایک جائزہ

ملائیشیاکی ترقی کا ایک جائزہ

مصنف: طاہرمحمود اگست 2015

ملائیشیا ایک اہم اسلامی ملک اور مختلف تہذیبوں کا مرکز ہے، جس میں ملائے، چائینیز، برصغیری ( انڈین) نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے- اس میں ۱۳ ریاستیں اور ۳ وفاقی علاقے شامل ہیں ، اس کا کل رقبہ ۸۴۷،۳۲۹ سکوئر کلومیٹر ہے- اس کی کل آبادی ۳۰ ملین سے زائد ہے اور مسلم دُنیا میں۴۳ویں نمبر پر ہے- اسلام سرکاری مذہب ہے اوراس میں ۱۔۶۳ فیصد مسلمان ۸۔۱۹ فیصد بدھ مت، ۲۔۹ فیصد عیسائی اور ۳۔۶ فیصد ہندو رہتے ہیں- اسلام پھیلنے کی وجہ پورے ایشیا کی طرح صوفیاء ہی تھے اور ابتدائی طور پر وہ صوفیاء برصغیر سے گئے-

ملائیشیا کی تاریخ سالوں پر محیط ہے اور ملائیشیا ایک وسیع رقبے پر محیط خطہ تھا- برطانوی سامراج کا آغاز انیسویں صدی کے اختتام میں ربڑ کی کاشت متعارف کروانے سے ہوا - ۱۹۳۱ ء میںMalayan Communist Party (MCP)  کی بنیاد رکھی گئی- اسکے تعلقات چائینیز لوگوں کے ساتھ تھے اسکی کی بڑی وجہ چائینہ میں کمیونزم کا عروج کی طرف جانا تھا- ۳۸-۱۹۳۷ء سے ملائے نوجوانوں میں برطانوی سامراج کے خلاف قومی اتحاد بنا- دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۵ء تک قبضہ کیا- برطانوی سامراج دوبارہ سے رائج ہوا مگر اس وقت ملائے کیمیونسٹ پارٹی سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا-ملائے قوم پرستوں نے بھی آزادی کی جدوجہد شروع کی اور ۱۹۴۶ء میں متحدہ ملائے قومی تنظیمThe United Malays' National Organization (UMNO, the Principal Malay Party) کی بنیاد رکھی گئی- ۱۹۴۸ء میں ۱۱ جزیرہ نما ریاستوںپر مشتمل وفاقی ملائیاکی بنیاد رکھی گئی لیکن یہ آزاد وفاق نہیں تھی - ۱۹۵۶ء کی ابتدا میں وفاقی ملائیا ، برطانیہ اور ملائی ریاستوں کے سربراہوں کے درمیان یہ طے پایا کہ اگست ۱۹۵۷ء کے آخر تک وفاقی ملائیا کو آزادی مل جائے گی اور ۳۱ اگست ۱۹۵۷ء وفاقی ملائیا Federation of Malaya کو آزادی ملی اور کامن ویلتھ میں شامل ہوا ، اور ٹینگکو پرنس عبدالرحمان جو تحریک آزادی کے رہنما تھے پہلے وزیراعظم بنے- ۱۹۶۳ء میں ایک معاہدہ کے تحت نارتھ بورنیو، ساراواک اور سنگاپور کو وفاقی ملایئشیا Federation of Malaysia   میںریاستوں کا درجہ دیا گیا- اور ۱۶ ستمبر ۱۹۶۳ء کو وفاقی ملایئشیا معرضِ وجود میں آیا لیکن تقریباـ دو سال بعد ۱۹۶۵ء میں ایک معاہدہ کے تحت سنگاپور وفاقی ملائیشیا سے الگ ہو گیا-

ملائیشیا آزادی کے بعد چند سالوں کے اندر ایسی مسلم مملکت کے طور پر ابھرا کہ دنیا میں اسکو ایشین ٹائیگر کہا جانے لگا- ۱۹۷۰ء میں ایک agriculture based economy  پھر high tech اور knowledeg based economy کی بدولت آج export based economies میںشمار کیا جاتا ہے اور اس وقت ورلڈ بینک کے مطابق high income country تصور کیا جاتاہے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے رول ماڈل ہے-  اس ترقی کے پیچھے تین بنیادی عوامل تھے- جس میں محب وطن اور دوراندیش قیادت، محنتی قوم، اور good governance ہیں- معیشت کی ترقی کا موجد سابق کرشماتی و طلسماتی وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد(۲۰۰۳ء-۱۹۸۱ء) کہا جاتا ہے جس نے ۱۹۹۱ء میں "Vision 2020"  دیااور ملائیشین قوم کو کم آمدنی والی فہرست سے نکال کر زیادہ آمدن والی فہرست میں لا کھڑاکیا-۲۰۱۰ء میں وزیراعظم نجیب تون رزاقNajib Tun Razak نے Economic Transformation Programme (ETP) کے تحت دوبارہ National Key Economic Areas (NKEA) کو ہدف بنایا - ۲۰۱۴ء میں ملائیشیا کی جی ڈی پی ۱۔۳۳۸ بلین ڈالر تھی - حقیقی جی ڈی پی ۶فیصد تھی- فی کس جی ڈی پی ۸۹۸،۱۰ ڈالر (جو کہ قوت خرید کے لحاظ سے ۱۷۳،۱۷ ڈالر تھی) جبکہ بیروزگاری کی شرع ۱۔۳ فیصد تھی-

ایک اہم معاشی ملک ہونے کے ناطے ملائیشیا کے بین الاقوامی تعلقات بہت بہتر ہیں-ملائیشیا خودمختاری، برابری،ہم آہنگی، عدم جارحیت،کسی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، اور تمام مسائل کے پر امن حل پر یقین رکھتا ہے- ایک جائنٹ کمشن ملائیشیا ،انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، لائوس اور ویتنام کے درمیان موجود ہے جس کے تحت تمام شعبہ جات میں تعاون کیا جاتا ہے- ASEAN کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کے علاوہ  ایشیا ریجن کے اندر باقی ممالک کے ساتھ بھی تعاون کو ترجیح دیتا ہے- ملائیشیا کی ـ "One China Policy" کے ساتھ ساتھ تائیوان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں جو کہ اعلیٰ سفارتی اور مثبت حکمت عملی کی بدولت ممکن ہو سکتی ہے- ملائیشیا کے ماسوائے اسرائیل کے ۱۰۵ ممالک میںسفارتخانے موجود ہیں- اور اقوام متحدہ،او آئی سی، دولت مشترکہ، اور نام(NAM) میں فعال کردار ادا کر رہا ہے اور سال ۱۶-۲۰۱۵ء کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا غیر مستقل ممبر بھی ہے-

پاکستان کے ساتھ ملائیشیا کے ساتھ شروع سے ہی بہت اچھے تعلقات رہے ہیں، دونوں ممالک کے سربراہان نے کئی دورے کئے -ملائیشیا اور پاکستان کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ Malaysia-Pakistan Closer Economic Partnership Agreement (MPCEPA)   ۲۰۰۸ ء میں ہوا جس کے بعد ملائیشیا پاکستان کے دس بڑے تجارتی شراکت داروں میں شامل ہے- اب بھی تجارت کے بہت سے مواقع موجود ہ ہیں جن میں پاکستان حلال فوڈ اور چاول فروخت کر سکتا ہے-

مسلم دنیا میں ملائیشیا بڑی اہمیت کا حامل اسلامی ملک ہے- مسلم دنیا کی تنظیم او آئی سی میں اسکا اہم کردار ہے اور مسئلہ فلسطین کی حمایت پر طویل جد و جہد شامل ہے- ۲۰۱۰ء میں وزیر اعظم ملائیشیادتوسری محمد نجیب تون عبدالرزاق نے Global Movement of Moderates(GMM)  عالمی اعتدال کی تحریک متعارف کروائی یہ خارجہ امور میں ایک نئی جہت جس کو اقوام متحدہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ؛

ـ’’ اصل تقسیم مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کے درمیان نہیں بلکہ اعتدال ْْپسندوں اور شدت پسندوں میںـ‘‘- ملا 

مسلم دنیا کو اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور پوری مسلم دنیا کی نظریں اس وقت تین مسلم ممالک پر لگی ہیں جن میں ملائیشیا پاکستان اور ترکی یہ تین ایسے ممالک ہیں جن میں فرقہ واریت موجود تو ہو سکتی ہے لیکن بحیثیت ملک یہ تینوں ممالک فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، دوسرا پہلو اِن تینوں ممالک کی اسلامی دنیا میں انفرادی حیثیت ملائیشیا اور ترکی میں معاشی ترقی اور پاکستان دفاعی پیداوار اور دفاع میں اسلامی دنیا میں ثانی نہیں رکھتے اگر ان تینوں ممالک کی حکومتیں آپس میں کو ئی ایسا معاہدہ کریں جو کہ مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لئے اور ان کے حقوق واملاک کے تحفظ کے لیے کام کرے تو اس سے پوری اُمّت مستفیض ہوگی -

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر