صوفی ازم اور مغرب

صوفی ازم اور مغرب

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’صوفی ازم اور مغر ب‘‘کے عنوان پہ نیشنل لائبریری آف پاکستان،اسلام آباد میں 18جولائی 2017ء کو خصوصی لیکچرکا انعقاد کیا گیا- ’’لوئیولا یونیورسٹی شکاگو، امریکہ  کی پروفیسر ڈاکٹر مارثیہ  ہر مینسن‘‘نے خصوصی لیکچر دیا- چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے اس تقریب کا آغاز اپنے افتتاحی کلمات سے کیا-صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان اس موقع پہ مہمان خصوصی تھے- ڈائریکٹر سائنٹیفک اینڈ میڈیکل افیئرز ڈاکٹر سائرہ علوی نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-لیکچر میں غیر ملکی مبصرین، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء، محققین، دانشوروں، سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی- 

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:   

افتتاحی کلمات :

صاحبزادہ سلطان احمد علی(چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )

میں پروفیسر مارثیہ  ہر مینسن  کا بطورِ خاص امریکہ سے تشریف لانے پر مشکور ہوں- 8صدیاں گزر جانے کے باوجود، مولانا رومی کے شعری مجموعہ جات کی یورپ میں کثیر تعداد میں فروخت مولانا رومی، امام ابنِ عربی، حضرت سلطان باھُو ؒ اور ان جیسے دوسرے صوفیاء کی جانب سے دئیے گئے محبت و امن کے پیغام کی اہمیت کا ثبوت ہے-صوفیاء کی تعلیمات کسی ایک معاشرے تک محدود نہیں بلکہ ان کے لیے ہر تہذیب میں کشش پائی جاتی ہے اور وہ بغیر کسی لسانی، نسلی یا عقائد کی تفریق کے انسانیت کے لیے ہوتی ہیں-آج کے دور میں جب معاشروں میں شدت پسندی کا دور دورہ ہے، صوفیانہ تعلیمات ہمیں اخوت اور بھائی چارے کی جانب لے جا سکتی ہیں-صوفی ازم اسلام کی اصل تشریح ہے جو دنیا میں امن و سلامتی کی ضامن ہے-صوفی ازم پر مغربی مصنفین کی بہت سی تصانیف کا اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے اور پروفیسر اینی مری شمل، پروفیسر ہرمینسن اور پروفیسر ولیم چیٹیک جیسے ماہرین کے کام کو پاکستان میں بہت سراہا جاتا ہے-   

خصوصی لیکچر  

پروفیسر مارثیہ  ہرمینسن (لوئیولا یونیورسٹی، شکاگو، امریکہ)

میں امریکہ میں صوفی ازم کی تاریخ اور کس طرح اس نے عالمی تبدیلیوں اور مسلم کمیونٹی کی موجودگی میں امریکی ثقافت پر اثرات ڈالے،پر روشنی ڈالوں گی-مغرب میں صوفیانہ تحریک بتدریج ارتقاء پذیر رہی ہے-یہ تحاریک صوفی ازم کے چند پہلو امریکہ کی مسلم کمیونٹی بالخصوص نوجوان طبقے میں متعارف کرانے میں کامیاب رہی ہیں-سب سے پہلے میں امریکہ میں صوفی تحاریک کی تاریخ اور اقسام کا جائزہ لوں گی-سکالرز میں ان کی مختلف امتیازی خصوصیات کی بنیاد پر درجہ بندی کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے- اسلامی شناخت کے متعلق مختلف صوفیانہ تحریکوں کے  جداگانہ تصورات کا احاطہ کرنے کے لیے میں نے گلستان (sufi garden)، سدابہار  (perennials)، مخلوط (hybrids)  اور  ٹرانسپلانٹ(transplants) کے استعارے استعمال کیے ہیں-   

صوفی گلستان،سدا بہار، تحریک  مخصوص اسلامی پہچان کی بجائے ایک سدا بہار یا عالمی  موقف کی حامل ہیں-میں سدا بہار کی اصطلاح کو وسیع معنوں میں اس لیے استعمال کر رہی ہوں کہ ہر مذہب کی بنیاد ایک ہی لافانی حقیقت ہے-مخلوط کی اصطلاح ان امریکی صوفی تحاریک کے لیے ہے جو خالص اسلامی مآخذوں کے ساتھ امریکی ثقافت کے بھی پہلوؤں کو بھی اپناتی ہیں اور اس وجہ سے ان کے کثیر تعداد میں امریکی پیروکار ہیں-امریکہ میں ایسے مخلوط صوفی گروہوں کی تشکیل ان مسلمان تارکینِ وطن نے کی جن کی پرورش اسلامی معاشروں میں ہوئی تھی-  

مخلوط صوفیانہ تحریکوں میں مختلف النسل ممبران اور خواتین کی شمولیت کے حوالے سے قبولیت پائی جاتی ہے-امریکی صوفی گلستان میں ’ٹرانسپلانٹس‘ تارکینِ وطن صوفیوں کا ہم نسل گروہ ہے جو اپنی آبائی روایات کی پیروی کرتے ہیں-اس کی نمایاں مثالوں میں سینیگالی، افغانی یا انڈین مہاجرین کے امریکہ میں پائے جانے والے گروہ ہیں-

اہلِ روایت مغرب میں ابھی بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں لیکن وہ فقہہ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور صوفی ازم کے روایتی علم کے پیروکار ہیں-’’مستند صوفی ازم‘‘اسلام کی احیاء  کے لیے روایتی علم پر زور دیتا ہے اوریہ روایتی علم ’’شیخ‘‘ سے براہِ راست سیکھا جاتا ہے-مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے تارکینِ وطن نے سیاسی اسلام کی بجائے اسلام کی مستند تعلیمات میں دلچسپی لینا شروع کی اور ان طبقات میں اسلامی خواص کے حامل امریکی لہجے میں گفتگو کرنے والے صوفی معلمین کے لیے سب سے زیادہ کشش پائی جاتی تھی- 

قومی سطح پر قائم تنظیمیں جو کہ عالمگیر اسلامی تحریکوں سے متاثر ہیں، نے روایتی صوفی پریکٹسز جیسا کہ ’’طریقہ‘‘ (Tariqa) کو مسترد کیا-تاہم، انہوں نے قرآنی تعلیمات پر مبنی روحانی تصورات جیسا کہ ’’احسان‘‘اور ’’تزکیہِ نفس‘‘ کو اپنایا-امریکی نو مسلم حمزہ یوسف ہینسن کی قیادت میں ’’زیتونا‘‘  جیسے گروپس نے اسلامی شناخت کی بنیاد روایتی اسلامی علوم کو قرار دیا اور ان کو مستند اسلامی روحانیت کے متلاشیوں کی جانب سے پذیرائی ملی-  

سن 1990ءسے امریکہ میں صوفی ازم مکمل اسلامی شکل میں ڈھل گیا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد فقہہ جیسے روایتی علوم کی تحصیل کے بعد صوفیانہ سلاسل اور معلمین کی جانب راغب ہوئی-نو مسلم امریکی صوفی، صوفی ازم کی معقول اور معاشرتی سطح پر قابلِ قبول صورت پیش کرنے میں زبردست مددگار ثابت ہوئے-ماضی قریب میں امریکہ میں مہاجرین کی وساطت سے آنےوالی  صوفی تحریکوں کے برعکس، مستند صوفی ازم مخصوص اسلامی ثقافتوں سے منسوب شدہ ثقافتی روَیوں اور لباس کو جگہ دیتا ہے-تاہم، یہ وسیع اور غیر ثقافتی مخصوص اسلامی پریکٹسز  جیسا کہ مرد  حضرات کے آزادانہ میل جول سے اجتناب اور انکساری کو تسلیم کرتا ہے-اس لیے بعض صورتوں میں مخصوص امریکی شکل کے اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ ایک مخصوص امریکی حجاب ہے-ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغرب بالخصوص امریکہ میں مشرقِ وسطیٰ  سے آنے والے شیوخ کا اثر بڑھ رہا ہےجو کہ اسلامی شناخت کی اساس ِ فقہہ کی تعلیم کے بعد ’’طریقہ‘‘کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے صوفی ازم پر رکھ رہے ہیں-

سردار مسعود خان(صدر آزاد جموں و کشمیر ):

بلاشبہ ڈاکٹر ہرمینسن کا علمی لیکچر روحانی تسکین کا باعث تھا-رومی کے اشعار لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں اور سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بھی صدیوں سے ہمارے دل و دماغ کو منور کیا ہے-صوفیاء   بطور روحانی معالجین صدیوں سے لاکھوں لوگوں کے دکھوں کا مداوا کر رہے ہیں- میرے خیال کے مطابق تشدد اور نفرت کے پرچارکرنے والے مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں-دورِ حاضر میں مغرب اور مشرق میں بڑھتی ہوئی کشمکش میں اخوت اور بھائی چارے کی ترویج کے لیے روحانیت کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے-دنیا اب دوبارہ مذہب کی جانب مائل ہو رہی ہے-میں تمام روحانی سلاسل سے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مظلوم کشمیریوں کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ عملی اقدام کی بھی استدعا کرتا ہوں-

 وقفہ سوال و جوابات :

وقفہ سوال و جوابات کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے-

یہ کہا جاتا ہے کےمستشرقین کے نزدیک  تصوف کا ماخذ غیر اسلامی ہے لیکن اگر پروفیسرشمل اور پرفیسر کارل ایرنسٹ کی تحریروں کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ مستشرقین کا نظریہ نہیں بلکہ سامراجی منتظمین کی سوچ تھی-  امریکی مسلمانوں پہ صوفیانہ تعلیمات کا اثر ہے اور ان تعلیمات کے زیر اثر لوگ عموماً زیادہ مؤدب ہیں-صوفیاء اس حدیث پہ یقین رکھتے ہیں کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں پس وہ جیسے گمان کرے،لہٰذا ہم سب ان شاء اللہ اپنی حد میں اس ذات پاک کا مشاہدہ کریں گے-تصوف میں مختلف سلاسل ہیں لیکن یہ فرقوں کی طرح نہیں جیسا کہ کوئی صوفی سلسلہ دوسرے سلسلہ کی مخالفت نہیں کرتا جب کہ ان کے اعمال میں معمولی فرق پایا جاتا ہے-ایک مرشد اپنے مرید کو دوسرے سلسلے کے مرید کے پاس بھی بھیج سکتا ہے لہٰذا یہ ایک کثیرا لجہت طریقہ ہے جو کہ برا نہیں- 

 

٭٭٭ 

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’صوفی ازم اور مغر ب‘‘کے عنوان پہ نیشنل لائبریری آف پاکستان،اسلام آباد میں 18جولائی 2017ء کو خصوصی لیکچرکا انعقاد کیا گیا- ’’لوئیولا یونیورسٹی شکاگو، امریکہ  کی پروفیسر ڈاکٹر مارثیہ  ہر مینسن‘‘نے خصوصی لیکچر دیا- چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے اس تقریب کا آغاز اپنے افتتاحی کلمات سے کیا-صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان اس موقع پہ مہمان خصوصی تھے- ڈائریکٹر سائنٹیفک اینڈ میڈیکل افیئرز ڈاکٹر سائرہ علوی نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-لیکچر میں غیر ملکی مبصرین، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء، محققین، دانشوروں، سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی- 

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:   

افتتاحی کلمات :

صاحبزادہ سلطان احمد علی(چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )

میں پروفیسر مارثیہ  ہر مینسن  کا بطورِ خاص امریکہ سے تشریف لانے پر مشکور ہوں-8صدیاں گزر جانے کے باوجود، مولانا رومی کے شعری مجموعہ جات کی یورپ میں کثیر تعداد میں فروخت مولانا رومی، امام ابنِ عربی، حضرت سلطان باھُو (﷭) اور ان جیسے دوسرے صوفیاء کی جانب سے دئیے گئے محبت و امن کے پیغام کی اہمیت کا ثبوت ہے-صوفیاء کی تعلیمات کسی ایک معاشرے تک محدود نہیں بلکہ ان کے لیے ہر تہذیب میں کشش پائی جاتی ہے اور وہ بغیر کسی لسانی، نسلی یا عقائد کی تفریق کے انسانیت کے لیے ہوتی ہیں-آج کے دور میں جب معاشروں میں شدت پسندی کا دور دورہ ہے، صوفیانہ تعلیمات ہمیں اخوت اور بھائی چارے کی جانب لے جا سکتی ہیں-صوفی ازم اسلام کی اصل تشریح ہے جو دنیا میں امن و سلامتی کی ضامن ہے-صوفی ازم پر مغربی مصنفین کی بہت سی تصانیف کا اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے اور پروفیسر اینی مری شمل، پروفیسر ہرمینسن اور پروفیسر ولیم چیٹیک جیسے ماہرین کے کام کو پاکستان میں بہت سراہا جاتا ہے-   

خصوصی لیکچر  

پروفیسر مارثیہ  ہرمینسن (لوئیولا یونیورسٹی، شکاگو، امریکہ)

میں امریکہ میں صوفی ازم کی تاریخ اور کس طرح اس نے عالمی تبدیلیوں اور مسلم کمیونٹی کی موجودگی میں امریکی ثقافت پر اثرات ڈالے،پر روشنی ڈالوں گی-مغرب میں صوفیانہ تحریک بتدریج ارتقاء پذیر رہی ہے-یہ تحاریک صوفی ازم کے چند پہلو امریکہ کی مسلم کمیونٹی بالخصوص نوجوان طبقے میں متعارف کرانے میں کامیاب رہی ہیں-سب سے پہلے میں امریکہ میں صوفی تحاریک کی تاریخ اور اقسام کا جائزہ لوں گی-سکالرز میں ان کی مختلف امتیازی خصوصیات کی بنیاد پر درجہ بندی کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے- اسلامی شناخت کے متعلق مختلف صوفیانہ تحریکوں کے  جداگانہ تصورات کا احاطہ کرنے کے لیے میں نے گلستان (sufi garden)، سدابہار  (perennials)، مخلوط (hybrids)  اور  ٹرانسپلانٹ(transplants) کے استعارے استعمال کیے ہیں-   

صوفی گلستان،سدا بہار، تحریک  مخصوص اسلامی پہچان کی بجائے ایک سدا بہار یا عالمی  موقف کی حامل ہیں-میں سدا بہار کی اصطلاح کو وسیع معنوں میں اس لیے استعمال کر رہی ہوں کہ ہر مذہب کی بنیاد ایک ہی لافانی حقیقت ہے-مخلوط کی اصطلاح ان امریکی صوفی تحاریک کے لیے ہے جو خالص اسلامی مآخذوں کے ساتھ امریکی ثقافت کے بھی پہلوؤں کو بھی اپناتی ہیں اور اس وجہ سے ان کے کثیر تعداد میں امریکی پیروکار ہیں-امریکہ میں ایسے مخلوط صوفی گروہوں کی تشکیل ان مسلمان تارکینِ وطن نے کی جن کی پرورش اسلامی معاشروں میں ہوئی تھی-  

مخلوط صوفیانہ تحریکوں میں مختلف النسل ممبران اور خواتین کی شمولیت کے حوالے سے قبولیت پائی جاتی ہے-امریکی صوفی گلستان میں ’ٹرانسپلانٹس‘ تارکینِ وطن صوفیوں کا ہم نسل گروہ ہے جو اپنی آبائی روایات کی پیروی کرتے ہیں-اس کی نمایاں مثالوں میں سینیگالی، افغانی یا انڈین مہاجرین کے امریکہ میں پائے جانے والے گروہ ہیں-

اہلِ روایت مغرب میں ابھی بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں لیکن وہ فقہہ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور صوفی ازم کے روایتی علم کے پیروکار ہیں-’’مستند صوفی ازم‘‘اسلام کی احیاء  کے لیے روایتی علم پر زور دیتا ہے اوریہ روایتی علم ’’شیخ‘‘ سے براہِ راست سیکھا جاتا ہے-مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے تارکینِ وطن نے سیاسی اسلام کی بجائے اسلام کی مستند تعلیمات میں دلچسپی لینا شروع کی اور ان طبقات میں اسلامی خواص کے حامل امریکی لہجے میں گفتگو کرنے والے صوفی معلمین کے لیے سب سے زیادہ کشش پائی جاتی تھی- 

قومی سطح پر قائم تنظیمیں جو کہ عالمگیر اسلامی تحریکوں سے متاثر ہیں، نے روایتی صوفی پریکٹسز جیسا کہ ’’طریقہ‘‘ (Tariqa) کو مسترد کیا-تاہم، انہوں نے قرآنی تعلیمات پر مبنی روحانی تصورات جیسا کہ ’’احسان‘‘اور ’’تزکیہِ نفس‘‘ کو اپنایا-امریکی نو مسلم حمزہ یوسف ہینسن کی قیادت میں ’’زیتونا‘‘  جیسے گروپس نے اسلامی شناخت کی بنیاد روایتی اسلامی علوم کو قرار دیا اور ان کو مستند اسلامی روحانیت کے متلاشیوں کی جانب سے پذیرائی ملی-  

سن 1990ءسے امریکہ میں صوفی ازم مکمل اسلامی شکل میں ڈھل گیا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد فقہہ جیسے روایتی علوم کی تحصیل کے بعد صوفیانہ سلاسل اور معلمین کی جانب راغب ہوئی-نو مسلم امریکی صوفی، صوفی ازم کی معقول اور معاشرتی سطح پر قابلِ قبول صورت پیش کرنے میں زبردست مددگار ثابت ہوئے-ماضی قریب میں امریکہ میں مہاجرین کی وساطت سے آنےوالی  صوفی تحریکوں کے برعکس، مستند صوفی ازم مخصوص اسلامی ثقافتوں سے منسوب شدہ ثقافتی روَیوں اور لباس کو جگہ دیتا ہے-تاہم، یہ وسیع اور غیر ثقافتی مخصوص اسلامی پریکٹسز  جیسا کہ مرد  حضرات کے آزادانہ میل جول سے اجتناب اور انکساری کو تسلیم کرتا ہے-اس لیے بعض صورتوں میں مخصوص امریکی شکل کے اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ ایک مخصوص امریکی حجاب ہے-ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغرب بالخصوص امریکہ میں مشرقِ وسطیٰ  سے آنے والے شیوخ کا اثر بڑھ رہا ہےجو کہ اسلامی شناخت کی اساس ِ فقہہ کی تعلیم کے بعد ’’طریقہ‘‘کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے صوفی ازم پر رکھ رہے ہیں-

سردار مسعود خان(صدر آزاد جموں و کشمیر ):

بلاشبہ ڈاکٹر ہرمینسن کا علمی لیکچر روحانی تسکین کا باعث تھا-رومی کے اشعار لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں اور سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بھی صدیوں سے ہمارے دل و دماغ کو منور کیا ہے-صوفیاء   بطور روحانی معالجین صدیوں سے لاکھوں لوگوں کے دکھوں کا مداوا کر رہے ہیں- میرے خیال کے مطابق تشدد اور نفرت کے پرچارکرنے والے مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں-دورِ حاضر میں مغرب اور مشرق میں بڑھتی ہوئی کشمکش میں اخوت اور بھائی چارے کی ترویج کے لیے روحانیت کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے-دنیا اب دوبارہ مذہب کی جانب مائل ہو رہی ہے-میں تمام روحانی سلاسل سے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مظلوم کشمیریوں کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ عملی اقدام کی بھی استدعا کرتا ہوں-

 وقفہ سوال و جوابات :

وقفہ سوال و جوابات کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے-

یہ کہا جاتا ہے کےمستشرقین کے نزدیک  تصوف کا ماخذ غیر اسلامی ہے لیکن اگر پروفیسرشمل اور پرفیسر کارل ایرنسٹ کی تحریروں کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ مستشرقین کا نظریہ نہیں بلکہ سامراجی منتظمین کی سوچ تھی-  امریکی مسلمانوں پہ صوفیانہ تعلیمات کا اثر ہے اور ان تعلیمات کے زیر اثر لوگ عموماً زیادہ مؤدب ہیں-صوفیاء اس حدیث پہ یقین رکھتے ہیں کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں پس وہ جیسے گمان کرے،لہٰذا ہم سب ان شاء اللہ اپنی حد میں اس ذات پاک کا مشاہدہ کریں گے-تصوف میں مختلف سلاسل ہیں لیکن یہ فرقوں کی طرح نہیں جیسا کہ کوئی صوفی سلسلہ دوسرے سلسلہ کی مخالفت نہیں کرتا جب کہ ان کے اعمال میں معمولی فرق پایا جاتا ہے-ایک مرشد اپنے مرید کو دوسرے سلسلے کے مرید کے پاس بھی بھیج سکتا ہے لہٰذا یہ ایک کثیرا لجہت طریقہ ہے جو کہ برا نہیں- 

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر