مرضِ حسَدوعلاجِ حسَد تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

مرضِ حسَدوعلاجِ حسَد تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

مرضِ حسَدوعلاجِ حسَد تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی روشنی میں

مصنف: لئیق احمد جولائی 2019

حسَد کے لغوی اور اصطلاحی معنی:

’’حسد کا لغوی معانی کسی کی نعمت کے زول اور خود اپنے لیے اس کے حصول کی تمناکرنا یا آرزو رکھنا[1]-

علامہ ابن منظور محمد بن مکرم بن علی بن احمد الانصاری الافریقی (المتوفیٰ:711ھ)حسد کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’حسدکے معنی چیچڑی (جوں کے مشابہ قدرے لمبا کیڑا) ہے جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے- اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون چوستا رہتا ہے اس لیے اسے حسد کہتے ہیں‘‘-[2]

امام راغب اصفہانی حسد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں‘‘-[3]

’’حسَد‘‘ قرآنِ کریم کی روشنی میں:

1:’’وَدَّکَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًاج حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْم بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّج فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖط اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo‘‘[4]

’’بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے‘‘-

2:’’وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَ كَانُوْ اِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوْا بِهِ فَلَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَافِرِيْنَ‘‘[5]

’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزماں حضرت محمد(ﷺ)اور ان پر اترنے والی کتاب ’قرآن‘ کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد (ﷺ) اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب ’قرآن‘ کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہوگئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘-

3:’’بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ج فَبَآؤُوْا بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ‘‘[6]

’’کس برے مولوں انہوں نے اپنی جانوں کو خریدا کہ اللہ کے اتارے سے منکر ہوں اس کی جلن سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہے وحی اتارے تو غضب پر غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے‘‘-

ان آیات کریمہ کے ضمن میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ رقمطراز ہیں :

’’نبی کریم (ﷺ)کے زمانہ میں جو یہودی تھے وہ یہ جانتے تھےکہ تورات میں حضرت سیدنا محمد (ﷺ) کے مبعوث ہونے کی ہی بشارت دی گئی ہے-لیکن وہ حسد اورسرکشی کی وجہ سے ایمان نہیں لائے-

مزید فرماتے ہیں :

’’بنو اسرائیل حسد اور سرکشی کی وجہ سے آپ (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے،اس سے معلوم ہوا کہ حسد اور سرکشی حرام ہے اور حسد کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے‘‘-

4:’’اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا‘‘ [7]

’’بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے‘‘-

علامہ سیّد محمود آلوسی بغدادی المتوفی 1270ھ’’تفسیر رُوح المعانی‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ:

’’اس آیت مبارک سے استدلال کیاگیاہے کہ آدمی کے دل کے فعل پر بھی اس کی پکڑ ہوگی مثلاً کسی گناہ کا پکا ارادہ کر لینا اوردل کا مختلف بیماریوں مثلاً کینہ، حسد اور خود پسندی وغیرہ (میں مبتلا ہوجانا)ہاں، علماء نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے فرمان ِ نبوی (ﷺ)کی روشنی میں دل میں کسی گناہ کے بارے میں سوچنے پر پکڑ نہ ہوگی جبکہ اس کے کرنے کا پختہ ارادہ نہ رکھتا ہو‘‘-[8]

5:’’وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ‘‘ [9]

’’(تم کہو میں پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے حسد سے جب وہ حسد کرے‘‘-

اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے حسد کرنے والوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے-

6:’’وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ‘‘ [10]

’’اور آپ ان پر آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی خبر حق کے ساتھ تلاوت کیجیے جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی، اس دوسرے نے کہا، میں تجھ کو ضرور قتل کردوں گا -اس نے کہا اللہ صرف متقین لوگوں سے قبول فرماتا ہے‘‘-

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حسد بہت سنگین قلبی ا مراض میں سے ایک ہے جو دل کی سیاہی کے باعث وجود میں پیدا ہوتا ہے اس حسد کی وجہ سے ہی قابیل نے ہابیل کے ساتھ خونی رشتے کا لحاظ تک نہ رکھا اور اپنے سگے بھائی کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا-

حسَد احادیث نبویہ (ﷺ) کی روشنی میں:

        I.            حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا: ’’تم حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے‘‘-[11]

     II.            حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: ’’ایک دوسرے سے بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے‘‘-[12]

   III.            ’’حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں عرض کی گئی: سب لوگوں میں افضل کون ہے؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: ہر(وہ شخص جو)مخموم القلب اور زبان کا سچا ہو- عرض کی گئی یارسول اللہ(ﷺ)! یہ تو ہم جانتے ہیں کہ زبان کا سچا کون ہے لیکن مخموم القلب سے کیا مراد ہے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اللہ رب العزت سے ڈرنے والا، پاکباز، جس میں کوئی گناہ نہ ہو اور نہ (اس میں) بغاوت، کینہ اور حسد ہو ‘‘-[13]

   IV.            ’’حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے‘‘- [14]

حسَد کا علاج تعلیمات باھو ؒکی روشنی میں:

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو (قدس اللہ سرّہ) کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ اصلاح معاشرہ سے تعلق رکھتا ہے -آپؒ کی تعلیمات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپؒ نے اصلاح معاشرہ کے لئے فرد کی اصلاح پر زور دیا ہے اور فرد کی اصلاح کو قلب کی اصلاح سے مشروط فرمایا ہے اور قلب تب تک پاک نہیں ہو سکتا جب تک کہ قلب سے حرص ،ہوس، کبر و حسد کا خاتمہ نہ ہوجائے-

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تصانیف میں نہ صرف حسد کے وجود میں پیدا ہونے کی وجوہات کو بیان فرمایا ہے بلکہ ان اعمال و افعال کو بھی بیان فرمایا ہے جس سے وجود میں حسد کا خاتمہ ہوتا ہے-

1) حسَد کے باعث دنیا کا پہلا قتل ہوا:

بقول حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) :

’’جس دل میں اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمراہ ہوکر حرص و حسد و کبر سے بھر جاتا ہے- حسد کے باعث قابیل نے ہابیل کو قتل کرڈالا حرص نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو دانہ گندم کھلاکر بہشت سے نکلوا دیا اور کبر نے ابلیس کو مرتبہ لعنت پر جا پہنچایا جو دل خانہ ہوس بن جاتا ہے وہ ہر وقت حرص و حسد و کبر و غرور سے پر رہتا ہے‘‘-[15]

2) حسَد شیطانی ہتھیار ہے:

حسد ایک ایسا نفسانی مرض ہے جو طالب اللہ کو راہِ ہدایت سے بھٹکا سکتا ہے خاص کر راہ سلوک میں کشف و کرامات اور مقامات کی طلب وجود میں حسد پیدا کر سکتی ہے-جیسا کہ آپ قدس اللہ سرّہٗ ایک مقام پر حسد کو اہم شیطانی ہتھیار بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’یہ فقیر باھو کہتا ہے کہ دل کی صورت نیلوفر کے پھول جیسی ہے- اس کے پہلو میں چار خانے ہیں، ہر خانے میں زمین و آسمان کے چودہ طبقات سے وسیع تر ولایت ہے- ایک خانہ نشیبِ دل میں ہے جس میں سرّ کا مکان پایا جاتا ہے- ہر خانے میں خزانۂ الٰہی بھرا ہوا ہے- ہر خانے پر ایک پردہ ہے اور ہر پردہ پر ایک شیطانی مؤکل ہے- پہلا پردہ غفلت کا ہے جس کی بنا پر انسان موت کو بھلائے رکھتا ہے، دوسرا پردہ حرص کا ہے، تیسرا پردہ حسد کا ہے اور چوتھا پردہ کبر کا ہے- اِن سب سے متفق ہیں خناس، خرطوم، خطرات اور وسوسہ- ہر خانے میں خزانۂ الٰہی ہے- پہلا خزانہ علم ہے، دوسرا خزانہ ذکرِ اللہ ہے، تیسرا خزانہ معرفتِ الٰہی ہے اور چوتھا خزانہ فقر فنافی اللہ بقا باللہ ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’یہ وہ خناس ہیں جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں اور یہ خناس جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانونں میں سے بھی‘‘- چاروں شیطانی مؤکلات کے دفعیہ کے لئے یہ چار چیزیں ہیں: اوّل علمِ شریعت، دوم ذکرِ طریقت، سوم فکرِ معرفت جس سے نفس منقطع ہوجاتا ہے اور چہارم ترکِ معصیت و حبِ دنیا- دل کے یہ بھاری پردے اُس وقت تک نہیں ہٹتے جب تک کہ اُس پر مرشد کامل کی نظر نہ پڑے‘‘-[16]

اولیاء اللہ کی تمام عبادات محض اللہ عزوجل اور اس کے رسول مکرم (ﷺ)کی رضا کے لیے ہوتی ہیں اس میں حسد وغیرہ کا شائبہ تک نہیں ہوتا کیونکہ حسد کی بناء پہ کیا ہوا کام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں قبولیت کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتا،اس لیے آپ (﷫)نے اپنی تعلیمات میں کئی مقامات پہ اس فقرہ کورقم فرمایاہے کہ: ’’مَیں جو کچھ کہتا ہوں حسد سے نہیں بلکہ حساب سے کہتا ہوں‘‘- [17]

طالب اللہ کو ہرلمحہ حسد جیسی موذی قلبی مرض سے ہشیار رہنا چاہیے-جیساکہ آپؒ طالب اللہ کو متنبہ فرماتے ہیں :

’’اگر تُو اہلِ نظر ہے تو ان مقامات کی طرف مت دیکھ اور اگر تُو دیکھتا ہے تو تُو حاسد و کینہ پرور ہے‘‘-

3) حسَد حب دنیا کا نتیجہ ہے:

حسد کو اگر آسان معنوں میں سمجھا جائے تو حسد خدا کی تقسیم سے اختلاف کا نام ہے- یعنی کسی مستحق کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کر اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی خواہش کرنا ایسا وہ ہی شخص سوچ سکتا ہے جو خدا سے غافل ہو اور طلب دنیا میں گرفتار ہو-

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) حسد کو طلبِ دنیا کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’جو دل حُبِّ دنیا کی ظلمت میں گھر کر خطراتِ شیطانی اور ہوائے نفس کی آماج گاہ بن چکا ہو اُس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمراہ ہو کر حرص و حسد و کبر سے بھر جاتا ہے- حسد کے باعث قابیل نے ہابیل کو قتل کرڈالا- حرص نے حضرت آدم علیہ السلام کو دانۂ گندم کھلا کر بہشت سے نکلوا دیا اور کبر نے ابلیس کو مرتبۂ لعنت پر جا پہنچایا- جو دل خانۂ ہوس بن جاتا ہے وہ ہر وقت حرص و حسد اور کبر و غرور سے پر رہتا ہے اور کمینی دنیا کی خاطر پریشان رہتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’ایک ہی دل میں دین و دنیا جمع نہیں ہو سکتے جس طرح کہ آگ اور پانی ایک ہی برتن میں جمع نہیں ہوتے‘‘-[18]

آپ قدس اللہ سرّہٗ مزید فرماتے ہیں کہ:

’’علم دو قسم کا ہے، ایک علم رحمانی ہے جس کی تعلیم ترکِ دنیا ہے، اُسے اہلِ طاعت حاصل کرتے ہیں- دوسرا علم شیطانی ہے جس کی تعلیم حرص و حسد و کبر اور حُبِّ دنیا ہے، اُسے اہلِ بدعت حاصل کرتے ہیں‘‘-[19]

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’فقیر کے دشمن تین لوگ ہیں اور وہ تینوں دشمن دنیا کے دوست ہیں-ایک منافق، دوسرے حاسد اور تیسرے کافر‘‘- [20]

آپ قدس اللہ سرّہٗ مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو شخص راہ ِخدا سے غافل ہوجاتا ہے وہ حُبِّ دنیا و حرص و حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘-[21]

’’جان لے کہ حصولِ دنیا کا خواہشمند بے حیا و منافق و بے ادب و ظالم کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا کیونکہ دنیا ایسے ہی کمینوں کی پرورش کرتی ہے- دنیا کی اصل ہی کچھ ایسی ہے کہ اس کا طالب ہمیشہ وہ آدمی بنتا ہے جو نفس کا مرید اور شیطان کا ساتھی ہو- یہی وجہ ہے کہ طالبِ دنیا آدمی ہمیشہ حرص و حسد کی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے‘‘- [22]

4) تزکیہ کے بغیر زیادہ علم حسد کا باعث ہے:

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے علم اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے لیکن اگر علم کے ساتھ فضل الٰہی شامل حال نہ ہو تو علم ہی بڑا حجاب بن جاتا ہے اور علم وجود میں کبر و حسد کو پیدا کرتا ہے- حسد ایک ایسی بیماری ہے جوعلماء کو اپنے مقام سے گرادیتی ہے جیسا کہ فرمانِ رسول (ﷺ) ’’اَلْعُلَمَآئُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئِ‘‘ کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:

’’فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’علم کے بڑے درجے ہیں‘‘-علم ہو تو باعمل ہو نہ کہ محض ایک بوجھ-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’علم ایک نکتہ ہے جس کی کثرت اُس کی عملی تفسیر ہے‘‘-جو عالم علم پر عمل نہیں کرتا علم اُس کے لئے وبالِ جان بن جاتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’علماء انبیاء کےوارث ہیں‘‘-انبیاء  کے  وارث وہ عالم ہیں جو قدم بقدم انبیاء کی پیروی کرتے ہیں اور جن کے وجود میں فسق و فجور، دروغ و حسد اور کبر و حرص نہ ہو بلکہ حق ہی حق ہو اور وہ راہ ِ راستی کے راہنما ہوں‘‘-[23]

ایک اور مقام پر آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’علم وہ ہے جو سینہ کھول دے نہ کہ وہ درسی علم کہ جس سے وجود میں حسد و کینہ پیدا ہوجائے- سن اے حق شناس! معیتِ خدا حاصل کر اور اللہ کے سوا ہر چیز کا نقش دل سے مٹا دے تاکہ ذاتِ حق کے سوا دل میں کچھ بھی باقی نہ رہے- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ° وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ‘‘ کے مطابق صرف اسی کے جلوے تیرے دل میں باقی رہ جائیں‘‘-[24]

5) وجود سے حسَد کا خاتمہ ذکر اللہ سے ممکن ہے:

حسد ایک باطنی بیماری ہے جس کا علاج ذکر اللہ سے ممکن ہے- جیسا کہ آپ قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں:

’’آدمی کے وجود میں نفس کے چار گھر ہیں، پہلا گھر زبان ہے جس کو وہ لہو و لغو سے آلودہ رکھتا ہے- دوسرا گھر دل ہے جس کو وہ وسوسہ و خطرات کی آماجگاہ بنائے رکھتا ہے-تیسرا گھر ناف ہے جسے وہ شہوت و ہوا سے پُر رکھتا ہے اور چوتھا گھر اطراف دل ہے جس کو وہ حرص و حسد، کبر و ہوا، عجب دریا اور بغض و کینہ سے سجائے رکھتا ہے- یہ چاروں گھر آگ سے دہکتے رہتے ہیں- جو آبِ ذکر اللہ کے بغیر نہیں بجھتی- علماء ان گھروں کی بربادی سے بے خبر ہیں کہ انہوں نے معرفتِ عشق و محبت کی راہ اختیار نہیں کی اور حرص و حسد و کبر کی راہ پر چل نکلے-جو صاحبِ نظر ہے وہ ہمیشہ غرق ِ مطالعۂ ضمیر انور ہے‘‘-[25]

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ بندہ جب تک ظاہری حواس کو بند کرکے باطنی حواس کو نہیں کھولتا اور باطنی حواس سے محبت، معرفت، مراقبہ اور غرق فی اللہ نورِ ذات حضوری کے مراتب کا عین بعین مشاہدہ نہیں کرتا اُس کا باطن باطل پر رہتا ہے اور جب تک باطنی ذکر فکر سے اُس کے وجود سے طمع، حرص، حسد اور کبر و ہوا جیسے ناشائستہ اوصافِ ذمیمہ اور خصائل ِ بد کا خاتمہ نہیں ہوتا اور وہ تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب، تجلیۂ روح اور تجلّۂ سر سے سراپردۂ اسرار اٹھا کر عین بعین مشاہدہ نہیں کرتا اُس کا باطن باطل پر ہی رہتا ہے‘‘[26]

آپؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’ضروری ہے کہ تو نفس و شیطان و دنیا کو بھول کر اپنے قلب اور رُوح کو ذکر اللہ میں اس طرح غرق کردے تاکہ تو ہر وقت عشق و محبت الٰہی اور اسرارِ الٰہی کا مشاہدہ کرتا رہے اور تیرے وجود میں حرص حسد کبر و ہوا اور شہوت کا نام و نشان باقی نہ رہے‘‘-[27]

حرف آخر:

حسد ایک بہت ہی مذموم صفت ہے جس سے حاسد کا اپنا نقصان ہوتا ہے- حاسد اپنی ہی لگائی آگ میں جلتا ہے جس کا علاج تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہے جو کسی کامل مرشد کی رفاقت اور ذکراللہ سے حاصل ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں نفس و شیطان کے حملوں سے محفوظ فرمائیں اور اولیاء اللہ کی تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں - آمین-

٭٭٭


[1] )المنجد۔:حسد(ن،ض)

[2](لسان العرب، باب الحاء، ج: 1، ص:826)

[3](المفردات، ص:118)

)[4] البقرۃ:109(

[5](البقرۃ:89)

[6](البقرۃ: 90)

[7](بنی اسرائیل: 36)

[8](رُوح المعانی، ج:15، ص:97)

[9](الفلق: 5)

[10](المائدۃ: 27)

[11](سنن ابو داؤد، رقم الحدیث :4903، )

[12](صحیح البخاری، رقم الحدیث 6065)

[13](سنن ابن ماجہ، ج:4، ص:475)

[14](سنن نسائی، ج: 2، ص:44)

[15](عین الفقر)

[16](عین الفقر)

[17](نور الہدیٰ)

[18](ایضاً)

[19](ایضاً)

[20](اسرار القادری ، ص:100)

[21](کلید التوحید (کلاں))

[22](ایضاً)

[23]( عین الفقر)

[24](ایضاً)

[25](ایضاً)

[26](اسرار القادری)

[27](عین الفقر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر