ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

 

جیوندیاں مر رہنا ہووے تاں ویس فقیراں بہیئے ھو 

جے کوئی سٹے گودڑ کوڑا وانگ اروڑی سہئیے ھو 

جے کوئی کڈھے گاہلاں مہنے اسنوں جی جی کہئیے ھو 

گِلا اُلاہماں بھنڈی خواری یار دے پاروں سہئیے ھو 

قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باھو(رح) جیوں رکھے تیوں رہئیے ھو

JiondeyaN mar rehnaN howey taN wes faqiraN bahye Hoo

Jay koi saTTey guda'R kooRa waang arooRi sahye Hoo

Jay koi kaDhey gahlaaN mehney osnoN ji ji kahye Hoo

Gilla olahmaN bhanDi khwari yar di paroN sahye Hoo

Qadir dey hath Door asaDi "Bahoo" jiyoN rakhey tiyoN rahye Hoo

 

Wish to die while in life, than within Sufi-Masters robes remain Hoo

If rubbish and refuse is thrown at you like rubbish mound than sustain Hoo

If someone swears or taunts you, be polite to him again and again Hoo

From friend accept complaint, taunts, notoriety and humiliating proposal Hoo

Most powerful holds my rains ''Bahoo'' He treats me as he likes I am at his disposal Hoo

تشریح   :

 

 ﴿۱﴾ موت کو وِصال اور انتقال بھی کہتے ہیں اورایک فقیر کی وفات تواِس دُنیا سے منتقل ہو کر وِصالِ الٰہی اختیار کرنے کا عملی مفہوم ہے- یہ بھی سچ ہے کہ جب کائنات ختم ہو جائے گی یعنی ہر چیز پہ موت طاری ہو گی تو اُس وقت صرف ہمیشہ رہنے والی ذاتِ ذوالجلال ہی باقی رہے گی -لیکن اہلِ فقر اِن اُمور کو اپنی وفات اورقیامت کے قائم ہونے تک ملتوی نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی ظاہری حیات میںہی غیراللہ محبتوں سے ہاتھ کھینچ کر موت کے مفہوم کو خود پہ طاری کر لیتے ہیں -جب وہ فقر کے سائے میں ذاتی اَغراض سے پاک ہو جائیں تو پھر وہ فنا پذیر کائنات میں عرفانِ ذات کے نور سے اپنے دِل وجان کو پاک کرلیتے ہیں - حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر وہ عرفانِ ذات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تو ظاہری حیات میں موت کی معنویت اختیار کرو لیکن اس امر کے لیے فقرِ محمدی﴿﴾ اختیار کرنا اورفقرائ فنا فی اللہ کی صحبت نہایت ضروری ہے-

 

﴿۲﴾ فقرِ محمدی اپناتے ہی ملامتِ خلق اور بدنامی کے مُنہ زور سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے- لیکن فقیر قبل اَز وقت اِن اُمور سے آگاہ ہوتا ہے - اِس لئے وہ رضائے الٰہی کے مطابق مخلوق کی طعن وتشنیع کو نہ صرف برداشت کرتا ہے بلکہ وہ اِسے اپنے لیے خاص سمجھتا ہے کہ جیسے بے کار چیزوں کے لئے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر مخصوص ہوتا ہے- کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ عشقِ الٰہی اور ملامت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جیسے فرمایا گیا:- ’’خلق کی ملامت و غیبت اور رنج و آزار سے غمزدہ نہ ہو بلکہ خلق ِخدا کا بار اُٹھا اور خلق کو تکلیف نہ دے کہ اِسی میں نجات ہے- یاد رکھ کہ جب کافروں و کاذبوں و منافقوں اور حاسدوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے حد ستایا تو آپ نے التجا کی:- ’’ اے ربّ ِمحمد ! کاش کہ تُو محمد کو پیدا نہ کرتا‘‘-جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رویہ خلقِ خدا سے ایسا ہے تو دوسروں کی کیا مجال کہ وہ دم ماریں‘‘﴿امیر الکونین:۱۸﴾-  

﴿۳﴾ فقیر کا طرزِ عمل لوگوں کے منفی رویہ کے برعکس انتہائی مثبت ہوتا ہے- وہ لوگوں کی گالم گلوچ کو اپنے نفس کی بہتری خیال کرتا ہے- اس لئے وہ خلق کے غیظ و غضب کا جواب نرمی و شائستگی سے دیتا ہے- اسی لیے فرمایا گیا کہ :’’جب کوئی دیدارِ نور سے مشرف ہوتا ہے تو اُس کا حوصلہ وسیع ہو جاتا ہے جس سے وہ دونوں جہان سے زیادہ وزنی ملامت ِخلق اور قربِ ربانی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے -عارف فقیر کے چار گواہ ہیں : خاموشی ، خانۂ خاموشی میں عیب پوشی ، رستگاری اور رستگاری میں کم آزاری -یہ باتیں مراتب ِفقر کا خلاصہ ہیں‘‘ ﴿امیر الکونین: ۱۴۱﴾-

﴿۴﴾ فقیر کی برداشت و تسلیم و رضا کے پسِ منظر میں خوشنودیٔ یار ﴿ذات حق ﴾ کے اعلیٰ مقاصد کار فرما ہوتے ہیں -وہ جانتا ہے کہ میری زندگی کے تمام عوامل و واقعات کی منصوبہ بندی بارگاہِ حق سے ہو چکی ہے - اس لئے اگر راہ چلتے ہوئے اُسے کسی خار کے چبھنے سے تکلیف ہو تو اُسے اس خار پہ بھی پیار آتا ہے - یہ راہِ ربّانی ہے یہاں پہ ہر تکلیف و دکھ میں معرفتِ الٰہی مضمر ہوتی ہے-آپ رحمۃ اللہ علیہ کافرمانِ عالی شان ہے کہ: ’’ایسے اہل اللہ فقیروں کے وجود میں ضبط و تحمل کی ایسی قوت موجود ہوتی ہے کہ وہ کافر و مشرک و منافق لوگوں کی ملامت و غیبت و ستم و غصہ و غضب و قہر و آزار برداشت کرتے ہیں لیکن خَلقِ خدا کو دُکھ نہیں دیتے کہ یہ سنت ِ انبیا ٔ ہے- خَلقِ خدا کو دُکھ دینا ہوائے نفس کی علامت ہے- فقیرِ کامل وسیع حوصلے کا مالک ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتا ہے‘‘﴿کلیدالتوحید: ۷۶۳﴾ -

﴿۵﴾ آخری مصرعہ کی تشریح سیّد ی غوث الاعظم عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ، کے فرمان سے بھی عیاں ہے کہ : ’’صاحبو! تقدیر کی موافقت ﴿دُنیا کے مُعاملے میں﴾ کرو اور عبدالقادر کی بات مانو جو تقدیر کی موافقت میں کوشاں ہے ،تقدیر کے ساتھ میری موافقت ہی نے مجھے قادر ﴿اللہ تعالیٰ﴾ کی طرف آگے بڑھایا- صاحبو! آئو ہم سب اللہ عزّوجل، اُس کے فعل اورتقدیر کے سامنے جُھکیں اَور اَپنے ظاہری و باطنی سَروں کو جُھکا دیں- تقدیر کی موافقت کریں اور اس کے ہمرکاب بن کرچلیں اِس لئے کہ وہ بادشاہ کی بھیجی ہوئی ہے ، ہمیں اِس کے بھیجنے والے کی وجہ سے اِس کی عزت کرنی چاہیے ‘‘﴿الفتح الرباّنی :۲۱

 

 

جیوندیاں مر رہنا ہووے تاں ویس فقیراں بہیئے ھو

جے کوئی سٹے گودڑ کوڑا وانگ اروڑی سہئیے ھو

جے کوئی کڈھے گاہلاں مہنے اسنوں جی جی کہئیے ھو

گِلا اُلاہماں بھنڈی خواری یار دے پاروں سہئیے ھو

قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باھو(رح) جیوں رکھے تیوں رہئیے ھو

 

JiondeyaN mar rehnaN howey taN wes faqiraN bahye Hoo

Jay koi saTTey guda'R kooRa waang arooRi sahye Hoo

Jay koi kaDhey gahlaaN mehney osnoN ji ji kahye Hoo

Gilla olahmaN bhanDi khwari yar di paroN sahye Hoo

Qadir dey hath Door asaDi "Bahoo" jiyoN rakhey tiyoN rahye Hoo

 

Wish to die while in life, than within Sufi-Masters robes remain Hoo

If rubbish and refuse is thrown at you like rubbish mound than sustain Hoo

If someone swears or taunts you, be polite to him again and again Hoo

From friend accept complaint, taunts, notoriety and humiliating proposal Hoo

Most powerful holds my rains ''Bahoo'' He treats me as he likes I am at his disposal Hoo

 

تشریح:

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر