معاشرہ، معیشت اور فکرِ معاش (حضرت سلطان باھوؒ کی نظر میں)

معاشرہ، معیشت اور فکرِ معاش (حضرت سلطان باھوؒ کی نظر میں)

معاشرہ، معیشت اور فکرِ معاش (حضرت سلطان باھوؒ کی نظر میں)

مصنف: توقیر عامر ملک اپریل 2017

روزی کمانے کے ایسے ذرائع جن سے زندگی کا تسلسل برقرار رہے معاش کہلاتے ہیں- بشری زندگی کے آغاز سے ہی انسان کی کاوشوں کا محور خوراک کی طرف رہا ہے- جس کے حصول کے لئے انسان نے جوں جوں شعور کی آنکھ کھولی روزی حاصل کرنے کے یہ ذرائع مختلف ہوتے گئے- معلوم تاریخ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ قدیم ادوار میں انسان نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سینکڑوں جتن کئےاور یہ سفر کئی صدیوں پر محیط ہے - جیسے جیسے وقت نے ترقی کی ، ایجادات ہوتی گئیں ، انسان جنگل سے بستی ، بستی سے قصبے ، قصبوں سے شہر اور پھر ریاستی زندگی میں آیا اور انسان کی ضروریات زندگی میں اضافہ ہوا تو اُس نے اپنی راحت کے لئے مختلف ذرائع تلاش کیے جن میں اکثر کا تعلق معاش سے تھا-قدیم دور سے ہی انسان نے معاش کا اندیشہ اس لیے اختیار کیا کیونکہ اسے علم تھا کہ اس کے بغیر زندگی کا وجود ناممکن ہے – انسان کی اس فطری ضرورت کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین پر پیغمبر مبعوث فرمائےتو انہوں نے اپنی اپنی شریعت کے مطابق ظاہری نظامِ زندگی بطریق احسن سر انجام دیا- بلکہ معاش وہ پیشہ ہے جسے اللہ پاک کے ان برگزیدہ بندوں نے نہ صرف  اختیار فرمایا  بلکہ اِسے ایسی تقدیس بخشی کہ یہ انبیا کی سُنت بن گیا اور ان مقدس ہستیوں نے ایسے معیارات قائم کئے جس سے توازن ، ایمانداری ، دیانت اور صداقت کو معاش کے ذرائع میں فروغ ملا -

”جیسا کہ حضرت آدم علیہ اسلام نے کپڑا بُننے کا کام کیا اور بعد میں آپ کھیتی باڑی میں مشغول ہوئے-حضرت نوح (علیہ السلام)نے ذریعہ معاش کے لئے بڑھئی پیشہ اختیار کیا- حضرت ادریس (علیہ السلام) درزی گری فرماتے تھے- حضرت ہود(علیہ السلام) اور حضرت صالح(علیہ السلام) تجارت کرتے تھے- حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا- حضرت شعیب (علیہ السلام) جانور پالتے اور ان کے دودھ سے معا ش حاصل کرتے تھے- حضرت لوط(علیہ السلام) کاپیشہ کھتی باڑی تھا- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چند سال بکریاں چرائیں- حضرت داؤد (علیہ السلام)زرہ بناتے تھے-حضرت سلیمان (علیہ السلام) اتنے بڑے بادشاہ ہو کر درختوں کے پتوں سے پنکھے اور زنبیلیں بنا کر گزر فرماتے تھے- اسی طرح حضور بنی کریم (ﷺ)نے بکریاں چرائی ہیں اور حضرت خدیجہ(رضی اللہُ عنہما) کے مال کی تجارت بھی فرمائی غر ض ہر قسم کی حلال کمایاں سنتِ انبیاء ہے اس کو عار جاننا نادانی ہے“[1]-

اسلامی نقطہ سے کسبِ حلال کے لئے معاش ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے اور اسلام نے کسب حلال کی تلقین و ترغیب دلائی اور اس کے حصول کے لئے انسان کو مختلف صلاحتیں عطاکیں-جیسا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا-

’’یٰاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا  مِمَّا  فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً  طَیِّبًا‘‘[2] 

”اے لوگوں زمین میں جو پاکیزہ اور حلال چیزیں ہیں ان میں سے کھاؤ“- 

حضور نبی کریم (ﷺ)کی ظاہری زندگی مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آقا پاک (ﷺ) نے زندگی کے ہر شُعبہ کی طرح اِس شُعبہ کا وقار بھی بڑھایا ، اور اِس میں کامیابیوں کا صحیح دُنیوی و اُخروی طریقہ کار سکھایا - جیسا کہ آقا علیہ الصلوۃ کا فرمان ہے-

’’وعن رافع بن خدیج قال قیل یا رسول اللہ ای الکسب اطیب قال عمل الرجل بیدہ و کل بیع مبرور‘‘[3] 

”حضرت رافع ابنخدیج(رضی اللہُ عنہ) سے مروی ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ(ﷺ)! کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے فرمایا: آدمی کی اپنے ہا تھ کی کمائی اور اس پر صحیح خریدو فروخت“-

حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کا شمار ان صوفیائے عظام میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے نظریات سے معاشرہ میں فلاح کا فریضہ سر انجام دیا-جہاں آپ  (قدس اللہ سرّہٗ)نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کے متعلق نظریات قاتم کئےوہیں معاشی نظریات بھی ملتے ہیں جو کہ  قرآن وسنت کے عین مطابق ہیں-اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی آخر الزمان (ﷺ)نے ہمیں معاش کے ذرائع تلاش کرنے کی ترغیب کی ہے لیکن ساتھ ہی ان میں محو ہونے سے بچنے کی تاکید بھی کی ہے- اگر حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیات مبارکہ کو دیکھا جائے تو آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے بظاہر معاش کے لئے کھیتی باڑی کی لیکن اس پیشہ میں مکمل محویت اختیار نہیں کی- جس طرح صاحبِ مناقبِ سُلطانی  حضرت سلطان حامد صاحبؒ آپ کے متعلق لکھتے ہیں:          

”واضح رہے کہ اس مسکین (مولف کتاب) نے جو کچھ اپنے بزرگوں کی زبانی سنا اور آنحضرت(قدس اللہ سرّہٗ) کی مولفہ کتابوں سے معلوم ہوا اور قرب و جوار کی سرگزشت سے مفہوم پایا اور قرائن سے معلوم ہواکہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے کھیتی باڑی کے ارادہ سے صرف ایک دفعہ یا دو دفعہ یا تین دفعہ دو بیل خرید کر کھتی باڑی شروع کی“[4]-

حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)روزی کمانے کے مادی ذرائع کی مکمل طور نفی نہیں فرماتے لیکن اس پر توکل اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کا نظریہ ہے کہ ہمارے وجود کے اندر رزق کمانے کی فکر نہیں ہونی چاہیے اس بات کو واضح کرنے کے لیے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) پرندوں کی مثال دیتے ہیں کہ جب وہ صبح نکلتے ہیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا نظریہ ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس طرح بھروسہ ہونا چاہیے کہ جس طرح پرندوں کا ہے کہ وہ دوسرے دن کے لیے بھی خوراک جمع نہیں کرتے-رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو پتھر کے اندر کیڑے تک بھی پہنچا رہا ہے جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

دلیلاں چھوڑ وجودوں ہو ہشیار فقیرا ھو
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ نہیں کردے نال ذخیرا ھو

 

بنھ توکل پنچھی اڈدے پلے خرچ نہ زیرا ھو
مولا خرچ پوہنچاوے باھو جو پتھر وچ کیڑا ھو

انسان عالم لاہوت کا پرندہ ہے- مادی جہاں میں اس کو خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے اگر وہ صرف مادیت کی جکڑ بندیوں میں پھنس جائے تو اپنا اصل مقصد حیات حاصل نہیں کر پائے گا-اس کے لیے توکل کا اختیار کرنا از حد ضروری ہے- علامہ اقبال ؒ نے تو اس طرح رزق کمانے پر موت کو ترجیح دی ہے جو اس لاہوتی پرندے (انسان) کی پرواز میں حائل ہوجاتا ہے-جیسا کہ آپ ؒ فرماتے ہیں:

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی[5]

اللہ کریم نے رزق حلال میں بے شمار برکتیں رکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار ہا مقامات پر رزق حلال کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَکُلُوْامِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰلاً طَیِّبًا ص وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْٓ  اَنْتُمْ  بِہٖ  مُؤْمِنُوْنَ ‘‘[6]

”اور جو حلا ل طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو“-

عام طورپر انسان یہی سمجھتا ہے کہ زندگی شغل اور میلے کا نام ہے اور میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے- اللہ کریم نے انسان کو اس کائنات میں کئی اہم فریضے عطا کیے ہیں جن کی پا سداری انسان پر فرض ہے-حضور نبی کریم (ﷺ)نے بھی حدیث مبارکہ میں اسی امر کی طرف توجہ دلائی ہےکہ:

’’حد تنا ابراہیم بن موسی انا عیسی بن یونس عن ثور عن خالد بن معدان عن المقدم عن النبی ﷺ قال ما اکل احد طعاماً قط خیر امن ان یاکل من عمل ید ہ و ان نبی اللہ داؤد کان یا کل من عمل یدیہ‘‘[7]

”مقدام (رضی اللہُ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کی کہ آپ (ﷺ)نے فرمایا کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سےبہتر طعام ہر گز نہیں کھاتا اور اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام)اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھاتے تھے“-

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا نظریہ ہے کہ رزقِ حلال تلاش کرو مگر حرص اور لالچ کو چھوڑ کر قناعت کو اختیار کرو ،قناعت سے وجود صرف تلاشِ رزق میں ہی غرق نہیں رہتا بلکہ اطاعت اور عبادت میں بھی مشغول ہوتا ہے ، آپ قدس اللہ سرہٗ کے نزدیک وہی انسان کامیاب ہے جو اس اعتدال کو اپنا لیتا ہے ۔  جو شخص عدمِ قناعت اور حرص و لالچ کیوجہ سے  ہر وقت معاش کے غم و فکر میں رہتا ہے اس کے لیے رات دن ایک کر دیتا ہے ایسے شخص کو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  چیلوں، کووں اور چنڈوری سے تشبیہ دیتے ہیں-جیسے ان کی عادت ہے کہ صبح صادق ہی چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں ایسے ہی جو ہروقت رزق کے لیے روتادھوتا ہے اس کی ساری عمر گزر جاتی ہے لیکن پوری پھر بھی نہیں پڑتی- جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

فجری ویلے وقت سویلے نت آن کرن مزدوری ھو
مارن چیخاں تے کرن مشقت پٹ پٹ سٹن انگوری ھو

 

کانواں ہلاں ہکسی گلاں تریجھی رلی چنڈوری ھو
ساری عمر پٹیندیاں گزری باھو کدی نہ پئی آ پوری ھو

قرآن کریم میں بارہاجگہوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے معاش کی طرف توجہ دلائی ہے جیسا کہ سورت الجمعہ میں ارشاد فرمایا ہے-

’’فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ[8]

”جب نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کے فضل (رزق)کی تلاش کے لیے زمین میں پھیل جاؤ“-

انسانی زندگی میں جب نظریہ معاش کی وضاحت کی جائے تو اس کا براہ راست تعلق رزق حلال سے جا کر بنتا ہے کیونکہ رزق وہی اچھا ہے جو جائز اور حلال طریقہ سے حاصل کیا جائے-جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’کسب الحلال فریضیۃََ بعد فریضیۃ ‘‘[9]

”رزق حلال حاصل کرنا فرض کے بعد دوسرا فرض ہے“-

رازق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے- انسان کی ذمہ داری صرف اور صرف اس رزق کو تلاش کرنا ہے جو اس کی روح کی خوراک ہے- انسان ساری زندگی مادی روزی کے پیچھے پڑا رہتا ہے جب عمر رسیدہ ہوتا ہے تو پھر اسے اپنی اصل روزی کی فکر پڑتی ہے وہ وعدہ یاد آتا ہے جو اس نے روز ازل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا تھا-پھر وہ ہر وقت ایسے تڑپتا ہے جس طرح بلبل باغ کے اندر تڑپتی ہے انسان کو فکر معاش کیوجہ سے یادِ باری تعالیٰ سے غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی بھی امید رکھنی چاہیے-اس سے مراد یہ ہے کہ روزی کیلئے حرام اور ناجائز طریقوں کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ توکل پر یقین رکھا جائے جو روزی انسان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے وہ اسے مل کر ہی رہنی ہے-جس طرح حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

گھجے سائے رب صاحب والے کجھ نیں خبر اصل دی ھو
پھاہی دے وچ میں پئی تڑپاں بلبل باغ مثل دی ھو

 

گندم دانا بہتا چگیا ہن گل پئی ڈور ازل دی ھو
غیر دلے تھیں سٹ کے باھو رکھیے امید فضل دی ھو 

حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کی ذاتی زندگی کو دیکھا جائے تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے راہ توکل اختیار کی جب انسان اپنی روزی اسباب کی بجائے مسبب سے طلب کرتا ہے تو اس وقت اس کے وجود میں سخاوت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) نے راہ توکل اختیار کی تو یہ مقام پایا-

حاتم جیہیں لکھ کروڑاں در باھو دے منگدے ھو

حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے متذکرہ بالا معاشی نظریات کی اپنی تصانیف میں وضاحت کی ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

”فقراء بگلے کی مثل ہیں جو دریا کے کنارے پر رہتا ہے اپنی روزی دریا سے کھاتا ہے لیکن دریا میں قدم نہیں رکھتا اور نہ ہی دریا میں غرق ہوتا ہے“-[10]

اولیائے کاملین کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا وہ رزق بالمشقت کے ساتھ ساتھ رزق بالتوکل کو بھی ترجیح دیتے ہیں-ظاہری روزی (رزق بالمشقت) جس کی تگ و دو میں انسان ہمہ وقت سرگردان پھرتا ہے اس روزی کا بندوبست اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللہِ رِزْقُھَا  ‘‘[11]

”اور زمین و آسمان میں کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر نہ ہو“-

فقرائے کرام کے توکل کا ایک فکر انگیز واقعہ ملاحظہ ہوجسے حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بیان کیا ہے:

”نقل ہے کہ فقیر نے خلوت اختیار کر لی اور گزارے کے لیے صرف ایک خرمہ یعنی کھجور کا دانہ اپنے پاس رکھ لیا جب بھی فقرو فاقہ سے عاجز ہو جاتا تو خرمے کو دیگ میں ابال کر اس کا جوشاندہ بنا لیتا اور سب اہل مجلس مل کر جوشاندہ پی لیتے اس طرح پچاس سال تک وہ اور ان کے ساتھی اسی ایک ہی خرمے پر گزارہ کرتے رہتے- جب وہ خرما ختم ہو گیا تو درویش نے اپنی جان خدا کے سپرد کر دی- وہ مرتا مر گیا لیکن اس نے اہل دنیا کے دروازے پر قدم نہ رکھا“-[12]

خوداری انسان کا ایسا خاصا ہے جو اس کی نظر ظاہری دنیا کی آلائشوں سے ہٹا کر خالصتاََ خالق کائنات کی محبت کے لیے وقف کر دیتی ہے اور پھر انسانی خوداری کا یہ سفر حق الیقین کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے-جیسا کہ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو صحابہ کرام اور خلفائے راشدین(رضی اللہُ عنہ) کی زندگیوں میں خوداری کے بے مثال نمونے دیکھے جاسکتے ہیں- اسی بات کا ذکر علامہ اقبال ؒ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہےکہ:

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا[13]

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے اسی مفہوم کی ایک اور جگہ اس طرح وضاحت کی:

”عارف بااللہ فقیر خواہ فقر وفاقہ سے جان بلب ہی کیوں نہ ہوجائے یا جان سے بے جان ہو کر مر ہی کیوں نہ جائے کسی ظالم اہل دنیا کے دروازے پر قدم ہرگز نہیں رکھتا“[14]

قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کو زندگی میں معاشی و روحانی دونوں پہلوؤں پر کاربند رہنا چاہیے کیونکہ قرآن و سنت میں بار بار اس چیز کی تاکید کی گئی ہے اور صحابہ کرام (رضی اللہُ عنہ)نے اس نظریہ کی مختلف حوالوں سے تفہیم کی- بعینہٖ اولیائے کرام کی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہوئے حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بھی اس نظریہ کی عین قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کی ہے- لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دورِ پرفتن میں فلاحِ معاشرہ کے لیے قرآن و سنت اور اولیائے کاملین کی تعلیمات کی روشنی میں اپنا کردار ادا کیا جائے-

اگر دنیا کے اندر دیکھاجائے اور ترقی یافتہ معاشروں کا پسماندہ معاشروں سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ان کی کسوٹی معیشت ہے اوراسی طرح بہتر معاشی حالات کی بنا پر ترقی یافتہ قومیں ترقی پذیر معاشروں کو نظریاتی طور پر اپنا غلام بنا لیتی ہیں اور پھر اس بات کو باور کروایا جاتا ہے کہ ان کا نظریہ ہی دراصل کامیاب نظریہ ہے جب دنیا کے اندر کیمونزم نے ترقی کی تو معاشرہ کے اندر کسی نہ کسی طبقہ نے اس معاشی نظام کی ترقی کی وجہ سے اس نظام کی پیروی کی مگر اس نظام کے منتشر ہونے کے بعد لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی پیروی شروع کر دی یہ دونوں نظام جدید ترقی سے بھرپور ہونےکے باوجود معاشرہ انسانی میں امن کادور دورہ نہ کرسکے اور نہ ہی معاشرہ کے اندر طبقاتی درجہ بندی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو سکے بلکہ انسانیت کی تباہی کےلئے ان جدید نظاموں نے معاشرہ کے اندر بے سکونی کی فضا کوجنم دیا ہے-

جدید دنیا کا منظر نامہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں ناقابلِ یقین ترقی سامنے آئی ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ترقی کے اس تیز ترین سفر کے باوجود روحانی اقدار کا احیاء نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ انسانیت امن و سکون کی شاہراہ پر سفر کرنے کی بجائے شکست و ریخت کا شکار ہے جس کی عملی مثال عصرِ حاضر کے معاشرہ میں دیکھی جا سکتی ہے لہٰذا ایک فلاحی و مثالی معاشرہ کے قیام اور انسانیت کی بقاء کے لیے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی بھی اشد ضروری ہے- انہی نظریات کی عملی طور پر تکمیل کے لیے حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ) کی خانقاہ اقدس سے چلائی گئی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ اقدس کی قیادت میں ہمہ تن سرگرم ہیں-

٭٭٭


[1]( تفسیر نعیمی،جلد:۱،ص:۱۳۷)

[2](البقرۃ:۱۶۸)

[3]( شعب الایمان،جلد:۲، ص:۸۵)

[4]( مناقب سلطانی ،ص:۶۶)

[5](بالِ جبریل)

[6]( المائده ، ٨٨)

[7](بخاری شريف،ص:۵۴۱، دارالمعرفۃ)

[8](الجمعہ : ١٠)

[9](سنن الکبریٰ،جلد:۶،ص:۲۱۱)

[10]( عین الفقر، ص: ۳۵۳)

[11](ھود:۶)

[12](عین الفقر، ص: ۷۵۳)

[13](بانگِ درا)

[14](محک الفقر کلاں،ص: ۱۰۶)

روزی کمانے کے ایسے ذرائع جن سے زندگی کا تسلسلبرقرار رہے معاش کہلاتے ہیں- بشری زندگی کے آغاز سے ہی انسان کی کاوشوں کا محور خوراک کی طرف رہا ہے- جس کے حصول کے لئے انسان نے جوں جوں شعور کی آنکھ کھولی روزی حاصل کرنے کے یہ ذرائع مختلف ہوتے گئے- معلوم تاریخ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ قدیم ادوار میں انسان نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سینکڑوں جتن کئےاور یہ سفر کئی صدیوں پر محیط ہے - جیسے جیسے وقت نے ترقی کی ، ایجادات ہوتی گئیں ، انسان جنگل سے بستی ، بستی سے قصبے ، قصبوں سے شہر اور پھر ریاستی زندگی میں آیا اور انسان کی ضروریات زندگی میں اضافہ ہوا تو اُس نے اپنی راحت کے لئے مختلف ذرائع تلاش کیے جن میں اکثر کا تعلق معاش سے تھا-قدیم دور سے ہی انسان نے معاش کا اندیشہ اس لیے اختیار کیا کیونکہ اسے علم تھا کہ اس کے بغیر زندگی کا وجود ناممکن ہے – انسان کی اس فطری ضرورت کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین پر پیغمبر مبعوث فرمائےتو انہوں نے اپنی اپنی شریعت کے مطابق ظاہری نظامِ زندگی بطریق احسن سر انجام دیا- بلکہ معاش وہ پیشہ ہے جسے اللہ پاک کے ان برگزیدہ بندوں نے نہ صرف  اختیار فرمایا  بلکہ اِسے ایسی تقدیس بخشی کہ یہ انبیا کی سُنت بن گیا اور ان مقدس ہستیوں نے ایسے معیارات قائم کئے جس سے توازن ، ایمانداری ، دیانت اور صداقت کو معاش کے ذرائع میں فروغ ملا -

”جیسا کہ حضرت آدم علیہ اسلام نے کپڑا بُننے کا کام کیا اور بعد میں آپ کھیتی باڑی میں مشغول ہوئے-حضرت نوح (علیہ السلام)نے ذریعہ معاش کے لئے بڑھئی پیشہ اختیار کیا- حضرت ادریس (علیہ السلام) درزی گری فرماتے تھے- حضرت ہود(علیہ السلام) اور حضرت صالح(علیہ السلام) تجارت کرتے تھے- حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا- حضرت شعیب (علیہ السلام) جانور پالتے اور ان کے دودھ سے معا ش حاصل کرتے تھے- حضرت لوط(علیہ السلام) کاپیشہ کھتی باڑی تھا- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چند سال بکریاں چرائیں- حضرت داؤد (علیہ السلام)زرہ بناتے تھے-حضرت سلیمان (علیہ السلام) اتنے بڑے بادشاہ ہو کر درختوں کے پتوں سے پنکھے اور زنبیلیں بنا کر گزر فرماتے تھے- اسی طرح حضور بنی کریم (ﷺ)نے بکریاں چرائی ہیں اور حضرت خدیجہ(﷞) کے مال کی تجارت بھی فرمائی غر ض ہر قسم کی حلال کمایاں سنتِ انبیاء ہے اس کو عار جاننا نادانی ہے“[1]-

اسلامی نقطہ سے کسبِ حلال کے لئے معاش ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے اور اسلام نے کسب حلال کی تلقین و ترغیب دلائی اور اس کے حصول کے لئے انسان کو مختلف صلاحتیں عطاکیں-جیسا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا-

’’یٰاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا  مِمَّا  فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً  طَیِّبًا‘‘[2]

”اے لوگوں زمین میں جو پاکیزہ اور حلال چیزیں ہیں ان میں سے کھاؤ“-

حضور نبی کریم (ﷺ)کی ظاہری زندگی مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آقا پاک (ﷺ) نے زندگی کے ہر شُعبہ کی طرح اِس شُعبہ کا وقار بھی بڑھایا ، اور اِس میں کامیابیوں کا صحیح دُنیوی و اُخروی طریقہ کار سکھایا - جیسا کہ آقا علیہ الصلوۃ کا فرمان ہے-

’’وعن رافع بن خدیج قال قیل یا رسول اللہ ای الکسب اطیب قال عمل الرجل بیدہ و کل بیع مبرور‘‘[3]

”حضرت رافع ابن  خدیج(﷜) سے مروی ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ(ﷺ)! کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے فرمایا: آدمی کی اپنے ہا تھ کی کمائی اور اس پر صحیح خریدو فروخت“-

حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کا شمار ان صوفیائے عظام میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے نظریات سے معاشرہ میں فلاح کا فریضہ سر انجام دیا-جہاں آپ  (قدس اللہ سرّہٗ)نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کے متعلق نظریات قاتم کئےوہیں معاشی نظریات بھی ملتے ہیں جو کہ  قرآن وسنت کے عین مطابق ہیں-اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی آخر الزمان (ﷺ)نے ہمیں معاش کے ذرائع تلاش کرنے کی ترغیب کی ہے لیکن ساتھ ہی ان میں محو ہونے سے بچنے کی تاکید بھی کی ہے- اگر حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیات مبارکہ کو دیکھا جائے تو آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے بظاہر معاش کے لئے کھیتی باڑی کی لیکن اس پیشہ میں مکمل محویت اختیار نہیں کی- جس طرح صاحبِ مناقبِ سُلطانی  حضرت سلطان حامد صاحبؒ آپ کے متعلق لکھتے ہیں:          

”واضح رہے کہ اس مسکین (مولف کتاب) نے جو کچھ اپنے بزرگوں کی زبانی سنا اور آنحضرت(قدس اللہ سرّہٗ) کی مولفہ کتابوں سے معلوم ہوا اور قرب و جوار کی سرگزشت سے مفہوم پایا اور قرائن سے معلوم ہواکہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے کھیتی باڑی کے ارادہ سے صرف ایک دفعہ یا دو دفعہ یا تین دفعہ دو بیل خرید کر کھتی باڑی شروع کی“[4]-

حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)روزی کمانے کے مادی ذرائع کی مکمل طور نفی نہیں فرماتے لیکن اس پر توکل اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کا نظریہ ہے کہ ہمارے وجود کے اندر رزق کمانے کی فکر نہیں ہونی چاہیے اس بات کو واضح کرنے کے لیے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) پرندوں کی مثال دیتے ہیں کہ جب وہ صبح نکلتے ہیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا نظریہ ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس طرح بھروسہ ہونا چاہیے کہ جس طرح پرندوں کا ہے کہ وہ دوسرے دن کے لیے بھی خوراک جمع نہیں کرتے-رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو پتھر کے اندر کیڑے تک بھی پہنچا رہا ہے جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

دلیلاں چھوڑ وجودوں ہو ہشیار فقیرا ھو
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ نہیں کردے نال ذخیرا ھو

 

بنھ توکل پنچھی اڈدے پلے خرچ نہ زیرا ھو
مولا خرچ پوہنچاوے باھو جو پتھر وچ کیڑا ھو

انسان عالم لاہوت کا پرندہ ہے- مادی جہاں میں اس کو خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے اگر وہ صرف مادیت کی جکڑ بندیوں میں پھنس جائے تو اپنا اصل مقصد حیات حاصل نہیں کر پائے گا-اس کے لیے توکل کا اختیار کرنا از حد ضروری ہے- علامہ اقبال(﷫) نے تو اس طرح رزق کمانے پر موت کو ترجیح دی ہے جو اس لاہوتی پرندے (انسان) کی پرواز میں حائل ہوجاتا ہے-جیسا کہ آپ(﷫) فرماتے ہیں:

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی[5]

اللہ کریم نے رزق حلال میں بے شمار برکتیں رکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار ہا مقامات پر رزق حلال کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَکُلُوْامِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰلاً طَیِّبًا صوَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْٓ  اَنْتُمْ  بِہٖ  مُؤْمِنُوْنَ ‘‘[6]

”اور جو حلا ل طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو“-

عام طورپر انسان یہی سمجھتا ہے کہ زندگی شغل اور میلے کا نام ہے اور میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے- اللہ کریم نے انسان کو اس کائنات میں کئی اہم فریضے عطا کیے ہیں جن کی پا سداری انسان پر فرض ہے-حضور نبی کریم (ﷺ)نے بھی حدیث مبارکہ میں اسی امر کی طرف توجہ دلائی ہےکہ:

’’حد تنا ابراہیم بن موسی انا عیسی بن یونس عن ثور عن خالد بن معدان عن المقدم عن النبی ﷺ قال ما اکل احد طعاماً قط خیر امن ان یاکل من عمل ید ہ و ان نبی اللہ داؤد کان یا کل من عمل یدیہ‘‘[7]

”مقدام (﷜) نے رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کی کہ آپ (ﷺ)نے فرمایا کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سےبہتر طعام ہر گز نہیں کھاتا اور اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام)اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھاتے تھے“-

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا نظریہ ہے کہ رزقِ حلال تلاش کرو مگر حرص اور لالچ کو چھوڑ کر قناعت کو اختیار کرو ،قناعت سے وجود صرف تلاشِ رزق میں ہی غرق نہیں رہتا بلکہ اطاعت اور عبادت میں بھی مشغول ہوتا ہے ، آپ قدس اللہ سرہٗ کے نزدیک وہی انسان کامیاب ہے جو اس اعتدال کو اپنا لیتا ہے ۔  جو شخص عدمِ قناعت اور حرص و لالچ کیوجہ سے  ہر وقت معاش کے غم و فکر میں رہتا ہے اس کے لیے رات دن ایک کر دیتا ہے ایسے شخص کو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  چیلوں، کووں اور چنڈوری سے تشبیہ دیتے ہیں-جیسے ان کی عادت ہے کہ صبح صادق ہی چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں ایسے ہی جو ہروقت رزق کے لیے روتادھوتا ہے اس کی ساری عمر گزر جاتی ہے لیکن پوری پھر بھی نہیں پڑتی- جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

فجری ویلے وقت سویلے نت آن کرن مزدوری ھو
مارن چیخاں تے کرن مشقت پٹ پٹ سٹن انگوری ھو

 

کانواں ہلاں ہکسی گلاں تریجھی رلی چنڈوری ھو
ساری عمر پٹیندیاں گزری باھو کدی نہ پئی آ پوری ھو

قرآن کریم میں بارہاجگہوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے معاش کی طرف توجہ دلائی ہے جیسا کہ سورت الجمعہ میں ارشاد فرمایا ہے-

’’فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ[8]

”جب نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کے فضل (رزق)کی تلاش کے لیے زمین میں پھیل جاؤ“-

انسانی زندگی میں جب نظریہ معاش کی وضاحت کی جائے تو اس کا براہ راست تعلق رزق حلال سے جا کر بنتا ہے کیونکہ رزق وہی اچھا ہے جو جائز اور حلال طریقہ سے حاصل کیا جائے-جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’کسب الحلال فریضیۃََ بعد فریضیۃ ‘‘[9]

”رزق حلال حاصل کرنا فرض کے بعد دوسرا فرض ہے“-

رازق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے- انسان کی ذمہ داری صرف اور صرف اس رزق کو تلاش کرنا ہے جو اس کی روح کی خوراک ہے- انسان ساری زندگی مادی روزی کے پیچھے پڑا رہتا ہے جب عمر رسیدہ ہوتا ہے تو پھر اسے اپنی اصل روزی کی فکر پڑتی ہے وہ وعدہ یاد آتا ہے جو اس نے روز ازل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا تھا-پھر وہ ہر وقت ایسے تڑپتا ہے جس طرح بلبل باغ کے اندر تڑپتی ہے انسان کو فکر معاش کیوجہ سے یادِ باری تعالیٰ سے غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی بھی امید رکھنی چاہیے-اس سے مراد یہ ہے کہ روزی کیلئے حرام اور ناجائز طریقوں کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ توکل پر یقین رکھا جائے جو روزی انسان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے وہ اسے مل کر ہی رہنی ہے-جس طرح حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

گھجےسائے رب صاحب والے کجھ نیں خبر اصل دی ھو
پھاہی دے وچ میں پئی تڑپاں بلبل باغ مثل دی ھو

 

گندم دانا بہتا چگیا ہن گل پئی ڈور ازل دی ھو
غیر دلے تھیں سٹ کے باھو رکھیے امید فضل دی ھو 

حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کی ذاتی زندگی کو دیکھا جائے تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے راہ توکل اختیار کی جب انسان اپنی روزی اسباب کی بجائے مسبب سے طلب کرتا ہے تو اس وقت اس کے وجود میں سخاوت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) نے راہ توکل اختیار کی تو یہ مقام پایا-

حاتم جیہیں لکھ کروڑاں در باھو دے منگدے ھو

حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے متذکرہ بالا معاشی نظریات کی اپنی تصانیف میں وضاحت کی ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

”فقراء بگلے کی مثل ہیں جو دریا کے کنارے پر رہتا ہے اپنی روزی دریا سے کھاتا ہے لیکن دریا میں قدم نہیں رکھتا اور نہ ہی دریا میں غرق ہوتا ہے“-[10]

اولیائے کاملین کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا وہ رزق بالمشقت کے ساتھ ساتھ رزق بالتوکل کو بھی ترجیح دیتے ہیں-ظاہری روزی (رزق بالمشقت) جس کی تگ و دو میں انسان ہمہ وقت سرگردان پھرتا ہے اس روزی کا بندوبست اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَیاللہِ رِزْقُھَا  ‘‘[11]

”اور زمین و آسمان میں کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر نہ ہو“-

فقرائے کرام کے توکل کا ایک فکر انگیز واقعہ ملاحظہ ہوجسے حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بیان کیا ہے:

”نقل ہے کہ فقیر نے خلوت اختیار کر لی اور گزارے کے لیے صرف ایک خرمہ یعنی کھجور کا دانہ اپنے پاس رکھ لیا جب بھی فقرو فاقہ سے عاجز ہو جاتا تو خرمے کو دیگ میں ابال کر اس کا جوشاندہ بنا لیتا اور سب اہل مجلس مل کر جوشاندہ پی لیتے اس طرح پچاس سال تک وہ اور ان کے ساتھی اسی ایک ہی خرمے پر گزارہ کرتے رہتے- جب وہ خرما ختم ہو گیا تو درویش نے اپنی جان خدا کے سپرد کر دی- وہ مرتا مر گیا لیکن اس نے اہل دنیا کے دروازے پر قدم نہ رکھا“-[12]

خوداری انسان کا ایسا خاصا ہے جو اس کی نظر ظاہری دنیا کی آلائشوں سے ہٹا کر خالصتاََ خالق کائنات کی محبت کے لیے وقف کر دیتی ہے اور پھر انسانی خوداری کا یہ سفر حق الیقین کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے-جیسا کہ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو صحابہ کرام اور خلفائے راشدین(﷢) کی زندگیوں میں خوداری کے بے مثال نمونے دیکھے جاسکتے ہیں- اسی بات کا ذکر علامہ اقبال(﷫) نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہےکہ:

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا[13]

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے اسی مفہوم کی ایک اور جگہ اس طرح وضاحت کی:

”عارف بااللہ فقیر خواہ فقر وفاقہ سے جان بلب ہی کیوں نہ ہوجائے یا جان سے بے جان ہو کر مر ہی کیوں نہ جائے کسی ظالم اہل دنیا کے دروازے پر قدم ہرگز نہیں رکھتا“[14]

قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کو زندگی میں معاشی و روحانی دونوں پہلوؤں پر کاربند رہنا چاہیے کیونکہ قرآن و سنت میں بار بار اس چیز کی تاکید کی گئی ہے اور صحابہ کرام (﷢)نے اس نظریہ کی مختلف حوالوں سے تفہیم کی- بعینہٖ اولیائے کرام کی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہوئے حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بھی اس نظریہ کی عین قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کی ہے- لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دورِ پرفتن میں فلاحِ معاشرہ کے لیے قرآن و سنت اور اولیائے کاملین کی تعلیمات کی روشنی میں اپنا کردار ادا کیا جائے-

اگر دنیا کے اندر دیکھاجائے اور ترقی یافتہ معاشروں کا پسماندہ معاشروں سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ان کی کسوٹی معیشت ہے اوراسی طرح بہتر معاشی حالات کی بنا پر ترقی یافتہ قومیں ترقی پذیر معاشروں کو نظریاتی طور پر اپنا غلام بنا لیتی ہیں اور پھر اس بات کو باور کروایا جاتا ہے کہ ان کا نظریہ ہی دراصل کامیاب نظریہ ہے جب دنیا کے اندر کیمونزم نے ترقی کی تو معاشرہ کے اندر کسی نہ کسی طبقہ نے اس معاشی نظام کی ترقی کی وجہ سے اس نظام کی پیروی کی مگر اس نظام کے منتشر ہونے کے بعد لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی پیروی شروع کر دی یہ دونوں نظام جدید ترقی سے بھرپور ہونےکے باوجود معاشرہ انسانی میں امن کادور دورہ نہ کرسکے اور نہ ہی معاشرہ کے اندر طبقاتی درجہ بندی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو سکے بلکہ انسانیت کی تباہی کےلئے ان جدید نظاموں نے معاشرہ کے اندر بے سکونی کی فضا کوجنم دیا ہے-

جدید دنیا کا منظر نامہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں ناقابلِ یقین ترقی سامنے آئی ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ترقی کے اس تیز ترین سفر کے باوجود روحانی اقدار کا احیاء نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ انسانیت امن و سکون کی شاہراہ پر سفر کرنے کی بجائے شکست و ریخت کا شکار ہے جس کی عملی مثال عصرِ حاضر کے معاشرہ میں دیکھی جا سکتی ہے لہٰذا ایک فلاحی و مثالی معاشرہ کے قیام اور انسانیت کی بقاء کے لیے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی بھی اشد ضروری ہے- انہی نظریات کی عملی طور پر تکمیل کے لیے حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ) کی خانقاہ اقدس سے چلائی گئی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ اقدس کی قیادت میں ہمہ تن سرگرم ہیں-

٭٭٭



[1]( تفسیر نعیمی،جلد:۱،ص:۱۳۷)

[2](البقرۃ:۱۶۸)

[3](شعب الایمان،جلد:۲، ص:۸۵)

[4](مناقب سلطانی ،ص:۶۶)

[5](بالِ جبریل)

[6](المائده ، ٨٨)

[7](بخاری شريف،ص:۵۴۱، دارالمعرفۃ)

[8](الجمعہ : ١٠)

[9](سنن الکبریٰ،جلد:۶،ص:۲۱۱)

[10](عین الفقر، ص: ۳۵۳)

[11](ھود:۶)