ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Heart is river of Khidr’s (as) tidal waves with thousands of whirlpools in it Hoo

Thoughts remain within imaginations countess and infinite Hoo

Firstly I am foreigner and secondly I fell in love thirdly sufferings of innocence’s infest Hoo

I have forgotten all laughs and puns Bahoo when Ishq made me feel its zest Hoo

Dil darya Khawaja diyaa’N lehraa’N ghumman ghair hzaraa’N Hoo

Raihan dililaa’N wich fikr day bay hadd bay shumaraa’N Hoo

Hikh pardesi doja neuh lag gua tareha bay samghi diyaa’N maraa’N Hoo

Hssan khidhan sabh bhuliya Bahoo jad ishq chunghayiaa’N dharaa’N Hoo  (Translated by: M.A.Khan)

تشریح: 

دِل اللہ تعالیٰ کےا سرار میں سے ایک بڑا راز ہے-جس نے اپنے دل کی حقیقت کوپالیا تو وہ معرفتِ ذات کے مراتب تک جاپہنچا -مقامِ رُوحانیت کی مثال ایک عجیب قسم کے دریا کی ہے کہ جس میں ایک طرف رُوحانی موجیں طوفان برپا کرتی ہیں تو دوسری جانب کشف وکرامات کے خطرناک بھنور بھی انہیں سے پیدا ہوتے ہیں-سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:’’جو طالب بھی خراب ہوتا ہے طریقت ہی کے بھنور میں آکر خراب ہوتا ہے کہ طریقت میں شدید سکر پیدا ہوتا ہے-دورانِ طریقت کوئی تو کشف و کرامات میں اُلجھ کر اپنی راہ مار بیٹھتا ہے،کوئی مقامات و درجات کی طیر سیر میں غرق ہو جاتا ہے،کوئی حیر ت ِسکر کا شکار ہو جاتا ہے،کوئی گرمی ذکر اللہ سے جل کر مجذوب ہو جاتا ہے،کسی کو وسوسہ و خطرات و خناس وخرطوم گھیر لیتے ہیں،کوئی بے ہوشی و دیوانگی کا شکار ہو کر گھر بار سے بیزار و تارکِ نماز ہو جاتا ہے،کوئی جذبِ جلالی و جذب ِجمالی میں گرفتار ہو جاتا ہے،کوئی جذب ِطریقت سے دیوانہ ہو کر دریا میں ڈوب مرتا ہے،کوئی گلے میں پھندا ڈال کر درختوں سے لٹک کر مرجاتا ہے اور کوئی صحرا میں نکل جاتا ہے اور بھوک و پیاس سے مر جاتا ہے‘‘[1]-خضر صفت رہبر کامل رحمت کی موج کی مثل ہوتاہے جو طالب کی کشتی کو حفاظت کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں رکھتاہے- سورۃ الکہف میں حضرت خضر علیہ السلام اورحضرت موسیٰ علیہ اسلام کے واقعہ سے طالب اور مرشد کے کردار کی وضاحت ہوتی ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ :-

سیماب را کشتہ کند کامل نظر

 

نظرِ کامل بہ بود نظر از خضر

 ’’کامل کی نظر پارے کو کشتہ بنا دیتی ہے کیونکہ کامل کی نظر خضر(علیہ السلام)کی نظر سے بڑھ کر مؤثر ہوتی ہے‘‘[2]-

طالبی  بر دم  قدم  اثبات  تر

 

طالبی موسیٰ بود  مرشد  خضر

’’طالب کو چاہیے کہ وہ ہر دم ثابت قدم رہے- طالب و مرشد کو موسیٰ و خضر (علیہم السلام)صفت ہونا چاہیے‘‘[3]-

(۲) اس دوسرے مصرعہ پہ حضرت سُلطان العارفین کی تصنیف محک الفقر کی یہ دو عبارات صادق آتی ہیں : ’’اِس کا تعلق ذکر مذکور سے نہیں بلکہ محض عطائے اِلٰہی حضور سے ہے-اِس قسم کا اِستغراقِ حضور جس کسی کو نصیب ہوتا ہے اُسے ذکر مذکور یاد نہیں رہتے کہ صاحب ِحضور کے لئے ذکر ِحضور اور ہے، مراقبۂ حضور اور ہے، دلیل ِحضور اور ہے، تصورِ حضور اور ہے ، توجۂ حضور اور ہے ، وہمِ حضور اور ہے ، فہم حضور اور ہے ، خیالِ حضور اور ہے اور مشاہدۂ نور اللہ وصال اور ہے‘‘[4]-

’’معیت ِ ذاتِ حق کا یہی وہ دائمی اِستغراق ہے جو عارفانِ حق تعالیٰ کا مقصودِ کلی ہے بلکہ اِس مقام پر تو توجہّ و تفکر و دلیل و عقل و وہم و خیال و مراقبہ اور ظاہری علم وغیرہ تمام حجابات ہیں کیونکہ عارف باللہ دو حالتوں سے ہرگز خالی نہیں ہوتا،یا تو وہ غرقِ وحدت ہو کر شوقِ اِلٰہی میں مسرور رہتا ہے یا وہ ہر وقت مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں حاضر رہتا ہے‘‘[5]-

 (۳)’’طالب مولیٰ فقیر اس حقیقت کوجان لیتا ہے کہ اُس کی زندگی عارضی مقام ہے اوروہ اس کمرۂ امتحان (دُنیا)میں غریب الدیار ہے -اُس کااصلی وطن عالم ذات باری تعالیٰ ہے اوراُس کامحبوب قادرمطلق ہے -اس لیے وِصالِ محبوب کے بغیر وہ اِس دُنیا میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے-اس عالمِ دیوانگی میں ناسمجھوں جیسی حرکات کرتا ہے تاوقتیکہ مرشد کامل اُس کاہاتھ تھام لے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :جان  لے کہ بعض فقرأ ایسے ہیں جو کہیں بھی مستقل قیام نہیں رکھتے ، وہ ہمیشہ سیر و سفر میں رہتے ہیں اور کہیں بھی آرام و جمعیت اور سکون و قرار سے نہیں رہتے خواہ کوئی اُن کی ہزار دلداری و غم خواری کرے یا نذر و نیاز سے اُن کی خدمت کرے- وہ ہر جگہ مسافروں کی طرح پریشان حال رہتے ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے اُنس رکھتے ہیں اور غیر اللہ سے وحشت کھاتے ہیں ،اُن کے کانوں میں ’’ فَفِرُّوْااِلَی اللہِ ‘‘[6](پس دوڑواللہ کی طرف ) کی آواز گونجتی رہتی ہے اور اُن کی نظر معرفت  الٰہی پرلگی رہتی ہے-جس طرح ذرّہ آفتاب کے مدّ ِنظر ہو کر بے قرار رہتا ہے اُسی طرح عارفانِ اِلٰہی بھی اللہ کے مدّ ِ نظر ہو کر خَلق سے فرار اختیار کرتے ہیں-یاد رہے کہ اُن پر شوق و محبت اور معرفت ِ الٰہی کا غلبہ ہوتا ہے ، اُن کا مکان لا مکان بن جاتاہے ، اُن کی جان اُس جہان میں ہوتی ہے اور جسم پریشان ہوتا ہے ‘‘[7]-

(۴) جب عشق الٰہی طالب مولی کے دِل میں جاگزین ہوجاتاہے تو اُس پہ زندگی کے وہ حقائق آشکار ہوتے ہیں جو کہ دوسروں سے پوشید ہ رہتے ہیں-اِس لیے دُنیَوی راحتیں فقیر کے لیے بے معنی ہوجاتی ہیں-

 



(عین الفقر، ص:۳۵۵)[1]

(نور الہدیٰ،ص:۳۷۷)[2]

(نورالہدیٰ،ص:۵۳۷)[3]

(محک الفقر:ص:۱۰۱)[4]

(محک الفقر، ص:۹۳)[5]

(الذاریات:۵۰)[6]

(محک الفقر،ص:۱۱۷)[7]

تشریح:

دِل اللہ تعالیٰ کےا سرار میں سے ایک بڑا راز ہے-جس نے اپنے دل کی حقیقت کوپالیا تو وہ معرفتِ ذات کے مراتب تک جاپہنچا -مقامِ رُوحانیت کی مثال ایک عجیب قسم کے دریا کی ہے کہ جس میں ایک طرف رُوحانی موجیں طوفان برپا کرتی ہیں تو دوسری جانب کشف وکرامات کے خطرناک بھنور بھی انہیں سے پیدا ہوتے ہیں-سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:’’جو طالب بھی خراب ہوتا ہے طریقت ہی کے بھنور میں آکر خراب ہوتا ہے کہ طریقت میں شدید سکر پیدا ہوتا ہے-دورانِ طریقت کوئی تو کشف و کرامات میں اُلجھ کر اپنی راہ مار بیٹھتا ہے،کوئی مقامات و درجات کی طیر سیر میں غرق ہو جاتا ہے،کوئی حیر ت ِسکر کا شکار ہو جاتا ہے،کوئی گرمی ذکر اللہ سے جل کر مجذوب ہو جاتا ہے،کسی کو وسوسہ و خطرات و خناس وخرطوم گھیر لیتے ہیں،کوئی بے ہوشی و دیوانگی کا شکار ہو کر گھر بار سے بیزار و تارکِ نماز ہو جاتا ہے،کوئی جذبِ جلالی و جذب ِجمالی میں گرفتار ہو جاتا ہے،کوئی جذب ِطریقت سے دیوانہ ہو کر دریا میں ڈوب مرتا ہے،کوئی گلے میں پھندا ڈال کر درختوں سے لٹک کر مرجاتا ہے اور کوئی صحرا میں نکل جاتا ہے اور بھوک و پیاس سے مر جاتا ہے‘‘[1]-خضر صفت رہبر کامل رحمت کی موج کی مثل ہوتاہے جو طالب کی کشتی کو حفاظت کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں رکھتاہے- سورۃ الکہف میں حضرت خضر علیہ السلام اورحضرت موسیٰ علیہ اسلام کے واقعہ سے طالب اور مرشد کے کردار کی وضاحت ہوتی ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ :-

سیماب را کشتہ کند کامل نظر

 

نظرِ کامل بہ بود نظر از خضر

’’کامل کی نظر پارے کو کشتہ بنا دیتی ہے کیونکہ کامل کی نظر خضر(علیہ السلام)کی نظر سے بڑھ کر مؤثر ہوتی ہے‘‘[2]-

طالبی  بر دم  قدم  اثبات  تر

 

طالبی موسیٰ بود  مرشد  خضر

’’طالب کو چاہیے کہ وہ ہر دم ثابت قدم رہے- طالب و مرشد کو موسیٰ و خضر (﷩)صفت ہونا چاہیے‘‘[3]-

(۲) اس دوسرے مصرعہ پہ حضرت سُلطان العارفین کی تصنیف محک الفقر کی یہ دو عبارات صادق آتی ہیں : ’’اِس کا تعلق ذکر مذکور سے نہیں بلکہ محض عطائے اِلٰہی حضور سے ہے-اِس قسم کا اِستغراقِ حضور جس کسی کو نصیب ہوتا ہے اُسے ذکر مذکور یاد نہیں رہتے کہ صاحب ِحضور کے لئے ذکر ِحضور اور ہے، مراقبۂ حضور اور ہے، دلیل ِحضور اور ہے، تصورِ حضور اور ہے ، توجۂ حضور اور ہے ، وہمِ حضور اور ہے ، فہم حضور اور ہے ، خیالِ حضور اور ہے اور مشاہدۂ نور اللہ وصال اور ہے‘‘[4]-

’’معیت ِ ذاتِ حق کا یہی وہ دائمی اِستغراق ہے جو عارفانِ حق تعالیٰ کا مقصودِ کلی ہے بلکہ اِس مقام پر تو توجہّ و تفکر و دلیل و عقل و وہم و خیال و مراقبہ اور ظاہری علم وغیرہ تمام حجابات ہیں کیونکہ عارف باللہ دو حالتوں سے ہرگز خالی نہیں ہوتا،یا تو وہ غرقِ وحدت ہو کر شوقِ اِلٰہی میں مسرور رہتا ہے یا وہ ہر وقت مجلس ِمحمدی (ﷺ) میں حاضر رہتا ہے‘‘[5]-

 (۳)’’طالب مولیٰ فقیر اس حقیقت کوجان لیتا ہے کہ اُس کی زندگی عارضی مقام ہے اوروہ اس کمرۂ امتحان (دُنیا)میں غریب الدیار ہے -اُس کااصلی وطن عالم ذات باری تعالیٰ ہے اوراُس کامحبوب قادرمطلق ہے -اس لیے وِصالِ محبوب کے بغیر وہ اِس دُنیا میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے-اس عالمِ دیوانگی میں ناسمجھوں جیسی حرکات کرتا ہے تاوقتیکہ مرشد کامل اُس کاہاتھ تھام لے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :جان  لے کہ بعض فقرأ ایسے ہیں جو کہیں بھی مستقل قیام نہیں رکھتے ، وہ ہمیشہ سیر و سفر میں رہتے ہیں اور کہیں بھی آرام و جمعیت اور سکون و قرار سے نہیں رہتے خواہ کوئی اُن کی ہزار دلداری و غم خواری کرے یا نذر و نیاز سے اُن کی خدمت کرے- وہ ہر جگہ مسافروں کی طرح پریشان حال رہتے ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے اُنس رکھتے ہیں اور غیر اللہ سے وحشت کھاتے ہیں ،اُن کے کانوں میں ’’ فَفِرُّوْااِلَی اللہِ ‘‘[6](پس دوڑواللہ کی طرف ) کی آواز گونجتی رہتی ہے اور اُن کی نظر معرفت  الٰہی پرلگی رہتی ہے-جس طرح ذرّہ آفتاب کے مدّ ِنظر ہو کر بے قرار رہتا ہے اُسی طرح عارفانِ اِلٰہی بھی اللہ کے مدّ ِ نظر ہو کر خَلق سے فرار اختیار کرتے ہیں-یاد رہے کہ اُن پر شوق و محبت اور معرفت ِ الٰہی کا غلبہ ہوتا ہے ، اُن کا مکان لا مکان بن جاتاہے ، اُن کی جان اُس جہان میں ہوتی ہے اور جسم پریشان ہوتا ہے ‘‘[7]-

(۴) جب عشق الٰہی طالب مولی کے دِل میں جاگزین ہوجاتاہے تو اُس پہ زندگی کے وہ حقائق آشکار ہوتے ہیں جو کہ دوسروں سے پوشید ہ رہتے ہیں-اِس لیے دُنیَوی راحتیں فقیر کے لیے بے معنی ہوجاتی ہیں-



(عین الفقر، ص:۳۵۵)[1]

(نور الہدیٰ،ص:۳۷۷)[2]

(نورالہدیٰ،ص:۵۳۷)[3]

(محک الفقر:ص:۱۰۱)[4]

(محک الفقر، ص:۹۳)[5]

(الذاریات:۵۰)[6]

(محک الفقر،ص:۱۱۷)[7]

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر