امیر الکونین (قسط 39)

امیر الکونین (قسط 39)

شرحِ حاجی الحرمین شریفین:

بعض لوگ حاجی ٔحرم ہوتے ہیں اور بعض حاجی ٔکرم ہوتے ہیں -جو آدمی وجودِ خاص کے ساتھ کامل اخلاص و اعتقاد سے حرمِ کعبہ میں داخل ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے تو حرم و خانہ کعبہ کے تمام در و دیوار انوارِ الٰہی سے بھر جاتے ہیں اور حاجی اللہ تعالیٰ کی معیت میں مشاہدۂ دیدارِ پروردگارسے مشرف ہو کر حاجی ٔکرم بن جاتا ہے اور اُسے حرم و خانہ کعبہ پر مکمل یقین و اعتبار آ جاتا ہے -جو فقیر اِن مراتب پر پہنچ جائے وہ حج و طوافِ خانہ کعبہ کے لائق ہو جاتا ہے-اِسی طرح اگروہ حرمِ مدینہ میں داخل ہو کر روضۂ رسول (ﷺ)پر حاضری دے تو روضہ مبارک کے در و دیوار انوار سے بھر جاتے ہیں اور وہ دیدارِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مشرف ہو جاتا ہے - اگر وہ کوہِ عرفات کے میدان میں خطبہ ٔحج سنے اور دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا کر’’لَبَّیْکَط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَط وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ‘‘کہے تو تمام میدانِ عرفات میں نور بھر جاتا ہے اور حاجی اللہ تعالیٰ کی معیت میں مشاہدۂ دیدارِ پروردگارسے مشرف ہوجاتا ہے -تُو اِس میں عیب جوئی مت کر اور نہ ہی تعجب کر کہ یہ منجانب اللہ بر حق ہے -

ابیات : (1) ’’ مَیں اللہ تعالیٰ کے کرم سے اُس کے قرب میں ہر دم حج کرتا ہوں اور ہر دم کعبہ کو اپنے دل میں دیکھتا ہوں اِس لئے مجھے کوئی غم نہیں‘‘-

(2) ’’  میرا ظاہر باطن ایک ہو چکا ہے اور مَیں ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہوں ‘‘-

مرشد ِکامل جب اپنے کسی طالب مرید کا نام لے کر اُس پر نظر و توجہ کرتا ہے تو اُسی وقت اُسے معرفت ِقرب اللہ دیدار کا مشاہدہ بخش کر معراجِ حضوری پر پہنچا دیتا ہے جس سے طالب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور رہتا ہے -مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ طالب کو اِن مراتب پر ضرور پہنچائے -مرشد ِکامل اپنے جس طالب مرید کوچاہتا ہے اُسے جملہ کیمیائے اکسیر کا ہنر ، جملہ کیمیائے دعوت ِتکسیر کی نظر اور زمین بھر کے جملہ خزائن ِسیم و زر کا گنجِ تصرف بخش دیتا ہے -

بیت:’’ اے باھُو ! ہر قسم کی کیمیاءمرشدانِ کامل کے عمل میں ہوتی ہے اِس لئے وہ اُس کا تصرف اپنے طالبوں کو خود بخشتے ہیں یا خدا سے دِلوا دیتے ہیں ‘‘-

مرشد ِکامل جس طالب مرید کو چاہتا ہے اُسے ولی اللہ بنا کر اُس کا مرتبہ ظل اللہ بادشاہ سے فائق تر کر دیتا ہے کہ فقیر کی نظر میں بادشاہ کا مرتبہ عاجز و مفلس سائل گدا کا ہوتا ہے -مرشد ِکامل جس طالب مرید کو تصورِ اسم اللہ ذات کی توفیق بخشتا ہے اُس کی چشمِ عیان کھل جاتی ہے اور تمام ملک ِسلیمانی اُس کی قید و قبضے اور حکم میں آجاتا ہے - مرشد ِکامل اپنے طالب مرید کو ہر تصرف و ہر کیمیاءاور سنگ ِپارس کا عمل بخش کر اِس قدر غنی کر دیتا ہے کہ بادشاہِ وقت اُس کا حلقہ بگوش و جان نثار غلام بن جاتا ہے اور زندگی بھر اپنی عمر کے تمام ماہ و سال اُس کی غلامی میں گزار دیتا ہے -

ابیات: (1) ’’ مَیں ایک غنی بادشاہ بھی ہوں اور عارف ِخدا فقیر بھی ہوں ، میری نظر میں بادشاہ ایک مفلس گدا ہے ‘‘-(2) ’’ مجھے سیم و زر کی کوئی حاجت نہیں کہ مجھے موسیٰ و خضر سے غالب تر مراتب حاصل ہیں ‘‘- (3) ’’  مَیں نے ہر تصرف اسم اللہ ذات کے تصور سے پایا ہے اور اُسی سے ہی کونین کو اپنا فرمانبردار بنایا ہے ‘‘- (4)’’بے شمار سنگ ِپارس میری نظر میں ہیں اور تیغِ ذوالفقار جیسی صد ہا زبانیں میرے منہ میں ہیں ‘‘- (5) ’’ طالب کو وسیع الحوصلہ ہونا چاہیے کہ کم حوصلہ طالب مرشد کا دشمن ثابت ہوتا ہے ‘‘-(6) ’’ عاقلوں کو محرمیت بخشنا بہت بڑی عطا ہے اور احمقوں کو محرمیت بخشنا بہت بڑی خطا ہے‘‘-(7) ’’  مَیں نے کسی کو لائق ِتوفیق طالب نہیں پایا ، کم حوصلہ طالب عطائے سیم و زر کے لائق نہیں ہوتا ‘‘-(8) ’’  مَیں نے کسی طالب کو حق طلب نہیں پایا ورنہ مَیں اُسے رازِ ربّ کی حضوری بخش دیتا ‘‘-(9) ’’  تُو نفس و قلب و روح کو چھوڑ دے تاکہ تُومعرفت ِدیدارِ ربانی حاصل کر سکے ‘‘- (10) ’’ جو اُسے دیکھ لیتا ہے وہ ولی اللہ ہو جاتا ہے ،اُس کا جثّہ نور ہو جاتا ہے اور وہ لقائے وحدت کی بازی جیت جاتا ہے‘‘-(11) ’’ اولیا ٔاللہ کو یہ مراتب پہلے ہی روز حاصل ہو جاتے ہیں کہ اُنھیں پہلے ہی روز لقائے الٰہی حاصل ہو جاتا ہے ‘‘-

اگر تمام اولیا ٔاللہ کوجمع کیا جائے تو ایک فقیر بنتا ہے ، اِس حقیقت کو ہوائے نفس کا اسیر احمق کیا جانے ؟

ابیات : (1) ’’ مجھے جو کچھ حاصل ہے وہ خدا کی عطا ہے ، مَیں جو کچھ دیکھتا ہوں اُس میں لقائے خدا ہی دیکھتا ہوں ‘‘-(2) ’’ عاشقانِ الٰہی کی نظر میں اللہ کے سوا کچھ نہیں سماتا کہ اُن کا مقصود’’ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس ‘‘ہے -(3) ’’ اِس مقام کی حضوری جبرائیل علیہ السلام کو حاصل نہیں مگر اُمت ِمحمدی (ﷺ) کو یہاں کی حضوری کا شرف حاصل ہے ‘‘-(4) ’’  ہر کتاب حق طلبی کا درس دیتی ہے لیکن اگر کوئی حق سے حق بینی طلب نہیں کرتا تو وہ دنیا کا طالب کتا ہے‘‘- (5) ’’  علمِ دیدار کا مطالعہ نعمت ِلقا بخشتا ہے اور علمِ ذکر و فکر لقائے الٰہی سے دُور کرتا ہے‘‘-(6) ’’  مطالعۂ معرفت سے توفیقِ دید میں اضافہ ہوتا ہے اِس لئے عارف جی بھر کے دیدار کرتاہے‘‘-  (7) ’’  مَیں ناظر و حاضر راہنما ہوں اِس لئے طالبانِ مولیٰ کو لقائے وحدت تک پہنچاتا ہوں ‘‘- (8) ’’  جب مَیں بالائے خَلق لامکان میں پہنچا تو دونوں جہان مجھے مچھر کے پَر جیسے حقیر نظر آئے‘‘-(9) ’’  لامکان ایک لازوال ملک ہے جہاں مطالعۂ علم اور گفت و شنید کی کوئی گنجائش نہیں‘‘- (10) ’’ وہاں آب و ہوا اور خاک و آتش کا گزر نہیں ، وہاں ہرطرف مَیں لقائے حق کے جلوے دیکھتا ہوں‘‘-(11) ’’اُمت ِ  محمدی (ﷺ)کے عارفوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ امرِ کُنْ کے ایک ہی حرف سے ہر علم حاصل کر لیتے ہیں‘‘-(12)’’ وہ نورِ توحید کا پاک و طیب مقام ہے جہاں کا سیاح ایک راہنما عارف ہی ہو سکتا ہے‘‘- (13) ’’ وہاں علم ہے نہ حروف ہیں اور نہ ہی صوت و آواز ہے ، وہاں پہنچنے والا انوارِ عین میں گم ہو کر رازِ عین بن جاتا ہے‘‘- (14) ’’ عین ذات کوچشمِ عین سے دیکھنا روا ہے ، اِس رمز کو وہی سمجھ سکتا ہے جو مطالعۂ علمِ عین سے لقائے عین ذات حاصل کر لیتا ہے‘‘-(15) ’’ باھُو پر اِتمامِ دیدار کا غلبہ ہے لہٰذا اب باھُو نہیں رہا کہ اُس کے جسم و جان میں یَاھُو سما گیا ہے ‘‘-

مراتب ِفقرو مراتب ِترک و توکل اور مراتب ِمست ِالست صرف طریقۂ کامل قادری میں پائے جاتے ہیں ، اگر کوئی دوسرا اِس کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا و لافزن ہے- آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے چشمِ معرفت حاصل کرے -جس کا ظاہر باطن عقل و شعور سے آراستہ ہو اُس پر فرضِ عین ہے کہ وہ مجلس ِحضور (ﷺ)میں پہنچ کر بینائی ٔچشم اور دانائی ٔ  علم و دانش ضرور حاصل کرے اور رسوائی ٔجہالت کو ترک کر دے-اِس کے بعد اُس پر لازم ہے کہ وہ طلب ِمرشد و طلب ِپیر و طلب ِعلم و طلب ِتصرف و طلب ِگنج و طلب ِجمعیت کرے اور معرفت ِفقر میں قدم رکھے-ایسے باطن آباد کو مبارک باد ہو - طالب مرشد کو نہیں پہچان سکتا لیکن مرشد طالب کی طلب کو اِس طرح پہچانتا ہے جس طرح کہ قسمت اہل ِقسمت کو پہچانتی ہے -حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’  رزق بندے کو موت سے زیادہ شدت سے تلاش کرتا ہے‘‘-جس طرح معشوق عاشق کو اور عاشق معشوق کو پہچانتا ہے اُسی طرح بندہ خدا کو پہچانتا ہے ، عالم علم کو پہچانتا ہے ، پیر مرید کو پہچانتا ہے ، باپ بیٹے کو پہچانتاہے ، استاد شاگرد کو پہچانتاہے، غلام آقا کو پہچانتاہے اور گھوڑا اپنے سوار کو پہچانتاہے-

بیت: ’’  چشمِ ظاہر کی بجائے چشمِ دل سے دیکھ کہ چشمِ ظاہر تو بیل و گدھے بھی رکھتے ہیں‘‘-

شرحِ فقیر مرشد ِکامل:

فقیر مرشد ِکامل کا اپنی آنکھوں سے دونوں جہان کا تماشا دیکھنا ایسا ہے جیسے کہ کوئی اپنی آنکھوں پر شیشے کی عینک لگا کر دیکھتا ہے تو عینک سے روشنی منعکس ہو کر آنکھ کی پتلی میں آ جاتی ہے -یہی کیفیت فقیر کی چشمِ بصیرت میں ہے کہ ہر نظارہ فقیر کی چشمِ پیشانی سے نکل کر چشمِ عیان میں آجاتا ہے اور چشمِ عیان معراجِ معرفت ِدیدار کا مشاہدہ بخش کر تماشائے دیدار دکھاتی ہے -معرفت ِمردود کے مرتد عارف بھی بہت ہیں جو دیدارِ پروردگار کی بجائے اور قسم کے نظارے دیکھتے ہیں-

ابیات : (1) ’’ اِس قسم کی معرفت مردود ہے اور اِس کے عارف بے حیا ہیں، وہ معرفت ِفنا فی اللہ اور ہے جس میں لقائے حق نصیب ہوتا ہے‘‘-(2) ’’ اہل ِ معرفت ِفنا فی اللہ ذات عارف عیسیٰ صفت ہوتے ہیں جو مُردوں کو زندہ کر کے اُنھیں معرفت ِالٰہی بخشتے ہیں‘‘-(3) ’’ ایسی معرفت عارف کی معراج ہوتی ہے جو اُسے حضوری بخشتی ہے -یہ متکبر اہل ِغرور لوگ اہل ِحضور عارف کہاں ہو سکتے ہیں ؟  ‘‘

عارف دو قسم کے ہوتے ہیں : عارف فقیر اولیا ٔ اور عارفِ طیر سیرِ ہوا، عارف ِ روحانی اور عارف ِلامکانی کے لئے موت و حیات برابر ہوتی ہے -اگرچہ بظاہر وہ مراتب ِموت کی قوت سے لوگوں کی نظروں سے غائب خَلقِ خدا سے جدا ہوتے ہیں لیکن وہ زندہ لوگوں پر غالب ہوتے ہیں -لوگ اُنھیں زیرِ خاک مردہ سمجھتے ہیں لیکن خلوتِ قبر میں اُنھیں قربِ خدا حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں -اولیا ٔاللہ فقیر جس طرح زندگی میں لوگوں کوطالب مرید بنا کر اُنھیں علم کی تعلیم اورمعرفت کی تلقین سے سنوارتے ہیں مرنے کے بعد وہ یہ کام زندگی سے دو گنا زیادہ کرتے ہیں کیونکہ زندگی میں وہ مُردہ ہوتے ہیں اور موت کے بعد زندہ ہوتے ہیں بلکہ تصورِ اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر موت و حیات سے فارغ ہوتے ہیں اور فنا فی اللہ ذات ہو کر فنا فی التوحید ِنورِ ذات با برکات ہوتے ہیں-

ابیات : (1) ’’ اولیا ٔاللہ فقیراپنے وجود کو قبر سے نکال کر خدا کے ساتھ رہتے ہیں ،وہ قبر میں ہر گز نہیں رہتے‘‘-(2) ’’ وہ ہر وقت مجلس ِمصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام میں اُن کے ہم مجلس رہتے ہیں لیکن اگر اُن کی قبر پر جا کر اُن کا نام لیا جائے تو وہ قبر میں حاضر ہو جاتے ہیں‘‘-(3) ’’  تُو اپنا ہر مطلب اہل ِقبور سے حاصل کر سکتا ہے اور اُن کی حضوری سے اپنے ہر سوال کا جواب پا سکتا ہے‘‘-(4) ’’ بعض اولیا ٔاللہ فقیرگم قبر و گم نام و بے نام و نشان ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے جسم کو اپنے ساتھ لامکان میں لے جاتے ہیں‘‘- (5) ’’ اُن کا نام لوحِ محفوظ کے مطالعہ سے معلوم کیا جا سکتاہے اور اُن سے مل کر اُنھیں اپنا رفیق بنایا جا سکتا ہے‘‘-

عارف فقیرصاحب ِمنصب اولیا ٔاللہ جسے ہر کوئی درویش ولی اللہ کہتا ہے ماضی حال و مستقبل کی ہر حقیقت کو جانتا ہے اور دونوں جہان کے کل و جز تمام خزائن پر متصرف ہوتا ہے اور کوئی خزانہ اُس سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہوتا -جو یہ بات کہتا ہے وہ جانتا نہیں اور جو جانتا ہے وہ کچھ کہتا نہیں لیکن کامل فقیر صاحب ِاختیار ہوتا ہے خواہ وہ کہے یا نہ کہے - میرا یہ دعویٰ میرے حال کا گواہ ہے -

شرحِ اولیا ٔاللہ:-

بیت : ’’ کسی کامل روحانی کی قبر پر حاضری دے تاکہ تیرا ہر مطلب پورا ہو اور روحانی تجھے تیرے مطلوبہ مقام پر پہنچا دے‘‘-

فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ اور جو لوگ خدا کی راہ میں قتل ہو جائیں اُنھیں مُردہ مت کہو کہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں‘‘-

ابیات : (1) ’’ جو کوئی اولیا ٔاللہ کو مُردہ کہے وہ خود مُردہ ہے کہ اولیا ٔاللہ تو دنیا سے حیاتِ جاوداں لے کر جاتے ہیں‘‘-(2)’’ اولیا ٔاللہ تصورِ اسم اللہ ذات سے دائم حیات پا کر خَلقِ خدا سے مکمل نجات پا جاتے ہیں‘‘-

مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ سب سے پہلے طالب کے نفس کو جمعیت بخشے اور نفس کو جمعیت تمام دنیا کے تصرف کی لذت سے حاصل ہوتی ہے اِس لئے جب تک مرشد اُسے دنیا مُردار کی جملہ لذات سے بہرہ ور نہیں کرتا اُسے مرشد پر ہر گز اعتبار نہیں آتا خواہ وہ بظاہر دنیا کی مذمت کرے اور اُس کی طلب سے ہزار بار استغفار کرتا رہے -جب مرشد اُسے تصرفِ دنیا کی توفیق بخش دیتا ہے اور اُس کے پاس بکثرت مالِ دنیا جمع ہو جاتا ہے تو اُس کا نفس مطمئن ہو کر طلب ِدنیا سے بیزار ہو جاتا ہے-اِس کے بعد نفس مطمئنہ بن کر لائق ِدیدارِ پروردگار بن جاتا ہے-وہ اِس طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جس طرح کہ دھوبی کے ہاتھوں کپڑا گندگی سے پاک ہو جاتا ہے-گندگی و بندگی باہم جمع نہیں ہو سکتی ، دیدار و مُردار بطن وجود میں جمع نہیں ہو سکتے ، کفر و اسلام اور یہود و مسلمان اکٹھے نہیں ہو سکتے -جو مرشد طالب کو دنیا مُردار کے تصرف کی توفیق نہیں بخش سکتا وہ اُسے دیدار کی تحقیق بھی نہیں کروا سکتا-

الغرض ! طالبوں کو ظاہر میں دنیوی خزانوں کا تصرف بخشنا توفیق ہے اور باطن میں ذات و صفات کے کل و جز تمام مقامات طے کرا کے قرب اللہ حضوری بخشنا تحقیق ہے- جو مرشد توفیق کی خبر رکھتا ہے نہ تحقیق کو جانتا ہے وہ احمق سالک ہے طریق ِ اہل ِزندیق کا -بعض مرشد دعویٰ کرتے ہیں دیدار کا اور ہوتے ہیں قیدی مُردار کے اور بعض مرشد دعویٰ کرتے ہیں لقا کا لیکن ہوتے ہیں طلب ِدنیا میں پریشان احمق بے حیا-

مرشد و طالب ہونا آسان کام نہیں کہ مرشدی و طالبی میں ہوتا ہے تمام تصرف درکار،حاصل کرنے ہوتے ہیں عظیم سر اسرارِ پروردگاراور رہنا پڑتا ہے شریعت میں ہوشیاراور کفر و شرک و بدعت سے بے زار -اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-

ابیات : (1) ’’ جس شخص کو مرشد ِکامل کی راہنمائی حاصل ہو جائے وہ حاضر و ناظر ہو کر صاحب ِخبر ہو جاتا ہے‘‘-

(2) ’’ اُسے کسی قسم کی حاجت نہیں رہتی ، وہ غنی ہو جاتا ہے اور رات دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہے‘‘-

مرشد کے لئے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنا مرشد ہونا ثابت کرے-ثبوت ِمرشدی کے لئے دو گواہ ضروری ہیں : ایک یہ کہ وہ طالب اللہ کو تصورِ اسم اللہ ذات کی حاضرات سے مشاہدۂ دیدار کا استغراق بخشے اور دوسرے یہ کہ طالب کو خزائن ِ الٰہی کابکثرت و بے شمار تصرف بخشے-طالب کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا طالب ِ مولیٰ ہونا ثابت کرے -اُس کی طالبی کے بھی دو گواہ ضروری ہیں-ایک یہ کہ مرشد کی طلب پر اپنا مال و جان سب کچھ قربان کردے اور دوسرے یہ کہ وہ ہر وقت مرشد کے حکم و اختیار میں رہے اور کوئی کام بھی مرشد کے حکم و اجازت کے بغیر ہرگز نہ کرے خواہ وہ دین کا کام ہو یا دنیا کا -آخر درویش اولیا ٔاللہ کے فقر و معرفت کی انتہا کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے ؟یہ کہ وہ  جُثّۂ نور کے ساتھ باخدا ہو کر کل مخلوقات کے ساتھ حاضر رہتا ہے جس طرح کہ سورج ہر جگہ حاضر ہو کر روشنی کا فیض بکھیرتا ہے - اُس کا یہی نوری جسم دائم مشرفِ دیدار رہتا ہے -ایسے نوری جسم والافقیر جب نوری زبان سے با ت کرنے کے لئے ظاہری لب ہلاتا ہے تو خدا سمجھتا ہے کہ وہ اُس سے بات کرتا ہے ، جملہ انبیا ٔو اولیا ٔ اللہ مؤمن مسلمانوں کی ارواح سمجھتی ہیں کہ وہ اُن سے گفتگو کرتا ہے ، تمام مؤکل فرشتے سمجھتے ہیں کہ وہ اُن سے ہم کلام ہے ، تمام جِن و انسان سمجھتے ہیں کہ وہ اُن سے بات کرتا ہے اور ظاہر میں ہر خاص و عام آدمی سمجھتا ہے کہ وہ مجھ سے محوِ کلام ہے -یہی وہ جثۂ نور ہے کہ وہ جس مقام پر بھی چلا جائے وہ حضوری کا ہی مشاہدہ کرتا ہے چنانچہ حضرت سلطان بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’مَیں تیس سال تک خدا سے ہم کلام رہا اور مخلوق سمجھتی رہی کہ مَیں اُن سے ہم کلام ہوں‘‘-یہ وہ  جثۂ عظیم ہے کہ اُس کا ہر سخن اسم اللہ ذات کے مراتب ِ کنۂ کُنْ   کا آئینہ دار ہوتا ہے -وہ جس کام کے لئے کہہ دے کہ ہو جا وہ کام ضرور ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’  وہ جس بات کے لئے کہہ دے کہ ہو جا وہ بات ہو جاتی ہے‘‘-

 

   (جاری ہے)

شرحِ حاجی الحرمین شریفین:

 

بعض لوگ حاجی ٔحرم ہوتے ہیں اور بعض حاجی ٔکرم ہوتے ہیں -جو آدمی وجودِ خاص کے ساتھ کامل اخلاص و اعتقاد سے حرمِ کعبہ میں داخل ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے تو حرم و خانہ کعبہ کے تمام در و دیوار انوارِ الٰہی سے بھر جاتے ہیں اور حاجی اللہ تعالیٰ کی معیت میں مشاہدۂ دیدارِ پروردگارسے مشرف ہو کر حاجی ٔکرم بن جاتا ہے اور اُسے حرم و خانہ کعبہ پر مکمل یقین و اعتبار آ جاتا ہے -جو فقیر اِن مراتب پر پہنچ جائے وہ حج و طوافِ خانہ کعبہ کے لائق ہو جاتا ہے-اِسی طرح اگروہ حرمِ مدینہ میں داخل ہو کر روضۂ رسول (ﷺ)پر حاضری دے تو روضہ مبارک کے در و دیوار انوار سے بھر جاتے ہیں اور وہ دیدارِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مشرف ہو جاتا ہے - اگر وہ کوہِ عرفات کے میدان میں خطبہ ٔحج سنے اور دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا کر’’لَبَّیْکَط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَط وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ‘‘کہے تو تمام میدانِ عرفات میں نور بھر جاتا ہے اور حاجی اللہ تعالیٰ کی معیت میں مشاہدۂ دیدارِ پروردگارسے مشرف ہوجاتا ہے -تُو اِس میں عیب جوئی مت کر اور نہ ہی تعجب کر کہ یہ منجانب اللہ بر حق ہے -

ابیات : (1) ’’ مَیں اللہ تعالیٰ کے کرم سے اُس کے قرب میں ہر دم حج کرتا ہوں اور ہر دم کعبہ کو اپنے دل میں دیکھتا ہوں اِس لئے مجھے کوئی غم نہیں‘‘-

(2) ’’  میرا ظاہر باطن ایک ہو چکا ہے اور مَیں ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہوں ‘‘-

مرشد ِکامل جب اپنے کسی طالب مرید کا نام لے کر اُس پر نظر و توجہ کرتا ہے تو اُسی وقت اُسے معرفت ِقرب اللہ دیدار کا مشاہدہ بخش کر معراجِ حضوری پر پہنچا دیتا ہے جس سے طالب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور رہتا ہے -مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ طالب کو اِن مراتب پر ضرور پہنچائے -مرشد ِکامل اپنے جس طالب مرید کوچاہتا ہے اُسے جملہ کیمیائے اکسیر کا ہنر ، جملہ کیمیائے دعوت ِتکسیر کی نظر اور زمین بھر کے جملہ خزائن ِسیم و زر کا گنجِ تصرف بخش دیتا ہے -

بیت:’’ اے باھُو ! ہر قسم کی کیمیاءمرشدانِ کامل کے عمل میں ہوتی ہے اِس لئے وہ اُس کا تصرف اپنے طالبوں کو خود بخشتے ہیں یا خدا سے دِلوا دیتے ہیں ‘‘-

مرشد ِکامل جس طالب مرید کو چاہتا ہے اُسے ولی اللہ بنا کر اُس کا مرتبہ ظل اللہ بادشاہ سے فائق تر کر دیتا ہے کہ فقیر کی نظر میں بادشاہ کا مرتبہ عاجز و مفلس سائل گدا کا ہوتا ہے -مرشد ِکامل جس طالب مرید کو تصورِ اسم اللہ ذات کی توفیق بخشتا ہے اُس کی چشمِ عیان کھل جاتی ہے اور تمام ملک ِسلیمانی اُس کی قید و قبضے اور حکم میں آجاتا ہے - مرشد ِکامل اپنے طالب مرید کو ہر تصرف و ہر کیمیاءاور سنگ ِپارس کا عمل بخش کر اِس قدر غنی کر دیتا ہے کہ بادشاہِ وقت اُس کا حلقہ بگوش و جان نثار غلام بن جاتا ہے اور زندگی بھر اپنی عمر کے تمام ماہ و سال اُس کی غلامی میں گزار دیتا ہے -

ابیات: (1) ’’ مَیں ایک غنی بادشاہ بھی ہوں اور عارف ِخدا فقیر بھی ہوں ، میری نظر میں بادشاہ ایک مفلس گدا ہے ‘‘-(2) ’’ مجھے سیم و زر کی کوئی حاجت نہیں کہ مجھے موسیٰ و خضر سے غالب تر مراتب حاصل ہیں ‘‘- (3) ’’  مَیں نے ہر تصرف اسم اللہ ذات کے تصور سے پایا ہے اور اُسی سے ہی کونین کو اپنا فرمانبردار بنایا ہے ‘‘- (4)’’بے شمار سنگ ِپارس میری نظر میں ہیں اور تیغِ ذوالفقار جیسی صد ہا زبانیں میرے منہ میں ہیں ‘‘- (5) ’’ طالب کو وسیع الحوصلہ ہونا چاہیے کہ کم حوصلہ طالب مرشد کا دشمن ثابت ہوتا ہے ‘‘-(6) ’’ عاقلوں کو محرمیت بخشنا بہت بڑی عطا ہے اور احمقوں کو محرمیت بخشنا بہت بڑی خطا ہے‘‘-(7) ’’  مَیں نے کسی کو لائق ِتوفیق طالب نہیں پایا ، کم حوصلہ طالب عطائے سیم و زر کے لائق نہیں ہوتا ‘‘-(8) ’’  مَیں نے کسی طالب کو حق طلب نہیں پایا ورنہ مَیں اُسے رازِ ربّ کی حضوری بخش دیتا ‘‘-(9) ’’  تُو نفس و قلب و روح کو چھوڑ دے تاکہ تُومعرفت ِدیدارِ ربانی حاصل کر سکے ‘‘- (10) ’’ جو اُسے دیکھ لیتا ہے وہ ولی اللہ ہو جاتا ہے ،اُس کا جثّہ نور ہو جاتا ہے اور وہ لقائے وحدت کی بازی جیت جاتا ہے‘‘-(11) ’’ اولیا ٔاللہ کو یہ مراتب پہلے ہی روز حاصل ہو جاتے ہیں کہ اُنھیں پہلے ہی روز لقائے الٰہی حاصل ہو جاتا ہے ‘‘-

اگر تمام اولیا ٔاللہ کوجمع کیا جائے تو ایک فقیر بنتا ہے ، اِس حقیقت کو ہوائے نفس کا اسیر احمق کیا جانے ؟

ابیات : (1) ’’ مجھے جو کچھ حاصل ہے وہ خدا کی عطا ہے ، مَیں جو کچھ دیکھتا ہوں اُس میں لقائے خدا ہی دیکھتا ہوں ‘‘-(2) ’’ عاشقانِ الٰہی کی نظر میں اللہ کے سوا کچھ نہیں سماتا کہ اُن کا مقصود’’ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس ‘‘ہے -(3) ’’ اِس مقام کی حضوری جبرائیل علیہ السلام کو حاصل نہیں مگر اُمت ِمحمدی (ﷺ) کو یہاں کی حضوری کا شرف حاصل ہے ‘‘-(4) ’’  ہر کتاب حق طلبی کا درس دیتی ہے لیکن اگر کوئی حق سے حق بینی طلب نہیں کرتا تو وہ دنیا کا طالب کتا ہے‘‘- (5) ’’  علمِ دیدار کا مطالعہ نعمت ِلقا بخشتا ہے اور علمِ ذکر و فکر لقائے الٰہی سے دُور کرتا ہے‘‘-(6) ’’  مطالعۂ معرفت سے توفیقِ دید میں اضافہ ہوتا ہے اِس لئے عارف جی بھر کے دیدار کرتاہے‘‘-  (7) ’’  مَیں ناظر و حاضر راہنما ہوں اِس لئے طالبانِ مولیٰ کو لقائے وحدت تک پہنچاتا ہوں ‘‘- (8) ’’  جب مَیں بالائے خَلق لامکان میں پہنچا تو دونوں جہان مجھے مچھر کے پَر جیسے حقیر نظر آئے‘‘-(9) ’’  لامکان ایک لازوال ملک ہے جہاں مطالعۂ علم اور گفت و شنید کی کوئی گنجائش نہیں‘‘- (10) ’’ وہاں آب و ہوا اور خاک و آتش کا گزر نہیں ، وہاں ہرطرف مَیں لقائے حق کے جلوے دیکھتا ہوں‘‘-(11) ’’اُمت ِ  محمدی (ﷺ)کے عارفوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ امرِ کُنْ کے ایک ہی حرف سے ہر علم حاصل کر لیتے ہیں‘‘-(12)’’ وہ نورِ توحید کا پاک و طیب مقام ہے جہاں کا سیاح ایک راہنما عارف ہی ہو سکتا ہے‘‘- (13) ’’ وہاں علم ہے نہ حروف ہیں اور نہ ہی صوت و آواز ہے ، وہاں پہنچنے والا انوارِ عین میں گم ہو کر رازِ عین بن جاتا ہے‘‘- (14) ’’ عین ذات کوچشمِ عین سے دیکھنا روا ہے ، اِس رمز کو وہی سمجھ سکتا ہے جو مطالعۂ علمِ عین سے لقائے عین ذات حاصل کر لیتا ہے‘‘-(15) ’’ باھُو پر اِتمامِ دیدار کا غلبہ ہے لہٰذا اب باھُو نہیں رہا کہ اُس کے جسم و جان میں یَاھُو سما گیا ہے ‘‘-

مراتب ِفقرو مراتب ِترک و توکل اور مراتب ِمست ِالست صرف طریقۂ کامل قادری میں پائے جاتے ہیں ، اگر کوئی دوسرا اِس کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا و لافزن ہے- آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے چشمِ معرفت حاصل کرے -جس کا ظاہر باطن عقل و شعور سے آراستہ ہو اُس پر فرضِ عین ہے کہ وہ مجلس ِحضور (ﷺ)میں پہنچ کر بینائی ٔچشم اور دانائی ٔ  علم و دانش ضرور حاصل کرے اور رسوائی ٔجہالت کو ترک کر دے-اِس کے بعد اُس پر لازم ہے کہ وہ طلب ِمرشد و طلب ِپیر و طلب ِعلم و طلب ِتصرف و طلب ِگنج و طلب ِجمعیت کرے اور معرفت ِفقر میں قدم رکھے-ایسے باطن آباد کو مبارک باد ہو - طالب مرشد کو نہیں پہچان سکتا لیکن مرشد طالب کی طلب کو اِس طرح پہچانتا ہے جس طرح کہ قسمت اہل ِقسمت کو پہچانتی ہے -حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’  رزق بندے کو موت سے زیادہ شدت سے تلاش کرتا ہے‘‘-جس طرح معشوق عاشق کو اور عاشق معشوق کو پہچانتا ہے اُسی طرح بندہ خدا کو پہچانتا ہے ، عالم علم کو پہچانتا ہے ، پیر مرید کو پہچانتا ہے ، باپ بیٹے کو پہچانتاہے ، استاد شاگرد کو پہچانتاہے، غلام آقا کو پہچانتاہے اور گھوڑا اپنے سوار کو پہچانتاہے-

بیت: ’’  چشمِ ظاہر کی بجائے چشمِ دل سے دیکھ کہ چشمِ ظاہر تو بیل و گدھے بھی رکھتے ہیں‘‘-

شرحِ فقیر مرشد ِکامل:

فقیر مرشد ِکامل کا اپنی آنکھوں سے دونوں جہان کا تماشا دیکھنا ایسا ہے جیسے کہ کوئی اپنی آنکھوں پر شیشے کی عینک لگا کر دیکھتا ہے تو عینک سے روشنی منعکس ہو کر آنکھ کی پتلی میں آ جاتی ہے -یہی کیفیت فقیر کی چشمِ بصیرت میں ہے کہ ہر نظارہ فقیر کی چشمِ پیشانی سے نکل کر چشمِ عیان میں آجاتا ہے اور چشمِ عیان معراجِ معرفت ِدیدار کا مشاہدہ بخش کر تماشائے دیدار دکھاتی ہے -معرفت ِمردود کے مرتد عارف بھی بہت ہیں جو دیدارِ پروردگار کی بجائے اور قسم کے نظارے دیکھتے ہیں-

ابیات : (1) ’’ اِس قسم کی معرفت مردود ہے اور اِس کے عارف بے حیا ہیں، وہ معرفت ِفنا فی اللہ اور ہے جس میں لقائے حق نصیب ہوتا ہے‘‘-(2) ’’ اہل ِ معرفت ِفنا فی اللہ ذات عارف عیسیٰ صفت ہوتے ہیں جو مُردوں کو زندہ کر کے اُنھیں معرفت ِالٰہی بخشتے ہیں‘‘-(3) ’’ ایسی معرفت عارف کی معراج ہوتی ہے جو اُسے حضوری بخشتی ہے -یہ متکبر اہل ِغرور لوگ اہل ِحضور عارف کہاں ہو سکتے ہیں ؟  ‘‘

عارف دو قسم کے ہوتے ہیں : عارف فقیر اولیا ٔ اور عارفِ طیر سیرِ ہوا، عارف ِ روحانی اور عارف ِلامکانی کے لئے موت و حیات برابر ہوتی ہے -اگرچہ بظاہر وہ مراتب ِموت کی قوت سے لوگوں کی نظروں سے غائب خَلقِ خدا سے جدا ہوتے ہیں لیکن وہ زندہ لوگوں پر غالب ہوتے ہیں -لوگ اُنھیں زیرِ خاک مردہ سمجھتے ہیں لیکن خلوتِ قبر میں اُنھیں قربِ خدا حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں -اولیا ٔاللہ فقیر جس طرح زندگی میں لوگوں کوطالب مرید بنا کر اُنھیں علم کی تعلیم اورمعرفت کی تلقین سے سنوارتے ہیں مرنے کے بعد وہ یہ کام زندگی سے دو گنا زیادہ کرتے ہیں کیونکہ زندگی میں وہ مُردہ ہوتے ہیں اور موت کے بعد زندہ ہوتے ہیں بلکہ تصورِ اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر موت و حیات سے فارغ ہوتے ہیں اور فنا فی اللہ ذات ہو کر فنا فی التوحید ِنورِ ذات با برکات ہوتے ہیں-

ابیات : (1) ’’ اولیا ٔاللہ فقیراپنے وجود کو قبر سے نکال کر خدا کے ساتھ رہتے ہیں ،وہ قبر میں ہر گز نہیں رہتے‘‘-(2) ’’ وہ ہر وقت مجلس ِمصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام میں اُن کے ہم مجلس رہتے ہیں لیکن اگر اُن کی قبر پر جا کر اُن کا نام لیا جائے تو وہ قبر میں حاضر ہو جاتے ہیں‘‘-(3) ’’  تُو اپنا ہر مطلب اہل ِقبور سے حاصل کر سکتا ہے اور اُن کی حضوری سے اپنے ہر سوال کا جواب پا سکتا ہے‘‘-(4) ’’ بعض اولیا ٔاللہ فقیرگم قبر و گم نام و بے نام و نشان ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے جسم کو اپنے ساتھ لامکان میں لے جاتے ہیں‘‘- (5) ’’ اُن کا نام لوحِ محفوظ کے مطالعہ سے معلوم کیا جا سکتاہے اور اُن سے مل کر اُنھیں اپنا رفیق بنایا جا سکتا ہے‘‘-

عارف فقیرصاحب ِمنصب اولیا ٔاللہ جسے ہر کوئی درویش ولی اللہ کہتا ہے ماضی حال و مستقبل کی ہر حقیقت کو جانتا ہے اور دونوں جہان کے کل و جز تمام خزائن پر متصرف ہوتا ہے اور کوئی خزانہ اُس سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہوتا -جو یہ بات کہتا ہے وہ جانتا نہیں اور جو جانتا ہے وہ کچھ کہتا نہیں لیکن کامل فقیر صاحب ِاختیار ہوتا ہے خواہ وہ کہے یا نہ کہے - میرا یہ دعویٰ میرے حال کا گواہ ہے -

شرحِ اولیا ٔاللہ:-

بیت : ’’ کسی کامل روحانی کی قبر پر حاضری دے تاکہ تیرا ہر مطلب پورا ہو اور روحانی تجھے تیرے مطلوبہ مقام پر پہنچا دے‘‘-

فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ اور جو لوگ خدا کی راہ میں قتل ہو جائیں اُنھیں مُردہ مت کہو کہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں‘‘-

ابیات : (1) ’’ جو کوئی اولیا ٔاللہ کو مُردہ کہے وہ خود مُردہ ہے کہ اولیا ٔاللہ تو دنیا سے حیاتِ جاوداں لے کر جاتے ہیں‘‘-(2)’’ اولیا ٔاللہ تصورِ اسم اللہ ذات سے دائم حیات پا کر خَلقِ خدا سے مکمل نجات پا جاتے ہیں‘‘-

مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ سب سے پہلے طالب کے نفس کو جمعیت بخشے اور نفس کو جمعیت تمام دنیا کے تصرف کی لذت سے حاصل ہوتی ہے اِس لئے جب تک مرشد اُسے دنیا مُردار کی جملہ لذات سے بہرہ ور نہیں کرتا اُسے مرشد پر ہر گز اعتبار نہیں آتا خواہ وہ بظاہر دنیا کی مذمت کرے اور اُس کی طلب سے ہزار بار استغفار کرتا رہے -جب مرشد اُسے تصرفِ دنیا کی توفیق بخش دیتا ہے اور اُس کے پاس بکثرت مالِ دنیا جمع ہو جاتا ہے تو اُس کا نفس مطمئن ہو کر طلب ِدنیا سے بیزار ہو جاتا ہے-اِس کے بعد نفس مطمئنہ بن کر لائق ِدیدارِ پروردگار بن جاتا ہے-وہ اِس طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جس طرح کہ دھوبی کے ہاتھوں کپڑا گندگی سے پاک ہو جاتا ہے-گندگی و بندگی باہم جمع نہیں ہو سکتی ، دیدار و مُردار بطن وجود میں جمع نہیں ہو سکتے ، کفر و اسلام اور یہود و مسلمان اکٹھے نہیں ہو سکتے -جو مرشد طالب کو دنیا مُردار کے تصرف کی توفیق نہیں بخش سکتا وہ اُسے دیدار کی تحقیق بھی نہیں کروا سکتا-

الغرض ! طالبوں کو ظاہر میں دنیوی خزانوں کا تصرف بخشنا توفیق ہے اور باطن میں ذات و صفات کے کل و جز تمام مقامات طے کرا کے قرب اللہ حضوری بخشنا تحقیق ہے- جو مرشد توفیق کی خبر رکھتا ہے نہ تحقیق کو جانتا ہے وہ احمق سالک ہے طریق ِ اہل ِزندیق کا -بعض مرشد دعویٰ کرتے ہیں دیدار کا اور ہوتے ہیں قیدی مُردار کے اور بعض مرشد دعویٰ کرتے ہیں لقا کا لیکن ہوتے ہیں طلب ِدنیا میں پریشان احمق بے حیا-

مرشد و طالب ہونا آسان کام نہیں کہ مرشدی و طالبی میں ہوتا ہے تمام تصرف درکار،حاصل کرنے ہوتے ہیں عظیم سر اسرارِ پروردگاراور رہنا پڑتا ہے شریعت میں ہوشیاراور کفر و شرک و بدعت سے بے زار -اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-

ابیات : (1) ’’ جس شخص کو مرشد ِکامل کی راہنمائی حاصل ہو جائے وہ حاضر و ناظر ہو کر صاحب ِخبر ہو جاتا ہے‘‘-

(2) ’’ اُسے کسی قسم کی حاجت نہیں رہتی ، وہ غنی ہو جاتا ہے اور رات دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہے‘‘-

مرشد کے لئے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنا مرشد ہونا ثابت کرے-ثبوت ِمرشدی کے لئے دو گواہ ضروری ہیں : ایک یہ کہ وہ طالب اللہ کو تصورِ اسم اللہ ذات کی حاضرات سے مشاہدۂ دیدار کا استغراق بخشے اور دوسرے یہ کہ طالب کو خزائن ِ الٰہی کابکثرت و بے شمار تصرف بخشے-طالب کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا طالب ِ مولیٰ ہونا ثابت کرے -اُس کی طالبی کے بھی دو گواہ ضروری ہیں-ایک یہ کہ مرشد کی طلب پر اپنا مال و جان سب کچھ قربان کردے اور دوسرے یہ کہ وہ ہر وقت مرشد کے حکم و اختیار میں رہے اور کوئی کام بھی مرشد کے حکم و اجازت کے بغیر ہرگز نہ کرے خواہ وہ دین کا کام ہو یا دنیا کا -آخر درویش اولیا ٔاللہ کے فقر و معرفت کی انتہا کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے ؟یہ کہ وہ  جُثّۂ نور کے ساتھ باخدا ہو کر کل مخلوقات کے ساتھ حاضر رہتا ہے جس طرح کہ سورج ہر جگہ حاضر ہو کر روشنی کا فیض بکھیرتا ہے - اُس کا یہی نوری جسم دائم مشرفِ دیدار رہتا ہے -ایسے نوری جسم والافقیر جب نوری زبان سے با ت کرنے کے لئے ظاہری لب ہلاتا ہے تو خدا سمجھتا ہے کہ وہ اُس سے بات کرتا ہے ، جملہ انبیا ٔو اولیا ٔ اللہ مؤمن مسلمانوں کی ارواح سمجھتی ہیں کہ وہ اُن سے گفتگو کرتا ہے ، تمام مؤکل فرشتے سمجھتے ہیں کہ وہ اُن سے ہم کلام ہے ، تمام جِن و انسان سمجھتے ہیں کہ وہ اُن سے بات کرتا ہے اور ظاہر میں ہر خاص و عام آدمی سمجھتا ہے کہ وہ مجھ سے محوِ کلام ہے -یہی وہ جثۂ نور ہے کہ وہ جس مقام پر بھی چلا جائے وہ حضوری کا ہی مشاہدہ کرتا ہے چنانچہ حضرت سلطان بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’مَیں تیس سال تک خدا سے ہم کلام رہا اور مخلوق سمجھتی رہی کہ مَیں اُن سے ہم کلام ہوں‘‘-یہ وہ  جثۂ عظیم ہے کہ اُس کا ہر سخن اسم اللہ ذات کے مراتب ِ کنۂ کُنْ   کا آئینہ دار ہوتا ہے -وہ جس کام کے لئے کہہ دے کہ ہو جا وہ کام ضرور ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’  وہ جس بات کے لئے کہہ دے کہ ہو جا وہ بات ہو جاتی ہے‘‘-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر