لفظ : حیاتِ انسانی کا حیران کن پہلو (آخری قسط)

لفظ : حیاتِ انسانی کا حیران کن پہلو (آخری قسط)

لفظ : حیاتِ انسانی کا حیران کن پہلو (آخری قسط)

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز فروری 2019

فلسفہ میں زبان کی حیثیت :

دنیائے قدیم و جدید کے جتنے بھی عظیم فلاسفہ اور مکاتب فکر ہیں تمام  نے خدا اور انسان، کائنات اور فطرت کے متعلق بحث اور حقائق سے آشنائی کے ساتھ ساتھ مابعد الطبیعات، اینتھرو پولوجی، نظر یہ علم (Epistemology)، اخلاقیات، منطق، پولیٹیکل سائنس و نیچرل سائنس جیسے علوم تک رسائی، واقفیت ،فہم و درک اور خود فلسفہ کے اظہار کیلئے زبان کو بنیاد اور آلہ کار کےطور پر استعمال کیا ہے- دور جدید میں بھی عمرانیات، سیاسیات، اقتصادیات، ریاضیات، طبیعیات، حیاتیات، فلکیات، نفسیات، صنعت و حرفت، تاریخ، جغرافیہ، قانون، طب، کیمیا، آرٹ، تعمیر،تحریر و تکلم اور شاعری جیسے علوم و فنون   کا اظہار اور تفہیم صرف زبان  ہی کی بدولت ممکن ہے-

اس گلوبل ویلج میں جہاں انسان کا دیگر انسانوں سے تعلقات و ضروریات (سفارتی،سماجی،معاشی،دفاعی جیسے) میں خاطر خواہ   اضافہ ہو اہے  وہیں  زبان کی افادیت، ضرورت و اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا-اقوال ذیل سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زبان(الفاظ) کسی بھی ملک،قوم اورسماج کیلئےکس قدر نا گزیر ہے-

’’مشہور ماہر لسانیات ایڈورڈ سیپئر کا کہنا ہے کہ ہر ثقافتی نمونہ اور ہرایک سماجی رویے کے عمل میں مواصلات کا عمل دخل ہوتا ہے چاہے وہ واضح ہو یا مخفی صورت میں موجود ہو اس کے اظہار کیلئے ذریعہ صرف زبان ہے‘‘-[1]

آسٹرین-برٹش فلسفی لوڈنگ آنگسٹائن یوں گویا ہوا کہ میری زبان کی حدود (Limitations) کا مطلب ہے میری دنیا کی حدود- یعنی وہ بتانا چاہتا ہے کہ میرے افکار، نظریات، احساسات اور جذبات کی دنیا زبان (Language) ہی سے وابستہ ہے میری زندگی سے جڑے مذکورہ عوامل کو زبان ہی سے بیان کیا جاسکتا ہے-

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے سابق ایسوسی ایٹ جج اولیور وینڈیل ہومس نے کہا تھا کہ:

’’زبان (Language) روح کا خون ہے جس میں خیالات گردش کرتے اور نشونما پاتے ہیں‘‘-[2]

نامور مؤرّخِ فلسفہ برٹرینڈ رسل کا کہنا ہے کہ:

’’ زبان (الفاظ)محض خیا لات  کا اظہا ر نہیں کرتی بلکہ افکار کو ممکن بھی بناتی جوکہ اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے ‘‘- [3]

اسی بات کو بالفاظ دیگر بیسویں صدی کےفلسفی وگنسٹائن نے زبان کے مآخذ کے طور پر یہ دلیل پیش کی ہے کہ:

’’فلسفہ در حقیقت زبان ہی کے مطالعہ کانام ہے ‘‘-[4]

عصر حاضر اور مذہب میں زبان کی اہمیت:

موضوع کے تنا ظر میں ایک نہایت قابل غور نکتہ ہے کہ  کچھ ارتقاء پسند انہ (Evolutionist) نظریات کے حامی زبان کو محض ’’موڈ آف کمیو نیکیشن‘‘ قرار دیتے ہیں اور انسانوں کی جانوروں سےتفریق محض ا ن کی صلاحیت موا صلات (زبان)  کو قرار دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ  حقیقی دنیا میں کوئی غیر انسانی زبان  موجود نہیں  یعنی زبان صرف انسانوں کے درمیان بات چیت کا نام ہے-[5] حالانکہ ایسا کہنا وسعتِ زبان  سےنا انصافی  تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ یہ دنیا میں اب تک زبان کے توسط سے ہونےوالی تحقیق اور ذخیرہ علم سے بھی انحراف ہے کیونکہ زبان نہ محض انسانوں کے مابین بلکہ خالق و مخلوق کے درمیان  تعلق کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے-

خود خالق کائنات نےاپنی حقانیت کااظہاربھی انبیاء (علیہم السلام)  کے ذریعے اس وقت رائج انسا نی زبان میں فرمایا اور تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) پر آسمانی کتب،صحا ئف اور وحی  کےنزول کا عمل بھی مختلف  زبانوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچا-ابو البشر سیدنا حضرت آدم (علیہ السلام)سے لے کر خاتم المرسلین  تاجدار انبیاء (علیہم السلام) حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) تک جتنے بھی انبیاء کرام (علیہم السلام) تشریف لائےتمام نے بنی نوع انسان میں اصلاح معاشرہ اور دعوت الی اللہ کا فریضہ اس وقت  رائج انسانی زبان میں سر انجام دیا - قرآن کریم (جو خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کا بے مثل و لا زوال ذریعہ ہے) کےذریعہ پیغام ہدایت کااظہار بھی عربی زبان میں فرمایا جو اس وقت عرب میں رائج تھی تاکہ اہل عرب  اسے بہتر طریقے سے سمجھتے ہوئے اپنے خالق کے ساتھ تعلق استوار کرسکیں اسی لئےفرمایا گیا ہے کہ:

’’ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰہُ  قُرْءٰنًا عَرَبِیَّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ‘‘[6]

’’بےشک ہم نے اس قرآن کوعربی(زبان)میں نازل کیا ہے تاکہ تم اس کو سمجھ سکو‘‘-

قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر زبان کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا ہے-

’’زبان اور بولنے کی طاقت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہےاور تخلیق انسانی کے بعد سب سے اہم چیز زبان ہے جس کی وضاحت صریحاً قرآن کریم کی ’’سورۃ الروم آیت: 22‘‘سےہوتی ہے کہ رب ذو الجلال نے لسانیات میں تغیرات کو روا فرما یا ہےاور یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے‘‘-[7]

بطور مسلمان جب بندہ اپنے خالق کی بارگا ہ میں بھی التجاء پیش کرنا چا ہتا ہے تو وہ مخصوص زبان ہی میں اپنا مدعا بیان کرتا ہے- الغرض زبان حیاتِ انسانی میں ایسی حقیقتِ مطلق ہےاور رہی ہےکہ جس کے وجود کا انکار ناممکن ہے-

زبان، خداکی نشانی ہونے کی بڑی دلیل کرۂ ارض پر مختلف تہذیبوں میں بولی جانے والی مختلف اور بے شمار زبانیں ہیں جو اپنے رسم الخط اور ارتقائی مراحل میں بدرجہ والیٰ ایک دوسری سے الگ ہیں- مثلاً اہل عرب کی زبان اور ہے، عبرانی، انگریزی،  فارسی، جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی زبان اور ہے- ان تمام کا خالق بلا شک و شبہ وہ ذات باری تعالیٰ ہے جس نے ہم سب کو پیدا فرمایا اور یہ ایسی حقیقت مطلق ہے جس سے انکار ممکن نہیں-لیکن اس حقیقت سے بھی قطع نظر نہیں کیا جا سکتا کہ انسان زمین پر خلیفۃ اللہ (اللہ کا نائب ) ہےجسے خالق کائنات نے تسخیر فطرت کا کا م سونپتے ہو ئے استقرائی طرز فکربخشا اور بے شمار تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا جن میں سے ایک اہم تخلیقی صلاحیت انسانوں کے میل جول سے نئی زبان کا وجود میں آنا بھی ہے اور یہ انسان کے تخلیقی کار ناموں میں سے ایک  عظیم کار نامہ ہے -

تغیراتی عمل اور زبان کا ارتقاء:

مختلف زبانوں کے الفاظ اور لوگوں کے میلان سے ایک نئی زبان کا جنم لینابھی لسانیات میں تغیر کی ایک غیرمعمولی نشانی ہے جس کی بے شمار مثالیں ہیں-مثلا اردو ،جس کے آغاز و ارتقاء کا اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کےیہ لوگوں کے میلان اور مختلف زبانوں (عربی، فارسی اور ترکش وغیرہ )کے اختلاط سے وجود میں آئی جس وجہ سے یہ لشکری زبان کہلاتی ہے- اس انسانی صلاحیت اور زبان کی حقانیت سےمتعلق مولوی فیروز الدین اپنی شہرہ آفاق اردو لغت ’’جامع فیروز اللغات‘‘میں اردو زبان کے ارتقاء کے متعلق ایک دلچسپ تحقیقی مقالہ میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ :

’’انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے- ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی کا اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھے ہیں -انسان کی ترقی کا راز بھی بہت کچھ زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے‘‘-[8]

تغیرات کے تناظر میں یہ ذہن نشین کرلینا چاہیئےکہ بہت سی زبانیں مختلف ادوار اور تہذیبوں کے تبادل سے تغیراتی عمل سے گزری ہیں جیسا کہ اردو (زبان)کی مثال اوپر بیان کی گئی ہے-

زبان(الفاظ)کے استعمال میں فرق:

زبان کےمتعلق ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ زبان فقط الفاظ اور حروف کے مجموعہ کا نام ہی نہیں بلکہ اپنی پہچان میں یہ ایک ہمہ جہت شئے ہے-الفاظ(زبان) میں بھی تفریق پائی جاتی ہے  مثلاً جوالفاظ ہم روز مرہ کے عوامی،نشریاتی اور کاروباری مقاصد کیلئے استعمال میں لاتے ہوئےاکثر اوقات گرائمر، لفظ کےمحلِ استعمال،نحوی بندھن اور صحتِ تلفظ کا خیال نہیں رکھ پاتے وہ ان الفاظ(زبان) سے بالکل مختلف ہیں جو ادبی،علمی اور تحقیقی سرگرمیوں  میں استعمال ہوتے ہیں جن میں گرائمر، الفاظ کے معنی، اتار چڑھاؤ، محلِ ا ستعمال، رسمُ الخط، صحتِ تلفظ،نحوی تر کیب، تقدیم و تاخیر اور لہجے کا بھی باقاعدہ خیا ل رکھا جاتا ہے اور اگر نہ رکھ پائیں تو تحریر کا معنی و مفہوم بدل جاتا ہے- علاوہ ازیں مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی عبارات میں تلمیحات، تشبیہات، استعارات اور ضرب الامثال کا استعمال بھی اس کے حسن، آن بان اور شان  میں اضافہ کرتاہے- اسی طرح بے شمار زبانوں میں موجود لغات (Dictionaries)میں استعمال ہونے والے الفاظ کی بھی اپنی ایک جدا گانہ حیثیت ہے-

الفاظ کا چناؤ:

زبان میں الفاظ کا چناؤ اور موزوں استعمال بھی حیاتِ انسانی میں نہایت اہمیت کا حامل ہےکیونکہ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جوانسان کی زندگی بدل دیتے ہیں اور کچھ ایسے کہ تا ابد اوراقِ تاریخ میں اس کی شخصیت کے ساتھ امر ہوجاتے ہیں-یہ الفاظ اچھے بھی ہو سکتے ہیں اوربرے بھی- مثلاًمجاہدِ اسلام،شیر میسور ٹیپو سلطان کا یہ جملہ آج بھی زبان زد عام ہے کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘-الفاظ کی اہمیت اور مناسب استعمال سے متعلق ڈاکٹر محمد ارشد اویسی اپنی تصنیف ’’غیر پارلیمانی الفاظ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

’’انسانی کردار کی مانند الفاظ و محاورات بھی عظمت، تمکنت اور وقار کے حامل ہوتے ہیں- ان کا بے جا اور نا مناسب استعمال ان کے کردار کو ماند بھی کر سکتا ہے‘‘-

مزید تحاریر میں الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے عصر قدیم کے مشہور نقاد (Longinus) کی تصنیف ’’On the sublime‘‘ میں درج الفاظ قابل ستائش ہیں-

’’آپ کے خیالات اور تصورات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں جب تک آپ کےپاس صحیح اور موزوں الفاظ نہ ہوں تو آپ تحریر کو رفعت عطا نہیں کرسکتے‘‘- [9]

لہٰذا ضروری ہےکہ ہم الفاظ کا استعمال اور انتخاب تحاریر اور گفتگو میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں- دراصل الفاظ ہی انسانی شخصیت،اس کے مزاج،اخلاق اور طرز زندگی کے عکاس ہوتے ہیں-اسی لئے بہترین اور شائستہ الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو عزت و وقار کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے جبکہ الفاظ کا ناشائستہ(نا مناسب) استعمال انسان کو بلند مراتب و درجات میں بھی کم تر اور حقیر حیثیت پر لاکھڑا کرتا ہے-

قومی زبان اور تشخص :

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ملی، تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اور تاریخی شناخت  کی بقاء کے لئے زبان(قومی زبان) کو بنیادی حیثیت حاصل ہے-قومی زبان کے ذریعے ہی ہم مؤثر طریقے سے اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اورتاریخی حقائق جان سکتے ہیں-زبان ہی  در اصل قوموں کے اسلاف کے سرمایہ ادب، ان کی خدمات اور کارناموں کی امین ہوتی ہے- اس کا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ ہم دیگر زبانوں سے بے اعتنائی برتیں کیونکہ دیگر اقوام سے تفاعل(Interaction)، ان کے نظریات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کوسمجھنے کیلئےان کی زبان سیکھنا بھی ضروری ہے مگر اولین ترجیح اپنی زبان (قومی زبان ) ہی ہونی چاہئے-با الفاظ دیگر دنیا میں جو اقوام بھی اوج ثریا پر مقیم ہوئیں سب کامطمع نظر ہمیشہ سے اپنی تہذیب و ثقافت، مذہبی شناخت اور قومی زبان کی حفاظت و فوقیت رہا ہےجس کی تابندہ مثال ہمارا ہمسایہ دوست ملک چین ہے-

بر عکس مندرجہ بالا تحریر جو اقوام اپنی اس شناخت کی قدر نہیں کرتیں اور اس کے تحفظ  کیلئے خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھاتیں وہ اقوام عالم کی نگاہ میں اپنا   وقار کھو بیٹھتی ہیں اور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں-بلکہ زبان تو قومی اتحاد، ملی یکجہتی،تعمیر و ترقی کے علاوہ آزادی اورغلامی،جیت اور شکست کا مسئلہ ہے جیسا کہ مشہور فرانسیسی ناول نگار’’Alphonse Dauet‘‘اپنی کتاب لاسٹ کلاس(Last Class)  کےایک سبق جو ’’Last Lesson‘‘کے عنوان سے معنون ہے؛ میں جرمن استاد شکست کی اصل وجہ اپنی قومی زبان سے دوری گردانتا ہے اور آزادی کی اولین شرط قومی زبان سے قربت(لگاؤ)ٹھہراتا ہے- شا یدزبان کی اسی اہمیت کے پیش نظر بانئ پاکستان حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہےاور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے‘‘-[10]

ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہماری زبان (اردو) اس وقت دنیا کے مختلف ممالک، تحریکوں اور علاقوں کی ترجمان ہے-اردو زبان کی انفرادیت کی بات کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ

’’اردو زبان لفظ و معنی سے گزر کر اور تمام لسانی مراحل طے کرکے جذبات تک رسائی کرتی ہے- اس زبان نے اپنی زندگی کو دنیا کی انسانیت، ادبی تغیرات اور ساختیاتی صورت میں منتقل کیا ہے اور کر رہی ہے یہی اردو زبان کی زندگی کا راز ہے‘‘-[11]

لیکن صد  افسوس ! کہ ہم نے اپنی قومی زبان(اردو) کوپس پشت ڈال دیا اور جس کا نفاذ (سرکاری زبان کے طور پر) اس وقت تک واضح آئینی حیثیت ہو نے کے باوجود ایک خواب سا بن کر رہ گیا جو شاید ہماری تنزلی اور اقوام عالم کی نسبت ترقی کی رفتار میں پیچھے رہ جانے کا واضح ثبوت ہے- اس وقت وطن عزیز(پاکستان )کو جہاں بے شمار دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں ملک کی قومی زبان (اردو)کا نفاذ نہ ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے بانئ پاکستان کے مذکورہ بالافرمان کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے-

ہمارا علمی ورثہ اور زبانیں:

جب ہم اردو کی بات کرتے ہیں تو ہمیں عربی اور فارسی (زبان)کی اہمیت و حقانیت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہماری جو اصل مذہبی اقدار ہیں اس میں قرآن وسنت، علمِ حدیث و اصولِ حدیث،فقہ واصولِ فقہ، علم ِتصوف اور دیگر علوم وفنون جس طرح صرف و نحو، منطق، علمُ الاشتقاق، شعر و ادب وغیرہ سب عربی زبان میں موجود ہیں-عصرِ حاضر میں بھی فصاحت و بلاغت، وسعت الفاظ، علمی، ادبی، تحقیقی، سفارتی، تجارتی اور عوامی اعتبار سےکسی زبان کو مرکزیت حاصل ہے تو وہ عظیم زبان عربی ہی ہے- اسی طرح فارسی جو صدیوں سے ہمارے کلچرکا حصہ ہے جس کی واضح جھلک ہم درج ذیل پیرائے میں دیکھ سکتےہیں -

’’یہ غنی زبان (فارسی) گزشتہ آٹھ (8) صدیوں سے محمود غزنوی کی برِصغیر پاک و ہند میں لشکر کشی(329ھ-ق) اور انگریزوں کے تسلط سے(1274ھ-ق) تک، ہندوستان کی حکومتوں کی دفتری زبان رہی ہے-اس دوران تقریبا 30فارسی گو سلسلوں نے ہندوستان پر حکومت کی-دانشور،  سپاہی، شاعر اور مصنف اس وسیع و عریض خطہ ارض پر فارسی زبان میں گفتگو کرتے اور لکھتے حتی کہ علاقائی اور مقامی لوگ بھی فارسی زبان سیکھنے کی طرف مائل تھے-جس کے نتیجے میں فارسی اس سر زمین کی ثقافت، دیگر شعبوں اور مختلف خطوں بالخصوص (موجودہ) پاکستان پر مکمل طور پر پھیل گئی- فارسی گو شعراء اور مصنفین کا اس سر زمین پر ظہور ہوا‘‘-[12]

اگرچہ دوسری زبانوں میں بھی عربی اور فارسی ادب کے تراجم موجود ہیں جن سے ہمیں ضرور استفادہ کرنا چاہیئے لیکن جو اصل متن(عربی اور فارسی کا) ہےاس سے بھی ہمارا تعلق قائم رہنا چاہئے جو کہ ہمارے اسلاف کا طریق رہا ہے جن میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ،امام ابو حامد محمد الغزالیؒ، حضرت سُلطان باھُوؒ، مولانا جلال الدین رومیؒ، ابو المعانی عبد القادر بیدلؒ اور علامہ محمد اقبالؒ جیسی شاہکار ہستیوں کے نام نمایاں ہیں جنہوں نے عربی و فارسی میں گراں بہا خدمات سرانجام دیں اور جن کی بدولت آج یہ ادب (عربی و فارسی) زندہ و تابندہ ہے-اردو زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہمیں عربی و فارسی کے فروغ کیلئے بھی کام کرنا چاہیے اور ہمیں ان سے آج اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی بنیادی اقدار کھو نہ بیٹھیں-

جہاں تک الفاظ سے محبت و انسیت کا تعلق ہے تو دور جدید کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم الفاظ سے اپنا تعلق و رشتہ مضبوط رکھیں کیونکہ الفاظ ہماری زندگی کی حرکت وکیفیت اور شخصیت کے آئینہ دار ہیں- جس کیلئے لازم ہےکہ ہم مطالعہ کتب کواپنے مشاغلِ زندگی کا حصہ بنائیں جس کے شوق اور جستجو کا آج ہماری نوجون نسل میں فقدان نظرآتا ہے-ہمیں چاہیے کہ اوائل عمری سے ہی با الخصوص اپنی نئی نسل میں کتاب بینی کے شوق اور عادت کو فروغ دیں جس کیلئے پرائمری سطح (گھروں،سکولوں) میں چلڈرن لائبریریز کا قیام عمل میں لایاجائے اوران میں بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق مواد (کتب) کا بندوبست کیا جائے تاکہ الفاظ وزبان سے ان کا رشتہ قائم رہ سکے اور وہ مستقبل میں ملک و قوم کی ملی، مذہبی، تاریخی اورتہذیبی و ثقافتی میراث کے محافظ اور امین ثابت ہو سکیں-

٭٭٭


[1]https://www.ijhssnet.com/journals/Vol_2_No_17_September_2012/24.pdf

[2]https://voxy.com/blog/2011/04/inspirational-quotes-for-language-learners/

[3]https://www.goodreads.com/quotes/387839-language-serves-not-only-to-express-thought-but-to-make

[4]https://www.jstor.org/topic/language/?refreqid=excelsior%3A16288a47ea1ce62180ab8cb942016574

[5]https://kampungtadris.wordpress.com/2011/09/28/the-origins-of-human-language-islamic-perspective-and-science/

[6](الیوسف:2)

[7]http://www.jallr.com/index.php/JALLR/article/viewFile/616/pdf616

[8]http://www.urdumajlis.net/threads/8989/

[9]http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/marchapril2013/M,%20A_6.html

[10]( تحسین حسین، 2008، قائد اعظم ارشادات و اقتباسات، نزیرسنزپبلیشرز،لاہور)

[11]http://www.urdulinks.com/urj/?p=194

[12](ڈاکٹرعلی کمیل قزلباش،2017،سخن عشق،ثقافتی قونصلیٹ،سفارت اسلامی جمہوریہ ایران،اسلام آباد)

فلسفہ میں زبان کی حیثیت :

دنیائے قدیم و جدید کے جتنے بھی عظیم فلاسفہ اور مکاتب فکر ہیں تمام  نے خدا اور انسان، کائنات اور فطرت کے متعلق بحث اور حقائق سے آشنائی کے ساتھ ساتھ مابعد الطبیعات، اینتھرو پولوجی، نظر یہ علم (Epistemology)، اخلاقیات، منطق، پولیٹیکل سائنس و نیچرل سائنس جیسے علوم تک رسائی، واقفیت ،فہم و درک اور خود فلسفہ کے اظہار کیلئے زبان کو بنیاد اور آلہ کار کےطور پر استعمال کیا ہے- دور جدید میں بھی عمرانیات، سیاسیات، اقتصادیات، ریاضیات، طبیعیات، حیاتیات، فلکیات، نفسیات، صنعت و حرفت، تاریخ، جغرافیہ، قانون، طب، کیمیا، آرٹ، تعمیر،تحریر و تکلم اور شاعری جیسے علوم و فنون   کا اظہار اور تفہیم صرف زبان  ہی کی بدولت ممکن ہے-

اس گلوبل ویلج میں جہاں انسان کا دیگر انسانوں سے تعلقات و ضروریات (سفارتی،سماجی،معاشی،دفاعی جیسے) میں خاطر خواہ   اضافہ ہو اہے  وہیں  زبان کی افادیت، ضرورت و اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا-اقوال ذیل سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زبان(الفاظ) کسی بھی ملک،قوم اورسماج کیلئےکس قدر نا گزیر ہے-

’’مشہور ماہر لسانیات ایڈورڈ سیپئر کا کہنا ہے کہ ہر ثقافتی نمونہ اور ہرایک سماجی رویے کے عمل میں مواصلات کا عمل دخل ہوتا ہے چاہے وہ واضح ہو یا مخفی صورت میں موجود ہو اس کے اظہار کیلئے ذریعہ صرف زبان ہے‘‘-[1]

آسٹرین-برٹش فلسفی لوڈنگ آنگسٹائن یوں گویا ہوا کہ میری زبان کی حدود (Limitations) کا مطلب ہے میری دنیا کی حدود- یعنی وہ بتانا چاہتا ہے کہ میرے افکار، نظریات، احساسات اور جذبات کی دنیا زبان (Language) ہی سے وابستہ ہے میری زندگی سے جڑے مذکورہ عوامل کو زبان ہی سے بیان کیا جاسکتا ہے-

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے سابق ایسوسی ایٹ جج اولیور وینڈیل ہومس نے کہا تھا کہ:

’’زبان (Language) روح کا خون ہے جس میں خیالات گردش کرتے اور نشونما پاتے ہیں‘‘-[2]

نامور مؤرّخِ فلسفہ برٹرینڈ رسل کا کہنا ہے کہ:

’’ زبان (الفاظ)محض خیا لات  کا اظہا ر نہیں کرتی بلکہ افکار کو ممکن بھی بناتی جوکہ اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے ‘‘- [3]

اسی بات کو بالفاظ دیگر بیسویں صدی کےفلسفی وگنسٹائن نے زبان کے مآخذ کے طور پر یہ دلیل پیش کی ہے کہ:

’’فلسفہ در حقیقت زبان ہی کے مطالعہ کانام ہے ‘‘-[4]

عصر حاضر اور مذہب میں زبان کی اہمیت:

موضوع کے تنا ظر میں ایک نہایت قابل غور نکتہ ہے کہ  کچھ ارتقاء پسند انہ (Evolutionist) نظریات کے حامی زبان کو محض ’’موڈ آف کمیو نیکیشن‘‘ قرار دیتے ہیں اور انسانوں کی جانوروں سےتفریق محض ا ن کی صلاحیت موا صلات (زبان)  کو قرار دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ  حقیقی دنیا میں کوئی غیر انسانی زبان  موجود نہیں  یعنی زبان صرف انسانوں کے درمیان بات چیت کا نام ہے-[5] حالانکہ ایسا کہنا وسعتِ زبان  سےنا انصافی  تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ یہ دنیا میں اب تک زبان کے توسط سے ہونےوالی تحقیق اور ذخیرہ علم سے بھی انحراف ہے کیونکہ زبان نہ محض انسانوں کے مابین بلکہ خالق و مخلوق کے درمیان  تعلق کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے-

خود خالق کائنات نےاپنی حقانیت کااظہاربھی انبیاء (﷩)  کے ذریعے اس وقت رائج انسا نی زبان میں فرمایا اور تمام انبیاء و رسل (﷩) پر آسمانی کتب،صحا ئف اور وحی  کےنزول کا عمل بھی مختلف  زبانوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچا-ابو البشر سیدنا حضرت آدم (﷤)سے لے کر خاتم المرسلین  تاجدار انبیاء (﷩) حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) تک جتنے بھی انبیاء کرام (﷩) تشریف لائےتمام نے بنی نوع انسان میں اصلاح معاشرہ اور دعوت الی اللہ کا فریضہ اس وقت  رائج انسانی زبان میں سر انجام دیا - قرآن کریم (جو خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کا بے مثل و لا زوال ذریعہ ہے) کےذریعہ پیغام ہدایت کااظہار بھی عربی زبان میں فرمایا جو اس وقت عرب میں رائج تھی تاکہ اہل عرب  اسے بہتر طریقے سے سمجھتے ہوئے اپنے خالق کے ساتھ تعلق استوار کرسکیں اسی لئےفرمایا گیا ہے کہ:

’’ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰہُ  قُرْءٰنًا عَرَبِیَّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ‘‘[6]

’’بےشک ہم نے اس قرآن کوعربی(زبان)میں نازل کیا ہے تاکہ تم اس کو سمجھ سکو‘‘-

قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر زبان کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا ہے-

’’زبان اور بولنے کی طاقت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہےاور تخلیق انسانی کے بعد سب سے اہم چیز زبان ہے جس کی وضاحت صریحاً قرآن کریم کی ’’سورۃ الروم آیت: 22‘‘سےہوتی ہے کہ رب ذو الجلال نے لسانیات میں تغیرات کو روا فرما یا ہےاور یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے‘‘-[7]

بطور مسلمان جب بندہ اپنے خالق کی بارگا ہ میں بھی التجاء پیش کرنا چا ہتا ہے تو وہ مخصوص زبان ہی میں اپنا مدعا بیان کرتا ہے- الغرض زبان حیاتِ انسانی میں ایسی حقیقتِ مطلق ہےاور رہی ہےکہ جس کے وجود کا انکار ناممکن ہے-

زبان، خداکی نشانی ہونے کی بڑی دلیل کرۂ ارض پر مختلف تہذیبوں میں بولی جانے والی مختلف اور بے شمار زبانیں ہیں جو اپنے رسم الخط اور ارتقائی مراحل میں بدرجہ والیٰ ایک دوسری سے الگ ہیں- مثلاً اہل عرب کی زبان اور ہے، عبرانی، انگریزی،  فارسی، جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی زبان اور ہے- ان تمام کا خالق بلا شک و شبہ وہ ذات باری تعالیٰ ہے جس نے ہم سب کو پیدا فرمایا اور یہ ایسی حقیقت مطلق ہے جس سے انکار ممکن نہیں-لیکن اس حقیقت سے بھی قطع نظر نہیں کیا جا سکتا کہ انسان زمین پر خلیفۃ اللہ (اللہ کا نائب ) ہےجسے خالق کائنات نے تسخیر فطرت کا کا م سونپتے ہو ئے استقرائی طرز فکربخشا اور بے شمار تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا جن میں سے ایک اہم تخلیقی صلاحیت انسانوں کے میل جول سے نئی زبان کا وجود میں آنا بھی ہے اور یہ انسان کے تخلیقی کار ناموں میں سے ایک  عظیم کار نامہ ہے -

تغیراتی عمل اور زبان کا ارتقاء:

مختلف زبانوں کے الفاظ اور لوگوں کے میلان سے ایک نئی زبان کا جنم لینابھی لسانیات میں تغیر کی ایک غیرمعمولی نشانی ہے جس کی بے شمار مثالیں ہیں-مثلا اردو ،جس کے آغاز و ارتقاء کا اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کےیہ لوگوں کے میلان اور مختلف زبانوں (عربی، فارسی اور ترکش وغیرہ )کے اختلاط سے وجود میں آئی جس وجہ سے یہ لشکری زبان کہلاتی ہے- اس انسانی صلاحیت اور زبان کی حقانیت سےمتعلق مولوی فیروز الدین اپنی شہرہ آفاق اردو لغت ’’جامع فیروز اللغات‘‘میں اردو زبان کے ارتقاء کے متعلق ایک دلچسپ تحقیقی مقالہ میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ :

’’انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے- ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی کا اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھے ہیں -انسان کی ترقی کا راز بھی بہت کچھ زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے‘‘-[8]

تغیرات کے تناظر میں یہ ذہن نشین کرلینا چاہیئےکہ بہت سی زبانیں مختلف ادوار اور تہذیبوں کے تبادل سے تغیراتی عمل سے گزری ہیں جیسا کہ اردو (زبان)کی مثال اوپر بیان کی گئی ہے-

زبان(الفاظ)کے استعمال میں فرق:

زبان کےمتعلق ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ زبان فقط الفاظ اور حروف کے مجموعہ کا نام ہی نہیں بلکہ اپنی پہچان میں یہ ایک ہمہ جہت شئے ہے-الفاظ(زبان) میں بھی تفریق پائی جاتی ہے  مثلاً جوالفاظ ہم روز مرہ کے عوامی،نشریاتی اور کاروباری مقاصد کیلئے استعمال میں لاتے ہوئےاکثر اوقات گرائمر، لفظ کےمحلِ استعمال،نحوی بندھن اور صحتِ تلفظ کا خیال نہیں رکھ پاتے وہ ان الفاظ(زبان) سے بالکل مختلف ہیں جو ادبی،علمی اور تحقیقی سرگرمیوں  میں استعمال ہوتے ہیں جن میں گرائمر، الفاظ کے معنی، اتار چڑھاؤ، محلِ ا ستعمال، رسمُ الخط، صحتِ تلفظ،نحوی تر کیب، تقدیم و تاخیر اور لہجے کا بھی باقاعدہ خیا ل رکھا جاتا ہے اور اگر نہ رکھ پائیں تو تحریر کا معنی و مفہوم بدل جاتا ہے- علاوہ ازیں مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی عبارات میں تلمیحات، تشبیہات، استعارات اور ضرب الامثال کا استعمال بھی اس کے حسن، آن بان اور شان  میں اضافہ کرتاہے- اسی طرح بے شمار زبانوں میں موجود لغات (Dictionaries)میں استعمال ہونے والے الفاظ کی بھی اپنی ایک جدا گانہ حیثیت ہے-

الفاظ کا چناؤ:

زبان میں الفاظ کا چناؤ اور موزوں استعمال بھی حیاتِ انسانی میں نہایت اہمیت کا حامل ہےکیونکہ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جوانسان کی زندگی بدل دیتے ہیں اور کچھ ایسے کہ تا ابد اوراقِ تاریخ میں اس کی شخصیت کے ساتھ امر ہوجاتے ہیں-یہ الفاظ اچھے بھی ہو سکتے ہیں اوربرے بھی- مثلاًمجاہدِ اسلام،شیر میسور ٹیپو سلطان کا یہ جملہ آج بھی زبان زد عام ہے کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘-الفاظ کی اہمیت اور مناسب استعمال سے متعلق ڈاکٹر محمد ارشد اویسی اپنی تصنیف ’’غیر پارلیمانی الفاظ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

’’انسانی کردار کی مانند الفاظ و محاورات بھی عظمت، تمکنت اور وقار کے حامل ہوتے ہیں- ان کا بے جا اور نا مناسب استعمال ان کے کردار کو ماند بھی کر سکتا ہے‘‘-

مزید تحاریر میں الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے عصر قدیم کے مشہور نقاد (Longinus) کی تصنیف ’’On the sublime‘‘ میں درج الفاظ قابل ستائش ہیں-

’’آپ کے خیالات اور تصورات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں جب تک آپ کےپاس صحیح اور موزوں الفاظ نہ ہوں تو آپ تحریر کو رفعت عطا نہیں کرسکتے‘‘- [9]

لہٰذا ضروری ہےکہ ہم الفاظ کا استعمال اور انتخاب تحاریر اور گفتگو میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں- دراصل الفاظ ہی انسانی شخصیت،اس کے مزاج،اخلاق اور طرز زندگی کے عکاس ہوتے ہیں-اسی لئے بہترین اور شائستہ الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو عزت و وقار کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے جبکہ الفاظ کا ناشائستہ(نا مناسب) استعمال انسان کو بلند مراتب و درجات میں بھی کم تر اور حقیر حیثیت پر لاکھڑا کرتا ہے-

قومی زبان اور تشخص :

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ملی، تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اور تاریخی شناخت  کی بقاء کے لئے زبان(قومی زبان) کو بنیادی حیثیت حاصل ہے-قومی زبان کے ذریعے ہی ہم مؤثر طریقے سے اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اورتاریخی حقائق جان سکتے ہیں-زبان ہی  در اصل قوموں کے اسلاف کے سرمایہ ادب، ان کی خدمات اور کارناموں کی امین ہوتی ہے- اس کا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ ہم دیگر زبانوں سے بے اعتنائی برتیں کیونکہ دیگر اقوام سے تفاعل(Interaction)، ان کے نظریات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کوسمجھنے کیلئےان کی زبان سیکھنا بھی ضروری ہے مگر اولین ترجیح اپنی زبان (قومی زبان ) ہی ہونی چاہئے-با الفاظ دیگر دنیا میں جو اقوام بھی اوج ثریا پر مقیم ہوئیں سب کامطمع نظر ہمیشہ سے اپنی تہذیب و ثقافت، مذہبی شناخت اور قومی زبان کی حفاظت و فوقیت رہا ہےجس کی تابندہ مثال ہمارا ہمسایہ دوست ملک چین ہے-

بر عکس مندرجہ بالا تحریر جو اقوام اپنی اس شناخت کی قدر نہیں کرتیں اور اس کے تحفظ  کیلئے خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھاتیں وہ اقوام عالم کی نگاہ میں اپنا   وقار کھو بیٹھتی ہیں اور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں-بلکہ زبان تو قومی اتحاد، ملی یکجہتی،تعمیر و ترقی کے علاوہ آزادی اورغلامی،جیت اور شکست کا مسئلہ ہے جیسا کہ مشہور فرانسیسی ناول نگار’’Alphonse Dauet‘‘اپنی کتاب لاسٹ کلاس(Last Class)  کےایک سبق جو ’’Last Lesson‘‘کے عنوان سے معنون ہے؛ میں جرمن استاد شکست کی اصل وجہ اپنی قومی زبان سے دوری گردانتا ہے اور آزادی کی اولین شرط قومی زبان سے قربت(لگاؤ)ٹھہراتا ہے- شا یدزبان کی اسی اہمیت کے پیش نظر بانئ پاکستان حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہےاور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے‘‘-[10]

ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہماری زبان (اردو) اس وقت دنیا کے مختلف ممالک، تحریکوں اور علاقوں کی ترجمان ہے-اردو زبان کی انفرادیت کی بات کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ

’’اردو زبان لفظ و معنی سے گزر کر اور تمام لسانی مراحل طے کرکے جذبات تک رسائی کرتی ہے- اس زبان نے اپنی زندگی کو دنیا کی انسانیت، ادبی تغیرات اور ساختیاتی صورت میں منتقل کیا ہے اور کر رہی ہے یہی اردو زبان کی زندگی کا راز ہے‘‘-[11]

لیکن صد  افسوس ! کہ ہم نے اپنی قومی زبان(اردو) کوپس پشت ڈال دیا اور جس کا نفاذ (سرکاری زبان کے طور پر) اس وقت تک واضح آئینی حیثیت ہو نے کے باوجود ایک خواب سا بن کر رہ گیا جو شاید ہماری تنزلی اور اقوام عالم کی نسبت ترقی کی رفتار میں پیچھے رہ جانے کا واضح ثبوت ہے- اس وقت وطن عزیز(پاکستان )کو جہاں بے شمار دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں ملک کی قومی زبان (اردو)کا نفاذ نہ ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے بانئ پاکستان کے مذکورہ بالافرمان کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے-

ہمارا علمی ورثہ اور زبانیں:

جب ہم اردو کی بات کرتے ہیں تو ہمیں عربی اور فارسی (زبان)کی اہمیت و حقانیت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہماری جو اصل مذہبی اقدار ہیں اس میں قرآن وسنت، علمِ حدیث و اصولِ حدیث،فقہ واصولِ فقہ، علم ِتصوف اور دیگر علوم وفنون جس طرح صرف و نحو، منطق، علمُ الاشتقاق، شعر و ادب وغیرہ سب عربی زبان میں موجود ہیں-عصرِ حاضر میں بھی فصاحت و بلاغت، وسعت الفاظ، علمی، ادبی، تحقیقی، سفارتی، تجارتی اور عوامی اعتبار سےکسی زبان کو مرکزیت حاصل ہے تو وہ عظیم زبان عربی ہی ہے- اسی طرح فارسی جو صدیوں سے ہمارے کلچرکا حصہ ہے جس کی واضح جھلک ہم درج ذیل پیرائے میں دیکھ سکتےہیں -

’’یہ غنی زبان (فارسی) گزشتہ آٹھ (8) صدیوں سے محمود غزنوی کی برِصغیر پاک و ہند میں لشکر کشی(329ھ-ق) اور انگریزوں کے تسلط سے(1274ھ-ق) تک، ہندوستان کی حکومتوں کی دفتری زبان رہی ہے-اس دوران تقریبا 30فارسی گو سلسلوں نے ہندوستان پر حکومت کی-دانشور،  سپاہی، شاعر اور مصنف اس وسیع و عریض خطہ ارض پر فارسی زبان میں گفتگو کرتے اور لکھتے حتی کہ علاقائی اور مقامی لوگ بھی فارسی زبان سیکھنے کی طرف مائل تھے-جس کے نتیجے میں فارسی اس سر زمین کی ثقافت، دیگر شعبوں اور مختلف خطوں بالخصوص (موجودہ) پاکستان پر مکمل طور پر پھیل گئی- فارسی گو شعراء اور مصنفین کا اس سر زمین پر ظہور ہوا‘‘-[12]

اگرچہ دوسری زبانوں میں بھی عربی اور فارسی ادب کے تراجم موجود ہیں جن سے ہمیں ضرور استفادہ کرنا چاہیئے لیکن جو اصل متن(عربی اور فارسی کا) ہےاس سے بھی ہمارا تعلق قائم رہنا چاہئے جو کہ ہمارے اسلاف کا طریق رہا ہے جن میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ،امام ابو حامد محمد الغزالیؒ، حضرت سُلطان باھُوؒ، مولانا جلال الدین رومیؒ، ابو المعانی عبد القادر بیدلؒ اور علامہ محمد اقبالؒ جیسی شاہکار ہستیوں کے نام نمایاں ہیں جنہوں نے عربی و فارسی میں گراں بہا خدمات سرانجام دیں اور جن کی بدولت آج یہ ادب (عربی و فارسی) زندہ و تابندہ ہے-اردو زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہمیں عربی و فارسی کے فروغ کیلئے بھی کام کرنا چاہیے اور ہمیں ان سے آج اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی بنیادی اقدار کھو نہ بیٹھیں-

جہاں تک الفاظ سے محبت و انسیت کا تعلق ہے تو دور جدید کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم الفاظ سے اپنا تعلق و رشتہ مضبوط رکھیں کیونکہ الفاظ ہماری زندگی کی حرکت وکیفیت اور شخصیت کے آئینہ دار ہیں- جس کیلئے لازم ہےکہ ہم مطالعہ کتب کواپنے مشاغلِ زندگی کا حصہ بنائیں جس کے شوق اور جستجو کا آج ہماری نوجون نسل میں فقدان نظرآتا ہے-ہمیں چاہیے کہ اوائل عمری سے ہی با الخصوص اپنی نئی نسل میں کتاب بینی کے شوق اور عادت کو فروغ دیں جس کیلئے پرائمری سطح (گھروں،سکولوں) میں چلڈرن لائبریریز کا قیام عمل میں لایاجائے اوران میں بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق مواد (کتب) کا بندوبست کیا جائے تاکہ الفاظ وزبان سے ان کا رشتہ قائم رہ سکے اور وہ مستقبل میں ملک و قوم کی ملی، مذہبی، تاریخی اورتہذیبی و ثقافتی میراث کے محافظ اور امین ثابت ہو سکیں-

٭٭٭



[1]https://www.ijhssnet.com/journals/Vol_2_No_17_September_2012/24.pdf

[2]https://voxy.com/blog/2011/04/inspirational-quotes-for-language-learners/

[3]https://www.goodreads.com/quotes/387839-language-serves-not-only-to-express-thought-but-to-make

[4]https://www.jstor.org/top

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں