امیر الکونین قسط 47

امیر الکونین قسط 47

علمِ تصوف کا عالم صاحب ِتقویٰ ہوتا ہے اور علمِ تقویٰ کے دو گواہ ہیں: اہل ِ تقویٰ کا کھانا نور اور خواب مشرفِ معرفت ِلقائے حضور ہوتا ہے-یہ دونوں عالمِ تقویٰ کے بال و پر ہوتے ہیں جن سے وہ جملہ مقاماتِ ذات و صفات کو پل بھر میں تحقیق کر کے ہر مردے کو زندہ کر سکتا ہے-متقی اہل ِتقویٰ وہ ہے جو اگر کلمہ طیب  ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کو مقامِ کنۂ کن سے پڑھ لے تو مملکت ِخداوندی کی کوئی چیزاُس سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی-فرمانِ حق تعالیٰ ہے -’’جو لوگ ذکر اللہ میں محو رہتے ہیں وہی لوگ انشا ء اللہ اہل ِتقوی و اہل ِمغفرت ہیں‘‘- علمِ تقویٰ علمِ تصور و تصرف کی طرح معرفت ِمشاہدۂ دیدار کی چابی ہے -تقویٰ مجاہدہ نہیں بلکہ حضورِ حق میں مشاہدۂ وصالِ لازوال ہے -یاد رکھیے کہ غلباتِ تصور سے تجلیاتِ نور و شوقِ تصرف ِحضور و تعطش ِ اشتیاق فراقِ ازلی فیض فضلی کے حرفِ توفیقِ توکل و صدقِ توحید و تصدیق ِتحقیق ِکنہ سے آوازِ کن کے ساتھ جب قلب ’’نامِ اللہ‘‘ کو عزت سے پڑھتا ہے تو نفس اُسے سن کر اسم اللہ  کی عظمت و ہیبت سے مطلق مر جاتا ہے اور سر سے قدم تک اُس کے ساتوں اندامِ وجود اسم اللہ کے نور سے جگمگا اُٹھتے ہیں اور اُس کے وجود سے جملہ کدورت و زنگار کے ظلمانی حجابات کی تمام تاریکی ختم ہو جاتی ہے - اِس کے بعد قلب روح سے متفق ہو جاتا ہے اور روح اسم اللہ کو ذوق شوق سے پڑھنے لگتی ہے جسے سن کر نفس اسم اللہ کے قہر و قدرت سے زندہ نہیں رہتا اور دائمی طور پر معرفت ِعیانی و دیدارِ ربانی کے فقرِ تمام سے مشرف رہتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا‘‘-پس نفس کا مرنا کیا ہے اورصاحب ِنفس زندہ کیسے رہتا ہے ؟ نفس کا مرنا یہ ہے کہ وہ خصائل ِبد سے رُک جاتا ہے اور مرتے دم تک بلکہ قبر میں پہنچنے تک گناہ سے پاک رہتا ہے -

ابیات:- (1) ’’ مَیں ازل سے ابد تک بے حجاب ہوں ، میری آنکھوں میں نیند ہرگز نہیں آتی‘‘- (2) ’’ جواپنی آنکھوں کو محو ِدیدار رکھتا ہے اُسے نیند نہیں آتی اور جو اپنی ہستی سے گزر جاتا ہے اُس کے لئے عذاب نہیں‘‘-(3)’’ ہماری نیند ذکر مذکور اور سوال و جواب ہے کہ اہل ِحضور کو نیند ہرگز نہیں آتی‘‘- (4)’’ ہماری نیند خلوتِ حضوری ہوتی ہے جس کی خاطر ہم سینکڑوں بار آنکھیں بند کرتے ہیں‘‘- (5)’’ جس کی چشمِ بصیرت بند ہو جائے وہ اندھا ہے، وہ کیا دیکھ سکتا ہے؟ وہ تو بیل گدھے کی مثل ہے‘‘- (6) ’’ مَیں مراتب ِبقا و لقا کو چشمِ عیان سے دیکھتا ہوں اِ س لئے میرا آنکھیں بند کرنا محض ایک بہانہ ہے‘‘-

جو عالم علم حاصل کر کے عالم باللہ ہو جائے اُسے مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری حاصل ہو جاتی ہے -جو فقیر معرفت حاصل کر کے مشرف ِدیدار ہو جائے اُسے بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری حاصل ہو جاتی ہے اور جو متقی علمِ تقویٰ حاصل کر لے اُسے بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری حاصل ہو جاتی ہے -

ابیات:-(1)’’اولیاء اللہ اِن مراتب ِعلم کی توفیق ایک ہی نظر میں عطا کر دیتے ہیں‘‘-

(2) ’’جس کا مرشد نہیں اُسے مردُود جان کہ وہ معرفت ِوحدت ِعیان سے بے خبر ہے‘‘-

مرشد مراتب ِعیان رکھتا ہے، وہ اپنی توجہ سے دونوں جہان کا آئینہ دکھا دیتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’عقل انسان کے اندر سوتی ہے، انسان انسان کا آئینہ ہے ، انسان ربّ کا آئینہ ہے‘‘-

ابیات: (1)’’ ایک حدیث میں آیا ہے کہ خوب دیدار کرو، جسے اِس بات پر یقین نہیں وہ کاذب خبیث ہے‘‘-(2)’’ عالم وہ ہے جو علم کو لقائے حق کی خاطر پڑھے نہ کہ لذات ِہوائے دنیا کی خاطر‘‘- (3)’’ اولیا ءاللہ مثل ِآفتاب قبر میں فیض رسانی کرتے ہیں ، جو بھی اُن کا نام لے کر اُنہیں پکارے وہ عیاں ہو کر حاضر ہو جاتے ہیں‘‘-(4) ’’ عارف فقیر اولیائے اللہ کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتاہے، اُسے یہ صفت قربِ خدا سے حاصل ہوتی ہے‘‘-

 

(جاری ہے)

علمِ تصوف کا عالم صاحب ِتقویٰ ہوتا ہے اور علمِ تقویٰ کے دو گواہ ہیں: اہل ِ تقویٰ کا کھانا نور اور خواب مشرفِ معرفت ِلقائے حضور ہوتا ہے-یہ دونوں عالمِ تقویٰ کے بال و پر ہوتے ہیں جن سے وہ جملہ مقاماتِ ذات و صفات کو پل بھر میں تحقیق کر کے ہر مردے کو زندہ کر سکتا ہے-متقی اہل ِتقویٰ وہ ہے جو اگر کلمہ طیب  ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کو مقامِ کنۂ کن سے پڑھ لے تو مملکت ِخداوندی کی کوئی چیزاُس سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی-فرمانِ حق تعالیٰ ہے -’’جو لوگ ذکر اللہ میں محو رہتے ہیں وہی لوگ انشا ء اللہ اہل ِتقوی و اہل ِمغفرت ہیں‘‘- علمِ تقویٰ علمِ تصور و تصرف کی طرح معرفت ِمشاہدۂ دیدار کی چابی ہے -تقویٰ مجاہدہ نہیں بلکہ حضورِ حق میں مشاہدۂ وصالِ لازوال ہے -یاد رکھیے کہ غلباتِ تصور سے تجلیاتِ نور و شوقِ تصرف ِحضور و تعطش ِ اشتیاق فراقِ ازلی فیض فضلی کے حرفِ توفیقِ توکل و صدقِ توحید و تصدیق ِتحقیق ِکنہ سے آوازِ کن کے ساتھ جب قلب ’’نامِ اللہ‘‘ کو عزت سے پڑھتا ہے تو نفس اُسے سن کر اسم اللہ  کی عظمت و ہیبت سے مطلق مر جاتا ہے اور سر سے قدم تک اُس کے ساتوں اندامِ وجود اسم اللہ کے نور سے جگمگا اُٹھتے ہیں اور اُس کے وجود سے جملہ کدورت و زنگار کے ظلمانی حجابات کی تمام تاریکی ختم ہو جاتی ہے - اِس کے بعد قلب روح سے متفق ہو جاتا ہے اور روح اسم اللہ کو ذوق شوق سے پڑھنے لگتی ہے جسے سن کر نفس اسم اللہ کے قہر و قدرت سے زندہ نہیں رہتا اور دائمی طور پر معرفت ِعیانی و دیدارِ ربانی کے فقرِ تمام سے مشرف رہتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا‘‘-پس نفس کا مرنا کیا ہے اورصاحب ِنفس زندہ کیسے رہتا ہے ؟ نفس کا مرنا یہ ہے کہ وہ خصائل ِبد سے رُک جاتا ہے اور مرتے دم تک بلکہ قبر میں پہنچنے تک گناہ سے پاک رہتا ہے -

ابیات:- (1) ’’ مَیں ازل سے ابد تک بے حجاب ہوں ، میری آنکھوں میں نیند ہرگز نہیں آتی‘‘- (2) ’’ جواپنی آنکھوں کو محو ِدیدار رکھتا ہے اُسے نیند نہیں آتی اور جو اپنی ہستی سے گزر جاتا ہے اُس کے لئے عذاب نہیں‘‘-(3)’’ ہماری نیند ذکر مذکور اور سوال و جواب ہے کہ اہل ِحضور کو نیند ہرگز نہیں آتی‘‘- (4)’’ ہماری نیند خلوتِ حضوری ہوتی ہے جس کی خاطر ہم سینکڑوں بار آنکھیں بند کرتے ہیں‘‘- (5)’’ جس کی چشمِ بصیرت بند ہو جائے وہ اندھا ہے، وہ کیا دیکھ سکتا ہے؟ وہ تو بیل گدھے کی مثل ہے‘‘- (6) ’’ مَیں مراتب ِبقا و لقا کو چشمِ عیان سے دیکھتا ہوں اِ س لئے میرا آنکھیں بند کرنا محض ایک بہانہ ہے‘‘-

جو عالم علم حاصل کر کے عالم باللہ ہو جائے اُسے مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری حاصل ہو جاتی ہے -جو فقیر معرفت حاصل کر کے مشرف ِدیدار ہو جائے اُسے بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری حاصل ہو جاتی ہے اور جو متقی علمِ تقویٰ حاصل کر لے اُسے بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائم حضوری حاصل ہو جاتی ہے -

ابیات:-(1)’’اولیاء اللہ اِن مراتب ِعلم کی توفیق ایک ہی نظر میں عطا کر دیتے ہیں‘‘-

(2) ’’جس کا مرشد نہیں اُسے مردُود جان کہ وہ معرفت ِوحدت ِعیان سے بے خبر ہے‘‘-

مرشد مراتب ِعیان رکھتا ہے، وہ اپنی توجہ سے دونوں جہان کا آئینہ دکھا دیتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’عقل انسان کے اندر سوتی ہے، انسان انسان کا آئینہ ہے ، انسان ربّ کا آئینہ ہے‘‘-

ابیات: (1)’’ ایک حدیث میں آیا ہے کہ خوب دیدار کرو، جسے اِس بات پر یقین نہیں وہ کاذب خبیث ہے‘‘-(2)’’ عالم وہ ہے جو علم کو لقائے حق کی خاطر پڑھے نہ کہ لذات ِہوائے دنیا کی خاطر‘‘- (3)’’ اولیا ءاللہ مثل ِآفتاب قبر میں فیض رسانی کرتے ہیں ، جو بھی اُن کا نام لے کر اُنہیں پکارے وہ عیاں ہو کر حاضر ہو جاتے ہیں‘‘-(4) ’’ عارف فقیر اولیائے اللہ کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتاہے، اُسے یہ صفت قربِ خدا سے حاصل ہوتی ہے‘‘-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر