انتہاپسندی : جامعاتی زندگی میں ادراک، حقائق اور چیلنجز (سہ روزہ کانفرنس رپورٹ)

انتہاپسندی : جامعاتی زندگی میں ادراک، حقائق اور چیلنجز (سہ روزہ کانفرنس رپورٹ)

انتہاپسندی : جامعاتی زندگی میں ادراک، حقائق اور چیلنجز (سہ روزہ کانفرنس رپورٹ)

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جنوری 2019

ائیر یونیورسٹی اسلام آباد نے مسلم انسٹیٹیوٹ، سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے تعاون سے 26 تا 28 ستمبر 2018ء کو ’’انتہا پسندی: جامعاتی زندگی میں ادراک، حقائق اور چیلنجز‘‘ کے موضوع پرائیر یونیورسٹی اسلام آباد میں سہ (3)روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا- چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف ائیر سٹاف مجاہد انور خان، وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود، وائس چانسلر ائیر یونیورسٹی ائیر وائس مارشل (ر) فیض عامر، پروفیسر ڈاکٹر ہوگ وان سکائی ہاک جوہانیز گیوٹن برگ یونیورسٹی جرمنی، پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن ڈائریکٹر تھیولوجی ڈیپارٹمنٹ لوئیلا یونیورسٹی شکاگو امریکہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز یونیورسٹی آف کراچی، ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر عالیہ سہیل خان ڈائریکٹر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج فار وویمن راولپنڈی، مفتی شیر القادری ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ، ادریس احمد آزاد معروف کالم نگار اور شاعر، ڈاکٹر خرم اقبال نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد، عالمی سکالرز، محققین اور پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں کے پروفیسرز نے کانفرنس سے خطاب کیااور اپنے مقالہ جات پیش کیے- کانفرنس کے دوسرے روز مختلف یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کا ایک خصوصی سیشن منعقد کیا گیا جس میں وویمن یونیورسٹی مردان، فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی راولپنڈی،قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلیپمنٹ اکنامکس، یونیورسٹی آف مالاکنڈ، ہزارہ یونیورسٹی اور ایگری یونیورسٹی پشاور اور دیگر یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے خصوصی شرکت کی-


کانفرنس میں مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال اور مباحثہ کی روشنی میں تیار کردہ سفارشات کا خلاصہ ذیل ہے:


1     قائد اعظم کی شخصیت سے اخذ کیے گئے سماجی اور سیاسی اصولوں کو ’’مطالعہ پاکستان‘‘کی سکول سے لے کرجامعات کی سطح تک تدریسی کتب میں شامل کیا جانا چاہیے- یہ عمل سیاسی اور مذہبی طور پر طلباء و اساتذہ میں برداشت، اخوت اور رواداری کی روایات کو پروان چڑھائے گا-
2    بقائے باہمی کے اصول پر مبنی دستاویز ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو ’’اسلامیات‘‘ کی سکول سےلے کر جامعات کی سطح تک تدریسی کتب میں شامل کیا جائے جس سے طلباء کو ثقافتی تنوع، قومیت، مذہب اور پر امن بقائے باہمی کے متعلق سیکھنے کا موقع ملے گا- تمام جامعات کو سال میں 2 دفعہ محبت اور امن کے عنوان سے مختلف قومیتی اور مذہبی کمیونٹیز پر مشتمل بین الثقافتی دورے اور پروگرامز تشکیل دینے چاہیئں-
3    جامعات میں ہر سطح پر تعصب اور فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے-ہر یونیورسٹی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایک ہفتہ کے لیے مختلف قومیتوں کے شرکاء پر مشتمل ورکشاپس منعقد کی جا نی چاہیں جس میں کسی بھی قومیت یا مذہب سے تعلق رکھنے والا طالب علم یونیورسٹی میں درپیش مسائل پر بات کر سکے- انتظامیہ کو بھی مختلف گروپس کو درپیش مسائل کے حل کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-
4    ہائر ایجوکیشن کمیشن پورے ملک میں فیکلٹی ممبرز کے لیے تربیتی ورکشاپس، کورسز، مذاکرے، سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کروائے تاکہ وہ انتہاء پسندی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں-
5    مذہبی عدم برداشت کے خاتمے کےلیے اسلام کی حقیقی تصویر یعنی تصوف کو طلباء اور معاشرہ میں متعارف کروایا جائے- اسلام کی اصل روح کی ترویج کے لیے جامعات میں صوفیائے کرام جیسے محی الدین ابنِ عربی، مولانا جلال الدین رومی، حضرت سلطان باھو، بابا بلھے شاہ اور علامہ اقبال کی تعلیمات پر مشتمل لیکچرز منعقد کروائے جائیں- تصوف کو بطور مضمون مذہبی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے- یہ امر باعثِ دلچسپی ہے کہ صوفی ازم مشرقِ وسطائی اور شمالی افریقی ممالک کے مذہبی مدارس میں لازمی مضمون ہے- اس لیے نہ صرف مدارس بلکہ جامعات میں بھی صوفی ازم کو نصاب میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے-
6    اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق بچوں کے کردار کی تعمیر کے لیے والدین کو ترغیب دی جائے- طلباء میں مختلف موضوعات جیسے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر کتب بینی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے- پرائمری سطح پر بچوں کو ہمارے آباؤ اجداد خصوصاً علامہ اقبال کی تعلیمات سے روشناس کروانے کے لیے ایک لازمی تدریسی کتاب کی تالیف کی جائے- مذہبی مدارس کے نصاب میں سوشل اور نیچرل سائنسز کا کچھ حصہ شامل کیا جائے- اس سے مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلباء میں پائے جانے والے تعلیمی فرق کا کچھ ازالہ ہو سکے گا-باہمی اعتماد کے قیام کے لیے مدارس اور جامعات کے طلباء کے مابین کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے جا سکتے ہیں-
7    معاشرہ میں ’’مولوی‘‘ اور ’’مسٹر‘‘ کی تفریق ختم ہونی چاہیے اور رواداری اور اخوت کا ماحول قائم ہونا چاہیے- جامعات میں بھی مذہب کی تعلیم دی جانی چاہیے -یہ پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہ الٰہیات کو دنیا کی تمام ممتاز جامعات میں بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے-
8    میڈیا کو بھی پروگرامز، ڈاکومینٹریز اور سپیشل سیشنز کے ذریعے قوم میں امن، محبت، بقائے باہمی، روحانی تعلیمات اور اقبالیات کی ترویج کیلئے غیر جانبدار اور تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے- اس کے علاوہ، ریاست کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے پھیلنے والی ممکنہ شدت پسندانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے-
9    انتہاء پسندی صرف مذہب میں موجود نہیں بلکہ اس کی دیگر اقسام بھی ہیں جیسے سیاسی یا اشتراکی انتہاء پسندی- اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پچھلی 4دہائیوں میں انتہاءپسندی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے- ایکشن موویز اور گیمز نے نوجوان نسل پر منفی ذہنی اثرات مرتب کیے ہیں- اس لیے فلم انڈسٹری کی بڑے پیمانے پر تنظیمِ نو کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل پر اس کے مثبت اور تعمیری اثرات پڑیں-حالیہ برسوں میں نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے- ہماری نوجوان نسل کو انتہاء  پسندی کی جانب مائل کرنے کے لیے تخریب کار وسیع پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں جس کے لیے حکومت کی جانب سے مؤثر قوانین کے اطلاق کی ضرورت ہے-
10     قرآن و حدیث کا مطالعہ ہمارے معاشرہ میں بہت کم ہوکر رہ گیا ہے- والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلباء کو اسلام کے آفاقی اصولوں امن، بقائے باہمی، انسانیت اور روحانیت کی تعلیم دیں تاکہ کوئی بھی مذہب کی غلط تشریح کی وجہ سے انتہاء پسندی کی جانب نہ مائل ہو-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر