ٹرمپ پالیسی کے مسئلہ کشمیر پر ممکنہ اثرات جائزہ

ٹرمپ پالیسی کے مسئلہ کشمیر پر ممکنہ اثرات جائزہ

ٹرمپ پالیسی کے مسئلہ کشمیر پر ممکنہ اثرات جائزہ

مصنف: مارچ 2017

نائن الیون ۲۰۰۱ء کے بعد الیون نائن ۲۰۱۶ء

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا، ۱۱/۹ کے واقعات کے بعد امریکی حکومت  دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں بہت فعال نظر آئی-افغانستان،عراق اور لیبیا میں لاکھوں جانیں لینے کے بعد جنگوں کا سلسلہ جاری رہا تاہم اس سارے پیرائے میں امریکہ کے حالیہ الیکشن کے نتائج اور اس کی وجہ سے بننے والےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے انوکھے خیالات اور کردار کے باعث ایک امتیازی حیثیت سے اُبھرے ہیں  آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی- ٹرمپ کی الیکشن مہم اور صدارت سنبھالنے کے بعد سے اب تک کے فیصلے یہ واضح کر ہے ہیں کہ دنیا میں نسلی تعصب ، مذہبی شدت اور ’’مسلم نسل کشی‘‘ کا نیا سیاہ باب شروع ہونے کو ہے- امریکہ جو کہ جمہوریت کا علمبردار ہے اورشخصی آزادی پر یقین رکھتا ہے ،وہاں ایک ایسا شخص صدارت کے عہدے پے فائض ہو چکا ہے جو  متنازعہ شہرت کا حامل ہے اور مسلمانوں سے اس آزادی کو چھین لینے کے اقدامات شروع کر چکا ہے- امریکا کا یہ پنتالیسواں( ٤٥)  صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں بھی ہوتا ہے  ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق امریکہ کی ری پبلکن پارٹی سے ہے-حالیہ الیکشن میں اس کی مہم کو دنیا بھر میں بھرپور کوریج تو ملی لیکن پذیرائی نہیں ملی،تاہم اس سب کے باوجود وہ اپنے شدت پسندانہ خیالات کے ساتھ ستر  (۷۰)سال کی عمر میں امریکہ کا صدر بن گیا ہے-ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے لئے امریکی سیاستدانوں سمیت دنیا کے بڑے تجزیہ نگار بھی اور امریکہ کے اندر موجود بہت بڑی اکثریت بھی پُر اُمید نہیں تھی کہ ڈونلڈ جے ٹرمپ امریکہ کے  صدر بن جائیں گے-لیکن اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں تو لوگوں کی نگاہیں اب اس پر لگی ہوئی ہیں کہ اب ٹرمپ کرے گا کیا؟ 

ڈونلڈ ٹرمپ کے نعرہ ’’امریکہ کو پھر سے عظیم بناؤ‘‘سے بظاہر دُنیا کے کسی اور ملک یا کمیونٹی کو بھلا کیا عدمِ تحفُّظ ہو سکتا ہے،امریکہ جن کا مُلک ہے وہ اسے جتنی بار عظیم بنانے کا عہد کریں دُنیا کی ہر دُوسری قوم کی طرح   وہ اس کا حق رکھتے ہیں-لیکن اِس نعرے کے لفظوں کے پیچھے چھپا جو نسلی و مذہبی تعصُّب ہے اُس بارے میں پوری دُنیا تشویش کا شِکار ہے-امریکہ کی معاشی، داخلہ، خارجہ اور دفاعی پالیسیاں یکسر تبدیل ہونے جا رہی ہیں جو کہ ایک بالکل ہی ’’غیر روایتی‘‘ نُقطۂ نظر پہ مشتمل ہونگی-مشرق اور ایشیا کی جانب ٹرمپ کی پالیسی کے چند بُنیادی خد و خال اُن کی انتخابی تقریروں اور بعد از حلف صدارتی حکم ناموں کے اجرأ سے کافی حد تک واضح ہیں- ایشیا اور مشرق کے کئی مسائل ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی کے شعلوں میں سُلگ رہے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحی پالیسیوں کا حصہ بنیں گے، دُنیائے اِسلام میں اُن میں سے پانچ بڑے اور قابلِ ذکر تنازعے ہیں (ان میں سے دو مشرقِ وُسطیٰ میں ہیں ایک جنوبی ایشیا میں، ایک وسطی و جنوبی ایشیا کے کنارہ پر اور ایک کسی نہ کسی طرح پوری دُنیائے اِسلام میں پھیلا ہوا ہے ) : 

1)        مسئلۂ فلسطین

 

2)        مشرقِ وُسطیٰ میں وُسعت اختیار کرتی خانہ جنگی

 

3)       مسئلہ کشمیر

 

4)       افغانستان

 

5)       دہشت گردی

اِن میں سے ہر ایک مسئلہ انتہائی اہمیّت کا حامل ہے ، اِن کے تزویراتی محلِّ وقوع (Geo-Strategic Location) کی وجہ سے اور ان کے قُرب و جوار میں پائے جانے والے امریکہ کے حریفوں اور حلیفوں سے امریکہ کے وابستہ مفادات کی وجہ سے  ان خطوں میں یہ اہم ترین مسائل ہیں جن پہ امریکی انتظامیہ کی پالیسی بہر حال اثر انداز ہوتی ہے- صدر ٹرمپ کی پالیسیاں ان میں سے بعض مسائل پہ بہت واضح ہیں اور بعض پہ آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی جا رہی ہیں - اِن میں سے ہر ایک مسئلہ پہ ایک تفصیلی ’’پالیسی سٹڈی‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ اُس کے چیلنجز اور امکانات کو سمجھا جا سکے -

یہ تمام مسائل گو کہ اپنی اپنی جگہ الگ الگ اہمیت و حیثیت کے حامل ہیں مگر زیرِ نظر تجزیہ میں بطورِ خاص مسئلہ کشمیر کو امریکہ کے غیر متوقع طور پہ بن جانے والے صدر کی متوقع پالیسیوں کے تناظر میں زیرِ بحث لائیں گے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ چیلنجز اور امکانات کیا ہونگے ؟ اور یہ بھی کہ پاکستان کو کشمیر پہ اپنے اصولی مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئے کیا متوقع پالیسی آپشن نکلتے ہیں ؟

عالمی طاقتوں کے مراکز میں دنیا کے کسی بھی خطے سے متعلق اگر پالیسی بنتی ہے تو اس میں سب سے بڑے آبادی والے خطے (جنوبی ایشیا ) کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا،دنیا میں جنوبی ایشیا  کی ایک خاص اہمیت ہے  - دیگر عالمی طاقتوں کی طرح امریکہ کی نظر میں دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیا بھی ایک اہم خطہ ہے جہاں امریکہ کے کئی معاشی و دفاعی مفادات وابستہ ہیں، امریکہ کی دلچسپی اس خطے میں اس وجہ سے بھی رہی ہے اور رہے گی کیونکہ یہاں  پاکستان اور ہندوستان  کے علاوہ چین اور روس بھی موجود ہیں - جنوبی ایشیا میں جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ’’مقبوضہ جموں و کشمیر‘‘ کا ہے جس کے دو بڑے فریق  دُنیا کی دو ایٹمی ریاستیں پاکستان اور انڈیا  ہیں-اِس کے اِردگرد تین دیگر ایٹمی طاقتیں (روس، چین اور ایران) بھی موجود ہیں اِس لئے ان پانچ ایٹمی ریاستوں میں گھرے سُلگتے ہوئے کشمیر کو ’’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘‘ کہا جاتا ہے -

تحریکِ آزادی کشمیر اورمقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال:

بھارت ۲۷ اکتوبر۱۹۴۷ءسے ایک جعلی دستاویزِ الحاق کے ذریعے  کشمیر پر قابض ہے جس پہ مہاراجہ کشمیر کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں اور اکثریتی عوام کی رائے بھی بھارت سے الحاق کے خلاف تھی ، ہے اور رہے گی - جب بھارت نے بندوق کے زور پہ قبضہ کیا تو قبائل کے مجاہدین نے کشمیریوں کی حمایت میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کیخلاف جہاد کا  آغاز کیا ، مکمل شکست کے خدشے کے پیشِ نظر  بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو خود اِس مسئلہ کو لے کر اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں گئے اور کشمیریوں کی رائے کے مطابق اِس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا اور بعد ازاں حالات نارمل ہونے پہ اپنے ہی وعدے سے مکر گئے اور کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے نہ ہونے دیا اور کشمیریوں کی ’’حقِّ خود اِرَادِیّت‘‘ کی آواز اور تحریک کو فوجی طاقت سے کچلنے کا فیصلہ کیا - بھارت نے اِس تحریکِ آزای کو دبانے کے لئے سات لاکھ سے زائد فوجی و نیم فوجی دستے ریاست میں تعینات کئے جنہوں نے بھارتی حکومتوں اور بھارتی پارلیمنٹ کے اشتراک و پُشت پناہی سے کشمیر میں ریاستی جبر کی انتہا کر دی - بھارتی حکومتوں نے فوجی دستوں کو  ’’AFSPA‘‘ (آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ) ، جموں کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ ،   ’’TADA  ‘‘(ٹیررازم اینڈ ڈسرپٹیو ایکٹیوٹیز ایکٹ) اور اِن جیسے دیگر کالے قوانین کی صورت میں بے گناہ کشمیریوں کے ’’قتل کے لائسنس‘‘ جاری کئے اور بھارتی اَفواج نے بھی اِن کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کیا- مگر کشمیریوں کی استقا مت اور اُن کے جذبۂ  حُریّت نے ہر بھارتی حربے کو شکست دی ، تیسری نسل بیت جانے کے باوجُود بھارت سے آزادی اور پاکستان سے اِلحاق کے لئے اُسی عزم ، جذبے اور پختہ اِرادے سے وہ تحریکِ حُریت کو جاری رکھے ہوئے ہیں - آج بھی کشمیر کے شُہداء کے مقدس تابوت پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفنائے جاتے ہیں -

مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر  غور کیا  جائےتو ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کی مہم میں موجودہ حکمران جماعت ’’بی جے پی‘‘ نے کشمیر کے لئے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل ’’۳۷۰‘‘میں ترمیم کی جائے گی - ۱۹۵۰ء میں بھارتی آئین کا حصہ بننے والے اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو کئی اعتبار سے خصوصی اہمیت حاصل ہے - مثلاًاس آرٹیکل کے تحت:

v      بھارت کے کسی بھی دوسرے حصے کے شہری ریاست جموں و کشمیر کے شہری نہیں بن سکتے نہ ہی وہاں زمین خرید سکتے ہیں -

v      بھارتی سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ریاست میں نہیں ہوگا -

بہت ہی اہم یہ کہ اِس کی حدود میں بھارتی ترنگا پرچم اور بھارت کی اس جیسی دیگر قومی علامتوں کی توہین جرم نہ ہوگی -

اِس طرح کی اور بھی بہت سی چیزیں اس آرٹیکل کا حصہ ہیں جس سے کشمیر کی قانونی حیثیت باقی ہندوستان سے مختلف ہے - جب گجرات کے بےگناہ مسلمانوں کے بد ترین قاتل ’’نریندرا مودی‘‘کی قیادت میں بی جے پی نے اس خصوصی حیثیت کے خاتمے کی بات انتخابی منشور کا حصہ بنائی تو کشمیری مسلمانوں کی نظریں بے اختیار طور پہ نریندرا مودی کے گجرات میں وزارتِ اعلیٰ کے عہد پہ چلی گئیں کہ اِس آرٹیکل کو بہانہ بنا کر کشمیر کو بھی گجرات بنا دِیا جائے گا -

’’کشمیر کو گجرات بنانے کی اِس پالیسی‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے بی جے پی کی حکومت نے سب سے پہلے دھڑا دھڑ ہندو پنڈتوں کو بڑے پیمانے پہ ریاست کے آئینی طور پہ ’’خصوصی حیثیت‘‘ کے حامل علاقوں میں آباد کرنا شروع کیا - گو کہ یہ آبادکاری نئی بات نہیں ،تقسیم سے اب تک بھارت نے بڑی منظم اسکیم کے تحت کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل ڈالا ہے، مگر بی جے پی نے اب کے بار زیادہ زور و شور اور زبردستی کی جس پہ مقبوضہ ریاست میں جگہ جگہ احتجاج کئے گئے-ایک تو بھارتی حکومت کا قبضہ ناجائز ، پھر آبادی کے تناسب کو بدلنا آرٹیکل’’۳۷۰‘‘کے ساتھ ساتھ کئی عالمی قوانین و کنونشنز کی خلاف ورزی اِس سب پہ مستزاد یہ کہ پُر امن احتجاج کرنے والے پُر امن شہریوں پہ بے دریغ گولی چلائی گئی،جس سے کئی لوگ زخمی ہوئے اور بُرہان وانی نام کے نوجوان حریت راہنما شہید ہو گئے- اُن کی شہادت کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھیل گئے اور مظاہروں کو روکنے کے لئے بھارت نے پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیاروں کا ظالمانہ استعمال کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر نے بھارتی افواج کی جانب سے بدترین تشدد اور ریاستی دہشت گردی کا سامنا کیا- جس کے ذریعےکئی سو سے زائدبےگناہ افراد کو شہید کیا گیا جبکہ ہزاروں معصوم بچوں اور نوجوانوں سے ان کی بینائی چھین لی گئی- ایمنسٹی انٹرنیشنل  اور دیگر کئی تنظیموں  نے پیلٹ گنز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا  اور واشنگٹن پوسٹ کی کشمیر کے متعلق تحریر کچھ اس طرح تھی،’’IOK suffers worst violence in years‘‘-بھارتی افواج کے ظلم و جبر نے کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو مزید پختہ کیا اور بھارت ایک بار پھر کشمیر میں ناکام ہوا-

امریکہ اور مسئلہ کشمیر- مختصر تاریخی جائزہ:

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ’’پاکستان - انڈیا‘‘ تقسیم کے ساتھ ہی امریکہ کی بالواسطہ دلچسپی کشمیر ایشو میں شروع ہو گئی تھی - اُس وقت دُنیا میں دو قطبی نظام تھے یعنی اشتراکی روس اور سرمایہ دار امریکہ- بھارت کی ریجنل پالیسی اور اُس وقت کی بھارتی قیادت کے اشتراکی خیالات کی وجہ سے وہ رُوس کے قریب ہوئے ، جبکہ  مربوط علاقائی خارجہ پالیسی کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے سفارتی روابط امریکہ سے قریب ہوئے -امریکی بلاک میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر پیش کرنے میں امریکی بلاک کے اکثر ممالک کے سفارتی تعاوُن کےساتھ اور بھی کئی سہولتیں میسر رہیں - اِس کے بر عکس ’’بھارت - روس تعلقات‘‘ کی وجہ سے سیکیورٹی کونسل میں یو ایس ایس آر پاکستان کیخلاف ویٹو پاور استعمال کرتا رہا - بھارت جب ’’نام‘‘ (Non-Aligned Movement) کا حصہ بنا تو ’’نام‘‘ میں شامل کئی نامی گرامی مسلمان ممالک بھی مسئلہ کشمیر پہ پاکستانی مؤقف اور کشمیریوں کے حامی نہ رہے - اِن تینوں تاریخی حقیقتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا-جنوبی ایشیا میں’’روس نواز بھارت‘‘کے سامنے واحد طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی مجبوری (Only Choice) تھا - دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے سرد جنگ شروع ہوئی ، سرد جنگ کے خاتمے (۱۹۹۱ء)  تک پاکستان کی یہ اہمیّت تھوڑے بہت اُتار چڑھاؤ کےساتھ برقرار رہی، خاص کر روس کے خلاف افغان جہاد کا ’’بیس کیمپ‘‘ ہونے کی وجہ سے ستر کی دہائی کے اواخر سے نوے کی دہائی کی شروعات تک پاکستان نے امریکہ سے بہترین تعلقات انجوائے کئے-سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکہ کی ترجیحات بدل گئیں اور اُسے اب ایک نئے حریف کا بندوبست کرنا تھا وہ ہے چائینہ- جس کے لئے امریکہ نے ہندوستان کو منتخب کیا اور چائینہ کے سامنے ایک طاقت کے طور پہ کھڑ اکرنا شروع کیا - بھارت کے روس نواز ہونے کے باوجود ۱۹۶۲ کی لداخ / تبت کے مسئلہ پہ ہونے والی ’’چائنا - انڈیا جنگ‘‘میں امریکہ کا تزویراتی جھکاؤ انڈیا ہی کی طرف تھا ،پاکستان اور چائینہ کے تاریخی و مضبوط تعلقات کے پیشِ نظر امریکہ میں یہ رائے مضبوط ہوئی کہ چائینہ کے خلاف انڈیا ہی کو آلہ بنایا جائے گا - 

قابلِ غور بات یہ ہے کہ چار سے زائد عشروں تک بہترین تعقات ہونے کے باوجود پاکستان امریکہ سے مسئلہ کشمیر پہ کوئی بڑی پیش رفت نہیں کروا سکا، ٹرومین سے ریگن اور بش سینیئر تک (۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۱ء تک) تمام امریکی صدور اس بات کے حامی رہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل ہونا چاہئے اور ثالثی کی پیش کش بھی ہوتی رہی مگر کوئی ’’بریک تھرو‘‘ نہ ہو سکا -کلنٹن سے اوبامہ تک بھی یہی صورتحال برقرار رہی لیکن قدرے زیادہ سرد مہری کےساتھ، کیونکہ کولڈ وار کے خاتمہ کےساتھ ہی پاکستان امریکہ کے لئے اہم نہیں رہا تھا -امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھی اِس سے بڑھ کر مسئلہ کشمیر میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی کہ دو نیوکلیئر طاقتوں (پاکستان ، ہندوستان) کے درمیان معاملہ شدّت نہ اِختیار کرے-

امریکہ کے تینتیسویں (33rd) صدر ٹرومین سے چوالیسویں (44th) صدر اوبامہ تک کی پالیسیز تو  تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں،اس سے پہلے کہ ہم پینتالیسویں (45th) صدر ٹرمپ کی متوقع کشمیر پالیسی کا جائزہ لیں یہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ نہ صرف کشمیر بلکہ مشرق و ایشیا کے لئے بالعموم اور اِسلامی دُنیا کے لئے بالخصوص مجموعی طور پہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا جھکاؤ اور میلان کس جانب ہے؟ انتخابی مہم اور خاص کر  حلفِ صدارت سے اب تک بیان کئے گئے، جاری کئے گئے اور نافذ کئے گئے احکامات و اقدامات ہمیں کس جانب سوچنے پہ مجبور کر رہے ہیں ؟

ٹرمپ فہمی:

جب صدر ٹرمپ کی مخصوص سوچ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بعض انتہائی ناخوشگوار حقائق تسلیم کرنے پڑتے ہیں جن پہ مسلمان دانشوروں سے زیادہ لادین ، عیسائی ، غیر صہیونی یہودی اور دیگر مذہبی کمیونیٹیز کے دانشور پریشان و متحیر ہیں کہ وہ مستقبل جو ایسی مخصوص سوچ سے جنم لینے والی پالیسیوں سے تشکیل ہونے جا رہا ہے یہ انسانیت کی تاریخ پہ کتنے ناقابلِ یقین حد تک خطرناک اثرات مرتب کرے گا -

جب ہم کشمیر کے متعلق بات کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے بعد کا کشمیر ممکنہ طور پہ اور متوقع طور پہ کیسا ہوگا ؟تو اس کی طویل فہرست میں سے ہم چار چیزوں کا انتخاب کریں گے جن کے جائزے سے یہ معلوم کرنے کی کوشش ہوگی -

1) صدارتی انتخابی مہم کے کشمیر پالیسی پر اثرات

2) China Containment Policy کے کشمیر پالیسی پر اثرات            

3) ٹرمپ کی ذاتی تجارتی ترجیحات اور انڈیا کی ’’عظیم کنزیومر مارکیٹ‘‘

4) ’’ٹرمپ - مودی‘‘ مسلمان مخالف ذہنیت

یہ ایسے بُنیادی اَسباب و علَل  ہیں جو کشمیر پالیسی مرتب کرنے میں نمایاں رہیں گے -

I صدارتی انتخابی مہم کے کشمیر پالیسی پر اثرات:

یہ بات کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ٹرمپ کے سامنے انتخابی مہم کے دوران بطورِ مجموعی ’’پاکستان - ہندوستان‘‘ کا کیا تاثر اُبھر کے سامنے آتا رہا ہے؟  انسانی نفسیات کے اعتبار سے  جس کے ذہن میں آپ کے لئے جو تاثر قائم ہوا ہے وہ اُسے پالیسی سازی کے وقت ضرور متاثر کرتا ہے - اِس لئے کشمیر پہ ٹرمپ کی پالیسی کا جائزہ اُن کی الیکشن کمپین سے لیتے ہیں کہ کیا متوقع اِمکانات ہو سکتے ہیں ؟

1.      ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ہندوستانی اوورسیز کا کردار:

ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات نے بھارت نژاد ہندوؤں کی اکثریت کو اپنی جانب متوجہ کیا- ریپبلکن -ہندو کولیشن (Republican Hindu Coalition) کے چیف شالبھ کمار نے گیارہ(۱۱) لاکھ ڈالر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کے لئے دئیے- شالب کمار نے یہ بھی بتایا کہ ٹرمپ نے اس کے ساتھ میٹنگ میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت کے ہمسایہ(پاکستان) کی جانب سے دوہرا کردار تسلیم نہیں کریں گے- ریپبلکن -ہندو گٹھ جوڑ کی جانب سے ٹرمپ کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا گیا اور ان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف ٹرمپ کی پالیسیوں کے حق میں نکالی گئی ریلی میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے شرکت کی اور بھارتی اور امریکی قوم کو بہترین دوست قرار دیا-امریکی ہندوؤں اور بھارت میں بھی ہندو سینا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے لئے اپنی مذہبی دعاؤں اور عبادات کا انعقاد کیا- ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن کے لئے ہندی کا لفظ ’’چُڑیل‘‘ استعمال کیا - اِسی طرح انہوں نے بھارتی حامیوں کی تقریب میں ’’اب کے بار ، ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ بھی ہندی میں لگایا ا،انہوں نے اپنا تلفظ درست کرنے کے لئے باقاعدہ ٹیوٹر کا اہتمام کیا تھا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارت کو اہم سٹریٹجک اتحادی قرار دیا اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو ہندو کمیونٹی کو وائٹ ہاوس میں میں ہندو دوست صدر ملے گا-ان کے ایسے اقدامات نے پہلے سے متاثر بھارتی نژاد ہندوؤں کو مزید متحرک کیا جنہوں نے ٹرمپ کی الیکشن مہم اور ان کی جیت میں ایک اہم کردار ادا کیا- ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد الیکشن میں سپورٹ پر ہندوؤں کا شکریہ ادا کیا- تاہم یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ’’بھارت نژاد غیر ہندو امریکی کمیونٹی‘‘ کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی-

2.      ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مسلم/پاکستانی اوورسیز کا کاردار:

الیکشن مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات اور مہاجرین پر پابندیوں کے باعث زیادہ تر پاکستانی اور مسلمان امریکی شہریوں نے ٹرمپ کی مخالفت میں مہم کی-پاکستانی نژاد امریکی اور دیگر ممالک کے  مسلمانوں کی اکثریت نے الیکشن میں ٹرمپ کی مخالفت کی- عرب امیریکن انسٹیٹیوٹ نے الیکشن سے قبل ایک سروے رپورٹ جاری کی جس کے مطابق ر ریپبلکن عربوں کی تعداد ڈیموکریٹ ریپبلکن سے آدھی تھی- امریکن اسلامک تعلقات کی کونسل (Council on American-Islamic Relations) کے سروے کے مطابق الیکشن سے قبل بہتر(۷۲) فیصد مسلمان ہیلری کلنٹن جبکہ فقط چار(۴) فیصد ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی تھے- پاکستانی اور زیادہ تر امریکی مسلمانوں نے الیکشن میں ہیلری کلنٹن کی حمایت کی جس کی بنیادی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلاموفوبک الیکشن مہم تھی- پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے ’’اقتدار کی ضمانت کے لئے انویسٹمنٹ‘‘ صرف ہیلری کلنٹن کے کیمپ میں کی تھی ، ان کا قوی ایمان تھا کہ ہمارے رزقِ حلال کی کمائی سے ہیلری کلنٹن کی کمپین میں ضرور برکت پڑے گی اور وہ لازماً کامیاب ہو گی -اب جبکہ ٹرمپ صدر بن گئے ہیں تو انتخابی مہم کی مخالفت کا کچھ قرض تو ضرور اُتاریں گے -

اِس کی پیمائش تو مشکل ہے کہ غیر سیاسی و تاجرانہ ذہنیت کے انتقامی زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پہ کیا ہو گی مگر یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ تھوڑی یا زیادہ جتنی بھی ہو گی اُس کا اثر لازمی طور پہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی سے واضح اور نمایاں ہو گا -

China Containment Policy کے کشمیر پالیسی پر اثرات:

امریکہ کی ’’Containment Policy ‘‘کی تاریخ سرد جنگ سے ملتی ہے جب کمیونزم کو روکنے کے لئے ان الفاظ کا استعمال ہوتا تھا-تاہم سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ کی توجہ چائینہ کو محدود کرنے کی جانب ہوئی- تاریخی اعتبار سے پاکستان اور چائینہ کے قریبی تعلقات کی بنیاد پر اس پالیسی میں پاکستان کی شمولیت ممکن نہ تھی چنانچہ امریکہ نے بھارت کو اس مقصد کے لئے موزوں سمجھا -چونکہ بھارت بھی سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد مغربی بلاک میں شمولیت کا خواہاں تھا ساتھ ہی ساتھ  پاکستان اور چائینہ کا روائیتی حریف ہونے کے ناطے چائینہ کو محدود کرنے کے لئے اچھا انتخاب تھا-۱۱/۹کے بعد افغانستان جنگ میں بھارت کو خصوصی طور پر اہم کردار دیا گیا جس کا مقصد بھی بھارت کو مضبوط کرنا تھا جو خطے میں امریکہ کا اہم ترین اتحادی ہے اور امریکی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے- چائینہ کی زیادہ تر تجارت چائینہ کے جنوبی سمندر (South China Sea) کے ذریعہ ہوتی ہے اور گزشتہ چند برسوں سے چائینہ اور علاقائی ملکوں کے مابین بحری حدود اور جزائر پر قبضہ کے تنازعات بڑھ رہے ہیں جن میں امریکہ کا قدرتی جھکاؤ چائینہ کے مخالف ممالک کی جانب ہے جن میں اکثریت امریکہ کے پرانے اتحادی ہیں- کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ مسئلہ عشروں پرانا ہے مگر حالیہ برسوں میں اسے سامنے لائے جانے کے پسِ منظر میں بھی چائینہ کو محدود کرنے کی پالیسی کارفرما ہے-

چائینہ کی جانب سے تجارتی قوت کو مزید وسعت دیئے جانے کے اعلانات اور بالخصوص ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کے بعد امریکہ کو خطے میں اپنی اجارہ داری کم ہوتی نظر آرہی ہے-ایسے میں’’ CPEC‘‘پر کام شروع ہونے سے چائینہ کو جنوبی چائینہ سمندر کا نہایت موزوں اور سستا نعم البل مہیا ہونے جا رہا ہے جسے امریکہ’’China Containment Policy‘‘ کے لئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھ رہاہے- جبکہ بھارت کو بھی اس پراجیکٹ سے وابستہ پاکستان کی ترقی چبھتی ہے اور وہ  کھلے عام  ’’ CPEC‘‘کی مخالفت کا اعلان کر چکا ہے چنانچہ امریکہ و بھارت کے مابین اس پراجیکٹ کے خلاف کام کے لئے تعاون کی فضا قائم ہوئی ہے-

ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کا ایک اہم جزو چائینہ کی بڑھتی تجارتی طاقت کو روکنا تھا- انہوں نے کھلم کھلا چائینہ کی مخالفت کی اور امریکہ میں ملازمت کے مواقع کم ہونے  اور سائیبر کرائم کے لئے بھی چائینہ کو مورد الزام ٹھہرایا- ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بزنس مین ہونے کے ناطے اور امریکہ کی چائینہ کے متعلق پہلے سے ہی موجود پالیسی سے یہ بات عیاں ہے کہ آنے والے دنوں میں جنوبی ایشیا میں امریکہ کی پالیسی کا مرکز چائینہ کو محدود کرنا اور امریکی کمپنیوں کے بزنس کا تحفظ کرنا ہو گا جس کی وجہ سے امریکہ انڈیا گٹھ جوڑ مزید تقویت پکڑتا محسوس کیا جا سکتا ہے جس کے نہایت منفی اثرات کشمیر پر مرتب ہوں گے-

III۔  ٹرمپ کی ذاتی تجارتی ترجیحات اور انڈیا کی ’’عظیم کنزیومر مارکیٹ‘‘:

ڈونلڈ ٹرمپ کے اندر موجود ایک بزنس مین بہر طور اس کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرے گا اور یہ بات ان کی الیکشن مہم میں بھی عیاں تھی- امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کے نعروں کی سپورٹ میں ٹرمپ کی زیادہ تر توجہ بزنس، ملازمت اور معیشت کے متعلق رہی- ٹرمپ کے بھارت کی جانب جھکاؤ اور مسئلہ کشمیر کے متعلق ان کی پالیسی میں یہ پہلو ایک اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ امریکی  کمپنیوں کو بھارت کی سوا ارب آبادی کی صورت میں  ایک بڑی کنزیومر مارکیٹ نظر آتی ہے اور وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ بھارت کو ناراض کر کے اس مارکیٹ سے حاصل ہونے والے منافع کی ایک خطیر رقم کو کسی صورت داؤ پر لگایا جائے- ٹرمپ کی اپنی ذاتی ترجیحات بھی تجارت کے ساتھ وابستہ ہونے کے باعث خارجہ پالیسیاں اپنے ذاتی  مفادات کا تحفظ بھی کریں گی-چنانچہ ٹرمپ کی تجارتی ترجیحات بھی اس کے بھارت کی جانب جھکاؤ کا سبب بن رہی ہیں- کشمیر پہ بھارت کی حسّاسیت کے پیشِ نظر ٹرمپ نہیں چاہے گا کہ کشمیر پہ کسی اصولی مؤقف کو اپنا کر خواہ مخواہ اپنی اتنی بڑی کنزیومر مارکیٹ خراب کرے کیونکہ سرمایہ دار کے نزدیک بھی اور سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ’’انسان‘‘ نہیں بلکہ ’’اقتصاد‘‘ اہم ہے -

IV. ’’ٹرمپ - مودی ‘‘ مسلمان مخالف ذہنیت:

کشمیر کے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ مسلسل اور باوثوق ذرائع ابلاغ سے رپورٹ ہونے والے ایسے عوامل جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی ’’مسلم مخالف خیالات‘‘ پر مبنی ہیں اُن کو سمجھا جائے - یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ ’’گجرات کا قصائی‘‘ کے نام سے اسلام اور مسلمان دُشمنی میں شہرت پانے والے نریندرا مودی اور بے دھڑک و بلا جھجھک مسلمانوں کو سیدھا کرنے کا عزم کرنے والے ٹرمپ کا عہدِ اقتدار ایک ہی ہے- یہ یارانہ بھی دُور تک جاتا دکھائی دیتا ہے ، اِس کے لازمی طور پہ نتائج کشمیر پہ بھی مرتب ہونگے -

اب اِس بات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اب تک ٹرمپ کے رویے سے کیا کیا چیزیں اخذ کی جا سکتی ہیں - 

1. صدرٹرمپ کی اِسلام مُخالف ذہنیّت کا ناقدانہ جائزہ:

ڈونلڈ ٹرمپ  نے اپنی صدارتی مہم میں مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا،اسرائیل اور بھارت کے ساتھ وعدے کئے ، پوری دنیا اور خاص طور  پر مسلمانوں کو (کچھ اپنی نالائقیوں کے سبب اور کچھ ٹرمپ کی پالیسیوں کے سبب) اس جیت پر دھچکا  لگا-تاہم کئی ماہرین یہ کَہ  رہے تھے کہ ان کے یہ تمام شدت پسندانہ خیالات صرف الیکشن جیتنے کی مہم کے لئےہیں اور صدارت کا منصب سنبھالنے کا بعد ایسا نہ کریں گے اس کے برعکس جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جتنے وعدے الیکشن مہم میں کئے وہ ان پر کاربند نظر آ رہے ہیں- بالخصوص مسلمانوں کی جانب شدت پسندانہ رویہ ان کی انتظامیہ اور ان کے اپنے ’’ایگزیکٹو آرڈرز‘‘سے واضح ہے جس میں انہوں نے چھ مسلم ممالک کے باشندوں کا امریکہ میں داخلہ پر پابندی عائد کی-اگرچہ یہ فیصلہ عدالت نے معطل کیا ہے اور ابھی کیس زیرِ سماعت ہے تاہم ان کے اس اقدام نے ان کی خارجہ پالیسی واضح کر دی ہے- آنے والے وقتوں میں بعض ناقدین کی رائے میں ’’مسلم مُخالف‘‘  اور جبکہ بعض کی رائے میں ’’مسلم کش‘‘ پالیسی اُن کی خارجہ پالیسی میں اولین حیثیت رکھے گی-

ٹرمپ انتظامیہ مصر کی ’’اخوان المسلمین‘‘ کو دہشت گردتنظیم منوانے میں بھی  لگی ہوئی ہے-یہ تنظیم نہ صرف مصر بلکہ کچھ دیگر  اسلامی ممالک میں بھی فعال ہے- جن میں سوڈان ، شام ، فلسطین ،اردن،تیونس،عراق،کویت اور مراکش جیسے ممالک شامل ہیں-۲۰۱۲ءکے الیکشن میں مصر میں فتح یاب ہونے والی ’’اخوان المسلمین‘‘ عوامی ووٹ سے اقتدار تک پہنچی تھی اور ایک متنازعہ ترین فوجی مداخلت کے ذریعے ہٹایا گیا - اگر اب اس پر دہشت گردی کے لیبل کے ساتھ پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں ایک نئی فرقہ وارانہ لہر اور تقسیم کو جنم دے سکتی ہے-

ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیانات میں یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کم و بیش ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف ہی ہوگی جسے و ہ دنیا سے ختم کر کے دم لیں گے-۱۱/۹ کے بعد امریکا کی خارجہ پالیسی اسی روش پر قائم تھی جسےمیں ٹرمپ کے آنے سے مزید  تیزی آنے کا امکان ہوگا-ڈونلڈ ٹرمپ  شدت پسندی کے خلاف پروگرام(Countering Violent Extremism) کو مسلمانوں کے خلاف محدود کرنے کا بھی عزم کئے ہوئے ہے جسے بنیادی طور پر تمام قسم کے شدت پسند نظریات کے خلاف بنایا گیا تھا- تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات سے گوروں کی برتری کے لئےکام کرنے والے شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں اور دیگر غیر مسلم گروہوں کے خلاف اس پروگرام کے تحت کارروائی نہیں ہوسکے گی-ان اقدامات سے سماج میں بھی مسلم مخالف شدت پسندی کو ہوا مل رہی ہے- مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ایسی انتہاء پسندی کی ایک مثال حال ہی میں کینیڈا میں جلائے جانے والی ایک مسجد ہے جہاں چھ (۶)مسلمان شہید کئے گئے اور امریکی ریاست ٹیکساس میں بھی مسجد کو آگ لگا دی گئی-

2.      ٹرمپ انتظامیہ کے اِسلام مُخالف  (Islamophobic) اراکین :

ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں کئی ایسے لوگ شامل کیے ہیں جن کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،  مثلاً جیف سیشن ( Jeff Session ) مسلم مخالف سینیٹر ہے اور اسلام مخالف لابی میں خاصا سرگرم رہا ہے ، ایران کے ساتھ جنگ کاحامی ہے اور تشدد کی بھی حمایت کرتا ہے-

کے ٹی میک فرلینڈ ( KT McFarland ) ٹرمپ انتظامیہ کی ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں مسلمانوں کی پروفائلنگ کرنے کے حق میں ہیں جس کے سبب ایک نئی خبر گردش کررہی ہے کہ جو بھی مسلمان امریکہ میں آئے گا وہ اپنے ’’گوگل،فیس بُک اور ٹویٹر‘‘کے پاس ورڈ بھی فراہم کرے گاتاکہ اس کی خوب جانچ پڑتال کی جاسکے-سوال یہ ہے کہ اب شخصی آزادی کے علم بردار کہاں ہیں؟

ریکس ڈبلیو ٹیلر سن جو کہ امریکہ کے پینسٹھ (۶۵)سالہ نئے سیکریٹری آف اسٹیٹ (سربراہ خارجہ امور) ہیں وہ دُنیا کی تیل اور گیس کی چھٹی(۶) بڑی کمپنی (Exxon Mobil Corporation) کے طویل عرصہ تک ’’سی ای او‘‘ رہے ہیں - اُن کا ایک اچھا بزنس مین ہونا اپنی جگہ مقدم ، مگر بد قسمتی سے تیل اور دیگر قدرتی وسائل پہ کام کرنے والی لیڈنگ کمپنیوں کی شہرت جنگوں کے حامی ہونے کے حوالے سے زیادہ قابلِ احترام نہیں ہے - کئی ایک امریکی کالم نویسوں نے اِس خدشے کا اِظہار کیا ہے کہ کئی دہائیوں سے جاری وسائل اور تیل پر قبضے کی جنگ مختلف بہانوں سے اب مزید شدت اختیار کرے گی-اس بات کے مزید ثبوت کے طور پہ وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ ’’آئل لابی‘‘ کو خوش کرنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ ۲۰۱۰ءمیں پاس ہونے والے ڈاڈ فرینک ایکٹ (Dodd-Frank Act)  کی بھی مخالف ہے جس کے مطابق تیل ، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کی کمپنیاں غیر ملکی حکومتوں کو دی جانے والی مالی معاونت کی معلومات فراہم کرنے کی پابند تھیں-

اسٹیو بینن (Steve Bannon ) جسے انتظامیہ میں نظریاتی طور پر بہت اہمیت حاصل ہے، اسے  خارجہ امور اور ’’انٹیلی جنس‘‘ کی معلومات پر صدر کی مشاورتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے- ’’Steve Bannon ‘‘بھی دیگر اراکین کی طرح مسلم مخالف نظریات رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ابھی ہم ’’اسلامک فاشزم‘‘ کے مخالف جنگ کے اولین مرحلہ پر ہیں-

قومی سلامتی پر ٹرمپ کے چند روز تک رہنے والے مشیر مائیکل فلن (  Michael Flynn ) بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کے حامی ہیں اور انہوں نے ایک ٹویٹ بھی کی تھی جس میں ایسی ویڈیو کو شئیر کیا گیا تھا جس کا ٹائیٹل تھا(Fear of Muslims is RATIONAL) ’’مسلمانوں سے خوف منطقی ہے‘‘-  (انہوں نے حال ہی میں روس سے تعلقات پہ بننے والی کنٹرو ورسی پہ استعفیٰ دے دیا ہے -)

3.      ’’ٹرمپ - نیتن یاہو‘‘ یارانہ:

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک اگزیکٹو آرڈر میں میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر  دیوار  تعمیر  کرنے کی منظوری دی ہے،اس دیوار کی تعمیر کے لئےبیس(۲۰) بلین ڈالر درکار ہونگے،جو کہ ٹرمپ کے مطابق میکسیکو ادا کرے گا- ٹرمپ کے ایسے اقدامات کے سبب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے  اپنی ایک ٹویٹ میں کہا:

‘‘President Trump is right. I built a wall along Israel's southern border. It stopped all illegal immigration. Great success, Great idea.’’

’’ ڈونلڈ ٹرمپ ٹھیک کہتے ہیں، مَیں نے اسرائیل  کی جنوبی سرحد کے ساتھ دیوار بنائی جس نے غیر قانونی مہاجرین کو روکا، زبردست کامیابی، زبردست آئیڈیا‘‘-

ٹرمپ انتظامیہ کی سپورٹ کے باعث اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک نیا بل پاس کیا جس کہ تحت وہ مقبوضہ فلسطین کی زمین پر  نئی بستی تعمیر کرے گا، جسے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے غیر قانونی فعل قرار دیا ہے اور جس کی وجہ سے فلسطین کی رہی سہی زمین بھی ہتھیالی جانے کا گھناؤنا اسرائیلی منصوبہ بڑھایا جا رہا ہے جس سے فلسطینی اپنی ہی سر زمین میں بے گھر ہو کر رہ جائیں گے-یہ سب ان کے وقار و حقوق کو ضبط کر لے گا، جو نفرت اور انتقام کے ایک نئے جذبے کو پروان چرھائے گا-اس بل کو اسرائیلی اٹارنی جنرل نےبھی غیر قانونی قرار دیا ہے مگر!وہ چاہتے ہوئے بھی اسے نہیں روک سکے-یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل کے ان اقدامات کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کا شفقت بھرا ہاتھ ہے-انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ دنیا کی سب سے بُری کھلی جیل ہوگی(غزہ کو پہلے ہی کھلی جیل قرار دیا جا چکا ہے)-

4.      صدر ٹرمپ کی حالیہ پالیسیوں سے بڑھتی ہوئی مسلم دُشمنی اور نسل پرستی:

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد دنیا ’’فاشزم (fascism) ‘‘ کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور امریکہ خود جمہوریت سے آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے-بالکل ویسے ہی جیسے ہٹلر کی نازی حکومت نے جرمنی کے ساتھ کیا کیونکہ  ٹرمپ کا نعرہ ’’ س  ب سے پہلے امریکہ‘‘ اس کی جانب پہلا قدم ہے- ٹرمپ کی سات (۷)مسلمان  ملکوں یعنی ایران،عراق، شام ،صومالیہ، لیبیا، سوڈان اور یمن شامل ہیں پر سفری پابندی (Muslim Ban) اس کا عکس ہے بالکل ویسے ہی جیسے ہٹلر نے یہودیوں پر پابندیاں لگائی تھیں-ان پابندیوں کو دیگر مغربی ممالک اور عالمی رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے- صحافیوں اور کالم نویسوں نے بھی دنیا بھر سے مسلم مخالف اقدامات پر تنقید کی ہے اور مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے  اور خود امریکہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں نے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے - تاہم چیتھم ہاؤس کے کچھ روز قبل دس (۱۰)یورپی ممالک میں منعقد کئے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق اکثریت یورپی عوام مسلمان مہاجرین پر پابندی لگانے کے حق میں ہیں- یہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ سماج میں مذہبی عدم برداشت اور شدت زور پکڑ رہی ہے- ٹرمپ کی مسلمانوں پر پابندی،میڈیا پر دباؤ، ریاستی اداروں کے اعلیٰ افسران پر دباؤ، امریکی عدالتی نظام کو برا بھلا کہنا ایسے اقدامات ہیں جو ہٹلر کی تاریخ دہرا رہے ہیں - یہ سب اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ جیسے ہٹلر یہودیوں کے قتلِ عام کا باعث بنا تھا اسی طرح اگر موجودہ پالیسیاں جاری رہیں تو دنیا بھر میں مسلمانوں کےوسیع پیمانے پر قتلِ عام کا باعث بنے گی-تاہم ہٹلر کے اقدامات سے اگر انسانیت نے سبق سیکھا ہے تو اس مذہبی عدم برداشت اور مسلم مخالف ہوا کو روکنا امریکی عوام اور اقوامِ عالم کی ذمہ داری ہے  وگرنہ بعد میں یہود دشمنی (anti-semitism) جیسے قوانین بنانے سے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا-اس سب کی وجہ سے ایک نئی اصطلاح ’’ٹرمپ ازم (Trumpism)‘‘ سامنے آئی ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے  کہ قیادت اور حکومت معمول کے مطابق نہ کرنا ، لیکن معمول کے مطابق نہ ہونا اور دہشت انگیز (Alarmist)  ہونے میں فرق ہے-ٹرمپ کی دہشت انگیزی کی وجہ سے معاشرے میں عقل، دلیل اور برداشت کا فقدان شروع ہو چکا ہے تعصب و غرور اور خوف و انتقام کو فوقیت مل رہی ہے-اس تمام صورتحال میں دنیا کے مسائل  بڑھ رہے ہیں اور نفرتوں اور تفرقوں کو ہوا مل رہی ہے-

یہ ایک بہت ہی مختصر جائزہ ہے اُن پالیسیوں کا جو کہ عالمی میڈیا میں مسلسل رپورٹ کی جارہی ہیں جن پہ ہر ذی شعور پریشانی کےساتھ سوچنے پہ مجبور ہے کہ یہ اقدامات ’’پُر امن بقائے باہمی‘‘ کے نظریے کو بھلا کیسے آگے بڑھنے دیں گے؟نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم اور لادین طبقات بھی اِس پریشانی و حیرانی میں مبتلا ہیں -

کشمیر کےمتعلق اِس بات پہ کوئی التباس (Confusion) نہیں ہے کہ فلسطین کی طرح یہ بھی عالمی دوہرے معیارات کا سامنا صرف ’’اسلامی شناخت‘‘ کی وجہ سے کر رہا ہے کیونکہ ان کے بر عکس ان سے نسبتاً کم حقیقی مسائل مشرقی تیمور اور ساؤتھ سوڈان کو حل کر دیا گیا ہے-اسلام اور مسلمانوں کے متعلق درج بالا خیالات رکھنے والی انتظامیہ اور قیادت کا کشمیر کی ’’اسلامی شناخت‘‘ کے سبب متعصب ہونا اور اس تعصب کی جھلک ان کی پالیسیوں میں واضح طور پہ جھلکنا  فطری بات ہے -

ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق پالیسی اور توقعات:

اپنے ایگزیکٹو آرڈرز(جو عدالت کی جانب سے معطل کئے جا چکے ہیں) میں ٹرمپ نے پاکستانی شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر اگرچہ پابندی نہیں لگائی تاہم وائٹ ہاؤس کے عہدہ داران نے مستقبل میں ایسے امکانات کا اظہار کیاہے- ٹرمپ نے بھی یہ کہا کہ پاکستان، سعودی عرب اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے افراد امریکہ کے لئے خطرہ ہیں-۱۳ء-۲۰۱۰ءامریکی سنٹرل کمانڈ کے ہیڈ  اور ٹرمپ انتظامیہ میں  سیکرٹری دفاع جنرل جیمز میٹس  پاکستان اور بھارت کے تنازعات اور پاکستان کی خطے میں اہمیت سے آگاہ ہیں- وہ بھارتی مفادات کے تحفظ اور چین کو روکنے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے-بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کابینہ کے زیادہ تر سابق جنرل پاکستان کے لئے دفاعی معاملات میں فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے  کیونکہ امریکہ پہلے ہی بھارت کے ساتھ بہت سے جوہری اور دفاعی پراجیکٹس پر معاہدے کر چکا ہے - بھارتی لابی،اسرائیلی لابی کے ساتھ مل کر امریکہ کے پالیسی سازوں کو باور کروا چکے ہیں کہ خطے میں بھارت  ہی  امریکہ کے لیے بہترین آپشن ہے- اب تک امریکہ میں بھارتی لابی،اسرائیلی لابی کے ہمراہ بہت طاقتور ہے چنانچہ یہ واضح رہے کہ   کوئی  بھی  امریکی پالیسی پاکستان کے مفاد کے برعکس ہو گی-اسرائیلی و بھارتی لابی کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ امریکی دانشور دو خطوں پہ اپنی دانش کھو بیٹھے ہیں : ایک مشرقِ وُسطیٰ اور دوسرا جنوبی ایشیا - کیونکہ امریکہ کی مشرقِ وُسطی پالیسی تل ابیب میں اور جنوبی ایشیا پالیسی نئی دہلی میں بنتی ہے -

ٹرمپ کی ایڈمنسٹریشن چاہے گی کہ پاکستان ماضی کی طرح’’Do More Formula ‘‘ پر عمل کرے اور امریکاکے طویل اسٹریٹجک مقصد، مستحکم افغانستان، کیلیے پاکستان آرمی امریکہ کی مدد کرےمزید یہ کہ  پاکستان ،امریکی مفادات کی خاطر بھارتی چوہدراہٹ  کو قبول کر لے- ہڈسن انسٹیٹیوٹ اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن جیسے تھنک ٹینکس نے ٹرمپ کو تجویز کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں کیونکہ ان کے مطابق پاکستان دہشت گردی کے خلاف’’Do More‘‘نہیں کر رہا اور امریکہ کے ساتھ دوغلی پالیسی رکھے ہوئے ہے- ان تھنک ٹینکس کی تجویز کے مطابق اگر پاکستان’’Do More Formula ‘‘ پر عمل نہیں کرتا تو اس سے غیر نیٹو اتحادی کاسٹیٹس لے لیا جائے- سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھنک ٹینک اپنی دانشورانہ کاوشوں میں اس قدرجانبدار کیوں  ہیں ؟ اس کی ایک وجہ  اسرائیل نوازصیہونی لابی اور انڈین لابی ہے اور ان لابیز کے فنڈز اور ہدایت  بھی امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی(American Israeli Public Affairs Committee) کے ذریعے سے ہوتی ہیں اور  امریکہ کے سرفہرست تھنک ٹینکس صیہونی لابی کے زیرِ اثر ہیں -

ناچیز کی رائے میں ٹرمپ کو تجاویز دینے والے امریکی تھنک ٹینکس اور دانشوروں سے بھی یہ  سوالات کئے جانے چاہئیں کہ:

دہشتگردی کے خلاف امریکی-نیٹو افواج کی کامیابیاں کیا ہیں اور کس طرح انہوں نے پاکستان سے بہتر کردار ادا کیا ہے کہ بار بار ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا ہے؟ چنانچہ اب ’’ US should do a lot more‘‘کی ضرورت بھی ہے اور اس پر  بات  بھی کی جانی چاہے-

امریکی تھنک ٹینکس کو بھارتی لابی سے مال بٹورنے کی بجائے ایسی تحقیق کرنی چا ہئے جس میں یہ نکتہ اٹھایا جائے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقاصد حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہوا ہے جبکہ وہ پہلے ہی ایک ٹریلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکا ہےاور بیس (۲۰)ٹریلین ڈالر کا مقروض بھی ہو چکا ہے ؟نیز یہ کہ امریکہ کی طاقت روز بروز کم کیوں ہوتی جا رہی ہے؟

کیا امریکہ اس بات کا انکار کر سکتا ہے کہ امریکہ کی فراہم کردہ سپورٹ کی بنیاد پر بھارت افغانستان سے پراکسیز  اور کلبھوشنوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے؟

ٹرمپ کی انڈیا کے متعلق پالیسی اور مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار: 

ٹرمپ بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی خاتمے کے لئے کام کرنے پر فریفتہ ہے اور اگر ہم انڈیا کا دہشت گردی پر موقف دیکھیں تو وہ دو نکات پر مشتمل ہے:

1) تمام دہشت گردانہ سرگرمیاں پاکستان سپانسرڈ ہیں-

2) تمام کشمیری  دہشت گرد ہیں اور کشمیر کی تحریک آزادی دہشت گردی ہے-

لہٰذا یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ٹرمپ بہترین بھارت دوست اور درج بالا میں بیان کی گئی اہم وجوہات کی بنیاد پر نہ صرف کشمیریوں کی تحریک آزادی بلکہ پاکستان کی کشمیر پالیسیز کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کریں گے- بھارت ہمیشہ کی طرح امریکہ کی طرف سے بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر حل کرنےاورامن قائم کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی کاوش کی مزاحمت کرے گا- اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ جیسے ملک کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ ’’Pivot to Asia‘‘ پالیسی کو کامیاب بنانے کے لئے ایسے مسائل کو مد نظر رکھے- بیشک ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کی حل کے لئے مختلف موقعوں پر بات کی ہے لیکن اگر ٹرمپ کے بیانات کو سامنے رکھیں تو پالیسی عیاں ہو جاتی ہے- مثال کے طور پر، ’’اگر وہ چاہیں تو میں ثالث بننا پسند کروں گا‘‘ اس طرح کے بیانات امریکہ اور امریکی  قیادت پہلے بھی دیتی رہی ہے (اگر پاکستان اور انڈیا دونوں ثالثی قبول کریں) کیونکہ امریکہ اور ٹرمپ کو یہ معلوم ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کرنا چاہتا  اس لیے وہ کسی صورت بھی کسی ثالثی کو قبول نہیں کرے گا لہذا ٹرمپ   کا بیان بھی محض بیان ہی ہے - انڈین ایکسپریس کے مطابق، ’’ یہ بات قا بل  یقین نہیں ہے کہ ٹرمپ ’’پاک-بھارت ‘‘ مسائل اورتنازعات میں مداخلت کرے گا خاص طور پراب  جب کہ ٹرمپ بھارت کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں‘‘-چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسئلہ کے حل کے لئے کسی مثبت پیش رفت کی توقع نہیں ہے اور اگر کوئی توقع ہے تو وہ فقط بھارت نواز پالیسی تک محدود رہے گی- صدارت سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندرا مودی کو ٹیلی فون پہ رابطہ کر کے اپنے ساتھ ہونے کی یقین دیہانی کروائی ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی اب تک کی پالیسی اور اعلانات و بیانات کا ایک تسلسل ہے- یہ درست ہے کہ اقوامِ متحدہ نے بھارت کی جانب سے کی جانے والے ہرزہ سرائی کو ناکام کیا ہے کہ تحریکِ آزادی کشمیر دہشت گردی ہے جس کے باعث عالمی سطح پر یہ تاثر قائم ہے کہ کشمیر کی جدوجہد آزادی دہشت گردی نہیں ہے تاہم ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ٹرمپ کے  مسلم مخالف اقدامات اِس تناظر میں تحریکِ کشمیر پربہت منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں  اور کشمیر کے لئے آنے والا وقت مزید چیلنجز لائے گا -

پاکستان کے لئے پالیسی آپشنز:

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر