ابیات باھوؒ کے انگریزی ترجمہ کی تقریب رونمائی

ابیات باھوؒ کے انگریزی ترجمہ کی تقریب رونمائی

ابیات باھوؒ کے انگریزی ترجمہ کی تقریب رونمائی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اپریل 2017

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر زیڈ اے اعوان کے کئے گئے ابیاتِ باھُو کے انگلش ترجمہ’’Heart Deeper than Ocean  “،’’دل دریا سمندروں ڈونگھے“کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد نیشنل لائبریری آف پاکستان،اسلام آباد میں کیا گیا- کتاب کی اشاعت العارفین پبلی کیشنز کی جانب سے کی گئی ہے-تقریب کی صدارت نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق پرنسپل جنرل (ر) شاہد حشمت نے کی-تقریب میں ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ، ملک آصف تنویر  نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-غیر ملکی مبصرین، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء ،محققین ،دانشوروں ،سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی-تقریب کے اختتام پر راجہ حامد علی نے کلامِ باھُو پیش کیا-

تقریب میں شرکت کرنے والے مہمانانِ گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

جناب احمد القادری:(ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ)

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی سہ حرفی پنجابی ابیات لفظ ’’ھُو ‘‘پر ختم ہوتے ہیں-محققین نے اِس انفرادیت کے متعلق مختلف دلائل دیے ہیں-’’ھُو‘‘انسان کاتعلق  خدا سے استوار کرتاہےاور یہ  صرف ردیف نہیں بلکہ منزل  (خدا کی رحمت) کی طرف پکار ہے-’’ھُو‘‘دنیا سے رُخ موڑنے کی پکار ہے -جدید زبانوں کی طرف غیر معتدل جھکاؤ اور اپنے ادبی ورثہ سے دوری نے  صوفیائے کرام کے فلاحِ انسانیت کے پیغام کو دُھندلا کر دیا کیونکہ ان کے پیغام پر جدید زبانوں میں زیادہ کام نہیں ہو سکا-مگر زیڈ اے اعوان صاحب نے ابیات کو انگریزی ترجمہ میں ڈھال  کر اِن صوفیاء کی شاعری اور انسانیت کے پیغام کو زبان سے واقفیت رکھنے اور نہ رکھنے والوں کے ذہن میں دوبارہ پنپنے کا راستہ ہموار کیا-

جناب پروفیسر احسان اکبر صاحب:(معروف ادیب، شاعر )

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کو یاد کرنا ہمارے لیےباعثِ برکت ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی قبر بھی زندہ ہے- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی میں فیض بانٹااور آج ان کا کلام دنیا کو روشن کر رہا ہے-یہ اولیاء اللہ کے اس گروہ میں ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے بھی پیغام کو عام کیا اور لکھنے والوں میں سے خاص طور پر یہ ان میں سے ہیں جو شاعر بھی تھے- شاعری دلوں کے دروازے سہولت سے کھولتی ہے- ابیات باھُو کا ترجمہ کرتے ہوئے اعوان صاحب نے لفظی ترجمہ کو سامنے نہیں رکھا بلکہ یہ معنوی ہے-جس پر میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں- ضرورت ہے کہ ان کتابوں کو نوجوانوں تک پہنچایا جائے ،ایک وقت تھا کہ لوگ ان صوفیاء کے مقام سے واقف تھے مگر اب بد قسمتی ہے کہ بہت کم نوجوان سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی تعلیمات سے پوری آگاہی رکھتے ہوں ، اِنہی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے آج معاشرے میں شدت پسندی اور منفی رویے بڑھ رہے ہیں-

جناب ظفر بختاوری:(سابق صدر، اسلام آباد چیمبر آف کامرس)

ظاہری طور پر تو دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن جتنی دنیا آج تقسیم ہے اتنی شاید کبھی بھی نہ تھی- کہیں نسل پرستی، کہیں  زبان،کہیں فرقہ واریت تو کہیں علاقہ پرستی ہے -حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرقہ واریت کے خلاف تھے جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایا:

ناں مَیں سنی ناں مَیں شیعا میرا دوہاں توں دل سڑیا ھو
مک گئے سبھ خشکی پینڈے جدوں دریا رحمت وچ وڑیا ھو

آج فرقہ واریت کا کاروبار دین کے نام پہ کیا جا رہا ہے اس لئےہمیں صوفیاء کے پیغام کو اپنانا ہوگا -

جناب ارشد محمود ناشاد:(معروف نقاد ، شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی )

پنجابی میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کا کلام مقدار میں کم ہے لیکن بقامت کہتر بقیمت بہتر کا مصداق ہے-حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی شاعری میں عام فہم اور بلیغ استعارے، کنائے، اشارے، تشبیہات اور محاورے استعمال کیے جو پیغام کی مؤثر ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں-معرفت کے گہرے رنگوں اور حقیقت کے بھید بھرے زاویوں کو انہوں نے دیہی معاشرت کے معروف پیکروں کے ذریعے پیش کر کے عام افراد کے لیے بھی اس کی تفہیم آسان کر دی ہے- یہ ترجمہ اس پیغام کو دُنیائے جدید میں پھیلانے کا مؤثر ذریعہ بنے گا -  

محترمہ عائشہ مسعود ملک:(شاعرہ و ادیبہ)

ایک تاریخی روحانی ادب اور شاعری جن کا الہامی مفہوم اور مقصدیت بھی ہو اس کا کسی اور زبان میں ترجمہ کرنا یقیناً ایک کٹھن کام ہے-زیڈ اے اعوان صاحب نے بڑی کامیابی سے یہ کام سرانجام دیا ہے- صوفیاء کا پیغام محبت کے ساتھ ساتھ اخوت پہ مبنی ہے-  میں ایک شاعرہ ہونے کی حیثیت سے بھی حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کو بھی خراج تحسین پیش کروں گی کہ ردیف کا استعمال مشکل کام ہے ’’ھُو‘‘ کی ردیف نے تمام الفاظ اور اس پیغام کی خوبصورتی میں اضافہ کردیا ہے- 

محترمہ ڈاکٹر قیصرہ علوی:(سابق سربراہ خواتین کیمپس،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

’’دل دریا سمندروں ڈونگھے“دس ابواب پر مشتمل کتاب میں روحانیت اور تصوف کی اصطلاحات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہےاور خوبصورت ترجمہ کیا گیا ہے- ترجمہ کا کام انتہائی کٹھن ہے لیکن جس سلیقہ مندی سے بہ زبان انگریزی یہ ترجمہ کیا گیا ہے وہ مواد اور زبان کے اعتبار سے دل ودماغ کے لیے انتہائی مؤثر اور قابل قبول ہے-

جناب ٹکا خان:(معروف صحافی)

آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) جیسے صوفیائے کرام کی تعلیمات کو انگریزی میڈیم اداروں میں باضابطہ طور پر پڑھایا جائے تاکہ معاشرے کےدل کی تشنگی کی آگ سے بچایا جا سکے-اس کتاب کو منظرِ عام پر لانے میں،صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب اور صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کو دل سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایک خانقاہ سے نکل کر جس طرح حضرت سُلطان باھُو کے یہ جانشین جو عظیم اصلاحی و تربیتی کام کر رہے ، اُمتِ اسلامیہ کے ایک نہایت مشکل دور میں بہت ہی حوصلہ افزا و امید افزا کام کر رہے ہیں اِسی طرح دیگر خانقاہوں کے خانوادوں کو بھی کام کرنا چاہیے-

جناب اشفاق گوندل:(سابق وفاقی سیکرٹری برائے اطلاعات)

حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تمام شاعری قرآن مجید کی ترجمانی ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے-اسی طرح سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)نے خدا کی ذات پہ توکل کا درس دیا اور قرآن بھی ہمیں یہ درس دیتا ہے-آج!ہمیں اس امر کی ضرورت ہے کہ سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے پیغام کو بچوں میں بھی عام کیا جائے-

جناب ڈاکڑ مجیب احمد:(سربراہ شعبہ تاریخ،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)

حضرت سلطان باھُوصاحب(قدس اللہ سرّہٗ) نے فارسی میں بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی ادبی شہرت کی وجہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے پنجابی ابیات ہیں-صوفی عشقِ رسول(ﷺ)یا عشقِ مرشد کے ذریعے عشقِ حق تک پہنچتا ہے-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے عشق حقیقی پر بے حد زور دیا- یہ ابیات سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کا پہلا مکمل تر جمہ ہےکیونکہ اس سے پہلے مکمل ابیات کا اِس طرح بہترین تر جمہ نہیں کیا گیا -

عزت مآب جوپاولوسبیدوکوستا :(پاکستان میں پرتگال کے سفیر)

کسی بھی شاعر کے افکار اس کے الفاظ کے ذریعے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں-حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کی شاعری میں محبت اور روحانیت کا پیغام ملتا ہے-آج کی تقریبِ رونمائی میں پیش کی جانے والی کتاب کا بنیادی مقصد روحانیت کی بیداری ہے-ایک شاعر کے کلام میں پوری انسانیت کے لیے پیغام ہوتا ہے جیسا کہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی شاعری انقلابی اور دنیا میں امن و محبت کی داعی ہے-مَیں ڈاکٹر اعوان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے یہ ترجمہ کرکے ہمارے جیسے لوگوں کے لیے بھی سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) جیسی شخصیات  کی تعلیمات سے آشنائی بخشی-

عزت مآب پیوٹر اوپلنسکی:(پاکستان میں پولینڈ کے سفیر)

موجودہ عالمی ماحول جس میں نفرت، تعصب، عدم برداشت، نسل پرستی اور دہشتگردی کا دوردورہ ہے،حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کا امن اور محبت پر مبنی کلام انتہائی اہمیت کا حامل ہے-آج کے جنگ و جدل کے دور میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا پیغام ہمارے لیے اتحاد کا منبع ہے-پاکستان صوفیاء کی سر زمین ہونے کے ناطے میرےدل کے انتہائی قریب ہے اور اس کی روحانی فضا میری دلی تسکین کا باعث ہے اور یہاں مَیں اپنے آپ کو اس کمیونٹی کا حصہ سمجھتا ہوں-

جناب ڈاکٹر زیڈ اے اعوان :(مترجم ابیاتِ باھُو )

میں نے ایک طویل عرصہ یورپ اور امریکہ کی تعلیم گاہوں میں پڑھایا ہے ، مجھے وہاں کے مستشرقین سے بھی بہت زیادہ استفادہ کرنے کا موقعہ ملا -کئی صوفیائے کرام کا کلام وہاں بہت شہرت رکھتا ہے مجھے معروف جرمن سکالر ڈاکٹر این مری شمل نے ہارورڈ یونیورسٹی سے واپسی پہ کہا کہ تم حضرت سُلطان باھُو پہ کام کرو - میری ماں بھی مجھے حضرت سُلطان باھُو کی طرف بھیجا کرتی تھی ، تب سے میری یہ شدید خواہش رہی کہ آپ (قدس اللہ سرہٗ) پہ کام کروں ، مگر مَیں اپنے شیخ ، حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی خاص شفقت اور تعاون سے اس قابل ہو سکا کہ اس نایاب پیغام کو انگلش میں بیان کرسکا -اس عظیم کام کو سرانجام دینے میں ابیات باھُو ہی میرے لیے ولولہ انگیز تھے- ابیات کا ہر ایک لفظ ایک فلاسفی ہے، ایک پیغام ہے، ایک مقصد ہے- مَیں العارفین پبلی کیشنز کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس کی اتنی خوبصورت طباعت و اشاعت کی -

جناب جنرل (ر) شاہد احمد ہشمت:(سابق پرنسپل،نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد)

بہت سے مصنفین مختلف کتب تصنیف فرماتے ہیں مگر چند ایک کو توفیق و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کا نایاب و معزز کام سر انجام دیں-حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا کلام بیشک ایک آفاقی کلام ہے جو اب انگلش پڑھنے والے بھی سمجھ سکیں گے چنانچہ یہ ترجمہ ڈاکٹر زیڈ اے اعوان صاحب کا ہم پر اور ہماری آئندہ نسل پر احسان ہے-صوفیاء  کرام اسلام اور دیگر تمام مذاہب کا پیغام امن،محبت اور تسکینِ قلب کا پیغام ہے-صوفیاء  کرام نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں کے پیغام کو اپنے قول و فعل سے عام لوگوں تک پہنچایا-

جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی:(چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )

برصغیر کے صوفیاء کا کلام ہم تک ماؤں کی لوری سے پہنچا ہے جو وہ اپنے بچوں کو صدیوں سے گود میں سناتی آ رہی ہیں- دوسرا اس  کسان کے ذریعے جو فراغت کے اوقات میں اسلام اور روح سے قربت کے لیے ان صوفیاء کا کلام گنگناتا ہے-برصغیر کے صوفیاء کا کلام لطافت و معنویت کے اعتبار سے رومی، سنائی، جامی، حافظ اور سعدی (رحمۃ اللہ علیہم) کے ہم پلہ ہے مگر صدیوں سے مسلط حکمران طبقات کی علمی بے ذوقی کی وجہ سے مربوط تحقیق کے فقدان کا شکار رہا ہے تاہم یہ خوش آئند ہے کہ اب گزشتہ چھ سات عشروں سے  اس کلام پر تحقیق کا کام شروع ہو چکا ہے- مَیں تمام معزز مہمانِ گرامی کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ آج کی اس تقریب میں تشریف لے کر آئے- 

 

٭٭٭

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر زیڈ اے اعوان کے کئے گئے ابیاتِ باھُو کے انگلش ترجمہ’’Heart Deeper than Ocean “،’’دل دریا سمندروں ڈونگھے“کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد نیشنل لائبریری آف پاکستان،اسلام آباد میں کیا گیا- کتاب کی اشاعت العارفین پبلی کیشنز کی جانب سے کی گئی ہے-تقریب کی صدارت نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق پرنسپل جنرل (ر) شاہد حشمت نے کی-تقریب میں ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ، ملک آصف تنویر  نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-غیر ملکی مبصرین، یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء ،محققین ،دانشوروں ،سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی-تقریب کے اختتام پر راجہ حامد علی نے کلامِ باھُو پیش کیا-

تقریب میں شرکت کرنے والے مہمانانِ گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

جناب احمد القادری:(ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ)

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی سہ حرفی پنجابی ابیات لفظ ’’ھُو ‘‘پر ختم ہوتے ہیں-محققین نے اِس انفرادیت کے متعلق مختلف دلائل دیے ہیں-’’ھُو‘‘انسان کاتعلق  خدا سے استوار کرتاہےاور یہ  صرف ردیف نہیں بلکہ منزل  (خدا کی رحمت) کی طرف پکار ہے-’’ھُو‘‘دنیا سے رُخ موڑنے کی پکار ہے -جدید زبانوں کی طرف غیر معتدل جھکاؤ اور اپنے ادبی ورثہ سے دوری نے  صوفیائے کرام کے فلاحِ انسانیت کے پیغام کو دُھندلا کر دیا کیونکہ ان کے پیغام پر جدید زبانوں میں زیادہ کام نہیں ہو سکا-مگر زیڈ اے اعوان صاحب نے ابیات کو انگریزی ترجمہ میں ڈھال  کر اِن صوفیاء کی شاعری اور انسانیت کے پیغام کو زبان سے واقفیت رکھنے اور نہ رکھنے والوں کے ذہن میں دوبارہ پنپنے کا راستہ ہموار کیا-

جناب پروفیسر احسان اکبر صاحب:(معروف ادیب، شاعر )

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کو یاد کرنا ہمارے لیےباعثِ برکت ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی قبر بھی زندہ ہے- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی میں فیض بانٹااور آج ان کا کلام دنیا کو روشن کر رہا ہے-یہ اولیاء اللہ کے اس گروہ میں ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے بھی پیغام کو عام کیا اور لکھنے والوں میں سے خاص طور پر یہ ان میں سے ہیں جو شاعر بھی تھے- شاعری دلوں کے دروازے سہولت سے کھولتی ہے- ابیات باھُو کا ترجمہ کرتے ہوئے اعوان صاحب نے لفظی ترجمہ کو سامنے نہیں رکھا بلکہ یہ معنوی ہے-جس پر میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں- ضرورت ہے کہ ان کتابوں کو نوجوانوں تک پہنچایا جائے ،ایک وقت تھا کہ لوگ ان صوفیاء کے مقام سے واقف تھے مگر اب بد قسمتی ہے کہ بہت کم نوجوان سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی(﷜)کی تعلیمات سے پوری آگاہی رکھتے ہوں ، اِنہی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے آج معاشرے میں شدت پسندی اور منفی رویے بڑھ رہے ہیں-

جناب ظفر بختاوری:(سابق صدر، اسلام آباد چیمبر آف کامرس)

ظاہری طور پر تو دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن جتنی دنیا آج تقسیم ہے اتنی شاید کبھی بھی نہ تھی- کہیں نسل پرستی، کہیں  زبان،کہیں فرقہ واریت تو کہیں علاقہ پرستی ہے -حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرقہ واریت کے خلاف تھے جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایا:

ناں مَیں سنی ناں مَیں شیعا میرا دوہاں توں دل سڑیا ھو
مک گئے سبھ خشکی پینڈے جدوں دریا رحمت وچ وڑیا ھو

آج فرقہ واریت کا کاروبار دین کے نام پہ کیا جا رہا ہے اس لئےہمیں صوفیاء کے پیغام کو اپنانا ہوگا -


جناب ارشد محمود ناشاد:(معروف نقاد ، شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی )

پنجابی میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کا کلام مقدار میں کم ہے لیکن بقامت کہتر بقیمت بہتر کا مصداق ہے-حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی شاعری میں عام فہم اور بلیغ استعارے، کنائے، اشارے، تشبیہات اور محاورے استعمال کیے جو پیغام کی مؤثر ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں-معرفت کے گہرے رنگوں اور حقیقت کے بھید بھرے زاویوں کو انہوں نے دیہی معاشرت کے معروف پیکروں کے ذریعے پیش کر کے عام افراد کے لیے بھی اس کی تفہیم آسان کر دی ہے- یہ ترجمہ اس پیغام کو دُنیائے جدید میں پھیلانے کا مؤثر ذریعہ بنے گا -  

محترمہ عائشہ مسعود ملک:(شاعرہ و ادیبہ)

ایک تاریخی روحانی ادب اور شاعری جن کا الہامی مفہوم اور مقصدیت بھی ہو اس کا کسی اور زبان میں ترجمہ کرنا یقیناً ایک کٹھن کام ہے-زیڈ اے اعوان صاحب نے بڑی کامیابی سے یہ کام سرانجام دیا ہے- صوفیاء کا پیغام محبت کے ساتھ ساتھ اخوت پہ مبنی ہے-  میں ایک شاعرہ ہونے کی حیثیت سے بھی حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کو بھی خراج تحسین پیش کروں گی کہ ردیف کا استعمال مشکل کام ہے ’’ھُو‘‘ کی ردیف نے تمام الفاظ اور اس پیغام کی خوبصورتی میں اضافہ کردیا ہے- 

محترمہ ڈاکٹر قیصرہ علوی:(سابق سربراہ خواتین کیمپس،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

’’دل دریا سمندروں ڈونگھے“دس ابواب پر مشتمل کتاب میں روحانیت اور تصوف کی اصطلاحات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہےاور خوبصورت ترجمہ کیا گیا ہے- ترجمہ کا کام انتہائی کٹھن ہے لیکن جس سلیقہ مندی سے بہ زبان انگریزی یہ ترجمہ کیا گیا ہے وہ مواد اور زبان کے اعتبار سے دل ودماغ کے لیے انتہائی مؤثر اور قابل قبول ہے-

جناب ٹکا خان:(معروف صحافی)

آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) جیسے صوفیائے کرام کی تعلیمات کو انگریزی میڈیم اداروں میں باضابطہ طور پر پڑھایا جائے تاکہ معاشرے کےدل کی تشنگی کی آگ سے بچایا جا سکے-اس کتاب کو منظرِ عام پر لانے میں،صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب اور صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کو دل سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایک خانقاہ سے نکل کر جس طرح حضرت سُلطان باھُو کے یہ جانشین جو عظیم اصلاحی و تربیتی کام کر رہے ، اُمتِ اسلامیہ کے ایک نہایت مشکل دور میں بہت ہی حوصلہ افزا و امید افزا کام کر رہے ہیں اِسی طرح دیگر خانقاہوں کے خانوادوں کو بھی کام کرنا چاہیے-

جناب اشفاق گوندل:(سابق وفاقی سیکرٹری برائے اطلاعات)

حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کی تمام شاعری قرآن مجید کی ترجمانی ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے-اسی طرح سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)نے خدا کی ذات پہ توکل کا درس دیا اور قرآن بھی ہمیں یہ درس دیتا ہے-آج!ہمیں اس امر کی ضرورت ہے کہ سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے پیغام کو بچوں میں بھی عام کیا جائے-

جناب ڈاکڑ مجیب احمد:(سربراہ شعبہ تاریخ،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)

حضرت سلطان باھُوصاحب(قدس اللہ سرّہٗ) نے فارسی میں بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی ادبی شہرت کی وجہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے پنجابی ابیات ہیں-صوفی عشقِ رسول(ﷺ)یا عشقِ مرشد کے ذریعے عشقِ حق تک پہنچتا ہے-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)نے عشق حقیقی پر بے حد زور دیا- یہ ابیات سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کا پہلا مکمل تر جمہ ہےکیونکہ اس سے پہلے مکمل ابیات کا اِس طرح بہترین تر جمہ نہیں کیا گیا -

عزت مآب جوپاولوسبیدوکوستا :(پاکستان میں پرتگال کے سفیر)

کسی بھی شاعر کے افکار اس کے الفاظ کے ذریعے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں-حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کی شاعری میں محبت اور روحانیت کا پیغام ملتا ہے-آج کی تقریبِ رونمائی میں پیش کی جانے والی کتاب کا بنیادی مقصد روحانیت کی بیداری ہے-ایک شاعر کے کلام میں پوری انسانیت کے لیے پیغام ہوتا ہے جیسا کہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی شاعری انقلابی اور دنیا میں امن و محبت کی داعی ہے-مَیں ڈاکٹر اعوان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے یہ ترجمہ کرکے ہمارے جیسے لوگوں کے لیے بھی سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) جیسی شخصیات  کی تعلیمات سے آشنائی بخشی-

عزت مآب پیوٹر اوپلنسکی:(پاکستان میں پولینڈ کے سفیر)

موجودہ عالمی ماحول جس میں نفرت، تعصب، عدم برداشت، نسل پرستی اور دہشتگردی کا دوردورہ ہے،حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کا امن اور محبت پر مبنی کلام انتہائی اہمیت کا حامل ہے-آج کے جنگ و جدل کے دور میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا پیغام ہمارے لیے اتحاد کا منبع ہے-پاکستان صوفیاء کی سر زمین ہونے کے ناطے میرےدل کے انتہائی قریب ہے اور اس کی روحانی فضا میری دلی تسکین کا باعث ہے اور یہاں مَیں اپنے آپ کو اس کمیونٹی کا حصہ سمجھتا ہوں-

جناب ڈاکٹر زیڈ اے اعوان :(مترجم ابیاتِ باھُو )

میں نے ایک طویل عرصہ یورپ اور امریکہ کی تعلیم گاہوں میں پڑھایا ہے ، مجھے وہاں کے مستشرقین سے بھی بہت زیادہ استفادہ کرنے کا موقعہ ملا -کئی صوفیائے کرام کا کلام وہاں بہت شہرت رکھتا ہے مجھے معروف جرمن سکالر ڈاکٹر این مری شمل نے ہارورڈ یونیورسٹی سے واپسی پہ کہا کہ تم حضرت سُلطان باھُو پہ کام کرو - میری ماں بھی مجھے حضرت سُلطان باھُو کی طرف بھیجا کرتی تھی ، تب سے میری یہ شدید خواہش رہی کہ آپ (قدس اللہ سرہٗ) پہ کام کروں ، مگر مَیں اپنے شیخ ، حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی خاص شفقت اور تعاون سے اس قابل ہو سکا کہ اس نایاب پیغام کو انگلش میں بیان کرسکا -اس عظیم کام کو سرانجام دینے میں ابیات باھُو ہی میرے لیے ولولہ انگیز تھے- ابیات کا ہر ایک لفظ ایک فلاسفی ہے، ایک پیغام ہے، ایک مقصد ہے- مَیں العارفین پبلی کیشنز کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس کی اتنی خوبصورت طباعت و اشاعت کی -

جناب جنرل (ر) شاہد احمد ہشمت:(سابق پرنسپل،نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد)

بہت سے مصنفین مختلف کتب تصنیف فرماتے ہیں مگر چند ایک کو توفیق و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کا نایاب و معزز کام سر انجام دیں-حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا کلام بیشک ایک آفاقی کلام ہے جو اب انگلش پڑھنے والے بھی سمجھ سکیں گے چنانچہ یہ ترجمہ ڈاکٹر زیڈ اے اعوان صاحب کا ہم پر اور ہماری آئندہ نسل پر احسان ہے-صوفیاء  کرام اسلام اور دیگر تمام مذاہب کا پیغام امن،محبت اور تسکینِ قلب کا پیغام ہے-صوفیاء  کرام نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں کے پیغام کو اپنے قول و فعل سے عام لوگوں تک پہنچایا-

جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی:(چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )

برصغیر کے صوفیاء کا کلام ہم تک ماؤں کی لوری سے پہنچا ہے جو وہ اپنے بچوں کو صدیوں سے گود میں سناتی آ رہی ہیں- دوسرا اس  کسان کے ذریعے جو فراغت کے اوقات میں اسلام اور روح سے قربت کے لیے ان صوفیاء کا کلام گنگناتا ہے-برصغیر کے صوفیاء کا کلام لطافت و معنویت کے اعتبار سے رومی، سنائی، جامی، حافظ اور سعدی (رحمۃ اللہ علیہم) کے ہم پلہ ہے مگر صدیوں سے مسلط حکمران طبقات کی علمی بے ذوقی کی وجہ سے مربوط تحقیق کے فقدان کا شکار رہا ہے تاہم یہ خوش آئند ہے کہ اب گزشتہ چھ سات عشروں سے  اس کلام پر تحقیق کا کام شروع ہو چکا ہے- مَیں تمام معزز مہمانِ گرامی کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ آج کی اس تقریب میں تشریف لے کر آئے- 

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر