ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

ذکر فکر سب اُرے اریرے جاں جان فداناں فانی ھو
فدافانی تنہاں نوں حاصل جہڑے وسّن لامکانی ھو
فدافانی اونہاں نوں ہویا جنہاں چکھی عشق دی کانی ھو
باھوؒ ھو دا ذکر سڑیندا ہر دم یار ناں ملیا جانی ھو

Dhikr and reflection will remain here and there until soul not sacrificed into annihilation Hoo

Residency of la makani (proximity) by those who sacrifice into annihilation Hoo

Sacrificed into annihilation attained by those who experienced ishq’s strike Hoo

O Bahoo dhikr of Hoo always burns for those who have not found beloved alike Hoo 

Zikr fikr sab uray urairy ja’N jan fidana’N fani Hoo

fida fani tinha’N no’N Hasil jeh’Ray wassan la makani Hoo

fida fani onha’N  no’N hoya jinha’N chakhi ishq di kani Hoo

Bahoo! Hoo da zikr sa’Renda har dam yar na’N milya jani Hoo

تشریح:

1-راہِ سلوک میں ذکر و فکر ابتدائی مراحل ہیں جب طالب ذکر و فکر میں کامل ہوجاتا ہے اور اس مرحلے سے آگے بڑھتا ہے تو قرب الٰہی کی منازل کو پاتا ہے اور اہل تصوف کے نزدیک قرب الٰہی سے مراد مقام فنا فی اللہ ہے-یعنی ایسا مقام جہاں ذات حق میں طالب اس درجہ مستغرق ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی خبر بھی نہیں رہتی-جیسا کہ حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرآہٗ)’’امیرالکونین‘‘کے فارسی ابیات میں ارشاد فرماتے ہیں:

ذکر را بہ گزار مذکورش مگو

 

احتیامی نیست ذکرش رو بہ رو [1]

’’ذکر چھوڑ اور مذکور کی بات بھی مت کر کہ جہاں معاملہ روبرو کا ہو وہاں ذکر فکر کی حاجت نہیں رہتی‘‘-

اس استغراق مع اللہ کا معنی یہ ہے کہ وہ طالب اپنی چاہت کو رضائے الٰہی میں گم کردیتا ہے اور اس کے ظاہر و باطن میں ایسا نور پیدا ہوجاتا ہے کہ پھر اس کا ہر قول و فعل شریعت محمدی(ﷺ) کا آئینہ دار ہوتا ہے-

2-جب طالب، اللہ کی ذات میں فنا ہوجاتا ہے تو اسے مقام بقا نصیب ہوتا ہے جسے اصطلاحِ حدیث میں قرب نوافل سے تعبیر کیا جاتا ہے- جہاں بندے کی صفات اور بندے کے افعال فنا ہوجاتے ہیں اور ان میں برکتِ انوارِ الٰہی کا اظہار ہوتا ہے- جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے:

’’جب بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘-[2]

یعنی اس مقام پر انسان کے ظاہر و باطن میں اللہ کا ایسا نور سما جاتا ہے کہ اس کا ظاہر تو دنیا میں ہوتا ہے اور وہ اللہ کی بندگی کو اختیار کرتے ہوئے خلق میں مشغول رہتا ہے لیکن اس کا باطن مکانی آلائشوں سے دور لامکان کے معراج میں جا پہنچتا ہے جہاں زمان و مکان کی قید نہیں ہے-

3-مگر فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مقامات یونہی نہیں مل جاتے ان مقامات تک رسائی صرف انہیں نصیب ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے شدید محبت رکھتے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ‘‘[3]    ’’ اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں ‘‘-

 شدید محبت کو ہی عشق کہا جاتا ہے - عشق کی کیفیت کی وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا:

’’عشق ایک ایسی آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا کر راکھ کردیتی ہے‘‘-[4]

یعنی جسے عشق الٰہی کا تیر لگتا ہے اس کے وجود سے غیر کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے اور اس کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ بس دل میں اس کی رغبت اس کا شوق ہوتا ہے بس اسی کی طلب و تمنا میں طالب پر یہ حال وارد ہوتا ہے کہ اس کے خیال میں اپنا خیال اس کی رضا میں اپنی رضا اور اس کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کردیتا ہے ار یہی عشق و محبت کے کرشمے ہیں-

4-آخری مصرعے میں حضور سلطان العارفینؒ صوفیانہ تجربے کا ذکر فرما رہے ہیں کہ سالک جب سلطان الازکار ھو کا ذکر کرتا ہے تو اس سے اس کے اندر محبوب حقیقی کو پالینے کی طلب اور شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور وہ ہر دم آتش سوزاں میں بیقرار رہتا ہے اور عرفانِ حق کا خواہش مند رہتا ہے کیونکہ بغیر عرفانِ حق کے محض ذکر و فکر ہمیشہ کی جلن بن جاتا ہے اس لیے نظر مقصود کی طرف رکھی جائے-


[1](امیر الکونین)

[2](صحیح بخاری، کتاب الرقاق)

[3](البقرۃ:165)

[4](عین الفقر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر