جمہوریہ کیوبا ایک مختصر مطالعہ

جمہوریہ کیوبا ایک مختصر مطالعہ

جمہوریہ کیوبا ایک مختصر مطالعہ

مصنف: احمد القادری جنوری 2017

جمہوریہ کیوبا کیریبین سمندر میں سب سے زیادہ گنجان آباد جزیرہ نما ملک ہے یہ کیریبین سمندر  اور شمالی اٹلانٹک سمندر کے مغربی جانب ،خلیجِ میکسیکو  کےمشرق میں اور آبنائے فلوریڈا کےجنوب میں واقع ہے- کیوبا کا کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ نو ہزار آٹھ سو چوراسی(۱۰۹۸۸۴) مربع کلو میٹر ہے-کیوبا کا ساٹھ (۶۰) فیصد رقبہ ہموار زرخیز زمین پر مشتمل ہے یہ رقبہ کےلحاظ سے پندرہ چھوٹے بڑے صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے- کیوبا کی کل آبادی تقریباً بارہ (۱۲)ملین ہے اور یہاں کی سب سے زیادہ اُگائی جانے والی فصل  گنّا  اورتمباکو ہے-

تاریخی پس منظر:

کیوبا میں انسانی زندگی کے آثار تقریباً تین ہزار  (۳۰۰۰)قبل از مسیح میں ملتے ہیں- ابتدائی ادوار میں یہاں تین انڈین قوموں کے مسکن کے دلائل ملتے ہیں- دو ہزار قبل مسیح میں کیوبا کے مشرق میں سیبونیز (Siboneys) ،مغرب میں گواناہاتابے (Guanahatabey) اور درمیانی حصہ میں تینوس (Tainos) آباد تھے- ہسپانوی پادری (Spanish Clergyman) برتلوم دی لاس کیسز(Bartolome De Las Casas) کے مطابق پندرویں (۱۵)صدی میں کیوبا کی تینوس آبادی تین لاکھ پچاس ہزار (۳۵۰۰۰۰)سے تجاوز کر چکی تھی- مؤرخین کے مطابق یہ قومیں اپنی ضروریاتِ زندگی کی پیداوار میں خود کفیل تھیں-

ہسپانوی راج: 

تاریخ کے مطابق کرسٹوفرکولمبس نے ستائیس (۲۷)اکتوبر چودہ سو بانویں(۱۴۹۲ء) میں کیوبا دریافت کیا- کہا جاتا ہے کہ کولمبس کو ہسپانویوں نے سمندری راستے کی تلاش کا کام سونپا تھا اور اُس کے ہر طرح سے ضامن تھے- کولمبس کے کیوبا کے متعلق انکشاف کے بعد ہسپانویوں نے جزیرہ ہسپانیولا  میں مستقل قیام شروع کردیا، جو کیوبا کے مشرقی جانب ہے- پندرہ سو دس  (۱۵۱۰ء)عیسوی میں بادشاہ ہسپانیہ نے ڈیگوویلازکیوز (Diego Velazquez) کے ہاتھ کیوبا کو ہسپانوی سلطنت کا حصہ بننے اور تابع ہونے کا حکم نامہ بھیجا کیوبا کے لوگوں نے اپنے قبائلی حکام مثلاً ہیتوئے (Hatuey) کی سرپرستی میں مزاحمت کی کوشش کی نتیجتاً قبائلی حکام کو زندہ جلا دیا گیا اور ہزاروں لوگ مارے گئے- ہسپانوی پادری مورخ برتلوم (Bartolome) کے مطابق بہت سے نہتے لوگوں کو بنا کسی مزاحمت کے جلادوں اور قصائیوں کی طرح زندہ کاٹ دیا گیا اور ہسپانیوں نےسونے اور طاقت کی ہوس میں کیوبا سے تقریباً تمام انڈین قبائل کو صفحٔہ ہستی سے مٹا دیاکچھ لوگ جو اُن کے ظم و ستم سے بچ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے وہ بھی موزی بیماریوں کے باعث مارے گئے- پندرہ سو چودہ (۱۵۱۴ء)میں کیوبا پر ہسپانوی راج قا ئم ہوگیا اور ڈیگو (Diego) کو گورنرِکیوبا بنا دیا گیا-

ہسپانیوں نے ہوانا (Havana) کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بڑے حفاظتی قلعات تعمیر کروائے- تمام سونا اور دیگر قیمتی اشیا براستہ ہوانا ہسپانیہ بھیج دیا گیا- پہلی مرتبہ کیوبا میں  گنّا  تجارتی سطح پر کاشت کیا گیا- چونکہ آبادی بہت کم رہ گئی تھی جس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے افریقہ سے غلام منگوائے گئے تاکہ گنّے اور تمباکو کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے- کیوبا پر ہسپانیوں نے مختلف تجارتی پابندیاں لگائے رکھیں جس کے باعث سترہ سو ساٹھ (۱۷۶۰ء) تک کیوبا وسیع زرعی پیداوار کے باوجود پسماندہ علاقہ رہا- جب ہسپانیوں نے کیوبا کی بندرگاہیں دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے کھولنے کی اجازت دی تو کیوبا گنّے کا بہت بڑا برآمد کنندہ بن گیا- کیوبا کی بیاسی فیصد (%۸۲) چینی امریکہ برآمد کی جاتی تھی-

سترہویں صدی میں انگریزوں نے اس علاقے کی جانب توجہ مرکوز کی اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی جبکہ لاطینی امریکہ (Latin America) میں ہسپانوی سامراج سے آزادی کے لیے لڑی جانے والی مختلف جنگوں کی وجہ سے ہسپانوی سلطنت کمزور ہوگئی- اٹھارہ سو چوبیس(۱۸۲۴ء) میں ہسپانیوں کے پاس صرف دو کالونیاں ، کیوبا اور پیورٹو ریکو (Puerto Rico) باقی بچیں جن میں بھی مختلف انقلابات کی تحریکیں جاری رہیں- ان تحریکوں میں کچھ اصلاحات، کچھ الحاق اور کچھ آزادانہ ریاست  کے حق میں تھے- نارکسکو لوپیز (Narcisco Lopez) اور کارلس مینول (Carlos Manuel) نے ان تحریکوں میں کلیدی قردار ادا کیا- کیوبن انقلابی جماعت (Cuban Revolution Party) بنائی گئی جس کا مقصد ہسپانوی سامراج سے آزادی تھا- انہوں نے ناصرف آزادانہ کیوبا کے لیے انقلاب کی تحریک چلائی بلکہ امریکہ کے ساتھ الحاق کی بھی سخت مخالفت کی لیکن بد قسمتی سے دونوں انقلابیوں کو موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا- جبکہ شمالی امریکہ (North America) میں کیوبا کی تحریک آزادی کو بہت شدت سے سراہا گیا-

امریکی قوم نے گورنمنٹ پر دباؤ ڈالا کہ وہ کیوبا کی آزادی کی خاطر ہسپانیہ سے جنگ کرے جبکہ امریکی حکومت کیوبن ہسپانیہ جنگ (Spanish-Cuban War) میں غیر جانبدار رہی- ہسپانیہ نے کیوبا میں چند اصلاحات کی اور پالیسیوں میں رد و بدل تو کی گئی مگر حالات بہتر نہ ہو سکے-بہت سے اخبارات میں کیوبنز پر ہسپانوی ظلم و ستم کے حقائق بھی چھپتے رہے-مخلصین ہسپانیہ کے ایک گروہ کی طرف سے اخبارات کے چھاپہ خانوں (Printing Presses) کو جلانے پر ہوانا (Havana) کے حالات سنگین ہو گئے اور امریکی کانگرس میں ٹیلر امینڈمنٹ (Teller Amendment) کے تحت کیوبا میں مداخلت کا فیصلہ کیا گیا- ٹیلر امینڈمنٹ کے تحت کیوبا کی امریکہ سے الحاق کی مخالفت بھی کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ امریکہ کیوبا کا اپنے ساتھ الحاق نہیں کرے گا-

 واشنگٹن کی طرف سے بحری جنگی جہاز (USS Maine Battleship) مدد کے لیے بھیجا گیا جسے ہسپانیوں نے فروری اٹھارہ سو اٹھانوے(۱۸۹۸ء) میں تباہ کر دیا-نتیجتاً کیوبا کی آزادی کے لیے امریکن سپینش جنگ شروع ہوگئی صرف چند ماہ بعد دو (۲)اگست اٹھارہ سو اٹھانوے (۱۸۹۸ء) کو ہسپانیہ نے شکست قبول کرتے ہوئے کیوبا پر اپنا تسلط ختم کردیا مگر امریکہ کا کیوبا میں مداخلت کا دور شروع ہوگیا-انیس سو دو (۱۹۰۲ء)میں پلیٹ امینڈمنٹ (Platt Amendment) کے تحت امریکی افواج نے کیوبا سے انخلا شروع کیا- اس معاہدے کے تحت امریکہ کیوبا میں مداخلت اور کیوبا میں رسمی طور پر اپنے بحری ٹھکانے بھی قائم کرسکتا تھا- مورخین پلیٹ امینڈمنٹ (Platt Amendment) کو امریکہ کا کیوبا پر غیر رسمی قبضہ اور تسلط کہتے ہیں مثلاً گورنر وڈ (Wood) کے مطابق:

Little or no independence had been left to Cuba with Platt  

Amendment and the only thing was to seek Annexation

’’پلیٹ امینڈمنٹ کے تحت کیوبا کو معمولی یا بالکل نہ ہونے کے برابر آزادی دی گئی جس کی وجہ صرف الحاق کی طلب تھی‘‘-

 کیونکہ امریکہ اپریل اٹھارہ سو اٹھانوے (۱۸۹۸ء)کی کانگرس کی ٹیلر امینڈمنٹ کے تحت کیوبا کو اپنے ساتھ الحاق پر مجبور نہیں کر سکتا تھا ورنہ گوام (Guam) ، پیورٹوریکو (Puerto Rico) اور فلپائن (Philippine) کی طرح کیوبا بھی امریکہ سے الحاق کے لیے مجبور ہوجاتا- لہٰذا مؤرخین کے مطابق امریکہ نے سوچی سمجھی چال کے مطابق کیوبا پر اپنا تسلط قائم رکھا- بیس (۲۰)مئی  کیوبا میں سرکاری طور پر یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے-

امریکی سرپرستی میں سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں کی گئی اور انیس سو دو (۱۹۰۲ء)میں کیوبا میں الیکشن کے بعد منتخب شدہ گورنمنٹ کو ملک کی باگ دوڑ سونپ دی گئی اور پلیٹ امینڈمنٹ کو کیوبا کے قانون کا حصہ بنا دیا گیا تاکہ امریکی فوج کسی بھی وقت مداخلت کرسکے-لیکن بدقسمتی سے شاید کیوبا کی عوام کا امتحان ابھی جاری تھا-نئے منتخب شدہ حکمران انتہائی کرپٹ اور غیر سنجیدہ تھے جس کی وجہ سے ملک ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی اور افرا تفری کا شکار ہوگیا اور امریکہ نے اُنیس سو چھ (۱۹۰۶ء)میں اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت کی خاطر ایک مرتبہ پھر فوجی آپریشن کیا-

گرارڈو میچاڈو(Gerardo Machado)۱۹۲۵ءسے ۱۹۳۳ء تک کیوبا میں فوجی حکمران رہا جس کے دور ميں بہت ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں-۱۹۳۳ء میں حالات سنگین ہونا شروع ہو گئے اور مختلف انقلابی جماعتوں نے مل کر صوبائی حکومت قائم کرلی جس میں پروفیسر ڈاکٹر رامون گراؤ مارٹن (Ramon Grau Martin) ، طلبا اور مڈل کلاس لوگ پیش پیش تھے اس حکومت نے بہت ڈرامائی انداز میں اصلاحات کیں-عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا، پلیٹ امینڈمنٹ کو یک طرفہ منسوخ کر دیا گیا وغیرہ - لیکن ۱۹۳۴ءمیں فلگینسیو بتسطہ (Fulgencio Batista) نے امریکی پشت پنائی کی وجہ سے خود ساختہ صوبائی حکومت کو معزول کردیا اور خود قابض ہو گیا-

۱۹۴۴ء میں ڈاکٹر مارٹن جمہوری طریقے سے منتخب ہوا اور بہت سی اصلاحات کیں اور کیوبا کے اقتصادی حالات بہتر ہونے لگے مگر کرپش بھی عام ہوگئی مارٹن کی انتھک محنت کے باوجود لوگوں کا اُس کی حکومت سے بھی اعتماد اُٹھنے لگا- ۱۹۵۲ء میں امریکی مدد سے بتسطہ نے فوجی حکومت قائم کرلی اور امریکی مفادات کی خاطر کام کرنے لگا اس دور میں غر بت عام ہوگئی، اقتصادی نظام چند ہاتھوں میں چلا گیا، بیماریاں عام ہونے لگی اور امریکی مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی(یہ صورتحال پاکستانیوں کے لئے کسی تعجب کا باعث نہیں ہے ) -ناانصافی اوردیگرتمام وجوہات کی بناء پر مارکسی نظریات رکھنے والے نوجوان وکیل فیدل کاسترو (Fidel Castro) نے بتسطہ کے خلاف عدالت ميں درخواست (Petition) دائر کروائی مگرعدالتوں نے اسے رد کر دیا-

مجبوراً  کاسترو نے ۲۶ جولائی ۱۹۵۳ ءکو مونکیڈا بیرکس (Moncada Barracks) پر حملہ کیا مگر شکست کا سامنہ ہوا اور کاستروکو ملک بدر کر دیا گیا- میکسیکو میں کاسترو کی ملاقات ارجنٹائن (Argentine) کے عظیم مارکسی انقلابی شخصیت چی گوورا (Che Guvera) سے ہوئی- حالات کی سنگینی اور انسانیت پر ظلم و ستم کو مدنظر رکھتے ہوئے کاسترو نےبیاسی(۸۲) لوگوں کے ہمراہ ۲۶ جولائی ۱۹۵۶ء کو ایک مرتبہ پھر حملہ کی کوشش کی مگر ناکام ہوا-آخر کار گوریلا مہمات کے نتیجہ میں کاسترو اور چی گو ورا بلتسطہ کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوگئے اور کیوبن انقلاب حقیقت میں بدل گیا- کاسترو نے یکم جنوری ۱۹۵۹ء کو کیوبا کی حکومت سنبھالی اور ۲۰۰۸ء تک کیوبا کا صدر رہا اور ۲۵نومبر ۲۰۱۶ء کو نوّے (۹۰)سال کی عمر میں فوت ہوا-

مذہب:

کیوبا میں تقریباً پچاسی(۸۵) فیصد لوگ عیسائی ہیں صرف دس ہزار (۱۰۰۰۰)مسلمان آباد ہیں جو کیوبا کی آبادی کا ۰.۱ فیصد ہیں- تقریباً تمام مسلمان دوسرے مذاہب سے اسلام میں آئے ہیں- کیوبا میں قانوناً مسجد بنانے کی اجازت نہیں تھی مگر ۲۰۰۱ء میں مسلم ورڈ لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل شیخ محمد بن ناصر نے کیوبن حکام سے اسلامک آرگنّائزیشن کے قیام اور مساجد کی تعمیر کی اجازت لی مگر ۲۰۱۵ء تک کوئی جامع مسجد تعمیر نہیں کی گئی- جولائی ۲۰۱۵ء میں ترکش ریلیجیس فاونڈیشن (Turkish Religious Foundation) نے پہلی مسجد کی تعمیر شروع کی جو اب بھی زیر تعمیر ہے-

حکومتی نظام:

کیوبا ایک آزاد سوشلسٹ جمہوری ریاست ہے- کیوبن قانون کے مطابق:

It is a Socialist State guided by the principles of Jose Marti,

and the political ideas of Marx, Engles and Lenin

’’کیوبا ایک سوشلسٹ ریاست ہے جو جوز مارٹی ، مارکس ، اینجلز اور لینن کے سیاسی اصولوں پر قائم ہے‘‘-

۲۰۰۷ءکے امریکن آرگنّائزیشن فریڈم ہاوس کے ڈیٹا کے مطابق کیوبا واحد غیر منتخبانہ جمہوری نظام ہے-

اہمیت:

کیوبا کی تاریخ کیوبن میزائل کرائسز (Cuban Missile Crisis) کے بناکبھی مکمل نہیں ہوسکتی جو کیوبا کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے- امریکہ اور سویت یونین کی سرد جنگ کے دوران امریکہ کی کیوبا میں مداخلت ، کاسترو کو ،معزول کرنے کی ناکام کوشش اور بے آف پگز (Bay of Pigs Invasion) حملے کے در عمل میں سویت یونین نے کیوبا میں جوہری ہتھیار/ میزائل نصب کردئیے تاکہ امریکہ کی استبدادانہ خواہشات اور کوششوں کو روکا جا سکے- حالات سنگین ہوگئے اور دنیا عالمگیر جوہری ایٹمی جنگ کے دہانے پر آگئی- البتہ بعد میں حالات پر امن طریقہ سے بہتر ہوگئے-مختصر یہ کہ  کاوشوں کے باوجود امریکہ کیوبا پر اپنا اثر و رسوخ قائم نہ کرسکا اور نہ ہی کاسترو کی حکومت گرا سکا- البتہ اب کاسترو کی موت کے بعد تعلقات میں بہتری کی امید کی جارہی ہے- کاسترو کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے خارجہ امور کی دنیا میں ایک تاریخی جملہ بولا جاتا ہے کہ ’’امریکہ کا دوست نہیں بچتا مگر امریکہ کا دُشمن بچ جاتا ہے جیسا کہ فیدل کاسترو‘‘-

کیوبا اور پاکستان:

پاکستان اور کیوبا کے درمیان تعلقات خوشگوار اور دوستانہ ہیں-دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ۱۹۵۵ءسے ہی استوار ہوگئے تھے مگر باقاعدہ تعلقات کا آغاز۲۰۰۷ء میں ہوا جب پاکستان نے ہوانا میں اپنے سفارت خانہ کی دوبارہ بنیاد رکھی جو ماضی میں اقتصادی مسائل کی وجہ سے بند کردیاگیا تھا-

۲۰۰۵ءکے کشمیر زلزلہ کے بعد کیوبا نے متاثرین کے لیےچوبیس سو(۲۴۰۰) ڈاکٹرز بھیجے اور بتیس(۳۲) ہسپتال بھی قائم کروائے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی اس کے علاوہ ۲۰۰۶ء میں ’’پاک –کیوبا‘‘ اکنامک کمیشن بھی قائم کیا گیا تاکہ اقتصادی تعاون اور باہمی تجارت کو بڑھایا جاسکے- ہر سال ہائیر ایجوکیشن آف کمیشن( HEC) کی طرف سے تقریباً نو سو(۹۰۰) طلباء کیوبا میں اعلی تعلیم حاصل کرنےجاتے ہیں-مستقبل میں مزید اقتصادی،تجارتی اور فوجی تعاون کی امید کی جارہی ہے اور امید ہے کہ پاکستان کے بدلتے حالات کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خوشگوار ہونگے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی مغلوب قوم کا مستقبل اُس کی تحریک آزادی میں قربانیوں پر منحصر ہوتا ہے- کیوبا نے اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے سالہا سال خون بہایا ہے آخر کار آج کیوبا میں ہر طرح کی آزادی ہے،شرح خواندگی پچانوے(۹۵) فیصد سے زائد ہے- بین الاقوامی سیاست میں بھی کیوبا کا بہت اہم کردار ہے- دنیا کو بہترین انقلابی فیدل کاسترو اور چی گوورا دینے والا کیوبا آج ترقی کی راہ پر گامزن ہے-کیوبا کے لوگوں کے عادتِ مطالعہ اور مستقل مزاجی اُن کی ترقی و کامرانی کی ضامن ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر