بہِ زبان باھُو

بہِ زبان باھُو

حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کا تذکرہ   :

اَحوال و آثارِ حضرت سُلطان العارفین کے اوّلین و مستند ترین مآخذ ’’مناقبِ سلطانی‘‘ میں ایک روایت درج ہے جس میں مصنف لکھتے ہیں کہ:-

’’مَیں نے اپنے بزرگوں سے سند بہ سند سنا ہے کہ جب حضرت سلطان العارفین سنِ رشد یا سنِ بلوغت کو پہنچے تو ایک روز کا ذکر ہے کہ آپ قصبہ شور کوٹ کے قریب اس کے گردو نواح میں کھڑے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نو ر ، صاحبِ حشمت اور با رعب سوار نمودار ہوا جس نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے بٹھا لیا- آپ ڈرے ، کانپے اور پوچھا کہ:- ’آپ کون ہیں‘؟ پہلے توجہ کی اور بعد ازاں فرمایا کہ :-’میں علی ابن ابو طالب ہوں‘- پھر آپ نے عرض کی کہ :- ’مجھے کہاں لیئے جا رہے ہیں ‘؟ فرمایا کہ :- ’حسبِ ارشادحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پُرنور میں لیے جاتا ہوں‘ - اسی وقت حاضرِ مجلس کردیا- اس وقت حضرت صدیق اکبر ، حضرت امیر عمر بن الخطاب اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی مجلسِ اہلِ بیت میں حاضر تھے- آپ کو دیکھتے ہی پہلے پہل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجلس منور سے اٹھ کر حضرت سلطان العارفین کی ملاقات کی اور توجہ فرما کر مجلس سے رخصت ہوئے- بعد ازاں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، بعد ازاں حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ- جب تینوں اصحابِ کبار باری باری اٹھے اور توجہ اور ملاقات کے بعد مجلس شریف سے رخصت ہو گئے تو مجلس میں صرف اہلِ بیت علیہم الصلوۃ و السلام ہی رہ گئے - ----- آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا :-’میرے ہاتھ پکڑو‘- اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت اور تلقین فرمایا ------ جب میں تلقین سے مشرف ہوا تو حضرت سیدۃ النسائ فاطمہ الزہرا علی ابیہا و علیہا السلام نے مجھے فرمایا کہ تو میرا فرزند ہے- میں نے سبطین شریفین ، امامین السعدین ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھما الصلوۃ و السلام کے قدم مبارک چومے اور اپنے کانوں میں غلامی کا حلقہ پہنا- بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے جناب غوث الثقلین ، محبوبِ سبحانی ، حضرت پیر دستگیر ، سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے سپرد فرما دیا- حضرت دستگیر نے سرفرازی کے بعد مجھے خلقت کے ارشاد و تلقین کا حکم دیا‘‘- ﴿ص: ۸۱، ۹۱

اس روایت میں یہ واضح ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے بیعت کا یہ واقعہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی اوائلِ عمری میں پیش آیا اور سیدنا غوث الاعظم قدس سرہ العزیز کے حکم کے مطابق آپ نے مسندِ ارشاد سنبھال لی تھی اور شروع ہی سے خلقتِ خدا کو راہِ خدا کی طرف گامزن فرمانے اور بیعت کرنے کا آغاز کر دیا تھا-

آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں ہو بہو اسی پیرائے میں آقائے علیہ الصلوۃ و السلام کی ایک خصوصی عنایت کا تذکرہ تحریر فرماتے ہیں کہ:-

’’جان لے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے ازل کے دن جن لوگوں کی ارواح کو تعلیم و تربیت سے مزین فرمایا وہی لوگ محمدی ہوئے - اس کے بعد جب وہ ارواح شکمِ مادر میں آئیں تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے انہیں شکمِ مادر میں بھی تعلیم و تلقین فرمائی- حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا فرمان ہے کہ:- ’آدمی اپنی ماں کے پیٹ ہی میں شقی بنتا ہے اور ماں کے پیٹ میں ہی سعید بنتا ہے‘- جب حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا تلقین یافتہ ایسا اسعد و سعید آدمی شکمِ مادر سے باہر آتا ہے تو خود حضور علیہ الصلوۃ و السلام اس کے کان میں بانگ دیتے ہیں اور فورا بعد اسے تعلیم و تلقین سے نوازتے ہیں- ایسا آدمی اعلیٰ درجے کا طالبِ مولیٰ، حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا پیروکار اور اللہ تعالیٰ کا ولی ہوتا ہے جس سے ہمیشہ نیکی ہی سر زد ہوتی ہے- اگر اس سے سہوا کوئی گناہ یا خطا سرزد ہو جائے تو وہ توبہ و استغفار کر لیتا ہے اور خدا سے ڈرتا رہتا ہے-

پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام اسے خواب میں تعلیم و تلقین فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ:- ’میرا ہاتھ پکڑ لو‘- پھر حکم فرماتے ہیں کہ:- ’میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ میری طرف سے دستِ بیعت کرکے خلقِ خدا کی امداد کرو‘- مرشدی کے اس منصب پر سرفراز فرمانے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حضرت پیر دستگیر محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے حوالے فرما دیتے ہیں- حضرت پیر دستگیر قدس سرہ العزیز بھی اسے اپنا مرید کرکے نعمتِ الٰہی کے افتخار سے ممتاز فرماتے ہیںاور پھر اسے موت و حیات کی کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کرتے، اسی وجہ سے اسے سروری قادری کہا جاتا ہے- میرا یہ دعویٰ میرے حال کے عین مطابق ہے‘‘- ﴿ص: ۱۱۲

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ان آخری جملوں سے ’’مناقب سلطانی‘‘ کی مذکورہ روایت کی تصدیق ہو جاتی ہے- اس کے علاوہ آپ نے اپنی کتب میں کئی مقامات پر آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام اور سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا مرشد قرار دیا ہے- جیسا کہ ’’نور الھدیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:-

’’میرے مرشد، میرے پیشوا اور میرے راہبر محمد علیہ الصلوٰۃ و السلام ہیں، مجھے اُن سے نگاہِ رحمت نصیب ہوئی ہے‘‘- ﴿ ص: ۷۵۱

آپ نے اپنی کتاب ’’عقلِ بیدار‘‘ میں ایک مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دستِ بیعت ہونے کے مذکورہ واقعہ کی پوری منظر کشی فرمائی ہے اور یہ بھی بتایا کہ مجھے جگر گوشۂ رسول ، حضرت فاطمہ زہرا بتول رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے بھی اپنا نوری حضوری بیٹا قرار دیا :-

 

خُذْ بِیَدِیْ فرمود با ما مصطفی

دست بیعت کرد ما را مجتبیٰ

’’ہم سے مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہمارا ہاتھ پکڑ لو اور ہمیں دست ِبیعت فرمایا‘-

پیشوا پیرِ خود را ساختم

ہر دمی دیدارِ حق را یافتم

 ’مَیں نے اُنہیں اپنا پیر و پیشوا بنا لیا، اِس کے بعد میں ہر وقت دیدار ِ حق میں محو رہتا ہوں‘-

خواندہ فرزند من زاں فاطمہ

معرفتِ فقر است بر من خاتمہ

 ’حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے اپنا فرزند بنا لیا اور مَیں معرفت ِفقر کے مرتبۂ کمال پر جا پہنچا‘-

خاک پایم از حسین و از حسن

ہر یکی اصحاب با من انجمن

 ’مَیں حضرت اِمام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خاک ِپا ہوں اور مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر صحابی کا ہم مجلس ہونے کا شرف حاصل ہے‘‘- ﴿ص:۹۳۱

اس مقام پر ایک بات نہایت ہی قابلِ توجہ ہے کہ چونکہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب حضرت علی المرتضیٰ سے غیر فاطمی نسبت سے قائم ہوتا ہے اس لیے آپ کو حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بالخصوص اپنا فرزند قرار دیا- اگر آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد پاک میں سے نہ ہوتے تو حضرت فاطمہ الزہرا کے آپ کو بیٹا قرار دینے کے ساتھ ساتھ حضرت علی المرتضیٰ بھی آپ کو اپنا فرزند قرار دیتے تو حضرت سلطان باھُو ان کا بھی ذکرِ خیر اسی طرح فرماتے جیسے آپ حضرت خاتونِ جنت کا فرما رہے ہیں -اس مجلس میں ’’مناقب سلطانی‘‘ کی روایت کے مطابق اہلِ بیت کے ساتھ ساتھ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عثمان غنی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھم بھی موجود تھے لیکن بعد ازاں یہ تینوں اصحاب باری باری ملاقات اور توجہ فرما کر حضور علیہ (رح)الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے رخصت ہو گئے تھے جبکہ اہلِ بیت کرام موجود رہے- ایک لطیف نکتہ کہ حضرت سلطان باھُوکے اس مجلسِ اہلِ بیت میں پہنچتے ہی سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے ملاقات فرمائی-

حضرت سلطان باھُو نے اہلِ بیت سے اپنی نسبت ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی چار یاروں کے فیضانِ صحبت کا ذکر فرمایا ہے- ’’محک الفقر‘‘ میں ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ:-

’’جب میرا دل تجلی ٔحقیقت کے انوار سے روشن ہو گیا تو مجھے حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام اور اُن کے چار یاروں کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہو گیا‘‘- ﴿ص: ۳۹۵

ان دونوں روایتوں سے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا ’’اہلِ السنت و الجماعت ‘‘کا عقیدہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج اہل سنت جن عقائد پہ قائم ہیں اَسلاف و اکابرین کا بالتحقیق یہی عقیدہ تھا اور وہ اِنہی سے روحانی کمالات کو پہنچے اور عامۃ الناس کو بھی اِسی پہ قائم رہنے کی تلقین فرمائی - ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں آپ واضح طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بارے میں اپنا نکتہ نظر بیان فرماتے ہیں کہ:-

’’تیری پکار ’یا رسول اللہ صلی اللہ علیک و واٰلہٰ سلم آپ رحمت ِدو عالم ہیں‘ ہونی چاہیے کیونکہ آپ کی نگاہِ رحمت سے وحدتِ اِلٰہی کا اِستغراق نصیب ہوتا ہے‘‘- ﴿ ص: ۳۶۱

اسی طرح ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:-

’’مَیں ہر دم یامحمد یا نبی پکارتا رہتا ہوں کیونکہ دین میں قوی عارفوں کا یہی طریق ہے‘‘- ﴿امیر الکونین، ص: ۷۹۲

’’مناقب سلطانی‘‘ کی مذکورہ روایت میں جیسا کہ درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٰ سلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا کہ :-’میرے ہاتھ پکڑو‘- آپ اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں اس بات کو یوں ذکر فرماتے ہیں کہ:-

’’باھُو اُمت ِمصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم کا راہنما اور فنا فی اﷲ فقیر ہے، اُسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود دست بیعت فرمایا ہے‘‘- ﴿ ص: ۵۶۱

حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ نے قُربِ باری تعالیٰ کی نعمت کا اس دنیا میں ہی نصیب ہونے کا بنیادی سبب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تربیت اور فیض کو ہی قرار دیا ہے- آپ ’’عقلِ بیدار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:-

’’مَیں نے حضوری ٔمصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ﴿ایسا﴾ فیض و فضلِ حق پایا جس سے میرا وجود نور ہو گیا اور مَیں اُس میں خدا ﴿کی تجلیات﴾ کو دیکھتا ہوں‘‘- ﴿ ص: ۵۰۳

آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام سے دستِ بیعت ہونے کے بعد سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی بیعت کا آپ واضح طور پر ذکر فرماتے ہیں:-

’’پاک دل باھُو دل و جان سے شاہ عبد القادر جیلانی کا مرید ہوا اور اُن کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا‘‘- ﴿کلید التوحید کلاں، ص: ۷۴۲

بلکہ آپ بڑے دعوے سے فرماتے ہیں کہ جو ان کی غلامی میں آجائے آتشِ دوزخ اسے نہیں جلا سکتی:-

’’فقیر باھُو کا دعویٰ ہے کہ جو آدمی حضرت میراں محی الدین(رح) کی غلامی اختیار کرتا ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃُو السلام کا ہم مجلس ہو جاتا ہے اور اُس پر آتش ِدوزخ حرام ہو جاتی ہے‘‘- ﴿محک الفقر، ص: ۷۹۳

جب آتشِ دوزخ میں یہ ہمت نہیں کہ وہ سیدنا غوث الاعظم کے غلام کو جلا سکے تو آتشِ دنیا آپ کے غلام کو کیسے جلا سکتی ہے جو دوزخ کی آگ کے سامنے ہیچ ہے-

’’ مَیں حضرت میراں شاہ محی الدین کا مرید ہوں ، خاک پڑے اُن کے منکروں کے سر پر جو اُن پر یقین نہیں رکھتے‘- ’اُس سر چشمۂ ہدایت کا منکر گویا حیوان ہے ، جو بھی اُن کا مرید بنتا ہے وہ صاحب ِنظر ہو جاتا ہے‘- ’باھُو اُن کے غلاموں کے غلام کابھی خاکِ پا ہے کہ حضرت شاہ میراں راہِ خدا کا ہدایت بخش راہنما ہے‘﴿اسرار القادری، ص:۱۰۱

آپ اپنی کتب میں جابجا پیرانِ پیر سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان فرماتے ہوئے باندازِ تفاخر فرماتے ہیں کہ وہ میرے پیر ہیں:-

’’ اے باھُو! پیر ہو تو ایساہو جیسا کہ میرا پیر ہے جو نائب ِرسول (ص) ہے اور ہر مرید کوبارگاہِ حق کی حضوری بخشتا ہے ‘‘- ﴿محک الفقر، ص:۱۰۴

آپ اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:-

’’ پیر کو صاحب ِنظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ، العزیز ہیں کہ ایک ہی نظر سے ہزاراں ہزار طالب مریدوں میں سے بعض کو معرفت ِ اِلَّا اللّٰہُ میں غرق کرتے ہیں اور بعض کو مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم کی حضوری سے مشرف کرتے ہیں‘‘- ﴿ص: ۵۱۲

’’پیر ایسا ہونا چاہیے جو میرے پیر کی طرح ہر مشکل کے وقت فوراً مدد کو پہنچے‘- ’پیر میراں(رح) دین کو زندہ کرنے والے کیوں نہ ہوں کہ وہ رُوح الامین اور وزیر مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں‘- ’شاہ عبدالقادر(رح) خدا کی طرف سے راہبر ہیں اِس لئے ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ہم مجلس رہتے ہیں‘- ’باھُو اُن کے خاکِ پا مرید غلاموں میںسے ایک غلام ہے اِسی لئے تو یہ دوسرے غوث وقطب اؤلیا ٔ سے بلند مرتبہ ہے‘‘- ﴿ص: ۷۸۱

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فیضانِ باھُو کا سلسلہ آپ کی نوجوانی میں ہی شروع ہو گیا تھا بلکہ بچپن کے اس واقعہ کی طرف توجہ کی جائے جس میں ہندو آپ کے چہرہ مبارک پر نگاہ کرتے ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جایا کرتے تھے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آپ کا فیض آپ کی پیدائش سے ہی شروع ہو چکا تھا- ان روایات کا اشارہ آپ کے ان دو فرمودات میں سے قیاس کیا جا سکتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں- آپ فرماتے ہیں کہ:-

’’باھُو کی دست بیعت حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام سے روزِ ازل ہی ہو گئی تھی اور وہ ہر قسم کے خطرے سے آزاد ہو گیا تھا‘‘- ﴿محک الفقر، ص: ۷۶۲

سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبت کا بھی یونہی تذکرہ فرماتے ہیں کہ:-

’’مَیں روزِ ازل سے قادری مرید ہوں کہ قادری طریقہ فیض و فضل ِرحمت ِحق کا امین ہے‘‘- ﴿اسرار القادری، ص: ۱۵

حضرت سُلطان حامد رحمۃ اللہ علیہ مصنفِ ’’مناقبِ سلطانی‘‘ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے تحقیق کیا ہے کہ حضرت سلطان العارفین انوارِ ذات کی تجلیات اور اسرارِ الٰہی کے جذبات ، مکاشفات کے سبب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح دیدارِ الٰہی کی زیادتی کی طلب میں دوڑ دھوپ کرتے اور اولیائ اللہ کی قبروں پر دعوتِ قبور کے لیے سواری کیا کرتے تھے- اسی دوران آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو کسی زندہ مرشد کی تلاش کی طرف متوجہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے مرشد کامل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و واٰلہٰ سلم ہیں- آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ ظاہری مرشد کے بغیر انسان خدا رسیدہ نہیں ہوتا- کیا تجھے معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا شرف حاصل تھا مگر اس مطلب کے لیے وہ کوہِ ’’طور‘‘ پر جایا کرتے تھے - حصولِ ارشاد اور تلقین کے لیے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ’’مجمع البحرین‘‘ پر جانا پڑا- یہ سن کر آپ نے عرض کی کہ آپ میرے لیے کافی مرشد ہیں - آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ بیٹا عورتوں کو بیعت اور تلقین کرنے کا حکم نہیں کیونکہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا نے بیعت اور تلقین نہیں فرمائی- پھر آپ نے عرض کیا کہ میں کہاں تلاش کروں- فرمایا کہ روئے زمین پر ڈھونڈو اور اشارہ مشرق کی طرف کیا-

آپ کی والدہ کا آپ سے یہ مکالمہ کرنا کہ مرشد تلاش کرنا ضروری ہے اور وہ کوئی مرد ہو ، اس گفتگو کا اثر درج ذیل فرمودات میں یوں موجود ہے کہ آپ فرماتے ہیں:-

’’راہِ باطن کی راہنمائی کے لئے مرشد تلاش کر کہ محض گفتگو سے خود بخود کبھی کوئی واصل خدا نہیں ہوا‘‘- ﴿نور الھدیٰ، ص:۵۱۱

اور اسی طرح ’’عین الفقر ‘‘میں فرماتے ہیں:-

’’کسی مرد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے تاکہ تُو بھی مرد ہو جائے کہ مردوں کے سوا ، رہبری کسی اور کے بس کی بات نہیں‘‘-﴿ص: ۷۳

پھر آپ اپنی والدہ کے اس حکم پر تیس سال تک گامزن رہتے ہیں جیسا کہ ’’عین الفقر‘‘میں ہی فرمایا:-

’’یہ فقیر باھُو کہتا ہے کہ مَیں تیس سال تک مرشد ِکامل تلاش کرتا رہا اور اب سالہا سال سے طالب کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے طالب نہیں مل رہا‘‘- ﴿ ص: ۵۷۲

اسی مدت کے دوران ہی آپ کی مختلف مشائخ سے ملاقات ہوتی ہے جن میں سے ’’مناقب سلطانی ‘‘ میں حضرت شاہ حبیب اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ سے دریائے راوی کے کنارے ملاقات اور اس ملاقات کے مختلف انداز ، ان سے تسکینِ روحانی نہ پا کر پھر بالآخر دہلی کے سید عبد الرحمن قادری رحمۃ اللہ علیہ سے ظاہری بیعت کا تذکرہ ملتا ہے- قابلِ حیرت بات یہ ہے کہ آپ کی دستیاب کتب میں ان دونوں بزرگوں کے نام کا ذکر تک موجود نہیں یا کم از کم میری نظروں سے نہیں گزرا- ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ جن کے وسیلہ سے ظاہری نسبت قائم ہوئی ہو ، حضرت سلطان باھُو اپنی کتب میں ان کا ذکر ہی نہ فرمائیں کیونکہ آپ اپنی قدر شناسی کے بارے میں خود ہی فرماتے ہیں کہ :-

’’مَیں ایک قدر شناس سروری قادری فقیر ہوں اِس لئے ہر وقت اپنے پیر کے مد ِنظر رہتاہوں‘‘- ﴿کلید التوحید کلاں، ص: ۳۴۳

یقینا آپ نے کہیں نہ کہیں ان کا تذکرہ ضرور فرمایا ہے کیونکہ آپ کے خلیفہ سید ابو صالح موسیٰ شاہ المعروف بہ موسن شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، جن کا مزار صوبہ سندھ گھوٹکی میں ہے، انہوں نے اپنے مرشد حضرت سلطان باھُو کی ایک سو چالیس تصنیفات کو جمع کیا تھا جن میں سے اب چند کے صرف نام ہی موجود ہیں اور اس کے مقابلے میں اردو تراجم تو نہایت ہی کم ہیں- اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی اَشد ضرورت ہے-

آپ کی کتب میں سے جو زیرِ مطالعہ آئیں چند اشارے ڈھونڈے جاسکتے ہیں جن کی مدد سے آپ کو ظاہری مرشد ملنے اور پھر اس کی ظاہری بیعت کرنے کی روایت کو بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے- ایک تو آپ کا وہی مذکورہ فرمان ہے جس میں تیس سال کی مدت کا تذکرہ موجود ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ میں تیس سال تک مرشد تلاش کرتا رہا اور اب طالب کی تلاش میں ہوں، یہی قول اس بات کی دلیل ہے کہ تیس سال بعد آپ کو مرشد مل گیا تبھی اس مدت کے بعد آپ طالب کی تلاش میں نکلے- اسی طرح آپ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-

’’ باھُو اُن کی بارگاہ کے غلاموں میں شامل ہو کر اُن کا مرید ہوگیا ہے اِس لیے طالبانِ مولیٰ کو بارگاہِ اِلٰہی سے فیض و فضل ِ ربی دلواتا ہے‘‘-﴿کلید التوحید کلاں، ص: ۵۱۲

چونکہ شاہ حبیب اللہ بھی قادری سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سید عبد الرحمن دہلوی جو شاہ حبیب اللہ قادری کے ہی شیخ تھے﴿مناقب سلطانی:ص ۳۴﴾ اور حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد پاک میں سے تھے- اس اعتبار سے ان کا شمار سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ کے ہی غلاموں میں ہوتا ہے جن سے مل کر حضرت سلطان باھُو کی حضور شہنشاہِ بغداد سے ظاہری نسبت بھی قائم ہوجاتی ہے- و اللہ اعلم بالصواب-

 اِس کی ایک زندہ دلیل حضرت سُلطان العارفین کا خانوادہ ہے جس میں بے شمار صاحبِ فقر و صاحبِ مقاماتِ ارفع ہستیاں موجود رہیں وہ سب اپنا سلسلہ سیدی عبد الرحمان الگیلانی سے جوڑتے تھے اور تقسیمِ ہند سے قبل دہلی میں باقاعدہ اُن کے مزارِ پُر انوار کی حاضری پہ جایا کرتے تھے - مثلاً حضرت سُلطان ولی محمد ، حضرت سُلطان محمد حسین ، حضرت سُلطان نور احمد ، حضرت سُلطان فتح محمد ، حضرت محمد امیر سُلطان رحمۃ اللہ علیہم اور خود حضرت سُلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ - شاید آج چند لوگ ایسے ہوں لیکن اُس وقت خانوادہ شریف میں بکثرت تھے جو علمِ دعوتِ قبور کے عامل و ماہر تھے ، علمِ دعوتِ قبور کے وہ سبھی ماہرین و عاملین و کاملین اِس بات پہ بالاتفاق یقین رکھتے تھے کہ حضرت سید عبد الرحمان الگیلانی دہلوی ہی حضرت سُلطان العارفین کے شیخ و مرشد ہیں- آج بعض بے یقین و بے عمل لوگ اگر کسی مخمصے کا شکار ہو جائیں تو تعجب نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی شک میں پڑنا چاہئے اِس لئے کہ اہلِ یقین و اہلِ مشاہدہ کی متواتر و مسلسل شہادتیں موجود ہیں - یہاں خاص کر حضرت علامہ اقبال کی اِس نصیحت پہ عمل مُفید رہے گا :

 

از اجتہادِ عالمانِ کم نظر

اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

’’یعنی کم نظر علما کے اجتہاد سے بہتر ہے کہ گزرے ہوؤں کی اقتدا کی جائے کیونکہ وہ زیادہ محفوظ طریقہ ہے‘‘-

طالب اللہ کی تلاش کا تذکرہ:

مرشدِ کامل کی تلاش کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر سلسلہ کے مشائخ سے ملے اور ہر طریقہ کی خوب جانچ پڑتا ل کی جیسا کہ آپ فرماتے ہیںکہ:-

’’باھُوْ ہر طریقے کی تحقیق اِس طرح کرتا ہے جس طرح کہ صراف سونے چاندی کی پرکھ کرتا ہے‘‘-﴿عقل بیدار، ص: ۹۹۱

بالآخر آپ کو طریقہ قادریہ پسند آیا- اس پسندیدگی کی وجہ بیان فرماتے ہیںکہ:-

’’دیگر ہر طریقے و خانوادے کی تمامےّت و انتہا طریقۂ قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ وہ عمر بھر چِلّہ کشی و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے کہ ابتدائے قادری مشاہدۂ حضوری ہے اور انتہائے قادری استغراقِ فنا فی اللہ نور ہے‘‘- ﴿عقل بیدار، ص: ۹۹۱

سلسلہ عالیہ قادریہ میں مرشدِ کامل ملنے کے بعد آپ عمر بھر طالب اللہ کی تلاش میں رہے جیسا کہ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں فرمایا کہ:-

’’

واپس اوپر