ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Hafiz are proud of recitations and mullah’s are becoming pompous twits Hoo

Like April May’s storms they roam round with books under their armpits Hoo

They recite excessively wherever they see good food, Hoo

Deprived in both worlds will be those Bahoo who have sold their livelihood Hoo

Hafiz pa’Rh pa’Rh karan takabbur mulla’N karen wadyaai Hoo

Sawan maanhh day badla’N wango’N phiran kitaba’N chai Hoo

Jithay waikhen changa chokhha othay kalam swai Hoo

Dohai’N jahanai’N muthhaay Bahoo jihan’N khhadi waych kamai Hoo

تشریح:

وقت گزاری یادُنیا داری کے لیے دِینی علوم حاصل کرنا عموماً مضر رساں ہوتاہے -ہونا تویہ چاہیے کہ انسان جوں جوں دِینی علوم حاصل کرتاجائے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کے مقابلے میں اُسے اپنی کمزرو اور ناتواں حیثیت کاادراک زیادہ ہوتاجائے-لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اعمال کادارومدار نیت پہ ہوتاہے-علماء وحفاظ پہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب انہیں وسیلت اور ظاہری فضیلت میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنا ہوتا ہے -جو وسیلت کی راہِ پہ چلتے ہیں وہ نفس امّارہ کے رِذال پئن سے ایک حد تک محفوظ ہوجاتے ہیں اورشیطان بھی انہیں آسانی سے گمراہ نہیں کرسکتا-مگرجو وسیلت اختیار نہیں کرتے وہ توفیق بااللہ کے حفاظتی حصار سے باہر ہوجاتے ہیں اس لیے نفس امّارہ انہیں اپنے دام میں پھانس کر خود پسند ونفس پرست بنادیتاہے اورابلیس بھی ان کے دِل کو غروروتکبراورحسد وکینہ سے بھر دیتاہے-حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے اِس امر کی وضاحت یوں فرمائی کہ :

’’مجھے تعجب ہوتا ہے اُن نفس پرست و بے عمل علماءپر جو معرفت ِ اِلٰہی سے بے خبر ہیں، جن کا نفس بادشاہ اور شیطان وزیر ہے-نفس پرست آدمی کو شیطان ریا و ننگ و ناموس و ظاہرپرستی اور ہوا و ہوس میں مبتلا کرکے معرفت ِ اِلٰہی سے دُور رکھتا ہے اِس لیے اکثر علماء کہتے  کہ اِس دور میں لائق ِارشاد وصاحب ِتوفیق پیر مرشد نا پید ہے لہٰذا اُنہو ں نے فقہ و کتاب کے علم کو وسیلۂ مرشد بنا رکھا ہے ، وہ غلط بیانی کرتے ہیں-علم ایک روشن راہ ہے مگر وسیلۂ مرشد طالب اللہ کو توشۂ ذکر فکر اورلشکر ِجمعیت کے ذریعے نفس و شیطان و حوادث ِدنیا سے محفوظ رکھتا ہے-تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان بہت بڑا عالم ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے ظاہری علم نہیں پڑھا تھا - شیطان کے پاس قیل و قال کا ظاہری علم تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس باطن کو روشن رکھنے والا معرفت ِاِلٰہی کا علم تھا جس کی بنا پر جملہ فرشتوں سے عزت و شرف کی بازی لے گئے تھے -فرمان حق تعالیٰ ہے  : ’’ اور آدم علیہ السلام کو تمام اَسما ءکا علم سکھایا گیا‘‘-پس ظاہری علم محض شیطان کے ردّ اوراُس کے دفعیے کے لیے ہے -فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’اے اولاد ِآدم (علیہ السلام)شیطان کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہارابد ترین دشمن ہے‘‘-[1](کلیدالتوحید:۱۸۱)

(۲)ساون کی بارش کے بارے میں عوام الناس میں مشہورہے کہ گائے کاایک سینگ بھیگ جاتا ہے تو دوسرا خشک رہتاہے-اس اَمر کو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  نے قدرے مہارت سے دُنیا دار علماء وحفاظ کی خودغرض نفسیات سے تشبیہ دی کہ یہ لوگ بھی بغل میں کتابیں اُٹھاکر اپنی من پسند جگہ کے انتخاب کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں-ان کی خودغرضی اوردُنیا وی مقاصد کی وجہ سے دِینی علوم ان کے دِلوں پہ تاثیر نہیں کرتے -اسی لیے فرمایاگیاکہ:

حافظ شدی عالم شدی  زند ہ  زبان

 

و زبی خبرتصد یق وحد ت بی عیان

’’تُو حافظ بن یا عالم بن تیری زبان زندہ ہو جائے گی مگر تو باعیان تصدیق ِو حدت سے بے خبر رہے گا‘‘-[2](امیرالکونین :۳۳۷)

(۳)یہ لوگ کلام پاک کی تلاوت اورمسائل فقہ بیان کرنے کے لیے ایک ہی بستی کے صرف اُن گھروں کومنتخب کرتے ہیں کہ جہاں سے زیادہ روپیہ پیسہ اکٹھا ہوسکے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  نے ان کے بارے میں محض علمی بات نہیں کی بلکہ یہ مشاہداتی امرہے -آج بھی ان لوگوں کی اس بری نفسیات کے عملی مناظر دیکھے جاسکتے ہیں-فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے مقاصدکے لیے جدید ذرائع ابلاغ کو کام میں لاتے ہیں -

(4)چونکہ ان لوگوں نے اُخروی حیات کونظرانداز کرکے حصول دُنیا کواپنا مقصد بنالیااس لیے ان کی اعمال کابدلااِنہیں دُنیا میں ہی دے دیاجائے گا -اِن کا جو حال ہوگااُس وضاحت دُنیَوی مثال سے بھی ہوسکتی ہے کہ انسان اپنی جوانی میں کام و کاج کرکے اپنے بڑھاپے کاسامان اکٹھا کرتاہے لیکن جو لوگ اپنی ساری کمائی جوانی میں ہی اُڑا دیتے ہیں اُن کا پڑھاپا دوسروں کے لیے عبرت بن جاتا ہے-بعینہٖ جولوگ اپنے دینی اُمور وفرائض کو محض حصول دُنیا کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اِن کی نیت کی وجہ سے خداتعالی انہیں دُنیا میں ان نیک کاموں کااَجر ضرور عطافرماتا ہے لیکن روزِ قیامت وہ خالی ہاتھ ہوں گے-

علمِ نحو و صرف خوانی فقّہ خوانی یا اصول

 

جُز وصالِ قربِ وحد ت دُور مانی ای جہول

  ’’خواہ تُو صرف و نحو پڑھ یا علمِ فقہ و اصول پڑھ، اگر تُو وصالِ قربِ وحدت سے محروم ہے تو تُو جاہل ہے‘‘-[3](محک الفقر:۵۱۹)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر