مشرقی تیمور : اُمت اسلامیہ کے لئے اتحاد و تنظیم کی پکار

مشرقی تیمور : اُمت اسلامیہ کے لئے اتحاد و تنظیم کی پکار

مشرقی تیمور : اُمت اسلامیہ کے لئے اتحاد و تنظیم کی پکار

مصنف: احمد القادری مئی 2017

دنیا میں علم،طاقت ،فتح اور حکمرانی نصیب والوں کی ملتی ہے اور کیونکہ تاریخ شروع ہی علم،طاقت اورفتح سے ہوتی ہے- مصنفِ تاریخ جاپان کو تو ظالم گردانتے ہیں مگر صرف سکینڈز میں لاکھوں کو قتل کرنے والوں کو فاتح قرار دیتے ہیں-یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے مگر شائد ہم بھول رہے ہیں کہ اکثرفاتحین ہی تاریخ لکھتے ہیں- فاتحین کی نظر میں کوئی بھی آزادی کا متلاشی نہیں  بلکہ وہ سب جو آزادی مانگتے ہیں وہ دہشت گرد یا باغی کہلاتے ہیں-  فاتحین کسی کی حکومت کو گرا دیں تو انقلاب کوئی اور یہ جرمِ عظیم کرے تو غیر جمہوری عمل یا قابض کا لقب دے کر ملک کو تقسیم یا مشہور رہنماؤں کی موت کا تحفہ دیا جاتا ہے- بقولِ اقبال (ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات) - یہی وجہ ہے کہ ساؤتھ سوڈان، بنگلہ دیش ،مشرقی تیمور آزادی کی تحریکیں اورکشمیر فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کی تحریکیں  دہشت گردتحریکیں کہلاتی ہیں ، بلکہ انتہاء تو یہ کہ آج تمام مسلمان دہشت گرد گردانے جاتے  ہیں-جبکہ دوسری طرف  انڈونیشیا کا مشرقی تیمور پر اورسوڈان کا ساؤتھ سوڈان کا اپنی اپنی ملکی زمین  پرکنٹرول بھی غیر آئینی و غیر جمہوری تھا جو کہ تقسیم کی صورت اختتام پذیر ہوا- جبکہ اسرائیل کا فلسطین اور بھارت کا کشمیر و جوناگڑھ پر قبضہ جائز ہے اور جو کچھ روہنگیا مسلمانوں سے برما کی انتہا پسند بدھ تحریکیں کر رہی ہیں اُس پہ طاقتیں اقتصادی مفاد کے پیشِ نظر دانستہ طور پہ خاموش ہیں - شائد اسی لیے مسلمانوں کو آزادی مانگنے کا کوئی حق نہیں اور ’’ نان مسلم بلاک‘‘ میں سے کسی  کا آزادی مانگنا بنیادی حق ہے اور دنیا کے لیے اس کو یہ حق دینا آئینی ہے- مشرقی تیمور کی تاریخ، فاتحین کے دوہرے میعارکی زندہ مثال ہےجو مشرقی تیمور کی تاریخ کو سولہویں صدی سےگردانتے ہیں-ان کے اِس عمل سے انڈونیشیا کو اپنی ہی زمین پر ایک قابض کی صورت میں  اور  تیمور کی تقسیم کو آئینی ظاہر کیا گیا ہے- اِس سے بڑی کسی قوم کی کیا بد قسمتی ہو سکتی ہے کہ اس کی شناخت کو اپنے استعماری مفاد کیلئے کوئی استعماری طاقت تبدیل کر کے رکھ دے ، جب ڈچ اور پرتگالی کالونیاں یہاں بن رہی تھیں اُس وقت یہاں مغربی بو آبادیاتی استعمار نے اپنے اقتدار کو طُول دینے کیلئے نفرتوں کی مستقل بنیادیں رکھیں جو بیسویں صدی تک اس خطے کے انسانی معاشرے  کو اندر سے کھوکھلا کرتے رہے اور آج تک نفرتوں کی وہ فصیلیں بلند ہوتی چلی جا رہی ہیں - مغربی نو آبادیاتی سامراج ایک ایسا زہریلا اژدھا تھا جس کا قاتل زہر آج تک مفتوحہ علاقوں کو موت دیتا آ رہا ہے -

جغرافیہ:

جنوب مشرقی ایشیاء ، آسٹریلیا کے شمال مغرب میں، انڈونیشیاء کے جزائر کے مشرقی سرے پر لیسر سنڈا جزائر  پر مشرقی تیمور  واقع ہے جس کا رقبہ تقریباً چودہ ہزار آٹھ سو چوہتّر(۱۴۸۷۴) مربع کلومیٹر  اور ساحلی پٹی سات سو چھ(۷۰۶) کلومیٹرہے- اِس کی سرحد  (دو سو ترپن(۲۵۳) کلومیٹر) انڈونیشیا ء سے ملتی ہے-اِس میں جولائی دو ہزار سولہ کے مطابق تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ لوگ آباد ہیں جِن میں  تقریباً ستانوے فیصد عیسائی ہیں جو کہ انڈونیشیاء کی تقسیم (انڈونیشیا اور مشرقی تیمور)کے وقت مغرب کی توجہ کا مرکز بنے اور تین فیصد مسلمان ہیں- اِس کی شرحِ خواندگی دو ہزار پندرہ میں تقریباً  ستر فیصد تھی-

تاریخ:

      مشرقی تیمور نما جزیرہ پر انسانوں کی آباد کاری پر مختلف آراء موجود ہیں کچھ کے نزدیک یہ تین ہزار (۳۰۰۰)سال قبل مسیح سے ہوئی اور کچھ کے ساتویں صدی سےافریقی اور ایشیائی باشندوں کی آمد سے ہوا - اِس علاقے میں مسلمان  تاجروں کی وجہ سے اسلام کی آمد ہوئی - جب یہ علاقہ بدھ مت سلطنتِ سرویجایا(Srivijaya empire) میں شامل ہواجو مشرقی تیمور کی روایتی تاریخ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے- بارہویں صدی عیسوی میں سلطنتِ ماجاپاہت(The Majapahit Empire ) موجودہ انڈونیشیاء  اور تیمور (تقسیم سے پہلے تیمور مگر موجودہ مشرقی اور مغربی تیمور)کے جزائر کو اکٹھا کر کے ایک سلطنت بنائی گئی-۱۵۶۵ءمیں پرتگال نے تیمور پر قبضہ کر لیا اور یہاں سے تیمور کی جدید تاریخ کی ابتداء ہوئی جو آج تک انڈونیشیاء کو قابض کے طور پر پیش کرتی ہے-جلتی میں تیل کا کام ’’ڈچ‘‘قابضین نے کیا جنہوں نے مغربی تیمور پر۱۶۰۴ءمیں قبضہ کر کے تقسیم کی ایسی بنیاد رکھی جِس کا الزام آج بھی انڈونیشیا پر ڈالا جاتا ہے یہ تو کچھ ایسا ہے کہ کشمیر کی حالت و تقسیم (لائن آف کنٹرول)کا ذمہ دار برطانیہ و بھارت کی بجائےپاکستان کو قرار دیا جائے-  پرتگال اور مقامی باشندوں کی باہمی شادیوں کی وجہ سے اِس علاقے میں عیسائی آبادی اکثریت میں ہونے لگے- دوسری طرف ڈچ قابضین تجارتی اغراض کی مد میں اپنے قبضے کو مضبوط کرنے لگے- اِن دونوں مغربی سامراجی قابضین کی زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضے کی کوششوں نے تیمور کو  مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا-۱۸۵۹ء کو پرتگال اور ڈچ قابضین نے باہمی تعاون سے معاہدہِ لسبن (Treaty of Lisbon) کے تحت  جزیرہِ تیمور  کو ڈچ تیمور(موجودہ مغربی تیمور) اور پرتگال تیمور (موجودہ مشرقی تیمور) میں تقسیم کر کے سرحد متعین کر دی گئی -

دوسری جنگِ عظیم تیموری باشندوں پر بھی قیامت بن کر برسی جب جاپان ،آسڑیلیا، ہالینڈ نے طاقت کے بل بوتے پر پورے تیمور پر قبضے کی کوشش کی جِس کو آج بھی جنگِ تیمور کے نام سے جانا جاتا ہے جِس میں  تقریباً ساٹھ ہزار(۶۰۰۰۰) سے زائد افراد لقمہ اجل بنے-۱۹۴۵ءکو انڈونیشیاء کی آزادی کے باوجود پرتگالی تیمور پرتگال کی کالونی کے طور پر رہی  جبکہ ڈچ تیمور (یعنی مغربی تیمور) انڈونیشیا کا حصہ بن گیا- ۱۹۷۴ءمیں پرتگال میں آنے والے انقلاب نے پرتگال کا پرتگالی تیمور پر قبضہ کمزور کر دیا  اور پرتگال نے ریڈ کلف ایوارڈ کی بد دیانتی کی تاریخ کو تازہ کرتے ہوئے اِس جزیرہ کو تاریخی اصول کے تحت واپس انڈونیشیا کو دینے کی بجائے آزادی دینے کا اعلان کر دیا-جِس پر مقامی باشندوں (Revolutionary Front for an Independent East Timor (FRETILIN) نے ۲۸ نومبر ۱۹۷۵ء کو آزادی کا اعلان کر دیا جو کہ تاریخی دلائل  سے ثابت ہے کہ  یہ اعلانِ آزادی انڈونیشیا ء کے ساتھ بغاوت تھی -

انڈونیشیا چونکہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور پرتگال یوپی یونین کا حصہ ہے جسے تمام یورپیئن ’’کرسچن کلب‘‘ کہتے ہیں اِس لئے یہ تعصب اس معاملے میں ایک جیتی جاگتی قوم سے  نا انصافی کا موجب بنا -جب انڈونیشیا نے اپنے علاقے کا کنٹرول حاصل کیا تو اسے قابض کا نام دے دیا گیا-جب انڈونیشن فورسزز نے مسلح بغاوت(جِس کو مذہبی تعصب کی بِنا پر مغرب کی مبینہ  مکمل حمایت حاصل تھی ) کو کچلا تو نسل کشی کا نام دے دیا گیا- انڈونیشیاء کے اِس اقدام پر یا مذہبی ہمدردی کی خاطر یا قدرتی وسائل کی خاطر عالمی ادارےمتحرک ہوئے اور اس مسئلہ کا حل نکال لیا گیا-مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کی عارضی حکومت بھی بن سکتی ہے اور امن مشن بھی جا سکتا ہے مگر کشمیر ، فلسطین اور برما کے مسلمانوں کو آگ میں جلتا دیکھ کر نہ  انسانی حقوق کے عالمی ادارے جاگتے ہیں اور نہ اقوامِ متحدہ متحرک ہوتا ہے نہ ہی کسی کو مسلمانوں کی ہونے والی بد ترین نسل کشی نظر آتی ہے -   ۱۹۹۹ءمیں پرتگال اور انڈونیشیاءکے درمیان معاہدہ کے تحت مشرقی تیمور میں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا گیاجس میں  تقریباً اسی فیصد (%۸۰)لوگوں نے آزادی کے لیے ووٹ کیا- ۲۰ مئی ۲۰۰۲ءکو اقوامِ متحدہ نے مشرقی تیمور کو آزاد ملک تسلیم کر لیا- Xanana Gusmao ملک کے پہلے صدر بنے- Taur Matan Ruakملک کے موجودہ صدر ہیں-مشرقی تیمور اقوامِ متحدہ اور گروپ آف(Group of 77 ) کے ساتھ ساتھ کئی بین الاقوامی اداروں کا ممبر ہے-

معیشیت و قدرتی وسائل (عالمی ضمیر کی بیداری کی ایک بڑی وجہ) :

طویل جنگی صورت حال نے مشرقی تیمور کی معیشیت اور انفراسٹرکچر  کو پنپے نہ دیا مگر آزادی کے بعدآئل اور گیس کے ذخائر نے اِس کی معشیت کو کافی سہارا دیا-مشرقی تیمور کی ترقی میں انڈونیشیاء کا بہت کردار ہے جو کہ اِس کی پچاس فیصد (%۵۰)برآمدات کا خریدار ہے- مشرقی تیمور کی ۲۰۱۵ءمیں درآمدات تقریباً سات سو (۷۰۰)ملین امریکی ڈالر اور برآمدات تقریباً اٹھارہ (۱۸)ملین امریکی ڈالر تھیں-مشرقی تیمور  سےتقریباً چھ(۶) بلین کیوبک میٹر گیس آسٹریلیا میں پروسسنگ کے لیے بھیجی جاتی ہے جہاں سے یہ واپس ملک میں آتی ہےجبکہ گیس  کےمعلوم ذخائر تقریباً دو سو (۲۰۰)بلین کیوبک میٹر ہیں -مشرقی تیمورسالانہ  اسّی ہزار (۸۰۰۰۰)بیرل  آئل برآمد کرتا ہے - یہ قدرتی وسائل ہی تھے جو دنیا کی بڑی معیشیتوں کے ضمیر کو زندہ کرنے کی ایک وجہ بنے -مشرقی تیمور کی کرنسی امریکن ڈالر ہے-مشرقی تیمور کی شرح آمدنی ۲۰۱۶ءمیں تقریباً پانچ فیصد (%۵)تھی-

سیاحت:

پہاڑوں،وادیوں اور صحرا سمندر کے ساتھ مل کر وہ حسین نظارے منعکس کرتے ہیں جِس کو دیکھنے کے سیاح دلدادہ ہوتے ہیں- مشرقی تیمور کا دارلحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش نظاروں کو بھی منعکس کرتا ہے-جزیزہِ اتارو جو کہ پرتگال اور ڈچ دور میں جیل ہوا کرتا تھا اپنی خوبصورتی کی مثال خود آپ ہے - پرگالی قبضہ میں رہنے والا شہر باؤ کاؤ پرتگال کی فنِ تعمیر کو منعکس کرتا ہے-نینو کونس نیشنل پارک ( Nino Konis National Park) اورجھیل ایرا لالارو(Lake Ira Lalaro) نیلے پانی اور مگرمچھوں کی کئی اقسام کی وجہ سے مشہور ہے-مت میتابین(Mt. Matebian) اور مت رامیلاؤ (Mt. Ramelau) چوٹیاں عیسائیت مذہب میں اپنی مذہبی حثیت رکھتی ہیں- مسجد النور اور مسجد العمل جدیدفنِ تعمیر کی عکاس ہیں-

اختتامیہ:

آزادی ہر انسان کا حق ہے اور عالمی ادارے اِس کے ذمے دار ہیں جن کے چارٹر اس بنیادی حق کو یقینی بنانے کا وعدہ کرتے ہیں -مگر انسانوں میں تفریق کرکے کچھ کو آزادی اور کچھ کو غلامی دینا بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیار کی زندہ مثال ہے-  جبکہ دوسری طرف انڈونیشیاء نےبڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مشرقی تیمور کو حقِ رائے دہی  دیا بلکہ ۲۰۰۵ءمیں انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کی حکومت کے ساتھ مل کر اعتماد و تعاون کمیشن (Commission of Truth and Friendship) کا قیام عمل میں لایا جِس کا مقصد مشرقی تیمور میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات کرنا تھیں اور دونوں ممالک میں تعاون کے نئے راستے ہموار کرنا تھے-مسئلہ مشرقی تیمور  دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ کشمیر اور فلسطین جیسے سنجیدہ مسائل کا حل نکالے-قلم و طاقت کا صحیح استعمال اورغیرجانبدار تاریخ دنیا کے مسائل حل کرنے کی ضمانت ہیں-کیونکہ مشرقی تیمور کی آبادی کو اگر آزادی کا حق حاصل ہے تو کشمیر و فلسطین کی آبادی کو نہیں؟- جب مسائل کو جانبداری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے  اور ان کا حل نکالا جائےتو مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں- مشرقی تیمورمسلم امہ کو اتحاد اور تنظیم کا درس دیتا ہے کہ جب قومیں متحد ہوتی ہیں تو وہ اپنے ہر فرد کو اُس کا حق دینا اور اس کا حق لینا جانتی ہیں مشرقی تیمور یہ سبق دیتا ہے کہ ’’مضبوط مسلم کلب‘‘ ہی مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کا محافظ بن سکتا ہے - اب وقت ہے کہ عرب و عجم کی سرد جنگ ختم ہو ، اور بد ترین فرقہ وارانہ و پراکسی جنگیں بند کی جائیں اور اُمت میں امن و استحکام کی راہ کو ہموار کیا جائے -

٭٭٭

دنیا میں علم،طاقت ،فتح اور حکمرانی نصیب والوں کی ملتی ہے اور کیونکہ تاریخ شروع ہی علم،طاقت اورفتح سے ہوتی ہے- مصنفِ تاریخ جاپان کو تو ظالم گردانتے ہیں مگر صرف سکینڈز میں لاکھوں کو قتل کرنے والوں کو فاتح قرار دیتے ہیں-یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے مگر شائد ہم بھول رہے ہیں کہ اکثرفاتحین ہی تاریخ لکھتے ہیں- فاتحین کی نظر میں کوئی بھی آزادی کا متلاشی نہیں  بلکہ وہ سب جو آزادی مانگتے ہیں وہ دہشت گرد یا باغی کہلاتے ہیں-  فاتحین کسی کی حکومت کو گرا دیں تو انقلاب کوئی اور یہ جرمِ عظیم کرے تو غیر جمہوری عمل یا قابض کا لقب دے کر ملک کو تقسیم یا مشہور رہنماؤں کی موت کا تحفہ دیا جاتا ہے- بقولِ اقبال (ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات) - یہی وجہ ہے کہ ساؤتھ سوڈان، بنگلہ دیش ،مشرقی تیمور آزادی کی تحریکیں اورکشمیر فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کی تحریکیں  دہشت گردتحریکیں کہلاتی ہیں ، بلکہ انتہاء تو یہ کہ آج تمام مسلمان دہشت گرد گردانے جاتے  ہیں-جبکہ دوسری طرف  انڈونیشیا کا مشرقی تیمور پر اورسوڈان کا ساؤتھ سوڈان کا اپنی اپنی ملکی زمین  پرکنٹرول بھی غیر آئینی و غیر جمہوری تھا جو کہ تقسیم کی صورت اختتام پذیر ہوا- جبکہ اسرائیل کا فلسطین اور بھارت کا کشمیر و جوناگڑھ پر قبضہ جائز ہے اور جو کچھ روہنگیا مسلمانوں سے برما کی انتہا پسند بدھ تحریکیں کر رہی ہیں اُس پہ طاقتیں اقتصادی مفاد کے پیشِ نظر دانستہ طور پہ خاموش ہیں - شائد اسی لیے مسلمانوں کو آزادی مانگنے کا کوئی حق نہیں اور ’’ نان مسلم بلاک‘‘ میں سے کسی  کا آزادی مانگنا بنیادی حق ہے اور دنیا کے لیے اس کو یہ حق دینا آئینی ہے- مشرقی تیمور کی تاریخ، فاتحین کے دوہرے میعارکی زندہ مثال ہےجو مشرقی تیمور کی تاریخ کو سولہویں صدی سےگردانتے ہیں-ان کے اِس عمل سے انڈونیشیا کو اپنی ہی زمین پر ایک قابض کی صورت میں  اور  تیمور کی تقسیم کو آئینی ظاہر کیا گیا ہے- اِس سے بڑی کسی قوم کی کیا بد قسمتی ہو سکتی ہے کہ اس کی شناخت کو اپنے استعماری مفاد کیلئے کوئی استعماری طاقت تبدیل کر کے رکھ دے ، جب ڈچ اور پرتگالی کالونیاں یہاں بن رہی تھیں اُس وقت یہاں مغربی بو آبادیاتی استعمار نے اپنے اقتدار کو طُول دینے کیلئے نفرتوں کی مستقل بنیادیں رکھیں جو بیسویں صدی تک اس خطے کے انسانی معاشرے  کو اندر سے کھوکھلا کرتے رہے اور آج تک نفرتوں کی وہ فصیلیں بلند ہوتی چلی جا رہی ہیں - مغربی نو آبادیاتی سامراج ایک ایسا زہریلا اژدھا تھا جس کا قاتل زہر آج تک مفتوحہ علاقوں کو موت دیتا آ رہا ہے -

جغرافیہ:

جنوب مشرقی ایشیاء ، آسٹریلیا کے شمال مغرب میں، انڈونیشیاء کے جزائر کے مشرقی سرے پر لیسر سنڈا جزائر  پر مشرقی تیمور  واقع ہے جس کا رقبہ تقریباً چودہ ہزار آٹھ سو چوہتّر(۱۴۸۷۴) مربع کلومیٹر  اور ساحلی پٹی سات سو چھ(۷۰۶) کلومیٹرہے- اِس کی سرحد  (دو سو ترپن(۲۵۳) کلومیٹر) انڈونیشیا ء سے ملتی ہے-اِس میں جولائی دو ہزار سولہ کے مطابق تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ لوگ آباد ہیں جِن میں  تقریباً ستانوے فیصد عیسائی ہیں جو کہ انڈونیشیاء کی تقسیم (انڈونیشیا اور مشرقی تیمور)کے وقت مغرب کی توجہ کا مرکز بنے اور تین فیصد مسلمان ہیں- اِس کی شرحِ خواندگی دو ہزار پندرہ میں تقریباً  ستر فیصد تھی-

تاریخ:

      مشرقی تیمور نما جزیرہ پر انسانوں کی آباد کاری پر مختلف آراء موجود ہیں کچھ کے نزدیک یہ تین ہزار (۳۰۰۰)سال قبل مسیح سے ہوئی اور کچھ کے ساتویں صدی سےافریقی اور ایشیائی باشندوں کی آمد سے ہوا - اِس علاقے میں مسلمان  تاجروں کی وجہ سے اسلام کی آمد ہوئی - جب یہ علاقہ بدھ مت سلطنتِ سرویجایا(Srivijaya empire) میں شامل ہواجو مشرقی تیمور کی روایتی تاریخ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے- بارہویں صدی عیسوی میں سلطنتِ ماجاپاہت(The Majapahit Empire ) موجودہ انڈونیشیاء  اور تیمور (تقسیم سے پہلے تیمور مگر موجودہ مشرقی اور مغربی تیمور)کے جزائر کو اکٹھا کر کے ایک سلطنت بنائی گئی-۱۵۶۵ءمیں پرتگال نے تیمور پر قبضہ کر لیا اور یہاں سے تیمور کی جدید تاریخ کی ابتداء ہوئی جو آج تک انڈونیشیاء کو قابض کے طور پر پیش کرتی ہے-جلتی میں تیل کا کام ’’ڈچ‘‘قابضین نے کیا جنہوں نے مغربی تیمور پر۱۶۰۴ءمیں قبضہ کر کے تقسیم کی ایسی بنیاد رکھی جِس کا الزام آج بھی انڈونیشیا پر ڈالا جاتا ہے یہ تو کچھ ایسا ہے کہ کشمیر کی حالت و تقسیم (لائن آف کنٹرول)کا ذمہ دار برطانیہ و بھارت کی بجائےپاکستان کو قرار دیا جائے-  پرتگال اور مقامی باشندوں کی باہمی شادیوں کی وجہ سے اِس علاقے میں عیسائی آبادی اکثریت میں ہونے لگے- دوسری طرف ڈچ قابضین تجارتی اغراض کی مد میں اپنے قبضے کو مضبوط کرنے لگے- اِن دونوں مغربی سامراجی قابضین کی زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضے کی کوششوں نے تیمور کو  مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا-۱۸۵۹ء کو پرتگال اور ڈچ قابضین نے باہمی تعاون سے معاہدہِ لسبن (Treaty of Lisbon) کے تحت  جزیرہِ تیمور  کو ڈچ تیمور(موجودہ مغربی تیمور) اور پرتگال تیمور (موجودہ مشرقی تیمور) میں تقسیم کر کے سرحد متعین کر دی گئی -

دوسری جنگِ عظیم تیموری باشندوں پر بھی قیامت بن کر برسی جب جاپان ،آسڑیلیا، ہالینڈ نے طاقت کے بل بوتے پر پورے تیمور پر قبضے کی کوشش کی جِس کو آج بھی جنگِ تیمور کے نام سے جانا جاتا ہے جِس میں  تقریباً ساٹھ ہزار(۶۰۰۰۰) سے زائد افراد لقمہ اجل بنے-۱۹۴۵ءکو انڈونیشیاء کی آزادی کے باوجود پرتگالی تیمور پرتگال کی کالونی کے طور پر رہی  جبکہ ڈچ تیمور (یعنی مغربی تیمور) انڈونیشیا کا حصہ بن گیا- ۱۹۷۴ءمیں پرتگال میں آنے والے انقلاب نے پرتگال کا پرتگالی تیمور پر قبضہ کمزور کر دیا  اور پرتگال نے ریڈ کلف ایوارڈ کی بد دیانتی کی تاریخ کو تازہ کرتے ہوئے اِس جزیرہ کو تاریخی اصول کے تحت واپس انڈونیشیا کو دینے کی بجائے آزادی دینے کا اعلان کر دیا-جِس پر مقامی باشندوں (Revolutionary Front for an Independent East Timor (FRETILIN) نے ۲۸ نومبر ۱۹۷۵ء کو آزادی کا اعلان کر دیا جو کہ تاریخی دلائل  سے ثابت ہے کہ  یہ اعلانِ آزادی انڈونیشیا ء کے ساتھ بغاوت تھی -

انڈونیشیا چونکہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور پرتگال یوپی یونین کا حصہ ہے جسے تمام یورپیئن ’’کرسچن کلب‘‘ کہتے ہیں اِس لئے یہ تعصب اس معاملے میں ایک جیتی جاگتی قوم سے  نا انصافی کا موجب بنا -جب انڈونیشیا نے اپنے علاقے کا کنٹرول حاصل کیا تو اسے قابض کا نام دے دیا گیا-جب انڈونیشن فورسزز نے مسلح بغاوت(جِس کو مذہبی تعصب کی بِنا پر مغرب کی مبینہ  مکمل حمایت حاصل تھی ) کو کچلا تو نسل کشی کا نام دے دیا گیا- انڈونیشیاء کے اِس اقدام پر یا مذہبی ہمدردی کی خاطر یا قدرتی وسائل کی خاطر عالمی ادارےمتحرک ہوئے اور اس مسئلہ کا حل نکال لیا گیا-مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کی عارضی حکومت بھی بن سکتی ہے اور امن مشن بھی جا سکتا ہے مگر کشمیر ، فلسطین اور برما کے مسلمانوں کو آگ میں جلتا دیکھ کر نہ  انسانی حقوق کے عالمی ادارے جاگتے ہیں اور نہ اقوامِ متحدہ متحرک ہوتا ہے نہ ہی کسی کو مسلمانوں کی ہونے والی بد ترین نسل کشی نظر آتی ہے -   ۱۹۹۹ءمیں پرتگال اور انڈونیشیاءکے درمیان معاہدہ کے تحت مشرقی تیمور میں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا گیاجس میں  تقریباً اسی فیصد (%۸۰)لوگوں نے آزادی کے لیے ووٹ کیا- ۲۰ مئی ۲۰۰۲ءکو اقوامِ متحدہ نے مشرقی تیمور کو آزاد ملک تسلیم کر لیا- Xanana Gusmao ملک کے پہلے صدر بنے- Taur Matan Ruakملک کے موجودہ صدر ہیں-مشرقی تیمور اقوامِ متحدہ اور گروپ آف(Group of 77 ) کے ساتھ ساتھ کئی بین الاقوامی اداروں کا ممبر ہے-

معیشیت و قدرتی وسائل (عالمی ضمیر کی بیداری کی ایک بڑی وجہ) :

طویل جنگی صورت حال نے مشرقی تیمور کی معیشیت اور انفراسٹرکچر  کو پنپے نہ دیا مگر آزادی کے بعدآئل اور گیس کے ذخائر نے اِس کی معشیت کو کافی سہارا دیا-مشرقی تیمور کی ترقی میں انڈونیشیاء کا بہت کردار ہے جو کہ اِس کی پچاس فیصد (%۵۰)برآمدات کا خریدار ہے- مشرقی تیمور کی ۲۰۱۵ءمیں درآمدات تقریباً سات سو (۷۰۰)ملین امریکی ڈالر اور برآمدات تقریباً اٹھارہ (۱۸)ملین امریکی ڈالر تھیں-مشرقی تیمور  سےتقریباً چھ(۶) بلین کیوبک میٹر گیس آسٹریلیا میں پروسسنگ کے لیے بھیجی جاتی ہے جہاں سے یہ واپس ملک میں آتی ہےجبکہ گیس  کےمعلوم ذخائر تقریباً دو سو (۲۰۰)بلین کیوبک میٹر ہیں -مشرقی تیمورسالانہ  اسّی ہزار (۸۰۰۰۰)بیرل  آئل برآمد کرتا ہے - یہ قدرتی وسائل ہی تھے جو دنیا کی بڑی معیشیتوں کے ضمیر کو زندہ کرنے کی ایک وجہ بنے -مشرقی تیمور کی کرنسی امریکن ڈالر ہے-مشرقی تیمور کی شرح آمدنی ۲۰۱۶ءمیں تقریباً پانچ فیصد (%۵)تھی-

سیاحت:

پہاڑوں،وادیوں اور صحرا سمندر کے ساتھ مل کر وہ حسین نظارے منعکس کرتے ہیں جِس کو دیکھنے کے سیاح دلدادہ ہوتے ہیں- مشرقی تیمور کا دارلحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش نظاروں کو بھی منعکس کرتا ہے-جزیزہِ اتارو جو کہ پرتگال اور ڈچ دور میں جیل ہوا کرتا تھا اپنی خوبصورتی کی مثال خود آپ ہے - پرگالی قبضہ میں رہنے والا شہر باؤ کاؤ پرتگال کی فنِ تعمیر کو منعکس کرتا ہے-نینو کونس نیشنل پارک ( Nino Konis National Park) اورجھیل ایرا لالارو(Lake Ira Lalaro) نیلے پانی اور مگرمچھوں کی کئی اقسام کی وجہ سے مشہور ہے-مت میتابین(Mt. Matebian) اور مت رامیلاؤ (Mt. Ramelau) چوٹیاں عیسائیت مذہب میں اپنی مذہبی حثیت رکھتی ہیں- مسجد النور اور مسجد العمل جدیدفنِ تعمیر کی عکاس ہیں-

اختتامیہ:

آزادی ہر انسان کا حق ہے اور عالمی ادارے اِس کے ذمے دار ہیں جن کے چارٹر اس بنیادی حق کو یقینی بنانے کا وعدہ کرتے ہیں -مگر انسانوں میں تفریق کرکے کچھ کو آزادی اور کچھ کو غلامی دینا بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیار کی زندہ مثال ہے-  جبکہ دوسری طرف انڈونیشیاء نےبڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مشرقی تیمور کو حقِ رائے دہی  دیا بلکہ ۲۰۰۵ءمیں انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کی حکومت کے ساتھ مل کر اعتماد و تعاون کمیشن (Commission of Truth and Friendship) کا قیام عمل میں لایا جِس کا مقصد مشرقی تیمور میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات کرنا تھیں اور دونوں ممالک میں تعاون کے نئے راستے ہموار کرنا تھے-مسئلہ مشرقی تیمور  دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ کشمیر اور فلسطین جیسے سنجیدہ مسائل کا حل نکالے-قلم و طاقت کا صحیح استعمال اورغیرجانبدار تاریخ دنیا کے مسائل حل کرنے کی ضمانت ہیں-کیونکہ مشرقی تیمور کی آبادی کو اگر آزادی کا حق حاصل ہے تو کشمیر و فلسطین کی آبادی کو نہیں؟- جب مسائل کو جانبداری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے  اور ان کا حل نکالا جائےتو مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں- مشرقی تیمورمسلم امہ کو اتحاد اور تنظیم کا درس دیتا ہے کہ جب قومیں متحد ہوتی ہیں تو وہ اپنے ہر فرد کو اُس کا حق دینا اور اس کا حق لینا جانتی ہیں مشرقی تیمور یہ سبق دیتا ہے کہ ’’مضبوط مسلم کلب‘‘ ہی مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کا محافظ بن سکتا ہے - اب وقت ہے کہ عرب و عجم کی سرد جنگ ختم ہو ، اور بد ترین فرقہ وارانہ و پراکسی جنگیں بند کی جائیں اور اُمت میں امن و استحکام کی راہ کو ہموار کیا جائے -

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر