تعلیماتِ حضرت سلطان باھُوؒکی روشنی میں فحاشی و زنا سے بچنے کے طریقے

تعلیماتِ حضرت سلطان باھُوؒکی روشنی میں فحاشی و زنا سے بچنے کے طریقے

تعلیماتِ حضرت سلطان باھُوؒکی روشنی میں فحاشی و زنا سے بچنے کے طریقے

مصنف: ایس ایچ قادری جنوری 2015

عصر حاضر کی فتنوں میں سے سب سے بڑا فتنہ فحاشی و عریانی کا پھیل جانا ہے اس پر مستزاد یہ کہ اس کے جواز کے لیے دلائلِ عقلی کا انبار بھی لگایا جاتا ہے- مغربی ممالک میں تو اس فتنہ کو قانونی حیثیت حاصل ہوچکی ہے کیونکہ ان کی ملکی اکانومی ایک وافر حصہ اس قسم کی آمدنی پر منحصر ہے - اب اس کے اثرات مشرقی ممالک بالخصوص مسلم عوام میں بھی سرایت کرچکے ہیں- مغربی ممالک کی سیکولر عوام تو آخرت کو خیر آباد کہہ چکی ہے حتی کہ ان کی تشکیک نے ان کے دل و دماغ سے خدا کے وجود کو بھی مٹا ڈالا ہے، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا کی ہی زندگی ہے اس لیے جو کچھ حاصل کرنا ہے اسی دنیا میں ہی حاصل کرنا ہے جو لذت بھی لینی ہے وہ یہیں پر ہی لینی ہے، اُخروی لذتوں کا تو انہیں کوئی تصور ہی نہیں ہے جبکہ ایک مسلمان کا مقصدِ حیات ہی حیاتِ ابدی کی لذاتِ ابدی کا حصول ہے جو مغربی طرزِ فکر کو اختیار کرکے کبھی حاصل نہیں ہوسکتیں اس لیے فحاشی کی جو تعریف اور جواز مغربی مفکرین پیش کرتے ہیں وہ کبھی بھی مسلمانوں کے لیے مفید اور قابل قبول نہیں ہوسکتا لہٰذا اسے ’’فن الاعضا‘‘ یا ماڈلنگ جیسے پرکشش الفاظ کا جامہ پہنا کر مسلمانوں کو نہیں ورغلایا جاسکتا اور نہ ہی ورغلانے کی کوشش کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے - کیونکہ دنیا پرستوں اور خدا پرستوں کے مفادات میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے نیز مسلمانوں کی تمام اصطلاحات کا ماخذ و مرجع قرآن و حدیث اور اجماع امت ہے لہٰذا مسلمانوں کے لیے وہی چیز ہی اپنے مقصد کے حصول کے لیے مفید ہوگی جو خالقِ کائنات نے ہمارے لیے متعین کر دی ہے- قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فعلِ بد کو ہی فحاشی اور برا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ سَآئَ سَبِیْلًا(۱)

’’اوربدکاری کے قریب بھی نہ جائو کہ یہ بے حیائی (فحاشی) اور (نہایت ہی) بُری راہ ہے-‘‘

تمام فسادات میں سے سب سے بڑا فساد یہی فعلِ بد ہی ہے جو فحاشی و عریانی کا آخری نتیجہ اور منتہائے مقصود ہے- فرد ہو، قوم ہو، ملک ہو یا پورا عالم ہر ایک کی اصلاح میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی عمل ہے کیونکہ یہ عمل آباؤ اجداد کے نسب کو مٹا دیتا ہے، شرمگاہوں کو حفاظت مفقود ہوجاتی ہے، محرمات (ماں ، بہن ، خالہ، بیٹی وغیرھا)کی عزت غیر محفوظ ہوجاتی ہے، لوگوں میں عداوتیں ، بڑی بڑی دشمنیاں اور بغض اسی فعلِ بد کی بدولت واقع ہوجاتا ہے- اس فعلِ بد کے نتائج سے جو نسل پروان چڑھتی ہے وہ بد زبان ،بے حیا، بے غیرت، دین دشمن اور انسانیت دشمن ہوتی ہے-

حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’محک الفقر‘‘ میںحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک فرمان کو نقل فرمایا جس میں ارشاد ہوا کہ زنا دین کو تباہ کردیتا ہے:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے -:

’’ اولاد ِآدم ؑکے وجود میں چار جواہر ہیں جنہیں چار چیزیں تباہ کر دیتی ہیں - وہ جو اہر یہ ہیں، عقل، دین، حیا اور اعمالِ صالحہ- غصہ عقل کو تباہ کر تا ہے ،زنا دین کو تباہ کر تا ہے، طمع حیا کو تباہ کر تی ہے اور ریا اعمالِ صالحہ کو تباہ کر تا ہے-‘‘(۲)

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عقل بیدار‘‘ میں بے یقین طالب کی تین اقسام ذکر فرمائی ہیں ان میں سے ایک اسی فعلِ بد کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بھی ہے-

’’اِس میں کوئی شک نہیں کہ بے یقین طالب مرید نفس و شیطانِ لعین کا قیدی ہوتا ہے یا وہ حرامی زنا کی پیداوار ہوتا ہے یا وہ شور زدہ زمین کا بیج ہوتا ہے- ‘‘(۳)

ایک تو یہ فعل بذاتِ خود فحاشی کے زمرے میں آتا ہے دوسرا جو اس کو اپنی عادت بنا لیتا ہے تو وہ بہت ہی بری راہ چل پڑتا ہے- فحاشی و عریانی ایسی بری راہ ہے جس میں مسافر عمر بھر بھٹکتا رہتا ہے، اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی، اس کی بھول بھلیوں سے نکلنے کے امکانات کم ہوتے ہیں، جو مسافر کو کسی ایسی دلدل میں پھنسا دیتا جس سے نکلنے کے لیے جتنے ہاتھ پائوں مارتا ہے مزید دھنستا چلا جاتا ہے- مغربی ممالک کی مثال لے لیں اس نے یہ راستہ اختیار کیاتو ان کا خاندانی نظام ، نسلیں اور نسب برباد ہوگئے- ان کے چند دانشور اب سر پیٹتے ہیں لیکن پانی سر سے گذر چکا ہے-

حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’محک الفقر ‘‘میں علم و شریعت اور نفسِ امارہ کے مکالمہ کی صورت میں انسانی بدن کی پوری مملکت کا ایک تمثیلی خاکہ پیش فرمایا ہے جس کا مطالعہ ہمیں آج کی جدید طرزِ حکومت سے متعلقہ بہت سے سوالات کا جواب بھی دیتا ہے اور ایک اسلامی حکومت کا نقشہ بھی پیش کرتا ہے - اس میں آپ نے علم و شریعت کی زبانی واضح طور پر بتایا کہ اس فعلِ بد کی وجہ سے انسان کی غیرت ختم ہوجاتی ہے:

’’.... ’’اور یہ بات تو کسی عقلمند سے پوشیدہ نہیں کہ جب بادشاہ ناشائستہ کام کرے گا اور اُن پر مُصر بھی ہو گا تو ضرور سپاہ ورعیت بھی اُس کی اِقتدا کرے گی کیونکہ عوام اپنے حکمران کے دین پر ہو تے ہیں- اِس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک میں فساد و گمراہی کی کثرت ہو گی جس کی وجہ سے مملکت ِبدن میں مختلف قسم کی خرابیو ں اور امراض کا ظہور ہوگا اور صورتِ حال اِس درجہ خراب ہو جائے گی کہ حکمائے زمانہ اور عقلائے یگانہ اُس کی اصلاح سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اورنتیجے کے طور پر مملکت میں خرابی و پریشانی کا دور دورہ ہوگا اور خیر و برکت اُٹھ جائے گی لہٰذا امور ِناشائشتہ سے احتراز لازم و واجب ہے‘‘- اِس کے جواب میں نفس ِامارہ نے کہاکہ ’’تمام شہوات و لذّات ِ بشیر یہ سے بہتر لذّت زنا کی ہے اور تمام مخلوق میںسے اشراف ترین مخلوق اِنسان ہے جو آدمی اشرف ِموجودات ہوتے ہوئے لذّاتِ بشریہ سے شغل نہیں کرتا اور اُس کی اقامت کا اہتمام کرنے کی بجائے اُس کا اتلاف کرتا ہے تو یہ جائز نہ ہوگا کہ یہ قانونِ انصاف کی نفی ہے‘‘- (نوٹ: نفسِ امارہ کی یہ وہی دلیل ہے جو عصر حاضر کے یورپی مفکرین اس بد فعلی کے جواز میں پیش کرتے ہیں)-

علم و شریعت نے اِس کے خلاف کہا کہ ’’خواہشِ نفس سے زنا با لطبع ممنوع و مردود ہے کہ کلامِ مجید ِربانی میں اِس پر اقامت ِحد کا حکم وارد ہے چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے -:’’ زانیہ عورت اورزانی مر د کو سوسو کو ڑے لگائے جائیں -‘‘

دریا ئے نبوت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی احادیث میں بھی پوری صحت کے ساتھ زنا کو کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے- اِس کے علاوہ عقلی دلیل سے بھی واضح ہے کہ انتظامِ امور ِ عالم کا سارا دار و مدار غیرت و حمیت پر ہے اور عدمِ غیرت آدمی کو حیوان سے بد تر بنا دیتی ہے کہ عدمِ غیرت فقدانِ عقل کا نتیجہ ہے‘‘-‘‘(۴)

علامہ ابن قیم نے بھی غیرت کی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’و ھذا یدلک ان اصل الدین الغیرۃ من لا غیرۃ لہ لا دین لہ فا الغیرۃ تحمی القلب فتحمی لہ الجوارح فتدفع السوء و الفواحش و عدم الغیرۃ تمیت القلب فتموت لہ الجوارح فلا یبقی عندھا دفع البتہ ‘‘(۵)

’’دین کی اصل غیرت ہی ہے ، جس میں غیرت نہیں اس کا کوئی دین ہی نہیں ہے، غیرت ہی کی وجہ سے انسان کا قلب اور اعضاء برائی اور فحاشی کا دفاع کرسکتے ہیں اور عدمِ غیرت قلب و اعضاء کی موت کا سبب ہے یعنی ان میں فحاشی اور بدی سے اپنا دفاع کرنے کی قوت بالکل ختم ہوجاتی ہے- ‘‘

مزید لکھتے ہیں:

’’قلب میں غیرت کی مثال بدن میں اس دفاعی قوت کی مانند ہے جس کی مدد سے انسان مختلف بیماریوں سے اپنے بدن کا دفاع کرتا ہے جب وہ قوت ختم ہوجاتی ہے تو مختلف بیماریاںحملہ آور ہوکر انسان کو ہلاک کر دیتی ہیں- غیرت کی مثال جانور کے اس سینگ کی مانند ہے جس سے وہ اپنا اور اپنے بچے کا دفاع کرتا ہے جب سینگ ٹوٹ جائے تو دشمن اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے-‘‘(۶)

غیرت اور قوتِ مدافعت کے جس خاتمے کی بات علامہ ابن قیم اور حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے ،آج انگریز مصنفین خود اس کا اعتراف کر رہے ہیں- ایک انگریز مصنف اپنے ملک کی اخلاقی آوارگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’عورتیں روز افزوں تعداد میں تجارتی کاروبار ، دفتری ملازمتوں اور مختلف پیشوں میں داخل ہو رہی ہیں جہاں شب و روز ان کو مردوں کے ساتھ خلط ملط ہونے کا موقعہ ملتا ہے، اس چیز نے مردوں اور عورتوں کے اخلاقی معیار کو بہت گرا دیا ہے، مردانہ اقدامات کے مقابلے میں عورت کی قوتِ مزاحمت کو بہت کم کر دیا ہے اور دو صنفوں کے شہوانی تعلق کو تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد کرکے رکھ دیا ہے-‘‘(۷)

اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا حکیمِ کلی ہے اس نے اس فعلِ بد کوشرک اور قتل کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے- فرمایا:

’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا- اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دو گنا کر دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ رہے گا-‘‘(۸)

شدّتِ گُناہ کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گویا شرک، قتل اور زنا ایک ہی درجے کے گناہ ہیں کیونکہ ان کی سزا مجموعی طور پر ایک ہی بیان ہوئی ہے- بدکاری اتنا قبیح فعل ہے کہ اس کی قباحت انسانی عقول تو کیا بعض حیوانات بھی یہ فعل سخت ناپسند کرتے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک روایت حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ

’’ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر کو دیکھا جس نے ایک بندریا سے زنا کیا تو بہت سارے بندر ان دونوں کے گرد جمع ہوگئے اور اور انہوں نے ان دونوں کو پتھر وں سے رجم کردیا-‘‘ (۹)

اللہ تعالیٰ کو اگر کسی فعلِ بد پر بہت زیادہ غیرت آتی ہے تو وہ یہی فعل ہے- صحیح بخاری میں ہی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کسوف ادا فرمانے کے بعد لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’یا امۃ محمد واللّٰہ ما من احد اغیر من اللّٰہ ان یزنی عبدہ او تزنی امتہ ، یا امۃ محمد واللّٰہ لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا و لبکیتم کثیرا‘‘(۱۰)

’’اے امتِ محمدیہ! اس وقت اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ غیرت آتی ہے جب کوئی اس کا بندہ یا باندی اس فعلِ بد میں مبتلا ہوتی ہے- اے امتِ محمدیہ اللہ کی قسم جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم بھی جان لو تو کم ہنسو گے اور زیادہ روئو گے-‘‘

رسول اللہ ﷺ کے علم کی ایک معمولی سی جھلک ’’موطا امام مالک‘‘ میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ایک روایت میں ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں سنہری حروف سے کندہ کرنے کی مستحق ہے- انہوں نے فرمایا:

’’جس قوم میں مالِ غنیمت سے خیانت عام ہوجائے ان کے دلوں میں رعب بیٹھ جاتا ہے،جس قوم میں زنا پھیل جائے ان میں کثرت سے اموات ہونی شروع ہوجاتی ہیں، جس قوم میں ناپ تول کی کمی ہونی شروع ہوجائے ان کا (روحانی) رزق منقطع ہوجاتا ہے، جو قوم غلط فیصلے کرنے لگ جائے ان میں قتل و غارت اور خونریزی عام ہو جاتی ہے، جو قوم وعدوں کو توڑنے لگے تو اس پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے-‘‘(۱۱)

بدکاری پھیلنے سے موت کی کثرت ہونا کیا یہ اسی ایڈز کی بیماری کی طرف اشارہ نہیں ہے جو آج کل ایک وبا کی شکل میں پھیل چکی ہے- پاکستان میں کچھ عرصہ تو اس کی بھر پور آگاہی مہم چلائی گئی اور کئی نوجوان اس موت سے ڈر کر اس فعلِ بد سے تائب بھی ہوگئے لیکن اب نہ جانے کیوں اس کی اشاعت و تبلیغ بہت کم دکھائی دیتی ہے-

تعلیمات حضرت سلطان باھو میں فحاشی سے بچنے کے طریقے:

حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے شہوت اور شرمگاہ کی آگ بجھانے کا طریقہ ذکر فرمایا ہے:

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فرمان ہے -’’بے شک اولادِ آدم کے وجود میں دس قسم کی آگ بھری ہو ئی ہے یعنی شہوت کی آگ، حرص کی آگ، حسد کی آگ، نظر کی آگ، غفلت کی آگ، جہالت کی آگ، پیٹ کی آگ، زبان کی آگ، گناہوں کی آگ اور شرمگاہ کی آگ- شہوت کی آگ روزے کے بغیر نہیں بجھتی، حرص کی آگ ذکر ِموت کے بغیر نہیں بجھتی ، حسد کی آگ طہارتِ قلب کے بغیر نہیں بجھتی، نظر کی آگ ذکر ِقلب کے بغیر نہیں بجھتی، غفلت کی آگ ذکر اللہ کے بغیر نہیں بجھتی، جہالت کی آگ علم کے بغیر نہیں بجھتی، پیٹ کی آگ رزقِ حلال کے بغیر نہیں بجھتی، زبان کی آگ تلاوت ِقرآن کے بغیر نہیں بجھتی ، گناہوں کی آگ توبہ و استغفار کے بغیر نہیں بجھتی اور شرمگاہ کی آگ نکاح کے بغیر نہیں بجھتی -‘‘(۱۲)

اس فعلِ بد سے بچنے کا ایک طریقہ تو شرعی نکاح ہے اسی لیے رسول اللہﷺ نیء تاکید فرمائی کہ نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت کا انکار کیا وہ ہم میں سے نہیں - ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ اس میں جہیز اور دیگر اخراجات کی بے دریغ رسومات کی وجہ سے نکاح جیسے پاکیزہ عمل کو انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے - بدکاری کے عام ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ نکاح میں مشکلات کا درپیش ہونا بھی ہے- جو نوجوان نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنی شہوت اور شرمگاہ کی آگ بجھانے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہوئے راہِ راست سے بھٹک جاتے ہیں اور اپنی زندگیاں تباہ و برباد کر دیتے ہیں-

شرعی نکاح نہ ہونے کی صورت میں یا نکاح کے بعد بھی اس فعلِ بد سے بچنے کا قرآن پاک نے ایک نسخہ عطا فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نظروں کی حفاظت کرو، لا محالہ تمہارے دل و دماغ اور جسم بدکاری سے محفوظ رہیں گے- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے- بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں-‘‘ (۱۳)

یہی حکم اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو الگ دیا اور بڑی تفصیل سے فرمایا کہ :

’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بنائو سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پائوں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو- اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جائو-‘‘(۱۴)

نظر ہی سے فعلِ بد کی ابتدا ہوتی ہے- یہ گویا اس چنگاری کی مثل ہے جو مکمل گھر کو جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے- نظر کی حفاظت ہی در اصل شرمگاہ کی حفاظت ہے کیونکہ علامہ ابن قیم نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نظر شیطان کے تیروں میں سے زہریلا تیر ہے پس جس نے عورت کے حسن و جمال کو دیکھنے سے اپنی نظریں جھکا لیں تو اللہ تعالیٰ قیامت تک اس کے قلب کو ایمان کی حلاوت عطا فرما دے گا-‘‘(۱۵)

فقہ کی کتب میں جہاں شہداء کی مختلف اقسام لکھی ہیں ان میںسے ایک وہ بھی ہے جس کی کسی عورت کے چہرے پر نظر پڑی اور وہ اس کے حسن و جمال کے عشق میں مبتلا ہوگیا پھر اس نے اللہ تعالیٰ کا حیا کرتے ہوئے دوبارہ اس کی طرف کبھی نہ دیکھا اور اسی دیوانگی کی وجہ سے فوت ہوگیا تو وہ بھی شہید کا درجہ پائے گا- علامہ ابن قیم نے نظر جھکانے کی توجیح کرتے ہوئے لکھا کہ

’’انسان کو پہنچنے والے عام حادثات کی اصل اور بنیاد نظر ہے ، نظر دل میں کھٹکا پیدا کرتی ہے، کھٹکے سے فکر پیدا ہوتی ہے، پھر فکر شہوت کو برانگیخہ کرتی ہے، شہوت سے ارادہ پیدا ہوتا ہے ، جب ارادہ پختہ ہوتا ہے تو وہ ایک پختہ عزم بن جاتا ہے جس کے بعد لازمی طور پر فعلِ بد واقع ہوجاتا ہے بشرطیکہ کہ کوئی مانع نہ ہواسی لیے کہا گیا ہے کہ( الصبر علی غض البصر ایسر من الصبر علی الم ما بعدہ) نظریں جھکا لینے پر صبر کر لینا اس تکلیف پر صبر سے بہتر اور آسان ہے جو بعد میں درپیش ہوتی ہے‘‘(۱۶)

قارئین! آپ اِن مذکورہ اقوال اور اپنے ذاتی مشاہدات کی روشنی میں خود فیصلہ کریں کہ ہمار انٹرٹینمنٹ میڈیا معاشرے میں کیا خدمات سر انجام دے رہا ہے؟ وہ تعلیمی و تعمیری کردار ادا کرنے کی بجائے صرف شیطانی سرود، حسن پرستی اور شراب نوشی کو ہی ہوا دے رہا ہے یعنی ایک ایسا زہر جسے بڑے حسین انداز سے ہمارے قلوب و اذہان میں انڈیلا جارہا ہے جس کی قباحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کے اندر مخفی رازوں کو- ‘‘ سرود و حسن پرستی زنا کا بیج ہے اور شراب نوشی خیانت کا بیج ہے-‘‘(۱۷)

ممکن ہے کچھ لوگوں کو اس بات سے کلیۃ اتفاق نہ ہواور وہ یہ دلیل پیش کریں کہ فن الاعضاء یا ماڈلنگ کرنے والے سب لوگ ایسے نہیں ہوتے تو یقینا ایسا ممکن ہے اچھے لوگوں کے ہونے سے ہی تو معاشرے میں آٹے میں نمک برابر ہی سہی مگر اچھائی موجود ہے لیکن کون کس وقت کیسے بہک سکتا ہے اس کی انسان کو اتنی خبر نہیں جتنی انسان کے نفس اور شیطان کو ہے- اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی فعلِ بد سے بلاواسطہ منع کرنے کی بجائے اس کی قربت سے بھی منع فرما دیا کہ (لا تقربوا الزنا) اس فعلِ بد کے قریب لے جانے والے اعمال بھی اختیار نہ کرو ورنہ نفس اور شیطان تمہیں کسی وقت بہکا سکتے ہیں- اس لیے حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ مخصوص مقامات اور حالات میں نفس کی مختلف کیفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ جان لے کہ طالب کے لئے ضروری ہے کہ وہ آفات ِنفس کو پہچانے کہ نفس غلبۂ شہوت کے وقت اندھا حیوان بن جاتا ہے اور چو پائے جانور کی طرح بے عقل دیوانہ بن جا تا ہے، شکم سیری کے وقت فرعون بن جاتا ہے، بھوک کے وقت درندہ بن کر دیوانے کتے کی طرح حرام خور بن جاتا ہے ، حکمرانی و اقتدار کے وقت پُرغضب و بے ترس ظالم بن جاتاہے، محفل ِسرود ہو تو خود پسند ہو کر طالب ِ زنا و فتنہ انگیز بن جاتا ہے اور شیطان سے متفق ہو کر اُس کا مونس بن جا تا ہے ، غصے کی حالت میں دیوانہ دیو اور پاگل جن بن جا تاہے -‘‘(۱۸)

اب آپ خود بتائیں کہ اس نفس اور شیطان کے چنگل سے کون کیسے بچ سکتا ہے؟ ان کے اثرات سے بچنے کی ایک تجویز پیش کرتے ہوئے حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’جو نفس تلاوتِ قرآن، ذکر ِرحمن ، نص و حدیث ،تفسیر ، مسائل ِعلمِ فقہ ، اقوالِ مشائخ اور روایت و ہدایت کے مطالعہ کے وقت استغراقِ فنافی اللہ ذات میں ڈوب جاتا ہے، وہ صاحب ِتوفیق رفیق ، دین میں راسخ قوی مسلمان اور محرمِ اسرارِ ذاتِ حق یارِ جانی بن جاتا ہے -‘‘(۱۹)

تمام دنیاوی ، شیطانی و نفسانی تصورات کو زائل کرنے کے لیے بطورِ نسخۂ کیمیا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسم اللہ ذات کا تصور عطا فرمایا جو آپ کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ، نچوڑ اور انسان کا مقصدِ حیات ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’تصورِ اسم اللہ ذات کی ریاضت سے سخت تر و بہتر ریاضت اور کوئی نہیں جو سر سے لے کر پاؤں تک سارے وجود کو ہمیشہ کے لیے پاک کردیتی ہے کیونکہ تصور ِاسم اللہ ذات سے وجود میں وہ آگ پیدا ہوتی ہے کہ جس کے ایک ہی ذرے سے دوزخ کی آگ بھڑکائی گئی ہے-‘‘ (۲۰)

اسی تصور اسم اللہ ذات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ جب ذکراللہ کی تکرار سے اسمِ اَللّٰہُ وجود میں گویائی پکڑتا ہے تو اُس کی برکت سے ظاہر باطن کا تمام علم واضح ہو جاتا ہے ، روح صاحب ِمحاسبہ قاضی بن جاتی ہے، دل صاحب ِفتویٰ مفتی بن جاتا ہے ، نفس چور قید ہو جاتا ہے ، توفیق ِالٰہی نفس کے ساتھ مدعا علیہ بن جاتی ہے اور تمام اعضا مل کر محاسبہ کی خاطر گواہ بن جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ وجود میں نفس کے خلاف نو گواہ پیدا ہو جاتے ہیں چنانچہ دو آنکھیں جن کے متعلق   حضور علیہ الصلوٰۃُوالسلام کا فرمان ہے -: ’’ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں-‘‘ دو کان جن کے بارے میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے  -:’’اُس میں نہ سنیں گے یاوہ گوئی اور نہ وہ مکریں گے -‘‘ ایک زبان کہ جس کے بارے میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے  -:’’ کوئی نہیں بول سکے گا سوائے اُس کے جسے رحمن اجازت دے گا اور وہ بات بھی درست کرے گا ‘‘ اور دو ہاتھ اور دو پاؤں جن کے بارے میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے  -:’’ اور اُن کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور اُن کے پاؤں اُن کے کئے کی گواہی دیں گے - ‘‘اِس محاسبہ سے نفس ِامارہ مسلمان ہو جاتا ہے اور تائب ہو کر گناہوں سے باز آجاتا ہے - فرمانِ حق تعالیٰ ہے  -:’’ اے ایمان والو ! توبہ کرو اللہ کی طرف ، صاف دل سے توبہ -‘‘ (۲۱)

 فحاشی اور بدکاری سے بچنے کے لیے جو اِن تمام مذکورہ بالا امور میںسے کوئی امر بھی اختیار نہیں کرتا تو اس کے لیے آپ نے آخرت کے عذاب کی وعید بھی سنا دی ہے:

’’فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’ جس دن کافروں کو آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا تو اُن سے فرمایا جائے گا کہ تم اپنے حصے کی پاکیزہ چیزیں حیاتِ دنیا ہی میں ضائع کر چکے ہو - ‘‘یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن بیگانوں سے فرمائے گا کہ تم نے دنیا میں اپنی چاہت کی کوئی آرزو تشنہ کام نہیں چھوڑی نہ حلال سے نہ حرام سے ، اب تمہیں آگ میں جلایا جائے گا ، تم اپنی طیب چیزیں دنیا ہی میں ضائع کر چکے ہو ، تم اپنی ہر خوشی و ہر آرزو دنیا ہی میں پوری کرچکے ہو آج تمہارے لئے خوار کرنے والا عذاب ہے ،آج ہم تمہیں خوار کر یں گے - ‘‘(۲۲)

یہی تو وہ مغربی طرزِ فکر ہے کہ چاہے حرام ہو یا حلال وہ دنیا میں اپنی ہر چاہت اور آرزو پوری کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں آج ہی یہ طے کر لینا چاہیے کہ ہمیں دنیاوی عارضی لذتوں کو حاصل کرنا ہے یا اخروی دائمی لذتوں کو طلب کرنا ہے- حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا خلاصہ تو یہی ہے کہ اﷲ کا طالب کبھی گمراہ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کے طالب میں عباد الرحمن کی تمام صفات آجاتی ہیں،

{وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo}

اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں-

وہ تکبر و غرور نہیں کرتے، جہلا سے الجھتے نہیں ہیں، ان کی راتیں قیام و سجود میں گزرتی ہیں، اقتصادی میانہ روی اختیار کرتے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کی عباد ت میں کسی اور کو شامل نہیں کرتے ، کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے، وہ زنا و بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتے ، وہ جھوـٹی گواہی نہیں دیتے، صحبتِ بد سے حتی الامکان دور رہتے ہیں، اندھی تقلید کی بجائے محققانہ طرزِ فکراختیار کرتے ہیں، اولاد کی تربیت کرتے ہیں اور فحاشی پھیلانے کی بجائے تقویٰ و پرہیزگاری کے فروغ کا باعث بنتے ہیں- ان کے برعکس عباد الشیطان ہیں- ہم عباد الشیطان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا عباد الرحمن کی فہرست میں آنا چاہتے ہیں ؟؟ اس کا فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے اور ہمارے اعمال ہمارے گواہ ہوں گے-

٭٭٭

حوالہ جات:

(۱) (سورۃ الاسراء ۱۷، آیت ۳۲)         (۲) (حضرت سلطان باھُو، ’’محک الفقر‘‘ ،ص:۷۸۱، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)

(۳) (حضرت سلطان باھُو،’’عقل بیدار‘‘، ص:۲۲۷، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)               (۴) (حضرت سلطان باھُو،’’محک الفقر‘‘، ص: ۷۶۷، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)

(۵) (علامہ ابن قیم الجوزیہ، الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی، ص:۶۸، عکسی نسخہ )             (۶) (ایضاً،ص:۶۸)

(۷) (پروفیسر ڈاکٹر عابدہ علی، عورت قرآن و سنت اور تاریخ کے آئینے میں، ص:۷۷۵، اسلامک پبلی کیشنز لوئر مال لاہور)

(۸) (سورۃ الفرقان۲۵، آیت ۶۸،۶۹)                   (۹) (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب القسامۃ فی الجاھلیۃ، حدیث نمبر ۳۸۴۹، )

(۱۰) (صحیح بخاری، باب صدقہ فی الکسوف، حدیث نمبر ۱۰۴۴)          (۱۱) (موطا امام مالک، کتاب الجھاد، ما جاء فی الغلول، حدیث نمبر ۱۶۷۰، عکسی نسخہ)       (۱۲) (حضرت سلطان باھُو، ’’کلید التوحید کلاں‘‘ ص:۴۹۱  ، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)

(۱۳) (سورۃ النور۲۴، آیت نمبر ۳۰)                      (۱۴) (سورۃ النور۲۴، آیت نمبر ۳۱)

(۱۵) (ابن قیم الجوزیہ، الجواب الکافی-----ص،۱۵۲، عکسی نسخہ)

(۱۶) (ایضاً ص،۱۵۳، عکسی نسخہ)                           (۱۷) (حضرت سلطان باھُو، ’’کلید التوحید کلاں‘‘، ص: ۶۱، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)           (۱۸) (حضرت سلطان باھُو، ’’محک الفقر‘‘ ، ص:۷۵۳، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)

(۱۹) (ایضاً ص: ۷۵۳)      (۲۰) (حضرت سلطان باھُو،’’کلید التوحید کلاں‘‘، ص: ۱۵۹، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)

(۲۱) (حضرت سلطان باھُو، ’’محک الفقر‘‘، ص: ۵۹۹، العارفین پبلی کیشنز لاہور پاکستان)

(۲۲) (ایضاًص: ۳۵۵)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر