ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Heart is deeper then ocean dive in it like a diver Hoo

The one who has not drank from river they will remain thirsty Hoo

They breathe with Ism-e-Allah and hopeful in dhikr and reflection they retain Hoo

A women is better than such murshid Bahoo swindler ship who entertain Hoo

Dil darya smandaroo’N Dongha Ghota mar Ghawasi Hoo

Jei’N darya wanj nosh na keeta rahsi jaan piyasi Hoo

Har dam naal Allah day rakhan zikr fikr day Aasi  Hoo

Os murshid thi’N zan behter Bahoo jo phand fareb libasi Hoo                                  (Translated by: M.A.Khan)

تشریح:

(۱) دِل ایک انتہائی گہرا سمندر ہے جس میں عرفانِ ذات کے نایاب وانمول موتی پوشیدہ ہیں اور عارفانِ خدا اس میں ڈوب کر یہ گوہر تلاش کرلیتے ہیں-دِل مرتبہ رُوحانیت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنے والی بیدار رُوح-سمندر اوراس کی گہرائی بے خوفی،بے باکی اورجرأت کی علامتیں ہیں-یہ سچ ہے کہ سمندر اوراس کی گہرائی ہمیشہ وسیع حوصلہ اوربلند ہمت انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں-وگرنہ عام آدمی کے لیے سمند رمقامِ خوف ہے اوراس کے وسط وگہرائی کے بارے میں تو وہ سوچتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں-لیکن جولوگ حیاتِ بحری کے واقف کا رہوتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ قدرت کی ان بیابانوں میں کس قدر خزائن مدفن ہیں-اس لیے وہ سمندر میں کودنے اوران خزائن کو تلاش کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ ان مدفن خزائن تک رسائی حاصل کرسکیں-کچھ اِسی طرح کا معاملہ رُوحانیت کے قلزم بے کراں کے ساتھ بھی ہے-اوّل تو مادہ پرست لوگوں کے لیے رُوحانیت میں کوئی دلچسپی کاسامان نہیں ہوتا-ثانیاً وہ فقر کے طرزِ حیات کو انتہائی دِقّت طلب کام سمجھتے ہیں-لیکن کایا اُس وقت پلٹتی ہے کہ جب انسان کے دل میں طلبِ الٰہی ہویدا ہوتی ہے اور اُسے یہ پتا چلتا ہے کہ عرشِ الٰہی تواس کے قلب ورُوح میں جلوہ افروز ہے-سالکِ راہ وِصال الٰہی کے محیط بے کراں سے باخبرہوتاہے تو وہ عرفان ذات کے عجائبات سے آشنا ہوتا ہے-اس لیے اب قلزمِ روحانیت اوراس کی گہرائی وپَہنائی سے خوف زدہ ہوتاہے اور نہ ہی اُس کی وسعت سے ڈرتاہے-اب سالک کادِل پکارتاہے کہ :

کس بلندی پہ ہے مقام مرا
دل یکی خانہ ایست ربّانی

 

عرشِ ربّ جلیل کا ہوں میں
خانۂ دیو راچہ دل خوانی

’’دل تو خانۂ خدا ہے، تُوجن بھوت کے گھر کو دل کیوں سمجھتا ہے‘‘-[1]

سمجھا لہو کی بوند اگر تُو اِسے تو خیر

 

دل آدمی کا ہے فقط جذبۂ بلند

(۲) یہ حقیقت ہے کہ قربِ حق کی تشنگی انسانی رُوح میں آفرینش سے پائی جاتی ہے -اس دُنیا میں آکر عارضی طور پہ ہوسکتاہے کہ دُنیوی اغراض ،رشتے اورناطے اس پیاس کے احساس کو دبادیں لیکن جب کسی مردِ کامل کی نگاہِ کرم کے طفیل وہ خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو وہ اس پیاس کو مٹانے کے جتن میں مصروف ہوجاتاہے-کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قربِ حق تعالیٰ سے دوری سخت ترین عذاب ہے اوروصالِ الٰہی کی نعمتِ عظمیٰ بہترین اجر ہے-اگرانسان اِس دُنیا میں قُربِ حق سے محروم رہا تو آخرت میں بھی اِس سے محروم ہی رہے گا-

(۳)توفیق بااللہ سے اگر طالب کے دل میں عشق الٰہی جاگزین ہوجائے تو اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں قربِ الٰہی کی آرزو برقرار رکھتا ہے-ہرسانس اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر میں گزارتا ہے اورسوتے جاگتے تصور اسم اللہ ذات کے میں مستغرق رہتا ہے کیونکہ اُس کی سب بڑی خواہش قربِ باری تعالیٰ ہوتی ہے-

(۴)مرشد کا مقصد کیاہوتاہے یہی کہ ہاتھ پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے قرب میں پہنچا دے اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں پہنچا دے-مرشد کاکمال یہ ہے کہ نگاہ کرم سے طالب کے دل کو  ماسوٰ ی اللہ سے پاک کردے لیکن اگر مرشد خود ہی معرفت حق تعالیٰ سے بے بہرہ ہوتو وہ طالب کوکیا دے سکے گا-ایسا پیر مرشد نہیں ہوتا بلکہ ایک فریب باز عورت کی مثل ہے جو سادہ دل طالبوں کو اپنے من کی سچائی کی بجائے تن کے لباس کی زیبائی و خوشنمائی سے  دھوکے اورفریب سے اپنا مرید بنا رکھتی ہے-وہ خود نہ طالب ہے نہ فقیر بلکہ لباس کی بناوٹ کی اوٹ میں چھپا ہوا  دولت وجاہ حشمت کا پجاری ہے-


(عین الفقر:۳۰۱)[1]

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر