مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال : عرب قیادت کیلئے پالیسی آپشنز

مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال : عرب قیادت کیلئے پالیسی آپشنز

مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال : عرب قیادت کیلئے پالیسی آپشنز

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ فروری 2017


’’
مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال:  

عرب قیادت کے لیے پالیسی آپشنز ‘‘

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام نیشنل لائبریری آف پاکستان،اسلام آباد میں ایک راونڈٹیبل ڈسکشن بعنوان ’’مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال: عرب قیادت کے لیے  پالیسی آپشنز‘‘ کا انعقاد کیا گیا- راونڈٹیبل ڈسکشن  میں مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران،اس کی بنیادی وجوہات، خطے پر اس کے اثرات اور موجودہ عرب قیادت کے لیے ممکنہ آپشنز پر روشنی ڈالی گئی-سیکریٹری جنرل موتمر العالم الاسلامی اور سینٹ میں قائد ایوان جناب راجہ ظفر الحق نے سیشن کی صدارت کی-دیگر مقررین میں فلسطین کے سفیر عزت مآب ولید ابو علی،’’کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد‘‘ کے سینٹر فار پالیسی سٹڈیز کی  سربراہ و سابق سفیر محترمہ  فوزیہ نسرین،  سابق ایڈیشنل  سیکریٹری وزارت خارجہ و سابق سفیر جناب اشتیاق ایچ اندرابی، میجر جنرل (ر) جناب رضا محمد،سابق سفیر جناب جاوید حفیظ،انٹرنیشنل سینٹر فار ڈیمو کریٹک ٹرانزیشن، بڈاپسٹ ہنگری کے صدر و سابق سفیر ڈاکٹر استوان گیارمتی (بذریعہ وڈیو لنک)، سابق سفیر جناب افضل اکبر خان، سابق سفیر جناب یونس خان، سابق وفاقی سیکر یٹری  جناب جاوید ظفر، سابق سربراہ ایف سی ایس،نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جناب ڈاکٹر محمد خان،پروفیسرآف انٹرنیشنل ریلیشنز، یلدرم بیازیت یونیورسٹی ڈاکٹر سلکوک کولا کوگلو (بذریعہ وڈیو لنک)، سابق سفیر جناب عامر انور شادانی، انسٹیٹوٹ آف لاجسٹکس و ٹرانسپوٹیشن، برطانیہ کے چارٹرڈ ممبر جناب ڈاکٹر حسن یاسر ملک،  الجزیرہ نیوز کے نامہ نگار جناب اے آر مطر اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب عثمان حسن شامل تھے- جبکہ پبلک ریلیشنز کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ جناب طاہر محمود نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیے -

ڈسکشن میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

اقوام عالم میں مشرق وسطیٰ نہ صرف  جغرافیہ بلکہ مذہبی اعتبار سے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے -  دنیا کے بڑے مذاہب کا آغاز اسی خطے سے ہوا ہے- یہاں مسلمانوں کے تین مقدس مقامات بھی ہیں  اور تیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں مشرق وسطیٰ میں ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں جیسا کہ  ایران ، عراق ، سعودی عرب ، کویت ،متحدہ عرب امارات ،  قطر ، اومان، یمن  اور بحرین -   ان ممالک میں دنیا کے  ٪ 48 تیل اور% 38گیس کے ذخائر ہیں - بدقسمتی سے  یہ خطہ اس وقت خانہ جنگی اور تباہی کا شکار ہے - بیسویں صدی کے اوائل میں اس خطے کو سامراجی طاقتوں نے   مصنوعی   حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس پر عرب   قائدین نے بھی  مزاحمت نہ کی - مشرق وسطیٰ اس وقت عالمی طاقتوں کی  پراکسی جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے  اور علاقائی ممالک نے بھی اس ضمن میں عالمی طاقتوں کا ساتھ دے کر صورتحال کو مزید خراب کیا ہے- مسلسل بحران کے باعث پناہ گزینوں  کی بڑی تعداد نے نقل مکانی اختیار کی اورمقامی لوگ بھی ابتر معاشی و معاشرتی حالات کی وجہ سے  ہجرت کرنے کو ترجیح دے   رہے ہیں-    خطے کی ابتر صورتحال کی وجہ  ’’ایکسٹرا ریجنل مفادات ‘‘ ( دوسرے  خطے میں  کسی ملک کے  مفادات) ، سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی ،  عرب بہار اور مشرقِ وسطیٰ  کے  حکمرانوں کے درمیان طاقت کی جنگ، فرقہ واریت اورنسلی تضاد ات  ہیں-    ان کمزوریوں کا   غیر ملکی عناصر  اور بین الاقوامی طاقتیں   فائدہ اٹھاتی ہیں-  

 

 

مشرق وسطیٰ کی صورتحا ل  بگڑتی جا رہی ہے اور سوائے تباہی کے اس کا کوئی انجام نظر نہیں آرہا -  خطے   میں متعدد تنازعات    اور تقسیمات ہیں  جو فلسطین عراق ، مصر ، شام ،لیبیا  اور  یمن تک پھیلے ہوئے  ہیں-  ہر تنا زعے کے اپنے  ماخذ ہیں- ان سب میں مشترک بات یہ ہے کہ  ان   سب کی اندرونی  و بیرونی  جہتیں  ہیں -اندرونی جہت یہ کہ  ہمسایہ ممالک  کے مابین   نظریاتی و     نسلی بنیادوں پہ تضاد  جیسا کہ عراق میں کردوں اور عربوں کی محاذ آرائی  اور شیعہ سنی  کی نظریاتی جنگ- ایسی ہی تقسیمات شام اور یمن میں بھی ہیں-   خطے میں ہر تنازعے کو  اس کے اپنے  معروضی حالات میں پرکھنا ضروری ہے-  شام میں خانہ جنگی  عرب سپرنگ کا نتیجہ ہے جو  کہ بشارالاسد کے خلاف احتجاج سے شروع ہوئی  جس کی وجہ حکومت  کا سیاسی و  معاشی  اصلاحات  کے نفاذ سے کنارہ کشی تھی -  یہ مسئلہ اس وقت زیادہ گھمبیر ہو گیا جب  ہر  فریق  کے مفادات دوسرے سے مختلف ہوگئے-   باغی جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے  ان  کی یہ کوشش ہے کہ   بشارالاسد کو ہٹایا جائے- جبکہ  فتح الشام  (النصرہ فرنٹ) اپنی قیادت میں وہاں حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں- روس  بشارالاسد کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایران کی  اور لبنان میں حزب اللہ کی بھی حمایت کر رہاہے- دوسری جانب  حوثیو ں کی یمن میں کامیابی  نے سعودی عرب کےخدشات لاحق کر دیے ہیں کہ  حوثیوں کو ایران اسلحہ فراہم کررہاہے- 

مشرق وسطیٰ بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے -  مشرق وسطیٰ کو سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ   عرب ممالک کے حکمرانوں کے مابین اتحاد قائم کرنا بہت مشکل ہے-یہ کسی بھی پیش رفت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے- بلاشبہ مسئلہ فلسطین  ایک بنیادی مسئلہ ہے لیکن ہم نے اس کو محض  فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ تک محدود کر دیا ہے-  مسئلہ   فلسطین  سارے عرب ممالک اور امت مسلمہ کا مسئلہ ہے-  اس مسئلہ کے حل کے بغیرعرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی مسئلہ فلسطین  کے حل میں رکاوٹ  ہیں - 

مشرق وسطیٰ میں موجودہ بحران کی بہت سی اندرونی و بیرونی  وجوہات ہیں، اندرونی وجوہات جن میں سے ایک عرب حکمرانوں کا برا طرزِ حکمرانی  اور آمرانہ طرزِ حکومت بھی ہے-دوسرا  حکمرانوں کی طرف سے عوام کا استحصال اور بڑے پیمانے پہ بد عنوانی بھی ایک وجہ ہے - بین الاقوامی طاقتیں  اپنے  ’’جیو سٹریٹیجک‘‘ اور عالمی معاشی مفادات   اس  خطے میں پورا کرنے کے درپے ہیں -  عرب حکمرانوں کی آپس کی نااتفاقی نے ان کے لیے حالات ساز گار بنا دیے ہیں اورنتیجتاً اور وہ  اپنے مکروہ عزائم کے لیے  اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھائے ہوئے ہیں-  مشرق وسطیٰ کا  حدود اربعہ عالمی سیاست کے اعتبارسے  بہت  اہمیت کا حامل ہے اور یہ اہمیت اس کو صدیوں سے حاصل ہے -  عالمی سیاسی پس منظر اس بات کا شاہد ہے کہ بڑی طاقتوں کے مفادات ہمیشہ اس  خطے پر اثر  انداز ہوئے ہیں  لہٰذا اس بات  کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ موجودہ صورتحال میں عالمی طاقتوں کے کیا مفادات وابستہ ہیں- اتنے  ممالک کی مداخلت اور مفادات کی وجہ سے  بد امنی اور  غیر مستحکم  ہونا ایک طرح سے اس خطے کی خاصیت بن چکی ہے-

مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جغرافیائی  سرحدوں میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی-  یہ خطہ بہت   سی پرانی  تہذیبوں جیسا کہ  شامی و  عراقی تہذیبوں کی آماجگاہ رہاہے  پھر یہ خطہ دنیا کے بڑے مذاہب کا مسکن بھی رہا - یہ وہ  وجوہات ہیں جن کے باعث  یہاں طاقت کے لیے جنگ صدیوں سے چلتی آئی ہے-اہم سمندری تجارتی راستے جیسا کے سویز کنال اور خلیج فارس  کو    اپنے محل وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے- سمندری تجارتی راستوں  پہ قبضہ ہمیشہ سے  بڑی طاقتوں کے مفادات میں رہا ہے - یہ عوامل  ہمیشہ  عالمی طاقتوں   کی مشرق وسطیٰ سے متعلق کسی بھی پالیسی میں بر سر پیکار رہے ہیں  جس  پہ ان ممالک کے اندرونی حالات اور خطے کے دیگر ممالک کے آپس میں تعلقات  نے صورتحال کو مزید خراب کیا-

۱۹۸۹ءکے انقلاب ایران کے بعد  ایران اور عرب ممالک میں خلیج بڑ ھتی جا رہی ہے-اس خلیج  کی وجہ سے طاقت کی دوڑ میں مزید اضافہ ہوا ہے جسے فرقہ واریت اور   بین الاقوامی سطح کے رابطوں اور ذرائع کی مداخلت و امداد سے مزید ہوا ملی-ان دونوں ممالک کے  دوسرے ممالک میں کام کرنے والے عناصر کی بہت اہمیت ہے جسے اکژ نظر انداز کیا جاتا  ہے-ان بیرون ملک عناصر کے مقامی سیاست سے تعلقات ہوتے ہیں   جو مقامی سطح پر اس ملک میں کسی بھی قسم کی حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں-

 سعودی عرب، یمن میں کسی حد تک کامیاب رہا لیکن شام میں سنی ،ملیشیا، جبت النصرہ کو روس اور شام کی فوجوں نے شکست دی-ادھر ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ کو عراق اور شام میں حالیہ دنوں میں شکست ہوئی بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ  بیرونی عناصر کو شکست ہوئی لیکن ابھی تک صورتحال بہتر نہیں ہوپائی -اس امر کی اشد ضرورت ہےکہ عرب قیادت اس امر کو سمجھ سکے کہ تمام تر جنگوں اور تضادات میں عرب ہی جل رہا ہے اور  جنگ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے، شکست عربوں کی ہی ہو گی چنانچہ عرب قیادت کو آپس میں مل بیٹھ کر خطے کے وسیع تر مفادات میں فیصلے کرنے چاہئیں اور عالمی طاقتوں کو بھی پھر انہی فیصلوں پر خطے میں کام کرنے کا کہا جانا چاہئے-

سفارشات:

راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن  سے اخذ کی گئی سفارشات مندرجہ ذیل ہیں-

عرب قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ مشرق وسطی کےتمام مسائل میں ان کی اپنی سرزمین میدان جنگ بنی ہے اور بہر صورت نقصان عرب مسلمان ہی اٹھا رہے ہیں- لہٰذا     فرقہ واریت اور نسلی  امتیاز کو  بالائے طاق رکھتے ہوئے  عرب رہنماوں کو مشرق وسطیٰ میں درپیش متنوع اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے باہمی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے-

عرب قائدین کوخطے میں قیام امن کے لیے تمام مسائل کا ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں جائزہ لے کر ان کا حل تلاش  کرنا چاہئے  اور اس متفقہ علاقائی حل کو تمام بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے تسلیم کیا جانا چاہیے-  

تمام علاقائی ممالک کو  کشمکش اور نظریاتی بالادستی ایک طرف رکھتے ہوئے اقتصادی تعاون اور باہمی انحصار کو فروغ دینا چاہیے جو خطے میں ہم آہنگی، امن اور سلامتی کا دوردورہ کر سکے-

مسلمان ممالک کو اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اس بات کو مدنظر رکھیں کہ کہیں جغرافیائی، نسلی اور نظریاتی اختلافات ہماری کمزوری نہ بن جائیں اور ہم  استحصالی قوتوں کے استحصال کا نشانہ نہ بن جائیں  لہذا،  باہمی رابطہ اور مذاکرات کے ذریعے  فرقہ ورانہ، نسلی اور جغرافیائی اختلافات جیسے استحصالی ہتھکنڈوں سے نمٹنا چاہیے-

مسلم ممالک  بالخصوص  مشرق وسطیٰ   کے نوجوانوں کے مابین رابطوں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ وہ قیام امن  ، رواداری اور   اعتماد کی فضا کو قائم کرنے میں اپنا  کردار ادا کر سکیں -

اقوام متحدہ کے اعلامیہ کے مطابق دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی کو اپنانا چاہیےاور دوسرے ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کی سازشوں سے اجتناب کرنا چاہیے-

ممتاز حیثیت کے حامل مسلم  ممالک  جیسا کہ  پاکستان،ترکی،مصر اور دیگر اہم ممالک ملائیشیا اور انڈونیشیا کو مشرق وسطیٰ کے المیے کے حل کی خاطر کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے اور  مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے مابین اختلافات کے خاتمے اور قیام امن  کے لیے ثالثی  اور تعاون کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے-

مسئلہ  فلسطین مشرق وسطی کے بنیادی مسائل میں سے ہے جس کو خطے میں امن و استحکام کے لیے آزادی  رائے کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے-

v تمام مسلم ممالک کو لاکھوں مہاجرین  خصوصاً شام  کے مہاجرین کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنا  چاہیے جس کے لیے ایک مشترکہ  فنڈ بھی قائم کیا جانا  وقت کی اہم ترین ضرورت ہے- 

 

    ٭٭٭

 

’’ مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال:  

عرب قیادت کے لیے پالیسی آپشنز ‘‘ 

 

 

 

مسلم انسٹیٹیوٹ 

 

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام نیشنل لائبریری آف پاکستان،اسلام آباد میں ایک راونڈٹیبل ڈسکشن بعنوان ’’مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال: عرب قیادت کے لیے  پالیسی آپشنز‘‘ کا انعقاد کیا گیا- راونڈٹیبل ڈسکشن  میں مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران،اس کی بنیادی وجوہات، خطے پر اس کے اثرات اور موجودہ عرب قیادت کے لیے ممکنہ آپشنز پر روشنی ڈالی گئی-سیکریٹری جنرل موتمر العالم الاسلامی اور سینٹ میں قائد ایوان جناب راجہ ظفر الحق نے سیشن کی صدارت کی-دیگر مقررین میں فلسطین کے سفیر عزت مآب ولید ابو علی،’’کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد‘‘ کے سینٹر فار پالیسی سٹڈیز کی  سربراہ و سابق سفیر محترمہ  فوزیہ نسرین،  سابق ایڈیشنل  سیکریٹری وزارت خارجہ و سابق سفیر جناب اشتیاق ایچ اندرابی، میجر جنرل (ر) جناب رضا محمد،سابق سفیر جناب جاوید حفیظ،انٹرنیشنل سینٹر فار ڈیمو کریٹک ٹرانزیشن، بڈاپسٹ ہنگری کے صدر و سابق سفیر ڈاکٹر استوان گیارمتی (بذریعہ وڈیو لنک)، سابق سفیر جناب افضل اکبر خان، سابق سفیر جناب یونس خان، سابق وفاقی سیکر یٹری  جناب جاوید ظفر، سابق سربراہ ایف سی ایس،نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جناب ڈاکٹر محمد خان،پروفیسرآف انٹرنیشنل ریلیشنز، یلدرم بیازیت یونیورسٹی ڈاکٹر سلکوک کولا کوگلو (بذریعہ وڈیو لنک)، سابق سفیر جناب عامر انور شادانی، انسٹیٹوٹ آف لاجسٹکس و ٹرانسپوٹیشن، برطانیہ کے چارٹرڈ ممبر جناب ڈاکٹر حسن یاسر ملک،  الجزیرہ نیوز کے نامہ نگار جناب اے آر مطر اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب عثمان حسن شامل تھے- جبکہ پبلک ریلیشنز کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ جناب طاہر محمود نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیے -

ڈسکشن میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

اقوام عالم میں مشرق وسطیٰ نہ صرف  جغرافیہ بلکہ مذہبی اعتبار سے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے -  دنیا کے بڑے مذاہب کا آغاز اسی خطے سے ہوا ہے- یہاں مسلمانوں کے تین مقدس مقامات بھی ہیں  اور تیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں مشرق وسطیٰ میں ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں جیسا کہ  ایران ، عراق ، سعودی عرب ، کویت ،متحدہ عرب امارات ،  قطر ، اومان، یمن  اور بحرین -   ان ممالک میں دنیا کے  ٪ 48 تیل اور% 38گیس کے ذخائر ہیں - بدقسمتی سے  یہ خطہ اس وقت خانہ جنگی اور تباہی کا شکار ہے - بیسویں صدی کے اوائل میں اس خطے کو سامراجی طاقتوں نے   مصنوعی   حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس پر عرب   قائدین نے بھی  مزاحمت نہ کی - مشرق وسطیٰ اس وقت عالمی طاقتوں کی  پراکسی جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے  اور علاقائی ممالک نے بھی اس ضمن میں عالمی طاقتوں کا ساتھ دے کر صورتحال کو مزید خراب کیا ہے- مسلسل بحران کے باعث پناہ گزینوں  کی بڑی تعداد نے نقل مکانی اختیار کی اورمقامی لوگ بھی ابتر معاشی و معاشرتی حالات کی وجہ سے  ہجرت کرنے کو ترجیح دے   رہے ہیں-    خطے کی ابتر صورتحال کی وجہ  ’’ایکسٹرا ریجنل مفادات ‘‘ ( دوسرے  خطے میں  کسی ملک کے  مفادات) ، سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی ،  عرب بہار اور مشرقِ وسطیٰ  کے  حکمرانوں کے درمیان طاقت کی جنگ، فرقہ واریت اورنسلی تضاد ات  ہیں-    ان کمزوریوں کا   غیر ملکی عناصر  اور بین الاقوامی طاقتیں   فائدہ اٹھاتی ہیں-  


 

مشرق وسطیٰ کی صورتحا ل  بگڑتی جا رہی ہے اور سوائے تباہی کے اس کا کوئی انجام نظر نہیں آرہا -  خطے   میں متعدد تنازعات    اور تقسیمات ہیں  جو فلسطین عراق ، مصر ، شام ،لیبیا  اور  یمن تک پھیلے ہوئے  ہیں-  ہر تنا زعے کے اپنے  ماخذ ہیں- ان سب میں مشترک بات یہ ہے کہ  ان   سب کی اندرونی  و بیرونی  جہتیں  ہیں -اندرونی جہت یہ کہ  ہمسایہ ممالک  کے مابین   نظریاتی و     نسلی بنیادوں پہ تضاد  جیسا کہ عراق میں کردوں اور عربوں کی محاذ آرائی  اور شیعہ سنی  کی نظریاتی جنگ- ایسی ہی تقسیمات شام اور یمن میں بھی ہیں-   خطے میں ہر تنازعے کو  اس کے اپنے  معروضی حالات میں پرکھنا ضروری ہے-  شام میں خانہ جنگی  عرب سپرنگ کا نتیجہ ہے جو  کہ بشارالاسد کے خلاف احتجاج سے شروع ہوئی  جس کی وجہ حکومت  کا سیاسی و  معاشی  اصلاحات  کے نفاذ سے کنارہ کشی تھی -  یہ مسئلہ اس وقت زیادہ گھمبیر ہو گیا جب  ہر  فریق  کے مفادات دوسرے سے مختلف ہوگئے-   باغی جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے  ان  کی یہ کوشش ہے کہ   بشارالاسد کو ہٹایا جائے- جبکہ  فتح الشام  (النصرہ فرنٹ) اپنی قیادت میں وہاں حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں- روس  بشارالاسد کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایران کی  اور لبنان میں حزب اللہ کی بھی حمایت کر رہاہے- دوسری جانب  حوثیو ں کی یمن میں کامیابی  نے سعودی عرب کےخدشات لاحق کر دیے ہیں کہ  حوثیوں کو ایران اسلحہ فراہم کررہاہے- 

مشرق وسطیٰ بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے -  مشرق وسطیٰ کو سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ   عرب ممالک کے حکمرانوں کے مابین اتحاد قائم کرنا بہت مشکل ہے-یہ کسی بھی پیش رفت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے- بلاشبہ مسئلہ فلسطین  ایک بنیادی مسئلہ ہے لیکن ہم نے اس کو محض  فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ تک محدود کر دیا ہے-  مسئلہ   فلسطین  سارے عرب ممالک اور امت مسلمہ کا مسئلہ ہے-  اس مسئلہ کے حل کے بغیرعرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی مسئلہ فلسطین  کے حل میں رکاوٹ  ہیں - 

مشرق وسطیٰ میں موجودہ بحران کی بہت سی اندرونی و بیرونی  وجوہات ہیں، اندرونی وجوہات جن میں سے ایک عرب حکمرانوں کا برا طرزِ حکمرانی  اور آمرانہ طرزِ حکومت بھی ہے-دوسرا  حکمرانوں کی طرف سے عوام کا استحصال اور بڑے پیمانے پہ بد عنوانی بھی ایک وجہ ہے - بین الاقوامی طاقتیں  اپنے  ’’جیو سٹریٹیجک‘‘ اور عالمی معاشی مفادات   اس  خطے میں پورا کرنے کے درپے ہیں -  عرب حکمرانوں کی آپس کی نااتفاقی نے ان کے لیے حالات ساز گار بنا دیے ہیں اورنتیجتاً اور وہ  اپنے مکروہ عزائم کے لیے  اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھائے ہوئے ہیں-  مشرق وسطیٰ کا  حدود اربعہ عالمی سیاست کے اعتبارسے  بہت  اہمیت کا حامل ہے اور یہ اہمیت اس کو صدیوں سے حاصل ہے -  عالمی سیاسی پس منظر اس بات کا شاہد ہے کہ بڑی طاقتوں کے مفادات ہمیشہ اس  خطے پر اثر  انداز ہوئے ہیں  لہٰذا اس بات  کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ موجودہ صورتحال میں عالمی طاقتوں کے کیا مفادات وابستہ ہیں- اتنے  ممالک کی مداخلت اور مفادات کی وجہ سے  بد امنی اور  غیر مستحکم  ہونا ایک طرح سے اس خطے کی خاصیت بن چکی ہے-

مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جغرافیائی  سرحدوں میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی-  یہ خطہ بہت   سی پرانی  تہذیبوں جیسا کہ  شامی و  عراقی تہذیبوں کی آماجگاہ رہاہے  پھر یہ خطہ دنیا کے بڑے مذاہب کا مسکن بھی رہا - یہ وہ  وجوہات ہیں جن کے باعث  یہاں طاقت کے لیے جنگ صدیوں سے چلتی آئی ہے-اہم سمندری تجارتی راستے جیسا کے سویز کنال اور خلیج فارس  کو    اپنے محل وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے- سمندری تجارتی راستوں  پہ قبضہ ہمیشہ سے  بڑی طاقتوں کے مفادات میں رہا ہے - یہ عوامل  ہمیشہ  عالمی طاقتوں   کی مشرق وسطیٰ سے متعلق کسی بھی پالیسی میں بر سر پیکار رہے ہیں  جس  پہ ان ممالک کے اندرونی حالات اور خطے کے دیگر ممالک کے آپس میں تعلقات  نے صورتحال کو مزید خراب کیا-


۱۹۸۹ءکے انقلاب ایران کے بعد  ایران اور عرب ممالک میں خلیج بڑ ھتی جا رہی ہے-اس خلیج  کی وجہ سے طاقت کی دوڑ میں مزید اضافہ ہوا ہے جسے فرقہ واریت اور   بین الاقوامی سطح کے رابطوں اور ذرائع کی مداخلت و امداد سے مزید ہوا ملی-ان دونوں ممالک کے  دوسرے ممالک میں کام کرنے والے عناصر کی بہت اہمیت ہے جسے اکژ نظر انداز کیا جاتا  ہے-ان بیرون ملک عناصر کے مقامی سیاست سے تعلقات ہوتے ہیں   جو مقامی سطح پر اس ملک میں کسی بھی قسم کی حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں-

 سعودی عرب، یمن میں کسی حد تک کامیاب رہا لیکن شام میں سنی ،ملیشیا، جبت النصرہ کو روس اور شام کی فوجوں نے شکست دی-ادھر ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ کو عراق اور شام میں حالیہ دنوں میں شکست ہوئی بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ  بیرونی عناصر کو شکست ہوئی لیکن ابھی تک صورتحال بہتر نہیں ہوپائی -اس امر کی اشد ضرورت ہےکہ عرب قیادت اس امر کو سمجھ سکے کہ تمام تر جنگوں اور تضادات میں عرب ہی جل رہا ہے اور  جنگ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے، شکست عربوں کی ہی ہو گی چنانچہ عرب قیادت کو آپس میں مل بیٹھ کر خطے کے وسیع تر مفادات میں فیصلے کرنے چاہئیں اور عالمی طاقتوں کو بھی پھر انہی فیصلوں پر خطے میں کام کرنے کا کہا جانا چاہئے-

سفارشات:

راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن  سے اخذ کی گئی سفارشات مندرجہ ذیل ہیں-

v      عرب قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ مشرق وسطی کےتمام مسائل میں ان کی اپنی سرزمین میدان جنگ بنی ہے اور بہر صورت نقصان عرب مسلمان ہی اٹھا رہے ہیں- لہٰذا     فرقہ واریت اور نسلی  امتیاز کو  بالائے طاق رکھتے ہوئے  عرب رہنماوں کو مشرق وسطیٰ میں درپیش متنوع اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے باہمی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے-

v      عرب   قائدین کوخطے میں قیام امن کے لیے تمام مسائل کا ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں جائزہ لے کر ان کا حل تلاش  کرنا چاہئے  اور اس متفقہ علاقائی حل کو تمام بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے تسلیم کیا جانا چاہیے-  

v      تمام علاقائی ممالک کو  کشمکش اور نظریاتی بالادستی ایک طرف رکھتے ہوئے اقتصادی تعاون اور باہمی انحصار کو فروغ دینا چاہیے جو خطے میں ہم آہنگی، امن اور سلامتی کا دوردورہ کر سکے-

v      مسلمان ممالک کو اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اس بات کو مدنظر رکھیں کہ کہیں جغرافیائی، نسلی اور نظریاتی اختلافات ہماری کمزوری نہ بن جائیں اور ہم  استحصالی قوتوں کے استحصال کا نشانہ نہ بن جائیں  لہذا،  باہمی رابطہ اور مذاکرات کے ذریعے  فرقہ ورانہ، نسلی اور جغرافیائی اختلافات جیسے استحصالی ہتھکنڈوں سے نمٹنا چاہیے-

v      مسلم ممالک  بالخصوص  مشرق وسطیٰ   کے نوجوانوں کے مابین رابطوں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ وہ قیام امن  ، رواداری اور   اعتماد کی فضا کو قائم کرنے میں اپنا  کردار ادا کر سکیں -

v      اقوام متحدہ کے اعلامیہ کے مطابق دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی کو اپنانا چاہیےاور دوسرے ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کی سازشوں سے اجتناب کرنا چاہیے-

v      ممتاز حیثیت کے حامل مسلم  ممالک  جیسا کہ  پاکستان،ترکی،مصر اور دیگر اہم ممالک ملائیشیا اور انڈونیشیا کو مشرق وسطیٰ کے المیے کے حل کی خاطر کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے اور  مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے مابین اختلافات کے خاتمے اور قیام امن  کے لیے ثالثی  اور تعاون کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے-

v      مسئلہ  فلسطین مشرق وسطی کے بنیادی مسائل میں سے ہے جس کو خطے میں امن و استحکام کے لیے آزادی  رائے کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے-

v                 تمام مسلم ممالک کو لاکھوں مہاجرین  خصوصاً شام  کے مہاجرین کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنا  چاہیے جس کے لیے ایک مشترکہ  فنڈ بھی قائم کیا جانا  وقت کی اہم ترین ضرورت ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر