امیرالکونین (قسط54)

امیرالکونین (قسط54)

جو شخص قرب اللہ حضور سے جواب با ثواب پا سکے اور تحقیق با توفیق سے خود کو مجلس ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) میں پہنچا سکے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ دعوت ِاسمِ بدوح پڑھتا پھرے؟ جو شخص اِس قسم کی تقویت ِتوجہ سے خود کو حضوری میں پہنچا سکے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ عاملوں کی طرح خط کھینچے یا دائرہ و مثلث کے تعویذات لکھے یا اسمِ بدوح سے بیس بیس خانوں والے نقش پُر کرے کہ یہ سب کام تو وہ بے قرب و بے حضور لوگ کرتے ہیں جو معرفت اللہ توحید سے دُور ہوتے ہیں-

بیت: ’’وِرد وظائف کو چھوڑ اور استغراقِ وحدت طلب کر کہ اُس سے تُو قرب ِحق کا عارف بن جائے گا‘‘-

بیس مشقِ تصور دماغِ سر میں اور چار مشقِ تصور مخالفت و محاسبۂ نفس کے لئے مقام ناف پر کی جائیں اور ہر مقام پر تصور سے’’ اسمِ اَللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ  لِلّٰہِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ  لَہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ ھُوْ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ مُحَمَّدٌ  (ﷺ)، اسمِ فقر، اسمِ اعظم اور تیس حروف ِتہجی لکھ کر اُن کی حاضرات کا مشاہدہ کرے- جو آدمی سب سے پہلے حاضرات کر ے اور علمِ حاضرات کو عمل میں لانا جان لے اُس کا علمِ دعوت کا عمل قیامت تک نہیں رکتا-

ابیات: (1)’’جس کا دم رواں، دل زندہ اور روح دعوت پڑھنے والی ہو وہ اِس لائق ہے کہ وہ دعوت پڑھے کہ وہ صاحب ِنظر عارف ہے‘‘-

(2)’’مرد مرشد بے نیاز گنج بخشتا ہے اور نامرد مرشد مال و زر کے تذکرے کرتا ہے‘‘-

 

ایسا اہل ِدعوت تصور ِاسم اللہ ذات کی دعوت کی برکت سے جثۂ محنت سے نکل کر جثۂ محبت کے قلبی لطیفہ میں آ جاتا ہے جہاں اُس کا کھانا مجاہدہ اور اُس کا سونا باطن میں مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری کا مشاہدہ و مبارک بادی ہوتا ہے- اُس کی مستی میں ہوشیاری اور خواب میں بیداری ہوتی ہے اور وہ غرق فنا فی اللہ حضوری میں جواب باصواب پا کر باشعور رہتا ہے-یہ ہیں مراتب صاحب ِباطن معمور کے-اہل ِ دعوت جب دعوت ِکل کے اِن مراتب پر پہنچتا ہے تو مؤکلات اور انبیاء و اولیاء اللہ غوث و قطب و اوتاد و ابدال کی ارواح کے ہزاران ہزار بلکہ بے شمار لشکر اُسے باعیاں نظر آتے ہیں، کسی کو وہ جانتا ہے اور کسی کو نہیں جانتا- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’کوئی جان نہیں جس پر ایک نگہبان نہ ہو‘‘- اُسی کے بارے میں خطاب ہے: ’’کسی کی یہ مجال نہیں کہ اُس سے بات کرے‘‘- اِس مقام پر تجلیات کا انکشاف ہوتا ہے اور اُس کے ہر عضو کے رگ و گوشت و مغز و ہڈیاں اور بالوں سے ہزاران ہزار بلکہ بے شمار تجلیات کے انوار کا ظہور ہوتا ہے- یہ ہمہ اوست در مغز و پوست(ہر چیز کے ظاہر و باطن میں اُسی ایک ذات کی جلوہ نمائی) کا مرتبہ ہے چنانچہ اُس کے وجود سے تجلی ٔغیبی، تجلی  ٔقلبی، تجلی ٔ روحی اور تجلی ٔ سِرّی کا ظہور ہوتا ہے اور تصور ِاسم اللہ ذات کی تاثیر سے جب اُس کے وجود میں نور ِایمان کی غیر مخلوق تجلی کا یہ سورج طلوع ہوتا ہے تو ظاہر باطن میں تمام حواسِ خمسہ سے نفس و شیطان و دنیا کی جملہ ظلمات ِناشائستہ کی غلاظت کلی طور پر نکل جاتی ہے اور تمام اوصاف ِذمیمہ و اوصاف ِزوال ختم ہو جاتے ہیں- یہ ہیں مراتب معرفت اللہ وصال کے- یہاں پر پہنچ کر وہ دائم لباسِ شریعت پہنتا ہے، شریعت کی پاسداری کرتا ہے اور باطن میں دریائے معرفت پیتا ہے-                                                                                                                                            (جاری ہے)

جو شخص قرحضور سے جواب با ثواب پا سکے اور تحقیق با توفیق سے خود کو مجلس ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) میں پہنچا سکے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ دعوت ِاسمِ بدوح پڑھتا پھرے؟ جو شخص اِس قسم کی تقویت ِتوجہ سے خود کو حضوری میں پہنچا سکے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ عاملوں کی طرح خط کھینچے یا دائرہ و مثلث کے تعویذات لکھے یا اسمِ بدوح سے بیس بیس خانوں والے نقش پُر کرے کہ یہ سب کام تو وہ بے قرب و بے حضور لوگ کرتے ہیں جو معرفت اللہ توحید سے دُور ہوتے ہیں-

بیت: ’’وِرد وظائف کو چھوڑ اور استغراقِ وحدت طلب کر کہ اُس سے تُو قرب ِحق کا عارف بن جائے گا‘‘-

بیس مشقِ تصور دماغِ سر میں اور چار مشقِ تصور مخالفت و محاسبۂ نفس کے لئے مقام ناف پر کی جائیں اور ہر مقام پر تصور سے’’ اسمِ اَللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ  لِلّٰہِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ  لَہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ ھُوْ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ مُحَمَّدٌ  (ﷺ)، اسمِ فقر، اسمِ اعظم اور تیس حروف ِتہجی لکھ کر اُن کی حاضرات کا مشاہدہ کرے- جو آدمی سب سے پہلے حاضرات کر ے اور علمِ حاضرات کو عمل میں لانا جان لے اُس کا علمِ دعوت کا عمل قیامت تک نہیں رکتا-

ابیات: (1)’’جس کا دم رواں، دل زندہ اور روح دعوت پڑھنے والی ہو وہ اِس لائق ہے کہ وہ دعوت پڑھے کہ وہ صاحب ِنظر عارف ہے‘‘-

(2)’’مرد مرشد بے نیاز گنج بخشتا ہے اور نامرد مرشد مال و زر کے تذکرے کرتا ہے‘‘-

ایسا اہل ِدعوت تصور ِاسم اللہ ذات کی دعوت کی برکت سے جثۂ محنت سے نکل کر جثۂ محبت کے قلبی لطیفہ میں آ جاتا ہے جہاں اُس کا کھانا مجاہدہ اور اُس کا سونا باطن میں مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری کا مشاہدہ و مبارک بادی ہوتا ہے- اُس کی مستی میں ہوشیاری اور خواب میں بیداری ہوتی ہے اور وہ غرق فنا فی اللہ حضوری میں جواب باصواب پا کر باشعور رہتا ہے-یہ ہیں مراتب صاحب ِباطن معمور کے-اہل ِ دعوت جب دعوت ِکل کے اِن مراتب پر پہنچتا ہے تو مؤکلات اور انبیاء و اولیاء اللہ غوث و قطب و اوتاد و ابدال کی ارواح کے ہزاران ہزار بلکہ بے شمار لشکر اُسے باعیاں نظر آتے ہیں، کسی کو وہ جانتا ہے اور کسی کو نہیں جانتا- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’کوئی جان نہیں جس پر ایک نگہبان نہ ہو‘‘- اُسی کے بارے میں خطاب ہے: ’’کسی کی یہ مجال نہیں کہ اُس سے بات کرے‘‘- اِس مقام پر تجلیات کا انکشاف ہوتا ہے اور اُس کے ہر عضو کے رگ و گوشت و مغز و ہڈیاں اور بالوں سے ہزاران ہزار بلکہ بے شمار تجلیات کے انوار کا ظہور ہوتا ہے- یہ ہمہ اوست در مغز و پوست(ہر چیز کے ظاہر و باطن میں اُسی ایک ذات کی جلوہ نمائی) کا مرتبہ ہے چنانچہ اُس کے وجود سے تجلی ٔغیبی، تجلی  ٔقلبی، تجلی ٔ روحی اور تجلی ٔ سِرّی کا ظہور ہوتا ہے اور تصور ِاسم اللہ ذات کی تاثیر سے جب اُس کے وجود میں نور ِایمان کی غیر مخلوق تجلی کا یہ سورج طلوع ہوتا ہے تو ظاہر باطن میں تمام حواسِ خمسہ سے نفس و شیطان و دنیا کی جملہ ظلمات ِناشائستہ کی غلاظت کلی طور پر نکل جاتی ہے اور تمام اوصاف ِذمیمہ و اوصاف ِزوال ختم ہو جاتے ہیں- یہ ہیں مراتب معرفت اللہ وصال کے- یہاں پر پہنچ کر وہ دائم لباسِ شریعت پہنتا ہے، شریعت کی پاسداری کرتا ہے اور باطن میں دریائے معرفت پیتا ہے-                                                                                                                                            (جاری ہے)

جو شخص قرب اللہ حضور سے جواب با ثواب پا سکے اور تحقیق با توفیق سے خود کو مجلس ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) میں پہنچا سکے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ دعوت ِاسمِ بدوح پڑھتا پھرے؟ جو شخص اِس قسم کی تقویت ِتوجہ سے خود کو حضوری میں پہنچا سکے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ عاملوں کی طرح خط کھینچے یا دائرہ و مثلث کے تعویذات لکھے یا اسمِ بدوح سے بیس بیس خانوں والے نقش پُر کرے کہ یہ سب کام تو وہ بے قرب و بے حضور لوگ کرتے ہیں جو معرفت اللہ توحید سے دُور ہوتے ہیں-

بیت: ’’وِرد وظائف کو چھوڑ اور استغراقِ وحدت طلب کر کہ اُس سے تُو قرب ِحق کا عارف بن جائے گا‘‘-

بیس مشقِ تصور دماغِ سر میں اور چار مشقِ تصور مخالفت و محاسبۂ نفس کے لئے مقام ناف پر کی جائیں اور ہر مقام پر تصور سے’’ اسمِ اَللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ  لِلّٰہِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ  لَہُ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ ھُوْ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، اسمِ مُحَمَّدٌ  (ﷺ)، اسمِ فقر، اسمِ اعظم اور تیس حروف ِتہجی لکھ کر اُن کی حاضرات کا مشاہدہ کرے- جو آدمی سب سے پہلے حاضرات کر ے اور علمِ حاضرات کو عمل میں لانا جان لے اُس کا علمِ دعوت کا عمل قیامت تک نہیں رکتا-

ابیات: (1)’’جس کا دم رواں، دل زندہ اور روح دعوت پڑھنے والی ہو وہ اِس لائق ہے کہ وہ دعوت پڑھے کہ وہ صاحب ِنظر عارف ہے‘‘-

(2)’’مرد مرشد بے نیاز گنج بخشتا ہے اور نامرد مرشد مال و زر کے تذکرے کرتا ہے‘‘-

ایسا اہل ِدعوت تصور ِاسم اللہ ذات کی دعوت کی برکت سے جثۂ محنت سے نکل کر جثۂ محبت کے قلبی لطیفہ میں آ جاتا ہے جہاں اُس کا کھانا مجاہدہ اور اُس کا سونا باطن میں مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری کا مشاہدہ و مبارک بادی ہوتا ہے- اُس کی مستی میں ہوشیاری اور خواب میں بیداری ہوتی ہے اور وہ غرق فنا فی اللہ حضوری میں جواب باصواب پا کر باشعور رہتا ہے-یہ ہیں مراتب صاحب ِباطن معمور کے-اہل ِ دعوت جب دعوت ِکل کے اِن مراتب پر پہنچتا ہے تو مؤکلات اور انبیاء و اولیاء اللہ غوث و قطب و اوتاد و ابدال کی ارواح کے ہزاران ہزار بلکہ بے شمار لشکر اُسے باعیاں نظر آتے ہیں، کسی کو وہ جانتا ہے اور کسی کو نہیں جانتا- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’کوئی جان نہیں جس پر ایک نگہبان نہ ہو‘‘- اُسی کے بارے میں خطاب ہے: ’’کسی کی یہ مجال نہیں کہ اُس سے بات کرے‘‘- اِس مقام پر تجلیات کا انکشاف ہوتا ہے اور اُس کے ہر عضو کے رگ و گوشت و مغز و ہڈیاں اور بالوں سے ہزاران ہزار بلکہ بے شمار تجلیات کے انوار کا ظہور ہوتا ہے- یہ ہمہ اوست در مغز و پوست(ہر چیز کے ظاہر و باطن میں اُسی ایک ذات کی جلوہ نمائی) کا مرتبہ ہے چنانچہ اُس کے وجود سے تجلی ٔغیبی، تجلی  ٔقلبی، تجلی ٔ روحی اور تجلی ٔ سِرّی کا ظہور ہوتا ہے اور تصور ِاسم اللہ ذات کی تاثیر سے جب اُس کے وجود میں نور ِایمان کی غیر مخلوق تجلی کا یہ سورج طلوع ہوتا ہے تو ظاہر باطن میں تمام حواسِ خمسہ سے نفس و شیطان و دنیا کی جملہ ظلمات ِناشائستہ کی غلاظت کلی طور پر نکل جاتی ہے اور تمام اوصاف ِذمیمہ و اوصاف ِزوال ختم ہو جاتے ہیں- یہ ہیں مراتب معرفت اللہ وصال کے- یہاں پر پہنچ کر وہ دائم لباسِ شریعت پہنتا ہے، شریعت کی پاسداری کرتا ہے اور باطن میں دریائے معرفت پیتا ہے-                                                                                                                                            (جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر