ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

دل کالے کولوں منہ کالا چنگا جے کوئی اس نوں جانے ھو

منہ کالادل اچھا ہووے تاں دل یار پچھانے ھو

ایہہ دل یار دے پچھے ہووے متاں یار وی کدی پچھانے ھو

سے عالم چھوڑ مسیتاں نٹھے باھو جد لگے نیں دل ٹکانے ھو (ابیات باھو)

Blackened face is better than darkened heart so that people recognise Hoo

When face blackened and heart is fine such heart beloved recognises Hoo

If this heart is in pursuit of beloved perhaps beloved might familiarise Hoo

Hundreds of scholar skipped masjids Bahoo when vision of inner testifies Hoo

Dill   kalay kolo’N munh kala changa jay koi is no’N janay Hoo

Munh kala dill acha howay ta’N dill yaar pechanay Hoo

Aeh dill yaar day pichay howay mata’N yaar wi kaddi pechanay Hoo

Sai aalim choR maseeta’N naThay Bahoo jad lagay nay dill Thikanay Hoo

تشریح:

رو سیاہی بہتر است از دل سیاہ

 

دل سیاہی حُبِّ دنیا سر گناہ[1]

’’سیاہ دلی سے رُوسیا ہی بہتر ہے کہ سیاہ دلی حُبّ ِ دنیا کا نتیجہ ہے جو سر اسر گناہ ہے‘‘-

(۱)حبِ دُنیا دل کی سیاہی ہے-جب حبِ دُنیا کسی انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑتی ہے تو اُس کے دل کوسیاہ کردیتی ہے-ایساانسان اگروجیہہ اورحسین بھی ہو تب بھی اُس کی ظاہری خوبصورتی اللہ تعالیٰ کے ہاں نری بے وُقعت ہوگی-اِس کے برعکس ایک واجبی شکل والا انسان اگر منظورِ نظر دِل کامالک ہو تو ایسے انسان کو دونوں جہان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:-

ہر کہ این جائی نہ بیند بی نصیب
روئی سیاہ بہ بود از دل سیاہ

 

بی خبر از معرفت اہل از رقیب
دل سیاہ شد ز دُنیا عزّ و جاہ[2]

’’جس نے یہاں اُس کا دیدار نہیں کیا وہ بے نصیب رہا اور جو اُس کی معرفت سے بے خبر رہا اُس کا شمار رقیبوں میں ہوا-چہرے کی سیاہی دل کی سیاہی سے بہتر ہے اور دل کی سیاہی دنیوی عزو جاہ کی چاہت سے پیدا ہوتی ہے‘‘-

’’ذکر ِ’’اللہ‘‘وہ عمل ہے جوذوقِ اِلٰہی کی توفیق بخشتا ہے ، معصیت و بدعت و گمراہی سے پاک کرتا ہے،طریقت و حقیقت و معرفت کی خبر و تحقیق سے آگاہی بخشتا ہے اور دل سے حُبّ ِ دنیا کی میل کچیل و کدورت و سیاہی دور کرتا ہے ‘‘[3]-

(۲)’’عرفانِ ذات کے لیے منظورِ نظر دِل درکار ہوتا ہے -طالبِ مولیٰ بھلے خوش شکل نہ بھی ہو لیکن اگر اُس کادل ہمہ وقت اسم اللہ ذات سے منور ہو اورنورِ نبوت کے مدِ نظرہو تو وہ ضرور قربِ خداوندی کاسزاوار ہوتاہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ)منظورِ نظر دل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

      ’’دل نظر ِاللہ تعالیٰ میں منظور ہے- منظورِ نظر دل کی پہچان کیا ہے؟ منظورِ نظر دل وہ ہے جو پُر درد،صاحب ِحضور، طالب ِموت، شکستہ خاطر، صراط ِمستقیم پر گامزن،                اشتغال اللہ میں محو، توحید ِربّ ِقدیم میں غرق اور ناشائستہ کارہائے شیطان ِ رجیم سے بیزار ہو‘‘-[4]

      ’’جان لے کہ دل گھرکی مثل ہے،ایک نوری گھر جوہمیشہ نگاہِ اِلٰہی میں منظور رہتا ہے، دل کے اِس گھرمیں نورِ معرفت کے سات خزانے بھرے ہوئے ہیں، ایک خزانہ              اِیمان ہے، دوسرا خزانہ علم ہے، تیسرا خزانہ تصدیق ہے، چوتھا خزانہ توفیق ہے، پانچواں خزانہ محبت ہے، چھٹا خزانہ فقر ہے اور ساتواں خزانہ معرفت ِتوحید ِ اِلٰہی ہے‘‘-[5]

(۳)’’جو دل اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ہو وہ اللہ تعالیٰ کی دو اُنگلیوں کے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے، ایک انگشت ِجلالی کہ جب مؤمن فقیر کے وجود میں جلالیت پیدا ہوتی ہے تو اُس کے اثر سے وجود میں سکر صحو قبض بسط ذکر فکر مراقبہ اورکشف کرامات کا ظہور ہوتا ہے‘‘-[6]

ایسا فقیر بندگی کے کمال کو ضرور پہنچتا ہے کہ جس کادِل ہمیشہ قربِ حق تعالیٰ کی لگن اورکسک میں بے چین رہے-آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ:

اوْلیا را نیست غم نور الہدیٰ
الٰہی از معرفتِ توحید دل آباد کُن

 

دل سیاہی مردہ دم برباد کُن
با تجلّیٔ نور دل را شاد کُن[7]

      الٰہی ! تیرے دوست تو ایسے حجابات سے بے غم ہیں کہ وہ خود نورِ ہدایت ہیں ، پس تُو مجھے بھی سیاہ دلی اور مردہ دمی سے نجات بخش دے -اِلٰہی ! میرے دل کو معرفت ِتوحید           سے آباد کر دے اور اپنے نور کی تجلیات سے میرا دل شاد کر دے -

(۴) مرشد کی نگاہِ کرم سے دِل سے قربِ حق کے جلوے پالیتا ہے تو عابد اپنی عبادت پہ بھروسہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور زاہد اپنے زہد پہ انحصارکرنا چھوڑ دیتاہے کیونکہ وہ جان لیتے ہیں کہ عرفانِ ذات کامرتبہ محض عطائے خداوندی ہے جس کاکسب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- 

 



[1](کلیدالتوحید:201)

[2](امیرالکونین:75)

[3](محک الفقر:157)

[4](عین الفقر:205)

[5](کلیدالتوحید:351)

[6](امیر الکونین:411)

[7](محک الفقر:177)

دل کالے کولوں منہ کالا چنگا جے کوئی اس نوں جانے ھو
منہ کالادل اچھا ہووے تاں دل یار پچھانے ھو
ایہہ دل یار دے پچھے ہووے متاں یار وی کدی پچھانے ھو
سے عالم چھوڑ مسیتاں نٹھے باھو جد لگے نیں دل ٹکانے ھو
 (ابیات باھو)

 

Blackened face is better than darkened heart so that people recognise Hoo

When face blackened and heart is fine such heart beloved recognises Hoo

If this heart is in pursuit of beloved perhaps beloved might familiarise Hoo

Hundreds of scholar skipped masjids Bahoo when vision of inner testifies Hoo

Dill kalay kolo’N munh kala changa jay koi is no’N janay Hoo

Munh kala dill acha howay ta’N dill yaar pechanay Hoo

Aeh dill yaar day pichay howay mata’N yaar wi kaddi pechanay Hoo

Sai aalim choR maseeta’N naThay Bahoo jad lagay nay dill Thikanay Hoo

ooo

تشریح:

رو سیاہی بہتر است از دل سیاہ

 

دل سیاہی حُبِّ دنیا سر گناہ[1]

’’سیاہ دلی سے رُوسیا ہی بہتر ہے کہ سیاہ دلی حُبّ ِ دنیا کا نتیجہ ہے جو سر اسر گناہ ہے‘‘-

(۱)حبِ دُنیا دل کی سیاہی ہے-جب حبِ دُنیا کسی انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑتی ہے تو اُس کے دل کوسیاہ کردیتی ہے-ایساانسان اگروجیہہ اورحسین بھی ہو تب بھی اُس کی ظاہری خوبصورتی اللہ تعالیٰ کے ہاں نری بے وُقعت ہوگی-اِس کے برعکس ایک واجبی شکل والا انسان اگر منظورِ نظر دِل کامالک ہو تو ایسے انسان کو دونوں جہان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:-

ہر کہ این جائی نہ بیند بی نصیب
روئی سیاہ بہ بود از دل سیاہ

 

بی خبر از معرفت اہل از رقیب
دل سیاہ شد ز دُنیا عزّ و جاہ[2]

’’جس نے یہاں اُس کا دیدار نہیں کیا وہ بے نصیب رہا اور جو اُس کی معرفت سے بے خبر رہا اُس کا شمار رقیبوں میں ہوا-چہرے کی سیاہی دل کی سیاہی سے بہتر ہے اور دل کی سیاہی دنیوی عزو جاہ کی چاہت سے پیدا ہوتی ہے‘‘-

’’ذکر ِ’’اللہ‘‘وہ عمل ہے جوذوقِ اِلٰہی کی توفیق بخشتا ہے ، معصیت و بدعت و گمراہی سے پاک کرتا ہے،طریقت و حقیقت و معرفت کی خبر و تحقیق سے آگاہی بخشتا ہے اور دل سے حُبّ ِ دنیا کی میل کچیل و کدورت و سیاہی دور کرتا ہے ‘‘[3]-

(۲)’’عرفانِ ذات کے لیے منظورِ نظر دِل درکار ہوتا ہے -طالبِ مولیٰ بھلے خوش شکل نہ بھی ہو لیکن اگر اُس کادل ہمہ وقت اسم اللہ ذات سے منور ہو اورنورِ نبوت کے مدِ نظرہو تو وہ ضرور قربِ خداوندی کاسزاوار ہوتاہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ)منظورِ نظر دل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

      ’’دل نظر ِاللہ تعالیٰ میں منظور ہے- منظورِ نظر دل کی پہچان کیا ہے؟ منظورِ نظر دل وہ ہے جو پُر درد،صاحب ِحضور، طالب ِموت، شکستہ خاطر، صراط ِمستقیم پر گامزن،                اشتغال اللہ میں محو، توحید ِربّ ِقدیم میں غرق اور ناشائستہ کارہائے شیطان ِ رجیم سے بیزار ہو‘‘-[4]

      ’’جان لے کہ دل گھرکی مثل ہے،ایک نوری گھر جوہمیشہ نگاہِ اِلٰہی میں منظور رہتا ہے، دل کے اِس گھرمیں نورِ معرفت کے سات خزانے بھرے ہوئے ہیں، ایک خزانہ              اِیمان ہے، دوسرا خزانہ علم ہے، تیسرا خزانہ تصدیق ہے، چوتھا خزانہ توفیق ہے، پانچواں خزانہ محبت ہے، چھٹا خزانہ فقر ہے اور ساتواں خزانہ معرفت ِتوحید ِ اِلٰہی ہے‘‘-[5]

(۳)’’جو دل اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ہو وہ اللہ تعالیٰ کی دو اُنگلیوں کے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے، ایک انگشت ِجلالی کہ جب مؤمن فقیر کے وجود میں جلالیت پیدا ہوتی ہے تو اُس کے اثر سے وجود میں سکر صحو قبض بسط ذکر فکر مراقبہ اورکشف کرامات کا ظہور ہوتا ہے‘‘-[6]

ایسا فقیر بندگی کے کمال کو ضرور پہنچتا ہے کہ جس کادِل ہمیشہ قربِ حق تعالیٰ کی لگن اورکسک میں بے چین رہے-آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ:

اوْلیا را نیست غم نور الہدیٰ
الٰہی از معرفتِ توحید دل آباد کُن

 

دل سیاہی مردہ دم برباد کُن
با تجلّیٔ نور دل را شاد کُن[7]

      الٰہی ! تیرے دوست تو ایسے حجابات سے بے غم ہیں کہ وہ خود نورِ ہدایت ہیں ، پس تُو مجھے بھی سیاہ دلی اور مردہ دمی سے نجات بخش دے -اِلٰہی ! میرے دل کو معرفت ِتوحید           سے آباد کر دے اور اپنے نور کی تجلیات سے میرا دل شاد کر دے -

(۴) مرشد کی نگاہِ کرم سے دِل سے قربِ حق کے جلوے پالیتا ہے تو عابد اپنی عبادت پہ بھروسہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور زاہد اپنے زہد پہ انحصارکرنا چھوڑ دیتاہے کیونکہ وہ جان لیتے ہیں کہ عرفانِ ذات کامرتبہ محض عطائے خداوندی ہے جس کاکسب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- 



[1](کلیدالتوحید:201)

[2](امیرالکونین:75)

[3](محک الفقر:157)

[4](عین الفقر:205)

[5](کلیدالتوحید:351)

[6](امیر الکونین:411)

[7](محک الفقر:177)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر