نظریہ علم : تعلیماتِ حضرت سلطان باہوؒ کی روشنی میں

نظریہ علم : تعلیماتِ حضرت سلطان باہوؒ کی روشنی میں

نظریہ علم : تعلیماتِ حضرت سلطان باہوؒ کی روشنی میں

مصنف: توقیر عامر ملک جولائی 2017

انسانی فلاح و بہبود،اعلیٰ تہذیب وتمدن اور معاشرتی ترقی کی خشتِ اول علم ہے- معاشرہ کی تعمیر و تنظیم اور ترقی کا دارومدار صرف معیاری تعلیم کی بنیاد پر ہی ممکن ہے-انسان کی فضیلت علم کی وجہ سے ہے-علم انسان کو تمام مخلوقات سے منفرد کرتا ہے- علم کی دو اقسام ہیں ایک علم محمود اور دوسری علم مذموم-جو علم زندگی،فلاحِ معاشرہ اور رضائے الٰہی کے لیے حاصل کیا جائے- وہ ’’علم محمود‘‘کہلائے گا اور جو علم انسانیت کی تذلیل اور خدا سے دور ی کا موجب بنتا ہے وہ ’’علم مذموم‘‘ کہلاتا ہے-علم بنیادی طور پر اس حقیقت کا نام ہے جو خودشناسی سے لےکر خدا شناسی کے عمل تک انسان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے-

انسان جتنا ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہےاللہ تعالیٰ اس پر بے شمار علوم کے خزانے کھول دیتا ہے- انسان مذہبی اعتبار سے جتنی بھی ارتقائی منازل طے کر لے اس کی وجہ علم ہے لیکن وہ علم جس میں تحقیق کا عنصر موجود ہو-جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچا جائے بندہ ناکام گردانا جاتا ہے-سائنس معیشت،اقتصادیات، مذہب اور تہذیب و تمدن ان سب میں علم ہی سے ترقی کی منازل کا حصول ہوتا ہے-

دین اسلام میں علم کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک کی پہلی وحی بھی علم کے متعلق ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے-

’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ O خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ O اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ O الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ O عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ O‘‘[1]

 

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا-جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا-پڑھ اور تیرا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سکھایا اس نے انسان کو وہ سب سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا‘‘-

علم سیکھنے اور سکھانے کی اہمیت و فضیلت احادیث مبارکہ میں بھی بیان کی گئی ہے-

حضرت عبداللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ)رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ﷺ)نے فرمایا:

’’من تعلم بابا من اعلم الیعلم الناس اعطی ثواب ستین صدیقا‘‘[2] 

 

 

’’جس شخص نے علم کا ایک باب سیکھا تا کہ وہ لوگوں کو سیکھائے اسے ساٹھ(۶۰)صدیقوں کا ثواب عطا کیا جائے گا‘‘-

سلطان العارفین  حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) علم کی حقیقت اپنے منفرد انداز میں واضح کرتے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

علموں باجھوں فقر کماوے کافر مرے دیوانہ ھو
غفلت کنوں نہ
کھلسیں پردے دل جاہل بت خانہ ھو

 

سے ورھیاں دی کرے عبادت رہے اللہ کنوں بیگانہ ھو
میں قربان تنہاں توں باھو جنہاں ملیا یار یگانہ ھو

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے نزدیک کارگہِ حیات میں علم کا دامن تھامے بغیر کسی بھی منزل تک رسائی ناممکن ہے-جیسا کہ ایک علم ظاہر ہے اور دوسرا علم باطن ہے-علم ظاہر مادی علوم کا علم ہے جو ہمیں مختلف قسم کے اداروں سے حاصل ہوتا ہے اور انتہائی دلچسپ بات ہے کہ علم ظاہر اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے-اس سے بڑھ کر ظاہری علم کی انتہا کیا ہو سکتی ہے کہ انسان نے دنیا کو گلوبل ویلیج بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب اگر علم باطن کو دیکھا جائے تو صوفیائے کرام کے ہاں علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن پر بھی مفصل بحث ملتی ہے-جس کا ذکر یہاں حضرت سلطان  العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے کیا ہے کہ علم حاصل کیے بغیر کسی بھی منزل اور مقام کی جستجو انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتی ہے اور نہ ہی انسان ظاہری دنیا میں کوئی مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے باطن کی دنیا آباد کر سکتا ہے-جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ظاہری و باطنی دونوں علوم کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے-

جدید فلسفیوں کے ہاں علم کے مختلف نظریات پر گفتگو ملتی ہے- فکری و عقلی مدارج کے مطابق مختلف نظریات قائم کیے جا چکے ہیں-جن میں سے دو (۲) نظریات بہت اہمیت کے حامل ہیں-جدید فلسفیوں نے علم کی بنیاد عمومی طور پر انہی پہ رکھی ہے-ان میں پہلا نظریہ عقلیت ہے-عقلیت سے مراد یہ ہے کہ استدلال کے ذریعے علم حاصل کیا جائے کیونکہ مختلف مکتبہ فکر کے فلسفیوں نے عموماََ فلسفیانہ افکار کی بنیاد عقل و خرد پہ رکھی ہے- یونانی فلسفی افلاطون اور ارسطو عقلیت کے بڑے علمبردار ہیں- کانٹ کے تنقیدی فلسفہ میں بھی عقلی دلائل زور و شور کے ساتھ ملتے ہیں-جدید فلسفے کا بانی ڈیکارٹ اور اسی طرح اسپنوزا، لائیبنز اور ہیگل نے بھی عقلیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فلسفیانہ افکار واضح کیے-

دوسری جانب تجربیت (Empiricism)بھی حصول علم میں اہم مکتبہ فکر رکھتی ہے-اس سے مراد علم محض حسی تجربات سے ممکن ہے اور حسی ادراک تمام علوم کی بنیاد ہیں- یعنی سب سے پہلے حسی تجربہ ہوتا ہے اس کے بعد عقلی دلیل مہیا کی جاتی ہے یہ خیال مشہور فلسفی جان لاک کا ہے-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) نے بھی اپنی فارسی کتب میں علم کی حقیقت بیان کی ہےکہ:

علم حق نور است روشن مثل او انوار نیست
علم باید باعمل علمش کہ ہر خر بار نیست[3]

’’علم حق روشن نور ہے اس کی مثل اور کوئی نور نہیں - علم ہو تو باعمل ورنہ بے عمل علم کی ضرورت نہیں جو محض گدھے  پر لدے ہوئے بوجھ کی مثل ہے‘‘-

اسی طرح آپ ؒمزید ارشاد فرماتے ہیں کہ:

علمی کہ راہ بدوست برددر کتاب نیست
اینہا کہ خواندہ ایم ھمہ در حسابِ نیست[4]

’’یار سے یار ملانے والا علم کتابوں سے نہیں ملتا کہ راہ وصل میں یہ درسی علم کسی کام نہیں آتا‘‘-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے یہاں بنیادی طور پر باطنی علم کی طرف اشارہ کیا ہے-جس کا تعلق انسان کی روح سے ہےکیونکہ محض علم ظاہر انسانیت کی تعمیر کے لیے کافی نہیں ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ نے علم ظاہر کی تردید کی ہے بلکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)علم کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’دو عقل ہیں- ایک عقل کل ہے اور دوسری جز- ظاہری علم کا تعلق نفس سے ہےاور نفس کے پاس عقل جُز ہے اور باطنی علم عرفان بااللہ کا علم ہے جس کا تعلق روح سے ہے اور روح کے پاس عقل کل ہے- پس عالم روحانی تمام علمائے نفسانی پر غالب ہے‘‘[5]-

خصوصاًعلم محمود کی اہمیت اور اس کے حصول کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آتا ہےکہ حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

’’افضل الصدقۃ ان یتعلم المراء المسلم علما ثمہ یعلیمہ اخاہ المسلم‘‘[6]

 

’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان آدمی علم سیکھے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے‘‘-

اس ضمن میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) علم کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:

’’علم دو قسم کا ہے- علم معاملہ و علم مکاشفہ، علم ایک کسوٹی ہے جس سے انسان کے نیک و بدوجود کی پہچان ہوتی ہے‘‘[7]-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں علم کی افادیت یوں بیان کرتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا کی لیناں تسبی پھڑ کے ھو
چلے کٹے تے کجھ نہ کھٹیا کی لیناں چلیاں وڑ کے ھو

 

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھو
جاگ بناں دودھ جمدے  ناہیں باھ و بھانویں لال ھوون کڑھ کڑھ کے ھو

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق موجودہ معاشرہ انسانی کا المیہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو محض ایک رخ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں-جیسا کہ اس بیت کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہم عبادت کرنے کے باوجود بھی عبادت کی اصل روح سے بعض دفعہ محروم رہ جاتے ہیں-تمام عبادات و نوافل،صدقات وغیرہ ادا کرنے کے بعد بھی ہمیں حقیقی سکون نصیب نہیں ہوتا اور ہر لمحہ انسان کی ظاہری و باطنی زندگی میں ایک انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے جس کی وجہ قبل ازاں بتائی گئی ہے کہ ہماری عبادت محض ظاہری پہلوؤں تک محدود ہے جبکہ عبادت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے ظاہری و باطنی دونوں مدارج کا بیک وقت یکجا ہونا ضروری ہے- یہی صورتحال علم کی ہے - ہم معاشرہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ انسان نے علم کے میدان میں کس حد تک ترقی کر لی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا علم کی یہ ترقی بقائے انسانیت کی ضامن ہو سکتی ہے- تو یقینا ًاس کا جواب نفی میں آئے گا-اس کی واضح دلیل موجودہ ایٹمی ترقی ہے کہ کوئی بھی ذی روح کرۂ ارض میں کسی بھی جگہ پر محفوظ نہیں ہے جیسا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو تمام انبیاء و رسل، سید البشر حضور نبی کریم(ﷺ)،صحابہ کرام، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین،سلف صالحین اور صوفیائے کرام کے ہاں حصول علم کے دونوں پہلو بیک وقت نظر آتے ہیں-

موجودہ معاشرے میں علم کی روزافزوں ترقی ہمارے سامنے ہے اور اس کے باوجود بھی معاشرے میں قتل و غارت، بربریت،انسانی تذلیل کا دور دورہ ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے علم تو حاصل کر لیا لیکن علم کی اصل روح تک رسائی نہ کرسکےاور نا ہی کبھی علم کو عملی شکل میں اپنانے پر غور کیا-اگر کوئی علم انسانی اقدار کا تحفظ ،عزت و عظمت، امن و آشتی اور معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ علم باطن (عرفان) ہے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علم کا حصول کیسے ممکن ہے- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق یہ علم کسی مردِ خود آگاہ کی نگاہ کامل سے نصیب ہوتا ہے اور حضرت علامہ اقبال ؒ نے بھی اس منظر کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے-

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی؟[8]

عصر حاضر میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کی قیادت میں یہ تحریک علم کے دونوں پہلوؤں کی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے-

نہ تخت و تاج میں، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے[9

٭٭٭


[1](العلق:۱-۵)

[2](المجالس الوعظیۃ فی شرح أحادیث خیر البریہؐ، من صحیح الامام البخاری، المجلس الثالث و الثلاثون)

[3]( عین الفقر، ص: ۵۴-۵۵)

[4]( عین الفقر، ص: ۵۶-۵۷)

[5]( محک الفقر ، ص: ۳ ۸)

[6](سنن ابن ماجہ کتاب:سنت رسولؐ)

[7]( اسرار القادری، ص: ۵۱)

[8](بالِ جبریل)

[9](ایضاً)

انسانی فلاح و بہبود،اعلیٰ تہذیب وتمدن اور معاشرتی ترقی کی خشتِ اول علم ہے- معاشرہ کی تعمیر و تنظیم اور ترقی کا دارومدار صرف معیاری تعلیم کی بنیاد پر ہی ممکن ہے-انسان کی فضیلت علم کی وجہ سے ہے-علم انسان کو تمام مخلوقات سے منفرد کرتا ہے- علم کی دو اقسام ہیں ایک علم محمود اور دوسری علم مذموم-جو علم زندگی،فلاحِ معاشرہ اور رضائے الٰہی کے لیے حاصل کیا جائے- وہ ’’علم محمود‘‘کہلائے گا اور جو علم انسانیت کی تذلیل اور خدا سے دور ی کا موجب بنتا ہے وہ ’’علم مذموم‘‘ کہلاتا ہے-علم بنیادی طور پر اس حقیقت کا نام ہے جو خودشناسی سے لےکر خدا شناسی کے عمل تک انسان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے-

انسان جتنا ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہےاللہ تعالیٰ اس پر بے شمار علوم کے خزانے کھول دیتا ہے- انسان مذہبی اعتبار سے جتنی بھی ارتقائی منازل طے کر لے اس کی وجہ علم ہے لیکن وہ علم جس میں تحقیق کا عنصر موجود ہو-جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچا جائے بندہ ناکام گردانا جاتا ہے-سائنس معیشت،اقتصادیات، مذہب اور تہذیب و تمدن ان سب میں علم ہی سے ترقی کی منازل کا حصول ہوتا ہے-

دین اسلام میں علم کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک کی پہلی وحی بھی علم کے متعلق ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے-

’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ O خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ O اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ O الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ O عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ O‘‘[1]

 

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا-جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا-پڑھ اور تیرا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سکھایا اس نے انسان کو وہ سب سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا‘‘-

علم سیکھنے اور سکھانے کی اہمیت و فضیلت احادیث مبارکہ میں بھی بیان کی گئی ہے-

حضرت عبداللہ بن مسعود(﷜)رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ﷺ)نے فرمایا:

’’من تعلم بابا من اعلم الیعلم الناس اعطی ثواب ستین صدیقا‘‘[2] 

 

 

’’جس شخص نے علم کا ایک باب سیکھا تا کہ وہ لوگوں کو سیکھائے اسے ساٹھ(۶۰)صدیقوں کا ثواب عطا کیا جائے گا‘‘-

سلطان العارفین  حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) علم کی حقیقت اپنے منفرد انداز میں واضح کرتے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

علموں باجھوں فقر کماوے کافر مرے دیوانہ ھو
غفلت کنوں نہ
کھلسیں پردے دل جاہل بت خانہ ھو

 

سے ورھیاں دی کرے عبادت رہے اللہ کنوں بیگانہ ھو
میں قربان تنہاں توں باھو جنہاں ملیا یار یگانہ ھو

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے نزدیک کارگہِ حیات میں علم کا دامن تھامے بغیر کسی بھی منزل تک رسائی ناممکن ہے-جیسا کہ ایک علم ظاہر ہے اور دوسرا علم باطن ہے-علم ظاہر مادی علوم کا علم ہے جو ہمیں مختلف قسم کے اداروں سے حاصل ہوتا ہے اور انتہائی دلچسپ بات ہے کہ علم ظاہر اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے-اس سے بڑھ کر ظاہری علم کی انتہا کیا ہو سکتی ہے کہ انسان نے دنیا کو گلوبل ویلیج بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب اگر علم باطن کو دیکھا جائے تو صوفیائے کرام کے ہاں علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن پر بھی مفصل بحث ملتی ہے-جس کا ذکر یہاں حضرت سلطان  العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے کیا ہے کہ علم حاصل کیے بغیر کسی بھی منزل اور مقام کی جستجو انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتی ہے اور نہ ہی انسان ظاہری دنیا میں کوئی مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے باطن کی دنیا آباد کر سکتا ہے-جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ظاہری و باطنی دونوں علوم کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے-

جدید فلسفیوں کے ہاں علم کے مختلف نظریات پر گفتگو ملتی ہے- فکری و عقلی مدارج کے مطابق مختلف نظریات قائم کیے جا چکے ہیں-جن میں سے دو (۲) نظریات بہت اہمیت کے حامل ہیں-جدید فلسفیوں نے علم کی بنیاد عمومی طور پر انہی پہ رکھی ہے-ان میں پہلا نظریہ عقلیت ہے-عقلیت سے مراد یہ ہے کہ استدلال کے ذریعے علم حاصل کیا جائے کیونکہ مختلف مکتبہ فکر کے فلسفیوں نے عموماََ فلسفیانہ افکار کی بنیاد عقل و خرد پہ رکھی ہے- یونانی فلسفی افلاطون اور ارسطو عقلیت کے بڑے علمبردار ہیں- کانٹ کے تنقیدی فلسفہ میں بھی عقلی دلائل زور و شور کے ساتھ ملتے ہیں-جدید فلسفے کا بانی ڈیکارٹ اور اسی طرح اسپنوزا، لائیبنز اور ہیگل نے بھی عقلیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فلسفیانہ افکار واضح کیے-

دوسری جانب تجربیت (Empiricism)بھی حصول علم میں اہم مکتبہ فکر رکھتی ہے-اس سے مراد علم محض حسی تجربات سے ممکن ہے اور حسی ادراک تمام علوم کی بنیاد ہیں- یعنی سب سے پہلے حسی تجربہ ہوتا ہے اس کے بعد عقلی دلیل مہیا کی جاتی ہے یہ خیال مشہور فلسفی جان لاک کا ہے-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) نے بھی اپنی فارسی کتب میں علم کی حقیقت بیان کی ہےکہ:

علم حق نور است روشن مثل او انوار نیست
علم باید باعمل علمش کہ ہر خر بار نیست[3]

’’علم حق روشن نور ہے اس کی مثل اور کوئی نور نہیں - علم ہو تو باعمل ورنہ بے عمل علم کی ضرورت نہیں جو محض گدھے  پر لدے ہوئے بوجھ کی مثل ہے‘‘-

اسی طرح آپ ؒمزید ارشاد فرماتے ہیں کہ:

علمی کہ راہ بدوست برددر کتاب نیست
اینہا کہ خواندہ ایم ھمہ در حسابِ نیست[4]

’’یار سے یار ملانے والا علم کتابوں سے نہیں ملتا کہ راہ وصل میں یہ درسی علم کسی کام نہیں آتا‘‘-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے یہاں بنیادی طور پر باطنی علم کی طرف اشارہ کیا ہے-جس کا تعلق انسان کی روح سے ہےکیونکہ محض علم ظاہر انسانیت کی تعمیر کے لیے کافی نہیں ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ نے علم ظاہر کی تردید کی ہے بلکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)علم کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’دو عقل ہیں- ایک عقل کل ہے اور دوسری جز- ظاہری علم کا تعلق نفس سے ہےاور نفس کے پاس عقل جُز ہے اور باطنی علم عرفان بااللہ کا علم ہے جس کا تعلق روح سے ہے اور روح کے پاس عقل کل ہے- پس عالم روحانی تمام علمائے نفسانی پر غالب ہے‘‘[5]-

خصوصاًعلم محمود کی اہمیت اور اس کے حصول کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آتا ہےکہ حضرت ابو ہریرہ (﷜)سے روایت ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

’’افضل الصدقۃ ان یتعلم المراء المسلم علما ثمہ یعلیمہ اخاہ المسلم‘‘[6]

 

’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان آدمی علم سیکھے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے‘‘-

اس ضمن میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) علم کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:

’’علم دو قسم کا ہے- علم معاملہ و علم مکاشفہ، علم ایک کسوٹی ہے جس سے انسان کے نیک و بدوجود کی پہچان ہوتی ہے‘‘[7]-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں علم کی افادیت یوں بیان کرتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا کی لیناں تسبی پھڑ کے ھو
چلے کٹے تے کجھ نہ کھٹیا کی لیناں چلیاں وڑ کے ھو

 

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھو
جاگ بناں دودھ جمدے  ناہیں باھ و بھانویں لال ھوون کڑھ کڑھ کے ھو

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق موجودہ معاشرہ انسانی کا المیہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو محض ایک رخ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں-جیسا کہ اس بیت کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہم عبادت کرنے کے باوجود بھی عبادت کی اصل روح سے بعض دفعہ محروم رہ جاتے ہیں-تمام عبادات و نوافل،صدقات وغیرہ ادا کرنے کے بعد بھی ہمیں حقیقی سکون نصیب نہیں ہوتا اور ہر لمحہ انسان کی ظاہری و باطنی زندگی میں ایک انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے جس کی وجہ قبل ازاں بتائی گئی ہے کہ ہماری عبادت محض ظاہری پہلوؤں تک محدود ہے جبکہ عبادت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے ظاہری و باطنی دونوں مدارج کا بیک وقت یکجا ہونا ضروری ہے- یہی صورتحال علم کی ہے - ہم معاشرہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ انسان نے علم کے میدان میں کس حد تک ترقی کر لی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا علم کی یہ ترقی بقائے انسانیت کی ضامن ہو سکتی ہے- تو یقینا ًاس کا جواب نفی میں آئے گا-اس کی واضح دلیل موجودہ ایٹمی ترقی ہے کہ کوئی بھی ذی روح کرۂ ارض میں کسی بھی جگہ پر محفوظ نہیں ہے جیسا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو تمام انبیاء و رسل، سید البشر حضور نبی کریم(ﷺ)،صحابہ کرام، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین،سلف صالحین اور صوفیائے کرام کے ہاں حصول علم کے دونوں پہلو بیک وقت نظر آتے ہیں-

موجودہ معاشرے میں علم کی روزافزوں ترقی ہمارے سامنے ہے اور اس کے باوجود بھی معاشرے میں قتل و غارت، بربریت،انسانی تذلیل کا دور دورہ ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے علم تو حاصل کر لیا لیکن علم کی اصل روح تک رسائی نہ کرسکےاور نا ہی کبھی علم کو عملی شکل میں اپنانے پر غور کیا-اگر کوئی علم انسانی اقدار کا تحفظ ،عزت و عظمت، امن و آشتی اور معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ علم باطن (عرفان) ہے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علم کا حصول کیسے ممکن ہے- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق یہ علم کسی مردِ خود آگاہ کی نگاہ کامل سے نصیب ہوتا ہے اور حضرت علامہ اقبال (﷫)نے بھی اس منظر کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے-

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی؟[8]

عصر حاضر میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کی قیادت میں یہ تحریک علم کے دونوں پہلوؤں کی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے-

نہ تخت و تاج میں، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے[9]

٭٭٭



[1](العلق:۱-۵)

[2](المجالس الوعظیۃ فی شرح أحادیث خیر البریہؐ، من صحیح الامام البخاری، المجلس الثالث و الثلاثون)

[3]( عین الفقر، ص: ۵۴-۵۵)

[4]( عین الفقر، ص: ۵۶-۵۷)

[5]( محک الفقر ، ص: ۳ ۸)

[6](سنن ابن ماجہ کتاب:سنت رسولؐ)

[7]( اسرار القادری، ص: ۵۱)

[8](بالِ جبریل)

[9](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر