پاک چین تعلقات : علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں

پاک چین تعلقات : علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں

پاک چین تعلقات : علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مارچ 2018

مسلم انسٹیٹیوٹ اور چائنا پاکستان تعلیمی و ثقافتی انسٹیٹیوٹ نے ’’پاک چین تعلقات: علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں‘‘کے عنوان پہ راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا- ائیر وائس مارشل (ر)فائزامیر (وائس چانسلر ائیر یونیورسٹی، اسلام آباد )نے سیشن کی صدارت کی-دیگر مقررین میں جناب ظفر بختاوری  (سابقہ صدر، اسلام چیمبر آف کامرس)، پروفیسر لی وی (ڈین، اسکول آف انٹرنیشنل ایجوکیشن، یُنان یونیورسٹی، چائنا)، ڈاکٹر زانگ ڈائو جنگ (ڈائریکٹر، کنفیوشیس انسٹیٹیوٹ)، جناب تنویر جعفری (سربراہ، چائنا سٹڈی سینٹر، کامسیٹس، اسلام آباد)اور جناب می ہیجو (سی -ای-او، چائنا پاکستان تعلیمی و ثقافتی انسٹیٹیوٹ) شامل تھے-جناب طاہر محمود اور جناب آصف تنویر اعوان ایڈوکیٹ (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے معزز مہمانوں کے لیے اظہار تشکر کیا-  

مقررین کے اظہار خیال اور وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:

پاکستان اور چائنا کے سفارتی تعلقات 1951ء میں قائم ہوئے-پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے انقلاب کے فوراً بعد ’’پیپلز ریپبلک آف چائنا‘‘ کو تسلیم کر لیا-پاکستان پہلا مسلم ملک تھا جس کے چائنا سےسفارتی تعلقات قائم ہوئے-وزیرِ اعظم چو این لائی کی کوششوں کے نتیجے میں 1955ء میں بنڈونگ کانفرنس کے بعد دونوں ریاستوں میں مثالی مراسم قائم ہوئے-پاک چائنا دوستی کو دونوں ممالک کے سیاسی رہنما پہاڑوں سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی قرار دیتے ہیں اور یہ بین الاقوامی دنیا میں اپنی طرز کی واحد مثال ہے-  

پاکستان،چائنا اور مسلم دنیا کے مابین اہم رابطہ ہے-دونوں ممالک ایک دوسرے کی ترقی کے سفر میں گزشتہ سات دہائیوں سے اچھوتا کردار ادا کر رہے ہیں-مثلاً چائنا نے پاکستان میں 22 سے زائد ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر شروع کر رکھی ہے جن میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، ٹینک ری بلڈنگ فیکٹری، ائیر کرافٹ ری بلڈنگ فیکٹری، گوادر پورٹ،شاہراہِ قراقرم، نیوکلیائی بجلی گھر وغیرہ شامل ہیں-

چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) حقیقت بننے جا رہا ہے اور دونوں ممالک نے ایک بین الاقوامی اقتصادی زون بنانے کا فیصلہ کیا ہے-سی پیک ایک بہت بڑی تبدیلی کا نام ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدلنے والی ہے-چین کے حالیہ صدر جناب زی جن پنگ چائنا کو سپر پاور بنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا آغاز کیا-یہ روڈ دنیا کے 65 ممالک کو آپس میں جوڑتا ہے جن میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل ہیں-عالمی نظام تبدیلی کی جانب مائل ہے اور عالمی طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے-پاکستان چائنا کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور سی پیک پاکستان اور چائنا دونوں کے لیے اقتصادی طور پر اہم ہے- ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک پاکستان کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں گے اور برآمدات میں اضافے کا سبب بنیں گے- بنیادی طور پر اس منصوبہ کے پانچ پہلو ہیں:

1.        پالیسی کمیونیکیشن

2.       سہولیات کا مربوط نظام

3.       وسیع پیمانے پہ تجارت

4.       باہمی معاشی نظام کا قیام

5.       دونوں ممالک کی عوام میں برادرانہ تعلقات کا قیام 

اگر دونوں ممالک کی عوام کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی پہلے سے مزید بہتر نہ ہوئی تو سی پیک کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہو جائے گا- پاکستان اور چائنا کے لوگوں کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے مشترک اقدار کو اجاگر کرنا چاہیے-دونوں ممالک کے مابین تعلقات پر اثر انداز ہونے والے محرکات کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے اور ایک دوسرے کی بہتر آگاہی کے لیے تعلیمی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ معاون ثابت ہوسکتا ہے- اس لیے ریاستی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی اور ذاتی سطح پر بھی لوگوں کے روابط ہونے چاہئیں- اس بدلتی دنیا میں پاکستان اور چائنا کا کردار بہت اہم ہے-دونوں ممالک اپنی اپنی ثقافتی اقدار کے حامل ہیں  جیسا کہ ایک معروف چائنیز فلسفی کا قول ہے: 

 ’’ہر ایک اپنے کلچر اور اقدار کا پابند ہے- اگر ہم ایک دوسرے کی ثقافت اور روایات کا احترام کریں تو دنیا امید کا گہوارہ بن جائے گی‘‘-

تاہم، پاکستان اور چائنا کی اقوام کے مابین ثقافتی فرق موجود ہے اور ان کو سمجھنا نہایت ضروری ہے- ہم ثقافتی میل جول اور قربت کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے لیے چائنا کی بڑی تہذیب کو مقابلتاً چھوٹی تہذیب کے ثقافتی پہلوؤں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے-چائنا پاکستان معاشرتی و ثقافتی تبادلوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور لوگوں کے میل جول میں اضافہ ہوا ہے- پاکستان کی آبادی محض 20 کروڑ ہے جبکہ چائنا 1 ارب 35 کروڑ نفوس پر مشتمل قوم ہے جس کو پاکستانی عوام کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے-اس ضمن میں تعلیمی تعاون سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سطح پر ایک دوسرے کے ماحول میں چند سال وقت گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل سکے-اس میں سب سے آسان طریقہ طلباء کے تبادلوں کا ہے-ہمیں باہمی اعتماد کو استوار کرنے کے لیے طلباء کو تعلیم کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ملک بھیجنا ہو گا- اس سے چائینیز طلباء کو پاکستان آنے اور اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور دوسری جگہوں پر قیام کا موقع ملے گا اور ان کا پاکستانی عوام کے ساتھ میل جول ہو گا-دونوں ممالک کی حکومتوں کو تعلیم کے میدان میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے- پاکستان اور چائنا کی اسناد دونوں ممالک میں قابلِ قبول ہونی چاہئیں- لسانیات اور ثقافت کے مضامین کو ترجیح دی جانی چاہیے- اس کے علاوہ سی پیک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ووکیشنل ایجوکیشن پر زور دینا چاہیے- ہمیں پروفیشنل جامعات اور سکول بنانے ہیں تاکہ صحافت، ثقافت اور تعلیم کے میدان میں تعاون کو بڑھایا جا سکے-

اگر دونوں ممالک کے ثقافتی و سماجی ہم آہنگی کے لیے کی جانے والی تعلیمی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو کوئی قابلِ قدر کارکردگی سامنے نہیں آتی- مثلاً مئی 2017ء تک صرف 7 چینی تعلیمی اداروں میں پاکستان ریسرچ سنٹر قائم کیے گئے جن میں سنگ ہوا یونیورسٹی پاکستان کلچرل ٹرانسمیشن ریسرچ سینٹر، پیکنگ یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، سک ہوانگ یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، فیوڈن یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، جیانگ سو نارمل یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، چائنا ویسٹ نارمل یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، یونان نیشنیلیٹیز یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر شامل ہیں-مندرجہ بالا سپیشل ریسرچ سینٹرز کے علاوہ بہت کم سکالرز پاک چائنا مشترکہ تحقیقی پراجیکٹس کی جانب توجہ دیتے ہیں- اسی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی اور ثقافتی پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے-اس لیے چائنا میں پاکستان سٹڈی اور پاکستان میں چائنا سٹڈی کو فروغ دینے کی ضرورت ہےتاکہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم ہو سکیں-

دونوں ممالک کے مابین دیرپا تعلقات کے قیام کے لیے مختلف تدابیر کی ضرورت ہے- اس لیے، چائنا سٹڈی سینٹر چائنیز یونیورسٹیوں کے تعاون سے مشترکہ سائنسی و تکنیکی پراجیکٹس شروع کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے- یہ سائنسی ترقی کے ساتھ دونوں ممالک کی عوام کےدرمیان دوستانہ تعلقات کے قیام میں بھی معاون ثابت ہوں گے- حال ہی میں 7 پاکستانی فنکاروں کی ٹیم کا چائنیز یونیورسٹیوں میں شاندار خیر مقدم کیا گیا- چائنا سٹڈی سینٹر نے پاکستان میں چینی طرز کی پتنگ بازی بھی متعارف کروائی ہے-سینکڑوں پتنگ چین سے درآمد کیے گئے ہیں اور جلد ہی پاک چائنا کائیٹ فیسٹیول بھی منعقد کیا جائے گا-

بدھ مت کے نوادرات کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں کےعجائب گھروں مثلاً لاہور، ٹیکسلا، پشاور، دیر اور کراچی میں موجود ہے جو نہ صرف چینی محققین کے لیے بلکہ آثار قدیمہ اور بدھ ازم کے محققین کے لیے بھی بیش قیمت ہے- ایسے اثاثہ جات نہ صرف دونوں اطراف کے لوگوں میں تعلقات کا ذریعہ ہیں بلکہ سیاحت کوبھی فروغ دے سکتے ہیں-

بدقسمتی سے چائنا جرنلزم کی انڈسٹری میں زیادہ متحرک نہیں ہے- چائنا کو سپر پاور بننے کے لیے ایک فعال نیوز ایجنسی اور ٹی وی چینل کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اور چائنا کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈا کا مؤثر طور پر جواب دیا جا سکے-

اس وقت جب دونوں ممالک کے حکومتی سطح پر بہترین تعلقات استوار ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے مابین تعلقات کو بھی فروغ دیا جائے- اگرچہ دونوں اطراف سے ادبی اسکالرز تجزیہ نگار اور طالب علم دورے کرتے رہتے ہیں جس سے معاشی، سماجی اور ادبی تعلقات میں بہتری آتی ہے لیکن دونوں اطراف میں موجود گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے-

٭٭٭

مسلم انسٹیٹیوٹ اور چائنا پاکستان تعلیمی و ثقافتی انسٹیٹیوٹ نے ’’پاک چین تعلقات: علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں‘‘کے عنوان پہ راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا- ائیر وائس مارشل (ر)فائزامیر (وائس چانسلر ائیر یونیورسٹی، اسلام آباد )نے سیشن کی صدارت کی-دیگر مقررین میں جناب ظفر بختاوری  (سابقہ صدر، اسلام چیمبر آف کامرس)، پروفیسر لی وی (ڈین، اسکول آف انٹرنیشنل ایجوکیشن، یُنان یونیورسٹی، چائنا)، ڈاکٹر زانگ ڈائو جنگ (ڈائریکٹر، کنفیوشیس انسٹیٹیوٹ)، جناب تنویر جعفری (سربراہ، چائنا سٹڈی سینٹر، کامسیٹس، اسلام آباد)اور جناب می ہیجو (سی -ای-او، چائنا پاکستان تعلیمی و ثقافتی انسٹیٹیوٹ) شامل تھے-جناب طاہر محمود اور جناب آصف تنویر اعوان ایڈوکیٹ (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے معزز مہمانوں کے لیے اظہار تشکر کیا-

مقررین کے اظہار خیال اور وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:

پاکستان اور چائنا کے سفارتی تعلقات 1951ء میں قائم ہوئے-پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے انقلاب کے فوراً بعد ’’پیپلز ریپبلک آف چائنا‘‘ کو تسلیم کر لیا-پاکستان پہلا مسلم ملک تھا جس کے چائنا سےسفارتی تعلقات قائم ہوئے-وزیرِ اعظم چو این لائی کی کوششوں کے نتیجے میں 1955ء میں بنڈونگ کانفرنس کے بعد دونوں ریاستوں میں مثالی مراسم قائم ہوئے-پاک چائنا دوستی کو دونوں ممالک کے سیاسی رہنما پہاڑوں سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی قرار دیتے ہیں اور یہ بین الاقوامی دنیا میں اپنی طرز کی واحد مثال ہے-  

پاکستان،چائنا اور مسلم دنیا کے مابین اہم رابطہ ہے-دونوں ممالک ایک دوسرے کی ترقی کے سفر میں گزشتہ سات دہائیوں سے اچھوتا کردار ادا کر رہے ہیں-مثلاً چائنا نے پاکستان میں 22 سے زائد ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر شروع کر رکھی ہے جن میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، ٹینک ری بلڈنگ فیکٹری، ائیر کرافٹ ری بلڈنگ فیکٹری، گوادر پورٹ،شاہراہِ قراقرم، نیوکلیائی بجلی گھر وغیرہ شامل ہیں-

چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) حقیقت بننے جا رہا ہے اور دونوں ممالک نے ایک بین الاقوامی اقتصادی زون بنانے کا فیصلہ کیا ہے-سی پیک ایک بہت بڑی تبدیلی کا نام ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدلنے والی ہے-چین کے حالیہ صدر جناب زی جن پنگ چائنا کو سپر پاور بنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا آغاز کیا-یہ روڈ دنیا کے 65 ممالک کو آپس میں جوڑتا ہے جن میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل ہیں-عالمی نظام تبدیلی کی جانب مائل ہے اور عالمی طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے-پاکستان چائنا کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور سی پیک پاکستان اور چائنا دونوں کے لیے اقتصادی طور پر اہم ہے- ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک پاکستان کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں گے اور برآمدات میں اضافے کا سبب بنیں گے- بنیادی طور پر اس منصوبہ کے پانچ پہلو ہیں:

1.       پالیسی کمیونیکیشن

2.       سہولیات کا مربوط نظام

3.       وسیع پیمانے پہ تجارت

4.       باہمی معاشی نظام کا قیام

5.       دونوں ممالک کی عوام میں برادرانہ تعلقات کا قیام

اگر دونوں ممالک کی عوام کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی پہلے سے مزید بہتر نہ ہوئی تو سی پیک کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہو جائے گا- پاکستان اور چائنا کے لوگوں کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے مشترک اقدار کو اجاگر کرنا چاہیے-دونوں ممالک کے مابین تعلقات پر اثر انداز ہونے والے محرکات کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے اور ایک دوسرے کی بہتر آگاہی کے لیے تعلیمی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ معاون ثابت ہوسکتا ہے- اس لیے ریاستی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی اور ذاتی سطح پر بھی لوگوں کے روابط ہونے چاہئیں- اس بدلتی دنیا میں پاکستان اور چائنا کا کردار بہت اہم ہے-دونوں ممالک اپنی اپنی ثقافتی اقدار کے حامل ہیں  جیسا کہ ایک معروف چائنیز فلسفی کا قول ہے:

 

 ’’ہر ایک اپنے کلچر اور اقدار کا پابند ہے- اگر ہم ایک دوسرے کی ثقافت اور روایات کا احترام کریں تو دنیا امید کا گہوارہ بن جائے گی‘‘-

تاہم، پاکستان اور چائنا کی اقوام کے مابین ثقافتی فرق موجود ہے اور ان کو سمجھنا نہایت ضروری ہے- ہم ثقافتی میل جول اور قربت کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے لیے چائنا کی بڑی تہذیب کو مقابلتاً چھوٹی تہذیب کے ثقافتی پہلوؤں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے-چائنا پاکستان معاشرتی و ثقافتی تبادلوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور لوگوں کے میل جول میں اضافہ ہوا ہے- پاکستان کی آبادی محض 20 کروڑ ہے جبکہ چائنا 1 ارب 35 کروڑ نفوس پر مشتمل قوم ہے جس کو پاکستانی عوام کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے-اس ضمن میں تعلیمی تعاون سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سطح پر ایک دوسرے کے ماحول میں چند سال وقت گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل سکے-اس میں سب سے آسان طریقہ طلباء کے تبادلوں کا ہے-ہمیں باہمی اعتماد کو استوار کرنے کے لیے طلباء کو تعلیم کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ملک بھیجنا ہو گا- اس سے چائینیز طلباء کو پاکستان آنے اور اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور دوسری جگہوں پر قیام کا موقع ملے گا اور ان کا پاکستانی عوام کے ساتھ میل جول ہو گا-دونوں ممالک کی حکومتوں کو تعلیم کے میدان میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے- پاکستان اور چائنا کی اسناد دونوں ممالک میں قابلِ قبول ہونی چاہئیں- لسانیات اور ثقافت کے مضامین کو ترجیح دی جانی چاہیے- اس کے علاوہ سی پیک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ووکیشنل ایجوکیشن پر زور دینا چاہیے- ہمیں پروفیشنل جامعات اور سکول بنانے ہیں تاکہ صحافت، ثقافت اور تعلیم کے میدان میں تعاون کو بڑھایا جا سکے-

اگر دونوں ممالک کے ثقافتی و سماجی ہم آہنگی کے لیے کی جانے والی تعلیمی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو کوئی قابلِ قدر کارکردگی سامنے نہیں آتی- مثلاً مئی 2017ء تک صرف 7 چینی تعلیمی اداروں میں پاکستان ریسرچ سنٹر قائم کیے گئے جن میں سنگ ہوا یونیورسٹی پاکستان کلچرل ٹرانسمیشن ریسرچ سینٹر، پیکنگ یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، سک ہوانگ یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، فیوڈن یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، جیانگ سو نارمل یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، چائنا ویسٹ نارمل یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر، یونان نیشنیلیٹیز یونیورسٹی پاکستان ریسرچ سینٹر شامل ہیں-مندرجہ بالا سپیشل ریسرچ سینٹرز کے علاوہ بہت کم سکالرز پاک چائنا مشترکہ تحقیقی پراجیکٹس کی جانب توجہ دیتے ہیں- اسی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی اور ثقافتی پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے-اس لیے چائنا میں پاکستان سٹڈی اور پاکستان میں چائنا سٹڈی کو فروغ دینے کی ضرورت ہےتاکہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم ہو سکیں-

دونوں ممالک کے مابین دیرپا تعلقات کے قیام کے لیے مختلف تدابیر کی ضرورت ہے- اس لیے، چائنا سٹڈی سینٹر چائنیز یونیورسٹیوں کے تعاون سے مشترکہ سائنسی و تکنیکی پراجیکٹس شروع کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے- یہ سائنسی ترقی کے ساتھ دونوں ممالک کی عوام کےدرمیان دوستانہ تعلقات کے قیام میں بھی معاون ثابت ہوں گے- حال ہی میں 7 پاکستانی فنکاروں کی ٹیم کا چائنیز یونیورسٹیوں میں شاندار خیر مقدم کیا گیا- چائنا سٹڈی سینٹر نے پاکستان میں چینی طرز کی پتنگ بازی بھی متعارف کروائی ہے-سینکڑوں پتنگ چین سے درآمد کیے گئے ہیں اور جلد ہی پاک چائنا کائیٹ فیسٹیول بھی منعقد کیا جائے گا-

بدھ مت کے نوادرات کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں کےعجائب گھروں مثلاً لاہور، ٹیکسلا، پشاور، دیر اور کراچی میں موجود ہے جو نہ صرف چینی محققین کے لیے بلکہ آثار قدیمہ اور بدھ ازم کے محققین کے لیے بھی بیش قیمت ہے- ایسے اثاثہ جات نہ صرف دونوں اطراف کے لوگوں میں تعلقات کا ذریعہ ہیں بلکہ سیاحت کوبھی فروغ دے سکتے ہیں-

بدقسمتی سے چائنا جرنلزم کی انڈسٹری میں زیادہ متحرک نہیں ہے- چائنا کو سپر پاور بننے کے لیے ایک فعال نیوز ایجنسی اور ٹی وی چینل کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اور چائنا کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈا کا مؤثر طور پر جواب دیا جا سکے-

اس وقت جب دونوں ممالک کے حکومتی سطح پر بہترین تعلقات استوار ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے مابین تعلقات کو بھی فروغ دیا جائے- اگرچہ دونوں اطراف سے ادبی اسکالرز تجزیہ نگار اور طالب علم دورے کرتے رہتے ہیں جس سے معاشی، سماجی اور ادبی تعلقات میں بہتری آتی ہے لیکن دونوں اطراف میں موجود گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر