ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Faith and world are real sisters were you not advised by your intellect Hoo

Both to be in ones marriage Sharia does not allow in fact Hoo

Same as fire and water cannot remain together without impact Hoo

Deprived in both worlds Bahoo is one whose claim from truth retract Hoo

Deen tay dunia sakiya’N bhyna’N tenu aqal nahi samjhenda Hoo

Dowai’N iks nikah wich Aawan tenu sharah nahi farmenda Hoo

Jewai’N ag tay pani tha’N ikay wich wasa nahi karenda Hoo

Dohe’N jahanee’N mutha Bahoo jeh’Ra dawa ko’R karenda Hoo

تشریح:

  (۱،۲)دین اوردُنیادو متضاد سمتیں ہے-ان میں سے اگرایک کواختیار کیاجائے تودوسری خود بخود چھوٹ جاتی ہے - آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں سگی بہنوں کی طرح ہیں اس لیے جیسے ایک مسلمان مرد کے لیے یہ شرعی طور پہ جائز نہیں کہ وہ دوسگی بہنوں کو ایک ہی وقت میں اپنے نکاح میں رکھے- بعینہٖ ایک آدمی کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ دونوں کو بیک وقت راضی رکھ سکے، یا دُنیا و اہلِ دُنیا راضی ہو سکتے ہیں یا اللہ کو راضی کیا جا سکتا ہے-گو کہ آخری فتح حق ہی کی ہے دُنیا بھی اُسی سے راضی ہو جاتی ہے جو پہلے اللہ پاک کو راضی کر لے، لیکن وقتی مشکلات اور آزمائشیں بیشمار ہوتی ہیں-اِس لئے انبیائے کرام کی زندگیاں یہی مثال پیش کرتی ہیں کہ انہوں نے دُنیا کی رضا پہ اللہ پاک کی رضا کو ترجیح دی، دُنیا والے جو کہتے رہے، جو طعنے دیتے رہے اور لفظوں کے جو بھی نشتر چلاتے رہے وہ اُن سب سے بے نیاز ہو کر مالک کی جانب لگے رہے-حضرت سُلطان العارفین یہاں طالبِ مولا کو اس جانب رغبت دلاتے ہیں کہ تو دُنیا و اہلِ دُنیا کی رضا پہ نہ جا بلکہ ’’سجدیوں سر ناں چائیے باھُو توڑے کافر کہن ہزاراں ھُو‘‘ کہ مالک کی جانب توجہ رکھ دُنیا کی باتوں، بتنگڑوں اور طعنوں سے بے نیاز ہو جا-دُنیا کی رضا اور مالک کی رضا اکٹھے حاصل نہیں کی جا سکتی-

 فقیر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حُبِ رضائے دُنیا میں گرفتار رہ کر خدا تعالیٰ سے محبت کا دم بھی بھرے-اگر طالبِ حق میں رتی برابر بھی عقل سلیم ہے تو آپ قدس اللہ سرہ کی پیش کردہ مثال سے یہ فہم آسانی سے اخذ کرے گا کہ دین اور دُنیا (یعنی رضائے الٰہی اور رضائے دُنیا) مخالف سمتوں میں واقع ہیں اوران مخالف راہوں پہ بیک وقت سفر کرنا ممکن نہیں ہے-

(۳)آپ قدس اللہ سرہ  مذکورہ امر پہ حدیث شریف کے رُو سے مزید دلائل دیتے ہیں کہ انسان کادل ایک برتن کی مانند ہے اورجیسے ایک برتن میں بیک وقت آگ اورپانی جیسے متضاد عناصر جمع نہیں کیے جاسکتے بعینہٖ ایک دل میں ایک ہی وقت میں حُبِّ دین اور دُنیا کی محبت اکھٹی نہیں سما سکتی -آپ قدس اللہ سرہ ایک حدیث  پاک نقل فرماتے ہیں کہ :-

’’ حُبُّ الدُّ نْیَا وَ الدِّ یْنِ لَایَسْعَانِ فِیْ قَلْبُ  الْمُؤْمِنِ کَالْمَآئِ وَالنَّارِ فِیْ اِنَآئٍ وَّاحِدٍ‘‘-[1]

 

’’ایک ہی دل میں دین و دنیا جمع نہیں ہو سکتے جس طرح کہ آگ اور پانی ایک ہی برتن میں جمع نہیں ہوتے‘‘-

آپ قدس اللہ سرہٗ اُن نام نہاد اہل فقر کی پارسائی کابھی ردّ فرماتے ہیں کہ جنہیں کوشش کے باوصف دُنیا و رضائے اہلِ دُنیا ہاتھ نہیں آتی تو وہ عامۃ الناس میں خود کو تارکِ دُنیا مشہور کرلیتے ہیں-جبکہ فقیر کامل کو یہ تصرف حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو دُنیا اُس کے گھر کی باندی بن جائے-ایسافقیر اگر چاہے تو خاک وسنگریزوں پہ نگاہ کرکے انہیں اپنی روحانی قوت سے سونے میں بدل دے اور چاہے تو ملک سلیمانی جیسی سلطنت پہ بادشاہت قائم کرلے-آفرین ہے ایسے فقیر پہ کہ جسے ان گنت تصرفات حاصل ہوتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول میں مگن رہتا ہے -اُن فقراء کاحال اسوۂ حسنہ کے مطابق ہے کہ اگر آقاعلیہ الصلوٰہ والسلام چاہتے تو اُحد پہاڑ سونے کابن کر آپ (ﷺ) کے ساتھ ساتھ چلتا، اگر آپ (ﷺ)چاہتے تو سردارانِ عرب اسلام کی دعوت ترک کرنے کے بدلے عرب کی سرداری اور مال و دولت آپ (ﷺ)کو پیش کرتے-فقیر بھی سُنّتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے مطابق لوگوں کی پیشکشوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور حالات کے قدموں میں نہیں بیٹھتابلکہ ایک وقت آتا ہے جب حالات اُس کے قدموں کی جنبش کے منتظر ہوتے ہیں اُس کے پاس ’’ورنہ بخشم ملکے تو با دیگرے‘‘ کا اِختیار آ جاتا ہے -

(۴)آخری مصرعہ آپ قدس اللہ سرہٗ نے واشگاف الفاظ میں اُن لوگوں کے دعوٰی کو باطل قرار دیا کہ جو اہلِ دُنیا کے طعنوں کے خوف سے اپنی باطنی ذِمّہ داریاں ادا کرنی ترک کر دیں اور رضائے الٰہی پہ رضائے اہلِ دُنیا کو ترجیح دیں مگر دعویٰ فقیری اور شیخی مشائخی کا کریں -آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ ایسا باطل دعوٰی کرنے والے دونوں جہان میں اپنا خانہ خراب کر بیٹھتے ہیں-

 



[1](عین الفقر)

 

تشریح:

(۱،۲)دین اوردُنیادو متضاد سمتیں ہے-ان میں سے اگرایک کواختیار کیاجائے تودوسری خود بخود چھوٹ جاتی ہے - آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں سگی بہنوں کی طرح ہیں اس لیے جیسے ایک مسلمان مرد کے لیے یہ شرعی طور پہ جائز نہیں کہ وہ دوسگی بہنوں کو ایک ہی وقت میں اپنے نکاح میں رکھے- بعینہٖ ایک آدمی کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ دونوں کو بیک وقت راضی رکھ سکے، یا دُنیا و اہلِ دُنیا راضی ہو سکتے ہیں یا اللہ کو راضی کیا جا سکتا ہے-گو کہ آخری فتح حق ہی کی ہے دُنیا بھی اُسی سے راضی ہو جاتی ہے جو پہلے اللہ پاک کو راضی کر لے، لیکن وقتی مشکلات اور آزمائشیں بیشمار ہوتی ہیں-اِس لئے انبیائے کرام کی زندگیاں یہی مثال پیش کرتی ہیں کہ انہوں نے دُنیا کی رضا پہ اللہ پاک کی رضا کو ترجیح دی، دُنیا والے جو کہتے رہے، جو طعنے دیتے رہے اور لفظوں کے جو بھی نشتر چلاتے رہے وہ اُن سب سے بے نیاز ہو کر مالک کی جانب لگے رہے-حضرت سُلطان العارفین یہاں طالبِ مولا کو اس جانب رغبت دلاتے ہیں کہ تو دُنیا و اہلِ دُنیا کی رضا پہ نہ جا بلکہ ’’سجدیوں سر ناں چائیے باھُو توڑے کافر کہن ہزاراں ھُو‘‘ کہ مالک کی جانب توجہ رکھ دُنیا کی باتوں، بتنگڑوں اور طعنوں سے بے نیاز ہو جا-دُنیا کی رضا اور مالک کی رضا اکٹھے حاصل نہیں کی جا سکتی-

 فقیر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حُبِ رضائے دُنیا میں گرفتار رہ کر خدا تعالیٰ سے محبت کا دم بھی بھرے-اگر طالبِ حق میں رتی برابر بھی عقل سلیم ہے تو آپ قدس اللہ سرہ کی پیش کردہ مثال سے یہ فہم آسانی سے اخذ کرے گا کہ دین اور دُنیا (یعنی رضائے الٰہی اور رضائے دُنیا) مخالف سمتوں میں واقع ہیں اوران مخالف راہوں پہ بیک وقت سفر کرنا ممکن نہیں ہے-

(۳)آپ قدس اللہ سرہ  مذکورہ امر پہ حدیث شریف کے رُو سے مزید دلائل دیتے ہیں کہ انسان کادل ایک برتن کی مانند ہے اورجیسے ایک برتن میں بیک وقت آگ اورپانی جیسے متضاد عناصر جمع نہیں کیے جاسکتے بعینہٖ ایک دل میں ایک ہی وقت میں حُبِّ دین اور دُنیا کی محبت اکھٹی نہیں سما سکتی -آپ قدس اللہ سرہ ایک حدیث  پاک نقل فرماتے ہیں کہ :-

’’ حُبُّ الدُّ نْیَا وَ الدِّ یْنِ لَایَسْعَانِ فِیْ قَلْبُ  الْمُؤْمِنِ کَالْمَآئِ وَالنَّارِ فِیْ اِنَآئٍ وَّاحِدٍ‘‘-[1]

 

’’ایک ہی دل میں دین و دنیا جمع نہیں ہو سکتے جس طرح کہ آگ اور پانی ایک ہی برتن میں جمع نہیں ہوتے‘‘-

آپ قدس اللہ سرہٗ اُن نام نہاد اہل فقر کی پارسائی کابھی ردّ فرماتے ہیں کہ جنہیں کوشش کے باوصف دُنیا و رضائے اہلِ دُنیا ہاتھ نہیں آتی تو وہ عامۃ الناس میں خود کو تارکِ دُنیا مشہور کرلیتے ہیں-جبکہ فقیر کامل کو یہ تصرف حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو دُنیا اُس کے گھر کی باندی بن جائے-ایسافقیر اگر چاہے تو خاک وسنگریزوں پہ نگاہ کرکے انہیں اپنی روحانی قوت سے سونے میں بدل دے اور چاہے تو ملک سلیمانی جیسی سلطنت پہ بادشاہت قائم کرلے-آفرین ہے ایسے فقیر پہ کہ جسے ان گنت تصرفات حاصل ہوتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول میں مگن رہتا ہے -اُن فقراء کاحال اسوۂ حسنہ کے مطابق ہے کہ اگر آقاعلیہ الصلوٰہ والسلام چاہتے تو اُحد پہاڑ سونے کابن کر آپ (ﷺ) کے ساتھ ساتھ چلتا، اگر آپ (ﷺ)چاہتے تو سردارانِ عرب اسلام کی دعوت ترک کرنے کے بدلے عرب کی سرداری اور مال و دولت آپ (ﷺ)کو پیش کرتے-فقیر بھی سُنّتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے مطابق لوگوں کی پیشکشوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور حالات کے قدموں میں نہیں بیٹھتابلکہ ایک وقت آتا ہے جب حالات اُس کے قدموں کی جنبش کے منتظر ہوتے ہیں اُس کے پاس ’’ورنہ بخشم ملکے تو با دیگرے‘‘ کا اِختیار آ جاتا ہے -

(۴)آخری مصرعہ آپ قدس اللہ سرہٗ نے واشگاف الفاظ میں اُن لوگوں کے دعوٰی کو باطل قرار دیا کہ جو اہلِ دُنیا کے طعنوں کے خوف سے اپنی باطنی ذِمّہ داریاں ادا کرنی ترک کر دیں اور رضائے الٰہی پہ رضائے اہلِ دُنیا کو ترجیح دیں مگر دعویٰ فقیری اور شیخی مشائخی کا کریں -آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ ایسا باطل دعوٰی کرنے والے دونوں جہان میں اپنا خانہ خراب کر بیٹھتے ہیں-



[1](عین الفقر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر