لفظ

لفظ

سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں     :

سَو ہزار تِنْہاں توں صدقے جِہڑے مُنہ نہ بولَن پھِکّا ھُو 

لفظ کی کیا طاقت ہے اور لفظ کیا کرتا ہے؟ ایک چھوٹے سے واقعہ سے اس موضوع کا آغاز کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اندھا بھیک مانگ رہا تھا- اس کے گلے میں ایک تختی لٹکی تھی جس پر لکھا تھا کہ مَیں اندھا ہوں میری مدد کریں- اس اندھے کی کوئی زیادہ داد رسی نہیں ہو رہی تھی کہ اچانک اس کی جانب کسی ادیب کی توجہ ہوئی اور اس نے اس کی تختی پر یہ جملہ لکھ دیا کہ اے آنکھوں کی بہار والو! مَیں بہار دیکھنے سے محروم ہوں میری مدد کریں- پھر کیا جو بھی ان الفاظ کو پڑھتا اس کا دل موم ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کچھ اس اندھے کی مدد کر دیتا    -

لفظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے پچاسویں سورۃ ’’ق‘‘ کی آیات سولہ تا بیس کی صرف پانچ آیات میں انسان کی تخلیق سے لے کر قیامِ قیامت تک کا پورا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اس میں انسان کے زندگی بھر کے اعمال میں سے صرف ایک عمل یعنی انسان کے بولے ہوئے الفاظ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا گیا ہے    -

’’بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو ﴿بھی﴾ جانتے ہیں جو اس کا نفس ﴿اس کے دل و دماغ میں﴾ ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رَگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں- جب دو لینے والے ﴿فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو تحریر میں﴾ لے لیتے ہیں ﴿جو﴾ دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں- ﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ﴾ وہ منہ سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان ﴿لکھنے کے لیے﴾ تیار رہتا ہے- اور موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آپہنچی، ﴿اے انسان!﴾ یہی وہ چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا اور ﴿جس وقت﴾صور پھونکا جائے گا یہی ﴿عذاب ہی﴾ وَعید کا دن ہے     ‘‘-

 یہ نامہ اعمال ہے جو فرشتے لکھ رہے ہیں اور یہی تحریر کل قیامت کے روز بولے گی- ان کے بولنے کی صورت کیا ہوگی یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جدید دور میں کمپوٹر کی زبان سمجھنے والے جانتے ہیں کہ کمپیوٹر اپنے الفاظ کے ساتھ اپنے یوزر سے کیسے گفتگو کرتا ہے- سورۃ المؤمن :۳۲، کی آیت ۲۶ ہے :-

’’اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت بھر اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے کہ حق بولتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا‘‘-

گویا لفظ کے اندر یہ طاقت بھی ہے کہ وہ بولتا ہے اور اپنی پوری کہانی بیان کرتا ہے- لفظ کی طاقت کا اس سے بڑھ کر کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی پوری کائنات کو اپنے ایک ہی لفظ ﴿کُنْ﴾ سے بنایا-

﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ، کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ ﴿سورۃ البقرۃ:۲، آیت :۷۱۱ 

’’نیا پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہو جا ﴿تو﴾ وہ فوراً ہو جاتی ہے ‘‘-

﴿اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَا اَرَدْنَاہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہ، کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ 

’’جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ﴿کُنْ﴾ ہو جا تو وہ فوراً ہو جاتی ہے‘‘- ﴿سورۃ النحل :۶۱، آیت: ۰۴ 

مثنوی معنوی کے دفتر اوّل میں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-

کاف و نون ھمچو کمند آمد جذوب 

تا کشاند مر عدم را در خطوب 

’’کاف اور نون کے دو حرفوں کو کمان کی طرح کھینچا جاتا ہے تاکہ عدم کی چیزوں کو کام میں لایا جائے ‘‘-

کاف اور نون پھر بھی دو حروف ہیں اہلِ نظر کے ہاں تو ایک نقطہ میں ہی سب کچھ پوشیدہ ہے- اللہ فرماتا ہے کہ خشکی و تری کی ہر چیز قرآن میں موجود ہے اور امام حسین علیہ السلام کی کتاب ’’مرأۃ العارفین‘‘ کے آغاز میں درج ہے:

’’پورے قرآن میں جو تفصیل آئی ہے وہ سورۃ فاتحہ میں درج ہے اور جو کچھ سورۃ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں موجود ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ اس کی بائ میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ بائ میں ہے وہ اس بائ کے نقطہ میں مضمر ہے‘‘-

گویا نقطہ کی تفصیل بائ میں اور بائ کی وضاحت بسم اللہ میں اور بسم اللہ کی توضیح سورۃ فاتحہ میں اور سورۃ فاتح کی تفصیل باقی پورے قرآن میں ہے اور پورا قرآن اسی کائنات اور اس میں موجود انسان کی توضیح و تفسیر کرتا ہے اسی لیے صوفیائ کرام کائنات کو بھی کلمات اللہ کہتے ہیں- شیخ محمود شبستری ’’گلشنِ راز‘‘ میں فرماتے ہیں:-

بہ نزدِ آنکہ جانش در تجلی است  

ھمہ عالم کتابِ حق تعالیٰ است 

عرض اعراب و جوھر چون حروف است 

مراتب ھمچو آیات وقوف است 

’’جس کی روح تجلیات میں مستغرق ہے اس کے نزدیک یہ سارا جہان اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے- اس میں عرض اعراب کی مانند، جوہر حروف کی طرح اور مراتب آیات کے بعد وقوف کی طرح ہیں‘‘-

علامہ محمد اقبال صاحب بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو 

سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر 

گویا جس طرح فطرت بظاہر خاموش دکھائی دیتی ہے لیکن در حقیقت اپنے اندر قوت گویائی رکھتی ہے اسی طرح لفظ بھی ظاہرا خاموش نظر آتے ہیں لیکن اپنے اندر کلام کی، گویائی کی عظیم طاقت رکھتے ہیں- جنہیں لفظ کی گفتگو سمجھ آجاتی ہے تو ان کے سامنے لفظ اپنے ایک ایک حرف کا راز ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے جیسے مولانا رومی لفظِ ’’عشق‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:-

دانی کے حروف عشق را معنی چیست 

عین عابد و شین شاکر و قاف است قانع 

’’تو جانتا ہے کہ لفظِ عشق کے کیا معنیٰ ہیں؟ عین سے عابد، شین سے شاکر اور قاف سے قانع ﴿ہو تو عشق بنتا ہے﴾‘‘- ﴿رومی، دیوانِ شمس﴾ 

حضرت سلطان باھو اسم اللہ کی طاقت کا راز کھولتے ہوئے فرماتے ہیں:-

’’ اسم﴿ اَللّٰہُ﴾ جل جلالہ، کے چار حروف ہیں ’’ال ل ہ‘‘ جب اسم ﴿اَللّٰہُ﴾ سے الف جدا ہو جائے تو ﴿لِلّٰہ﴾ رہ جاتا ہے، جب الف کے بعد پہلا ’’ل‘‘ جدا ہو جائے تو ﴿لَہُ﴾ رہ جاتا ہے اور جب دوسرا ’’ل‘‘ بھی جدا ہو جائے تو﴿ھُوْ﴾ رہ جاتا ہے اور یہ چاروں اسمائے اعظم ﴿ اَللّٰہُ، لِلّٰہُ ، لَہ،﴾ اور ﴿ھُوْ﴾ اسم اللہ ذات ہیں‘‘- ﴿عین الفقر، ص: ۱۷ 

اب اسی اسم اللہ ذات کی تاثیر کے بارے حضور نبی اکرم ﴿﴾ کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں:- ﴿ابن بطال، شرح صحیح بخاری، کتاب الجھاد، باب ۰۸

 

’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں حصہ لیا- جب نبی اکرم ﴿﴾ سفر سے واپس لوٹ رہے تھے کہ بہت کانٹے دار درختوں والی وادی میں قیلولہ ﴿دوپہر آرام﴾ کا وقت ہو گیا- نبی اکرم ﴿﴾ سواری سے نیچے تشریف لے آئے اور صحابہ کرام بھی مختلف درختوں کے سائیوں میں چلے گئے- نبی اکرم ﴿﴾ ببول کے درخت کے نیچے تشریف لائے ، اس پر اپنی تلوار لٹکا دی- ہم تھوڑی ہی دیر سوئے تھے کہ اچانک نبی اکرم ﴿ﷺ﴾ نے ہمیں پکارا- اس وقت آپ کے پاس ایک اعرابی کھڑا تھا- آپ نے فرمایا کہ جب مَیں سو رہا تھا تو اس نے مجھ پر میری ہی تلوار سونت دی- پس مَیں اٹھا تو وہ تلوار اس کے ہاتھ میں تھی- اس نے مجھے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ مَیں نے کہا ﴿اَللّٰہُ﴾- بس اس نے تلوار میان میں ڈال دی اور پھر اس کی طرف متوجہ نہ ہوا اور بیٹھ گیا‘‘-

 

اس روایت میں غور فرمائیں کہ وہ دشمن کا آدمی جو آپ ﴿﴾ پر تلوار سونتے کھڑا ہے لیکن اس کے مقابلے میں آپ صرف اسم اللہ ذات کا کلمہ تین مرتبہ پکارتے ہیں تو اس میں تلوار چلانے کے ہمت نہیں رہتی- امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ یہ کلمہ سن کر اس کے ہاتھ سے تلوار گر جاتی ہے- مطلب یہ کہ رسول اللہ ﴿﴾ کی زبان سے یہ کلمہ سنتے ہی اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے-

 

اچھے الفاظ کی اچھی اور برے الفاظ کی بری تاثیریں ہوتی ہیں- جیسے’’ قبول‘‘ بھی ایک لفظ ہے اور ’’طلاق‘‘ بھی ایک لفظ ہے- ایک لفظ کے بولنے سے آدمی جڑ جاتا ہے ، ایک لفظ کے بولنے سے آدمی کٹ جاتا ہے-

حضور نبی اکرم ﴿﴾ نے فرمایا کہ ابن آدم ایسا لفظ بولتا ہے جو اللہ کی بارگاہ کا ایسا پسندیدہ ہوتا کہ اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ ایسے ناپسندیدہ لفظ کہہ دیتا ہے جو اس کے تمام اعمال برباد کر کے جہنم کے گڑھوں میں دھکیل دیتے ہیں- اسی لیے حضور پاک ﴿﴾ نے زبان کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے- بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے:-

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﴿﴾ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کا لفظ کہے یا خاموش رہے‘‘-

 

ابن مبارک نے ایک شخص کو لا یعنی، فضول الفاظ بولتے دیکھا تو فرمایا:-

’’اپنی زبان کی حفاظت کر کہ بے شک زبان انسان کو جلد ہی سولی چڑھا دیتی ہے- زبان محبتوں کو توڑ دیتی ہے اور یہ مردوں کی عقل کی نشاندہی کرتی ہے‘‘- ﴿شعب الایمان، باب حفظ اللسان﴾ 

یہاں زبان سے مراد زبان سے نکلا ہوا لفظ ہی تو ہے- احتیاط کی حد تو یہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ و السلام کی بارگاہ کے متعلق جو لفظ آدمی کہتا ہے ، جو پڑھتا ہے وہ چاہے درست لفظ ہی کیوں نہ ہو اگر اس کی ادائیگی سے اس کے معانی میں کوئی بے ادبی یا گستاخی کا پہلو نکلتا ہو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا لفظ بولنے سے بھی منع فرما دیا- سورۃ البقرۃ کی آیت ۴۰۱ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:-

’’ ایمان والو ! ’’راعنا‘‘ نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘-

اس حکم کا پسِ منظر یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی کو جب آقا علیہ الصلوۃ و السلام کی کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ آپ کی بارگاہ میں عرض کرتا کہ ﴿رَاعِنَا﴾ کہ حضور ہماری رعایت کرتے ہوئے دوبارہ ارشاد فرمائیں- آپ کی محفل میں یہودی بھی ہوتے جو جان بوجھ کر اس لفظ کو زبان ٹیڑھی کرکے کہتے تھے جس سے رسول اللہ ﴿﴾ کی بے ادبی کا پہلو نکلتا تھا-

 

الفاظ کی یہاں تک تاثیر ہے کہ کچھ الفاظ میں گرمی پائی جاتی ہے کچھ میں نرمی جیسے اگر کوئی شخص آیتِ کریمہ ﴿لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾ کثرت سے پڑھنا شروع کر دے تو وجود میں حدت اور بے چینی پیدا ہو جائے گی اور اسی طرح اگر کوئی شخص درود پاک کا وِرد کرنا شروع کر دے تو وجود میں ٹھنڈک اور سکون پیدا ہوتا ہے- اسی لیے بزرگانِ دین ہر طرح کے وظائف سے پہلے اور اختتام پر درود شریف کا ورد لازمی بتاتے ہیں-

اس کے علاوہ بچوں کے جو نام رکھے جاتے ہیں عموما دیکھا گیا ہے کہ ان ناموں کی تاثیر بھی ان کے وجودوں میں کہیں نہ کہیں ظاہر ہوتی ہے- اسی لیے اکثر عقیدت مند لوگ اپنے بزرگوں یا مشائخ و علمائ کرام سے اپنے بچوں کے نام رکھوانا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ ان کا بہترین نام رکھیں جو ان کی زندگی میں برکت اور کامیابی کا زینہ بنے- خود آقا علیہ الصلوۃ و السلام کا جب نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا تو آپ کے دادا عبد المطلب کی یہی خواہش تھی کہ اس بچے کی ہر جگہ تعریف ہو اور آپ ﴿﴾ نے بھی کئی صحابہ کرام کے نام تبدیل فرمائے-

 

قارئینِ محترم! لفظ کو معمولی نہ سمجھیں ایک ایک لفظ ایک ایک موتی کی مانند ہوتا ہے جو ہماری زندگی کی لڑی میں پرویا جا رہا ہے- کہتے ہیں کہ لفظوں کے لگائے ہوئے زخموں کی معافی تو مل جاتی ہے لیکن ان کا گھائو عمر بھر نہیں بھرتا- یہ مثل یونہی نہیں بنی کہ :

 

’’کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلا ہوا لفظ کبھی واپس نہیں ہوتا‘‘-

 

 

سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

سَو ہزار تِنْہاں توں صدقے جِہڑے مُنہ نہ بولَن پھِکّا ھُو

لفظ کی کیا طاقت ہے اور لفظ کیا کرتا ہے؟ ایک چھوٹے سے واقعہ سے اس موضوع کا آغاز کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اندھا بھیک مانگ رہا تھا- اس کے گلے میں ایک تختی لٹکی تھی جس پر لکھا تھا کہ مَیں اندھا ہوں میری مدد کریں- اس اندھے کی کوئی زیادہ داد رسی نہیں ہو رہی تھی کہ اچانک اس کی جانب کسی ادیب کی توجہ ہوئی اور اس نے اس کی تختی پر یہ جملہ لکھ دیا کہ اے آنکھوں کی بہار والو! مَیں بہار دیکھنے سے محروم ہوں میری مدد کریں- پھر کیا جو بھی ان الفاظ کو پڑھتا اس کا دل موم ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کچھ اس اندھے کی مدد کر دیتا-

لفظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے پچاسویں سورۃ ’’ق‘‘ کی آیات سولہ تا بیس کی صرف پانچ آیات میں انسان کی تخلیق سے لے کر قیامِ قیامت تک کا پورا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اس میں انسان کے زندگی بھر کے اعمال میں سے صرف ایک عمل یعنی انسان کے بولے ہوئے الفاظ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا گیا ہے-

’’بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو ﴿بھی﴾ جانتے ہیں جو اس کا نفس ﴿اس کے دل و دماغ میں﴾ ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رَگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں- جب دو لینے والے ﴿فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو تحریر میں﴾ لے لیتے ہیں ﴿جو﴾ دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں- ﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ﴾ وہ منہ سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان ﴿لکھنے کے لیے﴾ تیار رہتا ہے- اور موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آپہنچی، ﴿اے انسان!﴾ یہی وہ چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا اور ﴿جس وقت﴾صور پھونکا جائے گا یہی ﴿عذاب ہی﴾ وَعید کا دن ہے ‘‘-

 یہ نامہ اعمال ہے جو فرشتے لکھ رہے ہیں اور یہی تحریر کل قیامت کے روز بولے گی- ان کے بولنے کی صورت کیا ہوگی یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جدید دور میں کمپوٹر کی زبان سمجھنے والے جانتے ہیں کہ کمپیوٹر اپنے الفاظ کے ساتھ اپنے یوزر سے کیسے گفتگو کرتا ہے- سورۃ المؤمن :۳۲، کی آیت ۲۶ ہے:-

’’اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت بھر اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے کہ حق بولتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا‘‘-

گویا لفظ کے اندر یہ طاقت بھی ہے کہ وہ بولتا ہے اور اپنی پوری کہانی بیان کرتا ہے- لفظ کی طاقت کا اس سے بڑھ کر کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی پوری کائنات کو اپنے ایک ہی لفظ ﴿کُنْ﴾ سے بنایا-

﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ، کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ ﴿سورۃ البقرۃ:۲، آیت :۷۱۱

’’نیا پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہو جا ﴿تو﴾ وہ فوراً ہو جاتی ہے ‘‘-

﴿اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَا اَرَدْنَاہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہ، کُنْ فَیَکُوْنُ﴾

’’جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ﴿کُنْ﴾ ہو جا تو وہ فوراً ہو جاتی ہے‘‘- ﴿سورۃ النحل :۶۱، آیت: ۰۴

مثنوی معنوی کے دفتر اوّل میں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-

کاف و نون ھمچو کمند آمد جذوب

تا کشاند مر عدم را در خطوب

’’کاف اور نون کے دو حرفوں کو کمان کی طرح کھینچا جاتا ہے تاکہ عدم کی چیزوں کو کام میں لایا جائے ‘‘-

کاف اور نون پھر بھی دو حروف ہیں اہلِ نظر کے ہاں تو ایک نقطہ میں ہی سب کچھ پوشیدہ ہے- اللہ فرماتا ہے کہ خشکی و تری کی ہر چیز قرآن میں موجود ہے اور امام حسین علیہ السلام کی کتاب ’’مرأۃ العارفین‘‘ کے آغاز میں درج ہے:

’’پورے قرآن میں جو تفصیل آئی ہے وہ سورۃ فاتحہ میں درج ہے اور جو کچھ سورۃ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں موجود ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ اس کی بائ میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ بائ میں ہے وہ اس بائ کے نقطہ میں مضمر ہے‘‘-

گویا نقطہ کی تفصیل بائ میں اور بائ کی وضاحت بسم اللہ میں اور بسم اللہ کی توضیح سورۃ فاتحہ میں اور سورۃ فاتح کی تفصیل باقی پورے قرآن میں ہے اور پورا قرآن اسی کائنات اور اس میں موجود انسان کی توضیح و تفسیر کرتا ہے اسی لیے صوفیائ کرام کائنات کو بھی کلمات اللہ کہتے ہیں- شیخ محمود شبستری ’’گلشنِ راز‘‘ میں فرماتے ہیں:-

بہ نزدِ آنکہ جانش در تجلی است

ھمہ عالم کتابِ حق تعالیٰ است

عرض اعراب و جوھر چون حروف است

مراتب ھمچو آیات وقوف است

’’جس کی روح تجلیات میں مستغرق ہے اس کے نزدیک یہ سارا جہان اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے- اس میں عرض اعراب کی مانند، جوہر حروف کی طرح اور مراتب آیات کے بعد وقوف کی طرح ہیں‘‘-

علامہ محمد اقبال صاحب بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو

سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر

گویا جس طرح فطرت بظاہر خاموش دکھائی دیتی ہے لیکن در حقیقت اپنے اندر قوت گویائی رکھتی ہے اسی طرح لفظ بھی ظاہرا خاموش نظر آتے ہیں لیکن اپنے اندر کلام کی، گویائی کی عظیم طاقت رکھتے ہیں- جنہیں لفظ کی گفتگو سمجھ آجاتی ہے تو ان کے سامنے لفظ اپنے ایک ایک حرف کا راز ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے جیسے مولانا رومی لفظِ ’’عشق‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:-

دانی کے حروف عشق را معنی چیست

عین عابد و شین شاکر و قاف است قانع

’’تو جانتا ہے کہ لفظِ عشق کے کیا معنیٰ ہیں؟ عین سے عابد، شین سے شاکر اور قاف سے قانع ﴿ہو تو عشق بنتا ہے﴾‘‘- ﴿رومی، دیوانِ شمس﴾

حضرت سلطان باھو اسم اللہ کی طاقت کا راز کھولتے ہوئے فرماتے ہیں:-

’’ اسم﴿ اَللّٰہُ﴾ جل جلالہ، کے چار حروف ہیں ’’ال ل ہ‘‘ جب اسم ﴿اَللّٰہُ﴾ سے الف جدا ہو جائے تو ﴿لِلّٰہ﴾ رہ جاتا ہے، جب الف کے بعد پہلا ’’ل‘‘ جدا ہو جائے تو ﴿لَہُ﴾ رہ جاتا ہے اور جب دوسرا ’’ل‘‘ بھی جدا ہو جائے تو﴿ھُوْ﴾ رہ جاتا ہے اور یہ چاروں اسمائے اعظم ﴿ اَللّٰہُ، لِلّٰہُ ، لَہ،﴾ اور ﴿ھُوْ﴾ اسم اللہ ذات ہیں‘‘- ﴿عین الفقر، ص: ۱۷

اب اسی اسم اللہ ذات کی تاثیر کے بارے حضور نبی اکرم ﴿


ö﴾ کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں:- ﴿ابن بطال، شرح صحیح بخاری، کتاب الجھاد، باب ۰۸

 

’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں حصہ لیا- جب نبی اکرم ﴿


ö﴾ سفر سے واپس لوٹ رہے تھے کہ بہت کانٹے دار درختوں والی وادی میں قیلولہ ﴿دوپہر آرام﴾ کا وقت ہو گیا- نبی اکرم ﴿
ö﴾ سواری سے نیچے تشریف لے آئے اور صحابہ کرام بھی مختلف درختوں کے سائیوں میں چلے گئے- نبی اکرم ﴿
ö﴾ ببول کے درخت کے نیچے تشریف لائے ، اس پر اپنی تلوار لٹکا دی- ہم تھوڑی ہی دیر سوئے تھے کہ اچانک نبی اکرم ﴿
ö﴾ نے ہمیں پکارا- اس وقت آپ کے پاس ایک اعرابی کھڑا تھا- آپ نے فرمایا کہ جب مَیں سو رہا تھا تو اس نے مجھ پر میری ہی تلوار سونت دی- پس مَیں اٹھا تو وہ تلوار اس کے ہاتھ میں تھی- اس نے مجھے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ مَیں نے کہا ﴿اَللّٰہُ﴾- بس اس نے تلوار میان میں ڈال دی اور پھر اس کی طرف متوجہ نہ ہوا اور بیٹھ گیا‘‘-

 

اس روایت میں غور فرمائیں کہ وہ دشمن کا آدمی جو آپ ﴿


ö﴾ پر تلوار سونتے کھڑا ہے لیکن اس کے مقابلے میں آپ صرف اسم اللہ ذات کا کلمہ تین مرتبہ پکارتے ہیں تو اس میں تلوار چلانے کے ہمت نہیں رہتی- امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ یہ کلمہ سن کر اس کے ہاتھ سے تلوار گر جاتی ہے- مطلب یہ کہ رسول اللہ ﴿
ö﴾ کی زبان سے یہ کلمہ سنتے ہی اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے-

 

اچھے الفاظ کی اچھی اور برے الفاظ کی بری تاثیریں ہوتی ہیں- جیسے’’ قبول‘‘ بھی ایک لفظ ہے اور ’’طلاق‘‘ بھی ایک لفظ ہے- ایک لفظ کے بولنے سے آدمی جڑ جاتا ہے ، ایک لفظ کے بولنے سے آدمی کٹ جاتا ہے-

حضور نبی اکرم ﴿


ö﴾ نے فرمایا کہ ابن آدم ایسا لفظ بولتا ہے جو اللہ کی بارگاہ کا ایسا پسندیدہ ہوتا کہ اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ ایسے ناپسندیدہ لفظ کہہ دیتا ہے جو اس کے تمام اعمال برباد کر کے جہنم کے گڑھوں میں دھکیل دیتے ہیں- اسی لیے حضور پاک ﴿
ö﴾ نے زبان کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے- بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے:-

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﴿


ö﴾ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کا لفظ کہے یا خاموش رہے‘‘-

 

ابن مبارک نے ایک شخص کو لا یعنی، فضول الفاظ بولتے دیکھا تو فرمایا:-

’’اپنی زبان کی حفاظت کر کہ بے شک زبان انسان کو جلد ہی سولی چڑھا دیتی ہے- زبان محبتوں کو توڑ دیتی ہے اور یہ مردوں کی عقل کی نشاندہی کرتی ہے‘‘- ﴿شعب الایمان، باب حفظ اللسان﴾

یہاں زبان سے مراد زبان سے نکلا ہوا لفظ ہی تو ہے- احتیاط کی حد تو یہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ و السلام کی بارگاہ کے متعلق جو لفظ آدمی کہتا ہے ، جو پڑھتا ہے وہ چاہے درست لفظ ہی کیوں نہ ہو اگر اس کی ادائیگی سے اس کے معانی میں کوئی بے ادبی یا گستاخی کا پہلو نکلتا ہو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا لفظ بولنے سے بھی منع فرما دیا- سورۃ البقرۃ کی آیت ۴۰۱ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:-

’’ ایمان والو ! ’’راعنا‘‘ نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘-

اس حکم کا پسِ منظر یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی کو جب آقا علیہ الصلوۃ و السلام کی کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ آپ کی بارگاہ میں عرض کرتا کہ ﴿رَاعِنَا﴾ کہ حضور ہماری رعایت کرتے ہوئے دوبارہ ارشاد فرمائیں- آپ کی محفل میں یہودی بھی ہوتے جو جان بوجھ کر اس لفظ کو زبان ٹیڑھی کرکے کہتے تھے جس سے رسول اللہ ﴿


ö﴾ کی بے ادبی کا پہلو نکلتا تھا-

 

الفاظ کی یہاں تک تاثیر ہے کہ کچھ الفاظ میں گرمی پائی جاتی ہے کچھ میں نرمی جیسے اگر کوئی شخص آیتِ کریمہ ﴿لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾ کثرت سے پڑھنا شروع کر دے تو وجود میں حدت اور بے چینی پیدا ہو جائے گی اور اسی طرح اگر کوئی شخص درود پاک کا وِرد کرنا شروع کر دے تو وجود میں ٹھنڈک اور سکون پیدا ہوتا ہے- اسی لیے بزرگانِ دین ہر طرح کے وظائف سے پہلے اور اختتام پر درود شریف کا ورد لازمی بتاتے ہیں-

اس کے علاوہ بچوں کے جو نام رکھے جاتے ہیں عموما دیکھا گیا ہے کہ ان ناموں کی تاثیر بھی ان کے وجودوں میں کہیں نہ کہیں ظاہر ہوتی ہے- اسی لیے اکثر عقیدت مند لوگ اپنے بزرگوں یا مشائخ و علمائ کرام سے اپنے بچوں کے نام رکھوانا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ ان کا بہترین نام رکھیں جو ان کی زندگی میں برکت اور کامیابی کا زینہ بنے- خود آقا علیہ الصلوۃ و السلام کا جب نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا تو آپ کے دادا عبد المطلب کی یہی خواہش تھی کہ اس بچے کی ہر جگہ تعریف ہو اور آپ ﴿


ö﴾ نے بھی کئی صحابہ کرام کے نام تبدیل فرمائے-

 

قارئینِ محترم! لفظ کو معمولی نہ سمجھیں ایک ایک لفظ ایک ایک موتی کی مانند ہوتا ہے جو ہماری زندگی کی لڑی میں پرویا جا رہا ہے- کہتے ہیں کہ لفظوں کے لگائے ہوئے زخموں کی معافی تو مل جاتی ہے لیکن ان کا گھائو عمر بھر نہیں بھرتا- یہ مثل یونہی نہیں بنی کہ :

’’کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلا ہوا لفظ کبھی واپس نہیں ہوتا‘‘-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر