کیا مغرب میں ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟

کیا مغرب میں ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟

کیا مغرب میں ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جولائی 2017

مسلم ڈیبیٹ ’جو کہ مسلم انسٹیٹیوٹ کا گلوبل سطح کا آن  لائن ڈیبیٹ  فورم ہے‘ نے’’کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟‘‘کے موضوع  پہ آکسفورڈ ڈیبیٹ فارمولا کے تحت ایک آن لائن ڈیبیٹ  کا  اہتمام کیا-یہ مباحثہ بروز سوموار، ۲۴ اپریل ۲۰۱۷ءکو شروع  ہوا-پروفیسر آرشین ادیب مغدم (یونیورسٹی آف لندن میں گلوبل تھاٹ و کمپیریٹو فلاسفیز)  نےموضوع کے حق جبکہ پروفیسر ہینڈل کاثو فی (پروفیسر رائٹ یونیورسٹی آف کولمبیااور ڈائریکٹرادارہ برائے ثقافت،شناخت اور تعلیم)نےموضوع کےخلاف دلائل دیے-بعدازاں،مباحثہ میں ورجینی گوئیراڈون (ریسرچ پروفیسر نیشنل سنٹر برائے سائنسی تحقیق فرانس ) نتاشہ کمار واریکو (پروفیسر گریجویٹ سکول آف ایجوکیشن، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ) پروفیسر کولین وارڈ ( ڈائریکٹر ادارہ برائے اپلائیڈ کراس کلچرل ریسرچ ، وکٹوریہ یونیورسٹی آف ولنگٹن ، نیوزی لینڈ)، ایمبیسڈر ولیم لیسی سوینگ ( ڈائریکٹر جنرل، بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (IOM ) نے مہمان کے طور پر اپنے ماہرانہ رائے کا اظہار کیا-ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ حمزہ افتخار نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-مزید براں، چوہتر(74)ممالک سے لوگوں نے اپنے تبصرہ جات  اور ووٹ  کے ذریعے مباحثہ میں شرکت کی- قارئین ۱۳مئی۲۰۱۷ء تک اپنے تبصرہ جات اور ووٹس کے ذریعے شرکت کر سکتے تھے-قارئین کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ وسطی اور اختتامی مراحل میں مباحثہ کی پیروی کریں اور رائے تبدیل ہونے کی صورت میں وہ اپنا واحد ووٹ دوبارہ استعمال کریں-   

بیس (۲۰)دن کی مدلل اور فکر انگیز بحث کے بعد،ساٹھ (۶۰)فیصد اکثریت نے موضوعِ بحث ’’کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟‘‘کے حق میں ووٹ دیے-تاہم چالیس(۴۰) فیصد ووٹس جو کہ موضوع کے خلاف آئے،ان ووٹس کو نظر انداز کرنا بھی نا انصافی ہوگی-ابتداء سے اختتام  تک،فریقین کی طرف سے پیش کیے گئے دلائل اور حاصل کیے جانے والے ووٹس میں معمولی فرق رہا-انفرادیت اور شناخت جیسے نظریات پر اختلاف  آیا ر بھر پور ڈیبیٹ کے باوجود دونوں  فریقین  میں کچھ عوامل پر اصولی اتفاقِ رائے بھی پایا گیا جو کہ ساری بحث میں واضح ہے-  طرفین اس امر پر بھی متفق نظر آئے کہ ثقافتی تنوع اور اختلاف خوش آئند عوامل ہیں-اس بات کا اظہار معزز مہمانانِ گرامی کے خیالات سے بھی ہوتا ہے جنہوں نے ابتدائی اور  درمیانی مرحلہ  میں شرکت کی-فریقین  اس بات پر بھی متفق نظر آئے کہ ریاستوں اور قوموں میں انسانوں کی تقسیم قدرتی گروہ بندی کی بجائے اختراع کردہ عمل ہے-مزید براں،دونوں اطراف  نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کثیر الثقافتی معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی بجائے مل جل کر رہنا چاہیے-    

مباحثہ کے تینوں سیشنز کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے:

 ڈیبیٹ کاابتدائی مرحلہ :

ماڈریٹر محمد حمزہ افتخار نے مسلم ڈیبیٹ اور مسلم انسٹیٹیوٹ کی طرف سے  سب کو خوش آمدید کہا-انہوں نے کہا کہ اس ڈیبیٹ کا موضوع بہت وسیع اور پیچیدہ ہے اس لیے مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں ماہرین کے متنوع پینل کی میزبانی کر رہا ہوں جو کہ اس موضوع ،ملٹی کلچرل ازم، پہ وسیع تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں- ملٹی کلچرل ازم کا تصور مغرب میں اس وقت بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے-لیکن تاحال کوئی بھی اس کی گتھیاں سلجھانے سے قاصر ہے کہ آیا کہ اس کے معاشرے پہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ منفی؟بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ محض کثیر الجہت ثقافت ہے جبکہ بعض کے مطابق یہ اس پہ منحصر ہے کہ ایک ریاست اسے کیسے بر تتی ہے- بہرحال یہ ایک حقیقت ہے جو سیاسی مہموں میں بھی زیر بحث رہی خواہ وہ امریکہ کے صدارتی انتخابات تھے یا برطانیہ میں بریکسٹ کی مہم یا وہ حال ہی میں جاری فرانس کی صدارتی مہم ہو-اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے لیکن پھر بھی یہ موضوعات زیر بحث رہتے ہیں کہ کیا ملٹی کلچرل ازم پایئدار ہے؟ کیا ملٹی کلچرل ازم عدم برداشت کو فروغ دیتی ہے؟ کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ وطن پرستی اور ملٹی کلچرل ازم کے مابین کیا تعلق ہے؟ اور جو اس ڈیبیٹ کا موضوع ہے کہ کیا ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد کو پہنچ چکا ہے؟آپ سب اس ڈیبیٹ کا حصہ بنیں اور دیکھیں کہ ہماری  ڈیبیٹ کے معزز فریقین اور مہمانوں کا اس بارے میں کیا کہنا ہے-        

پروفیسر آرشین آدیب مغدم نے ابتدائی دلائل میں کہا کہ ملٹی کلچرل ازم ایک حقیقت ہے-مسلسل ارتقائی عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آنے والی مختلف ثقافتوں کے باہمی تعلق کے بغیر دنیا میں کسی قومی معاشرے کی تکمیل ممکن نہیں ہے-ملٹی کلچرل ازم کے خاتمے کی خواہش ریاستوں کے وجود کو چیلنج کرنے کے مترادف ہیں-یک ثقافتی معاشرے کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے-حتیٰ کہ بیسویں صدی کے ابتدا تا وسط میں، یورپ کی فاشسٹ تحاریک ہم نسل پرستی کے پرچار اور قیام میں مکمل طور پر ناکام رہیں-متنوع ثقافت کو زندگی کے مختلف رنگوں کے طور پر پذیرائی بخشنی چاہیے جیسا کہ آج کے دور میں نقلِ مکانی و مہاجرت نے پیدا کی ہے-اختلاف  سے گھبرانے کی بجائے اس کو مثبت موقع کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے-اس کا اطلاق صرف وہاں ہوتا ہے  جہاں پر قومیت پرستی کے برعکس ہم پر ثقافت ٹھونسی نہ جائے اور ہم اپنی انفرادیت قائم رکھ سکیں-میرا ووٹ برداشت،شمولیت،متفرق شناختوں،آزادیِ رائے  اور  شناختی قیود سے آزادی کے حق میں ہے-  

پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ نے موضوع کی مخالفت میں اپنے ابتدائی ریمارکس میں کہا کہ موضوعِ بحث’’کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے؟‘‘اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ملٹی کلچرل ازم بطور ریاستی پالیسی مغربی ممالک میں معاشرتی و ثقافتی تنوع سے نمٹنے کے لیے غیر مؤثر بلکہ نا کام ثابت ہوا ہےحتیٰ کہ مغربی ممالک کے مسائل میں اضافے کا سبب بنا ہے-موضوعِ بحث  سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے  کہ ماضی میں یہ تصور قابلِ عمل تھا-سماجی و ثقافتی تفریق مغربی ریاستوں کی مسلمہ اور اٹل خصوصیت ہے-آج عالمگیریت کے دور میں ، دنیا کے بڑے شہر جیسا کہ لندن، نیویارک اور ٹورنٹو اپنی حیران کن ترقی اور تنوع کے باعث سٹیون ورٹوویک کے الفاظ میں’’سپر ڈائیورسٹی‘‘اختیار کر چکے ہیں-

معزز مہمانانِ گرامی کے تبصرہ جات:

پروفیسر ورجینی گوئیراڈون نے کہا کہ کیا یورپین سوسائٹیز ملٹی کلچرل ہیں؟ جی ہاں-کیا یورپین حکومتیں ملٹی کلچرل ازم کی قائل ہیں اور ثقافتی اختلافات کو تسلیم کرتی ہیں؟ عدالتیں اور مقامی حکومتیں مختلف گروہوں کی جانب سے اپنی ثقافت یا مذہب کی ترویج کےبارے میں کیے مطالبات کی پذیرائی کی پابند تھی-۱۹۸۰ء کی دہائی میں مختلف ممالک جیسا کہ نیدر لینڈ میں ملٹی کلچرل ازم کی تحاریک چلائی گئی-لیکن ایک ایسی پالیسی پر بحث غیر حقیقی ہو گی جو کہ مغربی یورپ میں کبھی موجود ہی نہ تھی-شاید یہ بحث دولتِ مشترکہ کے چند ممالک کے لیے مفید ہو-بہت سے یورپی ممالک جیسا کہ روم میں عوام ابھی تک بنیادی حقوق کے حصول بارے پریشان ہے جبکہ مشرقی اور وسطی یورپ میں اقلیتوں سے ناروا رویے جیسے مسائل موجود ہیں- شاید ہمیں ’’حق پرستی‘‘کی اصطلاح تخلیق کرنا ہو گی-

ڈیبیٹ کا درمیانی مرحلہ :

ماڈریٹر محمد حمزہ افتخار نے پہلے سیشن کا خلاصہ بیان کیا اور کہا کہ جیسے جیسے ہم اس مباحثہ کے ابتدائی سے وسطی سیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں،بیشتر ووٹ موضوعِ بحث کے حق میں نظر آرہے ہیں یعنی چھپن (۵۶)فیصد حق میں اور چوالیس(۴۴)فیصد موضوع کی مخالفت میں-تاہم، مباحثہ کے پہلے دن ، رائے شماری معمولی حد تک موضوع کی مخالفت میں رہی-اس لیے ابھی تک رائے شماری کا رجحان اور تبصرہ جات دیکھتے ہوئے یہ پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ مباحثہ کے اختتام پر کونسی رائے اکثریت کی حمایت حاصل کرے گی-غیر یقینی کی یہ صورتحال اور ووٹس میں معمولی فرق اپنے طور پر اس مباحثہ کی اہمیت اور معیار کا ثبوت ہے-

یہ دیکھنا بھی دلچسپ امر ہو گا کہ دونوں دھڑوں کی رائے میں کس قدر مماثلت اور اختلاف پایا جاتا ہے-میرے خیال میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دونوں طرفین اس بات پر متفق ہوں گے کہ دورِ جدید میں ملٹی کلچرل ازم ایک حقیقت ہے-دنیا میں ہم قسم معاشرہ کا کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ کثیر الاثقافتی معاشرے نہ صرف مغرب بلکہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں-دونوں دھڑے اس امر پر بھی متفق نظر آتے ہیں کہ ثقافتی تنوع اور اختلاف خوش آئند عوامل ہیں-اس لیے ملٹی کلچرل ازم کی ترویج کے لیے معاشرتی اور ثقافتی تنوع کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے- 

پروفیسر آرشین ادیب مغدم نے وسطی مرحلہ کے اپنے آرگومنٹ میں  کہا کہ یہ بات میرے لیے خوش آئند ہے کہ بڑی حد تک میرے اور میرے رفقائے کار میں اتفاقِ رائے ہے-منطقی طور پر ملٹی کلچرل ازم کے بارے میں میرا نقطہِ نظر ہے کہ  ہر ثقافت میں ایسی انسانی روایت پائی جاتی ہے جو مختلف برادریوں کے مابین اختلاف کے بجائے اتفاق کو پروان چڑھاتی ہے-ثقافتوں کے مابین ناقابلِ تسخیر اور لازوال اختلافات محض سیاست زدہ دانشوروں کا پروپیگنڈہ ہے-اسلام اور مغرب کے درمیان بطور تہذیبی تصادم کے پیچھے ایک مخصوص ذہنیت کار فرما ہے-حقیقتاً  مغرب میں اسلام ہے اور اسلام مغرب میں ہے-  ملٹی کلچرل ازم حقیقت ہے اور ثقافتوں اور تہذیبوں کو ’’ٹیکٹونک پلیٹس‘‘سمجھنا نا معقول ہوگا جن کا کسی بھی وقت آپس میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے-بطور تہذیب،اسلام اور مغرب مختلف ثقافتی عناصر کے زیرِ اثر ہیں: جیسا کے انفرادی شناخت کا عنصر جو اس تأثر کو رد کرتا ہے کہ یہ عالمگیر نظریات قابلِ امتیاز اور الگ ہیں-اس کھلے ذہن کے ساتھ،معمولی اختلافات کا ادراک کرتے ہوئے مشترک ثقافتی اقدار کو سمجھنا نہایت آسان ہے-

پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ نے کہا کہ بسا اوقات  ادیب مغدم کے دلائل متاثر کن لگتے ہیں،لیکن مجھےان کے اخذ کردہ نتائج سے  اختلاف ہے-لیکن یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ ملٹی کلچرل ازم کا نظریہ بذاتِ خود ادیب مغدم کی تجویز کردہ   یکساں قومی ثقافت کی نفی ہے-مثال کے طور پر،کینیڈین آئیڈیالوجی میں ملٹی کلچرل ازم کو یکساں قومی کلچر کی بجائے  مختلف ثقافتوں کا اجتماع تصور کیا جاتا ہے-ہمیں درپیش مسائل کا ادراک کرنا ہو گا جیسا کہ معاشرتی اور ثقافتی تنوع جو کہ انتہائی تیزی سے ارتقاء پذیر ہے-انفرادی شناخت اور ریاستی وجود کے تصور سے نکلنا مناسب ردِ عمل نہیں ہے-بلکہ ہمیں تنوع کی بنیاد فراہم کرنے والی انفرادی شناختوں اور ثقافتوں  کو تسلیم کرنا ہو گا-ملٹی کلچر ل ازم میرے نقطہ نظر کے مطابق مکمل حل نہیں لیکن یہ دنیا میں ڈر اور خوف کے خاتمے اور دنیا کو جائے امن و آشتی بنانے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے-

معزز مہمانانِ گرامی کے تبصرہ جات:

پروفیسر کولین وارڈ نے بطور مہمان اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملٹی کلچرل ازم پر بیشتر  اختلافات اس کے اصطلاحی مفہوم پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں-ثقافتی تنوع،ملٹی کلچرل ازم اور کثیر الثقافتیت ریاست کے لیے ضروری ہے لیکن ان کی  مکمل بنیاد نہیں-اسی طرح ملٹی کلچرل ازم ثقافتی،مذہبی یا لسانی تنوع سے زیادہ اس بارے میں ہماری سوچ پر منحصر ہے-یہ سوچ  بچگانہ ہو گی کہ محض اختلاف کو برداشت یا قبول کر لینے سے کثیر الثقافتی معاشرے کے مسائل حل ہو جائیں گے-ملٹی کلچرل ازم اس سے زیادہ کا متقاضی ہے-ایسی پالیسیوں اور اصولوں کی تشکیل کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی متنوع ثقافتی معاشرے کا کوئی بھی ممبر اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے-ملٹی کلچرل ازم کا حصول ایک مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے-کچھ مغربی ممالک صحیح طرف گامزن ہیں جبکہ کئی راستے سےبھٹک چکے ہیں-کوئی بھی ابھی تک ملٹی کلچرل ازم کی آخری حد تک نہیں پہنچا-

پروفیسر نتاشا واریکو نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم کثیرالثقافتی معاشرے میں لوگوں کے روزمرہ کے باہمی تعلق کا جائزہ لیں تو ادیب مغدم اور رائٹ کے مابین فرد اور گروہ کے نظریات پر پائے جانے والے اختلاف کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے-مثلاً، شخصی آزادی کے قائل معاشروں میں اقلیتی ثقافتی گروہوں کا کیا کردار ہے؟کیا عام شہری ان کو قومی شناخت میں شامل سمجھتے ہیں؟یہ تخصیص ایک عام آدمی کی معاشرے میں پائے جانے والے مختلف گروہوں کے لیے رائے پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ کیا ملٹی کلچرل معاشروں میں اقلیتی گروہوں کو قومی وجود کے حصہ کے طور  پر دیکھا جاتا ہے؟ان معاشروں میں اقلیتی گروہوں کا کیا کردار ہے جن کی قومی شناخت ہی ملٹی کلچرل ازم ہے؟ با الفاظِ دیگر وہ کونسے لوازمات ہیں جو انسان کو ترقی،آزادی اور برابری کی طرف لے جاتے ہیں؟ میرے مطابق یہ مشاہداتی طریقہ ہی ہمیں معاشرے میں تنوع کے قابلِ عمل نظریات کی جانب لے جائے گا-اس مشاہداتی تجزیہ کے بغیر، مباحثہ کے فاتحین نہ تو اپنے بظاہر درست نظر آنے والے موقف کا اطلاق کر سکیں گے اور نہ ہی عام لوگوں کے دل و دماغ جیت سکیں گے- 

صفیر،ولیم لیسی سوینگ نے آڈیئنس کے کمنٹس فلور پہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ملٹی کلچر لزم اپنی آخری حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے؟ یقیناً نہیں-ملٹی کلچرل ازم  کی اصطلاح کی واحد تعریف اور اس کی حدود کا تعین کر نے کی کوشش ایک سنگین غلطی ہو گی-دورِ جدید میں کوئی ریاست بھی کسی واحد ثقافت کی حامل نہیں ہے-حتٰی کہ وہ ریاستیں جو غیر ملکی افراد کو خوش آمدید نہیں کہتیں،اپنی حدود میں کئی ثقافتوں پر مشتمل ہیں-ہر ملک کی اپنی مذہبی،نسلی،معاشرتی،گروہی، پیشہ وارانہ، تعلیمی اور غذائی خصوصیات ہوتی ہیں-میرے مطابق ملٹی کلچرل ازم کو تسلیم نہ کرنے والے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس کے طرف دار ایک دوسرے کے تعاون سے خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں-

ڈیبیٹ کا تیسرا مرحلہ :

محمد حمزہ افتخار (ڈیبیٹ کے ماڈریٹر) نے کہا کہ دوسرا سیشن بلاشبہ پراثر اور فکر انگیز تھا-اس سیشن میں نہ صرف بحث کنندگان کو ایک دوسرے کے تبصرہ جات پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا بلکہ معزز مہمانوں کے پینل نے بھی اظہارِ خیال کیا-دونوں اطراف میں بڑی حد تک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے- مزید براں، دونوں اطراف نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کثیر الثقافتی معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی بجائے مل جل کر رہنا چاہیے-تاہم،دونوں بحث کنندگان کی رائے میں مختلف اختلافات بھی پائے جاتے ہیں،خصو صاً جب موضوعِ بحث کا جائزہ لیا جائے کہ کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے؟اسی طرح نظریۂ شناخت پر بھی کافی اختلاف ہے-پروفیسر آرشین مغدم شناخت کو ایجاد قرار دیتے ہیں-ان کے مطابق ہمیں سیاسی اور نظریاتی وجوہ کی بناء پر میں اور تو میں تقسیم کر دیا گیا ہے-ان کے دلائل کا مرکزی خیال ’’جدلیاتی ملٹی کلچرل ازم ‘‘ہے اور وہ انفرادی شناخت کی تحلیل کے قائل ہیں-جبکہ پروفیسر ہینڈل کثوفی کے مطابق، شناخت ایک فرد کے لیے لازم و ملزوم ہے کیو نکہ ایک دوسرے سے ربط و تعلق کسی گروہ کے ممبر کے طور پر ہی ممکن ہے- 

پروفیسر ارشین ادیب مغدم نے اپنے اختتامی دلائل میں کہا کہ میرے اور پروفیسر کثوفی کے درمیان اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے-گرچہ فارسی شاعر جلال الدین رومی اور جرمن شاعر گوئٹے کے درمیان چھ سو(۶۰۰)برس کا وقفہ ہے،پھر بھی دونوں شعراء میں ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو کہ علاقائی قیود اور کٹر ثقافتی وابستگی کی نفی کرتی ہے-میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ ملٹی کلچرل ازم  کا نظریہ متشدد وطن پرست تحاریک کا تدارک ہے-آئیے، عالمی سطح پر اپنی شخصی آزادی کے لیے ثقافتی تنوع کی حفاظت اور پرورش کریں-میں پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ اور دیگر مہمانوں کے باہم دگر رہنے کے نظریہ کی حمایت کرتا ہوں-آئیے سب مل کر دوسروں کے ساتھ محبت کی سیاست کو فروغ دیں اور اپنی کامل کمزوریوں کا جشن منائیں-کیا میں ایک خیالی دنیا کی بات کر رہا ہوں ؟ ہاں!  یقیناً ! لیکن مجھے خوشی ہے کہ میرے جیسے اور لوگ بھی ہیں-

پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ نے موضوع کی مخالفت میں اپنے اختتامی دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد محض ملٹی کلچرل ازم کا دفاع نہیں  بلکہ ایک ایسی بحث اور پالیسی کی تشکیل ہے جو شناخت،تنوع اور اختلاف کی سیاست کو معاشرتی اور عالمی سطح پر مکمل نمائندگی،مساوات اور معاشرتی انصاف کا رنگ دے-اگر کوئی اور  ذریعہ مندرجہ بالا مقصد کے حصول میں معاون ثابت ہو تو میں سب سے پہلے ملٹی کلچرل ازم کا نظریہ ترک کر دوں گا-میری کوشش رہی ہے کہ میں ملٹی کلچرل ازم کے ناقص اور نا مکمل نظریہ کی درستگی کے لیے کام کروں لیکن میرے پاس ۲۰۰۵ءمیں لندن بم دھماکوں پر پارلیمان میں نک پیرس کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال ’’ملٹی کلچرل ازم کو ترک کر کے کیا نظریہ اپنائیں؟‘‘ کا کوئی جواب نہیں-

ڈیبیٹ فلور پہ شرکاء کے دیئے گئے تاثرات کی جھلکیاں مندرجہ ذیل ہیں:

پروفیسر جیمسن ڈوئیگ (پرنسٹن یونیورسٹی ، امریکہ) :میرے  خیال میں سب سے بہتر ردعمل یہ ہے کہ مختلف اقسام کی تہذیبی روایات کو قبول کیا جائے اور ان لوگوں کو بھی خوش آمدید کہنا چاہیے جو ان روایات پہ عمل کرتے ہیں- کیونکہ ہم سب کو ان اجنبیوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے جو مختلف تہذیبی جھنڈوں کے نیچے پلے بڑھے ہیں-

پروفیسر طاہر عباس (رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ ، یو کے ):ملٹی کلچرل ازم کی تعریف کا بھی مسئلہ ہے اور  دوسرا پہلو سیاسی بھی ہے  کہ ملٹی کلچرل ازم کو کس طرح سیاسی رنگ دیا جاتا- 

آئین سائمن:مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس ڈیبیٹ کا اہتمام کیا گیا ہے نہ صرف اس لیے کہ یہ موضوع بہت دلچسپ ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ایسے ماہرین کو سننے کا موقع مل رہا ہے جو مختلف ملٹی کلچرل معاشروں میں رہتے ہیں- 

بن وائیز مین :میرے خیال میں صرف ایک منطقی ملٹی کلچرل ازم ہی ایک ایسی ملٹی کلچرل ازم ہے جس کے ہم متحمل ہوسکتے ہیں، کیونکہ اگر ہم ثقافتوں کو قائم نہیں رکھیں گے تو ثقافت ختم ہو جائے گی-

حمیرہ ثقلین :ملٹی کلچرل ازم کو کینیڈا کی ایک نئی شناخت کے طور پہ منایا گیا جو  کہ تمام نسلی معاشروں کو سمجھنے میں بین الاقوامی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرے گا- 

روشن عباس :تنوع کم نہیں ہو گا-آبادیاتی شماریات یہ کہتے ہیں کہ یورپ کو مہاجرین کی ضرورت ہے اگر اس کو مستقبل کے سنگین معاشی مسائل سے بچنا ہے تو-

کرن اکبر :میرے خیال میں ملٹی کلچرل ازم کبھی بھی مسئلہ نہیں تھا اور نہ یہ اپنی حد کو پہنچا ہے اور بہت زیادہ ملٹی کلچرل ازم جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے-

فہیم خالد :ہجرت کو ایک حملہ تصور نہیں کرنا چاہیے تاہم ملٹی کلچرل ازم کی ازسر نو تعریف کی ضرورت ہے-

جس بروٗاننگ :ملٹی کلچرل ازم یقیناً ایک زبردست چیز ہے جس نے دنیا کو ایک دوسرے کو جاننے میں کافی آسانی پیدا کی-لیکن ایک ریاست ایک حد تک اس کو اپنا سکتی ہے دوسری طرف ہم کسی تہذیب کو مکمل طور پہ دوسری تہذیب میں ڈھلنے پہ مجبور نہیں کر سکتے-  

محمد عبداللہ :اس ڈیبیٹ کا اہتمام کر کے مسلم انسٹیٹیوٹ نے عظیم کام سر انجام دیا ہے-  

قارئین نے سوشل میڈیا پہ بھی ڈیبیٹ میں بھر پور شرکت کی اور اپنے تاثرات دئیے ، چند جھلکیاں مندرجہ ذیل ہیں:

ٹم چیلنجر  :کیا ملٹی کلچرل ازم مغرب کے علاوہ کہیں وجود رکھتی ہے؟ نہیں ! اس کا وجود صرف مغرب میں ہے-

کیرو لین کولٹ :مسلمانوں کو مجبوراً یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ ان کی یورپیئن ممالک میں کوئی جگہ نہیں-

لینا ملٹ:ملٹی کلچرل ازم محض سطحی طور پہ ٹھیک کام کرتی ہے-

ہارون نورا :ملٹی کلچرل ازم ایک ناکام نظریہ ہے-آپ مختلف پس منظر اور ثقافتوں کے کو ایک معاشرے میں رکھ کے ایسے قانون کیسے لاگو کر سکتے ہیں جو ان کی انفرادی شناخت چھین لے-

 

٭٭٭

مسلم ڈیبیٹ ’جو کہ مسلم انسٹیٹیوٹ کا گلوبل سطح کا آن  لائن ڈیبیٹ  فورم ہے‘ نے’’کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟‘‘کے موضوع  پہ آکسفورڈ ڈیبیٹ فارمولا کے تحت ایک آن لائن ڈیبیٹ  کا  اہتمام کیا-یہ مباحثہ بروز سوموار، ۲۴ اپریل ۲۰۱۷ءکو شروع  ہوا-پروفیسر آرشین ادیب مغدم (یونیورسٹی آف لندن میں گلوبل تھاٹ و کمپیریٹو فلاسفیز)  نےموضوع کے حق جبکہ پروفیسر ہینڈل کاثو فی (پروفیسر رائٹ یونیورسٹی آف کولمبیااور ڈائریکٹرادارہ برائے ثقافت،شناخت اور تعلیم)نےموضوع کےخلاف دلائل دیے-بعدازاں،مباحثہ میں ورجینی گوئیراڈون (ریسرچ پروفیسر نیشنل سنٹر برائے سائنسی تحقیق فرانس ) نتاشہ کمار واریکو (پروفیسر گریجویٹ سکول آف ایجوکیشن، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ) پروفیسر کولین وارڈ ( ڈائریکٹر ادارہ برائے اپلائیڈ کراس کلچرل ریسرچ ، وکٹوریہ یونیورسٹی آف ولنگٹن ، نیوزی لینڈ)، ایمبیسڈر ولیم لیسی سوینگ ( ڈائریکٹر جنرل، بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (IOM) نے مہمان کے طور پر اپنے ماہرانہ رائے کا اظہار کیا-ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ حمزہ افتخار نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-مزید براں، چوہتر(74)ممالک سے لوگوں نے اپنے تبصرہ جات  اور ووٹ  کے ذریعے مباحثہ میں شرکت کی- قارئین ۱۳مئی۲۰۱۷ء تک اپنے تبصرہ جات اور ووٹس کے ذریعے شرکت کر سکتے تھے-قارئین کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ وسطی اور اختتامی مراحل میں مباحثہ کی پیروی کریں اور رائے تبدیل ہونے کی صورت میں وہ اپنا واحد ووٹ دوبارہ استعمال کریں-   

بیس (۲۰)دن کی مدلل اور فکر انگیز بحث کے بعد،ساٹھ (۶۰)فیصد اکثریت نے موضوعِ بحث ’’کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے؟‘‘کے حق میں ووٹ دیے-تاہم چالیس(۴۰) فیصد ووٹس جو کہ موضوع کے خلاف آئے،ان ووٹس کو نظر انداز کرنا بھی نا انصافی ہوگی-ابتداء سے اختتام  تک،فریقین کی طرف سے پیش کیے گئے دلائل اور حاصل کیے جانے والے ووٹس میں معمولی فرق رہا-انفرادیت اور شناخت جیسے نظریات پر اختلاف  آیا ر بھر پور ڈیبیٹ کے باوجود دونوں  فریقین  میں کچھ عوامل پر اصولی اتفاقِ رائے بھی پایا گیا جو کہ ساری بحث میں واضح ہے-  طرفین اس امر پر بھی متفق نظر آئے کہ ثقافتی تنوع اور اختلاف خوش آئند عوامل ہیں-اس بات کا اظہار معزز مہمانانِ گرامی کے خیالات سے بھی ہوتا ہے جنہوں نے ابتدائی اور  درمیانی مرحلہ  میں شرکت کی-فریقین  اس بات پر بھی متفق نظر آئے کہ ریاستوں اور قوموں میں انسانوں کی تقسیم قدرتی گروہ بندی کی بجائے اختراع کردہ عمل ہے-مزید براں،دونوں اطراف  نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کثیر الثقافتی معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی بجائے مل جل کر رہنا چاہیے-    

مباحثہ کے تینوں سیشنز کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے:

 ڈیبیٹ کاابتدائی مرحلہ :

ماڈریٹر محمد حمزہ افتخار نے مسلم ڈیبیٹ اور مسلم انسٹیٹیوٹ کی طرف سے  سب کو خوش آمدید کہا-انہوں نے کہا کہ اس ڈیبیٹ کا موضوع بہت وسیع اور پیچیدہ ہے اس لیے مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں ماہرین کے متنوع پینل کی میزبانی کر رہا ہوں جو کہ اس موضوع ،ملٹی کلچرل ازم، پہ وسیع تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں- ملٹی کلچرل ازم کا تصور مغرب میں اس وقت بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے-لیکن تاحال کوئی بھی اس کی گتھیاں سلجھانے سے قاصر ہے کہ آیا کہ اس کے معاشرے پہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ منفی؟بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ محض کثیر الجہت ثقافت ہے جبکہ بعض کے مطابق یہ اس پہ منحصر ہے کہ ایک ریاست اسے کیسے بر تتی ہے- بہرحال یہ ایک حقیقت ہے جو سیاسی مہموں میں بھی زیر بحث رہی خواہ وہ امریکہ کے صدارتی انتخابات تھے یا برطانیہ میں بریکسٹ کی مہم یا وہ حال ہی میں جاری فرانس کی صدارتی مہم ہو-اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے لیکن پھر بھی یہ موضوعات زیر بحث رہتے ہیں کہ کیا ملٹی کلچرل ازم پایئدار ہے؟ کیا ملٹی کلچرل ازم عدم برداشت کو فروغ دیتی ہے؟ کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ وطن پرستی اور ملٹی کلچرل ازم کے مابین کیا تعلق ہے؟ اور جو اس ڈیبیٹ کا موضوع ہے کہ کیا ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد کو پہنچ چکا ہے؟آپ سب اس ڈیبیٹ کا حصہ بنیں اور دیکھیں کہ ہماری  ڈیبیٹ کے معزز فریقین اور مہمانوں کا اس بارے میں کیا کہنا ہے-        

پروفیسر آرشین آدیب مغدم نے ابتدائی دلائل میں کہا کہ ملٹی کلچرل ازم ایک حقیقت ہے-مسلسل ارتقائی عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آنے والی مختلف ثقافتوں کے باہمی تعلق کے بغیر دنیا میں کسی قومی معاشرے کی تکمیل ممکن نہیں ہے-ملٹی کلچرل ازم کے خاتمے کی خواہش ریاستوں کے وجود کو چیلنج کرنے کے مترادف ہیں-یک ثقافتی معاشرے کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے-حتیٰ کہ بیسویں صدی کے ابتدا تا وسط میں، یورپ کی فاشسٹ تحاریک ہم نسل پرستی کے پرچار اور قیام میں مکمل طور پر ناکام رہیں-متنوع ثقافت کو زندگی کے مختلف رنگوں کے طور پر پذیرائی بخشنی چاہیے جیسا کہ آج کے دور میں نقلِ مکانی و مہاجرت نے پیدا کی ہے-اختلاف  سے گھبرانے کی بجائے اس کو مثبت موقع کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے-اس کا اطلاق صرف وہاں ہوتا ہے  جہاں پر قومیت پرستی کے برعکس ہم پر ثقافت ٹھونسی نہ جائے اور ہم اپنی انفرادیت قائم رکھ سکیں-میرا ووٹ برداشت،شمولیت،متفرق شناختوں،آزادیِ رائے  اور  شناختی قیود سے آزادی کے حق میں ہے-  

پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ نے موضوع کی مخالفت میں اپنے ابتدائی ریمارکس میں کہا کہ موضوعِ بحث’’کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے؟‘‘اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ملٹی کلچرل ازم بطور ریاستی پالیسی مغربی ممالک میں معاشرتی و ثقافتی تنوع سے نمٹنے کے لیے غیر مؤثر بلکہ نا کام ثابت ہوا ہےحتیٰ کہ مغربی ممالک کے مسائل میں اضافے کا سبب بنا ہے-موضوعِ بحث  سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے  کہ ماضی میں یہ تصور قابلِ عمل تھا-سماجی و ثقافتی تفریق مغربی ریاستوں کی مسلمہ اور اٹل خصوصیت ہے-آج عالمگیریت کے دور میں ، دنیا کے بڑے شہر جیسا کہ لندن، نیویارک اور ٹورنٹو اپنی حیران کن ترقی اور تنوع کے باعث سٹیون ورٹوویک کے الفاظ میں’’سپر ڈائیورسٹی‘‘اختیار کر چکے ہیں-

معزز مہمانانِ گرامی کے تبصرہ جات:

پروفیسر ورجینی گوئیراڈون نے کہا کہ کیا یورپین سوسائٹیز ملٹی کلچرل ہیں؟ جی ہاں-کیا یورپین حکومتیں ملٹی کلچرل ازم کی قائل ہیں اور ثقافتی اختلافات کو تسلیم کرتی ہیں؟ عدالتیں اور مقامی حکومتیں مختلف گروہوں کی جانب سے اپنی ثقافت یا مذہب کی ترویج کےبارے میں کیے مطالبات کی پذیرائی کی پابند تھی-۱۹۸۰ء کی دہائی میں مختلف ممالک جیسا کہ نیدر لینڈ میں ملٹی کلچرل ازم کی تحاریک چلائی گئی-لیکن ایک ایسی پالیسی پر بحث غیر حقیقی ہو گی جو کہ مغربی یورپ میں کبھی موجود ہی نہ تھی-شاید یہ بحث دولتِ مشترکہ کے چند ممالک کے لیے مفید ہو-بہت سے یورپی ممالک جیسا کہ روم میں عوام ابھی تک بنیادی حقوق کے حصول بارے پریشان ہے جبکہ مشرقی اور وسطی یورپ میں اقلیتوں سے ناروا رویے جیسے مسائل موجود ہیں- شاید ہمیں ’’حق پرستی‘‘کی اصطلاح تخلیق کرنا ہو گی-

ڈیبیٹ کا درمیانی مرحلہ :

ماڈریٹر محمد حمزہ افتخار نے پہلے سیشن کا خلاصہ بیان کیا اور کہا کہ جیسے جیسے ہم اس مباحثہ کے ابتدائی سے وسطی سیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں،بیشتر ووٹ موضوعِ بحث کے حق میں نظر آرہے ہیں یعنی چھپن (۵۶)فیصد حق میں اور چوالیس(۴۴)فیصد موضوع کی مخالفت میں-تاہم، مباحثہ کے پہلے دن ، رائے شماری معمولی حد تک موضوع کی مخالفت میں رہی-اس لیے ابھی تک رائے شماری کا رجحان اور تبصرہ جات دیکھتے ہوئے یہ پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ مباحثہ کے اختتام پر کونسی رائے اکثریت کی حمایت حاصل کرے گی-غیر یقینی کی یہ صورتحال اور ووٹس میں معمولی فرق اپنے طور پر اس مباحثہ کی اہمیت اور معیار کا ثبوت ہے-

یہ دیکھنا بھی دلچسپ امر ہو گا کہ دونوں دھڑوں کی رائے میں کس قدر مماثلت اور اختلاف پایا جاتا ہے-میرے خیال میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دونوں طرفین اس بات پر متفق ہوں گے کہ دورِ جدید میں ملٹی کلچرل ازم ایک حقیقت ہے-دنیا میں ہم قسم معاشرہ کا کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ کثیر الاثقافتی معاشرے نہ صرف مغرب بلکہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں-دونوں دھڑے اس امر پر بھی متفق نظر آتے ہیں کہ ثقافتی تنوع اور اختلاف خوش آئند عوامل ہیں-اس لیے ملٹی کلچرل ازم کی ترویج کے لیے معاشرتی اور ثقافتی تنوع کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے- 

پروفیسر آرشین ادیب مغدم نے وسطی مرحلہ کے اپنے آرگومنٹ میں  کہا کہ یہ بات میرے لیے خوش آئند ہے کہ بڑی حد تک میرے اور میرے رفقائے کار میں اتفاقِ رائے ہے-منطقی طور پر ملٹی کلچرل ازم کے بارے میں میرا نقطہِ نظر ہے کہ  ہر ثقافت میں ایسی انسانی روایت پائی جاتی ہے جو مختلف برادریوں کے مابین اختلاف کے بجائے اتفاق کو پروان چڑھاتی ہے-ثقافتوں کے مابین ناقابلِ تسخیر اور لازوال اختلافات محض سیاست زدہ دانشوروں کا پروپیگنڈہ ہے-اسلام اور مغرب کے درمیان بطور تہذیبی تصادم کے پیچھے ایک مخصوص ذہنیت کار فرما ہے-حقیقتاً  مغرب میں اسلام ہے اور اسلام مغرب میں ہے-  ملٹی کلچرل ازم حقیقت ہے اور ثقافتوں اور تہذیبوں کو ’’ٹیکٹونک پلیٹس‘‘سمجھنا نا معقول ہوگا جن کا کسی بھی وقت آپس میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے-بطور تہذیب،اسلام اور مغرب مختلف ثقافتی عناصر کے زیرِ اثر ہیں: جیسا کے انفرادی شناخت کا عنصر جو اس تأثر کو رد کرتا ہے کہ یہ عالمگیر نظریات قابلِ امتیاز اور الگ ہیں-اس کھلے ذہن کے ساتھ،معمولی اختلافات کا ادراک کرتے ہوئے مشترک ثقافتی اقدار کو سمجھنا نہایت آسان ہے-

پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ نے کہا کہ بسا اوقات  ادیب مغدم کے دلائل متاثر کن لگتے ہیں،لیکن مجھےان کے اخذ کردہ نتائج سے  اختلاف ہے-لیکن یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ ملٹی کلچرل ازم کا نظریہ بذاتِ خود ادیب مغدم کی تجویز کردہ   یکساں قومی ثقافت کی نفی ہے-مثال کے طور پر،کینیڈین آئیڈیالوجی میں ملٹی کلچرل ازم کو یکساں قومی کلچر کی بجائے  مختلف ثقافتوں کا اجتماع تصور کیا جاتا ہے-ہمیں درپیش مسائل کا ادراک کرنا ہو گا جیسا کہ معاشرتی اور ثقافتی تنوع جو کہ انتہائی تیزی سے ارتقاء پذیر ہے-انفرادی شناخت اور ریاستی وجود کے تصور سے نکلنا مناسب ردِ عمل نہیں ہے-بلکہ ہمیں تنوع کی بنیاد فراہم کرنے والی انفرادی شناختوں اور ثقافتوں  کو تسلیم کرنا ہو گا-ملٹی کلچر ل ازم میرے نقطہ نظر کے مطابق مکمل حل نہیں لیکن یہ دنیا میں ڈر اور خوف کے خاتمے اور دنیا کو جائے امن و آشتی بنانے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے-

معزز مہمانانِ گرامی کے تبصرہ جات:

پروفیسر کولین وارڈ نے بطور مہمان اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملٹی کلچرل ازم پر بیشتر  اختلافات اس کے اصطلاحی مفہوم پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں-ثقافتی تنوع،ملٹی کلچرل ازم اور کثیر الثقافتیت ریاست کے لیے ضروری ہے لیکن ان کی  مکمل بنیاد نہیں-اسی طرح ملٹی کلچرل ازم ثقافتی،مذہبی یا لسانی تنوع سے زیادہ اس بارے میں ہماری سوچ پر منحصر ہے-یہ سوچ  بچگانہ ہو گی کہ محض اختلاف کو برداشت یا قبول کر لینے سے کثیر الثقافتی معاشرے کے مسائل حل ہو جائیں گے-ملٹی کلچرل ازم اس سے زیادہ کا متقاضی ہے-ایسی پالیسیوں اور اصولوں کی تشکیل کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی متنوع ثقافتی معاشرے کا کوئی بھی ممبر اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے-ملٹی کلچرل ازم کا حصول ایک مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے-کچھ مغربی ممالک صحیح طرف گامزن ہیں جبکہ کئی راستے سےبھٹک چکے ہیں-کوئی بھی ابھی تک ملٹی کلچرل ازم کی آخری حد تک نہیں پہنچا-

پروفیسر نتاشا واریکو نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم کثیرالثقافتی معاشرے میں لوگوں کے روزمرہ کے باہمی تعلق کا جائزہ لیں تو ادیب مغدم اور رائٹ کے مابین فرد اور گروہ کے نظریات پر پائے جانے والے اختلاف کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے-مثلاً، شخصی آزادی کے قائل معاشروں میں اقلیتی ثقافتی گروہوں کا کیا کردار ہے؟کیا عام شہری ان کو قومی شناخت میں شامل سمجھتے ہیں؟یہ تخصیص ایک عام آدمی کی معاشرے میں پائے جانے والے مختلف گروہوں کے لیے رائے پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ کیا ملٹی کلچرل معاشروں میں اقلیتی گروہوں کو قومی وجود کے حصہ کے طور  پر دیکھا جاتا ہے؟ان معاشروں میں اقلیتی گروہوں کا کیا کردار ہے جن کی قومی شناخت ہی ملٹی کلچرل ازم ہے؟ با الفاظِ دیگر وہ کونسے لوازمات ہیں جو انسان کو ترقی،آزادی اور برابری کی طرف لے جاتے ہیں؟ میرے مطابق یہ مشاہداتی طریقہ ہی ہمیں معاشرے میں تنوع کے قابلِ عمل نظریات کی جانب لے جائے گا-اس مشاہداتی تجزیہ کے بغیر، مباحثہ کے فاتحین نہ تو اپنے بظاہر درست نظر آنے والے موقف کا اطلاق کر سکیں گے اور نہ ہی عام لوگوں کے دل و دماغ جیت سکیں گے- 

صفیر،ولیم لیسی سوینگ نے آڈیئنس کے کمنٹس فلور پہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ملٹی کلچر لزم اپنی آخری حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے؟ یقیناً نہیں-ملٹی کلچرل ازم  کی اصطلاح کی واحد تعریف اور اس کی حدود کا تعین کر نے کی کوشش ایک سنگین غلطی ہو گی-دورِ جدید میں کوئی ریاست بھی کسی واحد ثقافت کی حامل نہیں ہے-حتٰی کہ وہ ریاستیں جو غیر ملکی افراد کو خوش آمدید نہیں کہتیں،اپنی حدود میں کئی ثقافتوں پر مشتمل ہیں-ہر ملک کی اپنی مذہبی،نسلی،معاشرتی،گروہی، پیشہ وارانہ، تعلیمی اور غذائی خصوصیات ہوتی ہیں-میرے مطابق ملٹی کلچرل ازم کو تسلیم نہ کرنے والے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس کے طرف دار ایک دوسرے کے تعاون سے خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں-

ڈیبیٹ کا تیسرا مرحلہ :

محمد حمزہ افتخار (ڈیبیٹ کے ماڈریٹر) نے کہا کہ دوسرا سیشن بلاشبہ پراثر اور فکر انگیز تھا-اس سیشن میں نہ صرف بحث کنندگان کو ایک دوسرے کے تبصرہ جات پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا بلکہ معزز مہمانوں کے پینل نے بھی اظہارِ خیال کیا-دونوں اطراف میں بڑی حد تک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے- مزید براں، دونوں اطراف نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کثیر الثقافتی معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی بجائے مل جل کر رہنا چاہیے-تاہم،دونوں بحث کنندگان کی رائے میں مختلف اختلافات بھی پائے جاتے ہیں،خصو صاً جب موضوعِ بحث کا جائزہ لیا جائے کہ کیا مغرب میں  ملٹی کلچرل ازم اپنی آخری حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے؟اسی طرح نظریۂ شناخت پر بھی کافی اختلاف ہے-پروفیسر آرشین مغدم شناخت کو ایجاد قرار دیتے ہیں-ان کے مطابق ہمیں سیاسی اور نظریاتی وجوہ کی بناء پر میں اور تو میں تقسیم کر دیا گیا ہے-ان کے دلائل کا مرکزی خیال ’’جدلیاتی ملٹی کلچرل ازم ‘‘ہے اور وہ انفرادی شناخت کی تحلیل کے قائل ہیں-جبکہ پروفیسر ہینڈل کثوفی کے مطابق، شناخت ایک فرد کے لیے لازم و ملزوم ہے کیو نکہ ایک دوسرے سے ربط و تعلق کسی گروہ کے ممبر کے طور پر ہی ممکن ہے- 

پروفیسر ارشین ادیب مغدم نے اپنے اختتامی دلائل میں کہا کہ میرے اور پروفیسر کثوفی کے درمیان اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے-گرچہ فارسی شاعر جلال الدین رومی اور جرمن شاعر گوئٹے کے درمیان چھ سو(۶۰۰)برس کا وقفہ ہے،پھر بھی دونوں شعراء میں ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو کہ علاقائی قیود اور کٹر ثقافتی وابستگی کی نفی کرتی ہے-میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ ملٹی کلچرل ازم  کا نظریہ متشدد وطن پرست تحاریک کا تدارک ہے-آئیے، عالمی سطح پر اپنی شخصی آزادی کے لیے ثقافتی تنوع کی حفاظت اور پرورش کریں-میں پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ اور دیگر مہمانوں کے باہم دگر رہنے کے نظریہ کی حمایت کرتا ہوں-آئیے سب مل کر دوسروں کے ساتھ محبت کی سیاست کو فروغ دیں اور اپنی کامل کمزوریوں کا جشن منائیں-کیا میں ایک خیالی دنیا کی بات کر رہا ہوں ؟ ہاں!  یقیناً ! لیکن مجھے خوشی ہے کہ میرے جیسے اور لوگ بھی ہیں-

پروفیسر ہینڈل کثوفی رائٹ نے موضوع کی مخالفت میں اپنے اختتامی دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد محض ملٹی کلچرل ازم کا دفاع نہیں  بلکہ ایک ایسی بحث اور پالیسی کی تشکیل ہے جو شناخت،تنوع اور اختلاف کی سیاست کو معاشرتی اور عالمی سطح پر مکمل نمائندگی،مساوات اور معاشرتی انصاف کا رنگ دے-اگر کوئی اور  ذریعہ مندرجہ بالا مقصد کے حصول میں معاون ثابت ہو تو میں سب سے پہلے ملٹی کلچرل ازم کا نظریہ ترک کر دوں گا-میری کوشش رہی ہے کہ میں ملٹی کلچرل ازم کے ناقص اور نا مکمل نظریہ کی درستگی کے لیے کام کروں لیکن میرے پاس ۲۰۰۵ءمیں لندن بم دھماکوں پر پارلیمان میں نک پیرس کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال ’’ملٹی کلچرل ازم کو ترک کر کے کیا نظریہ اپنائیں؟‘‘ کا کوئی جواب نہیں-

ڈیبیٹ فلور پہ شرکاء کے دیئے گئے تاثرات کی جھلکیاں مندرجہ ذیل ہیں:

پروفیسر جیمسن ڈوئیگ (پرنسٹن یونیورسٹی ، امریکہ) :میرے  خیال میں سب سے بہتر ردعمل یہ ہے کہ مختلف اقسام کی تہذیبی روایات کو قبول کیا جائے اور ان لوگوں کو بھی خوش آمدید کہنا چاہیے جو ان روایات پہ عمل کرتے ہیں- کیونکہ ہم سب کو ان اجنبیوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے جو مختلف تہذیبی جھنڈوں کے نیچے پلے بڑھے ہیں-

پروفیسر طاہر عباس (رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ ، یو کے ):ملٹی کلچرل ازم کی تعریف کا بھی مسئلہ ہے اور  دوسرا پہلو سیاسی بھی ہے  کہ ملٹی کلچرل ازم کو کس طرح سیاسی رنگ دیا جاتا- 

آئین سائمن:مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس ڈیبیٹ کا اہتمام کیا گیا ہے نہ صرف اس لیے کہ یہ موضوع بہت دلچسپ ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ایسے ماہرین کو سننے کا موقع مل رہا ہے جو مختلف ملٹی کلچرل معاشروں میں رہتے ہیں- 

بن وائیز مین :میرے خیال میں صرف ایک منطقی ملٹی کلچرل ازم ہی ایک ایسی ملٹی کلچرل ازم ہے جس کے ہم متحمل ہوسکتے ہیں، کیونکہ اگر ہم ثقافتوں کو قائم نہیں رکھیں گے تو ثقافت ختم ہو جائے گی-

حمیرہ ثقلین :ملٹی کلچرل ازم کو کینیڈا کی ایک نئی شناخت کے طور پہ منایا گیا جو  کہ تمام نسلی معاشروں کو سمجھنے میں بین الاقوامی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرے گا- 

روشن عباس :تنوع کم نہیں ہو گا-آبادیاتی شماریات یہ کہتے ہیں کہ یورپ کو مہاجرین کی ضرورت ہے اگر اس کو مستقبل کے سنگین معاشی مسائل سے بچنا ہے تو-

کرن اکبر :میرے خیال میں ملٹی کلچرل ازم کبھی بھی مسئلہ نہیں تھا اور نہ یہ اپنی حد کو پہنچا ہے اور بہت زیادہ ملٹی کلچرل ازم جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے-

فہیم خالد :ہجرت کو ایک حملہ تصور نہیں کرنا چاہیے تاہم ملٹی کلچرل ازم کی ازسر نو تعریف کی ضرورت ہے-

جس بروٗاننگ :ملٹی کلچرل ازم یقیناً ایک زبردست چیز ہے جس نے دنیا کو ایک دوسرے کو جاننے میں کافی آسانی پیدا کی-لیکن ایک ریاست ایک حد تک اس کو اپنا سکتی ہے دوسری طرف ہم کسی تہذیب کو مکمل طور پہ دوسری تہذیب میں ڈھلنے پہ مجبور نہیں کر سکتے-  

محمد عبداللہ :اس ڈیبیٹ کا اہتمام کر کے مسلم انسٹیٹیوٹ نے عظیم کام سر انجام دیا ہے-  

قارئین نے سوشل میڈیا پہ بھی ڈیبیٹ میں بھر پور شرکت کی اور اپنے تاثرات دئیے ، چند جھلکیاں مندرجہ ذیل ہیں:

ٹم چیلنجر  :کیا ملٹی کلچرل ازم مغرب کے علاوہ کہیں وجود رکھتی ہے؟ نہیں ! اس کا وجود صرف مغرب میں ہے-

کیرو لین کولٹ :مسلمانوں کو مجبوراً یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ ان کی یورپیئن ممالک میں کوئی جگہ نہیں-

لینا ملٹ:ملٹی کلچرل ازم محض سطحی طور پہ ٹھیک کام کرتی ہے-

ہارون نورا :ملٹی کلچرل ازم ایک ناکام نظریہ ہے-آپ مختلف پس منظر اور ثقافتوں کے کو ایک معاشرے میں رکھ کے ایسے قانون کیسے لاگو کر سکتے ہیں جو ان کی انفرادی شناخت چھین لے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر