تصوف اکیسویں صدی میں (ایک عالمی تناظر)

تصوف اکیسویں صدی میں (ایک عالمی تناظر)

تصوف اکیسویں صدی میں (ایک عالمی تناظر)

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مارچ 2019

مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چیپٹر نےامپیرئل کالج ریکارڈ ہال لندن میں ’’تصوف اکیسویں صدی میں: ایک عالمی جائزہ‘‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا- اس موقع پر لارڈ ڈنکن مکنیئر مہمان خصوصی تھے-صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ) اور زہرا کوستا دینووا (یونیورسٹی کالج لندن )نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر اقبال حسین(صدر مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- بیرسٹر عمار فاروق نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-

مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

تصوف اسلام کا حقیقی پیغام ہے جو کہ رحم، صبر صلح رحمی اور امن ہیں جیسا کہ رسول اللہ(ﷺ) کی حیات طیبہ سے ظاہر ہے- تصوف کی بساط اتنی عالمگیر ہے کہ یہ نہ صرف پوری انسانیت کا احاطہ کرتی ہے بلکہ دوسری حیاتیات اور ماحول جس کی حفاظت کرکے اگلی نسل کو منتقل کرنا ہمارا فرض ہے اس کا درس بھی دیتی ہے- تصوف مساوات، عاجزی اور انسانیت کی خدمت کے اصولوں پہ مبنی ہے- تصوف سے سالک کی زندگی میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور وہ ایک پست درجے (خودغرضی، بالادستی ) سے بلند درجے (عزت ، باہمی اعتماد اور انکساری ) کی جانب رخ کرتا ہے- اسی طرح روحانیت انتہاء پسندی اور تنگ نظری کی نفی کرتی ہے اور کثیر الانواع ثقافتوں میں فاصلوں کو مٹاتی ہے-

صوفی ازم جسے تصوف یا اسلامی روحانیت بھی کہتے ہیں اس کی بنیاد قرآن و حدیث ہیں- جیسا کہ سورۃ الاعلیٰ میں فرمایا گیاہے:

’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ‘‘[1]                                            ’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا‘‘-

تصوف کا بنیادی مقصد قلب کی پاکیزگی ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo[2]

 

’’جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد-مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا‘‘-

ایشیاء کے بہت سے خطوں میں سے جب ہم وسطی ایشیاء کا رخ کریں وہ خطہ جس کو بڑی ثقافتی حیثیت حاصل ہے اورجس کو مسلم دنیا میں بڑی اہمیت حاصل رہی اس کا مسلم تاریخ اور ثقافت کے فروغ میں بڑا کردار ہے- اس کے ورثہ میں صوفیانہ رنگ بہت واضح ہے- اسلام کے چار فقہ ’’حنفی، مالکی ، شافعی اور حنبلی‘‘ میں سے فقہ حنفی کو وسطی ایشیا ء میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی - دوسرا پہلو جس کا تعلق فقہ سے نہیں بلکہ عقیدہ سے ہے وہ تصوف ہے جس کو اس خطہ میں بہت مقبولیت حاصل ہے- آج دن تک یہ لوگ فقہی لحاظ سے حنفی اور عقیدہ کے لحاظ سے صوفی ہیں - انیسویں صدی تک یہ صورتحال صرف وسطی ایشیاء تک محدود نہیں تھی بلکہ پوری دنیا میں تما م سنی مسلما ن تصوف پہ یقین رکھتے تھے-

اگر جنوبی ایشیاء کا جائزہ لیا جائے تو افغانستان اس خطے کا ایک بہت اہم ملک ہے جہاں 4دہائیوں سے جنگی صورتحال ہے پھر بھی افغانیوں کی ایک بڑی تعداد صوفیانہ نظریات کی قائل ہے- یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اسلام ایسے صوفیاء کی وجہ سے پھیلا جو فارسی بولنے والے تھے اور ان کی بڑی تعداد وسطی ایشیاء سے آئی- یہ ہی وجہ ہے کہ آج دن تک فارسی ادب کو مسلمانوں اور صوفی ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے-

پاکستان کا رخ کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ 2005 ء سے لے کر اب تک خانقاہوں پر 29 چھوٹے بڑے دہشت گردی کے حملے ہو چکے ہیں جن میں 209 سے زائد لوگ شہید اور 509 لوگ زخمی ہوچکے ہیں - اس کے باوجود صوفیاء اور ان سے منسلک لوگ دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں- دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 2ادارے پاکستان فوج اور خانقاہیں پیش پیش ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم شروع کر رکھی ہے- اگرچہ ایشیاء کی زیادہ تر آبادی تصوف کی پیروکار ہے لیکن پھر بھی صوفیانہ تحریکوں کو دہشت گردی کی لہر کی وجہ سےبہت مسائل کا سامنا رہا ہے -

اگر جنوبی مشرقی ایشیا ء کی بات کریں بالخصوص انڈونیشیاء تو یہاں پر بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جوتصوف پہ یقین رکھتی ہے- لوگوں کی ایک بڑی تعداد شیخ علی الریناریؒ کی تعلیمات سے متاثر ہے جو کہ حضرت شیخ بہاوالدین زکریا ملتانیؒ کے مرید تھے اور آپ نے انڈونیشاء میں اسلام کی تبلیغ کی-آپ جیسے بزرگان دین کی وجہ سے مشرق بعید تک کے مسلمانوں جن میں ملائشیاء اور فلپائن بھی شامل ہیں میں صوفیانہ تعلیمات کا عنصر محسوس کیا جا سکتا ہے-

برِاعظم ایشیا کے دوسرے کونے پر، ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر ترکی واقع ہے جو مسلم تہذیب اور صوفی روایات میں اہم مقام رکھتا ہے- خصوصاً ترکی میں مولانا روم کا اثر نہایت اہمیت کا حامل ہے-

اگر یورپ میں بوسنیا کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تصوف کا تجزیہ 2پہلوؤں سے کیا جا سکتا ہے- اس میں پہلا رخ بعد از سوشلزم یا جنگِ عظیم اول کا ہے- بعدِاز سوشلزم اس ضمن میں کہ بوسنیا پہلے یوگوسلاویہ فیڈریشن کا حصہ تھا -تاہم، یہاں پر صوفی ازم کی ترویج ہوتی رہی جبکہ کوسووو اور سربیا کا کچھ حصہ بھی صوفی روایات پر عمل پیرا رہا- بوسنیا میں مذہبی احیاء کی بات کی جائے تو اس کا موازنہ سابقہ سوویت ریاستوں سے کرنے کی بجائے اس کا جائزہ وسیع تناظر میں لینا چاہیئے-صوفی ازم کا بوسنیا میں دوسرا پہلو سلطنت عثمانی رنگ ہے- یوگوسلاویہ میں مذہبی پابندیوں کے باعث، بوسنیا ئی اور ترک شیوخ کے مابین روابط میں فاصلہ رہا- صوفی روایات کے معاشرہ پر واضح اثرات 1990ء میں کمیونزم کے زوال کے بعد ہی نمودار ہوئے- یوگوسلاویائی پابندیوں کا سب سے بڑا نقصان روحانی سلاسل سے علمِ تصوف کی ترویج کو ہوا- سلطنتِ عثمانیہ کے انحطاط اور یورپین سلطنت کے قیام نے صوفی ازم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور بڑی حد تک روحانی علوم زوال پذیر رہے-

صوفی ازم اسلام میں علمی روایات کا امین ہے- رسول پاک (ﷺ)پر پہلی وحی کا ابتدائی لفظ ’’اقراء‘‘ تھا- بوسنیا میں صوفی تعلیمات کا مقصد امن اور بردباری کی ترویج تھا اور اس کا حصول کامل طورپر اسلامی روایات پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے- اس کے لیے دین اور دنیا دونوں کو اسلام کے زیرِ اثر لانا ہوگا- صوفی شیوخ بوسنیا میں معاشرہ پر گہرا اثر رکھتے ہیں- ترکی اور بوسنیا میں گہرا ثقافتی تعلق قائم ہے اور ترکی بوسنیا میں صوفی ورثہ کی بحالی کے لیے اہم اقدامات اٹھا رہا ہے جس میں صوفی لاجز کا قیام اور رومی اور حافظ جیسے صوفی شعراء کے کلام کے تراجم کا اشتراک بھی شامل ہے- نوجوان اکثر صوفی ازم کی طرف مائل نظر آتے ہیں کیونکہ اس میں وہ روحانی شیخ سے اپنا تعلق استوار کر سکتے ہیں جو ان کے لیے روحانی رہنمائی کے ساتھ پدری شفقت کا منبع بھی ہوتا ہے-

آج صوفیاء اور صوفی ازم کو سب سے بڑا چیلنج وہ شدت پسندہیں جو دوسروں پر کفر کے من گھڑت فتوے لگاتے ہیں -دوسرا چیلنج صوفی ازم کی تعلیمات کا مرکز خانقاہی نظام کا زوال ہے جو اپنا کردار ماضی کی طرح ادا کرنے سے قاصر ہے- اس وجہ سے بعض لوگو ں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ صوفی ازم محض دنیاوی وسائل جمع کرنے کا نام ہے جس سے تصوف کی روح کو نقصان پہنچ رہا ہے- تاہم، اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک خصوصاً مصر ، مراکش، ترکی اور پاکستان میں صوفی تعلیمات کے احیاء کے لیے کچھ لوگ اپنی ذات و نفس کی پاکیزگی کے ذریعے اہم کردار ادا کر رہے ہیں-

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمیشہ سے مقدار کے مقابلے میں معیار کی کمی رہی ہے- اگر آپ تصوف پرامام قشیری کی انتہائی اہم کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘کا جائزہ لیں تو آپ کو ماضی اور حال میں بہت سی ایک جیسی چیزیں دکھائی دیں گی- امام قشیری 1000سال قبل فرماتے ہیں کہ تصوف زوال کا شکار ہے اور آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تصوف کا امین خانقاہی نظام انحطاط کا شکار ہے-

ہم سب اپنے معاشرہ کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنانا چاہتے ہیں- انسانی حقوق کی تعلیم ایک بردبار معاشرہ کے قیام میں نہایت ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ لوگوں میں برداشت اور اخلاق کا کلچر پیدا ہو رہا ہے- چونکہ افراد ان حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اس لیے لوگوں پر انفرادی توجہ دینے کی ضرورت ہےتاکہ ایک بہتر معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جاسکے- اسی طرح ادب، ہم آہنگی اور برداشت پر مبنی اسباق ہمارے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہونے چاہیئں-

٭٭٭


[1](الاعلیٰ:14)

[2](الشعراء:88-89)

مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چیپٹر نےامپیرئل کالج ریکارڈ ہال لندن میں ’’تصوف اکیسویں صدی میں: ایک عالمی جائزہ‘‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا- اس موقع پر لارڈ ڈنکن مکنیئر مہمان خصوصی تھے-صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ) اور زہرا کوستا دینووا (یونیورسٹی کالج لندن )نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر اقبال حسین(صدر مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- بیرسٹر عمار فاروق نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-

مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

تصوف اسلام کا حقیقی پیغام ہے جو کہ رحم، صبر صلح رحمی اور امن ہیں جیسا کہ رسول اللہ(ﷺ) کی حیات طیبہ سے ظاہر ہے- تصوف کی بساط اتنی عالمگیر ہے کہ یہ نہ صرف پوری انسانیت کا احاطہ کرتی ہے بلکہ دوسری حیاتیات اور ماحول جس کی حفاظت کرکے اگلی نسل کو منتقل کرنا ہمارا فرض ہے اس کا درس بھی دیتی ہے- تصوف مساوات، عاجزی اور انسانیت کی خدمت کے اصولوں پہ مبنی ہے- تصوف سے سالک کی زندگی میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور وہ ایک پست درجے (خودغرضی، بالادستی ) سے بلند درجے (عزت ، باہمی اعتماد اور انکساری ) کی جانب رخ کرتا ہے- اسی طرح روحانیت انتہاء پسندی اور تنگ نظری کی نفی کرتی ہے اور کثیر الانواع ثقافتوں میں فاصلوں کو مٹاتی ہے-

صوفی ازم جسے تصوف یا اسلامی روحانیت بھی کہتے ہیں اس کی بنیاد قرآن و حدیث ہیں- جیسا کہ سورۃ الاعلیٰ میں فرمایا گیاہے:

’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ‘‘[1]                                            ’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا‘‘-

تصوف کا بنیادی مقصد قلب کی پاکیزگی ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo[2]

 

’’جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد-مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا‘‘-

ایشیاء کے بہت سے خطوں میں سے جب ہم وسطی ایشیاء کا رخ کریں وہ خطہ جس کو بڑی ثقافتی حیثیت حاصل ہے اورجس کو مسلم دنیا میں بڑی اہمیت حاصل رہی اس کا مسلم تاریخ اور ثقافت کے فروغ میں بڑا کردار ہے- اس کے ورثہ میں صوفیانہ رنگ بہت واضح ہے- اسلام کے چار فقہ ’’حنفی، مالکی ، شافعی اور حنبلی‘‘ میں سے فقہ حنفی کو وسطی ایشیا ء میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی - دوسرا پہلو جس کا تعلق فقہ سے نہیں بلکہ عقیدہ سے ہے وہ تصوف ہے جس کو اس خطہ میں بہت مقبولیت حاصل ہے- آج دن تک یہ لوگ فقہی لحاظ سے حنفی اور عقیدہ کے لحاظ سے صوفی ہیں - انیسویں صدی تک یہ صورتحال صرف وسطی ایشیاء تک محدود نہیں تھی بلکہ پوری دنیا میں تما م سنی مسلما ن تصوف پہ یقین رکھتے تھے-

اگر جنوبی ایشیاء کا جائزہ لیا جائے تو افغانستان اس خطے کا ایک بہت اہم ملک ہے جہاں 4دہائیوں سے جنگی صورتحال ہے پھر بھی افغانیوں کی ایک بڑی تعداد صوفیانہ نظریات کی قائل ہے- یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اسلام ایسے صوفیاء کی وجہ سے پھیلا جو فارسی بولنے والے تھے اور ان کی بڑی تعداد وسطی ایشیاء سے آئی- یہ ہی وجہ ہے کہ آج دن تک فارسی ادب کو مسلمانوں اور صوفی ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے-

پاکستان کا رخ کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ 2005 ء سے لے کر اب تک خانقاہوں پر 29 چھوٹے بڑے دہشت گردی کے حملے ہو چکے ہیں جن میں 209 سے زائد لوگ شہید اور 509 لوگ زخمی ہوچکے ہیں - اس کے باوجود صوفیاء اور ان سے منسلک لوگ دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں- دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 2ادارے پاکستان فوج اور خانقاہیں پیش پیش ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم شروع کر رکھی ہے- اگرچہ ایشیاء کی زیادہ تر آبادی تصوف کی پیروکار ہے لیکن پھر بھی صوفیانہ تحریکوں کو دہشت گردی کی لہر کی وجہ سےبہت مسائل کا سامنا رہا ہے -

اگر جنوبی مشرقی ایشیا ء کی بات کریں بالخصوص انڈونیشیاء تو یہاں پر بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جوتصوف پہ یقین رکھتی ہے- لوگوں کی ایک بڑی تعداد شیخ علی الریناریؒ کی تعلیمات سے متاثر ہے جو کہ حضرت شیخ بہاوالدین زکریا ملتانیؒ کے مرید تھے اور آپ نے انڈونیشاء میں اسلام کی تبلیغ کی-آپ جیسے بزرگان دین کی وجہ سے مشرق بعید تک کے مسلمانوں جن میں ملائشیاء اور فلپائن بھی شامل ہیں میں صوفیانہ تعلیمات کا عنصر محسوس کیا جا سکتا ہے-

برِاعظم ایشیا کے دوسرے کونے پر، ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر ترکی واقع ہے جو مسلم تہذیب اور صوفی روایات میں اہم مقام رکھتا ہے- خصوصاً ترکی میں مولانا روم کا اثر نہایت اہمیت کا حامل ہے-

اگر یورپ میں بوسنیا کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تصوف کا تجزیہ 2پہلوؤں سے کیا جا سکتا ہے- اس میں پہلا رخ بعد از سوشلزم یا جنگِ عظیم اول کا ہے- بعدِاز سوشلزم اس ضمن میں کہ بوسنیا پہلے یوگوسلاویہ فیڈریشن کا حصہ تھا -تاہم، یہاں پر صوفی ازم کی ترویج ہوتی رہی جبکہ کوسووو اور سربیا کا کچھ حصہ بھی صوفی روایات پر عمل پیرا رہا- بوسنیا میں مذہبی احیاء کی بات کی جائے تو اس کا موازنہ سابقہ سوویت ریاستوں سے کرنے کی بجائے اس کا جائزہ وسیع تناظر میں لینا چاہیئے-صوفی ازم کا بوسنیا میں دوسرا پہلو سلطنت عثمانی رنگ ہے- یوگوسلاویہ میں مذہبی پابندیوں کے باعث، بوسنیا ئی اور ترک شیوخ کے مابین روابط میں فاصلہ رہا- صوفی روایات کے معاشرہ پر واضح اثرات 1990ء میں کمیونزم کے زوال کے بعد ہی نمودار ہوئے- یوگوسلاویائی پابندیوں کا سب سے بڑا نقصان روحانی سلاسل سے علمِ تصوف کی ترویج کو ہوا- سلطنتِ عثمانیہ کے انحطاط اور یورپین سلطنت کے قیام نے صوفی ازم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور بڑی حد تک روحانی علوم زوال پذیر رہے-

صوفی ازم اسلام میں علمی روایات کا امین ہے- رسول پاک (ﷺ)پر پہلی وحی کا ابتدائی لفظ ’’اقراء‘‘ تھا- بوسنیا میں صوفی تعلیمات کا مقصد امن اور بردباری کی ترویج تھا اور اس کا حصول کامل طورپر اسلامی روایات پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے- اس کے لیے دین اور دنیا دونوں کو اسلام کے زیرِ اثر لانا ہوگا- صوفی شیوخ بوسنیا میں معاشرہ پر گہرا اثر رکھتے ہیں- ترکی اور بوسنیا میں گہرا ثقافتی تعلق قائم ہے اور ترکی بوسنیا میں صوفی ورثہ کی بحالی کے لیے اہم اقدامات اٹھا رہا ہے جس میں صوفی لاجز کا قیام اور رومی اور حافظ جیسے صوفی شعراء کے کلام کے تراجم کا اشتراک بھی شامل ہے- نوجوان اکثر صوفی ازم کی طرف مائل نظر آتے ہیں کیونکہ اس میں وہ روحانی شیخ سے اپنا تعلق استوار کر سکتے ہیں جو ان کے لیے روحانی رہنمائی کے ساتھ پدری شفقت کا منبع بھی ہوتا ہے-

آج صوفیاء اور صوفی ازم کو سب سے بڑا چیلنج وہ شدت پسندہیں جو دوسروں پر کفر کے من گھڑت فتوے لگاتے ہیں -دوسرا چیلنج صوفی ازم کی تعلیمات کا مرکز خانقاہی نظام کا زوال ہے جو اپنا کردار ماضی کی طرح ادا کرنے سے قاصر ہے- اس وجہ سے بعض لوگو ں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ صوفی ازم محض دنیاوی وسائل جمع کرنے کا نام ہے جس سے تصوف کی روح کو نقصان پہنچ رہا ہے- تاہم، اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک خصوصاً مصر ، مراکش، ترکی اور پاکستان میں صوفی تعلیمات کے احیاء کے لیے کچھ لوگ اپنی ذات و نفس کی پاکیزگی کے ذریعے اہم کردار ادا کر رہے ہیں-

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمیشہ سے مقدار کے مقابلے میں معیار کی کمی رہی ہے- اگر آپ تصوف پرامام قشیری کی انتہائی اہم کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘کا جائزہ لیں تو آپ کو ماضی اور حال میں بہت سی ایک جیسی چیزیں دکھائی دیں گی- امام قشیری 1000سال قبل فرماتے ہیں کہ تصوف زوال کا شکار ہے اور آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تصوف کا امین خانقاہی نظام انحطاط کا شکار ہے-

ہم سب اپنے معاشرہ کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنانا چاہتے ہیں- انسانی حقوق کی تعلیم ایک بردبار معاشرہ کے قیام میں نہایت ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ لوگوں میں برداشت اور اخلاق کا کلچر پیدا ہو رہا ہے- چونکہ افراد ان حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اس لیے لوگوں پر انفرادی توجہ دینے کی ضرورت ہےتاکہ ایک بہتر معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جاسکے- اسی طرح ادب، ہم آہنگی اور برداشت پر مبنی اسباق ہمارے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہونے چاہیئں-

٭٭٭



[1](الاعلیٰ:14)

[2](الشعراء:88-89)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر