انتخابی تبدیلی کے بعد ترتیب عمل کی ضرورت ہے

انتخابی تبدیلی کے بعد ترتیب عمل کی ضرورت ہے

انتخابی تبدیلی کے بعد ترتیب عمل کی ضرورت ہے

مصنف: جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ جولائی 2013

پاکستان میں تبدیلی تو آچکی ہے جسے بامقصدبنانے کیلئے ترتیب عمل طے کرنے کی ضرورت ہے- نئی حکومت کواپنی ترجیحات متعین کرتے وقت ان تبدیلیوں اورحقائق کوذہن میں رکھنا ضروری ہے جو انتخابات کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں مثلاً:۔

٭ ملک میں نظریاتی تصادم اب فطری طریقے سے ختم ہوگیا ہے -پاکستانی قوم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کی سوچ و شعور اعتدال پسندانہ ہے جس میں سیکولراور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔

٭ پاکستان کے پینتالیس فیصد (45%) لوگ ناخواندہ ہیں لیکن قوم نے بڑے مضبوط جمہوری شعور کا مظاہرہ کیا ہے-اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قوم نہ صرف جمہوریت چلا سکتی ہے بلکہ اسے صحیح راستے پر قائم بھی رکھ سکتی ہے۔

٭ ایک اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ نوجوان اورمڈل کلاس طبقہ اس جمہوری عمل کیلئے فعال ہوا ہے- یہ بھی ہماری قوم کے جمہوری شعور کی بیداری کی علامت ہے۔

٭ ہماری سیاسی جماعتوں کو‘ جو برسراقتدارہیں ‘ یہ بات ذہن میں رکھناہوگی کہ اگر وہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں گی تو قوم ان سے جواب طلب کرے گی-ان جماعتوںکے پاس اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

٭ ایڈہاک  طریقے سے حکومت چلانے کا طریقہ مہلک ہے جوکہ بدترین اندازِ حکمرانی ہے-مربوط اورمضبوط پالیسی سازی اور ان پر عمل درآمد ایک اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی حکومت اورصوبائی حکومتوں پر حقیقی معنوں میں بہتری لانے کیلئے بڑی ذمہ داری آگئی ہے-سیاسی راہنماﺅں کیلئے ضروری ہے کہ پاکستانی قوم کے نظریہ حیات کو پہچانیں اور قوم کو یہ احساس دلائیں کہ وہی اس نظریہ کے محافظ و امین ہیں-کیونکہ ملک میں نظریاتی تصادم کو سیاسی اورجمہوری عمل نے متوازن کیا ہے اور اس عمل کوجاری رکھنا ضروری ہے -سیاسی راہنماﺅں کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو دین سے روشناس کرائےں۔اورانہیں یہ بھی سمجھانا ضروری ہے کہ کس طرح خوددار قومیں اپنے نظریات کا تحفظ کرتی ہیں-ہمارے آئین میں درج ہے کہ

”پاکستان میں ایک صاف ستھرا انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہوگا جس کی بنیاد قرآن وسنت کے اُصولوں پر قائم ہوگی۔“

اس نظریے کے دو حصے ہیں ایک اسکے نفاذ کے سبب جمہوری نظام ہے اور دوسرا اسلامی نظریہ حیات ہے‘ جس کا احترام اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم یہ جانیںگے کہ ہمارا دین کیا ہے؟ہماری نئی نسل کو گذشتہ بارہ برسوں میں اس نظریہ حیات سے لا علم رکھنے کیلئے تعلیمی نصاب تبدیل کر دیا گیا ہے-ہمارے بچوں کو دین کی تعلیم سے دورکر دیا گیاہے-جب وہ یہ جانیںگے ہی نہیںکہ دین کیاہے تو پھر وہ دین کاتحفظ کیسے کریں گے‘ اس کیلئے قربانی کیسے دیںگے؟ اس کمزوری کو دور کرنے کی ذمہ داری نئی منتخب پارلیمنٹ کی ہے کہ وہ پاکستان کے نصاب تعلیم کو پاکستان کے آئین کی روشنی میں درست کرے۔

مختلف چیلنجز کامقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ(ن) اپنی حکومت میں نئے چہرے شامل کرے-نئے چہروںسے مراد صرف نوجوان ہی نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے ‘ تجربہ کار اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کو شامل کیاجانا ضروری ہے-اس لئے کہ پرانے اور گھسے پٹے چہرے وہ نتائج نہیں دے سکتے جس کی قوم کوتوقع ہے-اس لئے ضروری ہے کہ بہترین سوچ اور سمجھ رکھنے والے تجربہ کار لوگوں کومشیر بنایا جائے-پارلیمنٹ کوگذشتہ حکومت کی طرح ربڑ سٹیمپ نہ بنایا جائے بلکہ وہ آزادنہ تنقید اور اہم فیصلے کرنے کیلئے با اختیارادارہ ہو-پارلیمنٹ پرنواز شریف کی شخصیت اورکابینہ کوحاوی نہ ہونے دیا جائے۔

پیپلزپارٹی نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ تصاد م کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے معاون ثابت ہوگی البتہ تحریک انصاف حقیقی اپوزیشن کا کردار اداکرے گی اورمولانافضل الرحمن اپنے معاملات طے کر کے کم از کم مرکزی حکومت کاحصہ بن جائیںگے- جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اگر حکومت کا حصہ بن جائے تو کراچی اور سندھ کے حالات سدھر جائیںگے-مسلم لیگ(ن) ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف ‘متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر جماعتوں کی سیاسی بصیرت کا آج کڑا امتحان ہے - تحریک انصاف ‘ جس نے خواب دیکھا تھا کہ مرکزی حکومت بنائیںگے لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا اور وہ صوبہ سرحد تک محدودہوکررہ گئے‘یہی ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ جو دعوے کرتے تھے کہ نوے (90)دن میں کرپشن ختم کر دیں گے‘ ڈرون حملے ختم ہوجائیں گے‘ اب وہ یہ کام کر کے دکھائیں- وہاں ایک مثالی حکومت بنائیں جو دوسروں کیلئے قابلِ تقلیدہو۔

 ملک میں 2008ءسے جمہوریت قائم ہے لیکن ملک ابھی تک خطرات کی زدمیں ہے کیونکہ گذشہ حکومت نے قومی سلامتی کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا-جب کوئی بحران پیدا ہوا تو کابینہ کی دفاعی کمیٹی یانیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایااورسدِّ باب کے فوری اقدامات کئے گئے تھے-یہ صحیح طریقہ نہیںہے بلکہ محض کرائسزمینیجمنٹ (crisis management)ہے - قومی سلامتی کے معاملات کو سمجھنے ‘ پرکھنے اور حکمت عملی تیار کرنے کے لئے ایک مضبوط ادارے کی ضرورت ہے-اس قسم کے ادارے کو دوسرے ملکوں میں نیشنل سکیورٹی کونسل(NSC) کا نام دیا جاتا ہے۔ہمارے یہاں بھی نیشنل سکیورٹی کونسل کا ادارہ تھا لیکن سیاسی مصلحتوں کے تحت کالاباغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا دیا گیا ہے-پاکستان کو محفوظ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس ادارے کونئی شکل میں سامنے لائیں-اس حوالے سے ہم دیکھیں کہ دوسرے ممالک میں اورخصوصاً بھارت میں یہ ادارہ کس طرح کام کرتا ہے اور پھر ہم اپنی ضروریات کے مطابق اپنا ادارہ قائم کریں-بھارت میںنیشنل سکورٹی ایڈوائزر وزیر اعظم کوجوابدہ ہوتا ہے اور وہ ملک کے تمام تحقیقی اداروں اور ملک کے سینکڑوں پڑھے لکھے لوگوں سے رابطے میں ہوتا ہے اورسال کے 365 دن اسی کام میں لگا رہتا ہے-میری تجویز ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ان تمام اداروں اور افراد کے ساتھ رابطہ رکھے‘ کوئی نیاادارہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے -تحقیقی ادارے پہلے ہی موجود ہیں تو کیوں نہ ان سے مدد لی جائے‘ ان کی سرپرستی کی جائے اور ان کی تیارکردہ سفارشات کابینہ کمیٹی کے سامنے لائی جائیں اور پھر وزیراعظم کوپیش کی جائیں تاکہ وزیر اعظم ان پر عمل درآمدکاحکم جاری کریں-یہ بہت اچھے ذہنوں کا نچوڑ ہوگا اور ان کی روشنی میں قومی سلامتی کے مسائل حل ہوں تو غلطی کا امکان نہیں ہوگا۔

شایدمیرا یہ مشورہ نواز شریف صاحب کو ناگوار گزرے اس لئے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل (NSC) یا اس طرح کے کسی ادارے کے وہ سخت مخالف(allergic) ہیں-جنرل جہانگیر کرامت نے جب NSCکا تصور پیش کیا تو وزیر اعظم نواز شریف اس قدر برہم ہوئے کہ کھڑے کھڑے انہیں فارغ کردیا-امید رکھتا ہوں کہ شایداب ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہو لیکن حالات سے کچھ اور ہی ظاہر ہوتا ہے-مثلاً ان کی جماعت میں صرف ایک ہی دانشور ‘ ایاز امیر مجھے نظر آتے تھے لیکن انہیں بھی پارٹی ٹکٹ دینا مناسب نہ سمجھا گیا-اس لئے کہ ایاز امیر کے تبصرے بے لاگ ہوتے ہیں-مثلاً اپنے حالیہ مضمون بعنوان ”پنجاب کی حکمرانی“میں ان کا تبصرہ بہت معنی خیز ہے:وہ لکھتے ہیں”اس سرزمین پر گذشتہ دو سو (200)برسوں میں دو آزاد ریاستیں وجودمیں آچکی ہیں-ایک مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کا لاہور اور دوسری آج کا پاکستان۔وقت نے ہمیں تلافی کاموقع دیا ہے۔

 پاکستان کے عبوری دور سے فائدہ اٹھا کر امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کیلئے ڈرون حملہ کیاہے- مجھے یقین ہے کہ آنے والی حکومت اور اپوزیشن ڈرون حملوںکی اجازت نہیں دے گی اور نواز شریف نے تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کر کے دہشت گردی کے سلسلے کو ختم کرنے کاجو طریقہ اختیار کیا ہے اس میںانہیں نمایاں کامیابی ہوگی اور اس معاملے میں ان کودوسری جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے-دہشت گردی اورڈرو ن حملوں کے خاتمے کا امکان یوں بھی ہے کہ افغانستان سے قابض فوجیں واپس جارہی ہیں-اب وہاں ان لوگوں کی حکومت ہوگی جنہوںنے جنگ میںکامیابی حاصل کی ہے-وہاں امن ہوگا تو پاکستان کی سرزمین میںوہاںسے ہونے والی مداخلت بھی ختم ہوگی- افغانستان میں امن کاقیام سب سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے-طالبان یہ جنگ جیت چکے ہیںاور کل افغانستان میں انشاءاللہ انہیںکی حکومت ہوگی-وہ حکومت بھی ایران اور چین کی طرح ’پاکستان دوست ‘حکومت ہوگی-ہمارے پڑوسی دوست ممالک کی یہ دوستی تذویراتی گہرائی (Strategic Depth) کی صبحِ نو ہے اور سلامتی کی ضمانت بھی۔

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر