مادیت پرستی کے نقصانات اور ان کا تدارُک

مادیت پرستی کے نقصانات اور ان کا تدارُک

مادیت پرستی کے نقصانات اور ان کا تدارُک

مصنف: توقیر عامر جنوری 2017

کائنات کا کوئی بھی عنصر جس کا مشاہدہ ہماری ظاہری آنکھ کرتی ہے مادہ کہلاتا ہے  جبکہ مادیت پرستی سے مراد مادی اجسام،دنیاوی عیش و عشرت سے محبت،ذہنی اور روحانی انحطاط ہے -عام طور پر ہم مادہ کو دنیا ،مادیت کو دنیاداری اور مادہ پرست کو دنیا دار کے نام سے منسوب کرتے ہیں جب انسان فقط دنیا داری میں مگن ہو جاتا ہے تو وہ خدا سے دور ہو جاتا ہے اور اپنا مقصدِ زیست کھو بیٹھتا ہے جوں جوں فرد کے اندر مادیت پرستی زور پکڑتی ہے تو معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ فردمعاشرہ کی اساس ہے-معاشرہ کا انحصار افراد پر ہے جیسی فطرت افرادکی ہو گی معاشرہ ویسا ہی ہو گا جس کے اثرات انسانی زندگی پر براہ راست پڑتے ہیں مادیت پرستی کی وجہ سے انسان انفرادی طور پر تنہائی (Isolation) اور اجتماعی طور پر پورا معاشرہ محرومی (Frustration) کا شکار ہو جاتا ہے -

مادیت پرستی پر قرآن و احادیث میں احکامات : 

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا کی محبت کو دل میں بسانے سے تنبیہ کی ہے کہ دنیا کی محبت انسان کو یاد الٰہی سے غافل کر دیتی ہے- فرمان الٰہی ہے:

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہ‘‘[1]

’’اے ایمان والو کہیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں‘‘-

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کھیل و تماشا قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا     :

’’وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰـوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَہْوٌ وَّلَعِبٌ‘‘[2]

’’دنیاوی زندگی فقط ایک کھیل اور تماشا ہے‘‘ -

مزید ایک مقام پر دنیا کی زندگی کو فریب قرار دیا گیا ہے  :

فَـلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ[3]

’’ دنیا کی زندگی تمہیں ہرگز دھوکہ میں نہ ڈال دے ‘‘-

حضور رسالت مآب(ﷺ (کے اسوہ ٔ حسنہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کی محبت خسارے کا باعث بنتی ہے جیسا کہ آپ(ﷺ )کا ارشاد ہے:

’’حضرت سہل بن سعد(﷜)سے روایت ہے کہ آقا(ﷺ) نے فرمایا اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا‘‘-[4]

’’حضرت ابنِ مسعود (﷜)سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ )نے فرمایا کہ تم جاگیریں نہ بناؤدنیا میں،رغبت کرنے لگ جاؤ گے‘‘-[5]

’’دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے‘‘-[6]

’’حضرت جابر(﷜)سے روایت ہے کہ رسولِ کریم(ﷺ) ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس سے گزرے جس کے کان چھوٹے چھوٹے تھے تو فرمایا تم میں  سے کون چاہتا ہے کہ اس کو ایک درہم کے بدلے لے لے تو صحابہ کرام(﷢)نے کہا ہم تو کسی چیز کے بھی عوض اس کو نہیں لیتے تو رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا اللہ کی قسم،اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا بہت زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک بکری کا یہ بچہ ذلیل ہے‘‘-[7]

تعلیماتِ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کی روشنی میں مادیت پرستی کا جائزہ : 

حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرہ )کے مطابق دنیا کی محبت انسان کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرتی ہے جیسا کہ آپ کا بیت ہےکہ:

باھُو اد نیادانی چیست پُر درد بلا
می کند از ذکر و فکرِ حق جدا[8]

  ’’ اے باھُو ! کیا تجھے معلوم نہیں کہ دنیا کیا چیز ہے ؟ دنیا ایک پُردرد بلا ہے جو ذکر و فکر حق سے غافل کر دیتی ہے ‘‘-

جو دنیا کو اختیا ر کرتا ہے وہ شیطان کی راہ پر چل نکلتا ہے دنیا کی دوستی خدا سے دشمنی ہے اگر کوئی انسان دنیا سے رغبت رکھتے ہوئے خدا سے دوستی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے - جیسا کہ حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

’’اے باھُو! دنیا کیا چیز ہے ؟ دنیا دوئی کا نام ہے جو شخص دوئی اختیا ر کرتا ہے وہ خود کو شیطان کی راہ پر ڈال دیتا ہے جو آ دمی اللہ تعالیٰ سے دوستی رکھتا ہے شیطان اس سے دشمنی رکھتا ہے اور جو شخص دنیا سے دوستی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی رکھتا ہے پس معلوم ہوا کہ خواہ کوئی عالم ہو یا جاہل اگر وہ دنیا سے رغبت رکھتا ہے تو دوستی خدا تعالیٰ میں جھوٹا ہے ‘‘-  [9]

یہاں حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)دنیا سے مراد دنیاوی یا مادی اشیا نہیں لیتے بلکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ہماری توجہ اس طرف مبذول کرواتے ہیں کہ دل میں دنیا کی محبت اور اس کی لذات میں محو ہو کر رہ جانے سے انسان کی نظر اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں جو انسان کے لئے خسارے کا باعث بنتا ہے-  دُنیا سے مُراد آپ قدس سرہٗ کے نزدیک بدی کا جذبہ ہے اور شر کا عمل سر انجام دینا ہے ، یعنی خلوص کا فقدان اور نیت کا فتور دُنیا و مادیّت پرستی ہے -حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کے نزدیک حضور پاک (ﷺ) سے دشمنی دنیا ہی نے کی، امامین(﷩) کو قتل کیا تو دنیا ہی نے کیا اوردنیا ہی اصحاب (﷢)کی قاتل ہے جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

’’ جان لے کہ یہ درہم دنیا ہی تھا کہ جس نے حضور (ﷺ) سے دشمنی و جنگ کی اگر ابوجہل مفلس ہوتا تو حضور (ﷺ) کی تابعداری کرتا حضرت امام حسن اور امام حسین (﷢)کو شہید کیا تو درہم دنیا ہی  نے کیا اگر یزید مفلس ہوتا تو امامین (﷩)کا تابعدار ہوتا کہ امامین پاک (﷩)اُم المومنین حضر ت فاطمۃالزھرہ (﷞)اور حضور (ﷺ) کے نور چشم اور حضرت علی کرم الوجہہ کی اولاد ہیں پس اہل دنیا ابو جہل و یزید ہے نہ کہ حضرت رابعہ بصری و بایزیدبسطامی (﷮)- دنیا ہی قاتِل اصحاب(﷢) اور قاتل امامین(﷩) ہے‘‘-[10]

حضرت سلطان باھُو کی تعلیمات کے مطابق دنیا کی محبت حضور پاک (ﷺ) کی تابعداری سے روکتی ہے  جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

’’جب حضور (ﷺ) نےاللہ تعالیٰ  کےحکم سے کعبہ سے رخصت ہوئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ہر اہل محبت اور جانثار ساتھی نے آپ(ﷺ) کی اتباع میں ہجرت کی اور حضور(ﷺ )پر اپنا جان و مال اور سر قربان کرنے سے دریغ نہ کیا اس کے برعکس جن  لوگوں پر اپنے وطن،اپنی زمین،اپنے مال،اپنی دولت اور اپنے قرابت داروں کی محبت غالب آئی وہ خدمت  ہجرت سے جدا اور محروم رہے جو بھی سنتِ ہجرت سے محروم رہا طمع دنیا کی وجہ سے رہا‘‘- [11]

اسی طرح ہم حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی کلام پر نظر ڈالتے ہیں وہاں بھی آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فتنہ میں مُبتلا کرنے والی دنیا داری سے بے رغبتی کادرس دیتے نظر آتے ہیں-دنیا کی ناجائز محبت اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتی ہے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق جس گھر میں دنیا ہے وہاں اللہ کی لعنت ہے دنیا کو تین طلاقیں دینی چاہیں کیونکہ اسلام میں تین طلاقیں دینے سے مراد مکمل علیحدگی ہے اور پھر اس پرکوئی سمجھوتا نہیں ہے-جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں :

جیں   فقر   گھر   دنیا   ہو و ے   لعنت   اس   دے   جیوے    ھو
سہ   طلاق   دنیا   نوں   دئییے   جے    با ھو    سچ    پچھیوے     ھو   تھیوے   
ھو
حب   دنیا   دی   رب   تھیں   موڑے   ویلے   فکر   کچیوے   ھو

 

ایہہ   دنیاں   رن   حیض   پلیتی    ہرگز   پاک    نہ    تھیوے    ھو
حب   دنیا   دی   رب   تھیں   موڑے   ویلے   فکر   کچیوے   ھو

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) جہاں دنیا کی ناجا ئز محبت کو لعنت قرار دیتے ہیں وہیں اس ناجائز محبت کے مُبتلا  کو اس سے زیادہ ملعون ٹھہراتے ہیں- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے نزدیک جو اس دنیا کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو مول لیتا ہے اس خرچ سے مراد ہر چیز کو اللہ کی رضا کےلئے استعمال کرنا اور مال و دولت اور رشتوں کو اس کی رضا کے لئے قربان کرنا ہے کیونکہ دنیا اتنی مکار ہے جو باپ کے ہاتھوں بیٹے کو قتل کروا دیتی ہے جو شخص دنیا کو ترک کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں خوشحال رہتا ہے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:-

جیں راہ صاحب خرچ نہ کیتی لین غضب دیاں ماراں ھو
جنہاں ترک دنیا دی کیتی باھو لیسن باغ بہاراں ھو

 

ادھی لعنت دنیاں تائیں تے ساری دنیا داراں ھو
پیوواں کولوں پتر کوہاوے بھٹھ دنیا مکاراں ھو

 

ہڈی    اُتے    ہوڑ     تنہاں     دی    لڑدی    عمر     وہانی    ھو
باجھوں    ذکر    ربے    دے    باھو    کوڑی  رام    کہانی   ھو

 

دنیا    ڈھوڈن    والے     کتے    در    در    پھرن    حیرانی    ھو
عقل    دے    کوتاہ    سمجھ   نہ   جانن   پیون   لوڑن   پانی   ھو

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق دنیاوی عزو جا ہ تلاش کرنے والے در در ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں جن کی ساری عمر دنیا مردار کو حاصل کرنے میں گزر جاتی ہے یہ اتنے بے عقل ہیں کہ رزق اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کے باوجود بھی دنیا کی تلاش میں پریشان پھرتے ہیں یہ دنیا فقط ایک رام کہانی ہے اور جھوٹی قیل و قال ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

نقش    نگار   کر ے   بہتیرے   زن   خو باں   سبھ   مونہدی   ھو
حضرت    عیسیٰ ؑ  د ی  سلھ وانگوں   باھو  راہ  ویندیاں  نوں  کونہدی ھو

 

دنیا    گھر    منافق    دے    یا   گھر   کافر  دے  سونہدی  ھو
بجلی    وانگوں   کرے   لشکارے   سر  دے   اُتوں   جھوندی  ھو

تعلیمات حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کے مطابق دنیا مردارکا ٹھکانہ منافق و کافر کا گھر ہے دنیا خود کو زن ِخوباں کی طرح نقش و نگار کر کے سب کو اپنی طرف مائل کرتی ہے یعنی مقصد حیات سے غافل کر دیتی ہے دنیاوی راحت بجلی کی چمک کی طرح بے ثبات ہے-یہ دنیا اتنی نامراد ہے کہ جو اس کے پیچھے پڑتا ہے وہ اپنی زیست کھو بیٹھتا ہے مگر یہ پھر بھی ہاتھ نہیں آتی جیسا کہ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

اس بیت کے آخری مصرعہ میں دیکھیں تو حضرت سلطان باھو(قدس اللہ آپ سرّہٗ)نے مادیت پرستی کی حقیقت کو ایک تلمیح (اشارہ)یعنی ’’حضرت عیسیٰ دی سِلھ(اینٹ)‘‘سے واضح کیا ہے-  اس کی تفصیل یوں ہے کہ :

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے زمانہ میں تین مسافروں نے کسی جنگل میں ایک سونے کی اینٹ دیکھ لی تینوں بہت خوش ہوئے اور طے پایا کہ اس اینٹ کو برابر تقسیم کر لیں گے-ایک مقام پر جا کر ان تینوں نے قیام کیا ایک مسافر کو بازار سے کھانا لانے کے لیے بھیج دیا کھانا لانے والے  نے  د ل میں سوچا کہ کیوں نہ ان دونوں کو ہلاک  کر دوں اور سونے کی اینٹ کا واحد مالک بن جاؤں-چنانچہ اس نے کھانا خریدا اور اس میں زہر ملادی ادھر دونوں ساتھیوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ کھانا لانے والے ساتھی کو ہلاک  کردیا جائے تاکہ  وہ دونوں سونے کی اینٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں جب ساتھی کھانا لایا تو دونوں نے مل کر اس کا کام تمام کر دیا اور کھانا اٹھا کر کھانے لگے کھانا کھاتے ہی یہ دونوں بھی زہر  کے اثر سے مر گئے گویا تینوں دنیا کے طالب نامراد و ناکام ہو کر  مر گئے اور فریب دنیا کی اینٹ وہیں کی وہیں پڑی  رہی ‘‘-[12]

قرآن مجید،احادیث مبارکہ اور تعلیمات ِحضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) سے مادیت پرستی کے جو نقصانات ہمارے سامنے آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں -

v     خدا سے دوری

v     قرآن و سنت سے دوری 

v     انسانیت کا استحصال

v     معاشرتی نا ہمواری

v     خصائلِ رذیلہ کا فروغ 

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)  کی تعلیمات کے مطابق ان نقصانا ت کا سبب روحانی تنزلی ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جہاں انسان مادی طور پر ترقی کر رہا ہے وہیں روحانی ترقی کی ضرورت ہے تاکہ ظاہری اور باطنی تقاضے پورے ہوں  اور معاشرے کے اندر استحکام پیدا ہو سکے-کیونکہ یہ مادی و روحانی ترقی کے امتزاج کے بغیر نا لممکن ہے-

’’ نبی کریم(ﷺ)کی زندگی مبارکہ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ(ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ ایسی مثالوں سے بھری ہے کہ آپ(ﷺ)نے مادی و روحانی دونوں تقاضوں کو ایک توازن کے ساتھ پورا کیا- مثلاًآپ(ﷺ) نے تجارت بھی کی اور دوسری طرف صحابہ کرام (﷢) کے سامنے روحانیت کا عملی نمونہ بھی پیش کیا-اسی طرح دیگر انبیائے کرام (﷩)کی زندگیوں پر بنظرِ عمیق نگاہ ڈالی جائے تو یہ توازن ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اولاً کپڑے بُننے کا کام کیا اور بعد میں کھیتی باڑی کی،ہر قسم کے بیج جنت سے ساتھ لائے جن کی کاشت فرماتے تھے اور ان کے علاوہ سارے پیشے اختیار کیے-حضرت نوح علیہ السلام  کا ذریعہ معاش لکڑی کا کام تھا- حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا مشغلہ بھی کھیتی باڑی تھا-حضرت شعیب  علیہ السلام جانور پالتے اور ان کے دودھ سے معاش حاصل کرتے تھے-حضرت لوط علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے-حضرت موسی ٰ علیہ السلام نے چند سال بکریاں چرائیں، حضرت داود علیہ السلام زرہ بناتے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام اتنے بڑے بادشاہ ہو کر درختوں کے پتوں سے پنکھے اور زنبیلیں بنا کر گزر فرماتے تھے  ‘‘-[13]

بعینہٖ اسی توازن کے ساتھ صحابہ کرام (﷢)نے شعبہ ہائے زندگی کے تمام امور بطریقِ احسن سر انجام دیئے-چاہے وہ تجارت ہو،خلافت ہو،سیاست ہو،عدل و انصاف ہو،فوجداری ہو یا اقتصادیات وغیرہ اور ان امور کے ساتھ ساتھ ان کا روحانی تعلق خدا اور رسول(ﷺ) کے ساتھ پختہ رہا-سلف صالحین اور اولیائے کاملین کی زندگیوں میں بھی بے شمارایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی مادی و روحانی دونوں تقاضوں کو بیک وقت پورا کیا-وہاں پر بھی مادی و روحانی امتزاج کی کئی خوبصورت مثالیں موجود ہیں-

اگر ہم صرف ایک تقاضے کو لے کے چلیں گے تو یہ رہبانیت ہے نہ کہ مسلمانیت -حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)اس بات کے بھی خلاف ہیں کہ فقط خانقاہوں میں مقید ہو کر رہ جائیں اور دنیا سے تعلق توڑ دیں- کیونکہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ بیوی بچوں اور اقرباء کے ساتھ برتاؤ کرنا دنیا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے غفلت کا نام دنیا ہے-مزید آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کا فرمان مبارک ہے ـ

’’دنیا دریا کی مثل ہے اہلِ دنیا مچھلی و مگرمچھ کی مثل ہیں-اہلِ علم مرغابی کی مثل ہیں اور مرغابی پانی میں رہتے ہوئے بھی آلودہ نہیں ہوتی اور فقراء بگلے کی مثل ہیں جو دریا کے کنارے پر رہتا ہے اپنی روزی دریا سے کھاتا ہے لیکن دریا میں قدم نہیں رکھتا اور نہ ہی دریا میں غرق ہوتاہے‘‘-[14]

 حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق اگر روحانیت کو بیدار کر لیا جائے تو مادیت پرستی کے ان تمام نقصانات سے چھٹکارہ مل سکتا ہے-روحانیت کو بیدار کرنے کا آلہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  تصور اسم اللہ ذات کو قرار دیتے ہیں -

اکیسویں صدی عیسوی کے تناظر میں جب مادیت پرستی اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے اس دور میں حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کی اشد ضروت ہے جو انسان کے لیے رہنمائی اور آگاہی کا ذریعہ ہے اور انسان کو اپنے وجود اور معاشرے کے ماحول کو پر امن بنانے کے لیے مشعل راہ ہے-اگر آج کا انسان آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کو اپنا لے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت لے کر دنیا میں چھا جانے کا نام اسلام ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اس کی عملی تفسیر ہیں جیسا کہ علامہ اقبال (﷫)نےفرمایا :

نکل    کر    خانقاہوں     سے     ادا    کر    رسمِ     شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری[15]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  کی ساری زندگی رسم شبیریؑ کو ادا کرتے ہوئے گزری،آج مادیت پرستی کے دور میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  کی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے  جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)  کی تعلیمات کی روشنی میں دونوں تقا ضوں (مادیت اور روحانیت) کو احسن طریقے سے عملی جامہ پہنا رہے ہیں جو کہ انسانیت کی فلاح کا ذریعہ ہے-جدید دورکے انسان کو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی پہلو پر بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے تاکہ اس قحط الرجالی کے دور میں ہچکولے کھاتی ہوئی انسانیت کو امن و سلامتی کی نوید سنائی جا سکے-

٭٭٭



[1] (المنافقون:۲۸)

[2] (العنکبوت:۶۴)

[3] (لقمان:۳۳)

[4] (مسند احمد،ترمذی)

[5]( ترمذی،شعب الاایمان)

[6](مشکوۃ شریف کتاب الرقاق)

[7]( مسلم و مشکوۃ شریف)

[8](عین الفقر،ص:۲۶۵)

[9] (عین الفقر،ص ۳۹۵)

[10]( عین الفقر،ص ۳۹۷)

[11]( عین الفقر،ص ۳۹۹)

[12]( حضرت عیسیٰ ؑ پیغمبر خدا،ابن مریم بنت عمران بن ہامانہ-بمطابق نسب نامہ کلاں از حاجی شاہ ضیاءاللہ مطبوعہ لاہور ۱۲۹۶)

[13]( تفسیرِنعیمی،تفسیرِعزیزی)

[14] (عین الفقر،ص:353)

[15](ارمغانِ حجاز)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر